یادِ رفتگاں

رائے ظہور احمد ناصر صاحب

درویش قادیان (ستمبر۱۹۴۷ءتامئی۱۹۵۰ء)

خاکسار کے داداجان رائے ظہور احمد ناصر صاحب پنجاب کے قصبہ میرا پور میں ۱۹۲۶ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا نام ظہور احمد اس علاقے کے ایک احمدی بزرگ سید لال شاہ صاحب مرحوم نے رکھا، جبکہ اس وقت تک خاندان میں کوئی بھی احمدی نہ تھا۔ آپ کی پیدائش کے دو سال بعد سید لال شاہ صاحب کے ذریعہ آپ کے بڑے بھائی محمد امیر صاحب کو ۱۹۲۸ء میں خاندان میں سب سے پہلے احمدیت کو قبول کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔۱۹۳۴ء میں آٹھ سال کی عمر میں آپ کو بڑے بھائی کے ایما پر والدہ محترمہ کے ساتھ بیعت کرنے کی توفیق ملی۔ خاندان میں احمدیت کی شدید مخالفت کی وجہ سے آپ کو بڑے بھائی اور والدہ محترمہ کے ساتھ گھر چھوڑنا پڑا۔ ان مخدوش حالات میں آپ مڈل کے بعد تعلیم جاری نہ رکھ سکے۔ بعدازاں اپنے خاندان کو تبلیغ کرتے رہے۔ ان کی ہر خوشی اورغمی میں شامل ہوتے اور اتمام حجت کے لیے کھل کر احمدیت کا پیغام پہنچاتے۔ آپ کی تبلیغ سے یہ لوگ احمدیت کی مخالفت سے باز آگئے اور تسلیم کرلیا کہ آپ حق پر ہیں۔

۱۹۴۲ء میں سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے گورنمنٹ انگریز کی مددکے لیے احمدی نوجوانوں کو فوج میں بھرتی ہونے کی تحریک فرمائی۔ اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے آپ فوج میں بھرتی ہو گئے۔ پانچ سال فوج میں سروس کے بعد جنگ عظیم دوم کے اختتام پر آپ کو فوج سے فارغ کر دیا گیا۔

جنگ عظیم دوم کے اختتام کے ساتھ ہی ہندوستانی عوام آزادی کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے اور بالآخر ۱۴؍ اگست ۱۹۴۷ء کو ملکی تقسیم اور مکمل آزادی کا اعلان ہو گیا جس کے ساتھ ہی ہندومسلم فسادات کا آغاز ہوا جس میں لاکھوں افرادلقمہ اجل بن گئے۔ ان حالات میں جماعت احمدیہ کو اپنے دائمی مرکز قادیان سے ہجرت کرنا پڑی۔

سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے حفاظت مرکز کے لیے جماعتوں کو خدام بھجوانے کا ارشاد فرمایا۔

اس تحریک پر لبیک کہتے ہوئے آپ اوائل ستمبر ۱۹۴۷ء میں لاہور پہنچے۔ چند دن سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی اقتدا میں نمازیں پڑھنےکےبعد بعض دیگر خدام کے ساتھ ۱۹؍ستمبر ۱۹۴۷ء کو قادیان پہنچ گئے۔ ان دنوں پاکستان سے قادیان جانا اپنی جان پر کھیل جانے کے مترادف تھا۔

تقسیم ملک کے بعد قادیان میں پہلے چند ماہ انتہائی مشکل تھے۔ علاقے کے ہزاروں افراد نے قادیان میں پناہ لی ہوئی تھی۔ مفسد جتھوں کی صورت میں بار بار حملہ کرتے تھے۔ جبکہ کرفیو کی پابندی نے بھی شہری آبادی کے لیے بہت مشکلات پیدا کردی تھیں۔ فوج میں سروس اور تجربہ ہونے کی وجہ سے سخت خطرہ کے وقت آپ کی ڈیوٹی بہشتی مقبرہ اور مزار مبارک سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی حفاظت پر مامور چالیس خدام میں ہوتی تھی۔

قادیان سےہجرت مقدر تھی۔ قادیان کی کثیر آبادی کو بامر مجبوری پاکستان جانا تھا۔ سیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے حکم فرمایا کہ ۳۱۳؍ خدام شعائراللہ کی حفاظت کے لیے قادیان میں رہیں باقی لوگ پاکستان آجائیں۔ ان ۳۱۳؍ خوش قسمت خدام میں آپ بھی شامل تھے۔ بعدازاں ان کو درویشان قادیان کا نام دیا گیا۔

حفاظت مرکز کی غرض سے آپ تین سال تک قادیان میں مقیم رہے۔ اس دوران آپ کو اپنے بڑے بھائی اور والد صاحب کی ۴۰؍دن کے وقفہ کے ساتھ وفات کا صدمہ اٹھانا پڑا۔ جس کو آپ نے بڑے صبر اور حوصلے کے ساتھ برداشت کیا۔ ان حالات میںسیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی اجازت سے آپ مئی ۱۹۵۰ء میں دیگر ۲۵؍خدام کے ساتھ واپس آگئے۔ واپسی پر گھر جانے سے پہلے آپ ربوہ آئے۔ جہاں حضرت مصلح موعودؓ نے آپ کو شرف ملاقات بخشا اور ذاتی اور قادیان کے جماعتی حالات دریافت فرمائے۔ بھائی اور والد کی وفات پر اظہار افسوس کیا اور دلجوئی فرمائی۔

قادیان میں قیام کے تین سال میں آپ کو دو دفعہ اعتکاف بیٹھنے کی توفیق ملی۔ بیت الدعا میں دعائیں کرنے اور حفاظت کے دوران مزار حضرت مسیح موعودؑ کے پاس بیٹھ کر کثرت سے استغفار اور دعا کی توفیق ملی۔ بعد ازاں آپ اکثر ان دنوں کو یاد کرتے تھے۔

قادیان سے واپس آنے کے بعد آپ نے خواب میں دیکھا کہ آپ ایک دعوت میں شریک ہیں جس میں آپ کی کرسی سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی میز کے عین سامنے ہے۔ حضورؓ نے ایک تھالی اٹھا کر آپ کو دی اور فرمایا کہ یہ آپ کے لیے ہے۔ تھالی میں دو قسم کے پھل سیب اور انگور کی مانند تھے جن کی تعداد سات یا آٹھ تھی۔ ابھی کچھ کھایا نہ تھا کہ آنکھ کھل گئی۔

آپ نے یہ خواب حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ  کو بغرض تعبیر سنائی۔ حضرت مولوی صاحبؓ نے فرمایا کہ شادی کے بارے میں تمہاری دعا قبول ہوئی ہے اور پھلوں کی صورت میں تمہیں تمہارے بچے (اولاد) دکھائے گئے ہیں۔ تعبیر کے عین مطابق جلد آپ کی شادی کے سامان ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو چار بیٹوں اور تین بیٹیوں سے نوازا۔

تقسیم ملک کےچند ماہ بعدجب حالات قدرے بہتر ہوئے تو بھارت کی جماعتوں کی تربیت کے لیے قادیان میں صدر انجمن کی از سرنو تشکیل ہوئی۔ اس کام کے لیے درویشان میں سے ہی عملہ لیا گیا۔ آپ کو نظارت علیامیں بطور کلرک اور بعد ازاں ہیڈکلرک کے طور پر دو سال تک خدمت کی توفیق ملی۔ پاکستان واپسی پر آپ کو نظارت علیا قادیان کی طرف سے آپ کی خدمات پر خوشنودی کے سرٹیفکیٹ دیے گئے۔

پاکستان ہجرت کے بعد آپ کو بطور قائدمجلس خدام الاحمدیہ، جنرل سیکرٹری، سیکرٹری دعوت الی اللہ، سیکرٹری اصلاح و ارشاد خدمات کی توفیق ملی۔ جبکہ دارالرحمت وسطی ربوہ میں آپ لمبا عرصہ نائب امام الصلوٰۃ رہے۔

سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا گہری نظر سے مطالعہ کرنے، خلفائے سلسلہ کے خطابات پوری توجہ سے سننے اور الفضل کے باقاعدہ مطالعہ کی وجہ سے آپ کو دینی علوم میں خاطر خواہ دسترس حاصل تھی۔ آپ اچھے مضمون نویس تھے۔ مضمون نویسی کے بعض مقابلوں میں انعامات بھی وصول کیے۔

خاکسار کےوالد صاحب فرماتے ہیں کہ خاکسارنے جب سے ہوش سنبھالا والد صاحب کو باجماعت نماز کی ادائیگی کےلیے مسجد جاتے دیکھا۔ بچوں کو بھی مسجد جانے کی تلقین کرتے۔ فجر کی نماز پر جاتے ہوئے ضرور آواز دے کر جاتے تھے۔اگر کبھی سستی ہو جاتی تو نماز سے واپس آکر دوبارہ اٹھاتے کہ چلو اب گھر میں نماز پڑھ لو۔

چندوں میں آپ ہمیشہ باقاعدہ اور بر وقت ادائیگی کرنے والے تھے۔ آپ کو جوانی میں ہی ۸؍۱ حصہ کی وصیت کی توفیق ملی۔ آپ تحریک جدید دفتر اول میں شامل تھے۔ تحریک جدید میں آپ نے اپنی زندگی میں ہی صد سالہ چندہ بتدریج اضافہ کے ساتھ ادا کر دیا تھا۔

آپ کو ادب سے شغف تھا۔ درثمین، کلام محمود اور بعض دیگر احمدی شعراء جن میں حسن رہتاسی اور ثاقب زیروی صاحب قابل ذکر تھے،کے بہت سے اشعار آپ کو ازبر تھے۔ آپ نے خود بھی بعض نظمیں لکھیں تاہم اپنے متعلق یہی کہتے تھے کہ میں شاعر نہیں بس تُک بندی کرلیتا ہوں۔

زندگی کے آخری برسوں میں آپ نے قرآن کریم کے اہم حوالہ جات اور احکام خداوندی کا خلاصہ بڑی محنت سے اپنے ہاتھ سے لکھا جو تقریباً ۲۰۰ صفحات پر مشتمل ہے۔علاوہ ازیں آپ نے اپنے حالات زندگی خصوصاً قادیان میں بطور درویش گزرے ہوئے تین سال کے حالات بڑی تفصیل سے لکھے جو ہمارے لیے سرمایۂ حیات ہیں۔

۱۹۳۸ء کا واقعہ ہے کہ جب پنجاب لیجسلیٹو کونسل کی ممبری کے لیے داداجان کے حلقہ (حافظ آباد) سے دو امیدوار کھڑے ہوئے۔ دونوں امیدوار احمدیوں سے ووٹ دینے کے لیے درخواست کر رہے تھے۔ احمدی احباب نے یہی جواب دیا کہ ہم ازخود کوئی فیصلہ نہیں کر سکتے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد کے ساتھ حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ تشریف لائے اور بھری مجلس میں جس میں علاوہ احمدیوں کے بہت سے غیراحمدی بھی موجود تھے یہ ہدایت سنائی کہ اسمبلی کی نشست کے لیے ووٹ چودھری ریاست علی صاحب چٹھہ کو دیے جائیں۔ (ان دو میں سے ایک کو)۔ یہ خلافِ توقع فیصلہ سن کر علاوہ احمدیوں کے تمام حاضرین جو چودھری ریاست علی کے مخالف تھے غصّہ سے تِلملا اٹھے اور احمدیوں کے خلاف سبّ و شتم اور مخالفانہ مظاہروں سے اس علاقہ کی فضا کو خراب کر دیا۔ ہم نے اس مخالفت کو صبر و استقلال سے برداشت کیا۔

اس موقع پر علاقے کے ایک بھٹی رئیس حاتم علی نامی نے تو مخالفت انتہا کو پہنچا دی اور جوشِ غیظ میں نہ صرف یہ کہ عام احمدیوں کو گالیاں دیں، بلکہ حضرت مولانا صاحب اور سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانی ؓاور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو بھی بڑی سبّ وشتم (بیہودہ دہنی) کا نشانہ بنایا۔ اور ان بزرگ ہستیوں کی سخت ہتک اور توہین کا ارتکاب کیا۔ کہتے ہیں جب اس کی بدزبانی کی انتہا ہوگئی تو حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ نے حاضرین مجلس کے سامنے ان کو(مخالفین )کو ان الفاظ میں مخاطب کیاکہ حاتم علی! دیکھ اس قدر ظلم اچھا نہیں۔ تیرے جیسوں کو خدا تعالیٰ زیادہ مہلت نہیں دیتا۔ یاد رکھ اگر تُو نے توبہ نہ کی تو جلد پکڑا جائے گا۔ حضرت مولوی صاحب مجمع عام میں یہ الفاظ کہہ کر اور احبابِ جماعت کو صبر کرنے اور اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَجْعَلُکَ فِیْ نُحُوْرِھِمْ وَنَعُوْذُبِکَ مِنْ شُرُوْرِھِمْ کی دعا پڑھتے رہنے کی تلقین کر کے واپس قادیان تشریف لے گئے۔ حاکم علی آپ کے جانے کے معاً بعد بعارضہ سِل بیمار ہوگیا اور مقامی طور پر علاج کی کوشش بھی کی اور میوہسپتال کے ماہر ڈاکٹروں سے علاج بھی کروایا لیکن کوئی فائدہ نہیں ہوا اور چار ماہ کی تکلیف دہ بیماری کے بعد یہ اپنی تمام تر دولت اور جاہ و جلال کے باوجود فوت ہوگیا۔

حاتم علی کی وفات کے دوسرے دن جماعت احمدیہ شاہ مسکین ضلع شیخوپورہ کا تبلیغی جلسہ تھا۔اس جلسے میں شمولیت کے لیے حضرت مولانا صاحبؓ بھی تشریف لائے ہوئے تھے جہاں پر میرے داداجان کے برادربزرگ مولوی محمد امیر احمد صاحب کی ملاقات حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ سے ہوئی۔حضرت مولانا صاحبؓ نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا کہ ’’سنائیے بھائی محمد امیر اس گالیاں دینے والے حاتم علی کا کیا حال ہے؟‘‘مولوی محمد امیر صاحب نے بطور امتحان کے اصل واقعہ کو چھپاتے ہوئے عرض کیا کہ ’’حضرت! حاتم علی کے غرور و تکبر کو آپ جانتے ہیں اس میں کیا کمی ہو سکتی ہے۔‘‘یہ سن کر مولوی صاحب متبسم چہرے سے فرمانے لگے کہ گھروں میں آواں تے سنیہے توں دیویں۔ مجھ سے بات چھپاتے ہو۔ جس دن سے میں تمہارے گاؤں سے گیا ہوں اس دن سے حاتم علی کی بیماری اور اس کے علاج کی کیفیت متواتر مجھے بذریعہ کشف بتائی جا رہی ہے۔ کیا کل تمہارا سارا گاؤں اس کو قبرستان میں دفن کر کے بارش اور آندھی میں واپس نہیں لَوٹا؟‘‘

چونکہ واقعات ہوبہو اسی طرح ہوئے تھے اس لیے مولوی محمد امیر صاحب حضرت مولانا راجیکی صاحبؓ کی زبانی کیفیت سن کر بالکل حیران رہ گئے کہ کس طرح ایک سو میل کے فاصلہ پر بیٹھے ہوئے جملہ حالات سے اللہ تعالیٰ نے ان کو ساتھ ساتھ آگاہ فرمایا۔ (ماخوذ ازحیات قدسی حصہ پنجم صفحہ ۶۳۷-۶۳۹)

آپ کی بیان فرمودہ یہ روایت سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ نے جلسہ سالانہ یوکے ۱۹۹۱ء کے موقع پر بیان فرمائی اور۲۰۰۴ء میں آپ کی یہ روایت ایم ٹی اے سٹوڈیو زنے بھی ریکارڈ کی۔آپ کی شدید خواہش تھی کہ آپ کی اولاد میں سے کوئی مربی سلسلہ ہو۔ آپ ہی کی دعاؤں سےخاکسار کو اللہ تعالیٰ نے جامعہ احمدیہ میں داخل ہوکر تعلیم حاصل کرنےکی توفیق عطا فرمائی ہے۔

آپ نے ۸۶؍ سال کی عمر میں ربوہ میں وفات پائی۔ محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب (ناظر اعلیٰ )نے نماز جنازہ پڑھائی۔ بہشتی مقبرہ میں آپ کی تدفین ہوئی۔ بعد ازاں سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آپ کا جنازہ غائب مسجد فضل لندن میں پڑھایا۔

دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ آپ کی روح کو غریق رحمت فرمائے اور ان کی نیکیوں اور خوبیوں کو ہم سب اولاد میں نسل در نسل منتقل فرماتا چلا جائے۔ آمین

( رائے اطہر احمد۔ متعلم جامعہ احمدیہ یوکے)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: میجر مبشر احمد صاحب کا ذکر خیر

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button