جس کو خدائی کا جلوہ دیکھناہو اُسے چاہئے کہ دعا کرے
دعا کے اندر قبولیت کا اثر اس وقت پیدا ہوتاہے جب وہ انتہائی درجہ کے اضطرار تک پہنچ جاتی ہے۔ جب انتہائی درجہ اضطرار کا پیدا ہو جاتاہے اُس وقت اللہ تعالیٰ کی طرف سے اُس کی قبولیت کے آثار اور سامان بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ پہلے سامان آسمان پر کئے جاتے ہیں اس کے بعد وہ زمین پر اثر دکھاتے ہیں۔ یہ چھوٹی سی بات نہیں بلکہ ایک عظیم الشان حقیقت ہے بلکہ سچ تویہ ہے کہ جس کو خدائی کا جلوہ دیکھناہو اُسے چاہئے کہ دعا کرے ۔
(ملفوظات جلد۶صفحہ۱۲۴، ایڈیشن۲۰۲۲ء)
دعا کی مثال ایک چشمہ ٔ شیریں کی طرح ہے جس پر مومن بیٹھاہواہے وہ جب چاہے اس چشمہ سے اپنے آپ کو سیراب کر سکتاہے جس طرح ایک مچھلی بغیر پانی کے زندہ نہیں رہ سکتی اسی طرح مومن کا پانی دعا ہے کہ جس کے بغیر وہ زندہ نہیں رہ سکتا۔ اس دعا کا ٹھیک محل نمازہے جس میں وہ راحت اور سرور مومن کو ملتاہے کہ جس کے مقابل ایک عیاش کا کامل درجہ کا سرور جو اسے کسی بدمعاشی میں میسر آسکتاہے، ہیچ ہے۔ بڑی بات جودعا میں حاصل ہوتی ہے وہ قرب الٰہی ہے۔ دعا کے ذریعہ ہی انسان خدا تعالیٰ کے نزدیک ہوجاتا اور اسے اپنی طرف کھینچتاہے۔ جب مومن کی دعا میں پورا اخلاص اور انقطاع پیدا ہو جاتاہے تو خدا تعالیٰ کو بھی اس پر رحم آ جاتاہے اور خدا تعالیٰ اس کا متولی ہو جاتاہے۔ اگر انسان اپنی زندگی پر غور کرے تو الٰہی تولّی کے بغیرانسانی زندگی قطعاً تلخ ہو جاتی ہے۔
(ملفوظات جلد۷صفحہ۵۹، ایڈیشن۱۹۸۴ء)
اگر میرے بندے میرے وجود سے سوال کریں کہ کیونکر اس کی ہستی ثابت ہے اور کیونکر سمجھا جائے کہ خدا ہے؟تو اس کا جواب یہ ہے کہ مَیں بہت ہی نزدیک ہوں۔ مَیں اپنے پکارنے والے کو جواب دیتاہوں۔ اور جب وہ مجھے پکارتاہے تو مَیں اس کی آواز سنتاہوں۔ اور اس سے ہمکلام ہوتاہوں۔ پس چاہئے کہ اپنے تئیں ایسے بناویں کہ مَیں ان سے ہمکلام ہو سکوں۔ اور مجھ پرکامل ایمان لاویں تا ان کو میر ی راہ ملے ۔
(لیکچرلاہور، روحانی خزائن جلد ۲۰ صفحہ۱۵۹)
مزید پڑھیں: مریض اور مسافر اگر روزہ رکھیں گے تو ان پر حکم عدولی کا فتویٰ لازم آئے گا