امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے شعبہ حفاظتِ خاص کے ٹیم ممبران کی ملاقات
سارے جتنے ڈیوٹی والے ہیں وہ یہ دیکھیں اور اپنے جائزے لیں کہ وہ اپنی پانچ وقت کی نمازوں کی حفاظت کر رہے ہیں کہ نہیں؟
جو اپنی پانچ وقت کی نمازوں کی حفاظت نہیں کر رہا تو اس نے باقی حفاظتِ خاص کیا کرنی ہے؟
مورخہ٢٢؍ فرورى٢٠٢٥ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مجلس خدام الاحمدیہ جرمنی کے شعبہ حفاظتِ خاص میں خدمت سر انجام دینے والی ٹیم کے ٤٩؍رکنی وفد کو اسلام آباد (ٹِلفورڈ) ميں بالمشافہ ملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے جرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔
پھر حضورِ انور نے مہتمم عمومی سے مخاطب ہوتے ہوئے اس وفد کے دَورے کے مقصد کی بابت دریافت فرمایا۔جس پر مہتمم عمومی نے مختصر تعارف کراتے ہوئے حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ یہ وفد اُنچاس افراد پر مشتمل ہے جو حفاظتِ خاص جرمنی کی ٹیم کے اراکین ہیں۔ نیز اس بابرکت ملاقات کی سعادت ملنے پر دلی شکرگزاری کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ وہ حضورِ انور کی مبارک اقتدا میں نماز ادا کرنے اور روحانی برکات سے فیض یاب ہونے کی نیّت سے یہاں حاضر ہوئے ہیں۔
مزید برآں حضورِ انور نے وفد کی آمد کی بابت متفرق تفصیلات، قیام و طعام کے انتظامات اور دیگر ضروری امور کے بارے میں بھی استفسار فرمایا۔
بعد ازاں حضورِ انور نے حاضرینِ مجلس کو حفاظتِ خاص کے حقیقی مقصد اور اس کی بنیادی اہمیت کے حوالے سے گراںقدر راہنمائی عطا فرمائی۔
حضورِانور نے فرمایا کہ خدام الاحمدیہ کا کام خلافت کے ساتھ تعلق اور اس کے کاموں کو آگے بڑھانا ہے۔ حفاظتِ خاص کا اصل مطلب اور مقصد تو عمومی سیکیورٹی ہے، دوسرے خلافت کے منصب کی حفاظت کرنا، یہ بھی سارے خدام کا کام ہے اور یہی کام آپ لوگوں کا بھی ہے۔
حضورِانور نے اس امر کی جانب بھی توجہ مبذول کروائی کہ جو بھی کام آپ کر رہے ہیں اس نیت اور اس سوچ سے کریں کہ ہم یہ کام خدا تعالیٰ کے لیے کررہے ہیںنہ کہ دنیاوی دکھاوے کے لیے یا یہ کہ خلیفۂ وقت کے قریب ہونے یا یہ بتانے کے لیے کر رہے ہیں کہ دیکھو! ہم نے اتنا وقت دیا، تو اس کی کوئی ضرورت نہیں۔
حضورانور نے اس بات پر زور دیا کہ اگر اللہ تعالیٰ کی خاطر کام کر رہے ہوں گے تو اسی میں برکت ہے، اسی کا ثواب ہے اور اللہ تعالیٰ اسی کی جزا دینے والا ہے۔اس سوچ کے ساتھ، جو بھی کام آپ نے کرنا ہےوہ کریں۔
اس کے بعد شرکائے مجلس کو حضورِ انور کی خدمتِ اقدس میں متفرق سوالات پیش کرنے اور ان کے جواب کی روشنی میں بصیرت افروز راہنمائی حاصل کرنے کا زرّیں موقع بھی میسر آیا۔
ایک شریکِ مجلس نے حضورانور سے راہنمائی طلب کی کہ جماعت کی خدمت کرتے ہوئے تکبّر سے کیسے بچا جاسکتا ہے؟
حضورانور نے اس سوال کا تفصیلی جواب دیتے ہوئے تلقین فرمائی کہ دکھاوے کے لیے نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا ہے۔ اور اللہ کی رضا کے لیے کام کرنا ہے تو اس میں چاہے وہ خلیفۂ وقت کی حفاظت کا کام ہے یا خلیفۂ وقت کی طرف سے کوئی اور دیا ہوا کام ہے یا جماعت کی طرف سے دیا ہوا کام ہے، ہر چیز جو تم نے کرنی ہے وہ اللہ کی رضا کی خاطر کرنی ہے۔
حضورِانور نے توجہ دلائی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو میرے پیار کی خاطر دوسرے سے پیار کرتے ہیں یا میری توجہ یا میرا پیار لینے کے لیے ایک دوسرے سے محبت کا اظہار کرتے ہیں تو ان کو مَیں جزا و ثواب بھی دیتا ہوں اور قبول بھی کرتا ہوں۔
حضورانور نے فرمایاکہ صرف اللہ کی رضا اور اللہ سامنے ہونا چاہیے۔ اور اللہ تعالیٰ اس وقت تک سامنے نہیں ہوسکتا، جب تک یہ ذہن میں نہ ہو کہ ہمارے ہر کام، ہر فعل اور ہر بات کو اللہ تعالیٰ دیکھ اور سن رہا ہے۔ اور اس کے لیے ہم نے اس کے جو حکم ہیں، ان پر عمل کرنا ہے۔
حضورِانور نے مزید توجہ دلائی کہ حفاظتِ خاص سے کوئی بخشش کا سامان تو نہیں ہوگا۔ حفاظتِ خاص یا جماعت کی خدمت کرنے سے ظاہری طور پر کوئی اللہ تعالیٰ کی قربت تو نہیں مل جائے گی۔ اصل کام انسان کا یہ ہے کہ جو پیدائش کا حق ہے، وہ ادا کرو۔ چاہے وہ حفاظتِ خاص میں ہے یا کسی اَور شعبے میں ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کا جو حق ہے وہ ادا کرو۔
حضورانور نے پنج وقتہ نماز کی حفاظت کے حوالے سے اس بات پر زور دیا کہ سارے جتنے ڈیوٹی والے ہیں وہ یہ دیکھیں اور اپنے جائزے لیں کہ وہ اپنی پانچ وقت کی نمازوں کی حفاظت کر رہے ہیں کہ نہیں؟ جو اپنی پانچ وقت کی نمازوں کی حفاظت نہیں کر رہا تو اس نے باقی حفاظتِ خاص کیا کرنی ہے؟
حضورِانور نے احکامِ الٰہی کی حفاظت میں برکت اور رضائے الٰہی کی حقیقت کے مضمون پر بصیرت افروز راہنمائی فرمائی کہ پہلی حفاظت تو اللہ تعالیٰ کے حکموں کی ہے، وہ حفاظت کر لو تو باقی حفاظتیں خود ہو جاتی ہیں۔ اور جب اللہ تعالیٰ کی رضا شاملِ حال ہوگی اور اس کے حق ادا ہو رہے ہوں گے تو جو کام بھی آپ کریں گے، اس میں برکت پڑ جائے گی۔ نہیں تو بعض دفعہ انسانی کوششیں اس لیے بھی ضائع ہو جاتی ہیں کہ ان میں برکت نہیں ہوتی لیکن اللہ کی خاطر جب کام کیا جاتا ہے تو اس میں برکت پڑ جاتی ہے۔
آخر میں حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ اس لیے سب سے پہلی بات یہ یاد رکھو کہ ہم نے ہر کام اللہ کی خاطر کرنا ہے، اس کی عبادت کا حق ادا کرنا ہے اور سب سے بڑی حفاظت تو یہی ہے کہ پہلے اپنی جان کی حفاظت کرو، تو پھر ہی اگلے کی حفاظت کر سکتے ہو۔ اور اپنی جان کی حفاظت کے لیے اللہ کے ساتھ تعلق اور اس کی عبادت کا حق ادا کرنا ضروری ہے۔
ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ بعض اوقات ایسی صورتحال ہوتی ہے کہ پانچ وقت کی نماز کی توفیق ملتی ہے، مسجد میں بھی باقاعدگی سے جانے کی توفیق ملتی ہے، لیکن پھر بھی دل بے چین سا ہوتا ہے اور اپنے تقویٰ کے معیار سے بندہ مطمئن نہیں ہوتا۔ اس صورت حال میں کیا کرنا چاہیے؟
حضورِ انور نے اس پر جامع نصائح سے نوازتے ہوئے تلقین فرمائی کہ زیادہ استغفار کرو، لَا حَوْل پڑھو، درود شریف پڑھو اور علیحدگی میں نفل پڑھو اور اللہ سے دعا مانگو۔ نیز توجہ دلائی کہ ذکرِ الٰہی کرو تاکہ اللہ تعالیٰ مقبول دعا کی بھی توفیق دے اور جو بھی دل کی بے چینی ہے، اس کو دُور کرے۔
حضورِانور نے اس بات کی بھی نشاندہی فرمائی کہ بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ انسان جب لوگوں کے سامنے عبادت کرتا ہے تو احساس ہوتا ہے کہ مَیں شاید دکھاوے کے لیے ایسا کررہا ہوں۔ نیز تاکید فرمائی کہ اس لیے علیحدگی میں، ایک کونے میں لگ کے نماز پڑھو، دعا کرو اور ذکرِ الٰہی کرتے رہو تو اللہ تعالیٰ بے چینی کو ویسے ہی دُور کر دیتا ہے۔
ایک سائل نے عرض کیا کہ روایات کے مطابق یہودیوں کو تین مواقع دیے جائیں گے، لیکن وہ پھر بھی خود کو نہیں سدھاریں گے۔اس تناظر میں استفسار کیا، تو اس صورت حال میں ان کی سزا کس نوعیت کی ہو گی اور یہ کس سال واقع ہوگی؟
حضورِانور نے اس کا جواب دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ خود کو نہیں سدھاریں گے، یہ تو کہیں نہیں ہے۔ ہاں! ایک موقع ملے گا، وہ نہیں سدھریں گے، دوبارہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی نافرمانی اور ظلم کریں گے تو پھر ان سے زمین چھینی جائے گی اور وہ چھینی گئی۔ پھر دوسری دفعہ وہ ایسا کریں گے۔
تاریخی حوالے سے حضورانور نے روشنی ڈالی کہ نبوکدنضر کے زمانے میں پہلے یہ واقعہ ہوا، پھر مختلف دَور آئے اور ان سے زمینیں چھینی گئیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اب ان کو یہ تیسرا موقع دیا ہے۔ اگر اب بھی وہ اللہ تعالیٰ کے حکموں پر عمل نہیں کریں گے اور اپنی جو بھی شریعت ہے، صحیح ہے یا اِس وقت غلط ہے، اس کے اخلاق کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے اور ظلموں سے بچتے ہوئے، اگر اپنی حکومت چلائیں گے، تو ان کی حکومت قائم رہے گی۔ نہیں تو اللہ تعالیٰ ایسے حالات اور سامان پیدا کرے گا کہ ان سے یہ حکومت چھن جائے گی۔
[قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ نبوکدنضر (Nebuchadnezzar) یا جسے بخت نصر بھی کہا جاتا ہے، (٦٠٥ تا ٥٦٢ ق م) بابل کا مشہور بادشاہ تھا، جسے تاریخ میں بابل کی سلطنت کے عظیم ترین حکمرانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ بابل کے بادشاہ نبو پولسر کا بیٹا تھا اور اپنے دَورِ حکومت میں فوجی فتوحات، شاندار تعمیرات اور بابل کو ایک طاقتور سلطنت بنانے کے لیے مشہور ہوا۔نبو کد نضر کا سب سے بڑا کارنامہ یروشلم کی فتح (٥٨٦۔ ٥٨٧ ق م) تھا، جس میں اس نے یہودی سلطنت کو شکست دے کر ہیکلِ سلیمانی کو تباہ کر دیا اور ہزاروں یہودیوں کو بابل میں قید کر لیا۔وہ اپنے عظیم الشان تعمیراتی منصوبوں کے لیے بھی مشہور ہے، جن میں بابل کے مشہور معلق باغات بھی شامل ہیں، اگرچہ ان باغات کی تاریخی حقیقت ابہام کا شکار ہے۔
بائبل میں خاص طور پر کتابِ دانیال میں نبو کد نضر کا تذکرہ ایک طاقتور لیکن متکبر بادشاہ کے طور پر کیا گیا ہے۔
اس کی وفات ٥٦٢ ق م میں ہوئی، اور اس کے بعد بابل کی سلطنت زوال پذیر ہو گئی، یہاں تک کہ ٥٣٩ ق م میں فارسی بادشاہ سائرسِ اعظم نے بابل کو فتح کر لیا۔]
حضورِانور نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے سوال کرنے والے کو تاکید فرمائی کہ اس کی تفسیر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نےسورہ بنی اسرائیل کے شروع کے رکوع میں اور سورہ انبیاء میں بھی بڑی اچھی کی ہوئی ہے، تو وہ پڑھو، اس میں ساری باتیں تفصیل سے بیان کی ہوئی ہیں۔ اور اگر اردو نہیں پڑھنی آتی، انگلش پڑھنی آتی ہے تو فائیو والیم کمنٹری میں بھی تھوڑا سا حصہ اس کا لکھا ہوا ہے، تو وہ وہاں سے دیکھ لیں۔
[قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ حضورانور نے سائل کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی بیان فرمودہ جس تفسیر کی بابت مطالعے کی تاکید فرمائی ہے، دو اقساط پر مبنی وہ مکمل تفسیر زیرِ عنوان ’’مستقل طور پر تو سرزمین فلسطین عِبَادِیَ الصّٰلِحُوۡنَ کے ہاتھوں میں رہنی ہے‘‘ بالترتیب مورخہ ٢٧ و ٢٨؍دسمبر٢٠٢٣ء کے شمارہ جات روزنامہ الفضل انٹرنیشنل کی زینت بن چکی ہے۔ احباب اس سے استفادہ کرسکتے ہیں۔]حضورِانور نے مزید واضح فرمایا: تو بات یہی ہے کہ اب اگر ظلم کریں گے اور یہ ظلم کر رہے ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ کس ذریعے سے ان کو وہاں سے ہٹاتا ہے یا ختم کرتا ہے، یہ اللہ بہتر جانتا ہے، لیکن مسلمانوں کو بھی ساتھ ہی یہی حکم ہے یا جو بھی اس کو مٹانے والے ہیں، ان کو حکم ہے کہ یہ تلوار سے نہیں ہوگا، دعا کے ذریعے سے ہوگا اور اللہ تعالیٰ کی خاص تائید حاصل ہو گی۔
آخر میں حضورانور نے اس امر کی جانب توجہ مبذول فرمائی کہ اگرچہ یہ فوری طور پر تو نہیں ہوگا، لیکن ایک وقت آئے گا، آج نہیں، دو سال نہیں، تو دس سال بعد کچھ نہ کچھ نتیجہ نکل آئے گا۔ یہ کہنا کہ فوری نتیجہ نکلے، اس طرح تو قوموں کی تاریخوں میں کبھی نہیں ہوا۔ ایسا ہوگا، مگر کب ہوگا؟ یہ اللہ بہتر جانتا ہے کہ کتنی دیر تک اُس نے ان کے اِس ظلم کے قائم رہنے کی میعاد رکھی ہوئی ہے۔ پہلے بھی دہائیوں، سینکڑوں سال تک ان کی حکومتیں رہیں، اب بھی اسی طرح ہو سکتا ہے کہ کچھ دہائیاں گزریں اور اس کے بعد یہ کام ہو، لیکن ہوگا ضرور!
ایک خادم نے حضورِانور کی خدمتِ اقدس میں عرض کیا کہ بھرپور کوششوں کے باوجود بھی بعض دفعہ جماعت کے عہدیداران کا کام دوسروں کی نظر میں تسلی بخش نہیں سمجھا جاتا، اس سلسلے میں سائل نے حضور انور سےراہنمائی طلب کی۔
حضورِ انور نے اس پر مفصّل راہنمائی فرمائی کہ ایک منتخب عہدیدار کہیں کا بھی ہے، اگر وہ صحیح طرح کام کر رہا ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر کر رہا ہے، تو پھر سب ٹھیک ہے۔
اسی طرح حضورِانور نے اپنی اوّل الذکر فرمودہ نصیحت کا اعادہ فرمایا کہ مَیں نے پہلے شروع ہی میں بات کر دی ہے کہ اللہ کی رضا سب سے مقدّم ہونی چاہیے اور اس کے بعد باقی چیزیں ہیں۔ اگر اللہ خوش نہیں ہے تو پھر کچھ بھی نہیں، بندوں کو تو آپ خوش نہیں کر سکتے، اور اگر اللہ تعالیٰ کو خوش نہ کیا تو پھر کیا فائدہ؟ نیز اس ضمن میں توجہ دلائی کہ نہ خلیفۂ وقت کے آگے پیچھے پھرنے سے آپ اللہ کو خوش کر سکتے ہیں اور نہ ہی امیر جماعت کے آگے پیچھے پھرنے سے آپ اللہ کو خوش کرسکتے ہیں۔ اگر اللہ تعالیٰ راضی ہے تو پھر سب کچھ ٹھیک ہے۔
حضورِ انور نے لوگوں کی منفی تنقید کے حوالے سے سمجھایا کہ اگر ابتداءً تھوڑا بہت ردّعمل آئے گا بھی تو اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جانتا ہے، تو وہ اس کا reward دینے والا ہے۔ تو اس لیے عہدیدار اپنی نیک نیتی، دعاؤں اور صدقات سے کام لیتے ہوئے اور جو اس کے قواعد ہیں، ان کے اندر رہتے ہوئے، اپنا کام کرتا رہے۔
پھر اگر کوئی عہدے دار اس سے کہتا ہے کہ تم نے اِس طرح یا اُس طرح نہیں کرنا، تو پھر اس سے جو بالا افسر ہیں، ان کو وہ اپنی رپورٹ پہنچائے۔ وہاں تک نہیں پہنچا سکتا تو مرکز میں پہنچائے کہ مَیں یہ کام کر رہا ہوں، میرا فلاں افسر جو میرے سے اوپر ہے، اس نے اس حوالے سے یہ یہ کہا ہے جو کہ میرے خیال میں جماعتی روایت اور تعلیم کے خلاف ہے۔ اس کی کس طرح اصلاح ہونی چاہیے۔ تو پھر مرکز یا خلیفہ وقت کو جو بھی اس کی اصلاح کرنی ہوگی، کر دیں گے یا اگر مقامی طور پر نیشنل صدر یا امیر جماعت کو کہا ہے اور اس تک بات پہنچی ہے اور اگر وہ اصلاح کرنا چاہیں گے تو کر دیں گے۔
حضورِ انور نے اس بات کی اہمیت کو اُجاگر کیا کہ اصل چیز تقویٰ ہے اور اگر تقویٰ نہیں ہے، تو پھر فائدہ ہی کوئی نہیں، جماعت کی بنیاد تو تقویٰ پر ہونی چاہیے۔اگر یہ نہیں ہے تو پھر ہمارے میں اور غیر احمدیوں میں کیا فرق ہے؟ وہ بھی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کا دعویٰ کرتے ہیں، وہ بھی نمازیں پڑھتے ہیں، وہ بھی کلمہ پڑھتے ہیں، وہ بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عشق ومحبّت کا دعویٰ کرتے ہیں، لیکن سٹیج پر کچھ کہتے ہیں اور عمل کچھ اور کرتے ہیں۔ اگر ہمارے بھی عمل ایسے ہی ہیں تو پھر اس کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔
حضورِانور نے آخر میں اس امر کی جانب توجہ مبذول کروائی کہ اس لیے عہدے دار کو پہلے اپنی اصلاح کرنی چاہیے اور پھر اگر دیکھے کہ پانی حدّ سے گزر گیا ہے اور اب یہاں مجھے قدم اُٹھانا چاہیے تو پھر اپنے بالا افسر کو شکایت کرے کہ میرا فلاں افسر اس طرح بات کرتا ہے اور اس طرح سے نہیں ہونا چاہیے۔ اگر بات جماعتی یا مقامی طور پر نہیں سنی جاتی اور نیشنل سطح پر بھی نہیں سنی جاتی، تو پھر مرکز ہے، یہاں لکھیں۔ اور جب آپ نے لکھ دیا تو پھر آپ اپنی ذمہ داری سے فارغ ہو گئے اور اللہ تعالیٰ کے سامنے بری الذمہ ہو گئے۔ پھر اگر کوئی گنہگار بنے گا تو وہ افسر بنے گا جن تک آپ نے شکایت کی تھی اور انہوں نے کوئی قدم نہیں اُٹھایا اور اصلاح نہیں کی۔
ملاقات کے اختتام پر تمام حاضرینِ مجلس کو از راہِ شفقت حضورِ انور کے ہمراہ گروپ تصویر بنوانے اور بطورِ تبرک قلم حاصل کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی۔
٭…٭…٭