متفرق مضامین

۸؍مارچ :خواتین کا عالمی دن

خواتین کا عالمی دن ہر سال ۸؍مارچ کو دنیا بھر میں منایا جاتا ہے تاکہ خواتین کی سماجی، سیاسی اور اقتصادی کامیابیوں کا اعتراف کیا جا سکے اور ان کے حقوق کے تحفظ کا عزم دہرایا جا سکے۔ اس دن کے منانے کا مقصد یہ ہے کہ خواتین کے کردار کو تسلیم کرنے کا موقع فراہم کیا جائے اور ان مسائل پر بھی روشنی ڈالی جائے جو آج بھی خواتین کو درپیش ہیں، جیسے صنفی مساوات، کام کی جگہ پر امتیازی سلوک، ہراسانی، گھریلو تشدد اور تعلیم کے مواقع کی کمی۔

خواتین کے عالمی دن کی جڑیں بیسویں صدی کے اوائل میں مزدور تحریکوں اور خواتین کے حقوق کی جدوجہد میں ملتی ہیں۔ ۱۹۰۸ء میں نیویارک میں کام کرنے والی خواتین نے بہتر کام کے حالات، کم اوقاتِ کار اور ووٹ کے حق کے لیے ایک بڑی ہڑتال کی۔ اس کے بعد ۱۹۰۹ء میں امریکہ کی سوشلسٹ پارٹی نے پہلا ’’قومی یومِ نسواں‘‘منایا۔ ۱۹۱۰ء میں ڈنمارک کے شہر کوپن ہیگن میں ’’انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ ویمن‘‘ منعقد ہوئی، جہاں جرمن حقوقِ نسواں کی کارکن کلارا زیٹکن نے خواتین کے لیے ایک عالمی دن مخصوص کرنے کی تجویز دی۔ ۱۹۱۱ء میں یہ دن پہلی بار آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ میں منایا گیا، جہاں لاکھوں افراد نے خواتین کے حقوق کے لیے ریلیاں نکالیں۔

یہ دن وقت کے ساتھ ساتھ زیادہ اہمیت اختیار کرتا گیا اور مختلف مسائل جیسے کہ خواتین کے خلاف تشدد اور کام کی جگہ پر مساوی مواقع جیسے موضوعات بھی اس میں شامل ہوتے گئے۔ بالآخر ۱۹۷۷ء میں اقوامِ متحدہ نے اسے باضابطہ طور پر عالمی یومِ خواتین کے طور پر تسلیم کر لیا، جس کے بعد یہ دن دنیا بھر میں باقاعدگی سے منایا جانے لگا۔

اب یہ دن صرف ایک علامتی دن نہیں بلکہ ایک تحریک کا حصہ ہے جو خواتین کے حقوق کو تسلیم کروانے اور صنفی مساوات کو فروغ دینے کی کوشش کرتی ہے۔ اگرچہ گذشتہ صدی میں خواتین نے بے شمار کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن آج بھی انہیں کئی مسائل کا سامنا ہے جیسے صنفی امتیاز، تعلیم کی کمی، تشدد، ہراسانی اور سیاسی و سماجی شمولیت۔ کئی ممالک میں خواتین کو مردوں کے برابر حقوق اور مواقع میسر نہیں ہیں۔ کام کی جگہوں پر خواتین کو مردوں کی نسبت کم تنخواہ دی جاتی ہے اور ان کے لیے ترقی کے مواقع بھی محدود ہوتے ہیں۔ دنیا کے کئی حصوں میں اب بھی لڑکیوں کو تعلیم حاصل کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں، خاص طور پر غریب اور پسماندہ علاقوں میں۔ خواتین کو گھریلو تشدد، جنسی ہراسانی اور دیگر خطرات کا سامنا رہتا ہے جو ان کی آزادی اور خودمختاری کو متاثر کرتے ہیں۔ اگرچہ خواتین سیاست، معیشت، اور دیگر شعبوں میں اپنا کردار ادا کر رہی ہیں لیکن اب بھی فیصلہ سازی کے عہدوں پر ان کی تعداد کم ہے۔

خواتین کے عالمی دن کے موقع پر مختلف ممالک میں خصوصی تقریبات، سیمینارز اور مظاہرے منعقد کیے جاتے ہیں۔ اس دن کو منانے کے لیے مختلف تنظیمیں خواتین کے حقوق اور صنفی مساوات کے بارے میں آگاہی پھیلانے کے لیے مہمات چلاتی ہیں۔ کچھ ممالک میں یہ دن قومی تعطیل کے طور پر منایا جاتا ہے، جیسے چین، روس اور یوگنڈا میں۔ کئی کمپنیز اور ادارے اس موقع پر خواتین کے لیے خصوصی تقریبات منعقد کرتے ہیں جبکہ کچھ ممالک میں خواتین کی کامیابیوں کو سراہنے کے لیے ایوارڈز بھی دیے جاتے ہیں۔

ہر سال اقوام متحدہ عالمی یوم خواتین کے لیے ایک خاص تھیم کا انتخاب کرتی ہے جو موجودہ دور میں خواتین کو درپیش مسائل کی نشاندہی کرتا ہے۔ ۲۰۲۵ء میں اس دن کو ’’تمام خواتین اور لڑکیوں کے لیے: حقوق، مساوات، اختیار‘‘ کے عنوان سے منایا جائے گا۔ یہ تھیم اس بات پر زور دیتا ہے کہ تمام خواتین، خواہ وہ کسی بھی نسل، مذہب، یا سماجی پس منظر سے تعلق رکھتی ہوں، ان کے بنیادی حقوق کو تسلیم کیا جائے اور انہیں مساوی مواقع فراہم کیے جائیں تاکہ وہ خودمختاری حاصل کر سکیں۔

اسلام نے ۱۴۰۰؍سال قبل ہی خواتین کو وہ حقوق دیے جو آج دنیا کی بہت سی ترقی یافتہ اقوام میں بھی مکمل طور پر حاصل نہیں ہیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق، خواتین کو وراثت میں حصہ، تعلیم حاصل کرنے کا حق اور عزت و احترام کا درجہ دیا گیا ہے۔ حضرت محمدﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سب سے بہتر وہ ہے جو اپنی بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے۔‘‘(ترمذی) اسی طرح قرآن کریم میں واضح طور پر فرمایا گیا ہے: پس نیک عورتیں فرمانبردار اور غیب میں بھی ان چیزوں کی حفاظت کرنے والی ہوتی ہیں جن کی حفاظت کی اللہ نے تاکید کی ہے۔(النساء:۳۵) یہ تعلیمات خواتین کی عزت، ان کے حقوق، اور ان کے کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہیں۔

خواتین کا عالمی دن صرف ایک جشن نہیں بلکہ ایک یاددہانی بھی ہے کہ ابھی بھی خواتین کے حقوق کے لیے بہت کام باقی ہے۔ یہ دن ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ ہم نے صنفی مساوات کے لیے کیا کیا ہے اور مزید کیا کر سکتے ہیں۔ دنیا میں خواتین نے سیاست، سائنس، معیشت اور دیگر شعبوں میں نمایاں کامیابیاں حاصل کی ہیں، لیکن صنفی امتیاز، تشدد اور تعلیمی مواقع کی کمی جیسے مسائل اب بھی موجود ہیں۔ ہمیں نہ صرف ۸؍ مارچ کو بلکہ ہر دن خواتین کے حقوق اور ان کے ساتھ مساوی سلوک کو یقینی بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔

اس دن کے مقصد کا حصول تبھی ہو گا جب یہ شعور پیدا ہو جائے کہ اگر ہم واقعی ایک ترقی یافتہ، مساوی اور انصاف پر مبنی دنیا چاہتے ہیں، تو ہمیں خواتین کو برابری کے حقوق دینے ہوں گے اور ان کی خودمختاری کو یقینی بنانا ہوگا۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: احمدی خواتین کو زکوٰۃ ادا کرنے کی طرف توجہ دینی چاہئے

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button