ڈائری مکرم عابد خان صاحب سے ایک انتخاب (دورہ امریکہ اور گوئٹے مالا۔ اکتوبر و نومبر ۲۰۱۸ء کے چند واقعات۔ حصہ یازدہم)
اے چھاؤں چھاؤں شخص! تری عمر ہو دراز
ایک دُعا کا قبول ہونا
یہ ۳۱؍ اکتوبر ۲۰۱۸ء کی صبح تھی۔ اس دن دو امریکی معززین سے ملاقات کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے صبح سوا گیارہ بجے سے سہ پہر ساڑھے تین بجے تک لگاتار فیملی ملاقاتوں کا سلسلہ جاری رہا۔ ان خوش نصیب افراد میں جو حضورِ انور سے پہلی مرتبہ ملاقات کر رہے تھے پاکستان سے تعلق رکھنے والے ایک احمدی شیخ لطیف احمد اکمل (عمر۴۹؍سال) بھی شامل تھے جو اب امریکہ میں مقیم تھے۔ شیخ لطیف احمد نے مجھے بتایا کہ مَیں جب پہلی بار قادیان گیا اور جونہی میری نظر منارۃ المسیح پر پڑی تو مَیں نے دو دعائیں کیں۔ ایک یہ کہ میں اپنی زندگی میں کم ازکم ایک بار حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ سے ملاقات کر سکوں اور دوسری یہ کہ میرے بچے ہمیشہ اپنے ایمان پر مضبوطی سے قائم رہیں۔ مجھے اس دنیا میں اپنے بچوں سے ملنے یا ان کے قریب رہنے کی خواہش نہیں بلکہ میں چاہتا ہوں کہ اگلی اور دائمی زندگی میں وہ میرے قریب ہوں۔
شیخ لطیف احمد نےبات جاری رکھتے ہوئےکہا کہ آج قادیان میں کی گئی میری پہلی دعا قبول ہو گئی ہےکیونکہ میں اپنے بچوں کو حضورِانور کی زیارت کے لیے لے کر آنے کے قابل ہوا ہوں اور مجھے یقین ہے کہ اس سے ان کا ایمان مضبوط ہوگا۔ درحقیقت قادیان میں کی گئی میری دونوں دعائیں پوری ہو چکی ہیں۔ اب میری اللہ تعالیٰ سے کوئی اور طلب نہیں کیونکہ اُس نے مجھے اس سے پہلے ہی اس سے کہیں زیادہ عطا فرما دیا ہے جس کا میں کبھی بھی حق دار بن سکتا تھا یا خواب بھی دیکھ سکتا تھا۔اگر آج میری زندگی کا خاتمہ بھی ہو جائے تو میں راضی ہوں۔
یہ الفاظ کہتے ہی شیخ لطیف احمد کی کیفیت بدل گئی۔ ایک لمحہ پہلے جو شخص مکمل طور پر پُرسکون تھا وہ اب آبدیدہ ہو چکا تھا اور بے اختیار رو رہا تھا۔ وہ بار بار حیرت کا اظہار کر رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اتنی زیادہ برکتیں کیوں عطا کیں۔
اسی دن میں نے منصور احمد (عمر ۴۲؍سال) سے بھی بات کی جو ساؤتھ ورجینیا سے تعلق رکھتے تھے اور انہوں نے اپنی زندگی میں پہلی بار حضورِانور سے ملاقات کی تھی۔گفتگو کے دوران منصور احمد نے اپنے ماضی کی کوتاہیوں کا بےتکلفی سے ذکر کیا اور یہ بتایا کہ انہیں اپنی اصلاح کی تحریک کس طرح ہوئی۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں مَیں نمازوں کی ادائیگی میں باقاعدہ نہیں تھا لیکن چند سال پہلے مَیں نے ایک خواب دیکھا جس میں حضورِانور تشریف لائے تھے۔ خواب میں حضورِانور کا چہرہ نور سے بھرا ہوا تھا۔ انہوں نے مجھ سے فرمایا کہ اگر مَیں باقاعدگی سے نمازیں پڑھوں گا تو میری ساری پریشانیاں اور مشکلات ختم ہو جائیں گی۔ اُس دن کے بعد سے مَیں نے ایک بھی نماز نہیں چھوڑی اور حقیقت میں میری تمام پریشانیاں اور مسائل ختم ہو چکے ہیں۔ پہلے مجھے اپنی زندگی میں ایک خلا سا محسوس ہوتا تھا اور لگتا تھا کہ جیسے کچھ کمی ہےلیکن اب مجھے اطمینان حاصل ہے۔ اب میری واحد پریشانی یہ ہے کہ خدا نہ کرےکہیں میں نماز میں تاخیر کر دوں، اس لیے میں نماز کے اوقات کی یاددہانی کے لیے متعدد الارم لگا لیتا ہوں۔میں نے یہ سیکھا ہے کہ اگر آپ نماز پر پابند ہو جائیں تو اللہ تعالیٰ اتنا وقت پیدا کر دیتا ہے کہ آپ پر سکون طریقے سے نماز ادا کر سکتے ہیں اور پھر بھی آپ کے پاس اپنے دیگر کاموں کو پورا کرنے کے لیے کافی وقت باقی رہتا ہے۔
پورٹو ریکو (Puerto Rico) کا ایک نوجوان
حالیہ برسوں میں خوش قسمتی سے مجھے بہت سے نومبائعین سے ملنے کا موقع ملاہے۔ کچھ ایسے تھے جو پہلے ہی مسلمان تھے اور پھر انہوں نے حضرت مسیح موعودؑ کو قبول کرنے کی توفیق پائی جبکہ کچھ غیر مسلم تھے جن کا پہلے اسلام سے کوئی تعلق یا وابستگی نہیں تھی۔ہر ایک کی اپنی منفرد داستان ہے جو اس حقیقت کی گواہی دیتی ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کا پیغام دنیا کے کونے کونے تک پہنچ چکا ہے اور تمام قوموں اور ثقافتوں کے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے متحد کر رہاہے۔
یکم نومبر ۲۰۱۹ء کومیں نے ایک سولہ سالہ پورٹو ریکن نوجوان Alejandro Garcia Pino سے ملاقات کی جس نے پندرہ سال کی عمر میں احمدیت قبول کی تھی۔اگرچہ وہ سولہ سال کا تھا لیکن وہ اس سے بھی کم عمر لگ رہا تھا اور میں یہ سوچے بنا رہ نہیں پایا کہ آیا وہ اتنے بڑے زندگی بدل دینے والے فیصلے کے حساب سے کم عمر تو نہیں۔ تاہم جب ہم مسجدبیت الرحمان کے برآمدے میں گفتگو کر رہے تھےتو مجھے جلد ہی یہ احساس ہوا کہ وہ اپنی عمر کے لحاظ سے نہایت ذہین اور بالغ نظر ہے۔ اس کا اپنے نئے مذہب کے لیے خلوص اور لگن بلکہ اس سے متعلق سمجھ بوجھ بھی بے حد متاثر کن تھی۔
Alejandroنے مجھ سے اپنے مذہب سے لگاؤ کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہاکہ میں اپنے خاندان میں واحد مسلمان ہوں۔ میرے گھر کے باقی افراد خدا پر تو یقین رکھتے ہیں لیکن کسی مذہب پر عمل نہیں کرتے۔ ذاتی طور پرمیں صرف سات یا آٹھ سال کا تھا جب میں نے مذہب کی تلاش شروع کی۔ مجھے وہ خواب واضح طور پر یاد ہے جو میں نے آٹھ سال کی عمر میں دیکھا تھا جس میں مَیں نے پہلی بار ‘اسلام’ کا لفظ سنا۔ یہی خواب میرے لیے تجسّس کا باعث بنا اورجیسے ہی میں اتنا بڑا ہوا کہ مجھے انٹرنیٹ تک رسائی مل سکے تو جتنی ہو سکتی تھی میں نے اسلام کے بارے میں تحقیق شروع کر دی۔جو لوگ میرے اسلام میں دلچسپی لینے سے واقف تھے انہوں نے مجھے خبردار کیا اور محتاط رہنے کو کہا اور کہا کہ تمہیں مسلمانوں کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ میں جواب دیتا کہ مسلمانوں کو بھی میرے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔ کسی کے اچھے یا برے ہونے کا پتا لگانے کا واحد طریقہ یہ ہے کہ ان سے بات کی جائے۔ جتنا زیادہ میں اسلام اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جانتا گیا، اتنا ہی زیادہ متاثر ہوتا گیا۔
مثال کے طور پرمسیحی برادری میں جس طرح انبیاء کا ذکر کیا جاتا تھا اس سے مَیں متاثر نہیں ہوا لیکن اسلام میں تمام انبیاء کو ایک بڑا درجہ دیا گیا ہے اور یہ بات مجھے پسند آئی۔ مجھے یہ بات بھی پسند آئی کہ اسلام نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو خدا کی طرح نہیں بلکہ ایک انسان سمجھا اور یہ وہ چیز ہے جس پر میں پہلے سے بھی اپنے دل میں یقین رکھتا تھا۔ اس وقت جب یہ باتیں میرے ذہن میں چل رہی تھیں میں آٹھ سال کا تھا۔ Alejandro کی باتیں سنتے ہوئے میں حیران رہ گیا کہ کس طرح اتنی کم عمری میں اس کے اندر اسلام کے بارے میں جاننے کی جستجو اور عزم پیدا ہوا۔ Alejandroنے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ چودہ سال کی عمر میں مجھے اسلام کی سچائی کا کامل یقین ہو گیا اور میں سنّی مسلمان بن گیا۔ کچھ عرصے بعدمیں پورٹو ریکو میں ایک احمدی سے ملا جنہوں نے مجھے مسیح موعود علیہ السلام کے ظہور اور امام مہدی کے بارے میں بتایا۔ اس احمدی دوست نے مجھے جماعت کے ایک مبلغ سے ملوایا جنہوں نے مجھے اسلام کی تعلیمات نہایت منطقی انداز میں سمجھائیں۔ میں نے محسوس کیا کہ احمدیت کے عقائد مکمل طور پر عقل و فہم پر مبنی ہیں اور کہیں بھی خیالی تصورات کی گنجائش نہیں جیسے کہ یہ عقیدہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جسمانی طور پر آسمان سے نازل ہوں گے۔
یہ حیرانی کی بات نہیں کہ ان کااسلام قبول کرنے کا سفر مشکلات سے خالی نہ تھا لیکن Alejandro اپنے ایمان پر ثابت قدم رہا۔
انہوں نے کہاکہ میں ایک سال سے احمدی ہوں اور اس عرصے میں مَیں نے اپنے زیادہ تر دوست کھو دیے ہیں۔ وہ مجھےbully (تنگ) کرتے اور میرا مذاق اڑاتے۔ خاص طور پر جب وہ دیکھتے کہ میں اسکول کے وقفے میں قرآن کریم پڑھ رہا ہوں۔ یہ وقت میرے لیے بہت مشکل تھا۔ جوانی میں عام طور پر رحم اور عزت کی کمی ہوتی ہے اور وہ نتائج کی پروا کیے بغیر اپنی زبان استعمال کرتے ہیں۔ لیکن مجھے کبھی بھی اپنے فیصلے پر پچھتاوا نہیں ہوا۔ میں نے ہمیشہ صبر سے اپنے اسکول کے دوستوں کے سوالات اور طنزیہ باتوں کا جواب دینے کی کوشش کی لیکن آخر کار وہ اپنی باتوں سے باز نہ آئےاور یوں ہمارے راستے جدا ہو گئے۔ حتیٰ کہ میری ٹیچر نے بھی مجھے اسلام سے دور کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ تم قرآن کیوں پڑھتے ہو؟ مسلمان تو عورتوں کے ساتھ بہت برا سلوک کرتے ہیں۔ مَیں نے جواب دیاکہ مَیں آپ کے ہر سوال کا جواب صرف قرآن کریم کی روشنی میں دوں گا۔
Alejandroنے گفتگو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ بہرحال، مجھے بہت زیادہ پریشانی کا سامنا کرنا پڑا لیکن تمام لوگ ایسے نہیں ہوتے۔ کچھ لوگوں نے مجھے کہا کہ تم بہت اچھے ہو، کیونکہ ہم نے کبھی کسی کو اسلام قبول کرتے نہیں دیکھا، اس لیے تم بہادر ہو اور قابلِ احترام ہو۔ اس کے علاوہ میرے والد نے بھی میرے فیصلے کو قبول کر لیا اور کہا کہ اگر اسلام سے مجھے خوشی ملتی ہے تو وہ بھی خوش ہیں۔
جب ہماری گفتگو اختتام کے قریب پہنچی توAlejandro مجھ سے اپنے سفر کا مقصد بیان کرنے لگے۔ انہوں نے کہا کہ میں پورٹو ریکو (Puerto Rico)سے صرف ایک مقصد کے لیے آیا ہوں اور وہ ہے اپنے خلیفہ کی زیارت! یہی میرے اس سفر کا واحد مقصد اور ہدف ہے۔ میں حضورِانور کے ہر ایک خطبے کو غور سے سنتا ہوں اور جب بھی میں حضور کو دیکھتا ہوں، تو مجھے ایک روشن روحانی نور نظر آتا ہے۔ اُن کا سراپا نہایت نورانی ہے۔ اگر میں نے کوئی ایک چیز سیکھی ہے تو وہ یہ ہے کہ خلافت آج کی دنیا میں سب سے بڑا تحفہ ہے اور میری یہی دعا ہے کہ پوری دنیا خدا کے اس تحفے کو قبول کر لے۔(آمین)
(مترجم:طاہر احمد۔فن لینڈ۔انتخاب:مظفرہ ثروت۔جرمنی)
٭…٭…٭