رمضان کی اہمیت اور برکات
رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں،رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے، روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا۔(حضرت مسیح موعودؑ)
ماہِ صیام تیرا کیوں نہ ہو احترام
کہ نازل ہوا تجھ میں اللہ کا کلام
رمضان کی آمد آمد ہےہر طرف لوگ اس ماہ مبارک کے لیے تیاریاں کر رہے ہیں اس مہینے کی برکت اور فضیلت کا اندازہ ہمیں قرآن و حدیث سے بخوبی ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ اس ماہ مکرم کے متعلق فرماتا ہے کہیٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا کُتِبَ عَلَیۡکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِکُمۡ لَعَلَّکُمۡ تَتَّقُوۡنَ۔…شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ ہُدًی لِّلنَّاسِ وَبَیِّنٰتٍ مِّنَ الۡہُدٰی وَالۡفُرۡقَانِ ۚ فَمَنۡ شَہِدَ مِنۡکُمُ الشَّہۡرَ فَلۡیَصُمۡہُ ؕ وَمَنۡ کَانَ مَرِیۡضًا اَوۡ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنۡ اَیَّامٍ اُخَرَ ؕ یُرِیۡدُ اللّٰہُ بِکُمُ الۡیُسۡرَ وَلَا یُرِیۡدُ بِکُمُ الۡعُسۡرَ ۫ وَلِتُکۡمِلُوا الۡعِدَّۃَ وَلِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ہَدٰٮکُمۡ وَلَعَلَّکُمۡ تَشۡکُرُوۡنَ۔ (البقرہ:۱۸۴ و ۱۸۶)ترجمہ: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو! تم پر (بھی) روزوں کا رکھنا (اسی طرح) فرض کیا گیا ہے جس طرح ان لوگوں پر فرض کیا گیا تھا جو تم سے پہلے گزر چکے ہیں تا کہ تم (روحانی اور اخلاقی کمزوریوں سے) بچو۔… رمضان کا مہینہ (وہ ہے) جس میں قرآن اُتارا گیا ہے جو لوگوں کے لیے ہدایت ہے اور (جس میں) رہنمائی کرنے والی اور (حق و باطل میں) امتیاز کرنے والی واضح نشانیاں ہیں، پس تم میں سے جو کوئی اس مہینہ کو پالے تو وہ اس کے روزے ضرور رکھے اور جو کوئی بیمار ہو یا سفر پر ہو تو دوسرے دنوں (کے روزوں) سے گنتی پوری کرے، اﷲ تمہارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور تمہارے لیے دشواری نہیں چاہتا، اور اس لیے کہ تم گنتی پوری کر سکو اور اس لیے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو اور اس لیے کہ تم شکر گزار بن جاؤ۔
اللہ تعالیٰ کے قرب کو حاصل کرنے اور تقویٰ کے میدان میں ترقی کرنے کے لیے رمضان کا مہینہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ رمضان کا یہ مبارک مہینہ ہمارے نفس کی پاکیزگی کے ساتھ ساتھ ہماری فطرتی بھلائیوں اور خوبیوں کو بھی اُجاگر کرتا ہے۔ اسی بنا پر اللہ تعالیٰ نے رمضان کو فرض قرار دیا ہےتاہم تقویٰ کے میدان میں قدم مار سکیں۔رمضان المبارک کی فضیلت اور اہمیت کو خاکسار آنحضرتﷺ، حضرت مسیح موعودؑ اور خلفائے سلسلہ کے بیان فرمودہ ارشادات کی روشنی میں واضح کرے گا۔
ہمارے پیارے آقا حضرت محمد مصطفی ٰؐ نے ایک موقع پر اس ماہ مبارک کی آمد کی خبر یوں دی کہ’’سنو سنو !تمہارے پاس رمضان کا مہینہ چلا آتا ہے۔ یہ مہینہ مبارک مہینہ ہے جس کے روزے اللہ تعالیٰ نے تم پر فرض کردیے ہیں اس میں جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں اور دوزخ کے دروازے بند کردیے جاتے ہیں اور سرکش شیطانوں کو جکڑ دیا جاتا ہے اور اس میں ایک رات ایسی مبارک ہے جو ہزار راتوں سے بہتر ہے جو اس کی برکات سے محروم رہا تو سمجھو کہ وہ نامراد رہا۔‘‘(نسائی کتاب الصوم باب ذکر اختلاف علی معتمر فیہ۔۲۱۱۰،مکتبہ دارالسلام)
آپﷺ نے رمضان کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ایک اور موقع پر فرمایا: إِذَا دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ فُتِّحَتْ أَبْوَابُ السَّمَاءِ، وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ جَهَنَّمَ، وَسُلْسِلَتِ الشَّیَاطِیْنُ۔کہ رمضان وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں جنت کے دروازے کھول دیےجاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں اور شیطانوں کو باندھ دیا جاتا ہے۔(بخاري کتاب الصوم،:باب هل یقال رمضان أو شهر رمضان ومن رأی کله واسعا،۱۸۹۹،مکتبہ دارالسلام)
انسان کو خدا تعالیٰ کا ذکر ہر حال میں کرنا لازم ہے لیکن رمضان میں ذکرِ الٰہی کی فضیلت کو ہمارے سامنے آپﷺ نے کچھ اسطرح بیان فرمایا ہے کہ تسبیحۃ فی رمضان أفضل من ألف تسبیحۃ فی غیرہٖ۔رمضان میں جو تسبیح و تمحید کی جاتی ہے اس کی فضیلت عام ایام سے ہزار گنا زیادہ ہے۔(ترمذی کتاب الصوم باب فی ثواب التسبیح و التحمید۔۔۔،۳۴۷۲،مکتبہ دارالسلام)
پھر اس ماہِ مکرم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی ہوسکتا ہے کہ حدیث مبارک میں آتا ہے کہ
ھُوَ شَہْرٌ اَوَّلُہٗ رَحْمَۃٌ وَاَوْسَطُہٗ مَغْفِرَۃٌ وَآخِرُہٗ عِتْقٌ مِّنَ النَّارِ۔وہ ایک ایسا مہینہ ہے جس کا ابتدائی عشرہ رحمت ہے اور درمیانی عشرہ مغفرت کا موجب ہے اور آخری عشرہ جہنم سے نجات دلانے والا ہے۔(مشکوٰۃالمصابیح کتا ب الصوم الفصل الثالث جلد ۱ صفحہ ۳۷۲-۳۷۳،حدیث نمبر ،۱۹۶۵ مکتبہ دارالکتب العلمیہ)
رمضان کی راتوں میں قیام کرنے والے اور روزہ رکھنے والوں کو آپﷺ نے کس طرح جنت کی بشارت اور بہشت میں اعلیٰ مقام حاصل ہونے کی سند عطا فرمائی اس کا ذکر روایات میں کچھ اس طرح بیان ہو ا ہے: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِىَ اللّٰهُ عَنْهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلِى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:… وَمَنْ صَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جو شخص ایمان اور احتساب کی نیت سے رمضان کے روزے رکھتا ہے اس کے تمام گناہ جو اس سے سر زد ہوئے ہیں اسےمعاف کر دیے جاتے ہیں۔(بخاری کتاب الصوم باب من صام رمضان ایماناً و احتساباً و نیۃحدیث نمبر۱۹۰۱،مکتبہ دار السلام)
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللّٰهِ صَلى اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ قَامَ رَمَضَانَ إِيمَانًا وَاحْتِسَابًا غُفِرَ لَهُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِهِ۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو ایمان اور احتساب کی نیت سے رمضان میں قیام کرتا ہے اس کے تمام گناہ معاف کردیے جاتے ہیں جو اس سے سر زد ہوتے ہیں۔(بخاری کتاب الایمان باب قیام لیلۃ القدر من الایمان،حدیث نمبر۳۰،مکتبہ دارالسلام)
خدا تعالیٰ پاک ہے اور وہ پاکیزگی کو پسند فرماتا ہے اور یہاں تک کہ خدا کے فرشتے بھی ایسی جگہوں سے جہاں نجاست یا بد بو ہو وہاں سے اپنے پَر اٹھا لیتے ہیں لیکن خدا تعالیٰ کو روزے دار کے منہ کی بد بو بھی کس قدر پسند ہے اس کا ذکر کرتے ہوئے ہمارے سید و مولا آنحضرت ﷺنے فرمایا: وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَخُلُوفُ فَمِ الصَّائِمِ أَطْيَبُ عِنْدَ اللّٰهِ مِنْ رِيحِ الْمِسْكِ۔اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو خدا تعالیٰ کو کستوری سے زیادہ پسند ہے۔(مسلم کتاب الصیام باب فضل الصیام، ۲۷۰۸، مکتبہ دارالسلام)
کسی انسان کو اگر کہا جائے کہ تمہیں دنیا جہان کے خزانے دیے جا رہے ہیں اور کہا جائے کہ بادشاہ ِوقت تمہاری ملاقات کا مشتاق ہے اور اس نے تمہیں اپنے لیے چن لیا ہے تو انسان کی کیا حالت ہو گی؟ وہ تو خوشی سے پھولا نہ سمائے گا پس روزہ دار کو یہ خوشخبر ی اور بشارت خدا کے پاک نبی خاتم النبیین حضرت محمدﷺ نے کن الفاظ میں دی اس کو سن کر انسان خدا تعالیٰ کی حمد و ثنا کرتا ہے اور اس کی تجلی خاص کے گیت گاتا ہے۔ آپﷺ فرماتے ہیں:كُلُّ عَمَلِ ابْنِ آدَمَ لَهُ إِلَّا الصِّيَامَ، فَإِنَّهُ لِي، وَأَنَا أَجْزِي بِهِ وَالصِّيَامُ جُنَّةٌ۔ روزے کے علاوہ بنی آدم کا ہر عمل اپنے لیے ہے۔روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں (اور) روزہ دار جنت میں ہو گا۔(بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول انی صائم…، ۱۹۰۴، مکتبہ دارالسلام)
وَالصَّوْمُ لِيْ وَأَنَا أَجْزِي بِهِ۔ روزہ میرے لیے ہے اور میں ہی اس کی جزا ہوں۔(ترمذی کتاب الصوم باب ماجاء فی فضل الصوم، ۷۶۴، مکتبہ دارالسلام)
اسی طرح روزہ دار سے خدا تعالیٰ کی شرفِ ملاقات کا حال آپﷺ نے کچھ یوں بیان فرمایا ہے کہلِلصَّائِمِ فَرْحَتَانِ فَرْحَةٌ عِنْدَ فِطْرِهِ وَفَرْحَةٌ عِنْدَ لِقَاءِ رَبِّهِ۔ روزہ دار کے لیے دو خوشیاں ہیں ایک خوشی افطاری کے وقت اور دوسری خوشی اپنے رب سے ملاقات کے وقت۔(مسلم کتاب الصوم باب فضل الصیام،۲۷۰۷،مکتبہ دار السلام)
بات ادھر نہیں رکتی بلکہ آگے چلیں تو رمضان میں کھانے پینے میں بھی برکت رکھی گئی ہے اس کے متعلق آنحضرتﷺ نے ہماری کس طرح راہنمائی فرمائی کہتَسَحَّرُوْا فَإِنَّ فِي السَّحُوْرِ بَرَكَةٌ۔تم سحری کیا کرو سحری میں برکت رکھی گئی ہے۔(ابن ماجہ کتاب الصیام باب ما جاء فی السحور،۱۶۹۲،مکتبہ دارالسلام)
اسلام کی تعلیم اس قدر آسان اور پر نور ہے کہ اس پر عمل کرنے والا کبھی مشکل اور آزمائش میں مبتلا نہیں ہو سکتا بہت سے لوگ ہوتے ہیں جن کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ روزہ رکھیں مگر بعض مجبوریوں کی وجہ سے وہ نہیں رکھ پاتے۔ شریعت بیضاء میں اس کا بھی حل نکا لا گیا اور وہ لوگ جو روزہ نہیں رکھ سکتے مگر ان کو کوئی حقیقی عذر ہو تو ان کو ہمارے پیارے آقا حضرت محمدﷺ نے ان الفاظ میں تسلی اور بشارت دی ہے۔حضرت زید بن خالد الجھنی سے روایت ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا كَانَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، غَيْرَ أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ شَيْئًا۔جس نے کسی بھی روزہ دار کا روزہ افطار کروایا تو اس کے لیے بھی ویسا ہی اجر کسی بھی کمی کے بغیر ہو گا۔ (سنن ترمذی، حدیث نمبر۸۰۷)
پس ان تمام احادیث نبویہﷺ سے ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ رمضان کی فضیلت اور اہمیت کس قدر ہے کہ اس ماہ مبارک میں خدا تعالیٰ کی رحمتِ خاص کی تجلی ہوتی ہے اور ہر طرف برکتیں ہی برکتیں ہوتی ہیں اور اس کا فضل اس کے دربار سے ہوتا ہوا ساری دنیا میں پھیل جاتا ہے۔
اہلِ ایماں کے لئے ہے یہ مسرت کا پیام
آگیا سرچشمۂ فضلِ خدا ماہِ صیام
روح پرور ہے یہ تسبیح و تلاوت کا سماں
کررہے ہیں سب بقدرِ ظرف اس کا اہتمام
مسجدیں فضلِ خدا سے مطلعِ انوار ہیں
پی رہے ہیں اہلِ ایماں بادۂ وحدت کا جام
اب اسی مضمون کو کچھ آگے بڑھا کر امام المتقین حجۃ اللہ بر زمین حضرت مسیح موعودؑاور آپ کے خلفاء کے اقتباسات کی روشنی میں رمضان کی اہمیت اور فضیلت کو خاکسار کسی حد تک قارئین کے سامنے رکھے گا۔
رمضان کی وجہ تسمیہ بیان کرتے ہوئے رسول اللہﷺ کے عاشقِ صادق حضرت اقدس مسیح موعودؑفرماتے ہیں: ’’رمض سورج کی تپش کو کہتے ہیں،رمضان میں چونکہ انسان اکل و شرب اور تمام جسمانی لذتوں پر صبر کرتا ہے دوسرے اللہ تعالیٰ کے احکام کے لئے ایک حرارت اور جوش پیدا کرتا ہے، روحانی اور جسمانی حرارت اور تپش مل کر رمضان ہوا۔ اہل لغت جو کہتے ہیں کہ گرمی کے مہینہ میں آیا۔اس لئے رمضان کہلایا۔میرے نزدیک یہ صحیح نہیںکیونکہ عرب کے لئے یہ خصوصیت نہیں ہو سکتی۔روحانی رَمْض سے مراد روحانی ذوق و شوق اور حرارت دینی ہوتی ہے، رمض اس حرارت کو بھی کہتے ہیں۔ جس سے پتھر وغیرہ گرم ہو جاتے ہیں۔‘‘(الحکم ۲۴ جولائی ۱۹۰۱ء بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد۲صفحہ ۳۱۲)
رمضان بڑی عظمت اور برکات رکھنے والا مہینہ ہے۔ اس کی عظمت اور روزوں کی برکات واضح کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتےہیں کہ ’’شَہۡرُ رَمَضَانَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ یہی ایک فقرہ ہے جس سے ماہ رمضان کی عظمت معلوم ہوتی ہے۔صوفیا نے لکھا ہے کہ یہ ماہ تنویر قلب کے لئے عمدہ مہینہ ہے کثرت سے اس میں مکاشفات ہوتے ہیں صلوٰۃ تزکیہ نفس کرتی ہے اور صوم (روزہ) تجلی قلب کرتا ہے۔ تزکیۂ نفس سے مراد یہ ہے کہ نفس امارہ کی شہوات سے بُعد حاصل ہو جاوے اور تجلیٔ قلب سے یہ مراد ہے کہ کشف کا دروازہ اس پر کھلے کہ خدا کو دیکھ لیوے۔ پساُنۡزِلَ فِیۡہِ الۡقُرۡاٰنُ میں یہی اشارہ ہےاس میں شک و شبہ کوئی نہیں ہے روزہ کا اجر عظیم ہے لیکن امراض اور اغراض اس نعمت سے انسان کو محروم رکھتے ہیں۔
مجھے یاد ہے کہ جوانی کے ایّام میں مَیں نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ روزہ رکھنا سنت اہل بیت ہے … چنانچہ میں نے چھ ماہ تک روزے رکھے اس اثنامیں میں نے دیکھا کہ انوار کے ستونوں کے ستون آسمان پر جا رہے ہیں، یہ امر مشتبہ ہے کہ انوار کے ستون زمین سے آسمان پر جاتے تھے یا میرے قلب سے۔ لیکن یہ سب کچھ جوانی میں ہو سکتا تھا اور اگر اس وقت میں چاہتا تو چار سال تک روزہ رکھ سکتا تھا… خدا تعالیٰ کے احکام دو قسموں میں تقسیم ہیں ایک عبادات مالی دوسرے عبادات بدنی۔ عبادات مالی تو اسی کے لئے ہیں جس کے پاس مال ہو اور جس کے پاس نہیں وہ معذور ہیں۔ اور عبادات بدنی کو بھی انسان عالم جوانی میں ہی ادا کر سکتا ہے ورنہ ۶۰ سال جب گزرے تو طرح طرح کے عوارضات لاحق ہوتے ہیں۔ نزول الماء وغیرہ شروع ہو کر بینائی میں فرق آ جاتا ہے۔ یہ ٹھیک کہا کہ پیری و صد عیب اور جو کچھ انسان جوانی میں کر لیتا ہے اسی کی برکت بڑھاپے میں بھی ہوتی ہے اور جس نے جوانی میں کچھ نہیں کیا اسے بڑھاپے میں بھی صدہا رنج برداشت کرنے پڑتے ہیں۔ موئے سفید از اجل آرد پیام۔انسان کا یہ فرض ہونا چاہئے کہ حسب استطاعت خدا کے فرائض بجا لاوے۔ روزہ کے بارے میں خدا فرماتا ہےو ان تصوموا خیرلّکم یعنی اگر تم روزہ رکھ بھی لیا کرو تو تمہارے واسطے بڑی خیر ہے۔‘‘(البدرمورخہ ۱۲دسمبر ۱۹۰۲ء، صفحہ۵۲ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلد۲ صفحہ۳۱۲ ،۳۱۳)
حضرت مسیح موعودؑ نے کیا ہی اچھوتے انداز میں روزہ کی حقیقت اور حکمت بیان کرتے ہوئےفرمایا:’’پھر تیسری بات جو اسلام کا رکن ہے وہ روزہ ہے۔ روزہ کی حقیقت سے بھی لوگ ناواقف ہیں۔ اصل یہ ہے کہ جس ملک میں انسان جاتا نہیں اور جس عالم سے واقف نہیں اس کے حالات کیا بیان کرے۔ روزہ اتنا ہی نہیں کہ اس میں انسان بھوکا پیاسا رہتا ہے بلکہ اس کی ایک حقیقت اور اس کا اثر ہے جو تجربہ سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانی فطرت میں ہے کہ جس قدر کم کھاتا ہے اسی قدر تزکیہ نفس ہوتا ہے اور کشفی قوتیں بڑھتی ہیں۔ خدا تعالیٰ کا منشاء اس سے یہ ہے کہ ایک غذا کو کم کرو اور دوسری کو بڑھاؤ۔ ہمیشہ روزہ دار کو یہ مدّنظر رکھنا چاہئے کہ اس سے اتنا ہی مطلب نہیں ہے کہ بھوکا رہے بلکہ اسے چاہئے کہ خدا تعالیٰ کے ذکر میں مصروف رہے تاکہ تبتّل اور انقطاع حاصل ہو۔پس روزے سے یہی مطلب ہے کہ انسان ایک روٹی کو چھوڑ کرجو صرف جسم کی پرورش کرتی ہے دوسری روٹی کو حاصل کرے جو روح کی تسلی اور سیری کا باعث ہے اور جو لوگ محض خدا کے لئے روزے رکھتے ہیں اور نرے رسم کے طور پر نہیں رکھتے انہیں چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی حمدا ور تسبیح اور تہلیل میں لگے رہیں جس سے دوسری غذا انہیں مل جاوے۔‘‘(ملفوظات جلد۵ صفحہ۱۰۲،ایڈیشن۱۹۸۸ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ روزے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’روزہ کی حقیقت کہ اس سے نفس پر قابو حاصل ہوتا ہے اور انسان متقی بن جاتا ہے۔…انسان کو جو ضرورتیں پیش آتی ہیں ان میں سے بعض تو شخصی ہوتی ہیں اور بعض نوعی اور بقائے نسل کی۔ شخصی ضرورتوں میں جیسے کھانا پینا ہے اور نوعی ضرورت جیسے نسل کے لئے بیوی سے تعلق۔ ان دونوں قسم کی طبعی ضرورتوں پر قدرت حاصل کرنے کی راہ روزہ سکھاتا ہے اور اس کی حقیقت یہی ہے کہ انسان متقی بننا سیکھ لیوے۔…رمضان شریف کے مہینہ کی بڑی بھاری تعلیم یہ ہے کہ کیسی ہی شدید ضرورتیں کیوں نہ ہوں مگر خدا کا ماننے والا خدا ہی کی رضا مندی کے لئے ان سب پر پانی پھیر دیتا ہے اور ان کی پرواہ نہیں کرتا۔ قرآن شریف روزہ کی حقیقت اور فلاسفی کی طرف خود اشارہ فرماتا اور کہتا یٰٓاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْن۔روزہ تمہارے لئے اس واسطے ہے کہ تقویٰ سیکھنے کی تم کو عادت پڑ جاوے۔ ایک روزہ دار خدا کے لئے ان تمام چیزوں کو ایک وقت ترک کرتا ہے جن کو شریعت نے حلال قرار دیا ہے اور ان کے کھانے پینے کی اجازت دی ہے، صرف اس لئے کہ اس وقت میرے مولیٰ کی اجازت نہیں۔ تو یہ کیسے ممکن ہے کہ پھر وہی شخص ان چیزوں کو حاصل کرنے کی کوشش کرے جن کی شریعت نے مطلق اجازت نہیں دی اور وہ حرام کھاوے، پیوے اور بدکاری میں شہوت کو پورا کرے۔‘‘(حقائق الفرقان جلد ۱ صفحہ ۳۰۲-۳۰۳)
فضیلت اور برکت وہ نہیں جو صرف غیبی طور پر ہی انسان کو ملے بلکہ بعض اوقات ظاہری طور پر بھی ان چیزوں کے فوائد انسان کو نظر آتے ہیں جن کے اہتمام کا اسلام حکم دیتا ہے پس روزے صرف روحانی فائدہ ہی نہیں بلکہ جسمانی فائدہ بھی دیتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہر دو فوائد کا ذکر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’آجکل کی تحقیقات سے معلوم ہوا ہے کہ بڑھاپا یا ضعف آتے ہی اس وجہ سے ہیں کہ انسان کے جسم میں زائد مواد جمع ہو جاتے ہیں اور ان سے بیماری یا موت پیدا ہوتی ہے۔ بعض نادان تو اس خیال میں اس حد ترقی کر گئے ہیں کہ کہتے ہیں جس دن ہم زائد مواد کو فنا کرنے میں کامیاب ہو گئے اس دن موت بھی دنیا سے اٹھ جائے گی۔ یہ خیال اگرچہ احمقانہ ہے تاہم اس میں کوئی شبہ نہیں کہ تھکان اور کمزوری وغیرہ جسم میں زائد مواد جمع ہونے ہی سےپیدا ہوتی ہے اور روزہ اس کے لئے بہت مفید ہے۔ میں نے خود دیکھا ہے کہ صحت کی حالت میں جب روزے رکھے جائیں تو دوران رمضان میں بے شک کچھ کوفت محسوس ہوتی ہے مگر رمضان کے بعد جسم میں ایک نئی قوت اور تر و تازگی کا احساس ہونے لگتا ہے …مگر روحانی لحاظ سے اس کا یہ فائدہ ہے کہ جو لوگ روزے رکھتے ہیں خدا تعالیٰ ان کی حفاظت کا وعدہ کرتا ہے اسی لئے روزوں کے ذکر کے بعد خدا تعالیٰ نے دعاؤں کی قبولیت کا ذکر کیا ہے اور فرمایا ہے کہ میں اپنے بندوں کے قریب ہوں اور ان کی دعاؤں کو سنتا ہوں۔ پس روزے خدا تعالیٰ کے فضل کو جذب کرنے والی چیز ہیں۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۲ صفحہ ۳۷۵، ایڈیشن ۲۰۰۴ء)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒفرماتے ہیں:’’اللہ تعالیٰ کا ایک مومن بندہ رمضان کے مہینے میں جنونی شکاری کی طرح بھوک اور پیاس اور دوسری تکالیف کی پرواہ نہ کرتے ہوئے اپنے جس مطلوب کی تلاش میں نکلتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہے۔وہ سمجھتا ہے کہ اس رحمت کی بارش کے بغیر میرے دل کی جلن دور نہیں ہو سکتی۔ میرے اندر جو آگ لگی ہوئی ہے وہ بجھ نہیں سکتی جب تک مجھ پراللہ تعالیٰ کی رحمت کی بارش نازل نہ ہو۔ پس یہ تمام مفہوم لفظ رمضان کے اندر ہی پایا جاتا ہے۔پس اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ یہ ایک ایسا مہینہ ہے کہ میرے بندوں کو چاہئے کہ وہ راتوں کے تیروں(دعاؤں) کو تیز کریں اور جنونی شکاری کے جنون سے بھی زیادہ جنون رکھتے ہوئے میری رحمت کی تلاش میں نکل پڑیں تب میری رحمت کی تسکین بخش بارش ان پر نازل ہو گی اور میرےقرب کی راہیں ان پر کھولی جائیںگی۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۴؍دسمبر ۱۹۶۵ء مطبوعہ خطبات ناصر جلداول صفحہ۵۱)
حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ فرماتے ہیں:’’رمضان مبارک میں جو لوگ روزے نہیں رکھتے وہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ وہ کن نیکیوں سے محروم رہ گئے ہیں۔ چند دن کی بھوک انہوں نے برداشت نہیں کی، چند دن کی پابندیاں انہوں نے برداشت نہیں کیں اور بہت ہی بڑی نعمتوں سے محروم رہ گئے اور دنیا کی زنجیروں میں اور بھی زیادہ پہلے سے جکڑے گئے۔ کیونکہ جو رمضان کی پابندیاں برداشت نہیں کرتا اس کی عادتیں دنیا سے مغلوب ہو جاتی ہیں اور وہ درحقیقت اپنے آپ کو مادہ پرستی کے بندھنوں میں خود جکڑنے کاموجب بن جایا کرتاہے۔دن بدن یہ لوگ ادنیٰ زندگی کے غلام ہوتے چلے جاتے ہیں۔ اس کے بعد اگرچاہیں بھی تو پھران بندھنوں کو توڑ کر ان سے آزاد نہیں ہوسکتے۔ اس لئے بہت ہی ضروری فیصلہ ہے یہ کہ رمضان کی چند دن کی پابندیاں…تم کرکے دیکھو گے تمہیں معلوم ہوگا کہ اس کے فائدے لامتناہی ہیں۔ چند دن کی سختیاں بہت وسیع فائدے ایسے پیچھے چھوڑ جائیں گی کہ سارا سال تم ان چند دنوں کی کمائیاں کھاؤ گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۵؍اپریل ۱۹۸۸ء)
اللہ تعالیٰ کا کوئی حکم بے فائدہ اور بے حکمت نہیں ہوتا۔روزہ تقویٰ کے معیار کو بلند کرنے کا بہترین ذریعہ ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:’’ایک اَور رمضان کا ہماری زندگیوں میں آنا اور اللہ تعالیٰ کا یہ فرمانا کہ رمضان اس لئے آتا ہے کہ تم تقویٰ اختیار کرو اور حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا یہ فرمانا کہ اس سلسلہ کو اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کے لئے ہی قائم کیا ہے ہم پر بڑی ذمہ داری ڈالتا ہے کہ ہم ہر وقت اپنی حالتوں کے جائزے لیتے رہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے جو یہ خاص فضل کے دن رکھے ہوئے ہیں ان میں اپنے اندر ایسی تبدیلیاں پیدا کریں اور اپنے تقویٰ کے معیاروں کو ایسا بڑھانے کی کوشش کریں جو خدا تعالیٰ ہم سے چاہتا ہے۔ اور پھر رمضان تک ہی محدودنہ رہیں بلکہ اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بنا لیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۲؍جون ۲۰۱۷ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۳؍ جون ۲۰۱۷ء)
حضرت خلیفہ المسیح الخامس اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء میں حدیث ’’روزہ ڈھال ہے‘‘ کی تشریح کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ’’یہ ڈھال تو اللہ تعالیٰ نے مہیا فرما دی لیکن اس کو استعمال کرنے کا طریقہ بھی آنا چاہئے۔ اس کے بھی کچھ لوازمات ہیں جنہیں پورا کرنا چاہئے۔ تبھی اس ڈھال کی حفاظت میں تقویٰ اختیار کرنے کی توفیق ملے گی۔ یہ ڈھال اس وقت تک کار آمد رہے گی جب روزہ کے دوران ہم سب برائیوں سے بچنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ جھوٹ نہیں بولیں گے، غیبت نہیں کریں گے، اور ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں کریں گے، اپنے جسم کے ہر عضو کو اس طرح سنبھال کر رکھیں گے کہ جس سے کبھی کوئی زیادتی نہ ہو۔ ہر ایک، ایک دوسرے کے عیب دیکھنے کی بجائے اپنے عیب تلاش کر رہا ہو گا۔ ایک دوسرے کی برائیاں تلاش کرنے کی بجائے اپنی برائیوں، کمیوں، کمزوریوں اور خامیوں کو ڈھونڈ رہا ہو گا۔ میں حیران ہوتا ہوں بعض دفعہ یہ سن کر، بعض لوگ بتاتے بھی ہیں اور لکھ کر بھی بھیجتے ہیں کہ آپ کے فلاں خطبے پر مجھ سے فلاں شخص نے کہا یہ تمہارے بارے میں خطبہ آیا ہے اس لئے اپنی اصلاح کر لو۔ حالانکہ چاہئے تو یہ کہ ہر ایک اپنا اپنا جائزہ لے اور دوسرے کی آنکھ کے تنکے تلاش نہ کرے۔ تو جب روز وں میں اس طرح اپنے جائزے لے رہے ہوں گے، کان، آنکھ، زبان، ہاتھ سے دوسرے کو نہ صرف محفوظ رکھ رہے ہوں گے بلکہ اس کی مدد کر رہے ہوں گے تو پھر روزے تقوے میں بڑھانے والے ہوں گے۔ اور اللہ تعالیٰ کے ہاں بے انتہا اجر پانے والے ہوں گے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء ، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۵ء)
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے روزے کی فضیلت کو ایک حدیث مبارکہ کی روشنی میں کچھ اس طرح بیان فرمایا ہے:’’نضر بن شیبان کہتے ہیں کہ میں نے ابو سلمہ بن عبدالرحمٰن سے کہا آپ مجھے کوئی ایسی بات بتائیے جو آپ نے اپنے والد سے سنی ہو اور انہوں نے ماہ رمضان کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے براہ راست سنی ہو۔ ابو سلمہ بن عبدالرحمن نے کہا :ہاں ! مجھ سے میرے والد نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر رمضان کے روزے رکھنا فرض کئے اور میں نے تمہارے لئے اس کا قیام جاری کردیاہے۔ پس جو کوئی ایمان کی حالت میں ثواب کی نیت سے اس میں روزے رکھے وہ گناہوں سے ایسے نکل جاتا ہے جیسے اس کی ماں نے اس کو جنم دیا ہو۔ یعنی بالکل معصوم ہو جاتا ہے۔
اللہ کرے کہ ہم اس رمضان میں اسی طرح پاک ہو کر اور معصوم ہو کر نکلیں اور پھر یہ پاک تبدیلیاں بھی ہماری زندگیوں کا ہمیشہ حصہ بن جائیں۔ ‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۷؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء ، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۸؍اکتوبر ۲۰۰۵ء)
خاکسار اپنے مضمون کا اختتام حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے اس اقتباس پر کرے گا جس کو آپ اید ہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے اپنے ایک خطبہ میں بیان فرمایا اور اس پر اپنے خطبے کا اختتام فرمایا۔حضورفرماتے ہیں کہ’’اس وقت مَیں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ایک دعا بھی پیش کرتا ہوں جسے ان دنوں میں ہمیں خاص طور پر کرنا چاہئے تا کہ اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ اللہ تعالیٰ کے حضور آپ نے یہ دعا کی تھی کہ’’اے ربّ العالمین! تیرے احسانوں کا میں شکر نہیں کر سکتا۔ تُو نہایت ہی رحیم و کریم ہے اور تیرے بےغایت مجھ پر احسان ہیں۔ میرے گناہ بخش تا مَیں ہلاک نہ ہو جاؤں۔ میرے دل میں اپنی خالص محبت ڈال تا مجھے زندگی حاصل ہو اور میری پردہ پوشی فرما اور مجھ سے ایسے اعمال کرا جن سے تُو راضی ہو جائے۔ مَیں تیری وجہ کریم کے ساتھ اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ تیرا غضب مجھ پر وارد ہو۔ رحم فرما اور دنیا اور آخرت کی بلاؤں سے مجھے بچا کہ ہر ایک فضل و کرم تیرے ہی ہاتھ میں ہے۔ آمین۔ ثم آمین۔‘‘(ملفوظات جلداوّل صفحہ۲۳۵، ایڈیشن۱۹۸۴ء)(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍ جون ۲۰۱۶ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۸؍جولائی ۲۰۱۶ء)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: رمضان: گنتی کے دنوں کا مہمان