صنعت وتجارت
ارشاد حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں: ’’ہماری جماعت کے لوگوں کو جب قرض لینا پڑتا ہے تو سود میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ حالانکہ سود سے خدا نے سخت منع کیا ہے۔ مگر جو مشکلات میں ہوتے اور سود پہلے سے لے چکے ہوتے ہیں ان کے لیے مشکل ہوتا ہے۔ بعض جائیداد یں بیچ کر سود سے بچ جاتے ہیں مگر بعض کے پاس اتنی جائیداد نہیں ہوتی کہ قرض ادا کر سکیں۔ بعض ایسے ہوتے ہیں کہ سود نہیں دیتے مگر ان کو کوئی قرض دیتا ہی نہیں۔ ان مشکلات کی وجہ سے میں نے کہا تھا کہ قرضہ کا طریق جاری ہو جو مختلف سوسائٹیوں کے لیے الگ ہو۔ زمینداروں، تاجروں ، ملازموں کے لیے علیحدہ علیحدہ قسم کی سوسائٹیاں ہوں ۔
تاجر یوں کر سکتے ہیں کہ مثلاً سوتا جرمل جائیں ، 10 روپیہ مہینہ ہر ایک دیتا رہے، ایک ہزار ماہوار جمع ہو، یعنی 12 ہزار سالانہ ۔ اس میں سے چھ ہزار سے ایسی کمیٹیوں کے حصہ خرید لیں جس سے وقتی ضروریات یا نقصان کو پورا کر سکیں ۔اور بقیہ رقم کو اس لیے رکھیں کہ جس کو ضرورت ہو اپنے ممبروں میں سے اس کو قرض دیا جائے ۔ آہستہ آہستہ یہ کام بہت وسیع ہو جائے گا۔ اسی طرح زمیندار ہیں وہ حصہ مقرر کر لیں کہ اتنے روپیہ چندہ دینے والے کو اتنا قرض دیا جا سکتا ہے جس قدر روپیہ جمع ہو ،نصف کوقرضہ کے لیے رکھیں اور باقی سے زمین خرید لیں۔ ان کی آمد سے نقصان وغیرہ پورا کیا جائے۔اس طرح قرض اُترنا شروع ہو جائے گا۔ اس قسم کی سوسائٹیاں بن جائیں تو ان سے ان کو قرضہ ملے گا جس کو ضرورت پڑے۔ اگر ایسا نہ ہوگا تو سب آدمی سود سے نہیں بچ سکتے ۔ مگر یہ طریق نہیں چل سکتا جب تک سارے اس کے لیے متفق نہ ہوں اور ان میں یہ کام کرنے کی روح نہ پیدا ہو۔‘‘
(خطابات شوریٰ جلد اول صفحہ ۱۱۱ مجلس مشاورت 22؍مارچ 1924ء)
(مرسلہ: وکالت صنعت و تجارت)