حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

شیطان کے حملوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہو

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۰؍مئی ۲۰۱۶ء)

کوئی انسان بھی جانتے بوجھتے ہوئے کسی برائی کی طرف نہیں جاتا۔ یہ فطرت کے خلاف ہے کہ ایک بات کا پتا ہو کہ اس سے نقصان ہونا ہے تو پھر بھی انسان اس چیز کو کرنے کی کوشش کرے۔ ایک حقیقی مومن کو تو اللہ تعالیٰ نے ویسے بھی کھول کر برائی اور اچھائی کے متعلق بتا دیا ہے۔ پس برائیوں اور اچھائیوں کی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی تعلیم کے مطابق تلاش کر کے ان سے بچنے اور کرنے کی کوشش انسان کو کرنی چاہئے۔ شیطان کو علم ہے کہ جب تک انسان خدا تعالیٰ کی پناہ میں ہے، اس کے حصار میں ہے، اسے نقصان نہیں پہنچا سکتا۔ اس لئے شیطان انسان کو اس پناہ سے نکال کر، اس قلعے سے نکال کر جس میں انسان محفوظ ہے پھر اپنے پیچھے چلاتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی پناہ سے نکالنے کے لئے پہلے شیطان نیکیوں کا لالچ دے کر ہی انسان کو نکالتا ہے یا نیکیوں کا لالچ دے کر ہی ایک مومن کو اللہ تعالیٰ کی پناہ سے نکالا جا سکتا ہے۔ بعض دفعہ نیکی کے نام پر، انسانی ہمدردی کے نام پر، دوسرے کی مدد کے نام پر، مرد اور عورت کی آپس میں واقفیت پیدا ہوتی ہے جو بعض دفعہ پھر برے نتائج کی حامل بن جاتی ہے۔ اس لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ایسی عورتوں کے گھروں میں جانے سے بھی منع فرمایا کرتے تھے جن کے خاوند گھر پر نہ ہوں اور اس کی وجہ یہ بیان فرمائی کہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہا ہے۔(سنن الترمذی کتاب الرضاع باب ما جاء فی کراھیۃ الدخول علی المغیبات حدیث 1172) اسی حکم میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اصولی حکم ارشاد فرما دیا کہ نامحرم کبھی آپس میں آزادانہ جمع نہ ہوں کیونکہ اس سے شیطان کو اپنا کام کرنے کا موقع مل سکتا ہے۔

پس اس معاشرے میں احمدیوں کو خاص طور پر محتاط رہنے کی ضرورت ہے جہاں آزادی کے نام پر لڑکی لڑکے کا آزادانہ ملنا اور علیحدگی میں ملنا کوئی عار نہیں سمجھا جاتا۔

پھر صرف نادان لڑکے لڑکیوں کی وجہ سے برائیاں نہیں پیدا ہو رہی ہوتیں بلکہ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ شادی شدہ لوگوں میں بھی آزادی اور دوستی کے نام پر گھروں میں آناجانا، بلا روک ٹوک آنا جانا مسائل پیدا کرتا ہے اور گھر اجڑتے ہیں۔ اس لئے ہمیں جن پر اللہ تعالیٰ نے یہ احسان فرمایا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق دی ہے، اسلام کے ہر حکم کی حکمت ہمیں سمجھائی ہے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اللہ تعالیٰ کے ہر حکم پر بغیر کسی قسم کے سوال اور تردّد کے عمل کرنا چاہئے۔

برائیوں میں سے آجکل ٹی وی، انٹرنیٹ وغیرہ کی بعض برائیاں بھی ہیں۔ اکثر گھروں کے جائزے لے لیں۔ بڑے سے لے کر چھوٹے تک صبح فجر کی نماز اس لئے وقت پر نہیں پڑھتے کہ رات دیر تک یا تو ٹی وی دیکھتے رہے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہے، اپنے پروگرام دیکھتے رہے، نتیجۃً صبح آنکھ نہیں کھلی۔ بلکہ ایسے لوگوں کی توجہ بھی نہیں ہوتی کہ صبح نماز کے لئے اٹھنا ہے۔ اور یہ دونوں چیزیں اور اس قسم کی فضولیات ایسی ہیں کہ صرف ایک آدھ دفعہ آپ کی نمازیں ضائع نہیں کرتیں بلکہ جن کو عادت پڑ جائے ان کا روزانہ کا یہ معمول ہے کہ رات دیر تک یہ پروگرام دیکھتے رہیں گے یا انٹرنیٹ پر بیٹھے رہیں گے اور صبح نماز کے لئے اٹھنا ان کے لئے مشکل ہو گا بلکہ اٹھیں گے ہی نہیں۔ بلکہ بعض ایسے بھی ہیں جو نماز کو کوئی اہمیت ہی نہیں دیتے۔ نماز جو ایک بنیادی چیز ہے جس کی ادائیگی ہر حالت میں ضروری ہے حتّٰی کہ جنگ اور تکلیف اور بیماری کی حالت میں بھی۔ چاہے انسان بیٹھ کے نماز پڑھے، لیٹ کر پڑھے یا جنگ کی صورت میں یا سفر کی صورت میں قصر کر کے پڑھے لیکن بہرحال پڑھنی ہے۔ اور عام حالات میں تو مردوں کو باجماعت اور عورتوں کو بھی وقت پر پڑھنے کا حکم ہے۔ لیکن شیطان صرف ایک دنیاوی پروگرام کے لالچ میں نماز سے دُور لے جاتا ہے اور اس کے علاوہ انٹرنیٹ بھی ایک ایسی چیز ہے جس میں مختلف قسم کے جو پروگرام ہیں، پھر ایپلی کیشنز (Applications) ہیں، فون وغیرہ کے ذریعہ سے یا آئی پیڈ (iPad) کے ذریعہ سے، ان میں مبتلا کرتا چلا جاتا ہے۔ اس پر پہلے اچھے پروگرام دیکھے جاتے ہیں۔ کس طرح اس کی attraction ہے۔ پہلے اچھے پروگرام دیکھے جاتے ہیں پھر ہر قسم کے گندے اور مخرّب الاخلاق پروگرام اس سے دیکھے جاتے ہیں۔ کئی گھروں میں اس لئے بے چینی ہے کہ بیوی کے حق بھی ادا نہیں ہو رہے اور بچوں کے حق بھی ادا نہیں ہو رہے اس لئے کہ مرد رات کے وقت ٹی وی اور انٹرنیٹ پر بیہودہ پروگرام دیکھنے میں مصروف رہتے ہیں اور پھر ایسے گھروں کے بچے بھی اسی رنگ میں رنگین ہو جاتے ہیں اور وہ بھی وہی کچھ دیکھتے ہیں۔ پس ایک احمدی گھرانے کو ان تمام بیماریوں سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مومنین کو شیطان کے حملوں سے بچانے کی کس قدر فکر ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح اپنے صحابہ کو شیطان سے بچنے کی دعائیں سکھاتے تھے اور کیسی جامع دعائیں سکھاتے تھے، اس کا ایک صحابی نے یوں بیان فرمایا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں یہ دعا سکھلائی کہ اے اللہ! ہمارے دلوں میں محبت پیدا کر دے۔ ہماری اصلاح کر دے اور ہمیں سلامتی کی راہوں پر چلا۔ اور ہمیں اندھیروں سے نجات دے کر نور کی طرف لے جا۔ اور ہمیں ظاہر اور باطن فواحش سے بچا۔ اور ہمارے لئے ہمارے کانوں میں، ہماری آنکھوں میں، ہماری بیویوں میں اور ہماری اولادوں میں برکت رکھ دے اور ہم پر رجوع برحمت ہو۔ یقینا ًتُو ہی توبہ قبول کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ اور ہمیں اپنی نعمتوں کا شکر کرنے والا اور ان کا ذکر خیر کرنے والا اور ان کو قبول کرنے والا بنا اور اے اللہ!ہم پر نعمتیں مکمل فرما۔ (سنن ابو داؤد کتاب الصلاۃ باب التشہد حدیث 969)

پس یہ دعا ہے جو دنیاوی غلط تفریح سے بھی روکنے کے لئے ہے۔ دوسری ہر قسم کی فضولیات سے روکنے کے لئے ہے۔ شیطان کے حملوں سے روکنے کے لئے ہے۔

آج بھی دنیا میں تفریح کے نام پر مختلف بیہودگیاں ہو رہی ہیں۔ جب انسان کانوں، آنکھوں میں برکت کی دعا کرے گا، جب سلامتی حاصل کرنے اور اندھیروں سے روشنی کی طرف جانے کے لئے دعا کرے گا، جب بیویوں کے حق ادا کرنے کی دعا کرے گا، جب اولاد کے قرّۃ العین ہونے کی دعا کرے گا تو پھر بیہودگیوں اور فواحش کی طرف سے توجہ خودبخود ہٹ جائے گی اور یوں ایک مومن پورے گھر کو شیطان سے بچانے کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

پس جس دَور میں سے ہم گزر رہے ہیں اور کسی ایک ملک کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا کا یہ حال ہے۔ میڈیا نے ہمیں ایک دوسرے کے قریب کر دیا ہے اور بدقسمتی سے نیکیوں میں قریب کرنے کی بجائے شیطان کے پیچھے چلنے میں زیادہ قریب کر دیا ہے۔ ایسے حالات میں ایک احمدی کو بہت زیادہ بڑھ کر اپنی حالتوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایم ٹی اے عطا فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ نے ہمیں جماعت کے روحانی، علمی پروگراموں کے لئے ویب سائٹ بھی عطا فرمائی۔ اگر ہم اپنی زیادہ توجہ اس طرف کریں تو پھر ہی ہماری توجہ اس طرف رہے گی جس سے ہم اللہ تعالیٰ کے قریب ہونے والے ہوں گے اور شیطان سے بچنے والے ہوں گے۔

مزید پڑھیں: احسان اور عفو کو اختیار کرو

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button