والد محترم ڈاکٹر محمد صادق صاحب جنجوعہ کا ذکر خیر
’’سوگئے اوڑ ھ کے مٹی کے لبادے وہ بھی‘‘
۶؍نومبر ۲۰۱۹ء بوقت سحر میرے والد ڈاکٹر محمد صادق صاحب اس دارِفانی سے ۸۰سال کی عمر میں رخصت ہوکر اپنے خالق حقیقی کے حضور حاضر ہوگئے۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ان کو گذشتہ کافی سال سے دل کا عارضہ تھا جسے انہوں نے حوصلہ سے برداشت کیا اور کبھی شکوہ نہیں کیا۔ ۵۵سال کی عمر میں دل کے بائی پاس کے موقع پر جب سرجن نے پوچھا کہ آپ کو مرنے سے ڈر تو نہیں لگتا تو پورے یقین سے یہ کہا کہ بالکل نہیں ، مر کر اپنے خالق و مالک کے پاس ہی تو جا نا ہے۔ آخری عمر میں کچھ اور عوارض بھی لاحق ہو گئے تھے۔ ۸؍نومبر کو ربوہ میں آپ کی نماز جنازہ پڑھائی گئی اور حضورانور کی اجازت سے بہشتی مقبرہ دارالفضل ربوہ میں اپنی والدہ محترمہ کے قریبی قطعہ نمبر ۲۶میں تدفین عمل میں آئی۔ بعد ازاں حضور ایدہ اللہ تعالیٰ خلیفۃالمسیح الخامس نے ازراہ شفقت ۲۸؍نومبر ۲۰۱۹ء کو ان کی نماز جنازہ غائب اسلام آباد یوکے میں پڑھائی۔
پیدائش اور ابتدائی تعلیم: آپ ۱۵؍اکتوبر ۱۹۳۹ء کو شیخوپورہ کے ایک گاؤں عبداللہ پور کولڑ ھ میں محمدادریس صاحب اور حسین بی بی صاحبہ کے ہاں پیدا ہوئے۔آپ سے پہلے آپ کی سات بہنیں پیدا ہوئیں جن میں سے چھ کم سنی میں ہی وفات پاگئیں۔ آپ کے بعد آپ کے دو بھائی پیدا ہوئے جن میں سے ایک بھائی بھی لڑکپن میں اللہ کو پیارا ہو گیا ۔ یوں تین بہن بھائیوں نے بڑی عمر پائی۔ آپ کے والدین تعلیم یافتہ نہ تھے۔ لیکن انہوں نے اپنی اولاد کو پڑھائی کی طرف راہنمائی کی۔
ابتدائی تعلیم اسی گاؤں اور قریب کے دوسرے گاؤں سے حاصل کی۔ روزانہ کئی کلومیٹر پیدل سفر کرکے سکول جاتے۔ میٹرک کرنے کے بعد لاہور آگئے۔استاد بن کر روزگار کا بندوبست کیا مگر اس کے ساتھ اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا۔ لاہور میں مصری شاہ، وسن پورہ میں دونوں بھائیوں نے مل کر کرائے کا مکان لیا، جہاں بعد میں والدین اور دادی جان کو بھی ساتھ رکھا۔
قبول احمدیت:۱۹۶۱ء میں عین جوانی میں خود تحقیق کرکے حضرت مصلح موعود ؓکے دست مبارک پر بیعت کی اور اپنے خاندان میں سب سے پہلے احمدی ہونے کا اعزاز پایا۔ اگرچہ آپ کے بہنوئی آپ سے قبل بیعت کرچکے تھے۔ آپ کی والدہ نے آپ کی بیعت کا سن کر کہا کہ اگر صادق احمدیت کو سچا سمجھتا ہے تو میں بھی آج سے احمدی ہوں۔ ایک سال بعد آپ کے والد صاحب اور چھوٹے بھائی نے بھی بیعت کرلی۔ والد صاحب بتاتے تھے کہ ان کے گاؤں کے لوگ آپ کی باقاعدہ نمازوں کی وجہ سے پہلے ہی آپ کو احمدی سمجھتے تھے ۔ اس پر داداجان کہتے تھے کہ ابھی تو ہم احمدی نہیں لیکن جب ہوئے تو آپ سب کو پتا چل جائے گا۔
شادی اور اولاد: آپ کی شادی ۱۹۶۶ء میں حامدہ بیگم صاحبہ بنت حافظ مولوی عبدالکریم صاحب آف خوشاب کے ساتھ ہوئی۔ ایک سال قبل دسمبر ۱۹۶۵ء میں آ پ کا نکاح حضرت مولانا جلال الدین صاحب شمسؓ نے پڑھایا۔ شادی کرکے والدہ صاحبہ اسی کرائے کے مکان میں مصری شاہ لاہور آگئیں۔ جون ۱۹۶۸ء میں پہلے بیٹے کی پیدائش بھی اسی گھر میں ہوئی۔ والدہ صاحبہ کی خواہش تھی کہ جتنی جلد ممکن ہو اپنا مکان بنوایا جائے۔ چونکہ وہ خود بھی استاد تھیں لہذا کچھ رقم پس انداز کرکے شاہدرہ کے علاقہ میں ایک پلاٹ خرید لیا جہاں ہمسائے میں ان کی بڑی بہن مع فیملی پہلے ہی رہائش پذیر تھیں۔ سال کے اندر ایک کمرہ بن گیا تو وہاں منتقل ہوگئے۔ یہاں پر خاکسار کی پیدائش نومبر ۱۹۶۹ء میں ہوئی۔ اس وقت یہ نسبتاً نئی آبادی تھی اور کافی کھلا علاقہ تھا اور اردگرد کچھ گھروں کے علاوہ کھیت ہی کھیت نظر آتے تھے۔ آہستہ آہستہ کھیتوں کی جگہ مکانوں نے لے لی۔ اپریل ۱۹۷۱ء میں ان کے ہاں تیسرے بیٹے کی پیدائش ہوئی، جنوری ۱۹۷۴ء میں بیٹی اور ۱۹۷۶ء میں آخری بیٹے کی پیدائش ہوئی۔
جماعتی خدمات: آپ شاہدرہ جماعت کے ابتدائی خدمتگاروں میں سے تھے۔ قائد مجلس شاہدرہ بھی رہے۔ بعد میں شاہدرہ کی تین جماعتیں بن گئیں۔ آپ جماعت شاہدرہ فیکٹری ایریا میں دس سال سے زائد عرصہ تک بطور صدر جماعت خدمات بجا لاتے رہے۔ کئی سال شاہدرہ میں زعیم اعلیٰ کے طور پر بھی خدمات انجام دیں۔ عرصہ دراز تک امام الصلوٰۃ رہے۔ نماز جمعہ بھی پڑھاتے رہے۔ ابا جی کو کچھ سپارے زبانی یاد تھے اور اگر رمضان میں کوئی حافظ صاحب میسر نہ ہوتے تو نماز تراویح بھی پڑھا دیتے تھے۔
شیخوپورہ کے مختلف گاؤں میں فری میڈیکل کیمپس میں خاکسار کے ساتھ جاتے۔ بعض دفعہ اس میں صدر صاحب، قائد مجلس اور بعض اوقات مکرم عبدالکریم قدسی صاحب مرحوم بھی ہمارے ساتھ ہوتے۔ والد صاحب کے نام کے ساتھ(بوجہ پی ایچ ڈی ) ڈاکٹر لکھا ہونے کی وجہ سے بعض لوگ انہیں میڈیکل ڈاکٹر سمجھ کر طبی مشورہ کرتے تو آپ ایسے مریضوں کو خاکسار کی طرف بھیج دیتے۔ بعد میں ہومیو پیتھک کا کچھ علم حاصل کیا اور لوگوں کو ہومیو پیتھک دوائیں دے دیا کرتے تھے۔
تعلیم کے دلدادہ: آپ نے ملازمت کے ساتھ ساتھ اپنی تعلیم جاری رکھی۔ تین مضامین میں ایم اے (ایجوکیشن ، اردو ۱۹۶۶ء اور پنجابی۱۹۷۳ء) کیے۔ مختلف سکولوں میں بطور ہیڈماسٹر اور انگریزی کے استاد فرائض سر انجام دیے۔بعد ازاں مختلف کالجوں میں پنجابی زبان وادب پڑھایا۔ آپ کے طالب علموں کا تعلق آپ سے محبت اور عزت کا تھا۔ اپنی ڈیوٹی بڑی ایمانداری سے سرانجام دیتے۔ کئی بچوں کی زندگیاں سنوارنے میں مدد کی۔ ایک دسویں کا طالب علم جو پڑھنا چاہتا تھا مگر بنیاد کمزور تھی، آپ نے اسے ساتویں جماعت سے دوبارہ اپنی نگرانی میں پڑھایا جو بعد میں ایک بڑا افسر بنا اور ہمیشہ آپ کا شکرگذار رہا۔ اپنے سارے بچوں کو شام کے وقت ان کی پڑھائی میں مدد کرتے۔انگریزی کے ٹینسز اور ٹرانسلیشن ہم نے انہی سے سیکھے۔ مجھے یاد ہے کہ ایک دفعہ دوسری کلاس میں جب بجلی چلی گئی تو ٹارچ روشن کرکے ’’اردو کی دوسری کتاب‘‘ میں سے کچھ پڑھایا۔ جو مضمون وہ خود نہیں پڑھاسکتے تھے تو اس کے لیے ٹیوشن بھی رکھ کردی۔ والدین نے اپنے بڑے بیٹے کو دین کے لیے وقف کیا اور اس طرح بڑے بھائی تو میٹرک کے بعد جامعہ احمدیہ ربوہ چلے گئے۔ جب خاکسار کو ایف ایس سی میں گورنمنٹ کالج لاہور (تب ابھی یہ یونیورسٹی نہیں بنا تھا) میں پری میڈیکل میں داخلہ ملا تو والد صاحب بہت خوش تھے۔ پھر ایف ایس سی کے بعد لاہور میں علامہ اقبال میڈیکل کالج میں داخلہ ملا تو اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ادا کیا۔یوں اللہ تعالیٰ نے خاکسار کو خاندان میں پہلا میڈیکل ڈاکٹر بننے کی توفیق دی۔ چھوٹے بھائی نے بھی گورنمنٹ کالج سے ہی پری انجینئرنگ میں اعلیٰ نمبر حاصل کیے اور انجینئرنگ یونیورسٹی لاہور میں داخلہ لیا ،مگر بعد ازاں انہوں نے پنجاب یونیورسٹی سے کمپیوٹر سائنسز میں ایم ایس سی مکمل کی۔ خاکسار کی ہمشیرہ نے اسلامیہ کالج ریلوے روڈ لاہور سے ایم اے انگلش کیا اور سب سے چھوٹے بھائی نے دو مضامین میں ایم ایس سی کیا۔اپریل ۱۹۹۹ء میں خاکسار کی سپیشلا ئزیشن اور کیرئر کے لیے ناروے آنے کے لیے بھی بڑی بشاشت سے اجازت دی۔
اپنا ایک واقعہ والد صاحب خود بیان کرتے ہیں کہ ایک دفعہ جب وہ ایک امتحان کی تیاری کررہے تھے تو اسی دوران ان کے چھوٹے بھائی کسی اور امتحان کی تیاری میں مصروف تھے۔ والد صاحب نے اپنے بھائی والے کورس میں بھی داخلہ لے لیا اور بھائی سے کہا کہ جب وہ تیاری کریں تو کتاب کو اونچی آواز میں پڑھیں تاکہ وہ سن لیں۔ امتحان کا رزلٹ آیا تو آپ کے نمبر بھائی سے زیادہ تھے۔
پی ایچ ڈی کی ڈگری: تین مضامین میں ایم اےکرنے کے بعد آپ نے ۱۹۸۹ء میں پنجاب یونیورسٹی سے پنجابی زبان و ادب میں پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ آپ پاکستان میں پنجابی ادب میں پی ایچ ڈی کرنے والے ابتدائی چند افراد میں سے تھے۔ اس دوران والد صاحب نے امرتسر میں ایک سردار صاحب جگتار سنگھ سے قلمی دوستی بھی کی اور ایک دفعہ جب وہ پاکستان ہمارے ہاں تشریف لائے تو ان کی خوب خاطر مدارت کی اور مہمان نوازی کا حق ادا کیا۔ پی ایچ ڈی مکمل کی تو پاکستان ٹیلی ویژن کے ایک پروگرام ’’چانن ای چانن‘‘میں عنایت حسین بھٹی نے آپ کا انٹرویو کیا جو آج بھی یو ٹیوب پر موجود ہے ۔
شاعری و ادبی خدمات: آپ نے اردو اور پنجابی میں شاعری بھی کی۔ آپ کی نظمیں ہفت روزہ ’’لاہور‘‘ میں شائع ہوتیں۔ افسوس کہ آپ کی شاعری کی تین کتابیں جن کا مسودہ تیار تھا، آپ کی زندگی میں شائع نہ ہوسکیں۔اکثر اوقات آپ خاندان میں کسی کی شادی، پیدائش اور وفات پر اپنے جذبات کا اظہار نظم کہہ کر کرتے۔اس کے علاوہ آپ کی نظموں کا موضوع دین، خلافت، سیاست اور محبت ہوتا۔ آپ مشاعروں میں بھی حصہ لیتے جن میں سے بعض ایم ٹی اے پر بھی نشر ہوچکے ہیں۔ آپ نے متعدد مضامین اور مقالہ جات بھی لکھے جن میں بعض پر آپ کو انعامات سے بھی نوازا گیا۔ پنجابی زبان و ادب کی ایک ضخیم ڈکشنری تیار کرنے میں اپنے ایک فاضل دوست کی مدد کی اور کافی عرصہ اس کام میں اپنے شب و روز گذارے۔
فرض شناسی اور حسن سلوک: آپ وقت کے پابند اور انتہائی فرض شناس تھے ۔ جماعتی کاموں کو ترجیح دیتے اور اکثر جماعتی میٹنگز کے لیے دار الذکر لاہور جایا کرتے۔ ہر ماہ اپنی ضرورت کی کچھ رقم رکھنے اور چندہ ادا کرنے کے بعد ساری تنخواہ والدہ صاحبہ کے حوالے کردیتے تھے۔ ۱۹۸۲ء میں نظام وصیت میں شامل ہوئے۔ پہلے دسویں حصہ کی وصیت کی جو بعد میں ساتویں حصہ میں تبدیل کردی۔ پابندی سے رمضان کے روزے رکھتے۔ ہم نے انہیں سخت گرمیوں میں بھی روزے رکھتے ہوئے دیکھا ہے جب تولیے گیلے کرکے جسم پر لگائے جاتے تھے۔ رشتہ داروں سے حسن سلوک روا رکھتے اور اسی کی تعلیم دیتے۔ ہر جمعہ کو نماز کی ادائیگی کے بعد ہم سب کو لے کر اپنے والدین کو ملنے ان کے گھر جاتے۔ اپنی تمام بہوؤں ، خاص طور پر بڑی بہو کے ساتھ خاص شفقت کا سلوک تھا۔ آپ کے ایک برادر نسبتی (ہمارے ماموں) مکرم عبدالعزیز خان صاحب جب قصور سے لاہور منتقل ہوئے اور اپنا مکان تعمیر کروایا اور اس سے ان کے بجٹ پر بوجھ زیادہ ہو گیا تو ابا جی نے خود بغیر کسی معاوضہ کے ان کا باتھ روم تیار کر کے دیا۔ انہی کی بڑی بیٹی بعد میں آپ کی بڑی بہو بنیں۔
آپ مرکزی عہدے داران خاص کر علمائے کرام کی بہت قدر کرتے تھے۔ آپ کے ایک اور برادر نسبتی جب مربی بنے تو والد صاحب نے انہیں اچکن سلوا کر تحفے میں دی ۔
خدمت سلسلہ بجا لانے والے آپ کی بیوی کے ایک بھانجے ہیں ، بتاتے ہیں کہ جب وہ ابھی لڑکپن میں تھے اور اپنی خالہ کو ملنے لاہور آئے تو یہ والد صاحب ہی تھے جنہوں نے پہلی دفعہ انہیں لاہور کی سیر کرائی۔
اپنی گوناگوں مصروفیات کی وجہ سے گھر کے عام کام کاج میں مدد نہ کرواپاتے جس کی والدہ صاحبہ کو عموماً شکایت رہتی۔ یہ کمی آپ نے ریٹائرمنٹ کے بعد پوری کرنے کی کوشش کی۔ آپ کو باغبانی کا شوق تھا اور گھر میں مختلف پھول اور پودے لگائے تھے ۔ ابتدا میں گھر میں موتیے ، گلاب اور سرو کے پودے لگا رکھے تھے۔ بعد میں انگور، لیموں ، نیاز بو، سورج مکھی اور ربڑ کا پودا بھی لگایا اور ان کی دیکھ بھال کی۔ خوش لباس اور خوش مزاج شخصیت کے مالک تھے ۔
آپ ہر نماز مسجد میں ادا کرنے کی کوشش کرتے تھے اور ہم سب بچوں کو ساتھ لے کر جاتے۔ اس بات سے بہت خوش تھے کہ مسجد گھر کے قریب ہی ہے۔ نماز تہجد کے پابند تھے۔اللہ تعالیٰ ان کی ساری دعائیں ہمارے حق میں قبول فرمائے۔ آمین۔ آپ اپنے بچوں کو ہمیشہ خلافت سے وابستہ اور نماز پر قائم رہنے کی تلقین کیا کرتے تھے۔ ایک دفعہ جب ۲۰۰۹ء میں بیمار ہوئے تو مجلس انصار اللہ کے عہد کے حوالے سے جس میں یہ ذکر ہے کہ میں اپنی اولاد کو بھی ہمیشہ خلافت کے ساتھ وابستہ رہنے کی تلقین کرتا رہوں گا، ایک عبارت خود تیار کی اور اپنے تمام بچوں سے اس پر دستخط لیے۔
شکر گزاری کا جذبہ آپ میں بہت نمایا ں تھا۔ اپنے والدین کے ہمیشہ شکر گزار تھے کہ انہوں نے تعلیم کی راہ پر گامزن کیا ۔ اللہ تعالیٰ کی ہر نعمت کا شکر ادا کرتے۔ ۲۰۰۲ء میں خاکسار کو اپنے والدین کو ناروے بلانے کی توفیق ملی اور انہوں نے گرمیوں کے تین ماہ ہمارے ساتھ گزارے۔ اس دوران مغربی ناروے اور سویڈن کی سیر کا بھی موقع ملا۔ اس موقع پر بھی آپ نے اللہ تعالیٰ کی بے انتہا نعمتوں کا شکر ادا کیا۔ ہماری شادی کو پانچ سال ہوچکے تھے مگر ابھی اولاد نہ ہوئی تھی۔ ایک دفعہ خاکسار کی اہلیہ نے تہجد میں ایک سجدہ دعا کی خاطر ہمارے لیے وقف کرنے کی درخواست کی۔ کچھ عرصہ گذر گیا تو پھر خاکسار کی اہلیہ نے دعا کی یاددہانی کرائی تو والد صاحب نے بتایا کہ انہوں نے تو ہمارے لیے تب سے ہی مستقل ایک سجدہ وقف کیا ہوا ہے۔اللہ تعالیٰ نے محض اپنے فضل سے اگست ۲۰۰۳ء میں پہلی بیٹی مریم رضوان سے نوازا جو اب اوسلو یونیورسٹی میں کلینیکل سائیکولوجی کے تیسرے سال میں ہے۔ پوتی کی پیدائش پر بہت خوش تھے ، خدا کا شکر ادا کرتے رہتے۔ اس موقع پر آپ نے ایک خوبصورت نظم بھی لکھی۔ جب خاکسار کو ان کی ایک اور خواہش کو پورا کرتے ہوئے ۲۰۱۳ء میں مرکز ربوہ ، دارالعلوم غربی خلیل میں ایک نیا اور کشادہ گھر خریدنے کی توفیق ملی جس میں والدین اور بڑے بھائی کی فیملی منتقل ہوگئے۔ ابا جی اس کا اکثر ذکر کرتے اور اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ادا کرتے۔ اکثر کہتے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا ہے۔اس بات سے بھی بے حد خوش تھے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر مسجد کے قریب گھر دیا ہے۔ آخری سالوں میں خاندان کے ہر فرد کا نام لکھتے اور اپنی یادداشت میں محفوظ کرتے۔بہت ملنسار تھے۔ ہر ایک سے بڑی گرم جوشی سے ملتے۔ ان سے بھی بڑی محبت سے ملتے جن کو معاشرے میں عموماً کوئی مقام نہیں دیا جاتا۔ بچوں سے خاص انس تھا۔ محلے کے بچوں میں اکثر ٹافیاں وغیرہ تقسیم کرتے۔
آپ کے پسماندگان میں اہلیہ حامدہ بیگم صاحبہ، بیٹا احمد عرفان صادق، خاکسار ڈاکٹر احمد رضوان صادق صدر مجلس انصاراللہ ناروے، یونیورسٹی ہاسپٹل میں چیسٹ سپیشلسٹ کے طور پر کام کر رہا ہوں۔ احمد نعمان صادق یوکے میں مقیم ہیں اور تعلیم و تدریس کے شعبہ سے منسلک ہیں۔ بیٹی منزہ حنا ا ہلیہ عبدالاکبر طاہر ایک کالج میں انگلش ڈیپارٹمنٹ کی صدر شعبہ ہیں اور عرصہ دراز تک بطور صدر لجنہ خدمات بجا لا چکی ہیں۔ سب سے چھوٹے بیٹے احمد لقمان صادق پیس ولیج کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں اور آئی ٹی کے شعبہ میں کام کر رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے والد صاحب کے سارے بچوں کو اولاد کی نعمت سے نواز رکھا ہے۔ آپ کے ۵ پوتے، ۵ پوتیاں اور ۴ نواسیاں ہیں۔ والد صاحب کے چھوٹے بھائی اور بڑی بہن آپ کی وفات سے پہلے ہی اللہ کو پیارے ہو گئے تھے۔
میرے ذہن کے کسی نہاں خانے میں بچپن کی وہ بستی آج بھی اسی طرح آباد ہے جہاں میں نے اپنے والدین کے ساتھ کم و بیش تیس سال گذارے۔ گلی کی نکڑ پر وہی ہماری مسجد جسے تعمیر سے قبل پلاٹ اور پھر تعمیر ہوتے ہوئے اور بعد میں آباد ہوتے دیکھنے کی یادیں آج بھی ذہن میں نقش ہیں ۔ خاص طور پر باجماعت نماز، نماز جمعہ اور رمضان کے لمحات۔ نماز تراویح، آخری افطاری اور عید کا چاند دیکھنا۔ قربانی کا جانور خریدنا اور اس کی دیکھ بھال کی یادیں۔ عید کی نماز پہلے منٹو پارک لاہور اور بعد میں مقبرہ جہانگیر میں پڑھنا ۔ گھر کے ارد گرد کھیت ہی کھیت۔گرمیوں کی راتوں میں صحن میں تاروں بھرے آسمان کے نیچے ایک لائن میں لگی چارپائیوں اور پیڈسٹل فین کی ہوا میں سونا۔ صبح اٹھتے ہی چنبیلی کی خوشبو۔ والدہ صاحبہ کا تیار کردہ ناشتہ۔ اطفال اور پھر خدام کی سرگرمیاں ۔ اسکول، گلیوں اور بازار کی رونق۔ جی ٹی روڈ سے بسوں اور ٹرکوں کے ہارن کی آوازیں۔ مسجدوں میں ہوتی ہوئی اذانیں، بے ہنگم تقریریں و اعلانات۔ سخت گرمی میں سائیکل کرائے پر لے کر چلانا۔ برسات میں انہی گلیوں میں نہانا۔سیلاب کا آنا۔ مسجد کے ساتھ ہماری بڑی خالہ جان کا گھر اور پچھلی گلی میں ہمارے ماموں کا گھر ۔پھر رفتہ رفتہ گنجان آبادی، اتنی کہ وہاں مزید رہنا ثقیل ہوتا چلا گیا۔
ہر نماز پر ابا جی کا ہر ایک کو نام لے کر آواز دینا کہ ’’اٹھیں نماز کا وقت ہوگیا ہے‘‘۔ آج بھی ایسے محسوس ہوتا ہے کہ کہیں سے آواز آئے گی کہ’’رضوان! آجائیں، مسجد چلیں نماز کا وقت ہوگیا ہے!‘‘
اے میرے پیارے خدا ! ابا جی کو تو اپنی قربت عطا فرما، اپنے پیاروں کی قربت میں جگہ دے اور اپنی رضا کی جنتوں میں اعلیٰ علیین میں ان کا مقام بلند فرما۔ ان کی ہمارے حق میں کی گئی دعاؤں کو قبول فرما۔ ہمیں بھی توفیق دے کہ ہم ان کی نیکیوں کو جاری رکھ سکیں۔ ہم بھی ایک سجدہ ان کے لیے وقف کرسکیں۔ آمین۔ یا رب العالمین۔
(ڈاکٹر احمد رضوان صادق۔ ناروے)
مزید پڑھیں: رائے ظہور احمد ناصر صاحب