حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

احسان اور عفو کو اختیار کرو

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۰؍فروری ۲۰۰۴ء)

معاشرے میں جب برائیوں کا احساس مٹ جائے تو ایسے معاشرے میں رہنے والا ہرشخص کچھ نہ کچھ متاثر ضرور ہوتا ہے اور اپنے نفس کے بارے میں، اپنے حقوق کے بارے میں زیادہ حساس ہوتا ہے اور دوسرے کی غلطی کو ذرا بھی معاف نہیں کرنا چاہتا، چنانچہ دیکھ لیں، آج کل کے معاشرے میں کسی سے ذرا سی غلطی سرزد ہو جائے تو ایک ہنگامہ برپا ہوجاتا ہے چاہے اپنے کسی قریبی عزیز سے ہی ہو اور بعض لوگ کبھی بھی اس کو معاف کرنے کے لئے تیار نہیں ہوتے۔ اور اسی وجہ سے پھر خاوند بیوی کے جھگڑے، بہن بھائیوں کے جھگڑے، ہمسایوں کے جھگڑ ے، کاروبار میں حصہ داروں کے جھگڑے، زمینداروں کے جھگڑے ہوتے ہیں حتیٰ کہ بعض دفعہ راہ چلتے نہ جان نہ پہچان ذرا سی بات پہ جھگڑا شروع ہو جاتا ہے۔ مثلاً ایک راہ گیرکا کندھا رش کی وجہ سے یا کسی اور وجہ سے ٹکرا گیا، کسی پر پاؤں پڑ گیا تو فوراً دوسرا آنکھیں سرخ کرکے کوئی نہ کوئی سخت بات اس سے کہہ دیتا ہے پھر دوسرا بھی کیونکہ اسی معاشرے کی پیداوار ہے، اس میں بھی برداشت نہیں ہے، وہ بھی اسی طرح کے الفاظ الٹا کے اس کو جواب دیتا ہے۔ اور بعض دفعہ پھر بات بڑھتے بڑھتے سر پھٹول اور خون خرابہ شروع ہو جاتا ہے۔ پھر بچے کھیلتے کھیلتے لڑ پڑیں توبڑے بھی بلاوجہ بیچ میں کود پڑتے ہیں او رپھر وہ حشر ایک دوسرے کا ہو رہا ہوتا ہے کہ اللہ کی پناہ۔ اور اس معاشرے کی بے صبری اور معاف نہ کرنے کا اثر غیر محسوس طریق پر بچوں پر بھی ہوتا ہے، گزشتہ دنوں کسی کالم نویس نے ایک کالم میں لکھا تھا کہ ایک باپ نے یعنی اس کے دوست نے اپنے ہتھیار صرف اس لئے بیچ دئیے کہ محلے میں بچوں کی لڑائی میں اس کا دس گیارہ سال کا بچہ اپنے ہم عمر سے لڑائی کر رہا تھا کچھ لوگوں نے بیچ بچاؤ کروا دیا۔ اس کے بعد وہ بچہ گھر آیا اور اپنے باپ کا ریوالور یا کوئی ہتھیار لے کے اپنے دوسرے ہم عمر کو قتل کرنے کے لئے باہر نکلا۔ اس نے لکھا ہے کہ شکر ہے پستول نہیں چلا، جان بچ گئی۔ لیکن یہ ماحول اور لوگوں کے رویے معاشرے پر اثر انداز ہو رہے ہیں۔ اور معاشرے کی یہ کیفیت ہے اس وقت کہ بالکل برداشت نہیں معاف کرنے کی بالکل عادت نہیں، اور یہ واقعہ جو میں نے بیان کیا ہے پاکستان کا ہے لیکن یہاں یورپ میں بھی ایسے ملتے جلتے بہت سے واقعات ہیں جن کی مثالیں ملتی ہیں۔ بعض دفعہ اخباروں میں آ جاتا ہے۔ تو جب اس قسم کے حالات ہوں تو سوچیں کہ ایک احمدی کی ذمہ داری کس حد تک بڑھ جاتی ہے۔ اپنے آپ کو، اپنی نسلوں کو اس بگڑتے ہوئے معاشرے سے بچانے کے لئے بہت کوشش کرنے کی ضرورت ہے۔ اور ہمارے لئے کس قدر ضروری ہو جاتا ہے کہ ہم قرآنی تعلیم پر پوری طرح عمل کرنے کی کوشش کریں۔ یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے اس میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ لوگ جو آسائش میں خرچ کرتے ہیں اور تنگی میں بھی، اور غصہ دبا جانے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے ہیں اور اللہ احسان کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔

اس میں احسان کرنے والوں کے بارے میں یہ بتایا ہے کہ جب تم یہ نہیں دیکھو گے کہ تمہاری ضروریات پوری ہوتی ہیں کہ نہیں تمہیں مالی کشائش ہے یا نہیں اور ہر حال میں اپنے بھائیوں کا خیال رکھو گے تو نیکی کرنے کی روح پیدا ہو گی اور پھر فرمایا کہ ایک بہت بڑا خلق تمہارا غصے کو دبانا ہے۔ اور لوگوں سے عفو کا سلوک کرنا ہے اور ان سے درگزر کرنا ہے۔ تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم لوگوں سے عفو کا سلوک کرو گے معاف کرنے کی عادت ڈالو گے، اس لئے کہ معاشرے میں فتنہ نہ پھیلے، اس لئے کہ تمہارے اس سلوک سے شاید جس کو تم معاف کر رہے ہو اس کی اصلاح ہو جائے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے لوگوں سے میں محبت کرتا ہوں۔ آج کل کے معاشرے میں جہاں ہر طرف نفسا نفسی کا عالم ہے یہ خُلق تو اللہ تعالیٰ کی نگاہ میں اور بھی پسندیدہ ٹھہرے گا اور آج اگر یہ اعلیٰ اخلاق کوئی دکھا سکتا ہے تو احمدی ہی ہے۔ جنہوں نے ان احکامات پر عمل پیرا ہونے کے لئے زمانے کے امام کے ہاتھ پر تجدید بیعت کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے عفو کے مضمون کی اہمیت کے پیش نظر مختلف جگہوں پر قرآن کریم میں اس بارے میں احکامات دئیے ہیں، مختلف معاملات کے بارے میں، مختلف سورتوں میں۔ میں ایک دو اور مثالیں پیش کرتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ دوسری جگہ قرآن شریف میں فرماتا ہے۔ خُذِالْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَاَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ (الاعراف:۲۰۰)

یعنی عفو اختیار کر، معروف کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کشی اختیار کر۔ یہاں فرمایا معاف کرنے کا خُلق اختیار کرو اور اچھی باتوں کا حکم دو اگر کسی سے زیادتی کی بات دیکھو تو درگزرکرو۔ فوراً غصہ چڑھا کر لڑنے بھڑنے پر تیار نہ ہوجایا کرو اور ساتھ یہ بھی کہ جو زیادتی کرنے والا ہے اس کو بھی آرام سے سمجھاؤ کہ دیکھو تم نے ابھی جو باتیں کی ہیں مناسب نہیں ہیں اور اگر وہ باز نہ آئے تو وہ جاہل شخص ہے، تمہارے لئے یہی مناسب ہے کہ پھر ایک طرف ہو جاؤ چھوڑ دو اس جگہ کو اور اس کو بھی اس کے حال پر چھوڑ دو۔ دیکھیں کہ یہ کتنا پیارا حکم ہے اگر کسی طرح عفو اختیار کیا جائے تو سوال ہی نہیں ہے کہ معاشرے میں کوئی فتنہ و فساد کی صورت پیدا ہو۔ لیکن یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس طرح تو پھرفتنہ پیدا کرنے والے اور فساد کرنے والوں کو کھلی چھٹی مل جائے گی، وہ شرفاء کا جینا حرام کر دیں گے۔ اور شریف آدمی پرے ہٹ جائے گا۔ یہ تو نہیں ہو سکتا کہ فساد کرنے والے معاشرے میں رہیں اور فساد بھی کرتے رہیں، ان کی اصلاح بھی تو ہونی چاہئے اگر تمہارا معاف کرنا ان کو راس نہیں آتا تو پھران کی اصلاح کے پیش نظر اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو بھی چھوڑا نہیں ہے دوسری جگہ حکم فرمایا ہے کہ وَجَزَآؤُ سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثْلُھَا۔ فَمَنْ عَفَا وَاَصْلَحَ فَاَجْرُہٗ عَلَی اللّٰہِ۔ اِنَّہٗ لَایُحِبُّ الظّٰلِمِیْنَ (الشوریٰ :۱۴) بدی کا بدلہ اتنی ہی بدی ہوتی ہے اور جو معاف کرے اور اصلاح کو مدنظر رکھے اس کا بدلہ دینا اللہ تعالیٰ کے ذمہ ہوتا ہے اور اللہ ظالموں کو پسند نہیں کرتا۔

اب ہر کوئی تو بدی کا بدلہ نہیں لے سکتا کیونکہ اگر یہ دیکھے کہ فلاں شخص کی اصلاح نہیں ہو رہی باز نہیں آ رہا تو خود ہی اگر اس کی اصلاح کی کوشش کی جائے گی تو پھر تو اور فتنہ و فساد معاشرے میں پیدا ہو جائے گا۔ یہ تو قانون کو ہاتھ میں لینے والی باتیں ہو جائیں گی۔ اس کی وجہ سے ہر طرف لاقانونیت پھیل جائے گی۔ اس کے لئے بہرحال ملکی قانون کا سہارا لینا ہو گا، قانون پھر خود ہی ایسے لوگوں سے نبٹ لیتا ہے۔ اور اکثر دیکھا گیا ہے کہ عام طور پرایسے، اپنے آپ کو بہت کچھ سمجھنے والے، لڑائی کرنے والے، فتنہ وفساد پیدا کرنے والے، لا قانونیت پھیلانے والے جب قانون کی گرفت میں آتے ہیں تو پھر صلح کی طرف رجوع کرتے ہیں، سفارشیں آ رہی ہوتی ہیں کہ ہمارے سے صلح کر لو تو فرمایا کہ اصل میں تو تمہارے مدنظر اصلاح ہے اگر سمجھتے ہو کہ معاف کرنے سے اس کی اصلاح ہو سکتی ہے تو معاف کر دو لیکن اگر یہ خیال ہو کہ معاف کرنے سے اس کی اصلاح نہیں ہو سکتی یہ تو پہلے بھی یہی حرکتیں کرتا چلا جا رہا ہے اور پہلے بھی کئی دفعہ معاف کیا جا چکا ہے لیکن اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگی، ناقابل اصلاح شخص ہے تو پھر بہرحال ایسے شخص کو سزا ملنی چاہئے۔ اور اس کے مطابق جماعتی نظام میں بھی تعزیر کا، سزا کا طریق رائج ہے، جب اللہ تعالیٰ کے احکامات کو توڑو گے، جب دوسروں کے حقوق غصب کرو گے جب بھائی کی زمین یا جائیداد پر قبضہ کرنے کی کوشش کرو گے، جب بیوی پر ظلم کرو گے تو نظام کی طرف سے تو سزا ملے گی۔ جس کو سزا ملی ہو وہ درخواستیں لکھنا شروع کر دیتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ تو معاف کرنے کو پسند کرتا ہے۔ فوراً معاف کرنے والا حکم ان کے سامنے آجاتا ہے اور اس کے مفسر بن جاتے ہیں۔ اگلی بات بھول جاتے ہیں کہ اصلاح کی خاطر سزا دینا بھی اللہ کا حکم ہے۔ ہر احمدی کو ہر وقت یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اگر اس بھیانک معاشرے میں اس نے بھی اپنا رویہ ٹھیک نہ کیا تو پھر حضرت اقدس مسیح موعود ؑ کے ارشاد کے مطابق وہ جماعت سے کاٹا جائے گا۔ بہرحال اصلاح کی خاطر عفو سے کام لینا مستحسن ہے۔ لیکن اگر بدلہ لینا ہے تو ہر ایک کا کام نہیں ہے کہ قانون کو اپنے ہاتھ میں لے لے۔ یہ قانون کا کام ہے کہ اصلاح کی خاطر قانونی کارروائی کی جائے یا اگر نظام جماعت کے پاس معاملہ ہے تو نظام خود دیکھے گا ہر ایک کو دوسرے پر ہاتھ اٹھانے کی اجازت بہرحال نہیں ہے۔

جیسا کہ میں نے شروع میں کہا کہ چھوٹی موٹی غلطیوں سے درگزر کر دینا ہی بہتر ہوتا ہے تاکہ معاشرے میں صلح جوئی کی بنیاد پڑے، صلح کی فضا پیدا ہو۔

مزید پڑھیں: سچائی کے خلق کو اپنائیں

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button