متفرق مضامین

ہِرَقْلُ۔ عظیم الروم (قسط دوم)

(ڈاکٹر محمد داؤد مجوکہ۔جرمنی)

الدلائل القطعیہ فی السیرۃ النبویہ

قیصر ہرقل اپنے انتہائی نقطہ انحطاط پر تھا۔لیکن چند ہی سال بعد انتہائی نقطہ عروج پر پہنچنے والا تھاجس کے بعد اس کی سلطنت بھی مسلمانوں کے ہاتھوں زوال پذیر ہونے والی تھی

[تسلسل کے لیے دیکھیے الفضل انٹرنیشنل ۱۱؍فروری ۲۰۲۵ء]

فارس کی برتری اور ۶۱۳ء کا حملہ

فارس کی سلطنت نے ہرقل کی بغاوت سے پہلے ہی رومی سلطنت پر حملہ کر دیا تھا اور اس کا جواز یہ بتایا تھا کہ قیصر موریکیوس کے ساتھ بہت ظلم کیا گیا ہے۔ اس وقت ابھی ہرقل قیصر نہیں بنا تھا۔ ہرقل کے قسطنطنیہ پر قبضے کے بعد بھی سلطنت پر اس کی حکمرانی فی الفور قائم نہیں ہوئی بلکہ بعض جگہوں پر اس کی افواج کی فوکاس کے حامیوں کے ساتھ لڑائی ہوئی۔ خاص طور پر فوکاس کے بھائی کومنٹیولوس (Comentiolus)نے، جو کہ مشرق میں فارس کے ساتھ سرحد کی حفاظت پر مامور تھا، ہرقل کی حکومت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔

(Howard-Johnston P78 -79)

اس زمانے میں بازنطینی سلطنت کی کمزوری کی وجہ سے فارس کو روم پر فوجی برتری حاصل تھی۔ چنانچہ اس نے ۶۰۹ء میں دیار بکر پر اور ۶۱۰ء میں ادیسا پر قبضہ کر لیا۔ اس شہر کے متعلق مسیحیوں کا خیال تھا کہ یہ حضرت عیسیٰؑ کی خاص حفاظت میں ہے اور اس پر کوئی دشمن فتح نہیں پا سکتا۔ ستمبر یا اکتوبر ۶۱۰ء میں فارسی جرنیل شہربراز نے رومی سلطنت کے اندرونی حصے پر لشکر کشی کی اور تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے آٹھ اکتوبر ۶۱۰ء کو بحر متوسط پر واقع انطاکیہ تک کے علاقے پر تسلط حاصل کر لیا۔ یوں بازنطینی سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گئی اور سلطنت کا شمالی اور مغربی حصہ، جس میں دار الحکومت قسطنطنیہ بھی واقع تھا، کا جنوبی اور مشرقی حصہ، جس میں شام و مصر واقع تھے، کے ساتھ زمینی رابطہ منقطع ہو گیا۔ مفتوحہ علاقوں کی آمد بھی رومی سلطنت کے ہاتھ سے جاتی رہی۔ ان فارسی فتوحات کی خبر ہرقل کو غالباً پانچ اکتوبر ۶۱۰ء کو اپنی تاج پوشی کے چند روز بعد مل گئی۔

(Theophanes 613- 614, Kaegi, Heraclius, P77, Howard-Johnston P79)

دوسری طرف فارسی جرنیل شاہین نے بھی ۶۱۱ء میں بازنطینی سلطنت پر حملہ کر دیا۔ رومی جرنیل پریسکوس نے اسے روکنے کی کوشش کی لیکن آخر کار شاہین غالب آ گیا۔ اس نے شمال میں بڑی آبادی والے شہروں کی فتح میں الجھنے کی بجائے سیدھا صوبائی دارالحکومت قیصریہ پر قبضہ کر لیا۔ پھر قیصریہ کو بنیاد بنا کر اپنے عقب میں موجود رومی شہروں کی پروا کیے بغیر علاقے میں مہمات بھیجنی شروع کر دیں۔ یوں نہ صرف وہ رومی افواج کو مشغول رکھنے میں کامیاب رہا بلکہ رومیوں کا علاقہ میں رعب بھی ختم ہو گیا۔(Howard-Johnston P81- 82)

ان حملوں کے جواب میں ہرقل نے تمام رومی افواج کو جمع کر کے فارسیوں کے ساتھ جنگ کی اور ۶۱۲ء میں ان کو اناطولیہ سے نکالنے میں کامیاب بھی ہو گیا۔ہرقل فوج کی کمان خود کر رہا تھا۔ عام طور پر قیاصرہ ایسا نہ کرتے تھے۔ مگر ہرقل مختلف حالات سے دوچار تھا۔ موریکیوس کے زمانے کے جرنیل بہت بوڑھے ہوچکے تھے جبکہ فوکاس کے وقت کے جرنیل قابل اعتماد نہ تھے۔ اس لیے مجبوراً ہرقل کو خود میدان میں اترنا پڑا۔ ہرقل، اس کے بھائی تھیوڈور اور چچا زاد بھائی نیکیٹاس نے اپنی فوجوں کے ساتھ مل کر ۶۱۳ء میں انطاکیہ کے پاس فارسی افواج کے ساتھ فیصلہ کن جنگ لڑنے کی کوشش کی۔ فارس کی جانب سے شاہین اور شہربراز کی افواج اکٹھی ہو گئیں۔ انطاکیہ کے قریب شدید لڑائی اور دونوں جانب کے بھاری نقصان کے بعد فارسیوں کو فتح حاصل ہوئی اور رومی افواج کو پسپائی اختیار کرنا پڑی۔

(Kaegi, Heraclius, P75, Howard-Johnston P85- 86, Kaldellis, P352)

سقوط یروشلم ۶۱۴ء

اس فتح کے بعد فارس کے سامنے دمشق اور فلسطین کا علاقہ تھا۔ چنانچہ فارس نے ۶۱۳ء کے موسم خزاں میں کسی خاص مزاحمت کے بغیر دمشق پر قبضہ کر لیا۔ اس وقت فارسی اور رومی سلطنتوں کے مابین جنگ میں یہود نے ایک قابل ذکر کردار ادا کیا جس کے سنگین نتائج نکلے۔ یہود اس سے پہلے متعدد مواقع پر رومی سلطنت کے خلاف بغاوت کر چکے اور اس پر سخت سزائیں پا چکے تھے۔ ہرقل کے وقت میں یہود شاذ کے طور پر یروشلم میں آباد تھے۔ البتہ گلیل کے علاقے میں ان کی معقول تعداد موجود تھی۔ فارس اور روم کے مابین ان جنگوں میں یہودی اکثر جگہ فارس کے حامی تھے۔ جب فارسی جرنیل شہربراز گلیل کے علاقے میں داخل ہوا تو یہود نے اس کا ساتھ دیا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت فلسطین میں کوئی ڈیڑھ سے دو لاکھ یہودی آباد تھے جن میں سے چھبیس یا چھتیس ہزار یہودی رضاکارانہ طور پر فارسی فوج میں شامل ہو گئے۔ شہربراز نے گلیل اور وادی اردن فتح کر کے یروشلم زیر نگیں کر لیا۔ یروشلم کے مسیحی بطریق، زکریا، نے شہربراز کی حاکمیت کو تسلیم کر لیا۔

(Maksymiuk P109, Howard-Johnston P92, Kaldellis, P352, Stratos 108)

تاہم ۶۱۴ء کے ایسٹر(۳۰؍مارچ ) کے معاً بعد یروشلم کے مسیحیوں نے بغاوت کرتے ہوئے فارسی اہلکاروں اور ان کے یہودی حمایتیوں پر حملہ کر دیا۔ چند یہودی جان بچا کر فارسی جرنیل کے پاس پہنچے اور اس سے مدد کی اپیل کی۔ اس پر شہربراز، جو کہ کسریٰ خسرو ثانی کا بہنوئی بھی تھا، نے یروشلم پر چڑھائی کی اور اپریل ۶۱۴ء کے آخر میں شہر کا محاصرہ کر لیا۔ تین ہفتے کی خونریز جنگ کے بعد ۱۷ سے ۲۰؍مئی کے درمیان کسی وقت فارسی افواج شہر کی فصیل کے نیچے سرنگ کھود کر باب دمشق کی جانب سے شہر میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئیں۔

(Maksymiuk P110, Howard-Johnston P93-94, Stratos 109, Kaldellis P352)

بیان کیا گیا ہے کہ تین دن تک شہر میں لوٹ مار کا بازار گرم رہا۔ خاص طور پر یہود نے بہت سفاکی سے کام لیا۔ یہاں تک کہ انہوں نے چندہ جمع کر کے گرفتار شدہ مسیحیوں کو فارسیوں سے خریدا اور انہیں قتل کر دیا۔ یہود اس واقعے کو مسیح کی آمد کا پیش رو اور ’’غدار‘‘ ہرقل سے نجات کا موجب سمجھ رہے تھے اور اسے خاص مذہبی رنگ میں دیکھ رہے تھے۔

(Stratos P109, Baert P139)

حسب معمول اس موقع پر ہونے والی قتل و غارت کی تصویر کشی بہت بڑھا چڑھا کر کی گئی اور مقتولین کی تعداد نوے ہزار تک بتائی جاتی ہے۔ سٹراٹیگوس نے، جو کہ اس وقت یروشلم کے قریب رہائش پذیر تھا، مقتولین کی تعداد ساٹھ ہزار سے زیادہ بتائی ہے۔ تاہم جدید تحقیق کے مطابق یہ سب اعداد و شمار مبالغہ آرائی پر مبنی ہیں۔ ان کے مقابل پر تاریخ خسرو میں درج تعداد یعنی سترہ ہزار حقیقت کے قریب ہے۔ اس تعداد کی تائید ان اجتماعی قبروں سے بھی ہوتی ہے جو اس زمانے سے تعلق رکھتی ہیں اور اب دریافت ہو چکی ہیں۔ ان میں موجود ڈھانچوں سے مقتولین کی تعداد کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

(Anthony and Shoemaker, P87, Kaldellis P353, Stoyanov P353- 355)

اس وقت تو یہود نے فارس کی مدد کی اور مسیحیوں پر ظلم بھی کیے، لیکن تین سال بعد ہی شہنشاہ فارس نے حکم دیا کہ یہود کو وہاں سے نکال دیا جائے۔ اس کی متعدد وجوہات ممکن ہیں جن کے مجموعی اثر کے تحت کسریٰ یہود کے مقابل پر مسیحیوں کی جانب جھک گیا۔ ایک تو یہ کہ فارس میں شامل ہونے والے نئے صوبوں میں بالخصوص اور پرانے صوبوں میں بھی مسیحیوں کی بہت بڑی تعداد موجود تھی۔سلطنت کے لیے ان کی اہمیت یہود سے کہیں زیادہ تھی۔ پھر کسریٰ خود کو ایک مسیحی قیصر موریکیوس کا بیٹا کہتا تھا اور اسی بنیاد پر اس نے روم پر حملہ کیا تھا۔ اس سے زیادہ اہم بات مگر یہ حقیقت ہے کہ کسریٰ کی بیوی شیریں مسیحی تھی جو کہ مسیحیوں کی حمایت کرتی تھی۔

(Kaldellis, P353, Stratos 111)

عرب مؤرخین نے اس کے علاوہ اس کی ایک اور بیوی مریم کا بھی ذکر کیا ہے، جو کہ ولی عہد شیرویہ کی ماں اور رومی قیصر موریکیوس کی بیٹی تھی، تاہم بازنطینی تاریخ میں ایسا کوئی ذکر موجود نہیں۔ غالباً عرب مورخین نے شیرویہ کی ماں کا نام کسی اور کے ساتھ خلط ملط کر دیا ہے۔ (طبری، تاریخ، جلد ۲ صفحہ ۱۷۶)

شہر پر قبضے کے بعد شہربراز نے آبادی کے دو حصے کیے۔ ایک حصے کو، جس میں ماہر کاریگر شامل تھے، فارس کی جانب جلاوطن کر دیا جبکہ اکثریت کو شہر میں رہنے کی اجازت دے دی گئی۔ جلا وطن ہونے والوں کی تعداد ۳۵؍ ہزار کے قریب بتائی گئی ہے۔ اب یہود نے ان مسیحیوں کی نشاندہی کی جنہوں نے ان پر حملہ کیا تھا، چنانچہ ان سب کو قتل کر دیا گیا۔

(Howard-Johnston P94-P95، Strategos P508 & 516 )

قتل و غارت کے علاوہ حضرت مسیحؑ کی قبر پر تعمیر کردہ کلیسا بھی جلا دیا گیا، یروشلم کے بطریق زکریا کو قیدی بنا لیا گیا اور عالم مسیحیت کا سب سے اہم تبرک، یعنی وہ مبینہ مقدس صلیب جس پر حضرت عیسیٰ ؑکو چڑھایا گیا تھا، شہربراز نے اپنے قبضے میں لے لی۔

(Chronicon Paschale P156، Strategos P513، Theophanes 614- 615، Nikephoros 12، Sebeos 34، Kaegi P78)

طبری کے مطابق اس صلیب کو کسریٰ کے پاس بھجوا دیا گیا اور یہ واقعہ خسرو آبرویز کے ۲۴؍ویں سال (یعنی ۶۱۴ء)کا ہے۔ جبکہ الدینوری کا کہنا ہے کہ مقدس صلیب یروشلم سے نہیں بلکہ اسکندریہ سے قبضے میں لی گئی تھی۔ تاہم یہ بات معقول معلوم نہیں ہوتی۔ اس صلیب کی قدرتی جگہ یروشلم ہی ہو سکتی ہے۔ زیادہ سے زیادہ یہ توجیہ کی جا سکتی ہے کہ فارسی لشکر کے خوف سے صلیب کو اسکندریہ منتقل کر دیا گیا ہو۔ تاہم اس بات کا کوئی ثبوت نہیں۔جبکہ اس کے مقابل پر سٹراٹیگوس جو عینی شاہد تھا کا کہنا ہے کہ صلیب یروشلم سے ہی فارس کے قبضے میں گئی۔(طبری، تاریخ، جلد ۲، صفحہ ۱۸۱، الدینوری، اخبار الطوال، صفحہ ۱۰۶)

۶۱۵ء میں صلح کی آخری کوشش

فارسی جرنیل شاہین بہمن‌ زادگان کے ہاتھوں ہرقل کی شکست کا ذکر ہو چکا ہے۔ اس نے ۶۱۴ء میں اناطولیہ پر قبضہ کرلیا تھا۔ فارسیوں سے مقابلہ کرنے کے لیے ہرقل کی جانب سے قیصر موریکیوس کے زمانے کا جرنیل فیلیپیکوس بلایا گیا تاکہ وہ کچھ مدد کرے۔ وہ ایک مرتبہ تو ایرانی افواج کی توجہ منقسم کرنے میں کامیاب ہو گیا مگر یہ بوڑھا جرنیل جلد ہی فوت ہوگیا۔ فارسی لشکر ۶۱۵ء میں بازنطینی سلطنت کے پایہ تخت قسطنطنیہ تک پہنچ گیا۔

(Kaegi, Heraclius, P83, Kaldellis, P354)

شہر پر قبضے کی کوشش کی بجائے شاہین نے ہرقل سے گفتگو کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس پر ہرقل ایک کشتی پر بیٹھ کر فارسی جرنیل کے قریب گیا اور وہیں سے سب گفتگو ہوئی۔ شاہین ہرقل کے ساتھ بہت عزت سے پیش آیا اور امن معاہدے کی پیشکش کی۔ اس نے کہا کہ اگر ہرقل اپنے سفیر بھیج دے تو کسریٰ کو امن معاہدے پر راضی کیا جا سکتا ہے۔ نیز اس بات پر زور دیا کہ فارسی اور رومی سلطنت دنیا کی عظیم ترین سلطنتیں ہیں جن کو کبھی دنیا کی کوئی اور حکومت پچھاڑ نہیں سکے گی۔ اس لیے انہیں آپس میں لڑنے کی بجائے صلح کر لینی چاہیے۔ اگر ہرقل نے ایسا نہ کیا تو باہمی جنگوں کا سلسلہ جاری رہے گا اور نتیجے میں دونوں سلطنتیں بہت سا جانی اور مالی نقصان اٹھائیں گی اور کمزور ہوجائیں گی۔ اس وقت اس کو یہ علم نہیں تھا کہ اس کی یہ پیشگوئی کتنی جلد پوری ہونے والی ہے!

ہرقل نے شاہین کی بات مان کر تین سفیر اس کے ساتھ بھیج دیے۔ شاہین رومی سلطنت کے علاقے تک تو ان کے ساتھ بہت اچھا سلوک کرتا رہا مگر فارسی سلطنت میں پہنچتے ہی ان کو قید کر لیا۔ جب کسریٰ کو معلوم ہوا کہ شاہین نے قسطنطنیہ کو فتح کر کے ہرقل کو قید کرنے کی بجائے اس کے ساتھ شاہانہ سلوک کیا اور امن معاہدہ کرنے کی کوشش کی ہے تو اس نے شاہین کی تمام خدمات کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے نہایت بہیمانہ طریق پر قتل کروا دیا۔ جبکہ اس کے ساتھ آنے والے رومی سفیر قید کر لیے۔ تاہم شاہین کے انجام کے متعلق یہ کہانی غلط معلوم ہوتی ہے کیونکہ کئی سال بعد کی جنگوں میں پھر سے شاہین کو فارسی فوج کی کمان کرتا دکھایا گیا ہے۔

(Stratos P116, Nikephoros 6-7 Chronicon Paschale P159, )

اس وقت تک بازنطینی سلطنت کی کمزوری کی یہ حالت ہو چکی تھی کہ ہرقل نے کسریٰ کو تاوان کی ادائیگی کی پیشکش کی تاکہ کسی طرح مصر وغیرہ بقیہ صوبوں کو فارسی دست درازی سے محفوظ رکھا جا سکے۔ تاہم کسریٰ نے یہ پیشکش ٹھکرا دی (Theophanes 613 -614)۔ ۶۱۵ء میں آخری کوشش کے طور پر کسریٰ کو لکھا گیا مصالحت کا خط، جو شاہین کے ساتھ جانے والے تین سفیر کسریٰ کے پاس لے کر جا رہے تھے، بازنطینی سلطنت کی نازک حالت اور بے بسی کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔(Chronicon Paschale P160 -162)

یہ خط ہرقل کی بجائے روم کی سینیٹ کی جانب سے لکھا گیا ہے کیونکہ کسریٰ نے ہرقل کو بادشاہ تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ کسریٰ کو بہت عزت اور ادب سے مخاطب کیا گیا ہے اور اس کے رحم کا بار بار حوالہ دیا گیا ہے۔ اسی طرح قیصر فوکاس کو ظالم قرار دیا اور قیصر موریکیوس کو بہت نیک اور پارسا بتایا گیا ہے کیونکہ قیصر موریکیوس کسریٰ کا محسن تھا اور اسی کا بدلہ لینے کے لیے کسریٰ نے بازنطینی سلطنت پر حملہ کیا تھا۔ پھر اس بات پر معذرت کی گئی کہ ہرقل کو اندرونی مسائل اور خانہ جنگی کی وجہ سے یہ موقع نہیں ملا کہ وہ کسریٰ کی خدمت میں سفارت کار بھیج کر اس کی عزت افزائی کر سکتا۔ حالانکہ بعض روایات کے مطابق ہرقل نے ایسا کیا تھا اور اس کے اولین سفراء کو کسریٰ نے قتل کر دیا تھا۔ ان بے چارے مقتول رومی سفارتکاروں کا اشار ۃً بھی ذکر نہیں کیا گیا۔ صرف اتنا کہا گیا ہے کہ شاہین نے ہم سے وعدہ کیا ہے کہ جن تین افراد کو ہم بھیج رہے ہیں، کسریٰ ان کے ساتھ نیک سلوک کرے گا اور جلد ہی ان کو واپس جانے کی اجازت دے گا۔ ان تینوں سفیروں کے لیے ’’آپ کے غلاموں‘‘ کے الفاظ استعمال کیے گئے ہیں۔ افسوس کہ کسریٰ نے ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔ ایک سفیر تو قید میں فوت ہو گیا اور بقیہ دو کو صلیب دے دی گئی۔

پھر کسریٰ کو لکھا کہ ہم آپ کی شفقت سے امید رکھتے ہیں کہ آپ ہرقل کو اپنا بیٹا سمجھیں گے جو کہ آپ کی ہر طرح کی خدمت کرنے میں فخر محسوس کرے گا!! دبے لفظوں میں کسریٰ کا یہ حق بھی تسلیم کر لیا گیا کہ وہ بازنطینی سلطنت کے قیصر کا فیصلہ کرے کیونکہ کسریٰ کا کہنا تھا کہ رومی سلطنت کا بادشاہ قیصر موریکیوس کا بیٹا ہونا چاہیے۔ درحقیقت موریکیوس کے تمام بیٹے قتل ہو چکے تھے مگر کسریٰ نے ایک شخص کو اس کا بیٹا قرار دے کر تخت کا اصل حقدار قرار دے دیا تھا۔ اسی طرح وہ علاقے، جن پر کسریٰ اس وقت تک قبضہ کر چکا تھا، ان کا بھی خط میں کوئی ذکر نہیں اور گویا یہ تسلیم کر لیا گیا کہ کسریٰ یہ علاقے اپنے پاس رکھ سکتا ہے۔

یہ تو وہ باتیں ہیں جو اس خط میں سینیٹ اور ہرقل نے تسلیم کر لی تھیں۔ ظاہر ہے کہ اس کے جواب میں کسریٰ نے اس سے بڑھ کر بھی کچھ مطالبات کرنے تھے جن کو تسلیم کرنا پڑنا تھا۔ گویا بازنطینی سلطنت اس سے بھی زیادہ امور تسلیم کرنے پر تیار ہو چکی تھی۔

کسریٰ کی غلطی

کسریٰ نے اس صورتحال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے بازنطینی سلطنت پر فیصلہ کن اور کاری ضرب لگانے کا فیصلہ کیا اور ہرقل کی پیشکش کو ٹھکرا دیا۔ مگر کیوں؟ یہ تو ظاہر ہے کہ فارس اپنے اصل مرکز سے اتنی دُور یورپی علاقوں پر قبضہ برقرار نہیں رکھ سکتا تھا۔ اور یہ بھی ظاہر ہے کہ اگر بازنطینی سلطنت کو ختم کردیا جاتا تو اس کی جگہ یورپ میں کچھ عرصہ بعد کوئی اور سلطنت ابھر آتی۔ مگر اس سے بھی زیادہ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ قسطنطنیہ، جو تین اطراف سے سمندر سے گھرا تھا، پر حملے کے لیے بحری بیڑے کا ہونا ضروری تھا جبکہ فارس کے پاس ایسا کوئی بیڑا نہ تھا۔ پس کسریٰ خسرو ثانی آبرویز کے فیصلے کی بنیاد سوائے طاقت کے گھمنڈ اور حد سے بڑھی ہوئی خود اعتمادی کے کچھ معلوم نہیں ہوتی۔ عسکری نکتہ نظر سے زیادہ سے زیادہ یہ خیال کیا جا سکتا ہے کہ کسریٰ کے طرز عمل کا مقصد مصر پر حملے سے پہلے بازنطینی سلطنت کو اپنے دارالحکومت کی طرف متوجہ کر کے اس کی طاقت کو تقسیم کرنا یا اس کے یورپی دشمنوں کو موقع فراہم کرنا تھا کہ وہ مغرب کی جانب سے اس پر حملہ آور ہو جائیں۔

طاقت کی اپنی ہی ایک منطق ہوتی ہے اور بہت ہی شاذ انسان ایسے ہیں جو طاقت اور غلبہ حاصل ہونے کے باوجود تحمل اور عاجزی کے ساتھ فیصلہ کرتے ہوئے ضرورت سے زیادہ خود اعتمادی سے بچ سکیں۔ اور یہی غلط خود اعتمادی اکثر ان کے زوال کا باعث بنتی ہے۔ طاقت، خواہ وہ عسکری ہو یا کسی اور قسم کی، حاصل ہونے کے بعد کبھی بھی نہ تو دشمن کو کمزور اور حقیر سمجھنا چاہیے نہ ہی اپنی طاقت کا غلط اندازہ کرنا چاہیے۔

ہرقل کی سفارتیں

اس جگہ ایک امر کے متعلق علماء میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض مؤرخین مثلاً تھیوفانس نے فارس کی طرف دو مرتبہ سفراء کے بھیجنے کا ذکر کیا ہے۔ پہلی مرتبہ ۶۱۳ء۔۶۱۴ء میں اور دوسری مرتبہ ۶۱۷ء۔۶۱۸ء میں۔ اور بعض نے ایک مرتبہ مثلاً نیکوفورس۔ (Stratos P103)

دونوں باتوں کے حق میں دلائل موجود ہیں۔ اس بات میں بھی وزن ہے کہ ہرقل نے قیصر بنتے ساتھ ہی فارس کے ساتھ جاری لڑائی کو ختم کرنے کے لیے پہلی مرتبہ سفارت کاری کی کوشش کی ہو۔ اور پھر ناکامی اور مسلسل بڑھتی ہوئی فارسی فوجوں کی برتری کو دیکھتے ہوئے دوسری مرتبہ سینیٹ کے ذریعہ کوشش کی ہو جس کا ذکر اوپر ہوا ہے۔ ہرقل اس قابل نہ تھا کہ اکیلا یورپی اور فارسی محاذوں پر بیک وقت جنگ لڑ سکتا اس لیے صلح کرنا اس کی مجبوری تھی۔ دوسری طرف کسریٰ کو لکھے گئے مذکورہ بالا خط میں کسی پرانی سفارت کا ذکر نہیں۔ اس کی وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس سے پہلے واقعی کوئی سفارت نہیں بھیجی گئی تھی۔ اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پہلی سفارت اور اس کے دردناک انجام کی طرف اشارہ کرنے سے اجتناب کرنا ضروری خیال کیا گیا تاکہ کوئی بات کسریٰ کی طبیعت پر گراں نہ گزرے۔ جیسا کہ اس خط میں دیگر بہت سے امور بھی نہایت ذلت کے ساتھ تسلیم کیے گئے ہیں یا ان سے انکار کیا گیا ہے۔ پس حتمی طور پر اس سوال کو حل کرنا اس وقت ممکن نہیں۔

مصائب اور مایوسی

اس زمانے میں ہرقل پر دوسری مصیبت یہ آن پڑی کہ طاعون کی وبا نازل ہو گئی جس سے شہر میں بہت سے لوگ ہلاک ہو گئے۔ تیسری مشکل مفتوحہ علاقوں کی آمد کا ختم ہو جانا تھا۔ چوتھی مصیبت یہ کہ ۲۰؍اپریل ۶۱۱ء کو قسطنطنیہ میں شدید زلزلہ آیا جس سے کافی ہلاکتیں ہوئیں۔ ان پے در پے مصائب کی وجہ سے مشہور ہو گیا کہ ہرقل نے قسطنطنیہ کو ترک کر کے افریقہ واپس جانے کا ارادہ کر لیا ہے اور خزانے کا ایک حصہ بحری جہاز سے افریقہ روانہ بھی کر دیا ہے۔ مگر وہ جہاز طوفان میں گھر کر سمندر میں غرق ہو گیا۔ جب لوگوں کو یہ خیال ہوا کہ قیصر ان کو چھوڑ کر چلا جائے گا تو انہوں نے اسے روکنے کی کوشش کی اور اس سے کلیسا میں وعدہ لیا کہ وہ شہر کو ترک کر کے کہیں نہیں جائے گا۔ افریقہ جانے والی بات کے متعلق بعض علماء کا خیال ہے کہ یہ محض ایک افواہ تھی وگرنہ ایسا نہ قرین قیاس ہے نہ ہی ہرقل جیسے شخص سے اس کی امید کی جا سکتی ہے۔

(Howard-Johnston P81,128, Nikephoros 8, Viernmann, P181)

سقوط مصر۶۱۹ء

ابھی ہرقل کی مشکلات ختم نہ ہوئی تھیں۔ فارس نے ۶۱۴ء میں فلسطین فتح کر لیا تھا۔ اس کے جنوب میں مصر کا ذرخیز صوبہ واقعہ تھا جو کہ بازنطینی سلطنت کو گندم کی فراہمی کے لیے اور ٹیکس کی وصولی، دونوں امور کے نکتہ نظر سے، بہت اہم تھا۔ چنانچہ فارسی جرنیل شہربراز نے مصر پر چڑھائی شروع کی اور اسکندریہ کا محاصرہ کر لیا۔ شہر کا دفاع کافی مضبوط تھا۔ شہربراز نے لمبے محاصرے کی منصوبہ بندی کی۔ اس کے عقب میں شاہین کو متعین کیا گیا تاکہ وہ کسی قسم کے رومی حملے کا سد باب کر سکے۔ محاصرہ مگر لمبا ہی ہوتا چلا گیا۔ شہر کی صرف ایک جانب ہی کمزور تھی، یعنی بندرگاہ۔ اور اس طرف سے فارسیوں کے لیے بحری بیڑے کی غیر موجودگی میں حملہ کرنا ممکن نہ تھا۔ آخر ایک عرب نے مخبری کی کہ مغربی دروازے کی حفاظت سب سے کمزور ہے۔ اس پر چند سپاہیوں کو مچھیروں کے حلیے میں صبح سویرے شہر میں داخل کیا گیا۔ انہوں نے مغربی دروازے کے محافظوں پر قابو پا کر دروازہ کھول دیا اور یوں جون ۶۱۹ء میں فارسیوں نے اسکندریہ فتح کر لیا۔ اسکندریہ کے عمائدین پہلے ہی مال و دولت کشتیوں پر لاد کر بیٹھے تھے، فتح کا نقارہ سنتے ہی بھاگے۔ لیکن سمندری ہوا فارسی لشکرگاہ کی جانب چل رہی تھی چنانچہ سب گرفتار ہو گئے۔ رومی فوج کا سالار بھی بھاگ گیا۔ جنگ نہ کرنے کی بنا پر شہر میں فارسی افواج نے لوٹ نہ مچائی۔

(Howard-Johnston P128-P130, Kaldellis, P.355, Theophanes 615- 616)

مصر کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہاں سے نہ صرف قسطنطنیہ کو اناج بھیجا جاتا تھا بلکہ رومی سلطنت کے محصولات کا قریباً ۳۰ فیصد مصر سے موصول ہوتا تھا۔ طبری کے مطابق یہ واقعہ آبرویز کے ۲۸ ویں سال کا ہے۔ یعنی طبری کے مطابق سقوط مصر قریباً ۶۱۸ء میں ہوا۔ جبکہ درحقیقت اسکندریہ ۶۱۹ء میں فتح کیا گیا اور ۶۲۱ء تک بعض مہمات جاری رہیں۔

(Kaldellis, P349, Howard-Johnston, Heraclius ‘persian campaigns، طبری، تاریخ، جلد۲، صفحہ ۱۸۲)

اس زمانے کی تاریخ بہت ہی عجیب ہے۔ کسریٰ خسرو ثانی آبرویز نے اپنا وہ انتہائی نکتہ انحطاط بھی دیکھا تھا جب اسے زندگی بچانے کے لیے بھاگ کر فارسیوں کی روایتی حریف سلطنت روم میں پناہ لینی پڑی اور بالآخر رومی قیصر موریکیوس کی مدد سے ہی اپنا تخت واپس حاصل کرنے میں کامیاب ہوا تھا۔ اور اب یہی کسریٰ خسرو ثانی آبرویز اپنے انتہائی نکتہ عروج پر پہنچ چکا تھا جب کہ فتح مصر کے ساتھ فارسی سلطنت ساسانی تاریخ کی وسیع ترین سلطنت بن چکی تھی اور اس کی فتوحات اور سلطنت کی طاقت، شہرت، مال و دولت اور وسعت اپنے انتہائی عروج پر تھیں۔ لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد ایک مرتبہ پھر انہی رومیوں کے ہاتھوں اس کا زوال شروع ہونے والا تھا جس کے بعد مسلمانوں کے ہاتھ ساسانی سلطنت کا سورج ہمیشہ کے لیے غروب ہو جانا تھا۔ اس کے مقابل پر اس کا حریف قیصر ہرقل تھا۔ جو اس وقت اپنے انتہائی نقطہ انحطاط پر تھا۔ اور چند ہی سال بعد انتہائی نقطہ عروج پر پہنچنے والا تھا۔ جس کے بعد اس کی سلطنت بھی مسلمانوں کے ہاتھوں زوال پذیر ہونے والی تھی۔

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ہِرَقْلُ۔ عظیم الروم(حصہ اوّل)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button