بعض قرآنی دعائیں
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۰؍ستمبر۲۰۱۰ء)
حضرت امیرالمومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے ایک خطبہ جمعہ میں بعض دعاؤں کی تحریک کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ان دعاؤں میں جو مَیں نے لی ہیں ذاتی اصلاح اور (اللہ تعالیٰ کے) فضلوں کے حصول کی بھی دعائیں ہیں اور زیادہ تر جماعتی ترقی اور کامیابی اور دشمن کے شر سے بچنے کے لئے دعائیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے رَبِّ اَوۡزِعۡنِیۡۤ اَنۡ اَشۡکُرَ نِعۡمَتَکَ الَّتِیۡۤ اَنۡعَمۡتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنۡ اَعۡمَلَ صَالِحًا تَرۡضٰہُ وَاَصۡلِحۡ لِیۡ فِیۡ ذُرِّیَّتِیۡ ۚؕ اِنِّیۡ تُبۡتُ اِلَیۡکَ وَاِنِّیۡ مِنَ الۡمُسۡلِمِیۡنَ (الاحقاف: 16)اے میرے رب! مجھے توفیق عطا کر کہ میں تیری اس نعمت کا شکریہ ادا کر سکوں جو تو نے مجھ پر اور میرے والدین پر کی، اور ایسے نیک اعمال بجا لاؤں جن سے تو راضی ہو اور میرے لئے میری ذریت کی بھی اصلاح کر دے۔ یقینا ًمیں تیری ہی طرف رجوع کرتا ہوں اور بلاشبہ میں فرمانبرداروں میں سے ہوں۔ یہ دعا ایک دوسری سورت، سورۃ نمل میں بھی ہے اور اس میں یہ الفاظ زائد ہیں یا متبادل ہیں کہوَاَدْخِلْنِیْ بِرَحْمَتِکَ فِیْ عِبَادِکَ الصّٰلِحِیْن اور تو مجھے اپنی رحمت سے اپنے نیکو کار بندوں میں داخل کر۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کی تاکید کی ہے۔ یہ اس وجہ سے کہ مشکل سے اس کی ماں نے اپنے پیٹ میں اس کو رکھا اور مشکل ہی سے اس کو جنا اور یہ مشکلات اس دور دراز مدت تک رہتی ہیں کہ اس کا پیٹ میں رہنا اور اس کے دودھ کا چھوٹنا تیس مہینے میں جا کر تمام ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ جب ایک نیک انسان اپنی پوری قوت کو پہنچتا ہے تو دعا کرتا ہے کہ اے میرے پروردگار مجھ کو اس بات کی توفیق دے کہ تو نے جو مجھ پر اور میرے ماں باپ پر احسانات کئے ہیں تیرے ان احسانات کا شکریہ ادا کرتا رہوں اور مجھے اس بات کی بھی توفیق دے کہ میں کوئی ایسا نیک عمل کروں جس سے تُو راضی ہو جائے اور میرے پر یہ بھی احسان کر کہ میری اولادنیک بخت ہو اور میرے لئے خوشی کا موجب ہو اور میں اولاد پر بھروسہ نہیں کرتا بلکہ ہریک حاجت کے وقت تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں ان میں سے ہوں جو تیرے آگے اپنی گردن رکھ دیتے ہیں نہ کسی اور کے آگے‘‘۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد23صفحہ209حاشیہ)
پھر ایک جگہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہ دعا سکھائی کہ:رَبَّنَا ہَبۡ لَنَا مِنۡ اَزۡوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعۡیُنٍ وَّاجۡعَلۡنَا لِلۡمُتَّقِیۡنَ اِمَامًا (الفرقان: 75)کہ اے ہمارے رب! ہمیں اپنے جیون ساتھیوں اور اپنی اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا کر اور ہمیں متقیوں کا امام بنا دے۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس کا ترجمہ اپنے الفاظ میں اس طرح فرمایا ہے کہ ’’مومن وہ ہیں جو یہ دعا کرتے ہیں کہ اے ہمارے خدا! ہمیں اپنی بیویوں کے بارے میں اور فرزندوں کے بارے میں دل کی ٹھنڈک عطا کر اور ایسا کر کہ ہماری بیویاں اور ہمارے فرزندنیک بخت ہوں اور ہم ان کے پیش رَو ہوں‘‘۔ (یعنی نمونہ قائم کرنے والے ہوں)۔ (آریہ دھرم، روحانی خزائن جلد10صفحہ23)
پس یہ چیز ہے جس سے گھر بھی اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو جذب کرنے والے بنتے ہیں اور افراد بھی جماعت کا فعال حصہ بن کر نسلاً بعدنسلٍ جماعتی ترقی میں حصہ دار بنتے چلے جاتے ہیں۔ پھر ہمیں اللہ تعالیٰ نے ایک دعا سکھائی کہ رَبَّنَاۤ اٰتِنَا فِی الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّقِنَا عَذَابَ النَّارِ (البقرۃ: 202)اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی حسنہ عطا کر اور آخرت میں بھی حسنہ عطا کر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’مومن کے تعلقات دنیا کے ساتھ جس قدر وسیع ہوں وہ اس کے مراتبِ عالیہ کا موجب ہوتے ہیں کیونکہ اس کے نصب العین دین ہوتا ہے اور دنیا، اس کا مال و جاہ دین کا خادم ہوتا ہے۔ پس اصل بات یہ ہے کہ دنیا مقصود بالذات نہ ہو بلکہ حصولِ دنیا میں اصل غرض دین ہو اور ایسے طور پر دنیا کو حاصل کیا جاوے کہ دین کی خادم ہو۔ جیسے انسان کسی جگہ سے دوسری جگہ جانے کے واسطے سفر کے لئے سواری یا اور زادِراہ کو ساتھ لیتا ہے تو اس کی اصل غرض منزلِ مقصود پر پہنچنا ہوتا ہے نہ خود سواری اور راستہ کی ضروریات۔ اسی طرح پر انسان دنیا کو حاصل کرے مگر دین کا خادم سمجھ کر۔‘‘ فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے جو یہ تعلیم فرمائی ہے کہ رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّفِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً۔ اس میں بھی دنیا کو مقدم کیا ہے، لیکن کس دنیا کو؟ حَسَنَۃُ الدُّنْیَا کوجو آخرت میں حسنات کی موجب ہو جاوے‘‘۔ ایسی دنیا کو مقدم کیا ہے جو آخرت میں حسنات کا موجب ہو جائے۔ ’’اس دعا کی تعلیم سے صاف سمجھ میں آجاتا ہے کہ مومن کو دنیا کے حصول میں حَسَنَاتُ الْآخِرَۃ کا خیال رکھنا چاہئے۔ اور ساتھ ہی حَسَنَۃُ الدُّنْیَاکے لفظ میں ان تمام بہترین ذرائع حصولِ دنیا کا ذکر آ گیا ہے جو کہ ایک مومن مسلمان کو حصولِ دنیا کے لئے اختیار کرنی چاہئیں۔ دنیا کو ہر ایسے طریق سے حاصل کرو جس کے اختیار کرنے سے بھلائی اور خوبی ہی ہو۔ نہ وہ طریق (جو) کسی دوسرے بنی نوع انسان کی تکلیف رسانی کا موجب ہو نہ ہم جنسوں میں کسی عارو شرم کا باعث ہو‘‘۔ (الحکم جلد 4نمبر 29مورخہ 16؍اگست1900ء۔ صفحہ 4-3) (ملفوظات جلد اول صفحہ 364 ،365۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
پس آخرت کی بھی ہمیشہ ایسی حسنات تلاش کریں۔ دنیا کی حسنات وہ ہوں جو آخرت کی حسنات کا وارث بنائیں جس میں حقوق اللہ بھی ادا ہوتے ہوں اور حقوق العباد بھی ادا ہوتے ہوں۔ پھر اگلی دعا ہمیں یہ سکھائی:
رَبِّ اغۡفِرۡ لِیۡ وَلِاَخِیۡ وَاَدۡخِلۡنَا فِیۡ رَحۡمَتِکَ ۫ۖ وَاَنۡتَ اَرۡحَمُ الرّٰحِمِیۡنَ (الاعراف: 152) اے میرے رب! مجھے بخش دے اور میرے بھائی کو بھی اور ہمیں اپنی رحمت میں داخل کر اور تُو رحمت کرنے والوں میں سب سے بڑھ کر رحم کرنے والا ہے۔
فرمایا:رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا ذُنُوۡبَنَا وَاِسۡرَافَنَا فِیۡۤ اَمۡرِنَا وَثَبِّتۡ اَقۡدَامَنَا وَانۡصُرۡنَا عَلَی الۡقَوۡمِ الۡکٰفِرِیۡنَ (آل عمران:148) اے ہمارے رب! ہمارے گناہ بخش دے اور اپنے معاملے میں ہماری زیادتی بھی، اور ہمارے قدموں کو ثبات بخش اور ہمیں کافر قوم کے خلاف نصرت عطا کر۔
پھر یہ دعا ہمیں سکھائی۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اَنۡتَ وَلِیُّنَا فَاغۡفِرۡ لَنَا وَارۡحَمۡنَا وَاَنۡتَ خَیۡرُ الۡغٰفِرِیۡنَ (الاعراف:156) تُو ہی ہمارا ولی ہے۔ پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر، اور تو بخشنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔
وَاکۡتُبۡ لَنَا فِیۡ ہٰذِہِ الدُّنۡیَا حَسَنَۃً وَّفِی الۡاٰخِرَۃِ اِنَّا ہُدۡنَاۤ اِلَیۡکَ (الاعراف: 157)اور ہمارے لئے اس دنیا میں بھی حسنہ لکھ دے اور آخرت میں بھی، یقیناً ہم تیری طرف(توبہ کرتے ہوئے) آ گئے ہیں۔ رَبِّ اجۡعَلۡنِیۡ مُقِیۡمَ الصَّلٰوۃِ وَمِنۡ ذُرِّیَّتِیۡ ٭ۖ رَبَّنَا وَتَقَبَّلۡ دُعَآءِ (ابراھیم: 41)اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا اور میری نسلوں کو بھی اے ہمارے رب!۔ اور میری دعا قبول کر
رَبَّنَا اغۡفِرۡ لِیۡ وَلِوَالِدَیَّ وَلِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ یَوۡمَ یَقُوۡمُ الۡحِسَابُ (ابراھیم: 42)اے ہمارے رب! مجھے بخش دے اور میرے والدین کو بھی اور مومنوں کو بھی، جس دن حساب برپا ہو گا۔
رَبَّنَا اصۡرِفۡ عَنَّا عَذَابَ جَہَنَّمَ ٭ۖ اِنَّ عَذَابَہَا کَانَ غَرَامًا (الفرقان: 66)اے ہمارے رب! ہم سے جہنم کا عذاب ٹال دے۔ یقینا اس کا عذاب چمٹ جانے والا ہے۔
اِنَّہَا سَآءَتۡ مُسۡتَقَرًّا وَّمُقَامًا (الفرقان: 67)یقیناً وہ عارضی ٹھکانے کے طور پر بھی بہت بُری ہے اور مستقل ٹھکانے کے طور پر بھی۔
پھر یہ دعا ہے رَّبِّ اغۡفِرۡ وَارۡحَمۡ وَاَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ (المومنون: 119)اے میرے رب! بخش دے اور رحم کر اور تو رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔
رَبَّنَاۤ اٰمَنَّا فَاغۡفِرۡ لَنَا وَارۡحَمۡنَا وَاَنۡتَ خَیۡرُ الرّٰحِمِیۡنَ (المومنون: 110) اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے۔ پس ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر۔ اور تُو رحم کرنے والوں میں سب سے بہتر ہے۔
رَبِّ نَجِّنِیۡ وَاَہۡلِیۡ مِمَّا یَعۡمَلُوۡنَ (الشعراء: 170)
اے میرے رب! مجھے اور میرے اہل کو اس سے نجات بخش جو وہ کرتے ہیں۔‘‘
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: شیطان کے حملوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہو