الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
محترمہ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ نصیرہ خانم صاحبہ نے ایک مضمون میں اپنے مشاہدات کے حوالے سے محترمہ صاحبزادی امۃالباسط صاحبہ کی سیرت اختصار سے رقم کی ہے۔
مضمون نگار بیان کرتی ہیں کہ بچپن میں امی کے ساتھ آپ کے گھر ملنے جایا کرتی تھی لیکن آپ سے باقاعدہ تعارف ایک پروگرام کے دوران ہوا۔ مَیں نے آگے بڑھ کر آپ سے پیار لیا ،آپ کے پوچھنے پر اپنا تعارف کروایا۔ پھر بہت خوشی سے ملتیں۔ لجنہ اماءاللہ کے دفترمیںمیٹنگ یا کوئی پروگرام ہوتا اور اس میں شامل ہوتی تھیںتو سب کی خیریت ضرور دریافت کرتیں۔ کئی بار ایسا ہوا جب آپ آتیں تو مَیں آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو کمرے تک لے کر آتی تو آپ خوشی سے فرماتیں کہ یہ بچی میری بہت خدمت کرتی ہے۔
آپ مہمان نواز ایسی تھیںکہ بار بار آپ سے ملنے کو دل کرتا تھا۔ جب ہم گھرپر صبح کے وقت ملاقات کرنے جاتے تواس وقت نوافل ادا کررہی ہوتی تھیں۔ اس کے بعدجب ہمارے پاس تشریف لاتیں تو خادمہ سے پوچھتیں کہ بچیوں کو کچھ کھلایا پلایا ہے کہ نہیں۔ میں کئی بار آپ کو بتائے بغیر ہی ملنے چلی جاتی تھی، کبھی بھی اُکتاہٹ کا اظہار نہیں کیا۔ مل کر بہت خوش ہوتیں اور ڈھیر ساری دعائوں سے نوازتیں۔ اگر مَیں بےوقت اور بغیر اطلاع کے آنے پر معذرت کرتی تو فرمایا کرتی تھیں کہ جب تمہارا جی چاہے آجایا کرو۔
میری بہن نے جب انٹر میڈیٹ پاس کیا تو آپ سے ملنے گئی اور آپ کو بتایا کہ وہ عائشہ دینیات میں پڑھنا چاہتی ہے۔ آپ بہت خوش ہوئیں اور فرمایا کہ بہت اچھی بات ہے۔ لڑکیوں کے لیے دین سیکھنا بہت ضروری ہے۔ ہم بہنوں کو تواباجان (حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ )نے فرمایا تھا کہ پہلے عائشہ دینیات میں داخلہ لیناپھر کالج میں داخلہ لینا۔
ایک بار میرے پوچھنے پر اپنے بچپن کا یہ دلچسپ واقعہ بیان کیا کہ مَیں اور حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ چھوٹے تھے، ہمارے گھر ایک خالہ آیا کرتی تھیں وہ چائے میں چینی بہت پیتی تھیں۔ ایک دن ہم دونوں کو شرارت سوجھی تو ہم نے ان کی چائے میں چھ سات چمچ چینی کے ڈال دیے اور خود آرام سے بیٹھ کر دیکھنے لگے۔ وہ چائے پی رہی تھیں اور ہم غور سے ان کو دیکھ رہے تھے۔ جب انہوں نے کوئی بات نہ کی تو مَیں نے پوچھا کہ خالہ چائے میں چینی کم تو نہیں؟کہنے لگیں :نہیں مَیں چینی کم ہی پیتی ہوں۔یہ واقعہ سن کر ہم بہت ہنسے۔
میرے چہرے پہ دانے بہت نکلتے تھے۔ آپ نے ایک دن فرمایا کہ تمہاری ابھی شادی ہونی ہے اپنا خیال رکھنا چاہیے۔ پھر مجھے ایک نسخہ اپنی ڈائری سے ایک کاغذ پہ لکھ کر دیا اور فرمایا کہ اس کا لیپ بنا کر چہرے پر لگایا کرو ساتھ سادہ برف بھی چہرے پر لگایا کرو۔ بعد میں سَتو اورشکربھجوائی اور ساتھ کہلوا بھیجا کہ یہ ٹھنڈا ہوتا ہے۔ کئی بار آپ ہمیں موسمی پھل اورگھر کی بنی سکوائش بھجوایا کرتی تھیں۔
ایک بار آپ نے اپنی دو خادمائوں کے بارہ میں فرمایاکہ ان دونوں کی شادی ہونے والی ہے ان کے لیے چیزیں تیار کررہی ہوں۔ دونوں بچیوں کے نام پر میں نے پانچ پانچ ہزار کے پرائز بانڈز لیے تھے، دونوں کے تقریباً ۷۵؍ ہزار ہو گئے ہیں، کچھ اَور پیسے ڈال کر سامان لے لوں گی۔ پھر انہی بچیوں کی شادی سے کچھ عرصہ پہلے مجھے فون کیا اور کہا کہ ان دونوں بچیوں کے جہیز کی چیزیں تم نے مجھے خرید کر دینی ہیں۔ جیسے تم لوگوں نے دفتر میں ایک لِسٹ بنائی ہوئی ہے اسی طرح مجھے بھی لے کر بھجوا دومیں رقم بھجوا رہی ہوںاورکیونکہ یہ میرا ذاتی کام ہے ،اس لیے حساب میں کمی بیشی کی صورت میں مجھ سے رابطہ رکھنا۔ ہم نے تمام جہیز کی چیزیں بھجوائیں توآپ بہت خوش ہوئیں اور بار بار شکریہ ادا کرتی رہیں۔
جب آپ کے داماد مرزا غلام قادر صاحب کی شہادت ہوئی ہم آپ کے گھر اظہا رتعزیت کے لیے گئے توآپ سب سے ملیں۔ غم سے نڈھال تھیں لیکن انتہائی صبر و استقامت کا مظاہرہ فرمایا۔ بس یہی فرماتی رہیں کہ اللہ نچھو کو صبر دے۔ جماعت کی فکر کررہی تھیں اور بار بار یہی فر ماتی رہیں کہ اللہ تعالیٰ جماعت کی ہمیشہ حفاظت فرمائے ورنہ د شمنوں کے ارادے تو بہت خطرناک تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے جماعت کو محفوظ رکھا۔
ایک مرتبہ آپ بیمارہوکر ہسپتال میں زیرعلاج تھیں۔ مَیں دفتر سے ہی آپ کی خیریت پوچھنے گئی۔ آپ کی صاحبزادی نصرت صاحبہ تشریف رکھتی تھیں جو مجھے نہیں پہچانتی تھیں۔ مَیں نے دروازے میں ابھی اتنا ہی پو چھا کہ آپا باچھی سے مل سکتی ہوں؟ تو آپ نے کمرے کے اندر سے آواز پہچان کر فوراً فرمایا کہ اندر آجائو۔ اور اپنی بیٹی سے فرمایا کہ ’’یہ نصیرہ ہے،دفتر مقامی میں کام کرتی ہے۔‘‘ پس آپ سے جڑی یادیں تو بہت ساری ہیں۔ بقول عبید اللہ علیم ؎
لکھو تمام عمر مگر پھر بھی تم علیمؔ
اس کو دِکھا نہ پائو گے، ایسا حبیب تھا
………٭………٭………٭………
چند اَن مٹ یا دیں
لجنہ اماءاللہ جرمنی کے رسالہ ’’خدیجہ‘‘برائے۲۰۱۳ء نمبر۱ میں مکرمہ منصورہ ندیم صاحبہ اپنے ایک مختصر مضمون میں چند خواتین مبارکہ کے حوالے سے ذاتی یادیں بیان کرتی ہیں۔ آپ رقمطراز ہیں کہ ایک دن مَیں حضرت سیّدہ امۃالحفیظ بیگم صاحبہؓ کے گھر گئی تو آپؓ ناسازی طبیعت کی وجہ سے لیٹی ہو ئی تھیںلیکن آپؓ نے مجھے بچی سمجھ کر نظرانداز نہیں کیا بلکہ مصافحہ کا شرف بخشا اوربیڈ پر اپنے پاس ہی بٹھا کرمیرا حال احوال پوچھا اور دعاؤں سے نوازا۔
خاکسار دسویں کلاس میں تھی جب ایک دن آٹوگراف book لے کر مَیں خاندانِ مسیح موعودؑ کے گھروں میں چلی گئی۔ جب حضرت سیّدہ چھوٹی آپا جان کے پا س گئی تو آپ نے مجھے بہت پیار سے بٹھاکر پو چھا :کیا تم نے قرآنِ کریم پڑھ لیا ہے؟ پھر ترجمہ ٔقرآن کی اہمیت واضح فرمائی۔
ایک بار خاکسار اپنی بیٹیوں کے ہمراہ حضرت سیّدہ ناصرہ بیگم صاحبہ سے ملنے گئی تو اگرچہ آپ کی طبیعت ٹھیک نہ تھی مگر آپ نے ہمیں کمرے میں بلالیا اور بہت محبت سے ملیں۔ اس دن گرمی بہت تھی۔ آپ نے ہمیںگھر کا بنا الا ئچی کا شربت پلایا۔ آپ نے خوبصورت سوٹ پہنا ہوا تھا اورسر مہ بھی لگایا ہوا تھا۔ بعد میں میری بیٹیاں کہنے لگیں کہ بعض بزرگ خواتین بیماری میں اپنا خیال نہیں رکھتیں لیکن حضرت سیّدہ کی یہ بات بھی ہمارے لیے نمونہ ہے۔
………٭………٭………٭……
محترم چودھری عتیق احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم ستمبر ۲۰۱۴ء میں مکرم نصیر احمد کھرل صاحب کے قلم سے مکرم چودھری عتیق احمد صاحب (قائد مجلس خدام الاحمدیہ ضلع بدین)کا ذکرخیر شامل اشاعت ہے جو ۱۷؍ دسمبر ۲۰۱۳ء کو صرف ۳۸؍سال کی عمر میں اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال کرگئے۔
خاکسار کو مرحوم کے ساتھ تقریباً چار سال کام کرنے اور آپ کو بہت قریب سے دیکھنے کاموقع ملا۔ آپ کے ساتھ کام کرکے بہت مزہ آتا اور اس نوجوان کے جذبہ کو دیکھ کر رشک آتا۔ بالکل واقف زندگی کی طرح خدمت دین کے لیے ہمیشہ چوبیس گھنٹے کمربستہ رہتے۔ بے لوث خدمت کرنے والے تھے۔ ان کے کام میں کبھی کوئی مجبوری حائل نہ ہوتی۔ جس کام کے کرنے کا ارادہ کرلیا کرتے تھے۔ پھر طوفان ہو یا بارش کام کر کے ہی دم لیا کرتے تھے۔
محترم چودھری عتیق احمد صاحب نہایت سادہ زندگی بسر کیا کرتے تھے۔ خوش اخلاق، ملنسار، غرباء کا خیال رکھنے والے اور ان کی ضروریات پوری کیا کرتے تھے۔ دوسروں کی تکلیف کا احساس کرتے اور اُسے دور کیا کرتے تھے۔ بچوں سے شفقت اور بڑوں کے ساتھ نہایت ادب و احترام سے پیش آیا کرتے تھے۔ عہدیداران کا احترام کرتے۔ نڈر اور بہادر انسان تھے اور باوقار شخصیت کے مالک تھے۔ بہت مہمان نواز تھے اور اطاعت میں توصف اول کے مجاہد تھے۔ جو بھی ہدایت خلیفہ وقت اور نظام جماعت کی طرف سے ملتی۔ اس کے اوپر کماحقہٗ عمل پیرا ہوتے۔ واقفین زندگی کا بہت احترام کیا کرتے تھے، ضلع بھر کے مربیان اور معلمین کی ضروریات کا خیال رکھتے اور دوسروں کو بھی اس کی تلقین کیا کرتے تھے۔
کسی قسم کی بھی مشکل پیش آتی تو خود بھی دعا کرتے اور خلیفہ وقت کو بھی دعا کے لیے درخواست کیا کرتے تھے۔
مرحوم کے والد صاحب نے بتایا کہ عتیق احمد صاحب پانی سے بہت گھبرایا کرتے تھے اور گہرے پانی میں نہیں جایا کرتے تھے۔ لیکن جب ۲۰۱۱ء میں ضلع بدین اور قریبی علاقوں میں بارشوں کے سبب سیلاب آیا اور ہر طرف پانی ہی پانی تھا تو خدام الاحمدیہ کی طرف سے حکم ملا کہ عمر کوٹ جائیں اور وہاں جاکر سیلاب میں گھرے ہوئے احمدیوں کو باہر نکالیں۔ ان کے والد صاحب کہتے ہیں کہ بارش ہورہی تھی۔ تو میں نے کہا کہ بارش رک لینے دو پھر چلے جانا۔ لیکن اُن کا جواب تھا کہ صدر صاحب کا حکم ہے اس لیے ابھی اور اسی وقت جانا ہے۔ پھر وہ بارش میں روانہ ہوگئے اور ساتھ دو تین خدام لے لیے اور چند دن تک گہرے پانی کے اندر جا جا کر احمدی احباب کو باہر نکالتے رہے۔
مرحوم نے ایک مسجد بہت شوق سے تعمیر کروائی تھی، دن رات اس کی خود نگرانی کی اور اسی طرح واقفین زندگی کے لیے ایک ’’واقف زندگی ہاؤس‘‘ بھی تعمیر کیا جس میں گھر کا سارا ضروری سامان مہیا کیا۔ کہا کرتے تھے کہ یہ گھر حضورپُرنور کی خدمت میں پیش کروں گا، حضور جس ادارے کو چاہیں یہ عنایت فرمادیں۔ اسی طرح اب ایک گیسٹ ہاؤس کی تعمیر کا کام بھی کروا رہے تھے اور کہتے تھے کہ اُن کی جو پہلی اوطاق (بیٹھک)ہے وہ اب ہمارے بزرگ مرکزی مہمانوں کے شایان شان نہیں ہے۔ جب بھی مرکزی مہمان ہمارے ہاں دورے پر آتے تو مرحوم محبت کے ساتھ اُن کی مہمان نوازی کرتے اور کوشش کرکے خود اپنی گاڑی میں اُن کو سارے ضلع کا دورہ کرواتے تھے۔
مرحوم کی نماز جنازہ میں کثیر تعداد میں احمدیوں کے علاوہ غیر از جماعت احباب بھی شریک ہوئے۔
………٭………٭………٭………
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۲۸؍جون ۲۰۱۴ء میں مکرم ڈاکٹر مہدی علی شہید کی یاد میں مکرم حافظ فضل الرحمٰن بشیر صاحب کی ایک طویل نظم شائع ہوئی ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:
دکھ درد کے ماروں کا مسیحا بن کر
تُو شہر میں اُترا کہ نئے دیپ جلائے
کیا تجھ کو خبر تھی کہ تری جان کا دشمن
قاتل کوئی بیٹھا ہے کہیں تیر چھپائے
دیکھے ہیں زمانے میں بہت ظالم و سنگدل
دیکھا نہیں اب تک کوئی مہمان کا قاتل
تھی محبت بھی غضب کی تو عداوت بھی عجیب
تُو جاں کا مسیحا وہ تری جان کا قاتل
گہرا ہے بہت گھاؤ مگر صبر و دعا سے
پہلے بھی تو جھیلے ہیں سو یہ دکھ بھی سہیں گے
قاتل کا جنوں راکھ کا اِک ڈھیر بنے گا
ہم خاک نشیں اوجِ فلک ہو کے رہیں گے
راضی بہ رضا ہیں کبھی ماتم نہیں کرتے
ہم پھر سے محبت کا عَلم لے کے چلے ہیں
قاتل کو خبر دو کہ جہاں خون گرا تھا
اس خاک لہو رنگ میں کیا پھول کھلے ہیں
مزید پڑھیں: ۸؍مارچ :خواتین کا عالمی دن