ربوہ کے چند بزرگان کی سنہری یادیں
حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہ جہاں پوریؓ
حضرت حافظ مختار احمد صاحب شاہ جہاں پوریؓ ربوہ دارالصدر شرقی حلقہ مسجد مبارک کے ایک کوارٹر میں مقیم ہوتے تھے۔ بہت بڑے عالم دین اور دعا گو بزرگ تھے۔ کبھی کبھی خاکسار بھی آپؓ کی نیک صحبت سے استفادہ کے لیے آپ کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا۔ آپ کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے حوالے اور صفحات نمبر زبانی یاد ہوتے تھے۔ جب کوئی غیراحمدی دوست آتا تو آپ بہت جوش سے تبلیغ کرتے اور ساتھ بیٹھے ہوئے کسی احمدی کو کہتے کہ فلاں کتاب کا فلاں صفحہ ہے اور اس کتاب کو میری الماری سے مجھے پکڑاؤ اور وہ حوالہ پڑھ کر سناتے۔ جس سے غیر احمدی دوست بہت متاثر ہوتے۔ ایک مرتبہ انہوں نے بتایا کہ ایک بار میرے دل میں کوزہ مصری کھانے کی خواہش ہوئی، اگلے ہی دن ایک احمدی خاتون سرگودھا سے میرے گھر مجھے دعا کے لیے ملنے آئیں تو ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جو کوزہ مصری سے بھرا ہوا تھا۔ وہ کہنے لگیں میں نے سوچا محترم حافظ صاحب کو ملنے جانا ہے اس لیے کوزہ مصری ان کے لیے خرید لیتی ہوں۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش کو پورا فرما دیا۔ ان کی دعا کی قبولیت کا خاکسار نے بھی مشاہدہ کیا۔ الغرض بہت محبت اور شفقت کرنے والے بزرگ تھے۔
حضرت قاضی ظہورالدین اکمل رضی اللہ عنہ
حضرت قاضی ظہورالدین صاحب اکمل رضی اللہ عنہ بھی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عظیم صحابی تھے۔ آپ جماعت احمدیہ کے ایک نامور شاعر بھی تھے۔ آپ کوارٹرز صدر انجمن احمدیہ میں رہائش پذیر ہوتے تھے۔ ایک بار خاکسار کو ان کی خدمت میں حاضر ہونے کی سعادت حاصل ہوئی۔ بہت محبت اور شفقت سے پیش آئے۔ خاکسار نے اپنی ایک نظم ستمبر میں جنگ کے حوالے سے اصلاح کے لیے ان کی خدمت میں پیش کی۔ بڑی محبت سے انہوں نے اس کو پڑھا اور جہاں ضرورت تھی وہاں اصلاح کر دی۔ فجزاہم اللہ احسن الجزا۔ بعد میں مسجد مبارک ربوہ میں ایک جلسہ میں خاکسار کو وہ نظم سنانے کی سعادت ملی۔
خالدِ احمدیت مولانا ابوالعطاء صاحب جالندھری
آپ کا گھر دارالرحمت وسطی میں تھا لیکن وہ اکثر نمازیں دارالرحمت غربی کی مسجد ناصر میں ادا کرتے تھے کیونکہ ان کا گھر اُس مسجد کے زیادہ نزدیک تھا۔ خاکسار کا گھر بھی دارالرحمت غربی میں تھا۔ نماز فجر کے بعد بزرگان کا گروپ سیر کے لیے مسجد اقصیٰ تک جاتا تھا۔ اس گروپ میں خاکسار کو بھی شامل ہونے کی سعادت ملتی رہی۔ اس گروپ میں مولانا ابوالعطاء صاحب کے علاوہ مکرم صوفی بشارت الرحمان صاحب، مکرم مسعود احمد دہلوی صاحب، مکرم سمیع اللہ سیال صاحب، مکرم مبارک مصلح الدین صاحب، مکرم اسلم شاد منگلا صاحب، مکرم شیخ عبدالخالق صاحب سمیت بعض اور دوست بھی ہوتے تھے جو گاہے گاہے اس سیر میں شامل ہوجاتے تھے۔ ان بزرگان کا گروپ سیر کے بعد جامعہ احمدیہ کی ٹک شاپ جس کو امیر علی صاحب عرف میرو چلاتے تھے جو اب بھی بفضل اللہ تعالیٰ حیات ہیں اور وہیں براجمان ہیں۔ وہاں بیٹھ کر چائے وغیرہ بھی پیا کرتے تھے۔ بہت مزے کی ایمان افروز باتیں ہوتی تھیں اور خوب رونق لگتی تھی۔ حضرت مولانا ابوالعطا ءصاحب کے ساتھ خاکسار کا ذاتی تعلق بھی تھا۔ آپ مجھ سے بہت محبت اور شفقت فرماتے تھے۔ گولبازار میں افضل برادرز کے ساتھ ان کے رسالہ الفرقان کا دفتر تھااور میری دکان مومن کلاتھ ہاؤس بھی گولبازار میں تھی۔ آپ نے ہی زیادہ تر مجھے شاعری کی طرف مائل کیا تھا۔ آپ بہت اصرار سے مجھے نظمیں الفرقان میں بھجوانے کی تلقین کرتے تھے اور پھرآپ میری ٹوٹی پھوٹی نظموں کی اساتذہ کرام سے اصلاح کروا کر اپنے رسالہ الفرقان میں شائع کر دیتے تھے۔ خاکسار کواور میرے بچوں کو بھی ان کی محبت بھری دعائیں بھی ہمیشہ ملتی رہیں۔
مقبول احمد ذبیح صاحب
ایک میرےپیارے دوست مقبول احمد ذبیح صاحب بھی تھے۔ جو مربی سلسلہ بھی تھے اور ہمارے مہتمم مقامی بھی رہے۔ ان دنوں صدر مجلس خدام الاحمدیہ حضرت صاحبزادہ مرزا طاہر احمد صاحبؒ تھے۔ ان کے دور میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ خاکسار بھی ان کی عاملہ میں ناظم تھا۔
ایک بار مرکز میں چند نوجوانوں کی اصلاح کی خاطر ایکشن لینا پڑا۔ لیکن ان میں سے بعض لڑکوں نے باغیانہ رویہ اختیار کرلیا۔ اس ابتلا میں محترم ذبیح صاحب اور عاملہ کے دیگر دو ممبران کو ان کے اس رویہ کو برداشت کرنا پڑا۔ بعد میں جماعتی طور پر ان کے خلاف اصلاحی کارروائی بھی ہوئی۔
مکرم مقبول ذبیح صاحب کے والد محترم سردار عبدالحق صاحب باوجود بڑھاپے کے تحریک جدید کے ایک مطالبہ کے مطابق ہر دکاندار کے پاس ہر ہفتہ جاتے اور پہلے سودے کا جو منافع ہوتا وہ ان سے وصول کرتے تھے۔
مقبول صاحب کے بیٹے نے مجھے لکھا کہ ہمارے خاندان میں احمدیت میرے دادا جان کے ذریعے سے آئی تھی۔ میرے ابا جان مولانا مقبول احمد ذبیح صاحب نے ۱۹۶۲ء سے ۱۹۶۷ء تک یوگنڈا میں خدمات سرانجام دیں۔۱۹۶۷ء سے۱۹۶۹ء تک مہتمم مقامی ربوہ رہے، اس وقت صدر خدام الا حمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحبؒ تھے۔ اس کے بعد ۱۹۶۹ء سے۱۹۷۴ء تک سیرالیون میں اور ۱۹۷۸ء سے ۱۹۸۳ء تک تنزانیہ میں خدمات بجا لاتے رہے۔ پھر پاکستان کی متعدد جماعتوں میں بھی خدمت کرتے رہے۔ افریقہ سے واپسی پر حج کی بھی توفیق ملی۔ ۱۹۸۶ء سے ۱۹۸۸ء تک ملاوی میں تقرری ہوئی جہاں ان کو اسیر راہ مولا ہونے کی بھی سعادت ملی۔ جماعت کے قاضی بھی رہے۔ اس کے بعد ان کی صحت کافی کمزور ہو گئی تھی۔ حضور انور نے آپ کو لندن بلا لیا جہاں آپ چھ ماہ خدمات بجا لانے کے بعد ربوہ واپس آئے تو آپ کی تقرری بطور نائب ناظر بیت المال آمد ہوئی۔ آپ کی وفات بھی دفتر میں خدمت کے دوران ہوئی۔ آپ کی خواہش بھی یہی تھی کہ خدمت دین کرتے ہوئے خداتعالیٰ کے حضور حاضر ہو جائوں۔
مبارک احمد طاہر صاحب
(مشیر قانونی صدر انجمن احمدیہ)
آپ جب مہتمم مقامی مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ تھے تو ان کی عاملہ میں خاکسار کو بھی بطور ناظم اطفال ربوہ خدمت کی توفیق ملی۔ مبارک طاہر صاحب بہت ہی ملنسار ہنس مکھ اور محبت کرنے والے بہت اچھے دوست تھے۔ میں جب بھی ناروے سے ربوہ آتا تو ان کو ان کے مشیر قانونی کے دفتر ملنے ضرور جاتا۔ بہت محبت سے استقبال کرتے اور بہت خوشی کا اظہار کرتے۔ چائے وغیرہ پیش کرتے شوگر وغیرہ کی وجہ سے آخر میں صحت اتنی اچھی نہیں رہتی تھی لیکن پھر بھی اپنے فرائض بہت خوش اسلوبی سے ادا کرتے تھے۔ ایک بار مجھے انہوں نے بتایا کہ میرے پرائز بانڈ لاکھوں کے حساب سے نکلتے ہیں اس میں سے نصف حصہ میں جماعت کو دے دیتا ہوں جس کی وجہ سے میرے پرائز بانڈز میں خداتعالیٰ نے بہت برکت رکھی ہے۔ایک بیٹا بھی خداتعالیٰ کی راہ میں وقف کرنے کی توفیق ملی جو جامعہ احمدیہ برطانیہ میں بطور استاد خدمت کر رہےہیں۔ ۲۰۱۸ء کے جلسہ سالانہ قادیان میں خاکسار کو شمولیت کی توفیق ملی تو وہاں مکرم مبارک احمد طاہر صاحب سے بھی ملاقات ہوئی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ میں نے قادیان میں جلسہ کے لیے ایک بڑا مکان بنایا ہوا ہے اور اس میں اَور بھی بہت سارے مہمان جلسہ سالانہ قادیان کے دنوں میں قیام کرتے ہیں۔ آپ کی یہ خدمت خداتعالیٰ قبول فرمائے۔ آپ کے چہرہ پر ہمیشہ مسکراہٹ رہتی تھی عجز و انکسار بہت تھا خلافت اور احمدیت کے عاشق تھے۔
چودھری سمیع اللہ سیال صاحب
آپ ناظر صنعت وتجارت بھی رہے۔ ہمارے زمانے میں مجلس خدام الاحمدیہ ربوہ کے مہتمم مقامی تھے۔ ان کی عاملہ میں خاکسار ناظم اطفال تھا۔ ان کے دور میں ہی مجلس اطفال الاحمدیہ پورے پاکستان میں حُسن کارکردگی کی بنا پر اول قرار پائی اور خاکسار کو حضرت خلیفۃالمسیح الثالث رحمہ اللہ کے مبارک ہاتھوں سے علم انعامی حاصل کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔ بعد میں حضور انورؒ کے ساتھ ایک گروپ فوٹو بھی ہوا جو تاریخ احمدیت میں شائع ہو چکا ہے۔ سمیع اللہ سیال صاحب بہت محبت اور پیار کرنے والے بزرگ تھے۔ خاکسار کے ناروے جانے کے بعد بھی سیال صاحب کے ساتھ ایک محبت کا تعلق قائم رہا۔ خاکسار جب پہلی بار ناروے سے ربوہ واپس آیا تو آپ نے اپنے گھر پر میری دعوت کی۔ جب بھی ناروے سے ربوہ آتا جن دوستوں کو ملتا ان میں مکرم سیال صاحب سر فہرست ہوتے تھے۔ جب کبھی میں ربوہ آکر چند دن تاخیر سے ملنے جاتا تو بہت ناراض ہوتے کہ اتنے دنوں کے بعد کیوں آئے ہو اور کبھی بھی چائے پلائے بغیر اٹھنے نہ دیتے۔ بہت ہی محبت اور عزت کرنے والے پیارے بزرگ اور دوست تھے۔
خداتعالیٰ ان تمام بزرگان کے درجات بلند فرمائے اور جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔
ڈاکٹر راجہ نذیر احمدظفر صاحب
گولبازار میں ڈاکٹر راجہ نذیر احمدظفر صاحب ہومیوڈاکٹر تھے۔ وہ اپنے کلینک پر مریضوں کو ادویات دینے کے ساتھ ساتھ تبلیغ بھی بہت کرتے تھے۔ ان کی تبلیغ سے کافی لوگ احمدی بھی ہوئے۔ خاکسار اور میرے والد صاحب کے ساتھ ان کے دوستانہ تعلقات تھے۔ خاکسار کو بھی تبلیغ کرنے کا بہت شوق تھا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ جب خلیفہ بنے تو حضور نے جماعت کو تبلیغ کرنے کی طرف بھرپور توجہ دلائی جس کی وجہ سے جماعت میں تبلیغ کا ایک جذبہ اور جنون پیدا ہو گیا۔ اس وقت ہم حضور کو انفرادی طور پر دعا کے لیے بھی لکھتے تھے اور اپنی تبلیغ کی رپورٹ بھی بھیجتے رہتے تھے۔ ایک بار حضورؒ نے خاکسار اور ڈاکٹر راجہ نذیر احمد صاحب ظفر کا بیعتیںکروانے کا مقابلہ کرایا۔ کچھ عرصہ کے بعد ہم دونوں نے اپنی اپنی بیعتیں کروانے کی رپورٹس حضورؒکی خدمت میں پیش کیں۔ حضور ؒنے بہت خوشنودی کا اظہار فرمایا۔ الحمدللہ۔
ڈاکٹر راجہ نذیر احمد صاحب مرحوم بہت محبت کرنے والے فدائی احمدی دوست تھے۔ کئی بار ہم ربوہ کے ارد گرد دیہات میں ان کے ساتھ تبلیغ کرنے بھی جاتے تھے۔ آپ بہت اچھے شاعر بھی تھے۔ آپ کی بہت ساری نظمیں الفضل اور جماعتی رسائل میں بھی شائع ہوتی رہیں۔ ایک بار انہوں نے اپنے گھر مشاعرہ بھی کروایا تھا جس میں ربوہ کے کئی نامور شعرا شامل ہوئے تھے۔ دو تین نظموں کی اصلاح خاکسار کوبھی ان سےکروانے کی سعادت ملی تھی۔ آپ بہت خوش لباس، خوش خوراک اور مہمان نواز تھے اور دوستوں کی قدر کرنے والے وجود تھے۔ آپ اکثر دوست احباب کو تحائف دیتے تھے۔ جس زمانہ میں خاکسار زعیم خدام الاحمدیہ گولبازار تھا میرے ساتھ بہت تعاون کرتے تھے۔
قریشی فضل حق صاحب
آپ گولبازار میں دکاندار تھے اور گولبازار کی مسجد مہدی کے امام الصلوٰۃ بھی ہوتے تھے۔ آپ کی آواز بہت بلند تھی۔ جب نماز میں تلاوت کرتے تو پورے گولبازار میں آپ کی آواز سنائی دیتی تھی۔ آپ کو تبلیغ کرنے کا بھی بہت شوق تھا اور ایک کامیاب داعی الی اللہ تھے۔ ربوہ کے مضافات میں کئی بار میرے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھ کر تبلیغ کے لیے جایا کرتے تھے۔ ان کی جیب میں ہمیشہ ایک چھوٹا سا قرآن مجید ہوتا تھا جس میں سے آیات نکال کر لوگوں کو دکھاتے اور اس سے احمدیت کی سچائی ثابت کرتے۔ ان کی اس مؤثر اور مدلل تبلیغ سے لوگ بہت متاثر ہوتے اور بعض احمدی بھی ہو جاتے تھے۔ ان کے ساتھ خاکسار کو ایک بار وقف عارضی کرنے کا بھی موقع ملا۔ بہت محبت کرنے والے دعا گو اور بہت ہمدرد بزرگ تھے۔ ان کے ایک بیٹے ربوہ میں خدمت سلسلہ کر رہے ہیں۔ ان کی قریشی مارکیٹ گولبازار میں خاکسار کی بھی کپڑے کی دکان ہوتی تھی۔
پیرمبارک احمد صاحب
اسی مارکیٹ میں ایک پیرمبارک احمد صاحب مرحوم کی مون لائٹ بک سٹور اور جنرل سٹور کی دکان ہوتی تھی۔ محترم پیر مبارک صاحب بہت خلیق، ہمدرد اور دیانت دار تاجر تھے۔ جب ربوہ کے ارد گرد کے دیہات میں سیلاب آتا تو غرباء کی نقدی اور کپڑوں سے مدد کیا کرتے تھے۔ آپ اپنی موٹرسائیکل پر احمد نگر کسی دکاندار کو کتابیں دینے گئے تو ایک ٹرک کے ساتھ ٹکرانے سے شدید زخمی ہوگئے اور فضل عمر ہسپتال پہنچنے تک وفات پاگئے۔ اس المناک حادثہ کی خبر پورے ربوہ میں پھیل گئی اور آپ کے جنازہ میں ربوہ کے سینکڑوں لوگ شامل ہوئے۔
شیخ عبدالخالق صاحب
شیخ عبدالخالق صاحب مرحوم الشرکۃالاسلامیہ گولبازار ربوہ میں خدمات سرانجام دیتے تھے۔ اس کے انچارج حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحبؓ تھے۔ آپ کی رہائش محلہ دارالبرکات میں تھی جہاں خاکسار کا بھی گھر تھا۔ بہت محبت کرنے والے مخلص احمدی دوست تھے۔ یہ مجلس اطفال الاحمدیہ ربوہ کے ناظم بھی تھے۔ ان کے بعد خاکسار ناظم اطفال مقرر ہوا تھا۔ اس وقت مہتمم مقامی مکرم عبدالعزیز صاحب ڈوگر مرحوم ہوا کرتے تھے۔ شیخ عبدالخالق صاحب کی شادی چالیس سال کی عمر کے لگ بھگ بہت تاخیرسے ہوئی تھی اس لیے محترم شیخ صاحب سے دوست ازراہ مذاق پوچھتے رہتے تھے کہ شیخ صاحب آپ کی شادی کب ہو گی؟ آخر خدا خدا کر کے ایک دن اطلاع ملی کہ شیخ عبدالخالق صاحب کا آج مسجد مبارک میں نکاح ہو گیا ہے۔ جامعہ کی گراؤنڈ میں بہت سارے محلوں سے آئے ہوئے خدام کسی ڈیوٹی کے لیے جمع تھے تو محترم میر محمود احمد ناصر صاحب تشریف لائے اور انہوں نے نہایت خوشی سے لاوڈ سپیکر پر اعلان کیا کہ آج شیخ عبدالخالق صاحب کا نکاح ہو گیا ہے اور ساتھ ہی بلند آواز سے یہ مصرعہ پڑھا کہ
کفر ٹوٹا خدا خدا کر کے
جس سے شیخ عبدالخالق صاحب کے دوستوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ آپ دوستوں اور بزرگوں کو گھر چائے اور کھانے کی دعوت پر بھی بلاتے تھے اور بزرگوں کی نماز فجر کے بعد والی سیر پارٹی میں بھی شامل ہوتے تھے۔ خاکسار جب ناروے آ گیا تو میرے ساتھ شیخ صاحب نے ناروے میں بھی رابطہ رکھا۔ بہت پیار اور محبت کرنے والے خادم دین فدائی احمدی دوست تھے۔
راجہ منیر احمد صاحب
آپ مکرم راجہ نصیر احمد مرحوم سابق ناظر اصلاح و ارشاد اور مکرم راجہ نذیر احمد صاحب ظفر کے بھائی تھے۔ یہ لیہ محکمہ زراعت میں ملازمت کرتے تھے۔ بہت مخلص اور فدائی احمدی تھے۔ملازمت کے دوران ان کی احمدیت کی وجہ سے بہت مخالفت بھی ہوئی۔ کچھ عرصہ قطر میں بھی ملازمت کرتے رہے۔ ایک بار ایک غیر احمدی مولوی نے ان کی اور ان کے بعض عزیز احمدیوں کی پولیس کو احمدیت کی وجہ سے شکایت لگا دی جس کی وجہ سے ان سب کو انیس دن جیل میں بھی رہنا پڑا۔اس کے بعد یہ ربوہ شفٹ ہو گئے۔ ڈاکٹر راجہ نذیر احمد صاحب ظفر کی وفات کے بعد موصوف راجہ ہومیوپیتھک کلینک پر مریضوں کو دیکھتے تھے اور ساتھ تبلیغ بھی کرتے تھے۔ خاکسار جب بھی ان کے کلینک پر جاتا بہت خوش ہوتے۔ چائے، بسکٹ پیش کرتے اور بہت محبت سے پیش آتے بہت خوش اخلاق اور محبت کرنے والے مخلص فدائی احمدی دوست تھے۔
(خواجہ عبدالمومن۔ ناروے)
٭…٭… ٭