متفرق مضامین

زمین اپنی خبریں بیان کرے گی

(ابو نائل)

جیسا کہ قرآن مجید نے چودہ سو سال قبل اعلان کیا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا جب زمین اپنی خبریں بیان کرے گی۔ ایک طویل عرصہ سے اب سائنسدان یہی اظہار کر رہے ہیں کہ زمین کی ہر چٹان اور ریت کا ہر ذرہ زمین کی کہانی بیان کر رہا ہے

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے :وَاَخۡرَجَتِ الۡاَرۡضُ اَثۡقَالَہَا۔ وَقَالَ الۡاِنۡسَانُ مَا لَہَا۔ یَوۡمَئِذٍ تُحَدِّثُ اَخۡبَارَہَا۔ (الزلزال:۳تا۵)ترجمہ:اور زمین اپنے بوجھ نکال پھینکے گی۔اور انسان کہے گا کہ اسے کیا ہو گیا ہے۔ اس دن وہ اپنی خبریں بیان کرے گی۔

پرانی تفاسیر میں زمین کے خبریں دینے کے واقعہ کو بھی قیامت کے روز رونما ہونے والے واقعات میں سے ایک بیان کیا گیا ہے۔تفسیر قرطبی کے مطابق اس سے یہ مراد ہے کہ قیامت کے روز اللہ تعالیٰ زمین کو حیوان ناطق بنا دے گا یا اس کی جانب سے ایسا بیان ہو گا جو کہ کلام کے قائم مقام ہوگا۔یا زمین قیامت برپا ہونے کی خبر دے گی۔اسی طرح تفسیر دُرِّمنثور میں بھی اس آیت کا اطلاق قیامت پر کیا گیا ہے۔اور شیعہ تفاسیر مثال کے طور پر تفسیر نمونہ میں بھی اس کا اطلاق قیامت کے واقعات پر کیا گیا ہے کہ اس روز زمین کلام کر کے لوگوں کو ان کے اعمال کے متعلق بتائے گی۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی تفسیر

حضرت مسیح موعود علیہ السلام اس آیت کریمہ کی تفسیر کے بارے میں یہ پُر معرفت اصول بیان فرماتے ہیں:’’ہمارے علماء نے جو ظاہری طور پر اس سورۃ الزلزال کی یہ تفسیر کی ہے کہ درحقیقت زمین کو آخری دنوں میں سخت زلزلہ آئے گا اور وہ ایسا زلزلہ ہو گا کہ تمام زمین اس سے زیر و زبر ہوجائے گی اور جو زمین کے اندر چیزیں ہیں وہ سب باہر آجائیں گی اور انسان یعنی کافر لوگ زمین کو پوچھیں گے کہ تجھے کیا ہوا تب اس روز زمین باتیں کرے گی اور اپنا حال بتائے گی۔یہ سراسر غلط تفسیر ہے کہ جو قرآن شریف کے سیاق و سباق سے مخالف ہے۔‘‘ (ازالہ اوہام، روحانی خزائن جلد ۳ صفحہ۱۶۷)

اسی آیت پر آریہ صاحبان کے اعتراضات کا جواب دیتے ہوئے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:’’تحدث میں یہ ضرور نہیں کہ ہماری تمہاری طرح پنجابی یا اردو بولے۔ہر ایک کا بولنا اس کے مناسب حال ہوا کرتا ہے۔پھر الفاظ کی ضرورت بھی نہیں۔ ایک لسان الحال اور ایک لسان الافعال بھی ہوتی ہے۔‘‘(نورالدین طبع ثالث صفحہ۱۱۷)

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ اس آیت کی تفسیر میں تحریر فرماتے ہیں:’’یہ نیا مضمون بھی ہو سکتا ہے اور َاَخۡرَجَتِ الۡاَرۡضُ اَثۡقَالَہَا کی تشریح بھی ہو سکتا ہے۔نئے مضمون کے لحاظ سے میرے نزدیک اس کے یہ معنے ہیں کہ پیدائش زمین کے بارہ میں اس سے پہلے دنیا کو ایک مجمل اور ناقص علم حاصل ہوگا مگر فرماتا ہے کہ اس زمانہ میں علم سائنس جیالوجی کی شکل میں اس قدر ترقی کر جائے گا کہ زمین کی بناوٹ اور شعاعوں اور لہروں وغیرہ کے ذریعہ سے زمین کی پیدائش کے مسئلہ پر بہت کچھ روشنی پڑنے لگے گی گویا أَخْبَارَهَا سے مراد یہ ہے کہ زمین اپنی حقیقت اور کیفیت پیدائش کے بارہ میں بہت کچھ باتیں بتانے لگ جائے گی۔یہ اس لیے فرمایا کہ علم جیالوجی کا بڑا مدار خود مٹی کی ماہیت اور اس کے رنگوں اور اس کی تہوں پر ہے۔ یہ نہیں کہ کسی اور ذریعہ سے وہ ان معلومات کو حاصل کرتے ہیں بلکہ علم جیالوجی کے ماہرین مٹی کا رنگ دیکھ کر بتا دیتے ہیں کہ اس اس قسم کے تغیرات اس زمین پر گذرے ہیں اس کی تہوں سے اندازہ لگا کر بتا دیتے ہیں کہ اس تہ پر یہ شکل ہے اور اس تہ پر یہ شکل ہے جس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلے فلاں تغیر واقع ہوا اور پھر فلاں تغیر پیدا ہوا۔ اسی طرح مٹیوں کے رنگوں اوران کی بوئوں سے اب کانوں وغیرہ کے پتہ لگانے کا علم نکل آیا ہے۔ اس علم کے ماہر انجینئر پہاڑ کی چوٹیوں پر چلے جاتے ہیں اور پتھروں کو اٹھا اٹھا کر دیکھتے یا زمین کو سونگھتے ہیں اور بتاتے جاتے ہیں کہ یہاں فلاں قسم کی کانیں دفن ہیں۔ اسی طرح بجلی کی رو کے ذریعہ سے کانوں کی اقسام اور ان کی گہرائیوں کا پتہ لیا جاتا ہے۔ یہ پتہ لگایا جاتا ہے کہ زمین میں کس قسم کی کان ہے۔ لوہے کی ہے یا پیتل کی ہے اور پھر یہ پتہ لگایا جاتا ہے کہ وہ سو گز نیچے ہے یا دو سو گز نیچے ہے یا چار سو گز نیچے ہے۔ غرض اس ذریعہ سے زمین اپنی خبریں بتا رہی ہے۔ وہ زمین جو پہلے گونگی تھی اب کلام کرنے لگ گئی ہے۔(تفسیر کبیر جلد ۱۴ صفحہ ۳۲، ایڈیشن۲۰۲۳ء)

زمین کیسےخبریں بیان کرتی ہے؟

اس موضوع پر نہایت ہی اختصار سے کچھ سائنسی حقائق درج کرنے سے پہلےیہ واضح کرنا ضروری ہے کہ کوئی جلدبازی میں یہ گمان نہ کرے کہ محض اپنی مذہبی کتاب کی عظمت ظاہر کرنے کی خاطر مبالغہ کیا جا رہا ہے کہ اس دور میں گویا زمین اپنی خبریں بیان کر رہی ہے اور کلام کرنے لگ گئی ہے۔اس سائنس کے چوٹی کے ذہنوں نے بھی اس دور کے مشاہدات اور دریافتوں کے بعد اسی حقیقت کا اظہار کیا ہے۔سمندری حیاتیات کی مشہور سائنسدان ریشل کارسن (Rachel Carson)کا یہ قول مشہور ہے:

“In every outthrust headland, in every curving beach, in every grain of sand there is the story of the earth.”

ترجمہ: ہر باہر نکلتی ہوئی چٹان ، ہر خمدار ساحل اور ہر ریت کے ذرے میں زمین کی کہانی موجود ہے۔

ارضیات (Geology) کی معروف کتاب Essentials of Geology by Stephen Marshak کا جو باب تہ دار چٹانوں (Sedimentary Rocks )کے بارے میں ہے اس کا عنوان ہے۔

Pages of Earth’s Past: Sedimentary Rocks

’’یعنی زمین کے ماضی کے اوراق۔ تہ دار چٹانیں‘‘اور اس باب کے آغاز ہی میں لکھا ہے: Layers of sedimentary rock are like the pages of a book, recording tales of ancient events and ancient environments on the ever-changing face of the Earth

ترجمہ : تہ دار چٹانوں کی تہیں کسی کتاب کے صفحات کی طرح ہوتی ہیں ، ان میں قدیم واقعات محفوظ کیے جاتے ہیں اور زمین کے ہمیشہ بدلتے رہنے والے ماحول کا ریکارڈ تحریر ہوتا ہے۔

جیسا کہ قرآن مجید نے چودہ سو سال قبل اعلان کیا تھا کہ ایک زمانہ آئے گا جب زمین اپنی خبریں بیان کرے گی۔ ایک طویل عرصہ سے اب سائنسدان یہی اظہار کر رہے ہیں کہ زمین کی ہر چٹان اور ریت کا ہر ذرہ زمین کی کہانی بیان کر رہا ہے۔ اور یہ تہ دار چٹانیں زمین کی تاریخ کے اوراق ہیں۔اس کی سینکڑوں مثالیں دی جا سکتی ہیں لیکن اس مضمون میں اس کی صرف چند مثالوں کا ذکر کیا جائے گا۔

تہ دار چٹانوں کی کہانی

تہ دار چٹانیں (Sedimentary Rocks) چٹانوں کی ایک اہم قسم ہے۔ تہ دار چٹانوں کی مختلف تہوں کی ساخت یہ کہانی بیان کرتی ہے کہ یہ کس چیز سے اور کس طرح بنی تھیں۔ مثال کے طور پر سمندر میں بہت سے ایسے جاندار ہوتے ہیں جن کے اوپر سخت شیل (Shell)موجود ہوتے ہیں۔ جس طرح مونگے (Corals) اور شیل فش کی کئی اقسام پر یہ خول یا شیل موجود ہوتا ہے۔

تہ دار چٹانیں

جب یہ مرنے کے بعد سمندر کی تہ میں جمع ہوتے رہتے ہیں تو باقی جسم تو ختم ہوجاتا ہے لیکن یہ خول یا شیل جمع ہو کر آپس میں مل کر کروڑوں سال میں چونے کا پتھر (limestone)بنا تے ہیں۔ جہاں پر چونے کا پتھر پایا جائے گا اس کا مطلب یہ ہوگا وہاں یہ جاندار موجود تھے۔جس کا مطلب یہ ہوگا کہ کبھی یہاں سمندر ہوا کرتا تھا۔مثال کے طور پر مغربی ورجینیا ، امریکہ میں چونے کا پتھر پایا جاتا ہے۔اور تحقیق سے پتا چلتا ہے کہ چار سو ملین سال قبل یہاں پر کم گہرا سمندر ہوتا تھا۔ جس میں اسی طرز پر یہ چونے کا پتھر بنا۔ یہ سمندر تو کبھی کا ختم ہوگیا لیکن یہ چونے کا پتھر اس ماضی کی کہانی کو بیان کرتا ہے۔

کوئلہ اور نمک کی تاریخ

اسی طرح کوئلہ خاص قسم کی نمی اور خاص قسم کے ماحول میں مردہ نباتات کے جمع ہونے اور لاکھوں سال کے عمل کے بعد بنتا ہے۔ جہاں ارضیات کے ماہرین کو کوئلہ ملتا ہے ، اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ یہاں پر اس مخصوص ماحول میں یہ نباتات جمع ہوکر لاکھوں سال موجود رہیں اور پھر اس طویل عمل سے کوئلہ میں تبدیل ہو گئیں۔

کھیوڑہ، نمک کی کان

جہاں زمین میں مدفون نمک کی کان ملے تو اس سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاتا ہے کہ یہاں پہلے جھیل یا کسی اور صورت میں ایسا پانی موجود تھا جس میں نمک کی بہت زیادہ مقدار موجود تھی۔ پھر طویل عرصہ میں پانی ہوا میں اڑ گیا اور نمک کی موٹی تہ پیچھے چھوڑ گیا۔ پھر لاکھوں سالوں کے عمل سے اس نمک پر مٹی جمع ہوتی رہی اور یوں یہ نمک زمین میں دفن ہوگیا۔اور پھر مختلف ممالک میں اسے نکال کر استعمال میں لایا جاتا ہے۔پاکستان کی سالٹ رینج میں کھیوڑہ کے مقام پر نمک کی بہت بڑی کان ہے۔ ماہرین اس کا جائزہ لے کر بتاتے ہیں کہ اس کان کی کہانی کئی ملین سال پہلے شروع ہوئی جب اس مقام پر کم گہرائی کا سمندر تھا۔ سمندر کا پانی بخارات کی صورت میں ہوا میں اڑ گیا۔ اور جو لاکھوں برس میں نمک نیچے تہ میں جمع ہوا تھا اس سمندر کی کہانی بتانے کے لیے باقی رہ گیا۔

پانی نئی چٹانوں کو جنم دیتا ہے

اسی طرح تہ دار چٹانوں میں Clastic Sedimentary Rocks بھی شامل ہیں۔یہ وہ چٹانیں ہیں جو کہ کسی اور مقام پر دوسری چٹانوں کی توڑ پھوڑ سے بننے والے ذرات اور طویل فاصلے تک ان کی منتقلی کے نتیجہ میں وجود میں آتی ہیں۔اس میں Sandstoneقسم کی چٹانیں شامل ہیں۔ جہاں اس قسم کی چٹان موجود ہو ، ماہرین اس کا جائزہ لیتے ہیں تو اس نتیجہ پر پہنچتے ہیں کہ کسی اور چٹان کے ذرات مختلف عوامل کی وجہ سے اس سے علیحدہ ہوتے رہے اور یہ ریت نما ذرات پانی کے ذریعہ اپنے اصل مقام سے منتقل ہوکر اس مقام پر تہ در تہ جمع ہوتے رہے اور اس چٹان کی صورت میں محفوظ ہوتے رہے۔

تہ دار چٹانوں کی ایک تہ کو جیالوجی کی اصطلاح میں Bedکہا جاتا ہے اور جب یہ مختلف تہیں ایک دوسرے کے اوپر جمع ہوں تو اسے اسی سائنس کی اصطلاح میں Strata کہا جاتا ہے۔ اس کا مطالعہ کر کے سائنسدان یہ بتا دیتے ہیں کہ یہ چٹانیں ایک دوسرے کے اوپر کس طرح جمع ہوئیں۔مثال کے طور پر دریا باریک مٹی کو لے کر کسی مقام پر جمع کر کے ایک تہ کی صورت دے دیتا ہے۔پھر کسی وقت زور دار سیلاب آتا ہے تو اس باریک مٹی کے ساتھ کنکر اور پتھر بھی دریا کے بہائو کے ساتھ جمع ہوکر نچلی تہ کے اوپر ایک اور تہ بنا لیتے ہیں۔ اور جب سیلاب ختم ہوتا ہے تو پھر دوسری تہ کے اوپر باریک مٹی کی ایک اور تہ جمع ہو جاتی ہے۔ جب لاکھوں سال کے عمل کے بعد یہ سب کچھ ایک چٹان کی صورت اختیار کر لیتا ہے تو سائنسدان اس کے مطالعہ سے بتا دیتے ہیں کہ اس مرحلہ پر ایک سیلاب آیا تھا جس نے ان کنکروں اور پتھروں کو بھی دریا کے بہائو کے ساتھ یہاں لا پھینکا تھا۔ اور اس کے بعد دریا کا معمول کا بہائو بحال ہو گیا۔

چٹانوں پر لکھی ماحول کی کہانی

اب اس مختصر ذکر کے بعد یہ جائزہ لیتے ہیں کہ ان تہ دار چٹانوں کا مطالعہ اس ماحول کے بارے میں کیا کہانی بیان کرتا ہے کہ کس ماحول میں ان چٹانوں نے جنم لیا تھا۔ جب یہ چٹانیں وجود میں آ رہی تھیں تو ان کے ارد گرد کیا ماحول تھا?آپ نے کسی ریگستان میں یا ریتلے علاقے میں دیکھا ہو گا کہ ہوا ریت کی سطح پر لہروں کے نشان اور چھوٹے چھوٹے ٹیلوں کو جنم دیتی ہے۔ اگر آپ ایسی تصویر دیکھیں تو آپ سمجھ جائیں گے کہ اس ریت کے اوپر ہوائیں چل رہی تھیں۔ اب تصور کریں کہ ایسے ریگستان کی سطح اگر لاکھوں سال کے عمل کے بعد ریتلی چٹان یعنی Sandstoneمیں تبدیل ہوجائے تو اگر اس کے اوپر جمع ہونے والی مٹی کو ہٹا دیا جائے۔ تو اس پر موجود لہروں اور چھوٹے ٹیلوں کا وجود یہ حقیقت بیان کرے گا کہ لکھوکھہا سال قبل اس جگہ ریگستان تھا اور اس پر اس سمت میں اور اس شدت کی ہوائیں چلتی تھیں۔ امریکہ کی ریاست یوٹاہ (Utah)میں واقع نیشنل پارک میں ایسی چٹانوں کی عمودی تراش (Cross Section)موجود ہے جس کے مطالعہ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ کسی دور میں یہ علاقہ ایک صحرا تھا جس پر ہوا چلنے کی وجہ سے ٹیلے بنے ہوئے تھے۔اگر کسی چٹان کی سطح پر دراڑیں پڑی ہوں جو اس کو چھوٹے چھوٹے ٹکڑوں میں تقسیم کر رہی ہوں اور ان ٹکڑوں کے کنارے تھوڑے سے ابھرے ہوں تو اس سے یہ نتیجہ نکالا جائے گا کہ یہاں پر مٹی تھی اور اس پر پانی موجود تھا۔ جب یہ پانی خشک ہوگیا تو مٹی کی سطح خشک ہو گئی اور اس وجہ سے اس پر یہ دراڑیں بھی نمودار ہو گئیں۔

گلیشیر

پہاڑوں میں کسی بھی وادی میں، وادی کے اوپر کے حصہ سے بڑے اور چھوٹے پتھر اور مٹی وادی کے نیچے کے حصہ کی طرف منتقل ہوتے رہتے ہیں۔ اگر یہاں پر گلیشیر تھا جس نے یہ سب کچھ نیچے منتقل کیا ہے تو اس انبار میں بہت بڑے سے لے کر چھوٹے پتھر کے علاوہ مٹی بھی ہو گی اور اس میں کوئی تہیں نہیں بنی ہوں گی کیونکہ برف کا گلیشیر اپنے ساتھ یہ سب کچھ نیچے لے کر آتا ہے۔اور اگر یہ مواد پانی کی تیز ندی نے منتقل کیا ہے تو سیلاب کے دنوں میں تو بڑے پتھر بھی نیچے منتقل ہوں گے لیکن عام دنوں میں بڑے اور پھر چھوٹے پتھر تو وادی کے اوپر کے حصہ میں رہ جائیں گے لیکن مٹی آگے وادی کے نچلے حصہ میں منتقل ہو گی۔اور اگر وادی میں ایسی جگہ ہے جہاں صرف کسی موسم میں پانی کم مقدار میں گذرتا ہے تو صرف مٹی ہی نیچے جمع ہو گی۔فرض کریں کہ یہاں سے پانی اور گلیشیر غائب بھی ہوجائیں تو اس جمع ہونے والے ڈھیر کا جائزہ اس بات کو بیان کر دے گا کہ یہاں پر گلیشیر موجود تھا یا پانی کی تیز ندی گذر رہی تھی یا پانی کم مقدار میں کسی دھار کی صورت میں گذر رہا تھا۔

چاک کیسے جنم لیتا ہے

اگر پہلے کسی مقام پر سمندر موجود تھا اور سمندر وہاں سے ہٹ چکا ہے لیکن اس کے نیچے جو زمین تھی اس کا حصہ مٹی تلے دبا ہوا ملتا ہے تو اس کا سائنسی مطالعہ ہمیں اس کی یہ تاریخ بیان کردیتا ہے کہ یہاں پر زیادہ گہرا سمندر تھا یا کم گہرا سمندر تھا۔کم گہرے سمندر میں زندگی کی جو اقسام پنپ رہی ہوتی ہیں ان میں سے کئی اقسام پر شیل موجود ہوتا ہے۔

سمندر کی تہ

جب یہ اقسام مر کر سمندر کی تہ میں موجود ہوتی ہیں تو آخر کار لاکھوں سال کے عمل سے لائم سٹون یا چونے کے پتھر میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔ اس قسم کی چٹان یہ کہانی بیان کر رہی ہوتی ہے کہ یہاں سمندر تو تھا لیکن کم گہرا تھا۔لیکن جہاں پر زیادہ گہرا سمندر موجود تھا وہاں باریک مٹی جمع ہوتی ہے جو کہ بعد میں mudstoneمیں تبدیل ہو جاتی ہے۔ اور گہرے سمندر میں Planktonکی اقسام کی زندگی موجود ہوتی ہے۔جب زندگی کی یہ قسم مسلسل سمندر کی تہ میں جمع ہوتی رہے تو آخر کار چاک کی صورت دھار لیتی ہے۔مثال کے طور پر انگلینڈ میں Quidhamptonنامی گائوں میں سطح زمین کے قریب ہی چاک کی موجودگی اس بات کی خبر دیتی ہے کہ یہاں پر کبھی گہرا سمندر تھا۔ ۲۰۰۹ء تک یہاں سے چاک نکال کر صنعتی استعمال میں لایا جاتا تھا۔

(Essentials of Geology by Stephan Marshak, fourth edition, 163- 184)

آتش فشاں کی کہانی

اب چٹانوں کی ایک اور قسم کا ذکر کرتے ہیں۔ہم سب جانتے ہیں کہ آتش فشاں پہاڑ کیا ہوتے ہیں۔ زمین کے اندر پگھلی ہوئی حالت میں موجود چٹانوں کو میگما (Magma)کہتے ہیں۔ جب آتش فشاں پہاڑ پھٹے تو یہ میگما آگ کی طرح گرم لاوا کی صورت میں باہر نکل کر بہنا شروع کر دیتا ہے۔لیکن آخر ہوا میں ٹھنڈا ہو کر جم جاتا ہے اور چٹانوں کی ایک صورت Igneous Rockکا روپ دھار لیتا ہے۔ اگر اب کہیں پر آتش فشاں پہاڑ نہیں ہے لیکن اس قسم کی چٹانیں پائی جاتی ہیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کسی زمانہ میں اس مقام پر آتش فشاں پہاڑ پایا جاتا تھا۔

آتش فشاں سے بننے والی چٹانیں

اس قسم کی چٹانوں کا مطالعہ یہ خبر دیتا ہے کہ کیا جب یہ چٹان وجود میں آئی تو یہ لاوا زمین سے باہر آگیا تھا یا زمین کی تہوں کے اندر ہی جم کر چٹان بن گیا تھا۔چٹان کی ان اقسام کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کیا یہ زمین کے نیچے دفن حالت میں آہستہ آہستہ ٹھنڈی ہو کر چٹان بنی تھیں۔ اگر ایسا تھا تو ان کو plutonic rocksکہا جاتا ہے۔یا پھر جب یہ لاوا زمین سے باہر ہوا یا پانی میں نمودار ہوا تو اچانک ٹھنڈا ہو کر چٹان بن گیا تھا۔ اگر ایسا تھا تواس قسم کی چٹانوں کوvolcanic rocksکہتے ہیں۔ جس طرح سکاٹ لینڈ اور آئر لینڈ میں ایسی چٹانیں زمین سے باہر آرہی ہیں جو کسی بند کی صورت میں نظر آتی ہیں۔

جب چٹانیں ساخت بدلتی ہیں

جب ایک چٹان وجود میں آتی ہے تو ضروری نہیں کہ وہ ایک ہی حالت میں رہے اور اس میں کوئی تبدیلی پیدا نہ ہو۔بہت زیادہ درجہ حرارت ، یا دبائو وغیرہ اس کو کسی اور حالت میں تبدیل کر دیتے ہیں۔ان تبدیل شدہ چٹانوں کو Metamorphic Rocks کہا جاتا ہے۔ ان کا مطالعہ یہ خبر بیان کرتا ہے کہ اصلی چٹان کو کس حالت سے گذرنا پڑا تھا۔ اور اس طرح کروڑوں اور اربوں سال کی کہانی بیان ہو رہی ہوتی ہے۔

کئی گھروں کے فرشوںمیں سنگ مرمر لگا ہوگا۔ یہ کیسے بنا ؟ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ پانی میں موجود زندگی کی وہ اقسام جن پر خول یا شیل موجود ہو پانی کی تہ میں کروڑوں سال جمع ہو کر چونے کے پتھر میں تبدیل ہوجاتی ہیں۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں زمین پر موجود مختلف تہیں کروڑوں برس میں آہستہ آہستہ حرکت کرتی رہتی ہیں۔ کبھی ایک دوسرے سے دُور ہوتی ہیں اور کبھی ایک دوسرے سے ٹکراتی ہیں۔ اگر چونے کے پتھریا لائم سٹون کی یہ تہ زمین کی دوسری تہوں کے نیچے دھنسنا شروع ہو جائے تو یہ چٹانیں پہلے کی نسبت انتہائی زیادہ دبائو اور زیادہ درجہ حرارت کا شکار ہوتی ہیں۔ اور یہ عوامل چونے کے پتھر کو دبا کر سنگ مرمر میں تبدیل کردیتے ہیں۔ اور جہاں سنگ مرمر ملے ہم جان لیتے ہیں کہ کس طرح کروڑوں اربوں سال کا سفر کر کے یہ سنگ مرمر وجود میں آیا ہے۔

اور کئی گھروں میں آرائش کے لیے Quartzite کا پتھر لگایاجاتا ہے۔ایک نہایت سخت پتھر۔ لیکن یہ کس طرح بنا تھا؟ زمین میں کئی مقامات پر ریتلا پتھر یعنی Sandstone موجود ہوتا ہے۔ اگر کروڑوں سال قبل اس کے نیچے سے زمین کے اندر سے کھولتا ہوا میگما نکل کر باہر آکر لاوا بن گیا تھا تو اس کی شدید حرارت کی وجہ سے یہ ریتلا پتھر جل کر quartzite میں تبدیل ہو گیا جو کہ اپنی پہلی حالت سے بہت زیادہ سخت اور مضبوط تھا۔ جہاں یہ پتھر پایا جائے گا وہ اپنے ماضی کی یہ کہانی بیان کرے گا۔

دنیا کی سب سے پرانی چٹان

کسی چٹان کا مطالعہ اس کی عمر بھی ظاہر کرتا ہےاس علم کو Geochronologyکہا جاتا ہے۔اس عمر کو مختلف طریقوں سے معلوم کیا جا سکتا ہے۔ اگر تہ دار چٹانوں میں ایک چٹان نیچے ہے تو اپنی سے اوپر چٹان سے پرانی ہوگی۔اگر ایک چٹان دوسری چٹان کو چیر کر گذر رہی ہے تو دوسری والی چٹان کی عمر پہلی والی سے کم ہو گی۔ اس کے علاوہ Radiometric Dating کے ذریعہ سے مثال کے طور پر تابکاری مادہ جیسا کہ یورینیم یا کاربن ۱۴ کو استعمال کر کے چٹان کی عمر معلوم کی جا سکتی ہے۔یا چٹانوں میں قدیم زمانوں کی جاندار اشیاء کے نشانات اور باقیات جنہیں حجریات یا فوسل (Fossil) کہا جاتا ہے مدفون ہوتے ہیں۔ان کی اقسام اور عمر سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ چٹان کس دور میں وجود میں آئی تھی۔

یہ پتھر کبھی بیکٹیریا تھے

مثال کے طور پر آج کل ماہرین ارضیات یہ بحث اٹھا رہے ہیں کہ زمین پر سب سے پرانی چٹان کون سی ہے ؟یونیورسٹی آف اوٹاوا کے سائنسدان یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ کینیڈا میں Nuvvuagittuqکے مقام پر جو چٹانیں ہیں ان کی عمر چار ارب چالیس کروڑ برس کے قریب ہے۔ اگر یہ اندازہ درست ہے تو یہ چٹانیں زمین کی قدیم ترین چٹانیں ہیں۔ بعض ماہرین اس سے اختلاف کرتے ہیں اور ان کے نزدیک ان کی عمر تین ارب اسی کروڑ سال کے قریب ہے۔ ان کا خیال ہے کہ دوسرے مقامات پر موجود چٹانیں کینیڈا کی ان چٹانوں سے زیادہ قدیم ہو سکتی ہیں۔ یہ علاقہ اب توجہ اور تحقیق کا مرکز بنا ہوا ہے۔

(The Oldest Rocks on Earth, by Carl Zimmer. Scientific American March 2014)

زمین زندگی کی کہانی بیان کرتی ہے

ہمارے ارد گرد موجود سیاروں میں زمین کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ اس سیارے پر زندگی پنپ رہی ہے۔ ایک تو زندگی کی وہ اقسام ہیں جو ہمیں اپنے سامنے نظر آ رہی ہیں لیکن اس کے علاوہ بھی زمین پر زندگی کے آغاز اور اس کی نشوونما کی ایک تاریخ ہے۔زمین پر زندگی کا آغاز کیسے ہوا؟ کس طرح مختلف زندگی کی اقسام پیدا ہوئیں اور کس طرح ان میں سے کئی اقسام سطح زمین سے نابود ہو گئیں؟ ان سب کا ریکارڈ حجریات یا فوسل کی صورت میں جگہ جگہ سطح زمین پر یا اس سے نیچے مدفون ہے۔آج سائنس ہمیں یہ بتاتی ہے کہ زمین پر زندگی کا آغاز تقریباََ ساڑھے تین ارب سال قبل ہوا تھا۔ہم جانتے ہیں کہ ابتدا میں زمین پر صرف زندگی کی ایسی اقسام موجود تھیں جنہیں خورد بین کی مدد سے ہی دیکھا جا سکتا تھا۔ لاکھوں سال قبل انسانوں کے یا پھر کروڑوں برس زمین پر پھرنے والے ڈائنو سارز کے فوسل تو ایک طرف رہے ، اب ہم خورد بین کی مدد سے مختلف چٹانوں میں اربوں سال قبل کے مدفون بیکٹیریا کے فوسل بھی دیکھ سکتے ہیں اور یہ مطالعہ کہانی بیان کرتا ہے کہ اربوں سال قبل زمین پر زندگی کی کیا خوردبینی اقسام موجود تھیں۔

مثال کے طور پر دنیا کے کئی مقامات پر ایسے پتھر پائے جاتے ہیں جن میں باریک تہیں ہوتی ہیں۔ان کے بارے میں سائنسدان بتاتے ہیں کہ اصل میں یہ اربوں سال قبل بیکٹیریا تھے جو تہ بہ تہ جمع ہوتے تھے۔ انہیں سائنسی اصطلاح میں Stromatolitesکہا جاتا ہے۔مغربی آسٹریلیا میں ایسے پتھر ملے ہیں جن کا تجزیہ بتاتا ہے کہ وہ اس زندگی کے باقی آثار ہیں جو کہ آج سے ساڑھے تین ارب سال قبل زمین پر پائی جاتی تھی۔اور اب جب بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کے ساتھ گرین لینڈ میں برف پگھلنی شروع ہوئی تو ایسے پتھر سامنے آئے جن کے متعلق بعض سائنسدانوں کا خیال ہے کہ وہ مغربی آسٹریلیا میں پائے جانے والے پتھروں سے بھی بائیس کروڑ سال پرانی خوردبینی زندگی کے آثار ہیں۔

(We May Have Found Earth’s Oldest Fossils by Alexandra Wiltze. Scientific American 31st August 2016)

جب ایسی زندگی کا آغاز ہوا جو ایک سے زیادہ خلیوں پر مشتمل تھی تواس کی یادگاریں بھی پتھروں کے اندر فوسل کی صورت میں محفوظ رہ گئیں جن کو اب سائنسدان دریافت کرکے تحقیق کر رہے ہیں۔ ان میں سے ایسی کائی (Algae)کے آثار وسطی بھارت میں دریافت ہوئے ہیں جو ایک ارب ساٹھ کروڑ سال پرانے ہیں۔

(https://www.scientificamerican.com/article/complex-life-could-be-vastly-older-than-thought/. Accessed on 14.02.2024)

جوں جوں زمین پر زندگی کی اور پھر جانوروں کی نئی اقسام دریافت ہوتی گئیں ان کے فوسل زمین میں محفوظ ہوتے گئے اور اب ان کا مطالعہ زمین کی تاریخ کے اس باب کی کہانی بیان کرتا ہے کہ کب اور کس طرح زمین پر زندگی کی مختلف اقسام نمودار ہوتی گئیں اور کب ان میں سے کئی اقسام ختم ہو کر صرف قدیم ماضی کی یادگار بن گئیں۔ صرف کینیڈا میں Burgess shale کے مقام پر پچاس کروڑ برس قبل کے ڈیڑھ سو سے لے کر دو سو جانوروں کے فوسل دریافت ہوچکے ہیں۔ان میں سے کئی اقسام اب ختم ہو چکی ہیں لیکن زمین میں موجود ان کی باقیات ان کی کہانی بیان کر رہی ہے۔اور اگر پوری دنیا کی بات کی جائے تو اب تک ڈھائی لاکھ کے قریب انواع کے جانداروں کے فوسل دریافت ہو چکے ہیں۔اب بھی کروڑوں برس پہلے ختم ہوجانے والے ڈائنوسار کے فوسل دریافت ہوتے چلے جا رہے ہیں اور ان کا سائنسی مطالعہ ہمیں ان کے بارے میں تفاصیل سے آگاہ کرتا ہے۔

ڈائنوسارز کے ان فوسل کا مطالعہ کر کے سائنسدان ہمیں بتاتے ہیں کہ ڈائنوسارز کا جسم کتنا بڑا ہوتا تھا۔جسم کی ساخت کس طرح کی ہوتی تھی۔ وہ کس طرح چلتے یا اڑتے تھے۔کیا کھاتے تھے۔ان کی دماغ کی ساخت اور ذہن کی پروان کتنی ہوتی تھی۔زمین کی تہوں کا مطالعہ ہمارے سامنے کروڑہا برس پہلے کا ماحول رکھ دیتا ہے۔ اور بہت سے مصوّر ان معلومات کی بناپر ان کی تصویریں بنا کر ہمیں دکھا دیتے ہیں کہ کروڑوں برس پہلے زمین پر یہ ماحول نظر آتا تھا۔

زمین میں کیا خزانے دفن ہیں؟

اسی طرح مختلف آلات سے مٹی کا تجزیہ یہ بیان کر دیتا ہے کہ اس زمین کے نیچے کون سی معدنیات مدفون ہونے کا امکان ہے۔ یہ تو صرف چند مثالیں ہیں ورنہ اب سینکڑوں اعتبار سے زمین اپنے ماضی اور حال کی خبریں بیان کر رہی ہے۔ آج سے چند سو سال پہلے بھی کسی کا ذہن اس بات کا گمان نہیں کر سکتا تھا کہ اس طرز پر زمین اپنی خبریں بیان کرے گی۔ اس دور کی یہ سائنسی ترقیات قرآن مجید کی اس پیشگوئی کی صداقت کی گواہی دے رہی ہیں۔

اس مضمون کے آغاز میں پرانی تفاسیر کے حوالے درج کیے گئے تھے کہ پرانے مفسرین نے اس آیت کے کیا مطالب بیان کئے تھے اور پھر حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کی بیان فرمودہ تفاسیر کے حوالے بھی درج کیے گئے تھے۔اب ہم اس دور کے کچھ مفسرین کے حوالے درج کرتے ہیں تاکہ پڑھنے والے خود موازنہ کر سکیں۔

مودودی صاحب تفہیم القرآن میں اس آیت کے معانی کو روز قیامت تک محدود کر کے تحریر کرتے ہیں:’’انسان اپنی زبان سے جو کچھ بولتا ہے اس کے نقوش ہوا میں، ریڈیائی لہروں میں، گھروں کی دیواروں اور ان کے فرش اور چھت کے ذرے ذرے میں، اور اگر کسی سڑک یا میدان یا کھیت میں آدمی نے کی ہو تو ان سب کے ذرات میں ثبت ہیں۔ اللہ تعالیٰ جس وقت چاہے ان ساری آوازوں کو ٹھیک اسی طرح ان چیزوں سے دہروا سکتا ہے جس طرح کبھی وہ انسان کے منہ سے نکلی تھیں۔ انسان اپنے کانوں سے اس وقت سن لے گا کہ یہ اس کی اپنی ہی آوازیں ہیں، اور اس کے سب جاننے والے پہچان لیں گے کہ جو کچھ وہ سن رہے ہیں وہ اسی شخص کی آواز اور اسی کا لہجہ ہے۔ پھر انسان نے زمین پر جہاں جس حالت میں بھی کوئی کام کیا ہے اس کی ایک ایک حرکت کا عکس اس کے گردوپیش کی تمام چیزوں پر پڑا ہے اور اس کی تصویر ان پر نقش ہوچکی ہے۔ بالکل گھپ اندھیرے میں بھی اس نے کوئی فعل کیا ہو تو خدا کی خدائی میں ایسی شعاعیں موجود ہیں جن کے لیے اندھیرا اور اجالا کوئی معنی نہیں رکھتا، وہ ہر حالت میں اس کی تصویر لے سکتی ہیں، یہ ساری تصویریں قیامت کے روز ایک متحرک فلم کی طرح انسان کے سامنے آجائیں گی اور یہ دکھا دیں گی کہ وہ زندگی بھر کس وقت، کہاں کہاں کیا کچھ کرتا رہا ہے۔‘‘

طاہر القادری صاحب اپنے ترجمہ ’عرفان القرآن ‘ میں اس سورت کے تعارف میں لکھتے ہیں:’’خدا فراموش انسان بڑی بےباکی اور بےحیائی سے زمین کے گوشے گوشے کو اپنے گناہوں سے داغ دار کرتا رہتا ہے۔ وہ خیال کرتا ہے کہ یہ درخت، یہ پتھر، یہ خاک کے ذرے گونگے بہرے ہیں۔ انہیں اس کے کرتوتوں کا احساس تک نہیں۔ لیکن یہ اس کی نادانی ہے۔ جب قیامت کے جھٹکوں سے کرۂ زمین پھٹ جائے گا۔ اس میں چھپی ہوئی سب چیزیں آشکارا ہوجائیں گی۔ اس وقت زمین کے وہ درخت جن کی گھنی چھاؤں میں وہ داد عیش دیتا رہا اور وہ چٹانیں جن کی اوٹ میں وہ گناہوں کی بزمیں آباد کرتا رہا وہ چشم دید گواہوں کی طرح گویا ہوجائیں گے اور اس کے اعمال کا کچا چٹھا کھول کر سامنے رکھ دیں گے۔‘‘

جاوید احمد غامدی صاحب اپنے ترجمہ میں اس آیت کے حاشیہ میں ایک اور امین اصلاحی صاحب کی تفسیر تدبرالقرآن کا حوالہ دے کر لکھتے ہیں:’’ یعنی انسان کے اعضاو جوارح کی طرح زمین بھی اُس روز گویا ہو گی اور اپنی سب کہانی کہہ سنائے گی۔

استاذ امام لکھتے ہیں:’’اِس دنیا میں انسان جو کچھ بھی کرتا ہے، اِسی زمین کے اوپر یا نیچے کرتا ہے۔ اِس وجہ سے یہ انسان کے اعمال و اقوال کی سب سے بڑی گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جس طرح انسان کے اعضا و جوارح اور اُس کے بدن کے روئیں روئیں کو اُس کے خلاف گواہی دینے اور اُس کی زندگی کا ریکارڈ سنانے کے لیے گویا کر دے گا، اُسی طرح زمین کو بھی ناطق بنا دے گا کہ وہ ہر ایک کا ریکارڈ سنا دے۔‘‘

قیامت کے روز کیا ہوگا ؟ یہ اس مضمون کا موضوع نہیں ہے۔ لیکن قرآن مجید میں اس زمانہ کے بارے میں بہت سی پیشگوئیاں بیان کی گئیں ہیں جو اب واضح طور پر پورا ہو کر نشان بن گئی ہیں۔ اگر ان کے معانی کو فقط قیامت کبریٰ کے روز رونما ہونے والے حالات تک محدود کر دیا جائے تو قرآن مجید کے بہت سے نشانات سے انکار کرنا پڑے گا۔ اس بارے میں کسی بحث کو شروع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہر پڑھنے والا خود جائزہ لے کر فیصلہ کر سکتا ہے کہ کس گروہ کی تفسیر اسلام اور قرآن شریف کی عظمت کو زیادہ ظاہر کر رہی ہے۔

مزید پڑھیں: عرشِ باری تعالیٰ کی حقیقت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button