شیطان کے حملوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہو
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۲؍دسمبر ۲۰۰۳ء)
قرآن کریم میں چار پانچ مختلف جگہوں پر یہ حکم ہے کہ شیطان کے قدموں پر نہ چلو، ان پر چلنے سے بچتے رہو۔ کبھی عام لوگ مخاطب ہیں اور بعض جگہ مومنوں کو مخاطب کیا گیاہے۔ تو ایمان لانے والوں کو یہ تنبیہ کی ہے، مومنوں کو یہ تنبیہ کی ہے کہ یہ نہ سمجھوکہ ہم ایمان لے آئے اس لئے ہمیں اب کسی چیز کی فکر نہیں ہے۔ فرمایا کہ نہیں۔ تمہیں فکر کرنی چاہئے۔ کیونکہ جہاں تم ذرا بھی لا پرواہ ہوئے، اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہاری توجہ ہٹی تو تمہارا ایمان ضائع ہونے کا خطرہ ہر وقت موجود ہے۔ کیونکہ شیطان گھات میں بیٹھا ہے۔ اس نے تو آدم کی پیدائش کے وقت سے ہی کہہ دیاتھا کہ اب مَیں ہمیشہ اس کے راستے پر بیٹھا رہوں گااور شیطان نے اپنے پر یہ فرض کر لیا تھا کہ اللہ تعالیٰ جو بھی آدم اور اس کی اولاد کے لئے نیک راستے تجویز کرے گا وہ ہر وقت ہر راستے پر بیٹھ کر ان کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا اور شیطان نے یہ کہا کہ مَیں ان کے د لوں میں طرح طرح کی خواہشات پیدا کروں گا تاکہ وہ سیدھے راستے سے بھٹکتے رہیں۔ مختلف طریقوں سے انسانوں کو ورغلانے کی کوشش کرتا رہوں گا۔ اگر ایک دفعہ میرے ہاتھ سے نکل بھی جائیں تو مَیں لگاتار حملے کرتارہوں گا کیونکہ مَیں تھک کر بیٹھنے والا نہیں ہوں۔ مَیں دائیں سے بھی حملہ کروں گا، مَیں بائیں سے بھی حملہ کروں گا، پیچھے سے بھی حملہ کروں گا، سامنے سے بھی حملہ کروں گا۔ اللہ تعالیٰ کو اس نے ایک طرح کا چیلنج دیاتھاکہ ایسے ایسے طریقوں سے حملہ کروں گا کہ ان میں سے بہتوں کو تُوشکرگزار نہیں پائے گا۔ تو خیر وہ تو اللہ تعالیٰ نے اس کو جواب دیا لیکن دنیا میں ہم دیکھتے ہیں کہ ناشکرگزارلوگ ہوتے ہیں تو واضح ہوگیا کہ وہ شیطان کے قدموں پر چلنے والے ہیں۔ اور شیطان کے قدموں پر حکم بھی ہے کہ نہ چلو تو اس کا حکم کیاہے۔ جیساکہ واضح ہے کہ شیطان کا راستہ اختیار نہ کرو۔ ان باتوں پر عمل نہ کرو جو شیطان کے رستے کی طرف لے جانے والی ہیں۔ جب انسان مومن بھی ہو، پتہ بھی ہو کہ شیطان کا راستہ کون سا ہے اور پھر یہ بھی پتہ ہو کہ شیطان کا راستہ انتہائی بھیانک راستہ ہے۔ یہ مجھے تباہی کے گڑھے کی طرف لے جائے گا توپھر کیوں ایسا شخص جو ایک دفعہ ایمان لے آیاہو شیطان کے راستے کو اختیار کر ے گا اور اپنی تباہی کے سامان پیدا کرے گا۔ کوئی عقل والا انسان جس نے ایمان بھی دیکھ لیاہو، جانتے بوجھتے ہوئے کبھی بھی اپنے آپ کو اس تباہی میں نہیں ڈالے گا۔ تو پھرکیوں مومنین کو یہ تنبیہ کی گئی ہے کہ شیطان کے راستے پر مت چلو، اس سے بچتے رہو۔ تو ظاہر ہے یہ وارننگ، یہ تنبیہ اس وجہ سے دی گئی ہے جیساکہ مَیں نے پہلے بھی بتایاہے کہ شیطان نے کھلے طورپر آدم کو، اس کی اولاد کو چیلنج دے دیا تھاکہ مَیں تمہیں ورغلاتا رہوں گا اور ایسے ایسے طریقوں سے ورغلاؤں گا، اور ایسی ایسی جہتوں سے حملہ کروں گا کہ تمہیں پتہ بھی نہیں چلے گاکہ ہوکیاگیاہے۔ اور یہ حملے ایسے پلاننگ سے اور آہستہ آہستہ ہوں گے کہ تم غیرمحسوس طریق پر یہ راستہ اختیار کر تے چلے جاؤ گے میرا مسلک اختیار کرتے چلے جاؤ گے۔
ایک دوسری جگہ بھی اللہ تعالیٰ فرماتاہے ۪ وَلَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّیۡطٰنِ ؕ اِنَّہٗ لَکُمۡ عَدُوٌّ مُّبِیۡنٌ تم شیطان کے پیچھے نہ چلو کیونکہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ تحریر فرماتے ہیں :’’اس آیت میں خُطُوَاتِ کا لفظ اس حقیقت کی طرف اشارہ کرنے کے لئے استعمال کیا گیا ہے کہ شیطان ہمیشہ قدم بقدم انسان کو گمراہی کی طرف لے جاتا ہے۔ وہ کبھی یکدم کسی انسان کو بڑے گناہ کی تحریک نہیں کرتا بلکہ اسے بدی کی طرف صرف ایک قدم اٹھانے کی ترغیب دیتا ہے۔ اور جب وہ ایک قدم اٹھا لیتا ہے تو پھر دوسرا قدم اٹھانے کی تحریک کرتا ہے۔ اس طرح آہستہ آہستہ اور قدم بقدم اسے بڑے گناہوں میں ملوث کر دیتا ہے۔ پس فرماتا ہے ہم تمہیں نصیحت کرتے ہیں کہ تمہارا صرف چند احکام پر عمل کر کے خوش ہو جانا اور باقی احکام کو نظرانداز کر کے سمجھ لینا کہ تم پکے مسلمان ہو ایک شیطانی وسوسہ ہے۔ اگر تم اسی طرح احکام الٰہیہ کو نظرانداز کرتے رہے تو رفتہ رفتہ جن احکام پر تمہارا اب عمل ہے ان احکام پر بھی تمہارا عمل جاتا رہے گا۔ پس اپنے اعمال کا جائزہ لیتے رہو۔ اور شیطانی وساوس سے ہمیشہ بچنے کی کوشش کرو۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد دوم صفحہ۴۵۷)
پھر آپؓ اس کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ ’’اے مومنو! تم شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔ اس لئے کہ جو شخص شیطان کے قدموں کے پیچھے چلے گا وہ بدی اور بدکاری میں مبتلا ہو جائے گا۔ کیونکہ شیطان فحشاء اور منکرکا حکم دیتاہے۔ اس میں یہ بتایا گیاہے کہ ہر برائی جو دنیا میں پھیلتی ہے اس کی ابتداء بھیانک نہیں ہوتی۔ شیطان کا یہ طریق نہیں کہ کوئی خطرناک بات کرنے کے لئے ابتداء میں ہی انسان کو تحریک کرے۔ کیونکہ انسان کی فطرت میں حیاء و شرم کا مادہ رکھا گیاہے اس لئے جس کام کو انسان صریح طورپر برا سمجھے اس کوفوری طورپرکرنے کے لئے وہ تیار نہیں ہوتا۔ مثلاً شیطان اگر کسی کو سیدھا ہلاکت کی طرف لے جانا چاہے تو وہ نہیں جائے گا، ہاں چکر دے کر لے جائے تو چلا جائے گا۔ پس شیطان پہلے ہی کسی بڑی بدی کی تحریک نہیں کرتابلکہ پہلے چھوٹی برائی کی جو بظاہر برائی نہ معلوم ہوتی ہو تحریک کرتاہے۔ پھر اس سے آگے چلاتاہے، پھر اس سے آگے، حتی کہ خطرناک برائی تک لے جاتاہے۔ گویا شیطان پہلے ہی گڑھے کے سرے پرلے جا کر انسان کو نہیں کہتاکہ اس میں کود پڑو بلکہ پہلے گھرسے دور لے جاتاہے۔ (اس کی مثال دیتے ہوئے فرماتے ہیں )جس طرح ڈاکو گھر کے پاس حملہ نہیں کر تے یا جو لوگ بچوں کو قتل کرتے ہیں وہ گھر کے پاس نہیں کرتے بلکہ ان کو دھوکہ اور فریب سے دور لے جاتے ہیں۔ کہتے ہیں آؤ تمہیں مٹھائی کھلائیں اور جب شہر یا گاؤں سے باہر لے جاتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ اب کوئی دیکھنے والا نہیں تو گلا گھونٹ کر مار دیتے ہیں۔ (یہاں بھی ایسے کئی واقعات ہوتے ہیں آپ پڑھتے ہیں اخباروں میں ) یہی طریق شیطان کا ہوتاہے۔ وہ پہلے انسان کو اس قلعہ سے نکالتاہے جہاں خدا نے انسان کو محفوظ کیا ہوا ہوتاہے۔ یعنی فطرت صحیحہ کے قلعہ سے۔ انسان اُس سے باہر چلا جاتاہے اور وہ سمجھتاہے کہ کوئی حرج نہیں مگر ہوتے ہوتے وہ اتنا دُور چلا جاتاہے کہ پھر اس کا واپس لوٹنا مشکل ہو جاتاہے۔ اور شیطان کے پنجے میں گرفتار ہو کر تباہ ہو جاتاہے۔ جھوٹے الزامات کے ذکر کے ساتھ یہ نصیحت فرمائی کہ اس طر ف توجہ دلائی گئی ہے کہ تم یہ نہ کہنا کہ یہ معمولی بات ہے کیا ہوا اگرکسی پر ہم نے زنا کا الزام لگا دیا۔ یا یہ کہ ہم نے تو نہیں لگایا کسی نے ہمیں بات سنائی اور ہم نے آگے سنا دی۔ شیطان کا یہی طریق ہے۔ وہ پہلے اپنے پیچھے چلا تا اور آہستہ آہستہ روحانیت اور شریعت کے قلعہ سے دور لے جاتاہے اور جب انسان دور چلا جاتاہے تو اس کو مارڈالتاہے۔ پس شیطان پہلے تو یہی کرے گاکہ تحریک کرے گا کہ دوسرے کی کہی ہوئی بات بیان کردو، تمہارا اس میں کیا حرج ہے۔ لیکن جب تم ایسا کر لوگے تو پھر خود تمہارے منہ سے ایسی باتیں نکلوائے گا جب یہ بھی کرلو گے تو پھر اس فعل کا تم سے ارتکاب کروا لے گا۔ پس تم پہلے ہی اس کے پیچھے نہ چلو اور پہلے ہی قدم پر اس کی بات کو ردّکر دو تاکہ تم تباہی سے بچو، محفوظ رہو۔ اور اس ردّکرنے کے لئے بھی اللہ تعالیٰ کی مدد کی، اس کے فضل کی ضرورت ہے۔ اس لئے ہمیں نمازوں کے ذریعہ سے، استغفار کے ذریعہ سے اس کی مدد مانگتے رہنا چاہئے۔ پانچ وقت نمازوں کا حکم دے کر اللہ تعالیٰ نے ہمیں یہی راستہ سکھایاہے کہ شیطان سے بچنے کے لئے پانچ وقت میرے حضور حاضر ہو اور میرا فضل مانگو تو ان شاء اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رہوگے، بہت ساری برائیاں تمہارے اندر نہیں جائیں گی۔ کیونکہ شیطان تو جسم کے اندر ہروقت موجود ہے۔ جیساکہ اس حدیث سے ظاہر ہے۔
حضرت جابر ؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایاکہ ایسی عورتوں کے ہاں نہ جاؤجن کے خاوند غائب ہوں کیونکہ شیطان انسان کی رگوں میں خون کی مانند دوڑتاہے۔ (سنن دارمی کتاب الرقاق باب الشیطانی جری مجری الدم)
مزید پڑھیں: اللہ تعالیٰ کے احکام کو بھلانا، قوموں کے زوال کی وجہ ہے