احمدی آپس میں شادیاں کریں
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
اس زمانے میں بڑی فکر کے ساتھ قرآن او ر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر عمل کرنے کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام نے کوشش فرمائی ہے۔ او رخاص طور پر یہ کوشش اور توجہ فرمائی کہ احمدی لڑکیوں اور لڑکوں کے رشتے جماعت میں ہی ہوں تاکہ آئندہ نسلیں دین پر قائم رہنے والی نسلیں ہوں۔ آپؑ نے جماعت میں رشتے کرنے کے بارے میں آپس میں بڑی تلقین فرمائی ہے۔ ان لوگوں کے لئے جو غیروں میں رشتے کرتے ہیں۔ یہ ان کے لئے ہے۔
آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’چونکہ خدا تعالیٰ کے فضل اور کرم اس کی بزرگ عنایات سے ہماری جماعت کی تعداد میں بہت ترقی ہو رہی ہے اور اب ہزاروں تک اس کی نوبت پہنچ گئی اور عنقریب بفضلہ تعالیٰ لاکھوں تک پہنچنے والی ہے‘‘۔ اب اللہ تعالیٰ کے فضل سے کروڑوں تک پہنچی ہوئی ہے۔ ’’اس لئے قرین مصلحت معلوم ہوا کہ ان کے باہمی اتحاد کے بڑھانے کے لئے اور نیز ان کو اہل اقارب کے بداثر اور بدنتائج سے بچانے کے لئے لڑکیوں اور لڑکوں کے نکاح کے بارے میں کوئی احسن انتظام کیا جائے۔ یہ تو ظاہر ہے کہ جو لوگ مخالف مولویوں کے زیرسایہ ہو کر متعصب اور عناد اور بخل اور عداوت کے پورے درجہ تک پہنچ گئے ہیں ان سے ہماری جماعت کے نئے رشتے غیر ممکن ہو گئے ہیں جب تک کہ وہ توبہ کر کے اسی جماعت میں داخل نہ ہوں۔ اور اب یہ جماعت کسی بات میں ان کی محتاج نہیں۔ مال میں، دولت میں، علم میں، فضیلت میں، خاندان میں، پرہیز گاری میں، خدا ترسی میں سبقت رکھنے والے اس جماعت میں بکثرت موجود ہیں۔ اور ہر ایک اسلامی قوم کے لوگ اس جماعت میں پائے جاتے ہیں تو پھر اس صورت میں کچھ بھی ضرورت نہیں کہ ایسے لوگوں سے ہماری جماعت نئے تعلق پید اکرے جو ہمیں کافر کہتے ہیں اور ہمارا نام دجال رکھتے یا خود تو نہیں مگر ایسے لوگوں کے ثنا خوان اور تابع ہیں‘‘۔ یعنی اگر خود نہیں کہتے لیکن جو لوگ کہنے والے ہیں ان کی تعریف کرتے ہیں۔ اور ’’یاد رہے کہ جو شخص ایسے لوگوں کو چھوڑ نہیں سکتا وہ ہماری جماعت میں داخل ہونے کے لائق نہیں۔ جب تک پاکی اور سچائی کے لئے ایک بھائی بھائی کو نہیں چھوڑے گااور ایک باپ بیٹے سے علیحدہ نہیں ہوگاتب تک وہ ہم میں سے نہیں۔ سو تمام جماعت توجہ سے سن لے کہ راست باز کے لئے ان شرائط پر پابندہونا ضروری ہے۔ اس لئے مَیں نے انتظام کیا ہے کہ آئندہ خاص میرے ہاتھ میں مستور اور مخفی طور پر‘‘ یعنی Confidentialہو گا ’’ایک کتاب رہے جس میں اس جماعت کی لڑکیوں اور لڑکوں کے نام لکھے رہیں۔ اور اگر کسی لڑکی کے والدین اپنے کنبہ میں ایسی شرائط کا لڑکا نہ پاویں جو اپنی جماعت کے لوگوں میں سے ہو اور نیک چلن اور نیز ان کے اطمینان کے موافق لائق ہو۔ ایسا ہی اگر ایسی لڑکی نہ پاویں تو اس صورت میں ان پر لازم ہوگا کہ و ہ ہمیں اجازت دیں کہ ہم اس جماعت میں سے تلاش کریں۔ اور ہر ایک کوتسلی رکھنی چاہئے کہ ہم والدین کے سچے ہمدرد اور غمخوار کی طرح تلاش کریں گے اور حتی الوسع یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی جو تلاش کئے جائیں اہل رشتہ کے ہم قوم ہوں۔ اور یا اگر یہ نہیں تو ایسی قوم میں سے ہوں جو عرف عام کے لحاظ سے باہم رشتہ داریاں کر لیتے ہوں۔ اور سب سے زیادہ یہ خیال رہے گا کہ وہ لڑکا یا لڑکی نیک چلن اور لائق بھی ہوں اور نیک بختی کے آثار ظاہر ہوں۔‘‘ (مجموعہ اشتہارات۔ جلد سوم۔ صفحہ 51،50)
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍دسمبر۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۷؍ جنوری ۲۰۰۴ء)