متفرق مضامین

حضرت یونس علیہ السلام کی دعا

حضرت یونسؑ کی دعا لَا اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ کےساتھ جو کوئی بھی دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعاکو ضرور قبول فرمائے گا(حدیث نبویﷺ)

دنیا میں کوئی بھی انسان،خوہ اُس کا تعلق کسی بھی مذہب سے ہو جب انتہائی بے قراری میں سچے دل سے خدا تعالیٰ کے حضوردعا کرتا ہے تو اُس کی دعا قبول ہوجاتی ہے۔

قرآن کریم میں آتا ہے کہ اَمَّنۡ یُّجِیۡبُ الۡمُضۡطَرَّ اِذَا دَعَاہُ وَیَکۡشِفُ السُّوۡٓءَ وَیَجۡعَلُکُمۡ خُلَفَآءَ الۡاَرۡضِ ؕ ءَاِلٰہٌ مَّعَ اللّٰہِ ؕ قَلِیۡلًا مَّا تَذَکَّرُوۡنَ۔ (النمل:۶۳)حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے اس آیت کا ترجمہ ان ا لفاظ میں کیا: یا (پھر) وہ کون ہے جو بے قرار کی دعا قبول کرتا ہے جب وہ اسے پکارے اور تکلیف دُور کر دیتا ہے اور تمہیں زمین کے وارث بناتا ہے۔ کیا اللہ کے ساتھ کوئی (اور) معبود ہے؟ بہت کم ہے جو تم نصیحت پکڑتے ہو۔

بعض دعائیں ایسی ہیں کہ اگر وہ لفظ بہ لفظ اُن ہی الفاظ میں کی جائیں تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں مومنین کو نجات عطا کرتا ہوں ان کومشکلوں سے نکالتا ہو۔ ان کی پریشانیاں دُور فرماتا ہو۔ ان میں ایک دعا حضر ت یونس علیہ السلام کی دعا ہے۔اللہ تعالیٰ کویہ دعا اتنی پسند آئی کہ تاقیامت اسے قرآن کریم میں لکھ دیا گیا۔ اور ساتھ میں اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں لکھا ہے کہ جو کوئی بھی اس دعا کو کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی ہر طرح کی پریشانی اور مشکل دُور کردے گا۔ اللہ کے پیارے حبیب حضرت محمدﷺ نے بھی اس دعا کا حکم فرمایا ہے۔ اور آج کے دور میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نےدوبارہ ہمیں اس دعا کوکرنے کا ارشاد فرمایاہے۔

قرآن کریم میں حضرت یونسؑ کا ذکر

حضرت یونس علیہ السلام کے حوالے سےقرآن کریم میں آتا ہے کہاِنَّاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ کَمَاۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰی نُوۡحٍ وَّالنَّبِیّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖ ۚ وَاَوۡحَیۡنَاۤ اِلٰۤی اِبۡرٰہِیۡمَ وَاِسۡمٰعِیۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَیَعۡقُوۡبَ وَالۡاَسۡبَاطِ وَعِیۡسٰی وَاَیُّوۡبَ وَیُوۡنُسَ وَہٰرُوۡنَ وَسُلَیۡمٰنَ ۚ وَاٰتَیۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًا۔ (النساء: ۱۶۴)ترجمہ:ہم نےیقیناً تیری طرف ویسے ہی وحی کی جیسا کے نوح کی طرف وحی کی تھی اور اس کے بعدآنے والے نبیوں کی طرف ۔ اور ہم نے وحی کی ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اوریعقوب کی طرف اور اس کی ذریت کی طرف اور عیسیٰ اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان کی طرف ۔ اور ہم نے داؤد کو زبور عطا کی۔

پھر فرمایا:وَاِسۡمٰعِیۡلَ وَالۡیَسَعَ وَیُوۡنُسَ وَلُوۡطًا ؕ وَکُلًّا فَضَّلۡنَا عَلَی الۡعٰلَمِیۡنَ۔ (الانعام: ۸۷)ترجمہ : اور اسماعیل کو اوراَلیَسَع کو اور یونس کو اور لوط کو بھی۔ اور ان سب کو ہم نے تمام جہانوں پر فضیلت بخشی۔

حضرت یونسؑ کا واقعہ

حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے سورت یونس کے تعارف میںلکھا ہے کہ اس سورت میں ایسی قوم کا ذکر ہے جو اس دنیا میں کلیۃً اس عذاب سے بچالی گئی جس کی وعید انہیںدی گئی تھی۔ اور اس کے بعد میں آنے والی سورت ہود میں ان قوموں کا ذکر ہے جو انکار کی وجہ سے کلیۃً ہلاک کردی گئیں۔

بائبل کے پرانے عہد نامہ (Old Testament) میں انتہائی تفصیل کے ساتھ باب یونس میں حضرت یونس علیہ السلام کے واقعہ کا ذکر آیا ہے۔ اور یہاں تک لکھا ہے کہ تین دن تک حضرت یونس علیہ السلام مچھلی کے پیٹ میں زندہ رہے۔

بائبل کے پرانے عہد نامہ کے باب یوناہ میں لکھا ہے کہ یونس جب سمندر میں گرا تو خداوند نے یونسؑ کو نگل جانے کے لیے ایک بہت بڑی مچھلی بھیجی۔ یونسؑ تین دن اور تین رات تک اس مچھلی کے پیٹ میں رہا۔ (ماخوذ از عہدنامہ قدیم، یوناہ باب۱ آیت۱۷)

حضر ت یونسؑ کی دعا اور اس کی فضیلت

حضرت یونسؑ کی دعا کو لکھنے سے پہلے میں ایک چھوٹے سے اہم نکتے کی طر ف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو اُس کے نام کے علاوہ پُکارا جاسکتا ہے۔صرف اُس میں توہین کا یا تحقیر کا پہلو نہیں ہونا چاہیے۔ اس کی زندہ مثا ل قرآن شریف میں موجود ہے۔ قرآن کریم میں حضرت یونسؑ کے لیے انتہائی پیار کے لفظ استعمال کیے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وَ ذَاالنُّونِ اور مچھلی والا۔ اسی طرح اللہ کے پیار ے حبیب حضرت محمدﷺ نے بھی حدیث میں ذَالنُّوۡنِ مطلب مچھلی والا(حضرت یونسؑ)کے لیے استعمال کیے ہیں۔مطلب یہ کہ پیار کا پہلو ہو تو نا م کے علاوہ بھی کسی بھی شخص کوپُکارا جاسکتا ہے۔

جب حضرت یونسؑ نے مچھلی کے پیٹ میں لَا اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَکا ورد کیا تو اللہ تعالیٰ نے حضر ت یونسؑ کی مشکل دُور فرمائی۔ قرآن کریم میں آتا ہے کہ وَذَا النُّوۡنِ اِذۡ ذَّہَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ اَنۡ لَّنۡ نَّقۡدِرَ عَلَیۡہِ فَنَادٰی فِی الظُّلُمٰتِ اَنۡ لَّاۤ اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ۔ فَاسۡتَجَبۡنَا لَہٗ ۙ وَنَجَّیۡنٰہُ مِنَ الۡغَمِّ ؕ وَکَذٰلِکَ نُــۨۡجِی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ۔ (الانبیاء: ۸۸۔۸۹)حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ ان آیات کا ترجمہ یوں کرتے ہیں: اور ذوالنون (یعنی یونس کو بھی یاد کر) جب وہ غصہ کی حالت میں چلا گیا اور دل میں پُریقین تھا کہ ہم اس کو تنگ نہیں کریں گے۔ پس مصائب میں اس نے ہم کو پکارا (اور کہا) کہ تیرے سوا کوئی معبود نہیں تو پاک ہے۔ میں یقیناً ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔پس ہم نے اس کی دعا کو سنا اور غم سے اسے نجات دی اور ہم اسی طرح مومنوں کو نجات دیا کرتے ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے یہ نہیں کہا حضر ت یونسؑ ، بلکہ کہاہے کہ مچھلی والے کو یاد کر۔ پھر لکھا ہے کہ نہ صرف ہم نے حضرت یونسؑ کو مشکلات سے نکالا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے ضمانت دی ہے کہ ہر مومن کی مشکلات دُور کی جائیں گی اگر وہ اس دعا کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے مخاطب ہو گا۔ تاقیامت اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس دعا کی فضیلت لکھ دی ہے۔

پھرقرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہوَاِنَّ یُوۡنُسَ لَمِنَ الۡمُرۡسَلِیۡنَ۔ اِذۡ اَبَقَ اِلَی الۡفُلۡکِ الۡمَشۡحُوۡنِ۔ فَسَاہَمَ فَکَانَ مِنَ الۡمُدۡحَضِیۡنَ فَالۡتَقَمَہُ الۡحُوۡتُ وَہُوَ مُلِیۡمٌ ۔فَلَوۡلَاۤ اَنَّہٗ کَانَ مِنَ الۡمُسَبِّحِیۡنَ۔لَلَبِثَ فِیۡ بَطۡنِہٖۤ اِلٰی یَوۡمِ یُبۡعَثُوۡنَ۔ فَنَبَذۡنٰہُ بِالۡعَرَآءِ وَہُوَ سَقِیۡمٌ۔ اور یقیناً یونس (بھی) مُرسلین میں سے تھا۔(یاد کرو) جب وہ بھاگ کر ایک ایسی کشتی کی طرف گئے جو پُر ہونے والی تھی۔(اور طوفان نے ان کو آلیا اور ڈوبنے کا خطرہ پیدا ہو گیا) تب انہوں نے (باقی سب سواروں سے مل کر) قرعہ اندازی کی اور (چونکہ قرعہ میں ان کا نام نکلا) وہ (قرعہ کی رُو سے) دریا میں پھینکے جانے والے ہو گئے۔جس پر اسے ایک بڑی مچھلی نے نگل لیا جبکہ وہ اپنے آپ کو ملامت کر رہا تھا۔اور اگر وہ تسبیح کرنے والوں میں سے نہ ہوتا،تو اس مچھلی کے پیٹ میں قیامت کے دن تک پڑا رہتا (یعنی مرجاتا)۔ پھر ہم نے اس کو ایک کھلے میدان میں پھینک دیا جبکہ وہ بیمار تھا۔(الصّٰفٰت : ۱۴۰ تا ۱۴۶)

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اگر حضر ت یونسؑ اس دعا کا ورد نہ کرتے تو تا قیامت تک مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔ذرا غور کیا جائے کہ کتنے سخت الفاظ اللہ تعالیٰ نے استعمال فرمائے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ حضرت یونسؑ کی مشکلات وپریشانیاں دُور نہ ہوتیں اور وہ مچھلی کے پیٹ میں فوت ہوجاتے۔ اللہ تعالیٰ کے غضب کو اس دعا کے الفاظ نے ٹھنڈا کیا۔ دوسر ے معنوںمیں اللہ تعالیٰ کو یہ الفاظ بہت پسند ہیں۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہےکہ فَلَوۡلَا کَانَتۡ قَرۡیَۃٌ اٰمَنَتۡ فَنَفَعَہَاۤ اِیۡمَانُہَاۤ اِلَّا قَوۡمَ یُوۡنُسَ ؕ لَمَّاۤ اٰمَنُوۡا کَشَفۡنَا عَنۡہُمۡ عَذَابَ الۡخِزۡیِ فِی الۡحَیٰوۃِ الدُّنۡیَا وَمَتَّعۡنٰہُمۡ اِلٰی حِیۡنٍ۔ (یونس: ۹۹)ترجمہ: پس کیوں یونس کی قوم کے سوا ایسی کوئی بستی والے نہیں ہوئے جو ایمان لائے ہوں اور جن کو اُن کے ایمان نے فائدہ پہنچایا ہو۔ جب وہ ایمان لائے تو ہم نے ان سے اس دنیوی زندگی میں ذلّت کا عذاب دُور کردیا اور انہیں ایک مدت تک سامانِ معیشت عطا کئے۔

قرآن کریم میں آتا ہے کہفَاصۡبِرۡ لِحُکۡمِ رَبِّکَ وَلَا تَکُنۡ کَصَاحِبِ الۡحُوۡتِ ۘ اِذۡ نَادٰی وَہُوَ مَکۡظُوۡمٌ۔ لَوۡلَاۤ اَنۡ تَدٰرَکَہٗ نِعۡمَۃٌ مِّنۡ رَّبِّہٖ لَنُبِذَ بِالۡعَرَآءِ وَہُوَ مَذۡمُوۡمٌ۔(القلم: ۴۹۔۵۰)تفسیر صغیر میں ان آیات کا ترجمہ یوں ہے کہ پس تو اپنے ربّ کے حکم پر قائم رہ اور مچھلی والے کی طرح نہ بن۔ جب اس نے اپنے رب کو پکارا اور وہ غم سے بھرا ہوا تھا۔اگر اس کے رب کی نعمت اس کی تکلیف کا تدارک نہ کرتی تو اس کو ایک بے آب و گیاہ جنگل میں پھینک دیا جاتا اور وہ ہدف ملامت بن جاتا۔

اللہ تعالیٰ نے پھر دوبارہ کتنے پیار سے فرمایا ہے کہ مچھلی والا(صَاحِبِ الۡحُوۡتِ)۔

حدیث مبارکہ میں آیت کی فضیلت

ہمارے پیارے رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ ذوالنون (مچھلی والے ) یعنی حضرت یونسؑ کی دعا لَا اِلٰہَ اِلَّاۤ اَنۡتَ سُبۡحٰنَکَ ٭ۖ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ کےساتھ جو کوئی بھی دعا کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی دعاکو ضرور قبول فرمائے گا۔(جامع ترمذی کتاب الدعوات حدیث نمبر ۳۵۰۵)

حضرت محمدرسول اللہﷺ نے بھی ذوالنون کے الفاظ استعمال فرمائے ہیں اوراس آیت کی فضیلت بھی بیان کی ہے۔ فرمایا ہے کہ ہمیں اس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کی رحمت مانگنی چاہیے۔ اپنی حاجتوں اور پریشانیوں کو اس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حضور پیش کرنا چاہیے۔

حرف آخر

آج بھی اگر کوئی شخص کسی بھی قسم کی مشکلات سے دوچار ہے تو حضرت یونسؑ کی دعا کی طرف توجہ کرنی چاہیے۔ یہ ایک بہترین ذکر ہے، ایک بہترین دعا اور اللہ تعالیٰ کے پیار کو حاصل کرنے کا بہترین نسخہ ہے۔

رمضان کریم کےبابرکت مہینہ میں اور اس کے علاوہ بھی اس دعا کابہت ورد کرناچاہیے۔

اس دعا کی طرف حضر ت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ورچوئل ملاقات فن لینڈ ۱۲؍فروری ۲۰۲۳ءکو توجہ دلاتے ہوئے فرمایا کہ ’’مجھے تو اللہ میاں نے یہی بتایا کہ اگر ساری جماعت تین دن یونس کی قوم کی طرح آہ و زاری کرنے لگ جائے۔ہر ایک بچہ، بڑا، بوڑھا،جوان اللہ تعالیٰ کے آگے چلائے گا تو تین دن میں مسئلہ حل ہو سکتا ہے‘‘۔(الفضل انٹرنیشنل۲۴؍ فروری ۲۰۲۳ء)اس لیے ہر احمدی کو اس دعا کو اپنی روزمرہ کی دعاؤں کا حصہ بنانا چاہیے۔

(منصور احمد خان۔کینیڈا)

مزید پڑھیں: مصلح موعودؓکے عالمی شہرت پانے کی عظیم الشان داستان کے چالیس پہلو

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button