اسلامی جمہوریہ پاکستان میں احمدیوں پر ہونے والے دردناک مظالم کی الَم انگیز داستان
ضلع نارووال۔ اگست ۲۰۲۴ء
۱۹؍اگست ۲۰۲۴ء: نندو پولیس سٹیشن میں چار احمدیوں کو ایک جھوٹے مقدمے میں توہین کی دفعات کے تحت گرفتار کر لیا گیا۔ معاملے کا آغاز تب ہوا جب ان احمدیوں میں سے ایک کے گھر میں ایک مسیحی خاتون نے جھاڑ پونچھ کے دوران کچھ کاغذات ایک لفافے میں ڈال کر گھر سے باہر رکھ دیے اور رات کے وقت ایک غیر احمدی ہمسائے کو ان کاغذات میں قرآنِ کریم کے کچھ اوراق مل گئے۔ اس ہمسائے نے مقامی مولوی کو بتایا جس پر مسجد کے لاؤڈ سپیکر سے مولوی نے احمدیوں پر توہین قرآن کا الزام لگاتے ہوئے احمدیوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ بھی کیا۔ اس پر پولیس نے ان احمدیوں کے خلاف قرآن کے اوراق باہر پھینکنے اور جلانےکی کوشش کا مقدمہ درج کر لیا۔ اس مقدمے میں مقامی صدر جماعت احمدیہ کو بھی نامزد کیا گیا جو کہ اس وقت گاؤں میں موجود بھی نہیں تھے۔
ٹیکسلا۔ ضلع راولپنڈی
مقامی احمدی مبلغ کے بچوں کو ان کے احمدی ہونے کی وجہ سے سکول سے نکال دیا گیا۔ الائیڈ سکول جناح کیمپس ۲ کے ڈائریکٹر اختر حسین اور انتظامیہ کے سربراہ ثاقب حسین نے غیراحمدی طلبہ کے والدین کی طرف سے دھمکیوں کے باعث تین احمدی بچوں کو سکول سے نکال دیا۔ جب مبلغ سلسلہ نے انتظامیہ سے دھمکیوں کی تفصیل کے متعلق معلومات کا مطالبہ کیا تو انتظامیہ نے صاف انکار کردیا۔ انتظامیہ نے انہیں سکول سے نکالے جانے کا ایک سرٹیفکیٹ جاری کیا تو انہوں نے سرٹیفکیٹ لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ سرٹیفکیٹ میں لکھا جائے کہ یہ بچے کسی بھی برے رویے کے حامل نہیں تھے۔انتظامیہ نے کہا کہ ایسا سرٹیفکیٹ وہ صرف اس صورت میں جاری کریں گے جب آپ ختم نبوت کے خلاف اپنے عقیدے سے رجوع کریں گے۔
ایسا ان کے ساتھ پہلی بار نہیں ہوا ۔بلکہ دو سال قبل سکول کے پرنسپل نے ان کی بیٹی کو احمدی ہونےکی وجہ سے ٹیوشن دینےسے انکار کر دیا تھا۔ اگرچہ یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ اس بچی کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہ کیا جائے گا۔ لیکن اس کی ساتھی طالبات اس کو ہر وقت ہراساں کرتی رہتی تھیں اور اس کو مسیحی کہہ کر بلاتی تھیں۔ جب انہوں نے اس بات کی شکایت انتظامیہ سے کی تو انہیں جواب ملا کہ ادارہ ایسے طلبہ کو قبول نہیں کرتا جن کے مذہبی عقائد ان سے مختلف ہوں ۔ سکول کے منتظم نے یہ بھی کہا کہ اگر احمدی طلبہ یہاں رہے تو بدامنی اور ان طلبہ کی حفاظت کا مسئلہ پیش آسکتا ہے۔ بالآخر احمدی بچوں کو سکول سے نکال دیا گیا اور انہیں متبادل سکول میں داخل کروانا پڑا۔
منڈی بہاؤالدین۔اگست ۲۰۲۴ء
ماہ اگست میں منڈی بہاؤالدین کے کچھ احمدیوں کی املاک کو آگ لگانے کی متعدد کوششیں کی گئیں۔ ۲۱؍اگست ۲۰۲۴ء کو حملہ آوروں نے جماعت احمدیہ کی ضلعی عاملہ کے ایک ممبر کی گاڑی کو نظر آتش کرنے کی کوشش کی۔ پٹرول میں بھیگا ہوا ایک کپڑاان کی گاڑی پر پھینک کر اسے آگ لگا دی گئی۔ ان کے ہمسایوں نے انہیں فوری طور پر آگاہ کیا اور انہوں نے آگ بجھا دی۔لیکن آگ نے گاڑی کے شیشوں ،بمپر اور ٹائروں کو شدید نقصان پہنچایا۔ اس واقعے کا مقدمہ تو درج کروایا گیا لیکن اس کے مجرم تاحال پکڑے نہیں جا سکے ۔
اس سے قبل ۳؍ اگست کو ایک اَور احمدی کے گھر کے دروازے کو نامعلوم حملہ آوروں کی جانب سے پٹرول چھڑک کے آگ لگا دی گئی تھی۔ ان کی جانب سے فوری طور پر اس آگ کو بجھانے کی کوشش نے انہیں کسی بھی بھاری نقصان سے بچا لیا۔
اسی طرح ۱۳؍ اگست کو حملہ آوروں نے ایک تیسرے احمدی کے بجلی کے میٹر کو نذرِآتش کر نے کی کوشش کی ۔ انہوں نے کپڑے اور اخبار کی مدد سے میٹر کو آگ لگا دی۔ فوری طور پر اس آگ کو بجھانے کی وجہ سے قریب لگا گیس کا میٹر نقصان سے بچ گیا۔
اس طرح کے حملوں نے منڈی بہاؤالدین کے احمدیوں میں تشویش اور خوف کی لہر دوڑا دی ہے۔ ذہنی تکلیف کے ساتھ ساتھ ان حملوں کا نشانہ بننے والوں کو مالی نقصان بھی برداشت کرنا پڑ رہا ہے کیونکہ پاکستان کے اندر اس طرح کے مسائل کا سدِباب کرنے کے لیے پیسے اور وقت دونوں کا بے دریغ استعمال کرنا پڑتا ہے۔
ٹھہری، سیال موڑ۔ضلع سرگودھا
۱۲؍اگست ۲۰۲۴ء کو مقامی صدر جماعت کو قریبی مسجد سے آنے والے ڈیڑھ سو کے قریب افراد نے ان کی دکان پر آکر ہراساں کیا۔ اس ہجوم نے انہیں مذہبی بحث میں الجھانے کی کوشش کی اور ساتھ ساتھ وہ ویڈیو ریکارڈنگ بھی کر رہے تھے۔ صدر صاحب نے انہیں بتایا کہ قانون کی رو سے وہ ایسی کسی بھی بحث کا حصہ نہیں بن سکتے اور ساتھ ہی انہیں فلم بنانے سے منع بھی کیا۔ حالات تب کشیدہ ہوگئے جب مولویوں نے انہیں کلمہ پڑھنے کا کہا۔ جواب میں انہوں نے کہا احمدی بھی عام مسلمانوں کی طرح ہی کلمہ پڑھتے ہیں۔ ان کے اس جواب پر ہجوم وقتی طور پر تو خاموش ہو گیا لیکن کچھ ہی دیر بعد دوبارہ انہیں ہراساں کر نا شروع کر دیا اور مطالبہ کیا کہ وہ اپنے عقیدے سے رجوع کریں۔ اس کے بعد یہ ہجوم مقامی غیر احمدی مسلمانوں کے گھروں میں گیا اور انہیں علاقے میں موجود احمدیوں کا بائیکاٹ کرنے کا کہا۔ اسی روز سیال موڑ میں تحریک لبیک کے کارکنوں نے ایک ریلی نکالی اور احمدیہ مسجد کے سامنے سٹیج لگا کر احمدیت مخالف نعرے بازی کی۔ اس وقت علاقے میں احمدیوں کا مکمل بائیکاٹ ہے اور مقامی دکاندار احمدیوں کو روزمرہ کی عام اشیاء کی فروخت بھی نہیں کر رہے۔
45مرڑ۔ضلع ننکانہ صاحب
۱۷؍اگست ۲۰۲۴ء کو ایک احمدی خاتون ثریا بیگم کا انتقال ہو گیا جن کی تدفین کو مقامی انتہا پسند مولویوں کی جانب سے روک دیا گیا۔ جب احمدی مقامی قبرستان میں ان کی تدفین کےلیے پہنچے تو قریب رہنے والے غیر احمدیوں نے خبردار کیا کہ وہاں پر تحریک لبیک کے لوگ جمع ہیں اور ممکنہ طور پر وہ تدفین کے عمل میں مسائل پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ جب احمدی مقامی انتظامیہ کے پاس گئے تو انہیں معلوم ہوا کہ تحریک لبیک والے ان سے پہلے ہی رابطہ کر چکے ہیں اور تدفین کے عمل میں رکاوٹ پیدا کر کے اس قبرستان میں تدفین کو روکنا چاہتے ہیں۔ دھمکیوں اور انتظامیہ کی بےحسی کے سبب احمدیوں کو جھگڑے سے بچنے کےلیے تدفین کسی متبادل جگہ پر کرنا پڑی۔
بعد ازاں انتظامیہ نے احمدیوں سے رابطہ کیا اور کشیدگی کو کم کرنے کا کہا لیکن ساتھ ہی اس کے لیے انہوں نے اضافی وقت بھی مانگا تاکہ قبرستان کے متعلق تناؤ کے ماحول کو کم کیا جاسکے۔
ڈاور۔ ضلع چنیوٹ
اگست میں ڈاور کے لڑکیوں کے سرکاری سکول میں ایک احمدی استاد کو مذہبی ہراسانی کا سامنا کرنا پڑا اور اس کے بعد ان کو معطل بھی کر دیا گیا۔ یہ احمدی استاد عرصہ دراز سے باقی احمدی اساتذہ اور ہیڈ مسٹرس کے ساتھ اس سکول میں پڑھا رہی ہیں لیکن کلاس میں ہونے والی ایک بحث نے حالات کشیدہ کردیے۔
واقعہ اس وقت پیش آیا جب مذکورہ احمدی استانی کو ایک دوسری استانی کی کلاس میں پڑھانا پڑا۔ انہوں نے لفظ اُمّی کی تشریح کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا مطلب ہے ’’اَن پڑھ‘‘۔ ایک طالبعلم نے دریافت کیا کہ آیا یہ لفظ پیغمبر اسلامﷺ پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔تو انہوں نے بتایا کہ پیغمبر اسلامﷺ کو اللہ نے اپنی جانب سے علم ودیعت کیا تھا۔اس وضاحت کو ایک اَور احمدیت مخالف استانی نے غلط رنگ دے کر ہیڈ مسٹرس کو بتایا۔ وقتی طور پر تو معاملہ حل ہو گیا لیکن اس استانی نے کہا کہ اگر مقامی مولویوں کو اس بات کا علم ہو گیا تو معاملات بگڑ سکتے ہیں۔ حالات تب کشیدہ ہوگئے جب اس استانی نے کچھ طالبات کے ساتھ مل کر مقامی لوگوں اور مولویوں کو اس بات سے آگاہ کیا۔ بعد ازاں ان لوگوں نے ڈی سی او کو درخواست دی کہ اس استانی کے خلاف سخت کارروائی کی جائے اور تمام احمدی استانیوں کا یہاں سے تبادلہ کیا جائے۔ چنانچہ ڈی سی او نے مذکورہ استانی کو معطل کر دیا۔
باغبانپورہ۔ لاہور، ستمبر ۲۰۲۴ء
۳۰؍ستمبر کو طاہر اشرفی کے بھائی حسن معاویہ کی معیت میں مولویوں کا ایک ہجوم احمدیہ مسجد باغبانپورہ لاہور کے باہر جمع ہو گیا۔ کچھ ہی دیر میں پولیس بھی وہاں آگئی۔ یہ لوگ مسجد کے دروازے کھول کر تلاشی لینے کی کوشش میں تھے لیکن ناکام رہے ۔ بعد ازاں مقامی احمدی اس بات پر رضا مند ہوگئے کہ صرف پولیس کے اہلکار ہی مسجد کی تلاشی لیں گے لیکن حسن معاویہ بھی ان کے ساتھ ہی اندر داخل ہو گیا ۔ باوجود کوشش کے ان کو کوئی بھی ایسا مواد نہ مل سکا جو احمدیوں کے خلاف بطور ثبوت استعمال ہو سکتا۔
اس کے بعد حسن معاویہ اور اس کے ہم قماشوں نے مسجد سے ملحقہ رہائش گاہ کی تلاشی کا بھی مطالبہ کیا۔ جس پر پولیس نے اس رہائش میں مقیم چند احمدیوں کو گرفتار کر لیا اور ان کو گڑھی شاہو میں موجود قلعہ گجر سنگھ پولیس سٹیشن لے گئی ۔ گرفتار ہونے والوں میں کئی احمدی احباب شامل تھے۔ جیسے جیسے رات ڈھلتی گئی مزید لوگ وہاں جمع ہوتے گئے اور پولیس کی نفری بھی بڑھ گئی۔ رات ایک بجے پولیس نے عامر ارشاد کی اہلیہ اور بیٹی کو تو چھوڑ دیا لیکن باقی احباب کو ایک دوسرے پولیس سٹیشن لے گئے۔ پولیس نے حسن معاویہ اور ہجوم کے دباؤ میں آکر ان کے خلاف توہین کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا جس کی سزا عمر قید بھی ہوسکتی ہے۔ ان احباب کے خلاف یہ مقدمہ بالکل بےبنیاد ہے۔ یہ ہجوم بعدازاں مقامی صدر جماعت کی رہائش گاہ کی طرف چلاگیا اور پولیس کی موجودگی میں ان کی رہائش گاہ کی تصاویر بناتا رہا۔ پولیس احمدی احباب کو مسجد میں داخل ہونے سے روکتی رہی اور پھر مسجد کو بھی سیل کر دیا۔
اس رات پولیس کا ایک احمدیہ مسجد اور ایک احمدی کی ذاتی رہائش گاہ پر چھاپہ اور مرد و خواتین کی گرفتاری اور توہین کی دفعات کے تحت ایک جھوٹے مقدمے کا اندراج اور مقامی احمدیوں کے ساتھ تحقیر آمیز رویہ اس بات کو روزِ روشن کی طرح ثابت کر رہے ہیں کہ کس طرح احمدیوں کے حقوق کی پامالی کی جارہی ہے اور کس خطرناک حد تک مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم بڑھ چکا ہے۔
٭…٭…٭