خلافتِ راشدہ میں پوری ہونے والی قرآنی پیشگوئیاں
آیت استخلاف کی روشنی میں تمکنت دین،قرآن و حدیث کی ترویج ، روحانی اور جغرافیائی فتوحات
خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم ﷺنے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہوکیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے (مسیح موعودؑ)
قرآن کریم علم غیب کا سمندر ہے اس کی پیشگوئیاں آغاز سے دنیا کے اختتام تک پھیلی ہوئی ہیں پچھلے ایک مضمون میں ان پیشگوئیوں کا تذکرہ کیا گیا تھا جو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں پوری ہوئیں اب ان پیشگوئیوں کا ذکر ہے جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں بیان فرمائیں اور خلافت راشدہ میں پوری ہوئیں آئیے ان میں سے کچھ کا جائزہ لیتے ہیں۔
خلافت راشدہ کا قیام
خلافت راشدہ میں پوری ہونے والی سب سے بڑی پیشگوئی خود خلافت کا قیا م ہے۔سورۃ النور کی آیت نمبر۵۶ میں اس کی خبر دی گئی تھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَلَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَلَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَمَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ۔تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے اُن سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اُس نے اُن سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور اُن کے لیے اُن کے دین کو، جو اُس نے اُن کے لیے پسند کیا، ضرور تمکنت عطا کرے گا اور اُن کی خوف کی حالت کے بعد ضرور اُنہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور جو اس کے بعد بھی ناشکری کرے تو یہی وہ لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
اس آیت میں امت محمدیہ میں پہلی امتوں کی طرح نبوت کے بعد قیام خلافت کا ذکر ہے۔مسلمانوں کے قریب ترین امت،امت موسویہ تھی اور رسول کریم ﷺ کو حضرت موسیٰؑ کا مثیل قرار دیا گیا ہے۔اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلَیۡکُمۡ رَسُوۡلًا۬ۙ شَاہِدًا عَلَیۡکُمۡ کَمَاۤ اَرۡسَلۡنَاۤ اِلٰی فِرۡعَوۡنَ رَسُوۡلًا۔(المزمل:۱۶)یقیناً ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے جو تم پر نگران ہے جیسا کہ ہم نے فرعون کی طرف بھی ایک رسول بھیجا تھا۔
موسیٰ اور مسیح کے مابین ۱۳ صدیوں کا فاصلہ ہے اس دوران میں کثیر انبیا٫موسیٰ کی جانشینی اور خلافت پر مامور رہے۔ اور ایک کے بعد دوسرا نبی موسیٰ کا خلیفہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کیا جاتا تھا۔ مگر سلسلہ محمدیہؐ میں چونکہ رسول کریم ﷺ خاتم النبیین ہیں اور شریعت مکمل ہو چکی ہےاس لیے رسول کریم ﷺ کی قوت قدسیہ کی وجہ سے آپ کے فورا ًبعد کسی نبی کی ضرورت نہیں تھی نیز اب کوئی مرتبہ روحانیت کا رسول اللہ ﷺ کی اتباع کے بغیر نہیں مل سکتا اس لیے امت محمدیہ میں خلافت کے انتخاب میں کچھ فرق ہے۔رسول اللہﷺ فرماتے ہیں:كَانَتْ بَنُو إِسْرَائِيْلَ تَسُوْسُهُمُ الْأَنْبِيَاءُ، كُلَّمَا هَلَكَ نَبِيٌّ خَلَفَهُ نَبِيٌّ، وَإِنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي، وَسَيَكُوْنُ خُلَفَاءُ فَيَكْثُرُوْنَ (بخاری کتاب احادیث الانبیا٫ باب ما ذکر عن بنی اسرائیل حدیث نمبر ۳۴۵۵)بنی اسرائیل کی نگرانی نبی کیا کرتے تھے جب کوئی نبی فوت ہو جاتا تو ایک اور نبی اس کا جانشین ہوتا اور دیکھو میرے (فوراً) بعد کوئی نبی نہیں مگر خلفاء ہوں گے اور بہت ہوں گے۔
چنانچہ رسول کریم ﷺ کی وفات کے بعد امت محمدیہ میں خلافت راشدہ کا آغاز ہوا۔اور یکے بعد دیگرے چار خلفاءمسند نشین ہوئے یہ مرکزی اسلامی خلافت تھی جو منہاج نبوت پر تھی۔اور خلافت راشدہ کی صورت میں ۳۰ سال جاری رہی اور پھر ملوکیت میں تبدیل ہو گئی۔
اس کا اشارہ بھی قرآن میں موجود ہے۔سورۃ البقرہ آیت ۲۴۷ہے۔اَلَمۡ تَرَ اِلَی الۡمَلَاِ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اِسۡرَآءِیۡلَ مِنۡۢ بَعۡدِ مُوۡسٰی ۘ اِذۡ قَالُوۡا لِنَبِیٍّ لَّہُمُ ابۡعَثۡ لَنَا مَلِکًا نُّقَاتِلۡ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ ۔کیا تُو نے موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل کے سرداروں کا حال نہیں دیکھا۔ جب انہوں نے اپنے ایک نبی سے کہا کہ ہمارے لیے ایک بادشاہ مقرر کر تاکہ ہم اللہ کی راہ میں قتال کریں۔
اس سے حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ استدلال کرتے ہیں کہ موسیٰ کے بعد بنی اسرائیل میں نبی اور بادشاہ الگ الگ ہوتے تھے اسی طرح مسلمانوں میں بھی خلافت راشدہ کے بعد روحانی اور جسمانی بادشاہ الگ ہو جائیں گے۔ (حقائق الفرقان جلد ۱ صفحہ ۳۸۰)
سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۸ ہے: وَاعۡلَمُوۡۤا اَنَّ فِیۡکُمۡ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ؕ لَوۡ یُطِیۡعُکُمۡ فِیۡ کَثِیۡرٍ مِّنَ الۡاَمۡرِ لَعَنِتُّمۡ وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیۡکُمُ الۡاِیۡمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیۡ قُلُوۡبِکُمۡ وَکَرَّہَ اِلَیۡکُمُ الۡکُفۡرَ وَالۡفُسُوۡقَ وَالۡعِصۡیَانَ ؕ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الرّٰشِدُوۡنَ۔اور جان لو کہ تم میں اللہ کا رسول موجود ہے۔ اگر وہ تمہاری اکثر باتیں مان لے تو تم ضرور تکلیف میں مبتلا ہوجاؤ۔ لیکن اللہ نے تمہارے لیے ایمان کو محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں سجا دیا ہے اور تمہارے لیے کفر اور بداعمالی اور نافرمانی سے سخت کراہت پیدا کردی ہے۔ یہی وہ لوگ ہیں جو راشدین یعنی ہدایت یافتہ ہیں۔
اس میں قرآن کریم نے یہ اشارہ بھی کیا ہے کہ رسول کریمؐ کے سچے پیرو اور صحابہ راشدین ہیں اور رسول اللہﷺکی نمائندگی کرنے والے بھی راشدین کہلائیں گے چنانچہ خلفائے راشدین کی اصطلاح صرف رسول اللہ ﷺ کے بعد چار خلفاء کے لیے استعمال ہوتی ہے۔
خلافت راشدہ اور اس کے بعد امت محمدیہ پر آنے والے ادوار کا نقشہ بھی حدیث میں موجود ہے۔حضرت حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:تَكُونُ النُّبُوَّةُ فِيْكُمْ مَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ تَكُوْنَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةٌ عَلَى مِنْهَاجِ النُّبُوَّةِ، فَتَكُونُ مَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ تَكُوْنَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكًا عَاضًّا، فَيَكُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ يَكُوْنَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ مُلْكًا جَبْرِيَّةً، فَتَكُوْنُ مَا شَاءَ اللّٰهُ أَنْ تَكُوْ نَ، ثُمَّ يَرْفَعُهَا إِذَا شَاءَ أَنْ يَرْفَعَهَا، ثُمَّ تَكُوْنُ خِلَافَةً عَلَى مِنْهَاجِ نُبُوَّةٍ(مسند احمد حدیث نمبر ۱۸۴۰۶) یعنی تم میں نبوت قائم رہے گی پھر خلافت علیٰ منہاج النبوة قائم ہوگی۔ پھر ایذارساں بادشاہت قائم ہوگی۔ پھر اس کے بعد جابر بادشاہت قائم ہوگی۔ بعد ازاں خلافت علیٰ منہاج النبوة قائم ہوگی۔
رسول کریمﷺ نے اس مضمون کو یوں بھی بیان فرمایا حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: سیکون بعدی خلفاء ومن بعدالخلفاء امراء ومن بعد الامراء ملوک جبابرۃ ثم یخرج المہدی من اھل بیتی یملاء الارض عدلا کما ملئت جورًا۔(بحار الانوار جلد ۵۱ صفحہ ۹۶،۸۴)میرے فوراً بعدخلفاء ہوں گے ان کے بعد امرا٫ ہوں گے ان کے بعد ظالم بادشاہ ہوں گے اور اس کے بعد امام مہدی زمین کو عدل سے بھر دے گا۔
رسول اللہﷺ نے اپنے فوری بعد خلافت راشدہ کی مدت کا تعین بھی کیا ہے اس بارے میں حضرت سفینہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:میری امت میں خلافت ۳۰ سال رہے گی پھر اس کے بعد ملوکیت ہوگی۔ پھر حضرت سفینہؓ نے چاروں خلفاء راشدین کا عرصہ شمار کر کے بتایا کہ ۳۰ سال پورے ہوگئے اور بنو امیہ کا دعویٰ کہ ان میں خلافت ہے جھوٹا ہے وہ تو ملوکیت کے حامل ہیں۔ (جامع ترمذی کتاب الفتن باب الخلافة حدیث نمبر۲۱۵۲)
حضرت ابو بکرؓ قریباً ۲ سال، حضرت عمرؓ قریباً ۱۰سال حضرت عثمانؓ قریباً ۱۲سال، حضرت علیؓ قریباً ۵سال خلیفہ رہے اور وہ تمام مقاصد پورے کیے جن کا آیت استخلاف میں ذکر ہے۔ خلافت راشدہ کو رسول اللہ ﷺ کی وراثت میں روحانی خلافت کے ساتھ ظاہری حکومت بھی ملی تھی اس کے بعد حکومتی انتظام الگ ہو گیا اور روحانی خلافت مفسرین، محدثین، فقہاء، متکلمین، مجددین اور صوفیاءکے ذریعہ جاری رہی یہاں تک کہ مسیح موعود کے ذریعہ خلافت علیٰ منہاج نبوت کا دوبارہ احیاء ہوا۔
حضرت مسیح موعودؑ آیت استخلاف کی شرح میں فرماتے ہیں:خلیفہ جانشین کو کہتے ہیں اور رسول کا جانشین حقیقی معنوں کے لحاظ سے وہی ہوسکتا ہے جو ظلی طور پر رسول کے کمالات اپنے اندر رکھتا ہو اس واسطے رسول کریم ﷺنے نہ چاہا کہ ظالم بادشاہوں پر خلیفہ کا لفظ اطلاق ہوکیونکہ خلیفہ درحقیقت رسول کاظلّ ہوتا ہے اور چونکہ کسی انسان کے لیے دائمی طور پر بقا نہیں لہٰذا خدا تعالیٰ نے ارادہ کیا کہ رسولوں کے وجود کو جو تمام دنیا کے وجودوں سے اشرف و اولیٰ ہیں ظلی طور پر ہمیشہ کے لیے تاقیامت قائم رکھے سو اسی غرض سے خدا تعالیٰ نے خلافت کو تجویز کیا تادنیا کبھی اور کسی زمانہ میں برکات رسالت سے محروم نہ رہے۔ (شہادۃ القرآن۔روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۵۳) پھر فرمایا:قرآن کریم میں اس قسم کی بہت سی آیتیں ایسی ہیں کہ جو اس امت میں خلافت دائمی کی بشارت دیتی ہیں اور احادیث بھی اس بارے میں بہت سی بھری پڑی ہیں۔(شہادۃ القرآن۔روحانی خزائن جلد ۶ صفحہ ۳۵۵)
تمکنت دین کی پیشگوئی
خلافت کی سب سے بڑی برکت اس آیت استخلاف میں تمکنت دین بیان کی گئی ہے۔اس کے بہت سے پہلو ہیں۔تمکنت دین کے حوالے سے خلافت راشدہ میں قرآن مجید کتابی شکل میں وجود میں آیا اور اس کی کثرت سے ترویج ہوئی۔علم سنت و حدیث کا آغاز تو رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں ہو چکا تھا اس میں صحابہ نے قدم آگے بڑھائے اور پہلی صدی ہجری کے اختتام تک یہ ایک عظیم علم بن چکا تھا آئیے !اس کی کچھ تفصیل ملاحظہ کریں۔
تدوین قرآن اور اس کی تعلیم
قرآن کریم آغاز میں صرف پڑھا جاتا تھا یعنی صرف زبانی تلاوت کی جاتی تھی مگر اللہ تعالیٰ نے خود یہ پیشگوئی قرآن میں درج فرمائی کہ یہ کلام ایک وقت میں کتاب بنے گا۔لکھا جائے گا اور اس کی تحریر کے اثرات اس کی زبانی قرا٫ت سے زیادہ ہوں گے۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں قرآن مبین کا لفظ دو دفعہ اور کتاب مبین کا لفظ دس دفعہ استعمال کیا ہے جس میں اس کی تحریر اور کتابت کی عظمت کی پیشگوئی ہےجو خلافت راشدہ میں پوری ہوئی۔
رسول کریم ؐکی زندگی میں قرآن آخری وقت تک نازل ہوتا رہا مگر کتابی تحریری شکل میں نہیں تھا یہ ہزاروں سینوں میں محفوظ تھا اور سارا قرآن تحریری طور پر بھی موجود تھا مگر نزول قرآن کے وقت عربوں کے پاس کاغذ نہیں تھا اس لیے وہ جن چیزوں پر لکھا گیا وہ یہ تھیں کھجور کی شاخیں،اونٹ کی ہڈیاں،پتھر کی سل، چمڑے کے ٹکڑے جانوروں کی کھال،لکڑی کے ٹکڑے۔اور یہ بھی ایک جگہ اکٹھا نہیں تھا یہ خدمت خلافت راشدہ نے سر انجام دی۔
حضرت ابوبکرؓ کے دور میں جنگ یمامہ میں ۷۰؍حفاظ قرآن شہید ہو گئے تو حضرت عمرؓ حضرت ابوبکرؓ کے پاس گئے اور کہا کہ جنگیں جاری ہیں اور لڑائیوں میں مزید حفاظ بھی شہید ہوں گے۔ اس طرح خطرہ ہے کہ قرآن کا کوئی حصہ ضائع نہ ہوجائے۔ اس لیے مناسب ہے کہ قرآن کو تحریری طور پر بھی جمع کر لیا جائے۔ حضرت ابوبکرؓ پہلے تو متذبذب رہے مگر حضرت عمرؓ کے اصرار پر مان گئے اور حضرت زید بن ثابتؓ کو مقرر فرمایا کہ قرآن کو زبانی روایت کے مطابق تحریری شہادتوں کے ساتھ جمع کرو۔ چنانچہ سارے قرآن کو تحریری طور پر ایک جگہ اکٹھا کر کے نسخہ تیار کیا گیا جو پہلے حضرت ابوبکرؓ اور پھر عمرؓ کے پاس رہا۔ پھر آپ نے حضرت حفصہ ؓکے پاس رکھوا دیا جہاں سے حضرت عثمان ؓنے حاصل کیا اور اس کی نقلیں کروا کر عالم اسلام میں بھیج دیا۔ (بخاری کتاب التفسیر باب لقد جاءکم رسول)
سورت عبس کی آیات نمبر ۱۴ تا ۱۷ ہے: فِیۡ صُحُفٍ مُّکَرَّمَۃٍ۔ مَّرۡفُوۡعَۃٍ مُّطَہَّرَۃٍۭ۔بِاَیۡدِیۡ سَفَرَۃ۔ٍکِرَامٍۭ بَرَرَۃٍ۔ یہ قرآن معززصحیفوں میں ہے جو بہت بلندو بالا کیے گئے،بہت پاک رکھے گئے ہیں۔لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو بہت معزز اور بڑے نیک ہیں ۔
یہ آیات قرآن اور صحابہؓ کے بارےمیں کئی پیشگوئیوں پر مشتمل ہیں۔
سَفَرَةٍ کے معنی سفر کرنے والے اور کاتبوں کے ہیں۔ یعنی صحابہ ؓقرآن لکھیں گے اور سفروں کے ذریعہ دنیا بھر میں پہنچا دیں گے اس میں یہ بھی اشارہ تھا کہ قرآن کی زبان دنیا میں زندہ رہے گی اور بولی جائے گی اور قرآن کریم کے دوسری زبانوں میں تراجم بھی ہوں گے۔ کرام یعنی دنیا میں سربلند ہوں گے اور حکومتیں قائم کریں گے۔
بَرَرَۃٍ۔کے معنی ہیں پوری اطاعت کرنے والے۔پورا تعلق رکھنے والے۔اس کے اوامر و نواہی پر عمل کرنے والے۔یہ سب اخلاق اور صفات صحابہؓ میں اعلیٰ درجہ پر پائی جاتی تھیں۔(تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۱۷۱)
قراءت سبعہ
رسول اللہﷺ کی بعثت کے وقت عرب کی زبان تو عربی تھی مگر تھوڑے تھوڑے فاصلہ پر عرب کے قبائل خصوصاً خانہ بدوش قبائل کی زبان میں مختلف قسم کے فرق تھے اعراب کے بھی۔ حروف کے بھی۔الفاظ کے بھی اور محاورات کے بھی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم قبیلہ قریش کے فرد تھے اور آپ کی ہی زبان میں قرآن نازل ہوا اس لیے ایک وسیع حکمت کے ماتحت آغاز میں متفرق قبائل کے اختلافات کو ملحوظ رکھتے ہوئے قریش کی زبان کے متبادل اپنی زبانوں کے الفاظ استعمال کرنے کی اجازت دی گئی اور یہ سب کچھ خدا کی مرضی اور راہنمائی کے مطابق ہوا جیسا کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا إِنَّ هَذَا الْقُرْآنَ أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْه (صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب أُنْزِلَ عَلَى سَبْعَةِ أَحْرُفٍ حدیث نمبر ۴۶۰۸ )یعنی قرآن ۷؍قراءتوں پر اتارا گیا ہے پس تمہیں جو سہولت ہے اس سے پڑہو۔یہ سات کا عددکثرت کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے۔چنانچہ بعض محققین اسے قراءات سبعہ یا عشرہ بھی کہتے ہیں۔
مگر جوں جوں اسلام پھیلتا رہا اور فتوحات کے بعد مدینہ میں مرکزی اسلامی حکومت قائم ہوگئی تو حضرت عثمان غنیؓ کے زمانے میں مرکزی قراءت قائم رکھ کر باقی قراءتوں کو ختم کردیا گیا اور وہی آج تک محفوظ چلا آتا ہے۔
حضرت عمرؓ نے قرآنی علوم عام کرنے کے لیے یہ ہدایت بھی جاری کی کہ چند سورتوں کو سیکھنا ضروری قرار دیا۔ مثلاً سورہ بقرہ، نساء، مائدہ، سورہ نور اور احزاب۔کیونکہ ان میں شریعت کے بنیادی احکامات مذکور ہیں(کنز العمال کتاب الاذکار من قسم الافعال حدیث نمبر ۴۱۰۶۔) اور یہ بھی فرمایا کہ جو لوگ یہ سورتیں اچھی طرح سیکھ لیں ان کے لیے انعامات مقرر کیے جائیں۔ اپنی فوجوں کو جو ضروری ہدایات بھیجتے ان میں یہ بھی تھا کہ قرآن پڑھنا سیکھیں۔وقتاً فوقتاً قرآن خوانوں کا ریکارڈ ملاحظہ فرماتے رہتے۔
قرآن سیکھنے کے لیے بہت ضروری امر اعراب اور صحت تلفظ کا معاملہ ہے۔ اس لیے حضرت عمرؓ نے ہر جگہ احکام بھیجے کہ صحت الفاظ اور صحت اعراب کی تعلیم بھی دی جائے۔ نیز یہ بھی ہدایت کی کہ جو شخص لغت کا عالم نہ ہو وہ قرآن نہ پڑھائے۔ (الفاروق جلد۲ صفحہ ۲۶۷)
حضرت عمرؓ کے وقت میں نئی نئی قومیں اسلام میں داخل ہو رہی تھیں اور قرآن کو صحیح طرح سیکھنے کے لیے ضروری تھا کہ عربی گرامر اور تلفظ اور سنت رسول ﷺ کی تعلیم بھی دی جائے۔حضرت عمرؓ نے اس طرف بھی پوری توجہ دی اور حکم صادر کیا کہ تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَالسُّنَّةَ وَاللَّحْنَ كَمَا تَعَلَّمُونَ الْقُرْآنَ۔(جامع بيان العلم وفضلہ جلد ۲ صفحہ ۱۰۰۹ حدیث نمبر۱۹۲۱)یعنی علم وراثت اور سنت نبویؐ اور تلفظ کو اسی طرح سیکھو جس طرح قرآن سیکھتے ہو۔
قرآن کے ساتھ ہی یہ بھی لازم تھا کہ نو مبائعین اسلامی عبادات اور عملی احکام بھی سیکھیں اس کے لیے حضرت عمرؓ نے علم فقہ کی طرف خصوصی توجہ دی۔بلکہ یہ کہا جائےکہ آپ نے ضرورت زمانہ کے مطابق حدیث کی نسبت فقہ پر زیادہ توجہ دی تو یہ غلط نہ ہو گا کیونکہ لوگ ابھی نیا نیا قرآن سیکھ رہے تھے۔اور حدیثوں کی بجائے سنت کی تفہیم زیادہ ضروری تھی۔
آپؓ نے جہاں علمی مدارس قائم کیے وہاں شریعت اسلامیہ کو پراگندگی سے بچانے کے لیے ہر کسی کوخود درس دینے یا فتویٰ دینے کی اجازت نہ ہوتی تھی بلکہ انہوں نے خاص افراد مقرر کیے جو لوگوں کی راہنمائی کرتے تھے۔مثلاً فرمایا جو قرآن ناظرہ سیکھنا چاہے وہ ابی بن کعبؓ کے پاس جائے جو علم وراثت سیکھنا چاہے وہ زید کے پاس اور جو فقہ کی کوئی بات پوچھنا چاہے وہ معاذؓ کے پاس جائے اور آپ مقرر کردہ مفتیوں کے فتاویٰ کی جانچ پڑتال بھی کرتے رہتے تھے۔(الفاروق صفحہ۲۲۱) قرآن کو ہر قسم کی مداخلت سے بچانے کے لیے کئی اقدام کیے مثلاً ایک دفعہ دیکھا کہ ایک شخص نے اپنے قرآن پر ہر آیت کے ساتھ تفسیر بھی لکھی ہوئی ہے تو اس کو روک دیا تاکہ یہ قرآن کا حصہ ہی نہ سمجھ لیا جائے ایک شخص کے پاس بہت ہی باریک لکھائی میں قرآن تھا تو اس کو بھی ناپسند کیا۔ (کنز العمال کتاب الاذکار من قسم الافعال جلد ۲ صفحہ ۳۱۶ حدیث نمبر ۴۱۰۵ ،۴۱۰۷)
حدیث و فقہ کا ارتقا
صحابہ کرام ؓنے احادیث رسول ﷺ بیان کرنے کا آغاز کیا جس نے بعد میں ایک بہت عظیم الشان علم حدیث او ر علم فقہ کی شکل اختیار کر لی۔اسی بنیاد پر خلفاء نے مشورہ کے ساتھ خود بھی فتوے دئے اور باقاعدہ مفتی مقرر کیے۔ منقول ہے کہ جس قدر مسائل حضرت عمرؓ سے منسوب ہیں ان کی تعداد کئی ہزار تک پہنچتی ہے ان میں سے ایک ہزار ایسے ہیں جو بہت اہم ہیں اور ان تمام مسائل میں ائمہ اربعہ نے ان کی تقلید کی ہے حضرت شاہ ولی اللہ نے ان کی مدد سے فقہ فاروقی پر مشتمل رسالہ لکھ کر اپنی کتاب ازالۃ الخفا٫ میں شامل کر دیا ہے۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں کہ صحابہ میں سے جن بزرگوں کے فقہ کا رواج ہوا وہ سب حضرت عمرؓ کے تربیت یافتہ تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مسعودؓ جن کی روایات اور فتاویٰ پر فقہ حنفیہ کی بنیاد ہے وہ حضرت عمرؓکے خاص شاگرد تھے۔ اسی طرح حضرت ابو موسیٰ الاشعریؓ، حضرت معاذ بن جبلؓ اور حضرت زید بن ثابتؓ جیسے مجتہدین صحابہ بھی ا ن سے فیض پاتے تھے۔
اس کے ساتھ ہی اسلامی تاریخ بھی وجود میں آ نے لگی۔اسلامی کیلنڈر کی ابتدا کی گئی۔
تعلیمی اور تربیتی نظام
سورۃ الحج کی آیت نمبر ۴۲ ہے:اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَاَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَنَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ۔جنہیں اگر ہم زمین میں تمکنت عطا کریں تو وہ نماز کو قائم کرتے ہیں اور زکوٰة ادا کرتے ہیں اور نیک باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بُری باتوں سے روکتے ہیں۔
خلافت راشدہ میں کثرت سے نئے مسلمان ہونے والوں کی تربیت کے لیے قرآن اور سنت و حدیث کی تعلیم کا انتظام کیا گیا۔ توحید سکھانے کے لیےسب سے بڑی جگہ مسجد اور سب سے بڑی کتاب قرآن کریم ہے جس کے لیے صحابہ کے سردار خلفائے راشدین نے بھر پور محنت کی حضرت عمرؓ نے اپنے زمانہ خلافت میں قریباً چار ہزار مساجد تعمیر کرائیں (الفاروق صفحہ ۲۲۸)جب کوفہ آباد کیا تو اس میں بہت بڑی مسجد تعمیر کرائی جس میں چالیس ہزار افراد نماز پڑھ سکتے تھے عمارت کے باہر بہت بڑا سائبان بھی بنایا گیا۔ (الفاروق صفحہ ۲۳۲) آپؓ نے ہر جگہ قرآن مجید کا درس جاری کیا اور معلم اور قاری مقرر کر کے ان کی تنخواہیں مقرر کیں یہ امر بھی حضرت عمر کی اوّلیات میں شمار کیا جاتا ہے کہ انہوں نے پہلی بار مذہبی اساتذہ کی تنخواہیں مقرر کیں۔ مدینۃ الرسول میں چھوٹے بچوں کی تعلیم کے لیے جو مکاتب قائم کیے گئے ان کے معلمین کی تنخواہیں ۱۵، ۱۵درہم ماہوار تھیں مگر انفرادی طور پر قرآن پڑھانے کے لیے رقم لینے سے منع کرتے تھے۔(کنز العمال کتاب الاذکار من قسم الافعال فصل فی آداب التلاوۃ جلد ۲ صفحہ ۳۳۶ حدیث نمبر ۴۱۷۹)خانہ بدوش مسلمانوں کے لیے قرآن کی تعلیم کا جبری انتظام کیا گیا۔ چنانچہ ایک شخص کو اس کام کے لیے مقرر کیا گیا کہ وہ اپنے ساتھیوں سمیت قبائل میں پھر کر ہر شخص کا امتحان لے اور جس کو قرآن کا کوئی حصہ یاد نہ ہو اس کو تنبیہ کریں۔
بعض بزرگ صحابہ کو حضرت عمرؓ نے دور دراز اسلامی ممالک میں بھیجا تاکہ لوگوں کو نمازاور قرآن سکھائیں۔(تذکرۃ الحفاظ ذہبی جلد ۱ صفحہ ۲۰)عربی گرائمر یعنی صرف و نحو کی تحریری ابتدا ہوئی اس سلسلہ میں حضرت علیؓ کے خاص کردار کا ذکر ملتا ہے۔
خوف کی تبدیلی
خلافت کا دوسرا بڑا نشان خوف کا امن سے بدلنا ہے۔جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے اور آپؐ کو ریاست مدینہ کا سربراہ بنایا گیا اس وقت یہ ریاست چند کلومیٹرپر مشتمل تھی جو آپؐ کی وفات کے وقت ۱۰ لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیل چکی تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات اس ابھرتی ہوئی قوم کے لیے صدمہ عظیم تھی مخالفین اور منافقین ہر طرف سے پِل پڑے جھوٹے مدعیان نبوت لاکھوں کا لشکر لے کر مدینہ پر حملہ آور ہونے لگے۔بغاوت اور ارتداد ہم معنی ہو گئے مکہ اور مدینہ کے اطراف بیسیوں قبائل نے آزادی کا اعلان کر دیا اور اسلامی حکومت خزاں کے پتوں کی طرح لرزنے لگی مگر اللہ نے اپنی پیشگوئی کے مطابق ابو بکرؓ کو کھڑا کر دیا اور خلافت کے ذریعہ اکھڑتے ہوئے قدم جما دیے دلوں کو خوب ثبات بخشا۔بغاوتوں کو مشکل ترین حالات میں کچل دیا اور چند مہینوں کے بعد بیرونی فتوحات کاسلسلہ خلافت راشدہ میں جاری ہو گیااور چند سال بعد سلطنت اسلامیہ تین براعظموں پر حکومت کر رہی تھی۔
یہ صرف کشور کشائی نہیں تھی بلکہ قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ایک عظیم نظام حکومت تھا جس کی بنیاد عدل و انصاف اورمساوات انسانی پر رکھی گئی کسی کو یہ جرأت نہیں تھی کہ وہ مکہ اور مدینہ کی طرف میلی آنکھ سے دیکھ سکے تمام خوف امن سے بدل دیے گئے مسلمانوں نے خود اپنے لیے مشکلات اور مصائب پیدا کر لیے مگر کسی بیرونی طاقت کے لیے یہ ممکن نہیں تھا۔قرآن کریم میں ان فتوحات کی پیشگوئیاں بھی کثرت سے موجود ہیں۔
فتوحات کی پیشگوئیاں
قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مومنوں کے لیے جنت میں نہروں کا وعدہ ہے مگر یہ وعدے دنیا میں بھی پورے ہوئے۔مثال کے طور پر سورہ بقرہ آیت ۲۶ہے:وَبَشِّرِ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ اَنَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ۔اور خوشخبری دیدے ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے کہ ان کے لیے ایسے باغات ہیں جن کے دامن میں نہریں بہتی ہیں۔
اس میں مومنوں کو جنات اور نہروں والے علاقے دیے جانے کی پیشگوئی ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:اس میں رسول کریم ﷺ کے اصحاب کے لیے ان کی محنتوں اور تکالیف کے بدلے میں یہ وعدہ تھا کہ انہیں ریگستان عرب کے بدلہ میں نہروں والے ملک عطاکیے جائیں گے۔ چنانچہ خلافت راشدہ میں مسلمان دجلہ، فراط، جیحون، سیحون، یردن، اور نیل والے ملکوں کے مالک ہو گئے۔ اور اسی کی برکت سے مسلمانوں نے انڈیا کو بھی فتح کیا جس میں گنگا، جمنا، سرسوتی، اور بیسیوں دریا بہتے ہیں۔(حقائق الفرقان جلد ۱صفحہ ۱۱۹)
سورۃ الفرقان کی آیت ۱۱ ہے:تَبٰرَکَ الَّذِیۡۤ اِنۡ شَآءَ جَعَلَ لَکَ خَیۡرًا مِّنۡ ذٰلِکَ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ مِنۡ تَحۡتِہَا الۡاَنۡہٰرُ ۙ وَیَجۡعَلۡ لَّکَ قُصُوۡرًا۔بس ایک وہی برکت والا ثابت ہوا جو اگر چاہتا تو تیرے لیے اس سے بہت بہتر چیزیں بناتا یعنی ایسے باغات جن کے دامن میں نہریں بہتیں اور تیری خاطر بہت سے عظیم الشان محل بنا دیتا۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو باغات اور محلات عطا کیے جانے کا وعدہ ہے چنانچہ وہ جلد ہی طائف اور نخلہ کے باغوں کے مالک ہوئےاور قیصر و کسریٰ کے محلات کے مالک بھی بن گئے اور اپنی ترقی کے زمانہ میں بھی انہوں نے بےشمار باغات اور محلات بنائےجو آج بھی قابلِ دید ہیں۔ (تفسیر کبیر جلد۶ صفحہ۴۵۲)
رسول کریم ﷺ نے خود بھی صحابہ کو ان فتوحات کی خبر اپنی زبان مبارک سے دی۔ ہجرت مدینہ کے موقع پر جب سراقہ آپ کا تعاقب کر رہا تھا تو آپ نے اسے جان کی امان دیتے ہوئے فرمایا۔سراقہ اس وقت تیرا کیا حال ہوگا جب تیرے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن ہوں گے؟ ’’سراقہ نے حیران ہو کر پوچھا کہ ’’کسریٰ بن ہرمز شہنشاہ ایران؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’ہاں‘‘سراقہ کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں کہاں عرب کے صحرا کا ایک بدوی اور کہاں کسریٰ شہنشاہ ایران کے کنگن ! مگر قدرت حق کا تماشا دیکھو کہ جب حضرت عمرؓ کے زمانہ میں ایران فتح ہوا اور کسریٰ کا خزانہ غنیمت میں مسلمانوں کے ہاتھ آیا تو کسریٰ کے کنگن بھی غنیمت کے مال کے ساتھ مدینہ میں آئے۔ حضرت عمرؓنے سراقہ کوبلایا جو فتح مکہ کے بعد مسلمان ہو چکا تھا۔ اور اپنے سامنے اس کے ہاتھوں میں کسریٰ کے کنگن جو بیش قیمت جواہرات سے لدے ہوئے تھے پہنائے۔ (اسد الغابہ، ذکر سراقہ)
غزوہ احزاب کا ذکر ہے۔سخت فاقے اور سردی کے ان ایام میں صحابہ ؓتھکن سے چور تھے اور ایک پتھر توڑنے میں کامیاب نہ ہو سکے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطلاع دی۔ آپؐ نے بھی صحابہؓ کی طرح پیٹ پر پتھر باندھ رکھے تھے۔ آپ نے کدال لے کر تین دفعہ اس پتھر پر ماری تو وہ ریزہ ریزہ ہو گیا۔ ہر ضرب کے ساتھ ایک شعلہ نکلا اور روم اور ایران اور یمن کی عظیم فتوحات کی خوشخبریاں آپ کو دی گئیں۔ (سیرت ابن ہشام جلد۳صفحہ ۷۰۴مکتبہ محمد علی صبیح۔ مصر۱۹۶۳ء)
چند سال بعد ہی یہ باتیں پوری ہوئیں۔مسلمان ایسے باغات کے وارث ہوئے جن کے نیچے جیہون۔ سیحون۔ گنگا جمنا بہتے ہیں اور ایسے ملکوں کے وارث ہوئے جن میں قیصرو کسریٰ کے محلات تھے۔ (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۲۴۲)
سورۃ الرحمان کی آیت نمبر ۳۴ ہے:یٰمَعۡشَرَ الۡجِنِّ وَالۡاِنۡسِ اِنِ اسۡتَطَعۡتُمۡ اَنۡ تَنۡفُذُوۡا مِنۡ اَقۡطَارِ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضِ فَانۡفُذُوۡا ؕ لَا تَنۡفُذُوۡنَ اِلَّا بِسُلۡطٰنٍ۔اے جن و اِنس کے گروہ! اگر تم استطاعت رکھتے ہو کہ آسمانوں اور زمین کی حدود سے باہر نکل سکو تو نکل جاؤ۔ تم نہیں نکل سکو گے مگر ایک غالب استدلال کے ذریعہ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ فرماتے ہیں:یہ اسلامی سلطنت کے متعلق بڑی پیشگوئی ہے کہ وہ اس قدر پھیلے گی کہ کفار عرب امیر ہوں یا غریب جن ہوں یا انسان اس سے باہر نہیں بھاگ سکیں گے۔ (بحوالہ ترجمہ قرآن میر محمد سعید صفحہ ۱۱۳۲ )
سورہ سبا کی آیت نمبر ۳۷ ہے: اِنَّ رَبِّیۡ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ۔تُو کہہ دے یقیناً میرا ربّ جس کے لیے چاہے رزق کشادہ کر دیتا ہے۔
اس میں پیشگوئی ہے کہ عنقریب اس کھلے رزق کے وارث مسلمان ہوں گے۔ (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۴۳۷)
سورۃ الغاشیہ کی آیت نمبر۹ہے:وُجُوۡہٌ یَّوۡمَئِذٍ نَّاعِمَۃٌ (بعض چہرے اس دن تروتازہ ہوں گے )ناعمہ سے مراد ہے کہ صحابہؓ اپنے اخلاق کی وجہ سے مقبول جہاں ہو جائیں گے۔ (تفسیر کبیر جلد۸ صفحہ ۴۶۱)
سورہ احزاب کی آیت نمبر ۲۸ہے:وَاَوۡرَثَکُمۡ اَرۡضَہُمۡ وَدِیَارَہُمۡ وَاَمۡوَالَہُمۡ وَاَرۡضًا لَّمۡ تَطَـُٔوۡہَا۔اور تمہیں ان کی زمین اور ان کے مکانوں اور ان کے اموال کا وارث بنا دیا اور ایسی زمین کا بھی جسے تم نے اس وقت تک قدموں تلے پامال نہیں کیا تھا ۔اس سے مراد ارض شام ہے۔(حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۴۰۲)
سورہ مریم کی آیت نمبر ۶۴ہے:تِلۡکَ الۡجَنَّۃُ الَّتِیۡ نُوۡرِثُ مِنۡ عِبَادِنَا۔(یہ وہ جنت ہے جس کا وارث ہم اپنے بندوں کو بنائیں گے۔) جنت سے مراد ارض مقدس کی فتح ہے۔ (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۷۴)
سورۃ فاطر کی آیت نمبر۳۴ ہے:جَنّٰتُ عَدۡنٍ یَّدۡخُلُوۡنَہَا یُحَلَّوۡنَ فِیۡہَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَہَبٍ وَّلُؤۡلُؤًا ۚ وَلِبَاسُہُمۡ فِیۡہَا حَرِیۡرٌ ۔ ہمیشگی کی جنتیں ہیں جن میں وہ داخل ہوں گے وہ ان میں سونے کے کنگن اور موتی پہنائے جائیں گے۔ اور ان میں ان کا لباس ریشم ہوگا۔اس میں ایران کی فتح کی پیشگوئی ہے۔(حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۴۵۲)
سورۃ الدھر کی آیت نمبر۲۲ ہے:عٰلِیَہُمۡ ثِیَابُ سُنۡدُسٍ خُضۡرٌ وَّاِسۡتَبۡرَقٌ ۫ وَّحُلُّوۡۤا اَسَاوِرَ مِنۡ فِضَّۃٍ۔ان پر باریک ریشم کے سبز لباس ہوں گے اور موٹے ریشم کے بھی اور ان کو چاندی کے کنگن پہنائے جائیں گے۔
یعنی عنقریب شام و ایران کے شاہی ریشمی لباس تمہیں دیے جائیں گے۔ (حقائق الفرقان جلد ۴صفحہ ۲۹۶)
سورۃ الواقعہ کی آیات ۱۹،۱۸ ہے:یَطُوۡفُ عَلَیۡہِمۡ وِلۡدَانٌ مُّخَلَّدُوۡنَ بِاَکۡوَابٍ وَّاَبَارِیۡقَ ۬ۙ وَکَاۡسٍ مِّنۡ مَّعِیۡنٍ (ان پر نوعمر (خدمت کرنے والے) لڑکے طواف کررہے ہوں گے جنہیں ہمیشگی عطا کی گئی ہے۔کٹورے اور صراحیاں اور شفاف پانی سے بھرے ہوئے پیالے لیے ہوئے۔)
یہ ایک بشارت ہے جو فتوحات روم اور ایران میں جلال کے ساتھ ظاہر ہوئی اورادھیڑ شاہی خاندان کے شہزادے مسلمانوں کے خادم ہوئے مخلد اس ادھیڑ کو بھی کہتے ہیں جس کے بال سفید ہو گئے ہوں۔ (حقائق الفرقان جلد۴ صفحہ ۴۴)
سورۃ المطففین کی آیات نمبر۲۴ تا ۲۹ ہیں:عَلَی الۡاَرَآئِکِ یَنۡظُرُوۡنَ۔تَعۡرِفُ فِیۡ وُجُوۡہِہِمۡ نَضۡرَۃَ النَّعِیۡمِ۔ يُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِيْقٍ مَّخْتُوْمٍ۔خِتٰمُہٗ مِسۡکٌ ؕ وَفِیۡ ذٰلِکَ فَلۡیَتَنَافَسِ الۡمُتَنَافِسُوۡنَ۔وَمِزَاجُهُ مِنْ تَسْنِيْمٍ۔عَيْنًا يَّشْرَبُ بِهَا الْمُقَرَّبُوْنَ۔ابرار آراستہ تختوں پر متمکن نظارہ کر رہے ہوں گے تو ان کے چہروں میں نازو نعم کی تروتازگی پہچان لے گا وہ ایک سر بمہر شراب میں سے پلائے جائیں گے اس کی مہر مشک ہو گی پس اسی معاملہ میں چاہیے کہ مقابلہ کی رغبت رکھنے والے ایک دوسرے سے بڑھ کر رغبت کریں اس کا مزاج تسنیم سے مرکب ہو گا۔
اس میں مومنین کے لیے بشارا ت ہیں۔ صحابہ کرامؓ نے جب عجم و شام کی فتوحات حاصل کیں تو یہ پیشگوئی کس شان سے پوری ہوئی بہتے ہوئے چشمے اور دریا اور سبزہ زار اور ہر قسم کے مرغزاراور تخت موجود تھے۔(حقائق الفرقان جلد ۴ صفحہ ۳۴۶)
سورہ قریش کی آیت نمبر ۳ ہے:اٖلٰفِہِمۡ رِحۡلَۃَ الشِّتَآءِ وَالصَّیۡفِ۔قریش میں ربط بڑھانے کے لیے ہم نے سردیوں اور گرمیوں کے سفر بنائے ہیں۔
اس میں ایک پیشگوئی مخفی ہے کہ خدا نے تمہارے واسطے بڑے بڑے سفر مقدر کر رکھے ہیں وہ لمبے سفر ہوں گے جن میں تمہیں سردیاں بھی گزارنی پڑیں گی اور گرمیاں بھی۔ (حقائق الفرقان جلد ۴صفحہ ۴۷۰)
سورۃ النمل کی آیت نمبر۸۹ ہے:وَتَرَی الۡجِبَالَ تَحۡسَبُہَا جَامِدَۃً وَّہِیَ تَمُرُّ مَرَّ السَّحَابِ۔اور تُو پہاڑوں کو دیکھتا ہے اس حال میں کہ انہیں ساکن و جامد گمان کرتا ہے حالانکہ وہ بادلوں کی طرح چل رہے ہیں۔اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ قیصر و کسریٰ کی حکومتیں ایسے اڑیں گی جیسے بادل ہوا کو اڑا دیتی ہے۔(حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۳۰۳)
کسریٰ شاہ ایران کو رسو ل اللہ ﷺ نے تبلیغ کے لیے خط لکھا تو اس نے اسے پھاڑ کر ریزہ ریزہ کر دیا۔ آپؐ نے دعا کی کہ أَنْ يُمَزَّقُوا كُلَّ مُمَزَّقٍ۔ اے اللہ! اس کی سلطنت کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے۔ (صحیح بخاری کتاب العلم باب المناولہ حدیث نمبر ۶۴)تاریخ شاہد ہے دنیا کی عظیم الشان سلطنت کے بارے میں یہ دعا کس طرح حیرت انگیز طور پر قبول ہوئی کہ چند ہی سالوں میں سلطنت کسریٰ کے ایوان میں ایسا انتشار اور تزلزل برپا ہوا کہ شاہان کسریٰ اندرونی خلفشار کا شکار ہو کر ہلاک ہوئے اور یہ سلطنت رفتہ رفتہ نابود ہو کر رہ گئی۔
سورہ طٰہٰ کی آیت نمبر ۱۰۶ ہے:وَیَسۡـَٔلُوۡنَکَ عَنِ الۡجِبَالِ فَقُلۡ یَنۡسِفُہَا رَبِّیۡ نَسۡفًااور وہ تجھ سے پہاڑوں کے متعلق سوال کرتے ہیں۔ تُو کہہ دے کہ انہیں میرا ربّ ریزہ ریزہ کر دے گا۔
اس میں ان سلطنتوں کے متعلق پیشگوئی ہے جو اپنی تدابیر کے گھمنڈ میں آ کر کہتے ہیں کہ ہمیں توڑنے والا کون ہے۔(حقائق الفرقان جلد۳ صفحہ۱۰۶)
حضرت خلیفۃ المسیح الاولؓ فرماتے ہیں:مجھے یہ بات بتلائی گئی ہے کہ انہی نبیوں کا ذکر قرآن نے فرمایا ہے جن کے بلاد میں نافرمانوں اور فرمانبرداروں کے نشانات صحابہ کرام کے لیے موجود ہیں اور جہاں پیغمبر خدا نے دیکھ لینا تھا لِیَہۡلِکَ مَنۡ ہَلَکَ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ وَّیَحۡیٰی مَنۡ حَیَّ عَنۡۢ بَیِّنَۃٍ (انفال:۴۳)صحابہ وہاں پر پہنچے۔ (حقائق الفرقان جلد ۲ صفحہ ۲۶۶ )
سورہ بنی اسرائیل کی آیت ۲ ہے:سُبۡحٰنَ الَّذِیۡۤ اَسۡرٰی بِعَبۡدِہٖ لَیۡلًا مِّنَ الۡمَسۡجِدِ الۡحَرَامِ اِلَی الۡمَسۡجِدِ الۡاَقۡصَا الَّذِیۡ بٰرَکۡنَا حَوۡلَہٗ لِنُرِیَہٗ مِنۡ اٰیٰتِنَا۔پاک ہے وہ جو رات کے وقت اپنے بندے کو مسجدِ حرام سے مسجدِ اقصیٰ کی طرف لے گیا جس کے ماحول کو ہم نے برکت دی ہے۔ تاکہ ہم اسے اپنے نشانات میں سے کچھ دکھائیں۔
اس عظیم کشف میں جواسراء کے نام سے معروف ہے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہجرت سے پہلے دیکھا آپ کو ہجرت مدینہ کی خبر دی گئی تھی اور بیت المقدس سے مراد مسجد نبوی کی تعمیر تھی اور انبیاء کی امامت سے یہ مراد تھی کہ اب آپ کا سلسلہ عربوں سے نکل کر دوسری اقوام میں پھیلنے والا ہے اور سب انبیاء کی امتیں اسلام میں داخل ہوں گی۔اور بیت المقدس کے علاقے کی حکومت آپ کو دی جائے گی جو اس وقت عیسائیوں کے قبضے میں تھا۔چنانچہ خلافت راشدہ میں حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مسلمانوں نے یروشلم فتح کر لیا اور ۱۳۰۰ سال تک اس پر مسلمانوں کا قبضہ رہا۔
مسجد اقصیٰ کے ایک معنی بنی اسرائیل والی مسجد اقصیٰ ہے اور یہ تعبیر ہے کہ آپ کو اس ملک پر قبضہ دیا جائے گا چنانچہ حضرت عمرؓ کے زمانہ میں مسلمانوں کا فلسطین پر قبضہ ہوگیا۔(تفسیر کبیرجلد۴صفحہ۲۹۷)
حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیںکہ آنحضرت ﷺ کا معراج تین پہلو رکھتا ہے سیر مکانی اور سیر زمانی اور سیر لا مکانی و لا زمانی۔سیر مکانی میں یہ اشارہ ہے کہ اسلامی ملک مکہ سے بیت المقدس تک پھیلے گا اور سیر زمانی میں آپ کی تعلیمات اور تاثیرات کی طرف اشارہ ہے یعنی یہ کہ مسیح موعود کا زمانہ بھی آنحضرت ﷺ کی تاثیرات سے تربیت یافتہ ہو گا جیسا کہ قرآن میں فرمایا ہے وَآخَرِينَ مِنْهُمْ لَمَّا يَلْحَقُوا بِهِمْ اور سیر لامکانی اور لا زمانی میں اعلیٰ ٰ درجہ کے قرب الی اللہ کی طرف اشارہ ہے (ماخوذ از خطبہ الہامیہ۔روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۲۶) مسیح موعود کی مسجد بھی مسجد اقصیٰ ہے کیونکہ وہ اسلام کے ابتدائی زمانہ سے دُور تر اور انتہائی زمانہ پر ہے۔(ماخوذ از خطبہ الہامیہ۔روحانی خزائن جلد ۱۶ صفحہ ۱۹ )
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک روحانی سفر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب اسلام پر تاریکی کا زمانہ آئے گا تو رسول اللہﷺ ایک دور کی مسجد کا سفر اختیار کریں گے اور آپ کے متبع کی اطاعت سے امت محمدیہ کو وہی برکات ملیں گی جو انبیاء بنی اسرائیل اور ان کے اتباع کو ملی تھیں۔ (تفسیر کبیر جلد۴صفحہ۲۹۷)
سورہ بقرہ کی آیت ۱۴۳ہے:قُلۡ لِّلّٰہِ الۡمَشۡرِقُ وَالۡمَغۡرِبُ ۔ تُو کہہ دے مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں۔اس میں مسلمانوں کی مشرق و مغرب کی فتوحات کا ذکر ہے۔ اور یہ لطیف اشارہ بھی کہ پہلے دور میں اسلام مشرق میں زیادہ پھیلے گا اور آخری زمانہ میں مغرب میں بھی پھیل جائے گا۔ (تفسیر کبیر جلد۲ صفحہ ۱۳۶)
سورۃ حج کی آیت نمبر ۲۴ ہے:یُحَلَّوۡنَ فِیۡہَا مِنۡ اَسَاوِرَ مِنۡ ذَہَبٍ وَّلُؤۡلُؤًا ؕ وَلِبَاسُہُمۡ فِیۡہَا حَرِیۡرٌ۔یقیناًجنتوں میں انہیں سونے کے کڑے اور موتی پہنائے جائیں گے اور ان میں ان کا لباس ریشم ہو گا۔
حضرت خلیفہ اولؓ فرماتے ہیں کہ سورۃ حج فتوحات کی پیشگوئیوں سے بھرپور ہے اس میں فتح مکہ اور فتح عراق کا بھی ذکر ہے عرب قوم اونٹوں بکریوں کے بالوں کے کپڑے پہنتے نہ ریشم نہ نرم کپڑے۔ اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ تم عراق عرب ایسے ممالک کے فاتح ہو گے ریشم دیا جائے گا زیورات دیے جائیں گے۔ (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۱۴۵)
سورۃ النصر کی آیت نمبر ۲ ہے:اِذَا جَآءَ نَصۡرُ اللّٰہِ وَالۡفَتۡحُ ۔یعنی جب اللہ کی مدد اور فتح آئے گی۔بعض مفسرین کے نزدیک یہ سورت فتح مکہ سے پہلے کی ہے اور اس میں فتح مکہ کی پیشگوئی ہے مگر حضرت مصلح موعودؓکے نزدیک اس سورت کا نزول حجۃ الوداع کے موقع پر ہوا اور اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ فتوحات کا سلسلہ آپ کی وفات کے بعد خلافت راشدہ میں بھی جاری رہے گا اور لوگ گروہ در گروہ اسلام میں داخل ہوں گے اس لیے رسول اللہ ان کے لیے دعا کرتے رہیں۔ (تفسیر کبیر جلد۱۰صفحہ ۴۷۰)
سورہ لقمان کی آیت نمبر۳۲ ہے: اَلَمۡ تَرَ اَنَّ الۡفُلۡکَ تَجۡرِیۡ فِی الۡبَحۡرِ بِنِعۡمَتِ اللّٰہِ۔کیا تُو نے غور نہیں کیا کہ سمندر میں کشتیاں اللہ کی نعمت کے ساتھ چلتی ہیں ۔اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ مسلمانوں کی فتوحات وہاں تک پہنچیں گی کہ وہ جہازوں میں سوار ہو کر ان ممالک اور جزائر تک جائیں گے چنانچہ حضرت عثمان کے دور میں ایساہی ہوا (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ ۳۷۲)
سورہ لقمان کی آیت نمبر ۳۵ ہے:مَا تَدۡرِیۡ نَفۡسٌۢ بِاَیِّ اَرۡضٍ تَمُوۡتُ۔(اور کوئی ذی روح نہیں جانتا کہ کس زمین میں وہ مَرے گا۔اس میں یہ پیشگوئی ہے کہ عرب کے مسلمان دور دراز علاقوں کے فاتح ہو کر ان ممالک میں فوت ہو کر دفن ہوں گے چنانچہ حضرت عباسؓ کا ایک بیٹا تاتار میں دفن ہوا ایک یورپ میں ایک افریقہ میں اور ایک عرب میں۔ (حقائق الفرقان جلد ۳ صفحہ۳۷۵)
انذاری پیشگوئیاں
سورۃ الفلق کی آیت نمبر ۵ ہے:وَمِنۡ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الۡعُقَدِ۔(اور میں گرہوں میں پھونکنے والیوں کے شر سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔)اس میں مسلمانوں کے تنزل کی ایک وجہ بیان کی گئی ہے کہ خلافت راشدہ کے اندر مسلمانوں کے دلوں میں وسوسے پیدا کیے جائیں گے اور انتشار پیدا کر کے ان کی مرکزیت ختم کی جائے گی پس ایسے وقت میں مسلمانوں کو دعا سے کام لینا چاہیے۔(تفسیر کبیر جلد۱۰صفحہ ۵۷۴)
سورۃ النور کی آیات نمبر۶۰،۵۹ ہیں:یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِیَسۡتَاۡذِنۡکُمُ الَّذِیۡنَ مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ وَالَّذِیۡنَ لَمۡ یَبۡلُغُوا الۡحُلُمَ مِنۡکُمۡ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ ؕ مِنۡ قَبۡلِ صَلٰوۃِ الۡفَجۡرِ وَحِیۡنَ تَضَعُوۡنَ ثِیَابَکُمۡ مِّنَ الظَّہِیۡرَۃِ وَمِنۡۢ بَعۡدِ صَلٰوۃِ الۡعِشَآءِ۟ؕ ثَلٰثُ عَوۡرٰتٍ لَّکُمۡ۔… وَاِذَا بَلَغَ الۡاَطۡفَالُ مِنۡکُمُ الۡحُلُمَ فَلۡیَسۡتَاۡذِنُوۡا کَمَا اسۡتَاۡذَنَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ؕ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمۡ اٰیٰتِہٖ ؕ وَاللّٰہُ عَلِیۡمٌ حَکِیۡمٌ۔اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو! تم میں سے وہ جو تمہارے زیر نگیں ہیں اور وہ جو تم میں سے ابھی بالغ نہیں ہوئے، چاہئے کہ وہ تین اوقات میں تم سے اجازت لیا کریں۔ صبح کی نماز سے قبل اور اس وقت جب تم قیلولے کے وقت زائدکپڑے اتار دیتے ہو اور عشاء کی نماز کے بعد۔ یہ تین تمہارے پردے کے اوقات ہیں…اور جب تم میں سے بچے بلوغت کو پہنچ جائیں تو اسی طرح اجازت لیا کریں جس طرح ان سے پہلے لوگ اجازت لیتے رہے۔اسی طرح اللہ تمہارے لیے اپنی آیات کو کھول کھول کر بیان کرتا ہے اور اللہ دائمی علم رکھنے والا بہت حکمت والا ہے۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیںکہ ان آیات میں یہ اشارہ کیا گیا ہے کہ کچھ وقت انسان پر غفلت کے بھی آتے ہیں ایسی غفلت کے اوقات میں بہت ہوشیار رہنا چاہیے۔اور غلاموں اور بچوں کو بھی بغیر اجازت گھر میں داخل نہیں ہونے دینا چاہیے۔
اسی طرح اس آیت میں یہ پیشگوئی بھی پائی جاتی ہے کہ جب مسلمانوں کو قومی طورپر غلبہ حاصل ہو گا تو غلاموں کا رواج اُن میں بڑھ جائیگا۔چنانچہ اندلس اور بغداد میں زیادہ تر کام غلاموں سے ہی لیا گیا اور یہی مسلمانوں کی تباہی کا موجب ہوا۔میں سمجھتا ہوں کہ اگر اس آیت کے مضمون کو محض گھریلو مضمون نہ سمجھا جاتا بلکہ یہ سمجھا جاتا کہ یہ آیت چونکہ خلافت کے ذکر کے بعد آئی ہے اس لیے اس میں کوئی قومی مضمون بیان ہوا ہے تو مسلمان اپنی کمزوری کے وقتوں میں اور زیادہ ہوشیار ہو جاتے جیسا کہ حضرت عثمانؓ اور حضرت علیؓ کے آخری ایام میں۔اور کسی غیر کو خواہ وہ کتنا ہی بے ضرر نظر آتا اپنے نظام کے پاس تک نہ پھٹکنے دیتے۔اگر وہ ایسا کرتے تو نہ حضرت عثمانؓ کی شہادت ہوتی اور نہ حضر ت علیؓ کی۔حضرت علیؓ کی شہادت صبح کی نماز کے وقت ہوئی تھی۔ اگر مسلمان اُس وقت اس گھر کا پہرہ دے رہے ہوتے توایک خارجی کی کیا مجال تھی کہ آپ پر حملہ کرتا۔جب مسلمانوں کو جب حکومت مل جائے تو انہیں ہر وقت اپنے ملک کی حفاظت کا فکر رکھنا چاہیے اور کبھی بھی اس سے غافل نہیں ہونا چاہیے۔مگر افسوس ہے کہ مسلمانوں نے اپنی طاقت کے زمانہ میں اس ہدایت پر عمل نہ کیا اور ایسےغافل ہوئے کہ دشمن انہیں تباہ کرنے میں کامیاب ہوگیا چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ رسول کریم ﷺ کے وقت گھروں کے دروازے ہوتے تھے جن کے کھولے بغیر کوئی شخص اندر داخل نہیں ہو سکتا تھا لیکن خلافتِ عباسیہ اور خلافت اندلس اور خلافتِ فاطمیہ میں دروازے نہیں ہوتے تھے بلکہ صرف زینت کے طور پر پردے گرائے جاتے تھے گویا زینت اس وقت مقدم ہوگئی تھی اور حفاظتِ نفس مؤخر ہوگئی تھی۔جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ کئی خلفاء غلاموں کے ہاتھ سے ہی مارے گئے۔ (تفسیرکبیر جلد۶ صفحہ ۳۹۵)
مزید پڑھیں: مصلح موعودؓکے عالمی شہرت پانے کی عظیم الشان داستان کے چالیس پہلو