متفرق مضامین

عرشِ باری تعالیٰ کی حقیقت

خداتعالیٰ نے تمام اجرام سماوی و ارضی پیدا کر کے پھر اپنے وجود کو وراء الوراء مقام میں مخفی کیا جس کا نام عرش ہے اور یہ ایسانہاں در نہاں مقام ہے کہ اگر خداتعالیٰ کی چار صفات ظہور پذیر نہ ہوتیں جو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیات میں ہی درج ہیں تو اس کے وجود کا کچھ پتہ نہ لگتایعنی ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت، مالک یوم الجزاء ہونا (حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام)

دنیا ئے عالم مسیح زماں کے ظہور سے قبل ظلمت کی اتھاہ گہرائیوں میں گری ہوئی تھی۔ مذہب کے میدان میں کوسوں دُور کوئی پہلوان نظرنہیں آتا تھا اس پر مسلمانوں کی تمسخر انگیز تشریحا ت نے اسلام کوذی عقل طبقے کے سامنے مذاق بنا چھوڑا تھا۔ اسی غلط قسم کی تشریحات میں عرش کی حقیقت کے متعلق مسلمانوں میں قِسمہا قِسم کی کہانیا ں زبان زدِ عام تھیں کہ عرش واقعی کوئی مخلوق ہے جسے فرشتوں نے اپنے کندھوں پر اٹھا یا ہوا ہے یا پھر خدا ایک تختِ زخرف پر براجمان دنیا پر احکام کسی دنیاوی بادشاہ کی طرح صادر کر رہا ہے، مگرسلطان القلم مسیحِ دوراں نے اپنے خداداد علم سے ایسی تشریح فرمائی کہ اس پر پڑنے والے تمام گذشتہ اعتراضات خس و خاشاک کی طرح اڑگئے اور عقل مندوں اور اہل علم طبیعتوں نے اس سے بادِ صبا کی طرح اپنی طبیعت میں تازگی اور عرفان و ایقان کی ترقی محسوس کی۔

عرش کا لفظ لغت میں: عرش کا مادہ لغت میں ’’ع ر ش‘‘ ہے جس کا مطلب کسی چیز کا رکن،ستون،گھرکی چھت یا وہ سہارے جس پر چھت کھڑی ہو، سائبان درج ہے۔ (لغات القرآن صفحہ ۱۱۴۹)

ان معنوں کے علاوہ عرش کنایۃً عزت و حکومت، غلبہ اور قوام امر کے معنوں میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ (تاج العروس جلد۴ صفحہ۳۴۱)(قال الزبيدي العرش من البيت سقفه،ومنه الحديث ( أو كالقناديل المعلقة بالعرش)

یہ معنی بھی چھت کے لفظ سے نکالے گئے ہیں کیونکہ پرانے زمانہ میں لوگ اونچی جگہ یا تختوں پر بیٹھتے تھے۔ سوواضح ہوا کہ عرش کے لغوی معنی چھت کے ہیں۔تخت بھی گویا چھت ہی کی طرح ہے کیونکہ تخت چند پایوں پر چھت ڈالنے سے بنتا ہے۔

اب اگر عرش کا لفظ قرآن کریم میں تلاش کیا جائے تو واضح ہو تا ہے کہ عرش کا لفظ مختلف معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ملاحظہ فرمائیں :وَہِیَ خَاوِیَۃٌ عَلٰی عُرُوۡشِہَا (البقرہ:۲۸۰)اس آیت کریمہ میں عرش چھت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

وَرَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الۡعَرۡشِ(يوسف : ۱۰۰) اس آیتِ کریمہ میں عرش شاہی تخت کے معنوں میں استعمال ہوا ہے۔

اسی طرح عرش کا لفظ چار مرتبہ سورت نمل میں ملکہ سبا کے متعلق بھی استعمال ہوا ہے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام عرش کے کلمہ کے بارہ میں فرماتے ہیں :’’عرش کا کلمہ خدا تعالیٰ کی عظمت کے لیے آتا ہے۔ کیونکہ وہ سب اونچوں سے زیادہ اونچا اور جلال رکھتا ہے یہ نہیں کہ وہ کسی انسان کی طرح کسی تخت کا محتاج ہے۔‘‘(استفتاء روحا نی خزائن جلد ۱۲ صفحہ ۱۱۶ ,۱۱۷)

جب ہم قدیم مذاہب کی تعلیم پر نظر دوڑائیں تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے خدا تعالیٰ کے وجودکو محدود کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔

جس طرح کہ دنیا کے قدیم ترین مذہب آریہ سماج میں ایشور کے مجسم ہونے کے متعلق ویدوں میں مختلف تعلیمات پائی جاتی ہیں اور جب آریہ احباب گفتگو میں لاجواب ہو جاتے ہیں تو وہ قرآن کریم کے بعض الفا ظ کاغلط مفہوم پیش کر کے یہ کہتے ہیں کہ اسلام نے بھی خدا تعالیٰ کو مجسم قرار دیا ہے۔ان کا یہ کہنا ہے کہ قرآن مجید میں چونکہ خدا تعالیٰ کے متعلق وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ آیا ہے اس لیے ثابت ہوا کہ خداتعالیٰ کرسی پر بیٹھا ہے۔ اور اس کی کرسی کی وسعت آسمانوں اور زمین کے برابر ہے اور جب خدا کی کرسی ہے تو معلوم ہوا کہ وہ مجسم ہے۔

لیکن کرسی کے لفظ سے یہ نتیجہ نکالنا سراسر بے عقلی ہے کُرۡسِیُّہُ کے معنے لکڑی یا لوہے کی کرسی کے نہیں ہیں بلکہ اس سے مراد خدا تعالیٰ کا علم ہے۔ چنانچہ حدیث کی سب سے اہم کتاب بخاری میں کُرۡسِیُّہُ کے معنے عِلمہ لکھے ہیں۔

اس لحاظ سے اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عالم الغیب ہستی ہے۔ اور زمین و آسمان کا کوئی راز اس کی نظر سے پوشیدہ نہیں۔پس یہ اللہ تعالیٰ کی ایک مسلمہ صفت ہے اور اسی صفت کا اظہار وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ میں کیا گیا ہے۔

پھر کچھ لوگ پوچھتے ہیں کہ کَانَ عَرۡشُہٗ عَلَی الۡمَآءِ (هود:۸) سے کیا مراد ہے؟اس کے متعلق حضرت خليفة المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے فرمایاکہ پانی سے مراد دو چیزیں ہیں ایک ہے الہام اور دوسرا ہے پانی برسنا زندگی کیلئے ضروری ہے۔جیسا کہ فرمایا وَجَعَلۡنَا مِنَ الۡمَآءِ کُلَّ شَیۡءٍ حَیٍّ (الانبیاء:۳۱)ہم نے پانی ہی سے ہر زندہ چیز کو پیدا کیا ہے توجب اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’عرش‘‘ تو عرش سے مراد ہے بنآء۔ وہ کونسی چیز ہے جو سب سے بڑی اہمیت رکھتی ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کا عرش پانی پر تھا مراد ہے کہ دو ہی طریق ہیں مخلوق کو زندگی بخشنے کے ایک مادی پانی جو ساری کائنات میں زندگی بخشنے کے لئے ضروری ہے اور ایک روحانی پانی جو ترقی یافتہ صورت میں انسان کی روحانی زندگی کے لئے ضروری ہے اور خدا کا عرش وہاں بھی پانی پر ہوا یعنی مادی دنیا میں اور روحانی دنیا میں بھی پانی پر ہوا۔(ماخوذ از مجلس عرفان ۲۴؍مئی ۱۹۹۷ء)

قرآن کریم میں الله تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ فِیۡ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ (الاعراف:۵۵)یقیناً تمہارا رب وہ اللہ ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو چھ دنوں میں پیدا کیا پھر اس نے عرش پر قرار پکڑا۔

اس آیت سے غیر مقلدین کا موقف یہ ہے کہ ’’اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ‘‘ اپنے حقیقی معنوں پر محمول ہے، یعنی اللہ تعالیٰ پھر بیٹھا تخت پر اور عرش الله تعالیٰ کا مکان ہے اور اللہ تعالٰی جہت بلندی سے متصف ہے۔ (وھوفی جہة الفوق،ومكان العرش (نزل الأبرار،کتاب الایمان،صفحہ ۳، لاہور)

نہ صرف غیر مقلدین بلکہ دوسرے فرقوں سے تعلق رکھنے والے اکثر مسلمان بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں۔ اگر ان کے اس باطل عقیدہ کو مان لیا جائے کہ خدا تعالیٰ کا وجود کسی تخت پر بیٹھا ہوا ہے تو پھر خدا تعالیٰ کے لیے ’’جسم ‘‘ تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں رہتا۔سو یاد رکھنا چاہیے کہ یہ عقیدہ خدا تعالیٰ کی شان کے خلاف ہے کہ اپنے لیے دنیاوی بادشاہوں جیسا کوئی تخت مقرر کرے اور اس پر براجمان ہو جائے۔ اس سے خداتعالیٰ کا محدود ہونا لازم آتا ہے جو اس کی اعلیٰ شان کے سراسر خلاف ہے۔

خدا تعالیٰ پاک ہے اس بات سے کہ اسے محدود سمجھا جائے بلکہ وہ ایک غیر محدود ہستی ہے۔در اصل اگر غور کیا جائے تو یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مسلمان مفسرین نے قرآن کے دقیق موضوعات پر تدبر نہیں کیا بلکہ اپنے دور کے چالاک یہودی علما ء کی تعلیم سے متاثر ہو کر اور بغیر تحقیق کے ان بے بنیاد عقائد کو اپنی کتابوں میں جگہ دے دی۔یہود نے خدا تعالیٰ کو محدود کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ یہودنے خدا تعالیٰ کو اتنا محدود کر دیا کہ گویا انہوں نے اپنی تعلیمات میں خدا کو تھکا کر ایک تخت پر بٹھا دیا۔(پیدائش باب ۲/۲-۳)

پھر قرآن کریم کی اس آیت ثُمَّ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ پر اعتراض کرنا کہ خدا محدود ثابت ہو گیا۔ کیونکہ جب وہ عرش پر ہے تو غیر محدود اور غیر مجسم نہ رہا۔ لیکن کوئی یہ ثابت نہیں کرسکتا کہ اسلام نے خدا کا عرش مخلوق اور محدود قرار دیا ہے اور جب عرش مخلوق ہی نہیں تو اس پرمجسم ہو کر بیٹھنے یا کھڑے ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔قرآن کریم کی تو یہ تعلیم ہے کہ کوئی جگہ ایسی نہیں کہ جہاں خدا نہ ہو اسی لیے قرآن کریم نے فرمایا وَہُوَ مَعَکُمۡ اَیۡنَ مَا کُنۡتُمۡ یعنی جہاں کہیں تم ہو اس جگہ خدا تمہارے ساتھ ہے۔اسی طرح قرآن کریم میں فرمایا فَاَیۡنَمَا تُوَلُّوۡا فَثَمَّ وَجۡہُ اللّٰہِ یعنی جس طرف بھی منہ کرو اس طرف اللہ تعالیٰ کا جلوه دیکھو گے۔

پھر فرمایا وَنَحۡنُ اَقۡرَبُ اِلَیۡہِ مِنۡ حَبۡلِ الۡوَرِیۡدِ یعنی ہم انسان کی رگ حیات سے بھی زیادہ قریب ہیں۔فرماتا ہے میں شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہوں اور باوجود شہ رگ سے زیادہ قریب ہونے کے انسان کی نظر اس تک نہیں پہنچ سکتی بلکہ وہ خود اپنے مقربین کو اپنا جلوہ دکھاتا ہے۔

وہ خدا جو ہر انسان کے اتنا قریب ہوکیا اس کے متعلق یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ کسی تخت پر بیٹھا ہے؟ پھر خدا تعالیٰ ایک دوسری جگہ فرماتا ہے وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیۡ عَنِّیۡ فَاِنِّیۡ قَرِیۡبٌ ؕ اُجِیۡبُ دَعۡوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ۙ فَلۡیَسۡتَجِیۡبُوۡا لِیۡ وَلۡیُؤۡمِنُوۡا بِیۡ لَعَلَّہُمۡ یَرۡشُدُوۡنَ (البقرہ:۱۸۷)جب کوئی میرا بندہ مجھے پکارتا ہے۔ تو میں اسے کہتا ہوں میں بالکل تیرے پاس ہوں۔ گھبرا نہیں بلکہ مجھ پر یقین اور توکل رکھ میں تیری مدد کروں گا۔

اگر اللہ تعالیٰ محدود ہے اور صرف عرش پر ہے تو یہود سے پوچھنا چاہیے کہ حضرت موسی علیہ السلام کوہِ طور پر جا کر کس سے ہم کلام ہوتے تھے ؟

پھر ان سے یہ بھی پوچھنا چاہیے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دریائے نیل پر اپنےپیچھے فرعون کا لشکر دیکھا تو یہ کیوں فرمایا کہ اللہ میرے ساتھ ہے ؟

پس ان آیات اور واقعات سے واضح ہوتا ہے کہ خدا محدود نہیں بلکہ وہ ایک غیر محدود ہستی ہے۔پھر اس بات کے ابطال کے لیے کہ خداتعالیٰ ایک تخت پر بیٹھا ہے یہی دلیل کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے اللّٰہُ الصَّمَد یعنی اللہ ہر چیز سے بے نیاز ہے۔ وہ کسی دوسری شے کا ہرگز محتاج نہیں اِنَّ اللّٰہَ یُمۡسِکُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ اَنۡ تَزُوۡلَا ۬ۚ وَلَئِنۡ زَالَتَاۤ اِنۡ اَمۡسَکَہُمَا مِنۡ اَحَدٍ مِّنۡۢ بَعۡدِہٖ ؕ اِنَّہٗ کَانَ حَلِیۡمًا غَفُوۡرًا (فاطر:۴۶)کہ زمین و آسمان کو سنبھالنے والا صرف الله تعالیٰ ہی ہے۔ پس اگر فرض بھی کرلیا جائے کہ عرش کوئی مجسم چیز ہے۔ تب بھی عرش کو خداہی سنبھالتا ہے نہ کہ عرش خدا کو سنبھالے ہوئے ہے۔سو عرش کو مادی وجودماننا سخت غلطی ہے۔اوراسلام کی تعلیم اس کے سراسرخلاف ہے۔ اسلام ہرگز مادی عرش کا قائل نہیں۔

باقی رہا یہ کہ عرش سے مراد کیا ہے؟ سو اس کے لیے یاد رکھنا چاہیے۔ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ سے مراد کمالِ قدرت في تدبير الملك ہے۔ کیو نکہ تخت سے عام لوگ واقف ہوتے ہیں اس لیے استعارۃً اور تمثیلاً یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ بس عرش سے مراد تخت نہیں بلکہ حکومت ہے اور یہی معنے اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ سے ظاہر ہوتا ہے۔

عرش کی جو حقیقت اس زمانے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دنیا پر منکشف فرمائی ہے۔ وہ اپنی نظیر آپ ہے۔حضرت مسیح موعودؑ اسۡتَوٰی عَلَی الۡعَرۡشِ کے متعلق فرماتے ہیں:’’تمہارا خداوہ خدا ہے جس نے چھ۶دن میں آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور پھر عرش پر قرار پکڑ ایعنی اول اس نے اس دنیا کے تمام اجرام سماوی اور ارضی کو پیدا کیا اور چھ۶ دن میں سب کو بنایا ( چھ دن سے مراد ایک بڑا زمانہ ہے) اور پھر عرش پر قرار پکڑا یعنی تنزہ کے مقام کو اختیار کیا۔ یاد رہے کہ استوا کے لفظ کا جب علٰی صلہ آتا ہے تو اس کے یہ معنی ہوتے ہیں کہ ایک چیز کا اس مکان پر قرار پکڑ نا جو اس کے مناسب حال ہو جیسا کہ قرآن شریف میں یہ بھی آیت ہے۔ وَاسۡتَوَتۡ عَلَی الۡجُوۡدِیِّ (ہود:۴۵) یعنی نوح کی کشتی نے طوفان کے بعد ایسی جگہ پر قرار پکڑا جو اس کے مناسب حال تھا یعنی اس جگہ زمین پر اترنے کے لئے بہت آسانی تھی سو اسی لحاظ سے خدا تعالیٰ کے لئے استوا کا لفظ اختیار کیا یعنی خدا نے ایسی وراء الوراء جگہ پر قرار پکڑا جو اس کی تنزہ اور تقدس کے مناسب حال تھی چونکہ تنزہ اور تقدس کا مقام ماسوی اللہ کے فنا کو چاہتا ہے سو یہ اس بات کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جیسے خدا بعض اوقات اپنی خالقیت کے اسم کے تقاضاسے مخلوقات کو پیدا کر تا ہے پھر دوسری مرتبہ اپنی تنزہ اور وحدت ذاتی کے تقاضا سے ان سب کا نقش ہستی مٹادیتا ہے۔ غرض عرش پر قرار پکڑ نا مقام تنزہ کی طرف اشارہ ہے تا ایسا نہ ہو کہ خدا اور مخلوق کو باہم مخلوط سمجھا جائے۔ پس کہاں سے معلوم ہوا کہ خدا عرش پر یعنی اس وراء الوراء مقام پر مقید کی طرح ہے اور محدود ہے۔ قرآن شریف میں تو جابجا بیان فرمایا گیا ہے کہ خداہر جگہ حاضر و ناظر ہے۔‘‘( چشمه معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۱۱۹)

اسی طرح حضورؑ فرماتے ہیں: ’’سو در حقیقت استویٰ علی العرش کے یہی معنے ہیں کہ خدا تعالیٰ کی یہ صفات جب دنیا کو پیدا کرکے ظہور میں آگئیں تو خداتعالیٰ ان معنوں سے اپنے عرش پر پوری وضع استقامت سے بیٹھ گیا کہ کوئی صفت صفات لازمہ الوہیت سے باہر نہیں رہی اور تمام صفات کی پورے طور پر تجلی ہو گئی جیسا کہ جب اپنے تخت پر بادشاہ بیٹھتا ہے تو تخت نشینی کے وقت اس کی ساری شوکت ظاہر ہوتی ہے۔ ایک طرف شاہی ضرورتوں کے لئے طرح طرح کے سامان طیار ہونے کا حکم ہو تا ہے اور وہ فی الفور ہو جاتے ہیں اور وہی حقیقت ربوبیت عامہ ہیں۔ دوسری طرف خسروانہ فیض سے بغیر کسی عمل کے حاضرین کو جو دو سخاوت سے مالا مال کیا جا تا ہے۔ تیسری طرف جولوگ خدمت کر رہے ہیں ان کو مناسب چیزوں سے اپنی خدمات کے انجام کے لئے مدد دی جاتی ہے۔ چوتھی طرف جزا سزا کا دروازہ کھولا جا تا ہے کسی کی گردن ماری جاتی ہے اور کوئی آزاد کیا جاتا ہے۔ یہ چار صفتیں تخت نشینی کے ہمیشہ لازم حال ہوتی ہیں۔ پس خدا تعالیٰ کا ان ہر چہار صفتوں کو دنیا پر نافذ کر نا گو یا تخت پر بیٹھنا ہے جس کا نام عرش ہے۔ اب رہی یہ بات کہ اس کے کیا معنے ہیں کہ اس تخت کو چار فرشتے اٹھارہے ہیں۔ پس اس کا یہی جواب ہے کہ ان چار صفتوں پر چار فرشتے موکل ہیں جود نیا پر یہ صفات خداتعالیٰ کی ظاہر کرتے ہیں اور ان کے ماتحت چار ستارے ہیں جو چار رب النوع کہلاتے ہیں جن کو وید میں دیوتا کے نام سے پکارا گیا ہے۔ پس وہ ان چاروں صفتوں کی حقیقت کو دنیامیں پھیلاتے ہیں گویا اس روحانی تخت کو اٹھار ہے ہیں۔ بت پرستوں کا جیسا کہ وید سے ظاہر ہے صاف طور پر یہ خیال تھا کہ یہ چار صفتیں مستقل طور پر دیوتاؤں کو حاصل ہیں۔ اسی وجہ سے وید میں جابجا ان کی استت اور مہما کی گئی اور ان سے مرادیں مانگی گئیں۔ پس خدا تعالیٰ نے استعارہ کے طور پر سمجھایا کہ یہ چار دیوتا جن کو بت پرست اپنا معبود قرار دیتے ہیں یہ مخدوم نہیں ہیں بلکہ یہ چاروں خادم ہیں اور خدا تعالیٰ کے عرش کو اٹھار ہے ہیں یعنی خادموں کی طرح ان الٰہی صفات کو اپنے آئینوں میں ظاہر کررہے ہیں اور عرش سے مرادلوازم صفات تخت نشینی ہیں جیسا کہ ابھی میں نے بیان کر دیا ہے۔(نسیم دعوت،روحانی خزائن جلد ۱۹ صفحہ ۴۵۶ تا ۴۵۸ حاشیہ)

’’اِس جگہ ایک اور اعتراض مخالف لوگ پیش کرتے ہیں اور وہ یہ کہ قرآن شریف کے بعض مقامات سے معلوم ہوتا ہے کہ قیامت کے دن عرش کو آٹھ فرشتے اٹھائیں گے جس سے اشارۃ النَّص کے طور پر معلوم ہو تا ہے کہ دنیامیں چار فرشتے عرش کو اٹھاتے ہیں اور اب اس جگہ اعتراض یہ ہوتا ہے کہ خداتعالیٰ تو اس بات سے پاک اور برتر ہے کہ کوئی اس کے عرش کو اٹھاوے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ ابھی تم سن چکے ہو کہ عرش کوئی جسمانی چیز نہیں ہے جو اٹھائی جائے یا اٹھانے کے لائق ہو بلکہ صرف تنزہ اور تقدّس کے مقام کا نام عرش ہے اسی لئے اِس کو غیر مخلوق کہتے ہیں۔ ورنہ ایک مجسم چیز خدا کی خالقیت سے کیوں کر باہر رہ سکتی ہے اور عرش کی نسبت جو کچھ بیان کیا گیا ہے وہ سب استعارات ہیں۔ پس اسی سے ایک عقلمند سمجھ سکتا ہے کہ ایسا اعتراض محض حماقت ہے۔ اب ہم فرشتوں کے اٹھانے کا اصل نکتہ ناظرین کو سناتے ہیں اور وہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ اپنے تنزّہ کے مقام میں یعنی اس مقام میں جب کہ اس کی صفت تنزہ اس کی تمام صفات کو روپوش کر کے اس کو وراء الوراء اور نہاں در نہاں کر دیتی ہے۔ جس مقام کا نام قرآن شریف کی اصطلاح میں عرش ہے تب خدا عقول انسانیہ سے بالا تر ہو جاتا ہے اور عقل کو طاقت نہیں رہتی کہ اس کو دریافت کر سکے تب اس کی چار صفتیں جن کو چار فرشتوں کے نام سے موسوم کیا گیا ہے جو دنیا میں ظاہر ہو چکی ہیں اس کے پوشید ہ وجود کو ظاہر کرتی ہیں۔ (۱) اوّل ربوبیت جس کے ذریعہ سے وہ انسان کی روحانی اور جسمانی تکمیل کر تا ہے چنانچہ روح اور جسم کا ظہور ربوبیت کے تقاضاسےہے اور اسی طرح خدا کا کلام نازل ہونا اور اس کے خارق عادت نشان ظہور میں آنا ر بوبیت کے تقاضاسے ہے (۲) دوم خدا کی رحمانیت جو ظہور میں آچکی ہے یعنی جو کچھ اس نے بغیر پاداش اعمال بیشمار نعمتیں انسان کے لئے میسر کی ہیں یہ صفت بھی اس کے پوشید ہ وجود کو ظاہر کرتی ہے (۳) تیسری خدا کی رحیمیت ہے اور وہ یہ کہ نیک عمل کرنے والوں کو اوّل توصفت رحمانیت کے تقاضا سے نیک اعمال کی طاقتیں بخشتا ہے اور پھر صفت رحیمیت کے تقاضا سے نیک اعمال ان سے ظہور میں لا تا ہے اور اس طرح پر ان کو آفات سے بچاتا ہے۔ یہ صفت بھی اس کے پوشید ہ وجود کو ظاہر کرتی ہے۔ (۴)چوتھی صفت مٰلِکِ یوم الدّین ہے یہ بھی اس کے پوشید ہ وجود کو ظاہر کرتی ہے کہ وہ نیکوں کو جزا اور بدوں کو سزاد یتا ہے۔ یہ چاروں صفتیں ہیں جو اس کے عرش کو اٹھائے ہوئے ہیں یعنی اس کے پوشیدہ وجود کا ان صفات کے ذریعہ سے اس دنیا میں پتہ لگتا ہے اور یہ معرفت عالم آخرت میں دو چند ہو جائے گی گویا بجائے چار کے آٹھ فرشتے ہو جائیں گے۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳،صفحہ ۲۷۸ تا ۲۷۹)

اسی ضمن میں حضور علیہ السلام نے فرمایا: ’’خداتعالیٰ نے تمام اجرام سماوی و ارضی پیدا کر کے پھر اپنے وجود کو وراء الوراء مقام میں مخفی کیا جس کا نام عرش ہے اور یہ ایسانہاں در نہاں مقام ہے کہ اگر خداتعالیٰ کی چار صفات ظہور پذیر نہ ہوتیں جو سورۃ فاتحہ کی پہلی آیات میں ہی درج ہیں تو اس کے وجود کا کچھ پتہ نہ لگتایعنی ربوبیت، رحمانیت، رحیمیت، مالک یوم الجزاء ہونا۔ سو یہ چاروں صفات استعارہ کے رنگ میں چار فرشتے خدا کی کلام میں قرار دیئے گئے ہیں جو اس کے عرش کو اٹھار ہے ہیں یعنی اس وراء الوراء مقام میں جو خدا ہے اس مخفی مقام سے اس کو دکھلارہے ہیں ورنہ خدا کی شناخت کے لئے کوئی ذریعہ نہ تھا۔‘‘ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحه ۲۷۹ حاشیه )

عرش کی نسبت مخلوق اور غیر مخلوق کی بحث بھی ایک بدعت ہے۔ جو کہ پیچھے ایجاد کی گئی۔ صحابہؓ نے اس کو مطلق نہیں چھیڑا۔ تو اب یہ لوگ چھیٹر کر نافہم لوگوں کو اپنے گلے ڈالتے ہیں۔ لیکن عرش کے اصل معنے اس وقت سمجھ آسکتے ہیں جبکہ خدا تعالیٰ کے دوسری تمام صفات پر بھی ساتھ ہی نظرہو۔ (ملفوظات جلد۶صفحہ۲۵۸۔ایڈیشن۲۰۲۲ء)

سو خدا تعالیٰ اپنے متعلق فرماتا ہے لَا تُدۡرِکُہُ الۡاَبۡصَارُ ۫ وَہُوَ یُدۡرِکُ الۡاَبۡصَارَ یعنی نظریں اس تک نہیں پہنچ سکتی اور وہ انسان کی نظر تک پہنچتا ہے۔ انسان کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ نہ ہی وہ اپنے علم کے زور سے اور نہ ہی اپنے رتبے اور مقام کی وجہ سے اسے دیکھ سکتا ہے۔ بلکہ خدا تعا لیٰ ہمیشہ خود اپنا اظہار فرماتا ہے۔سو خدا تعالیٰ کے متعلق یہ یاد رکھنا چاہیے کہ خدا وہ ہے جو پردہ غیب میں ہے اور کبھی بھی کسی بھی شکل میں بھی اس کے مادی وجود کا تصور قائم نہیں ہو سکتا۔ پس اللہ تعالیٰ مخلوق کی طرح نہیں ہے وہ باوجود اس کے کہ اس نے صفات بھی عطا کی ہیں، پیدا بھی کیا اور انسان کو بہت سی اپنی صفات میں ڈھالا بلکہ یہ حکم دیا کہ اللہ کی صفات کا رنگ اختیار کرو۔لیکن اس سب کے باوجود بھی ہمارا پیا را خدا بہت بلند مقام پر ہے اور بہت بلند شان والا ہے۔

قُدرت سے اپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے

(ریحان احمد خاں۔ مربی سلسلہ دفتر پرائیویٹ سیکرٹری یوکے)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: نماز میں غفلت کی پانچ حالتیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button