الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔

محترم سردار مصباح الدین صاحب
اور محترم بشیرالدین احمد سامی صاحب

مکرمہ صفیہ بشیر سامی صاحبہ کی کتاب ’’میری پونجی‘‘ کا تعارف اور اس کے مضامین کا اختصار سے بیان مجلس انصاراللہ برطانیہ کے رسالہ ’’انصارالدین‘‘ جنوری؍فروری ۲۰۱۴ء میں خاکسار محمود احمد ملک کے قلم سے شامل اشاعت ہے۔

مؤلفہ کتاب نے اپنے خاندان کے چند بزرگوں کا ذکرخیر بھی اس کتاب میں شامل کیا ہے۔ آپ رقمطراز ہیں کہ میرے سسر (سابق مبلغ انگلستان)محترم سردار مصباح الدین احمد صاحب ایک صاحبِ کشف و رؤیا، مستجاب الدعوات بزرگ تھے۔ زہدو تقویٰ، عبادت و ریاضت ان کی روح کی غذا تھی۔ آپ اکتوبر ۱۸۹۹ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اپنے گاؤں میں حاصل کی اور پھر حصولِ تعلیم کا شوق اُنہیں سیالکوٹ شہر لے آیا۔ بچپن سے چونکہ نماز اور عبادت کی عادت تھی سیالکوٹ آکر بھی اُنہیں کسی مسجد کی تلاش ہوئی اور یہی تلاش اُنہیں کبوتراں والی مسجد میں لے آئی جس کے امام حضرت حافظ مولوی فیض الدین صاحب سیالکوٹیؓ ایک تقویٰ شعاراور مرنجان مرنج بزرگ تھے۔اُن کی خاص نظر اس نیک خصلت نو وارد نوجوان پر پڑی تو اس کے اخلاص کو دیکھ کر تدریس کے ساتھ ساتھ روحانی فیض بھی عطا کیا۔ چنانچہ یہی تعلق بعد میں قبول احمدیت کا سبب بنا اور ۱۹۱۰ء میں حضرت خلیفۃالمسیح الاوّلؓ کے دست مبارک پر بیعت کی سعادت عطا ہوئی۔ آپ پانچ بھائی تھے جن میں سے ایک چھوٹے بھائی مکرم سراج الدین صاحب کو بھی قبول احمدیت کی سعادت ملی۔

۱۹۱۵ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے خطبہ جمعہ میں خدمت دین کے لیے زندگی وقف کرنے کی تحریک فرمائی تو محترم سردار مصباح الدین صاحب نے بھی لبّیک کہا۔ دراصل آپ کا نام آپ کے والدین نے چراغ دین رکھاتھا۔ لیکن زندگی وقف کرنے کے بعد حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے آپ کو انگلستان بھجوانے سے قبل یہ نام بدل کر مصباح الدین رکھ دیا۔ معنی کے لحاظ سے دونوں کا اگرچہ ایک ہی مطلب بنتا ہے۔ ۱۴؍اگست ۱۹۲۲ء کو محترم سردار صاحب قادیان سے لندن کے لیے روانہ ہوئے۔ لندن میں تبلیغی مساعی کے دوران کئی اہم واقعات آپ کے ذریعہ سرانجام پائے۔ جن میں شاہ اردن سے احمدیہ وفد کی ملاقات اور تبلیغی گفتگو بھی شامل ہے۔ کرنل ڈگلس کی دریافت میں بھی محترم مولوی مبارک علی صاحب کی راہنمائی میں آپ نے قابل ذکر کردار ادا کیا۔ ۱۹۲۴ءمیں ہونے والی ویمبلےکانفرنس میں شمولیت کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کی لندن میں تشریف آوری ایک تاریخی موقع تھا۔ اسی موقع پر مسجد فضل لندن کی بنیاد بھی رکھی گئی۔ بعدازاں حضورؓ کے ہمراہ قافلہ میں شامل ہوکر محترم سردار صاحب واپس ہندوستان تشریف لے آئے۔

ایک بار محترم سردار صاحب نے حضورؓ کی خدمت میں عرض کیا کہ ہمارے پبلک جلسوں میں عام طور پر عوام ہی شامل ہوتے ہیں، خواص شامل نہیں ہوتے جس کی وجہ سے ان تک ہماری تبلیغ نہیں پہنچتی ، اس غرض سے اگر اجازت ہو تو لاہور کے بڑے بڑے رؤساء اور اکابرین کو فرد اًفرداً مل کر ان تک حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچایا جائے۔ حضورؓ کو یہ تجویز پسند آئی۔ پھر یہ تجویز انجمن میںپیش ہوئی اور منظوری کے بعد محترم سردار صاحب کو لاہور بھجوا دیا گیا۔ آپ نے متعدد ہندو، سکھ اور عیسائی اکابرین کو ان کے گھروں میں جاکر سلسلۂ احمدیہ کا تعارف کروایا اور انہیں مختلف لٹریچر قیمتاً دیا گیا۔ اس کارگزاری کا مجلس مشاورت میں ذکر کرتے ہوئے حضورؓ نے بہت خوشی کا اظہار فرمایا۔

۱۹۲۶ء میں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو اسسٹنٹ پرائیویٹ سیکرٹری مقرر فرمایا۔ ۱۹۲۸ء میں جامعہ احمدیہ کا آغاز ہوا تو آپ اس کے سٹاف میں شامل تھے۔ لمبا عرصہ ہوسٹل جامعہ کے سپرنٹنڈنٹ بھی رہے۔ نظارت ضیافت میں بھی خدمت کی توفیق ملی۔ افسر استقبال جلسہ سالانہ بھی رہے۔آپ نے مسجد اقصیٰ میں ’’ذکرحبیبؑ‘‘ کے نام سے مجالس کا سلسلہ شروع کیا جو بہت پسند کیا گیا اور حضرت ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے آپ کو حضرت مسیح موعودؑ کی ایک شال عطا فرمائی۔ قیام پاکستان کے بعد آپ چنیوٹ میں آبسے لیکن ربوہ آپ کا اصل مسکن تھا جہاں کثرت سے آمدورفت رہتی۔ آپ ایک اچھے قلمکار تھے اور ریویو آف ریلیجنز میں آپ کے متعدد رشحاتِ قلم شامل ہوا کرتے تھے۔

۱۹۷۸ء میں لندن میںکسرِ صلیب کا نفرنس میں بھی آپ کو شمولیت کی سعادت حاصل ہوئی۔ آپ کی قبولیتِ دعا کے بعض واقعات زیرنظر کتاب کی زینت ہیں۔ آپ کی وفات یکم اگست ۱۹۸۸ءکو ہوئی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ حضرت حافظ مختار احمد صاحبؓ شاہجہانپوری اپنی سوانح حیات میں محترم سردار صاحب کے بارہ میں فرماتے ہیں:

وہ جوان ذی خرد مصباح دین روشن خیال
وہ طلبگارِ ضیائے دل کشائے قادیاں
صوفی پاکیزہ طینت ، فلسفی و حق پرست
سر بسر پابندِ آئینِ وفائے قادیاں
روز و شب سرمست و سرشارِ مے ذکر حبیب
دم بہ دم محو ثنائے مقتدائے قادیاں
خیر خواہِ خلق و نیک اطوار و خوش طبع و خلیق
تابعِ حکم جنابِ رہنمائے قادیاں

محترم سردار صاحب کی اہلیہ محترمہ حاکم بی بی صاحبہ ان کی زندگی میں ہی وفات پاگئی تھیں۔ آپ شادی کے بعد قادیان آئیں تو احمدی نہیں تھیں اور نہ ہی قرآن کریم پڑھا ہوا تھا۔ آپ کے گھر والوں نے آپ کو قادیان جانے سے بہت روکا اور ڈرایا کہ وہاں دین خراب ہوجاتا ہے وغیرہ۔ لیکن آپ نے اُن کا دباؤ قبول نہیں کیا اور آخر اپنی ساری چیزیں اور زیور کی قربانی دے کر خالی ہاتھ قادیان آگئیں۔ یہاں ایمان کی دولت سے مشرف ہوئیں، پہلے خود قرآن پڑھا اور پھر ساری عمر دوسروں کو پڑھایا۔ اردو لکھنا پڑھنا بھی یہاں تک سیکھ لیا کہ رسالہ مصباح میں مضمون شائع ہونے لگے۔

آپ تہجدگزار اور رؤیا صالحہ کی نعمت سے بہرہ ور تھیں۔ نہایت قانع اور نظافت اور طہارت کے بارہ میں بڑی حساس تھیں۔ کشادہ دل اور مہمان نواز تھیں۔ گھر کے سامنے آم کا باغ تھا جس میں کئی راہگیر سستانے کے لیے رُک جاتے۔ آپ نے اپنے بچوں کی ڈیوٹی لگارکھی تھی کہ ہر وقت وہاں پینے کے پانی کا انتظام رکھیں اور صحن کا دروازہ بھی ہر وقت اُن انجان مہمانوں کے لیے کھلا رہتا۔ ایک بار تپ دق کے ایک ایسے مریض کی تیمارداری کرتی رہیں جسے اُس کے لواحقین بھی تپ دق کے خوف سے بےیارومددگار چھوڑ گئے تھے۔

تقسیم ہند کے وقت جب مسلمان قافلے پناہ کے لیے قادیان پہنچنے لگے تو سامنے کے باغ میں مقیم ایک قافلے والوں نے رات کو بارش شروع ہونے پر آپ کے دروازہ پر دستک دی۔ آپ نے اُن کی عورتوں اور بچوں کو اندر بلاکر گھر کے تمام بستر، چارپائیاں، غرضیکہ ہرچیز اپنے ان مہمانوں کے سامنے پیش کر دی۔ پھر وہ لوگ وہیں مقیم ہوگئے جب تک مرکزی انتظام کے تحت کوئی دوسرا انتظام نہ ہوگیا۔

قیام پاکستان کے بعد جب وہ چنیوٹ میں آبسیں تو اگرچہ یہاں آمدن کا کوئی ذریعہ نہیں تھا اور لٹ لُٹا کر پہنچے تھے لیکن اس نئے ماحول میں بہت جلد اپنی جگہ بنالی۔ صبح سے لے کر دن ڈھلے تک مسلسل عورتیں اور بچے قرآن کریم پڑھنے آنے لگے۔ اس ماحول میں وہ ’’بے بے‘‘ کے نام سے پہچانی جانے لگیں۔ ۱۹۵۳ء میں فسادات کی لہر کے دوران انہیں افراتفری میں مکان کو کھلا چھوڑکر ربوہ جانا پڑا۔ لیکن جب حالات سازگار ہونے پر واپس آئے تو معلوم ہوا کہ ہمسایوں نے اس گھر کے احترام کی وجہ سے کسی قسم کا نقصان نہ ہونے دیا تھا۔

جب بھی آپ سے کسی نے مدد کے لیے درخواست کی تو آپ بےچین ہوجاتیں اور اپنے حالات خواہ کیسے ہی ہوں لیکن ہرممکن مدد کرنے کی کوشش ضرور کرتیں۔ ایک بار کسی سوال کرنے والے کو اپنا آدھا کمبل کاٹ کردے دیا تاکہ وہ اپنے نوزائیدہ بچہ کو اُس میں لپیٹ کر سردی سے بچاسکے۔ ایک روز اچانک کسی مہمان کے آجانے پر گھر میں ایندھن نہ ہونے کی وجہ سے اپنی پیڑھی کو آگ لگاکر چائے بنائی اور مہمان کو پیش کردی۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹوں اور دو بیٹیوں سے نوازا۔ بیٹوں میں سے ایک مکرم سر دار عبد القادر صاحب تھے جو ۱۹۷۴ء تک جماعت احمدیہ چنیوٹ کے جنرل سیکرٹری رہے اور بعدازاں ۱۹۹۹ء تک بطور صدرجماعت خدمت کی سعادت پاتے رہے۔ پھر جرمنی آگئے اور یہاں آکر بھی آخری سا نس تک خدمت دین کرتے رہے۔

ایک بیٹے مکرم بشیرالدین احمد سامی صاحب تھے (جو مؤلفہ کتاب کے شوہر تھے)۔ وہ۲؍نومبر ۱۹۳۲ء کو قادیان میں پیدا ہوئے۔ قیام پاکستان کے بعد اپنی فیملی کے ہمراہ چنیوٹ آگئے اور میٹرک یہیں سے کیا۔ کچھ عرصہ دفتر حفاظت مرکز اور دفتر بیت المال میں کام کیا۔ اس دوران شدید بیمار ہوگئے تو حضرت مصلح موعودؓ نے ازراہ شفقت دو مرتبہ تین تین سو روپے کی رقم سے امداد فرمائی۔ پھر آپ کراچی چلے گئے اور ۱۹۵۴ء میں نیوی ہیڈکوارٹرز میں ملازم ہوگئے۔

۱۹۵۳ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر ۲۸؍دسمبر کو حضرت مصلح موعودؓ نے ’’سیر روحانی‘‘ کے مو ضوع پر جو جلالی خطاب فرمایا تھا۔ اس حوالے سے آپ بیان کرتے ہیں کہ اُن دنوں مَیں احمدیہ ہال کراچی میں مقیم تھا۔ اس تاریخی جلسہ کے اختتام کے بعد حضرت مصلح موعودؓ نے جب دفتر والوں سے دریافت فر مایا کہ کیا انہوں نے اس خطاب کو آڈیو پر محفوظ کیا ہے؟ تو جواب نفی میں ملا کیونکہ ریکارڈنگ کے لیے دو مشینوں میں سے ایک خراب تھی اور دوسری بروقت استعمال نہیں کی جاسکی تھی۔ حضورؓ نے دریافت فرمایا کہ بیرونی ممالک سے آنے والے کسی اَور دوست نے اس خطاب کو ریکارڈ کیا ہے؟ تو معلوم ہوا کہ بورنیو سے آنے والے مکرم ڈاکٹر بدرالدین صاحب نے اپنی مشین پر اسے محفوظ کیا تھا لیکن وہ بحری جہاز کے ذریعے بورنیو روانہ ہونے کے لیے ربوہ سے کراچی جاچکے ہیں۔ اس پر حضورؓ نے دفتر کے ایک کارکن کو فوری طور پر ریل گاڑی سے کار آمد مشین کے ساتھ کراچی بھجوایا۔ مکرم ڈاکٹر بدرالدین صاحب اس دن احمدیہ ہال میں مقیم تھے اور اُن کا بحری جہاز اگلی شام روانہ ہونے والا تھا جس پر اُن کا سفر کرنا اس لیے بھی ضروری تھا کہ اس کے بعد اگلے جہاز کے لیے چار ماہ تک انتظار کرنا پڑتا۔ چنانچہ ایک ہی رات میں یہ معرکہ آرا ء خطاب دفتر کی مشین پر منتقل کیا گیا۔

محترم سامی صاحب آٹھ سال تک کراچی میں مقیم رہے اور مختلف حیثیتوں سے خدمت کی توفیق پائی۔ خدام الاحمدیہ میں چار سال تک متواتر علم انعامی حاصل کرنے کا اعزازبھی بطور معتمد مجلس آپ کوحاصل ہوتا رہا۔ اخبار ’’المصلح‘‘ میں بھی خدمت کی توفیق پائی۔ اس دوران حضرت مصلح موعودؓ کی کراچی میں آمد اور قیام کے دوران بھی خاص خدمت کی توفیق عطا ہوتی رہی۔

آپ بیان کرتے ہیں کہ حضرت مصلح موعودؓ نے مارچ ۱۹۵۵ءمیں بغرضِ علاج انگلستان جاتے ہوئے کراچی میں قیام فرمایا تو یہ وہ زمانہ تھا جب کراچی میں اچھی رہائش ایک بڑا مسئلہ تھا۔ باوجود کوشش کے جماعت کراچی کوئی حسب منشاء رہائش کا انتظام نہ کر سکی۔ مجبوراً شہر سے دُور ملیر کی بستی میں گرینڈ ہو ٹل کے عقب میںواقع ایک بہت بڑی حویلی میں انتظام کیا گیا۔ یوں لگتا تھا جیسے مدّتوںاس میں کوئی رہا نہ ہو لیکن حضورؓ کی تشریف آوری کے بعد ماحول بارونق ہوگیا۔ ایک روز ہم حویلی پہنچے تو فوج کے متعدد جوان موجود تھے۔ حضورؓ سفید عمامہ، سفید قمیص شلوار کوٹ زیب تن فرمائے وہیل چیئر میں تشریف فرما تھے۔ گھٹنوں پر کمبل تھا اور حسب معمول ہاتھ میں چھڑی تھی۔ چند لمحے گزرے تو جناب غلام محمد صاحب گورنر جنرل پاکستان کی کار حویلی میں داخل ہوئی۔ چہرہ پر سنجیدگی اور وقار تھا اور نظریںاشتیاق سے لبریز تھیں۔ اُن کو سہارا دے کر فوجی جوان نے کار سے نکالا۔ جسم میں لرزہ تھا، کھڑا ہونے کی سکت نہ تھی۔ یہ نحیف و نزار مہمان، آج اپنے چند لرزتے ہوئے قدموں کے ساتھ حضرت اقدسؓ کی تیمار داری کے لیے حا ضر ہوا تھا۔ ملاقات ختم ہوئی تو حضورؓ کا یہ بیمار تیماردار جن سہاروں اور لرزتے ہوئے قدموں سے حاضر خدمت ہوا، اُنہی پر واپس اپنی شاہی سواری میں بٹھا دیا گیا۔ چہرے پر بلا کی خاموشی، سنجیدگی، متانت اور گہری اداسی کے آثار نمایاں تھے۔ دراصل آپ صبح سے ہی عیادت کے لیے بےتاب تھے۔ حضورؓ کا بےحد اصرار تھا کہ آپ اپنی صحت کا خیال کریںاور تکلیف نہ اٹھائیں، لیکن جناب غلام محمد صاحب کی بھی اپنی ایک ہی ضد تھی کہ وہ آئیں گے۔ چنانچہ عزم و استقلال کے اس پیکر نے اپنی تمام خستہ حالیوں کے باوجود تیمارداری کا شوق پورا کیا۔

آپ مزید بیان کرتے ہیں کہ جب حضورؓ انگلستان سے واپس تشریف لائے تو کراچی میں آپؓ کی کو ٹھی تعمیر ہو چکی تھی اور صحت بھی اچھی تھی چنانچہ معمول کے مطابق مصروفیت اور ملاقاتیں شروع ہوگئیں۔ ایک روز خاکسار نے دیکھا کہ بابائے اردو مولوی عبدالحق صاحب انتظارگاہ میں بیٹھے ہیں۔ اُن کی زندگی کا یہ بہت نازک دَور تھا۔ تجردانہ زندگی، عمر کے تقا ضے، اردو کالج اور ٹرسٹ کے تعلقات میں کشیدگی یہ ساری باتیں اُن کی شخصیت پر براہ راست اثرانداز ہو رہی تھیں۔ مالی حالت ایسی ہوچکی تھی کہ نان نفقہ کا بندوبست بھی (بواسطہ حضرت چودھری سرمحمدظفراللہ خان صاحبؓ) جماعت احمدیہ نے کیا تھا اور مولوی صاحب کو اپنی علمی استعدادوں کو اردوئے معلی کی خدمت کے لیے یکسوئی کے ساتھ ابھرنے کا موقع فراہم کیا تھا۔ یہی وہ عوامل تھے جو انہیں بابائے اردو کا مقام عطا کر گئے۔ حضورؓ کی شفقتوں کو وہ کبھی نہیں بھولے اور آج پھر وہی کشش اُنہیں اس دربار میں لے آئی تھی اور وہ حضورؓ کی عنایات سے جھولی بھر کر واپس لَوٹے۔

۱۹۶۰ء میں محترم سامی صاحب کی تبدیلی پشاور ہوگئی تو جماعت کراچی نے دعاؤں اور اعزاز کے ساتھ رخصت کیا۔ بعدازاں پشاور میں بھی آپ کی خدمات کا بھرپور سلسلہ جاری رہا۔ علاوہ ازیں آپ نے اپنی تعلیم کو بھی جاری رکھا اور منشی فاضل، ادیب فاضل اور بی اے کرلیا۔ مارچ۱۹۶۴ء میں شادی ہوئی جس کے بعد ایم اے بھی کرلیا۔

آپ کے بہت سے عزیز یورپ میں مقیم تھے چنانچہ آپ نے بھی یورپ جانے کا پروگرام بنایا اور ایک قافلے میں شامل ہوکر سڑک کے ذریعہ آٹھ ممالک سے ہوتے ہوئے تین ماہ کا سفر کرکے جرمنی پہنچ گئے۔ وہاں سے ایک عزیز نے آپ کو لندن پہنچا دیا جہاں آپ کے سسرال اور دیگر عزیز موجود تھے اس لیے کچھ آسانی ہوگئی۔ دسمبر کی سرد راتوں میں پہلا کام لاریوں میں ڈبل روٹی لوڈ کرنے کا ملا۔ لیکن شدید سردی کی وجہ سے بیمار ہوگئے۔ ٹھیک ہونے پر پھر نیا کام ڈھونڈا۔ دو سال بعد فیملی بھی آپ کے پاس پہنچ گئی اور اس کے بعد مشکلات کا ایک ایسا لمبا دَور شروع ہوا جس کا پہلے تصور بھی نہیں تھا۔ آخر خداتعالیٰ نے رحم فرماکر مستقل قیام اور رہائش کا انتظام فرمادیا۔ ریلوے میں ملازمت بھی مل گئی اور زندگی کچھ آرام سے بسر ہونے لگی۔

۱۹۸۴ء میں جب حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ ہجرت کرکے لندن تشریف لے آئے تو آپ کی فیملی چند میل دُور واقع اپنے بڑے اور نئے مکان کو چھوڑ کر مسجد کے قریب ایک چھوٹے سے گھر میں منتقل ہوگئی۔ لیکن خلافت کی محبت میں اس قربانی کی برکت سے گھر کا ہر فرد جماعت کی خدمت کی سعادت اور حضورؒ کی شفقت سے بھی حصہ پانے لگا۔

ریٹائرمنٹ کے بعد آپ نے باقی زندگی خدمت دین کے لیے وقف کیے رکھی۔ آپ ’’اخبار احمدیہ‘‘ لندن کے دس سال تک ایڈیٹر رہے، مرکزی جرائد کے برطانیہ میں نمائندہ بھی تھے۔ مجلس انصاراللہ برطانیہ کے دو سال تک نائب صدر اور امام مسجد فضل لندن کے ۱۴؍سال تک معاون رہے۔ جلسہ سالانہ یوکے کے سالہاسال ناظم پروگرام و اشاعت رہے۔ تاریخ احمدیت یوکے کی تدوین کے لیے آپ نے انتھک محنت کی۔ اسی طرح انٹرنیشنل جامعہ احمدیہ کے قیام کے حوالے سے بنائی گئی کمیٹی کے سیکرٹری بھی رہے۔

محترم سامی صاحب بلاتفریق مذہب خدمت خلق میں ہمیشہ مستعد رہے۔ خدا تعالیٰ آپ کو کثرت سے سچے خواب بھی دکھاتا۔ آپ نے وفات سے قبل اپنی اہلیہ کو بتایا تھا کہ آئندہ خلیفہ حضرت مرزا مسرور احمد صاحب (ایدہ اللہ تعالیٰ) ہوں گے۔ نیز اپنی وفات سے کچھ دیر پہلے یہ خواب بھی سنایا کہ حضرت مصلح موعودؓ آپ کو لینے آئے ہیں۔ پھر صبر کرنے کی تلقین کرتے رہے۔ آخر تین ماہ سے زیادہ کا عرصہ شدید بیماری میں بہت صبر سے گزار کر ۳۱؍جولائی ۲۰۰۱ء کو وفات پائی تو حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے نماز جنازہ پڑھائی اور ازراہ شفقت مرحوم کے ماتھے پر ہاتھ رکھ کر دعا بھی کی۔

آپ نہایت دھیمے مزاج کے کم گو ، متقی اور پارسا انسان تھے۔ چہرہ پر ہمیشہ ایک معصوم سی مسکراہٹ رہتی تھی۔ہر کس و ناکس سے بڑے تپاک سے ملا کرتے تھے، کبھی کسی سے جھگڑا یا شکررنجی نہیں ہوئی۔ خوش خلق، خوش مزاج اور خوش لباس تھے۔ دینی حلقوں کے علاوہ ادبی حلقوں میں بھی پہچانے جاتے تھے۔ آپ کی وفات پر متعدد افراد نے نثر اور نظم کے ذریعے آپ کی شخصیت کے مختلف پہلوؤں اور خدمات پر روشنی ڈالی۔

………٭………٭………٭………

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ ۱۶؍جولائی ۲۰۱۴ء میں رمضان المبارک کے حوالے سے مکرم مولانا عطاءالمجیب راشد صاحب کی نظم بعنوان ’’قرآن کریم‘‘ شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ہدیۂ قارئین ہے:

رفیق کوئی نہیں ہے کتاب سے بہتر
کوئی کتاب نہیں الکتاب سے بہتر
سدا بہار ہے اس گلستاں کا ہر غنچہ
ہر ایک لفظ ہے اس کا گلاب سے بہتر
سوال کوئی بھی ، کیسا بھی ہو کسی دل میں
جواب اس میں ہے ہر اِک جواب سے بہتر
یہ بحرِ بیکراں ہے ایک علم و حکمت کا
ہے حرف حرف ہزاروں خطاب سے بہتر
یہ اِک کتاب ہے مکنون بھی مبیں بھی ہے
کہ پاؤ گے اسے تم ہر نصاب سے بہتر
کتابِ نُور جو اُتری حبیبِؐ مولا پر
ہزار آفتاب و ماہتاب سے بہتر

مزید پڑھیں: زندہ اور کام کرنے والی جماعت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button