حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

اللہ تعالیٰ کے احکام کو بھلانا، قوموں کے زوال کی وجہ ہے

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۴؍فروری ۲۰۱۱ء)

قوموں کا زوال ہمیشہ اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ خود ساختہ معیاروں کو سامنے رکھتے ہیں، جب وہ ہوا و ہوس میں گرفتار ہو جاتے ہیں، جب وہ بنیادی مقصد کو بھول جاتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے گزشتہ انبیاء کا ذکر کر کے ہمیں اس طرف توجہ دلائی ہے کہ سابقہ قوموں نے جب اپنی تعلیم کو بھلا دیا، جب اپنے مقصد سے روگردانی کرنی شروع کر دی تو پھر یا تو وہ تباہ ہو گئیں یا اُن میں اتنا بگاڑ پیدا ہو گیا کہ اصل تعلیم کی جگہ بدعات اور لغویات اُن میں رائج ہو گئیں جو روحانی اور اخلاقی تباہی ہے۔ برائیاں ان کی نظر میں اچھائیاں بن گئیں۔ پاکیزگی اور حیا اُن کی نظر میں فرسودہ تعلیم بن گئی۔ مذہب کی خود ساختہ تشریحات ہونے لگیں۔ انہوں نے اپنے انبیاء کی تعلیم کو ہی بدل کر رکھ دیا۔ انبیاء کی تعلیم کے نام پر غلط اور اپنی مرضی کی تعلیم اُن کتب کا حصہ بنا دی گئی جو انبیاء کی طرف منسوب کرتے ہیں۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے دلوں میں خدا تعالیٰ کا تقدس بھی باقی نہیں رہا اور نہ ہی انبیاء کا اور روحانی لحاظ سے وہ مردہ ہو گئیں۔ یہی حال آپ دیکھیں آج کل مغرب میں بسنے والی قوموں کا ہے۔ اس کے علاوہ اسلام سے پہلے کے اور جتنے بھی مذہب اپنے آپ کو کسی سے منسوب کرتے ہیں اُن کا بھی یہی حال ہے۔ مسلمانوں پرخدا تعالیٰ کا یہ احسان ہے کہ اس نے اپنے وعدے کے مطابق اس آخری شرعی کتاب کی حفاظت فرمائی۔ اور باوجود اس کے کہ مسلمانوں کی اکثریت کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے پہلے کسی نے ان الفاظ میں نقشہ کھینچا کہ ؎

رہا دین باقی نہ اسلام باقی

لیکن ایک طبقہ ہر زمانے میں ایسا پیدا ہوتا رہا جو قرآن کی تعلیم پر عمل کرنے کی کوشش کرتا رہا، اُس کی حفاظت کرتا رہا اور پھر آخری زمانے میں اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو بھیجا، مہدی معہود کو بھیجا۔ اور آج ہم سب احمدی اس مسیح موعود کو ماننے کا دعویٰ کرنے والے ہیں، اُس شخص کا ہاتھ بٹانے کا دعویٰ کرنے والے ہیں جو ایمان کو ثریا سے زمین پر لایا۔ اُس امام سے منسوب ہونے والے ہیں جس نے دینِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اصل حالت میں دنیا کے کونے کونے میں قائم کرنے کا عہد کیا ہے اور جس کی جماعت نے اس عہد کو پورا کرنا ہے۔ ہماری کتنی خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دنیا کے کونے کونے میں مسیح محمدی کے ذریعے دینِ اسلام کے پیغام کو پہنچانے کی ذمہ داری خود لی ہے اور ہمیں فرمایا کہ تم بھی اس تقدیرِ الٰہی کا حصہ بن جاؤ۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ’’مَیں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ اور تم اس کے حصہ دار بن کے ثواب کماؤ گے۔ ہمیں کس طرح اس الٰہی تقدیر کا حصہ بننا ہے؟ اپنے اندر وہ انقلاب پیدا کر کے جو اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے والا بنا دے۔ اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ کے لئے خالص کر کے، اپنے اندر سے ہر قسم کی برائیوں کو دور کر کے، اپنے قول و فعل میں یکجہتی وہم آہنگی پیدا کر کے۔

اب اس آیت (آل عمران:۱۱۱) میں جن باتوں کی طرف توجہ دلائی گئی ہے وہ ایسی باتیں ہیں جو اگر ہم میں موجود ہوں اور اگر ہم ان کی تبلیغ کرنے والے ہوں تو یہ ہر پاک فطرت کی توجہ اپنی طرف کھینچنے والی ہوں گی۔ یہ ضروری نہیں کہ ایسی تبلیغ کی جائے جو صرف مذہبی مسائل کے لئے ضروری ہے۔ یہ باتیں ایسی ہیں جو اللہ تعالیٰ نے بیان فرمائی ہیں جو ایک دنیا دار کو بھی اپنی طرف کھینچیں گی چاہے وہ کسی بھی مذہب کا ماننے والا ہو بشرطیکہ وہ اخلاقی قدروں کی خواہش رکھتا ہے۔ اُس کے اندر ایک پاک فطرت ہے جو اچھے اخلاق کو چاہتی ہے، اچھی باتوں کو چاہتی ہے۔ بلکہ لامذہب اور دہریہ بھی اچھے اخلاق کو اچھا ہی کہیں گے۔ اچھی باتوں کو اچھا کہنے والے ہوں گے اور بری باتوں کو برا کہیں گے۔ پس اللہ تعالیٰ نے فرمایا اپنی اس ذمہ داری کو سمجھو اور دنیا کے فائدے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نیکیوں کی تلقین کرو اور برائیوں سے روکو۔ حقوق العباد ادا کرنے کی طرف توجہ دلاؤ اور حقوق العباد کے غصب کرنے والوں سے بیزاری کا اظہار کر کے ایسا عمل کرنے والوں کو توجہ دلاؤ، اُن کو روکو۔ لیکن یہ سب کچھ کرنے سے پہلے، جیسا کہ میں نے پہلے بھی کہا، ہمیں اپنے جائزے لینے کی ضرورت ہو گی۔ اپنے اندر کے نظام کو ہم درست کریں گے تو ہماری باتوں کا بھی اثر ہو گا۔ اور اپنے اندر کے نظام کو درست کرنے کے لئے ہمیں ہر وقت یہ پیشِ نظر رکھنا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ کی میرے ہر قول اور فعل پر نظر ہے، میرے ہر عمل کو وہ دیکھ رہا ہے۔ دنیا کو تو میں نے پہلے صرف دنیاوی اخلاق سکھاتے ہوئے نیکی کی تلقین کرنی ہے اور برائی کی پہچان کروا کر اس سے روکنا ہے لیکن مَیں نے اپنے آپ کو خدا تعالیٰ کے اس فرمان کے تحت بھی کرنا ہے کہ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہ کہ یہ نصیحت کرنے والے اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے والے ہوتے ہیں اور اللہ پر ایمان اس وقت حقیقی ہو گا جب اللہ تعالیٰ کی رضا اور اللہ تعالیٰ کی محبت سب رضاؤں اور محبتوں سے زیادہ شدید ہو گی۔ جیسا کہ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ (البقرہ: 166) اور جو لوگ مومن ہیں وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہیں۔ انسان کو جس چیز سے محبت ہوتی ہے اس کا وہ سب سے زیادہ خیال رکھتا ہے۔ پس جب ایمان کا دعویٰ ہو تو اللہ تعالیٰ سے محبت بھی سب سے زیادہ مقدم ہے۔ اور جب خدا تعالیٰ سے محبت ہو تو اس کے احکام پر عمل بھی سب سے زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ پس جب ہم اپنے جائزے لیں تو پھر احساس ہوتا ہے کہ خیرِ امت ہونا صرف ایمان لانے کا اعلان کرنا نہیں ہے۔ اسی سے ہمارا مقصد پورا نہیں ہو جاتا۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی محبت میں قدم بڑھانے سے خیرِ امت میں شمار ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے نیکیوں کی تلقین کرنی ہو گی اور برائیوں سے دوسروں کو روکنا ہو گا۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: دنیا اور آخرت کے دکھوں سے بچنے کا طریق

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button