حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

سچائی کے خلق کو اپنائیں

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۹؍دسمبر ۲۰۰۳ء)

آنحضرتﷺ نے فرمایا: کیا مَیں تمہیں سب سے بڑے گناہ نہ بتاؤں۔ ہم نے عرض کیا جی حضور! ضرور بتائیں۔ آپ ؐ نے فرمایا، اللہ کا شریک ٹھہرانا(سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک گناہ ہے)، والدین کی نافرمانی کرنا، آپ تکیے کا سہارا لئے بیٹھے ہوئے تھے، آپ جوش میں آ کر بیٹھ گئے اور بڑے زور سے فرمایا دیکھو!تیسرا بڑا گناہ جھوٹ بولنا اور جھوٹی گواہی دینا ہے۔ آپؐ نے اس بات کو اتنی دفعہ دہرایا کہ ہم نے چاہا کہ کاش حضورؐ خاموش ہو جائیں۔ (بخاری کتاب الادب باب عقوق الوالدین)

تو اس حدیث سے اندازہ ہوتاہے کہ آنحضرتﷺ کو جھوٹ سے کس قدر نفرت تھی۔ اور آپؐ کی ہر تعلیم ہی اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق تھی۔ تو اصل میں جیساکہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایاہے کہ شرک اور جھوٹ ایک ہی چیزہیں۔ انسان نے اپنے اندر بھی بہت سے بُت بنائے ہوتے ہیں۔ اور بہت سے جھوٹ کے بُت بنائے ہوتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ آج کی دنیا کی حالت بہت نازک ہو گئی ہے۔ جس پہلواوررنگ سے دیکھو جھوٹے گواہ بنائے جاتے ہیں، جھوٹے مقدمہ کرنا تو بات ہی کچھ نہیں، جھوٹے اسناد بنالئے جاتے ہیں۔ (یعنی کاغذات بھی جھوٹے بنا لئے جاتے ہیں، مقدمے بھی جھوٹے بنالئے جاتے ہیں، پیشیاں بھی جھوٹی، گواہیاں بھی جھوٹی، ہر چیز جھوٹی )۔ کو ئی امر بیان کریں گے توسچ کا پہلو بچا کربولیں گے۔ اب کوئی ان لوگوں سے جو اس سلسلہ کی ضرورت نہیں سمجھتے پوچھے کہ کیا یہی وہ دین تھا۔ (وہ لوگ جو سمجھتے ہیں کہ احمدیت کی کوئی ضرورت نہیں، ان سے اگر کو ئی پوچھے )کہ کیا یہ وہی دین تھا جو آنحضرتﷺ لے کر آئے تھے ؟ اللہ تعالیٰ نے تو جھوٹ کو نجاست کہا تھا کہ اس سے پرہیزکرو۔ اِجْتَنِبُوْاالرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ بت پرستی کے ساتھ اس جھوٹ کو ملا یا ہے۔ جیسااحمق انسان اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر پتھر کی طرف سرجھکاتا ہے ویسے ہی صدق اور راستی کو چھوڑ کر اپنے مطلب کے لئے جھوٹ کوبت بناتاہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کو بت پرستی کے ساتھ ملایا اور اس سے نسبت دی جیسے ایک بُت پرست بُت سے نجات چاہتاہے۔ (یعنی وہ سمجھتاہے کہ بُت اسے نجات دے گا اس کے مسائل سے )۔ اسی طرح جھوٹ بولنے والا بھی اپنی طرف سے بُت بناتاہے اور سمجھتاہے کہ اس بُت کے ذریعہ نجات ہوجاوے گی۔ کیسی خرابی آ کر پڑی ہے۔ اگر کہا جاوے کہ کیوں بُت پرست ہوتے ہو، اس نجاست کو چھوڑ دو۔ تو کہتے ہیں کیونکر چھوڑدیں، اس کے بغیر گزارہ نہیں ہو سکتا۔ اس سے بڑھ کر اور کیا بدقسمتی ہوگی کہ جھوٹ پراپنا مدار سمجھتے ہیں مگرمَیں تمہیں یقین دلاتاہوں کہ آخر سچ ہی کامیاب ہوتاہے، بھلائی اور فتح اسی کی ہے۔ (ملفوظات جلد۸ صفحہ ۳۴۹۔۳۵۰)

وہ سمجھتے ہیں کہ جو انہوں نے اپنے دلوں میں بت بنائے ہوئے ہیں اس کے ذریعہ سے ہی نجات ہے۔ اور یہ بُت بھی بہت سی قسموں کے ہیں، مختلف ملکوں میں، مختلف لوگوں نے قسماقسم کے مختلف بُت اپنے دلوں میں قائم کئے ہوئے ہیں۔ مختلف پیشوں میں سچ کی کمی اور جھوٹ کی زیادتی نظر آتی ہے۔ تویہ اس طرح کا بُت ہی ہے جو انہوں نے اپنے دل میں قائم کیا ہواہے۔ اور جب پوچھو تو یہ کہتے ہیں، جیساکہ حضور بھی فرما رہے ہیں، کہ اس کے بغیر تو یہ کام ہو ہی نہیں سکتا، اگر جھوٹ نہ بولا جائے۔ مثلاً وکالت ہے، ایک بڑا قابل احترام پیشہ ہے اگرصحیح طرح اختیار کیا جائے، استعمال کیاجائے۔ لیکن بعض وکیلوں کو بھی یہ عادت ہوتی ہے کہ اگرکوئی سیدھا سادا کیس بھی ہو تو اس کو بھی ایسے طریقے سے پیش کریں گے کہ اس میں جھوٹ کی ملونی کی وجہ سے بعض دفعہ اس کے مؤکل کو نقصان پہنچ رہاہوتاہے، اس کا نقصان کروا دیتے ہیں۔ یہاں یورپین ملکوں میں بھی اب احمدی آتے ہیں، اسائلم کے کیس بعض دفعہ بڑے سیدھے ہوتے ہیں اور اگر سیدھے طریقے سے ان کو حل کیا جائے تو ہو سکتاہے کہ وہ حل ہو بھی جائیں لیکن بلا وجہ ایسے باتوں میں الجھاتے ہیں کہ اچھا بھلا کیس خراب ہو جاتاہے۔ پھر بعض مؤکل سے سیدھی طرح بات ہی نہیں کرتے، اس کو صحیح صورت حال ہی نہیں بتاتے اور بڑے عرصہ بعد جاکے جب پتہ کرو تو پتہ چلتاہے کہ پیروی ہی نہیں ہو رہی۔ اسی طرح ہمارے ملکوں میں بھی، تیسری دنیا کے ملکوں میں بھی، بعض ان پڑھ لوگوں کو وکلاء بہت چکروں میں ڈالتے ہیں۔ عدالت میں پیش ہی نہیں ہورہے ہوتے، مؤکل سے فیس لے رہے ہوتے ہیں۔ پھر مجرم کو بچانے کے لئے جھوٹی گواہیاں دے رہے ہوتے ہیں اور جن سے فیس لے رہے ہوتے ہیں ان سے بھی جھوٹ بول کر ٹال مٹول کررہے ہوتے ہیں، غلط بیانی کر رہے ہوتے ہیں۔ تو یہ بہت ساری چیزیں ہیں اور ایسے لوگوں کے خیال میں اگر اس طرح بات نہ کی جائے، مثلا ً ایسے ہی جو وکیل ہیں کہ ہیر پھیر نہ کیا جائے اور لوگوں کو دھوکے میں نہ ڈالا جائے تو ان کا رزق ختم ہوجائے گا، ان کی تو کوئی آمد ہی نہیں رہے گی۔ اگر اتنی آسانی سے کیس حل ہونے لگیں۔ توگویا یہ غلط بیانی اور جھوٹ ان کے رازق بن جاتے ہیں۔ جیسے اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ تمہارا رازق مَیں ہوں تو احمدی وکلاء کو ان چیزوں سے پاک ہونا چاہئے۔ مجھے ایک مثال یاد آگئی، فیصل آباد میں جب ہم ہوتے تھے تو خدام خدمت خلق کے تحت باہر جایا کرتے تھے تاکہ دیہاتوں میں جاکے لوگوں سے ملیں اور اگر ان کے کوئی کام بھی ہوں تو وہ کئے جائیں، ان کی ضروریات پوری کی جائیں۔ زمیندار ہیں تو ان کی زمیندارے کی کیا کیا ضروریات ہیں، ان کا جائزہ لیاجائے۔ تو اسی طرح کے ایک وفد میں ہم گئے۔ ایک دیہاتی بیٹھاتھا باتوں باتوں میں اس کو پتہ لگ گیاکہ ہم احمدی ہیں۔ گو کہ یہ اظہار عموماً نہیں کیا جاتاتھا جب تک کو ئی خود نہ پوچھے۔ اس نے ذکرکیاکہ فیصل آباد میں ایک احمدی وکیل ہیں شیخ محمد احمد صاحب مظہرؔ، بہت نیک انسان ہیں اور بہت سچے آدمی ہیں، کبھی غلط بیانی سے کام نہیں لیتے اور کبھی کوئی جھوٹا کیس نہیں لیتے لیکن (وہ پنجابی میں کہنے لگا) ایک نقص ہے ان میں کہ وہ ہیں مرزائی۔ تو مرزائی احمدی ہونا ہی نقص تھا ان میں اور کوئی عیب تلاش نہیں کرسکے۔ تو یہ تو ان کی کم عقلی ہے یا جس طرح مولویوں نے انہیں بتایا اسی طرح انہوں نے اظہار کردیا لیکن اس پر ابوجہل کی یہ بات یاد آجاتی ہے جو اس نے آنحضرتﷺ کو کہی تھی کہ اِنَّا لَا نُکَذِّبُکَ بَلْ نُکَذِّبُ بِمَا جِئْتَ بِہٖ یعنی ہم تجھے جھوٹا قرار نہیں دیتے، توُ تو سچا ہے، صادق القول ہے، بلکہ اس تعلیم کی تکذیب کرتے ہیں جو توُ لے کرآیاہے۔ (جامع ترمذی کتاب التفسیر، تفسیر سورۃ الانعام)

تو اس زمانے میں بھی آنحضرتﷺ کے اسوہ پر عمل کرکے، صرف آپؐ کے حقیقی پیروکار ہی اس زمانے میں یہ نمونے دکھا سکتے ہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی جماعت میں شامل ہونے والے ہی یہ نمونے دکھا سکتے ہیں کہ جن کو یہ کہاجائے، کوئی یہ انگلی نہ اٹھائے کہ یہ شخص جھوٹاہے باقی تعلیم کو جھوٹا کہنا تو خیر ہمیشہ سے انکار کرنے والوں کی سنت چلی آرہی ہے۔

پھر ڈاکٹر ہیں، غلط میڈیکل رپورٹ بنوا دیتے ہیں، بعض مقدمات قائم کروا دیتے ہیں۔ تو جو بھی اپنے پیشے سے خیانت کرے گا وہ جھوٹ کو اپنا کرہی کرے گا۔ خیانت ہے ہی جھوٹ اور کیاہے۔

پھر استاد ہیں۔ بعض اُستاد ہیں جو اس معززپیشے کو جھوٹ کی وجہ سے بدنام کر رہے ہیں۔ رشوت لے کر، پیسے لے کر جھوٹے نمبر لگا دیتے ہیں۔ بلکہ بعض تو ایسے استاد بھی ہیں جو جھوٹی اسناد لے کر ملازمت میں آئے ہوئے ہیں، ان کی کوالیفیکیشن (Qualification) ہی نہیں ہوتی بعض ملکوں میں۔ تو یہ ایسی بھیانک برائیاں ہیں جو معاشرے میں قائم ہیں اور پاکستان وغیر ہ میں جو تیسری دنیا کے ملک ہیں یہ کوئی چھپی ہوئی باتیں نہیں ہیں یہ سب باتیں اخباروں میں آتی ہیں۔ تو جب جھوٹ پر مبنی معاشرہ قائم ہو جائے توپھراقدار ختم ہوتی چلی جاتی ہیں اور ایک وقت میں تمام معاشرہ ہی بے حس اور بالکل ہی اللہ تعالیٰ سے دور جانے والا ہوجاتاہے۔ تو ہر احمدی کو اس معاشرہ میں ایسی باتوں سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا ہے۔ یہ احساس پیدا کرناہے، اپنے اندربھی، اپنی نسلوں کے اندر بھی کہ احمدی ہونے کی حیثیت سے تم نے سچائی پر قائم رہناہے اور جھوٹ کے خلا ف جہاد کرناہے۔ جتنا مرضی اس میں نقصان ہواس کی کوئی پرواہ نہیں کرنی۔ اس لئے ہر احمدی چاہے وہ ملازمت سے منسلک ہو، چاہے کسی پیشے سے منسلک ہو، چاہے کوئی کاروبار کرتاہو، یہ عہد کرے کہ مَیں نے جھوٹ کا سہارا نہیں لینا۔ اب کاروبار میں، بعض کاروباری حضرات ہیں، بعض دفعہ اپنی چیزیں فروخت کرنے کے لئے غلط بیانی اور جھوٹ کا سہارا لے رہے ہوتے ہیں۔ وقتی طور پر تو شاید ان کو فائدہ نظر آرہاہولیکن حقیقت میں جھوٹ کے راستے وہ شرک کی طرف جارہے ہوتے ہیں۔ تو اس زمانے میں احمدی کو بہت پھونک پھونک کر قدم اٹھانا چاہئے۔ کیونکہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بیعت کا دعویٰ کرنے کے بعد، جھوٹ سے نفرت کا وعدہ کرنے کے بعد، بے احتیاطی کرنے کا مطلب ہے کہ ہم یہ خیال کر رہے ہیں کہ شاید جھوٹ بول کر اللہ تعالیٰ کو دھوکہ دے سکتے ہیں، نعوذباللہ۔ اس لئے بہت خوف کا مقام ہے، بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔

مزید پڑھیں: شیطان کے حملوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہو

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button