حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

دنیا اور آخرت کے دکھوں سے بچنے کا طریق

(انتخاب خطبہ جمعہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ فرموده ۲۳؍ فروری ۱۹۲۳ء )

۱۹۲۳ء میں حضورؓ نے یہ خطبہ ارشاد فرمایا جس میں آپؓ نے دنیا اور آخرت کے دکھوں سے بچنے کا طریق کے مضمون پر روشنی ڈالی ہے۔ قارئین کے استفادے کے لیے یہ خطبہ شائع کیا جاتا ہے۔(ادارہ)

اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے۔ ہمارا خدا زندہ خدا ہے۔ وہ مومنوں کی مدد کرتا ہے۔ ان سے باتیں کرتا ہے اور اپنا جلال ظاہر کرتا ہے تو پھر اگر ہم فائدہ نہ اٹھائیں اور اسے مردہ کی طرح چھوڑ دیں تو ہم زیادہ مجرم ہوں گے

تشهد و تعوذ اور سورہ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضور انور نے فرمایا۔دنیا میں جتنے لوگ ہیں وہ سارے کے سارے اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ دکھ اور تکلیف سے بچ جائیں۔ مسلمانوں کی ہی شرط نہیں غیر مسلمان بھی چاہتے ہیں کہ دکھ سے بچ جائیں۔ عیسائی بھی، ہندو بھی، حتّیٰ کہ وہ لوگ بھی جو خدا کو نہیں مانتے۔ وہ بھی یہی چاہتے ہیں کہ دکھ سے بچ جائیں۔ اگر یہ خیال انسان کے دل میں نہ ہوتا تو مذہبوں کی گرم بازاری بھی دنیا میں نہ ملتی۔ اتنے مذاہب جو دنیا میں پائے جاتے ہیں اور اتنے لوگ جو ان کے پھیلانے اور قائم رکھنے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ چاہتے ہیں کہ دکھ سے بچ جائیں اور چونکہ عام طور پر لوگوں کے دل میں خیال ہے کہ جسم کے ساتھ روح بھی ہے اور آئندہ بھی اس کی ہستی باقی رہے گی۔ اس لیے

انسان چاہتا ہے کہ وہ اگلے جہان میں بھی دکھ سے بچ جائے۔ اس جہان میں وہ ڈاکٹر کے پاس جاتا ہے اور اگلے جہان کے لیے وہ مذہب کو اختیار کرتا ہے۔

سو دکھ سے بچنے اور سکھ کے حاصل کرنے کی خواہش ہر وجود میں پائی جاتی ہے۔

ہندو لوگ کیوں اپنے مذہب کے پیچھے لگے ہوئے ہیں۔ کیوں لاکھوں روپیہ اس کی حفاظت پر خرچ کرتے ہیں۔ بےشک تبلیغ سے ان کی ترقی نہیں ہوتی۔ مگر ان میں لاکھوں لاکھ سادھو ہیں اور ان کا گزارہ دوسرے لوگوں کی آمدنیوں پر ہی ہے۔ کیوں ہندو لوگ لاکھوں سادھوؤں کو سہارا دیتے ہیں۔ اسی لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ان کے ذریعہ سے ان کا دین قائم رہے گا اور دین سے وہ دکھ سے بچ جائیں گے۔ مسلمانوں میں بھی ہر گاؤں میں کوئی نہ کوئی ملا ہوگا۔ اس کو سارا گاؤں خرچ دیتا ہے کیونکہ وہ مُردوں کو نہلاتا ہے اور بعض رسوم جو چلی آتی ہیں ان کو بجالاتا ہے۔ کیوں وہ ایسا کرتے ہیں؟ اسی لیے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ مُردوں کو اس سے آرام ہو گا۔ یہ بات ٹھیک ہے یا نہیں۔ مگر خیال یہی ہوتا ہے کہ وہ دکھ سے بچ جائے گا۔ کتنے گاؤں ہیں دنیا میں مسلمانوں کے اور کتنے لاکھ آدمی ہیں جن کا خرچ مسلمان برداشت کرتے ہیں۔ اسی طرح پادری ہیں۔ پادری کا کیا کام ہوتا ہے۔ وہ بعض رسوم بجا لاتا ہے۔ عیسائی لوگ لاکھوں روپیہ ان کے اخراجات کے لیے اپنے اوپر ڈالتے ہیں۔ اس خیال سے کہ وہ اگلے جہان میں دکھ سے بچ جائیں۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو دنیا کا بہت سا مال اس غرض کے لیے خرچ کیا جاتا ہے۔

لیکن جہاں یہ خواہش کی جاتی ہے کہ لوگ دکھ سے بچ جائیں وہاں اس کے صحیح طریقوں کے استعمال میں لوگ غفلت کرتے ہیں۔

یہ خواہش تو ایک علم ہے۔ اس سے پتہ لگ جاتا ہے مگر خالی پتہ لگ جانے سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ دیکھو ایک انسان کو بخار چڑھ جائے اور اس کو پتہ لگ جائے کہ بخار ہے تو کیا اس سے اس کا بخار اتر جائے گا۔ یا کسی کو کھانسی ہو جائے تو کیا اس کے پتہ لگ جانے سے کھانسی دور ہو جائے گی۔ یا کسی کو زخم لگ جائے تو کیا اس کو پتہ لگ جانے سے اس کا زخم اچھا ہو جائے گا۔ پتہ لگ جانے سے فائدہ نہیں ہوتا۔ اس سے تو فائدہ صرف یہ ہوتا ہے کہ اس کا علاج کرانا چاہیے۔ مثلاً پاگل ہیں۔ کوئی پاگل اپنا علاج کرانے نہیں جاتا۔ کبھی تم نے نہیں دیکھا ہو گا کہ کوئی پاگل اپنا علاج کرائے۔ پاگل تو کہتے ہی ان کو ہیں جن کو بیماری کا پتہ نہ ہو۔ سو اتنا فائدہ تو ہو گا کہ انسان طبیب کے پاس جائے گا۔ لیکن

محض پتہ لگنے سے بیماری اچھی نہیں ہوگی۔ بیماری تبھی اچھی ہوگی جب اس کا علاج کیا جائے گا۔

پتہ لگ جانے کے بعد دوسرا قدم یہ ہوتا ہے کہ بیماری کا علاج کرایا جائے۔ اگر یہ پتہ لگ جائے کہ بخار ہے تو دوسرا قدم یہ ہوگا کہ کونین سے بخار اتر جاتا ہے۔ لیکن اس سے بھی بخار اتر نہیں جائے گا۔ اگر ایسا ہو تو ڈاکٹر بیمار ہی نہ ہوں۔ حالانکہ ہم دیکھتے ہیں کہ اگر ان کی بیماری کا علاج درست نہ ہو تو بیماری بڑھ بھی جاتی ہے اور مر بھی جاتے ہیں۔ سو خالی پتہ لگ جانے سے بیماری اچھی نہیں ہو جاتی نہ بیماری کا علاج معلوم ہونے سے وہ دور ہو جاتی ہے۔ پہلے یہ معلوم ہو کہ بیماری ہے پھر یہ معلوم ہو کہ علاج کیا ہے۔ اور صحیح علاج کیا ہے اور پھر علاج میسر ہو اور پھر علاج کیا جائے۔ تب بیماری اچھی ہوتی ہے۔

لیکن جہاں لوگ جسمانی بیماریوں کے متعلق سوچ لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پہلے تشخیص کرالو اور اس پر بڑا زور دیتے ہیں۔ نبض دکھانے کے بعد پوچھتے ہیں اور ان کی تسلی نہیں ہوتی جب تک کہ بیماری کا پورا پتہ نہ لگ جائے۔ بعض لوگ خلیفہ اولؓ کے پاس آتے تھے اور پوچھتے تھے کہ ہماری بیماری کیا ہے مگر بعض بیماریاں ایسی باریک ہوتی ہیں جن کا مریض کو سمجھانا مشکل ہوتا ہے۔ اس لیے آپ بعض دفعہ ناراض ہوتے تھے۔ سو یہ انسان کی فطرت میں ہے کہ بیماری کا پتہ لگائے۔ لیکن روحانی بیماریوں کے متعلق لوگوں کو یہ فکر نہیں ہوتی۔ کسی کے دل میں یہ خیال نہیں پیدا ہوتا کہ بیماری کیا ہے۔ جسمانی بیماریوں کے متعلق پوچھ لیتے ہیں۔ مگر روحانی امراض کے متعلق نہیں سوچتے۔ بعض لوگ بیماری کو بھی سوچ لیتے ہیں۔ لیکن وہ آگے علاج کی فکر نہیں کرتے۔ مثلاً

جھوٹ بولنا، چوری کرنا، تہمت لگانا، فسق و فجور، اللہ کی محبت کا نہ ہونا، خدا کے کلام سے محروم رہنا۔ یہ سب روحانی بیماریاں ہیں۔ ان کا لوگوں کو علم ہوتا ہے مگر وہ کوشش نہیں کرتے کہ ان کا علاج کریں۔

وہ جانتے ہیں کہ جھوٹ بولنا بیماری ہے مگر وہ یہ نہیں جانتے کہ اس کا علاج کیا ہے۔ لوگ جانتے ہیں کہ چوری کرنا بیماری ہے مگر وہ نہیں جانتے کہ اس کا علاج کیا ہے۔ دوسرا قدم غفلت کا یہ ہوتا ہے کہ بعض لوگ علاج معلوم کر لیتے ہیں مگر یہ کوشش نہیں کرتے کہ علاج کریں مثلاً لوگ جانتے ہیں کہ کھانسی اور بخار میں بنفشہ مفید ہوتا ہے۔ مگر خالی اس علم سے کوئی فائدہ نہیں ہوتا جب تک کہ اس کا استعمال نہ کیا جائے۔ لوگوں کا بخار کونین سے اتر جاتا ہے مگر ایک بیمار کو جو اسے استعمال نہیں کرتا اس علم کا کیا فائدہ ہے۔ قیدی چھوٹ بھی جاتے ہیں۔ ہزاروں لوگ ہیں جو مرتے وقت اچھے ہو جاتے ہیں۔ مگر اس سے کیا کوئی قیدی یا مریض خوش ہو جائے گا۔ اصل بات تو اس کا اچھا ہونا تھا اگر وہ اچھا نہیں ہوا تو اس علم کا کوئی فائدہ نہیں۔ مگر بہت لوگ ہیں جو دین کے معاملہ میں اس بات پر خوش ہو جاتے ہیں کہ ان کو مذہب کی صداقت کا پتہ لگ گیا۔ مسلمان عیسائی سے لڑتا ہے کہ ہمارا دین سچاہے ۔ مگر

خالی مذہب کی سچائی معلوم ہو جانے سے کیا فائدہ ہے جب تک کہ مسلمان اسلام کے حکموں پر عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتا۔

دونوں میں فرق کیا ہے۔ وہ بھی جہنم میں جائے گا اور یہ بھی۔ ایک نے حضرت عیسیٰؑ کو خدا بنا دیا۔ دوسرے نے اسلام کے احکام کی خلاف ورزی کی۔ اس کو تو تب فائدہ تھا کہ یہ عمل کرتا اور بچ جاتا۔ تب بے شک خوشی کی بات تھی لیکن اگر یہ اس پر چلتا نہیں تو کیا فائدہ۔ یہ مجرم بھی ہے اور بے وقوف بھی ہے۔ اس کو لوگ برا بھلا کہیں گے کہ اس کو پتہ تھا اور پھر گیا۔

سو یاد رکھو کہ دنیا میں کوئی فائدہ علم کا نہیں ہوتا جب تک اس علم کو عمل میں نہ لایا جائے۔

ہماری جماعت میں بھی بعض لوگ ہیں جو اس بات پر بڑے خوش ہوتے ہیں کہ انہوں نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو پہچان لیا۔ مگر ان کی بعثت کی غرض کو نہیں پہچانتے۔ اس کی غرض تو نجات دنیا تھی۔ اگر یہ حاصل نہیں ہوئی تو ان کے لیے آپ کا آنا اور نہ آنا برابر ہے۔ بلکہ پہلے ہم اندھیرے میں گر رہے تھے اور اب ہم روشنی میں گر رہے ہیں۔ یہ بات اور الزام کے قابل ہے۔ جب تک اندھیرا تھا تو ہم خدا کو کہہ سکتے تھے کہ ہم کو پتہ نہ تھا۔ مولویوں نے دین کی شکل کو بگاڑ رکھا تھا۔ مگر جب اس نے لیمپ جلا دیا۔ تو ہمارا یہ عذر بھی جاتا رہا۔ جب اس نے حضرت مسیح موعودؑ کو بھیج دیا اور اس کے ذریعہ یہ بتا دیا کہ اسلام ہی ایک سچا مذہب ہے۔ ہمارا خدا زندہ خدا ہے۔ وہ مومنوں کی مدد کرتا ہے۔ ان سے باتیں کرتا ہے اور اپنا جلال ظاہر کرتا ہے تو پھر اگر ہم فائدہ نہ اٹھائیں اور اسے مردہ کی طرح چھوڑ دیں تو ہم زیادہ مجرم ہوں گے۔ اس لیے ہماری جماعت کے لیے ضروری ہے کہ ہم بہت احتیاط سے قدم رکھیں۔

بہت لوگ ہیں جو نمازوں میں سست ہیں اور روزہ نہیں رکھتے۔ بہت ہیں جو اس طرح جھوٹ بولتے ہیں جس طرح وہ پہلے بولتے تھے۔ شہادت کو چھپاتے ہیں، چوری کرتے ہیں جس طرح وہ پہلے کرتے تھے۔ بہت لوگ ہیں جو لوگوں کے مال کو کھا جاتے ہیں جس طرح وہ پہلے کھا جاتے تھے۔ بہت ہیں جو ظلم کرتے تھے جس طرح وہ پہلے کرتے تھے۔ اسی طرح بہت ہیں جو دوسروں کو نفرت اور حقارت کی نظر سے دیکھتے ہیں جس طرح وہ پہلے دیکھتے تھے۔ تکبر کرتے ہیں۔ فتنہ اور لڑائی ڈلواتے ہیں جس طرح وہ پہلے کرتے تھے۔ بہت ہیں جو اسی طرح تمسخر کرتے ہیں جس طرح پہلے کرتے تھے۔ ایسے لوگوں کو صرف ایک نسخہ کا پتہ لگا ہے۔ ان کے لیے کوئی نجات نہیں ہوئی کیونکہ انہوں نے نسخہ کو استعمال نہیں کیا۔

یاد رکھو کسی کو فائدہ نہیں ہو سکتا اور کوئی نجات نہیں پا سکتا جب تک کہ وہ نسخہ کو استعمال نہ کرے۔ پس اپنے دلوں کی اصلاح کی فکر کرو۔ اسلام جو احکام لایا ہے ان پر عمل کرنے کی کوشش کرو۔تم کو اگر لوگ جھوٹ بولتا دیکھیں گے تو وہ کیوں احمدی ہوں گے۔ اس طرح تم اپنے آپ کو ہی دکھ میں نہیں ڈالتے بلکہ دوسروں کو بھی۔ پس تمہاری سستیاں دو خطرناک نتائج پیدا کرتی ہیں۔

ایک تمہاری اپنی ذات کے لیے دوسرا قوم کے لیے۔ ایک طرف تمہاری بد عملی تم کو دکھ میں ڈالتی ہے دوسری طرف دوسرے لوگوں کو ہدایت سے محروم کرتی ہے۔ لوگوں کی نظریں تمہاری طرف ہیں۔ وہ یہ دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح موعودؑ نے آکر کیا کیا۔ اگر تم ویسے کے ویسے ہی رہو گے تو پھر وہ کس طرح آپؑ کی صداقت کے قائل ہو سکتے ہیں۔ جب وہ دیکھیں گے کہ تم کو اس دین سے کچھ فائدہ نہیں ہوا تو کیوں وہ اس کو قبول کریں گے۔ اگر کوئی تغیر اور کوئی تبدیلی اور کوئی سچا نمونہ اسلام کا اور اخلاق کا تمہاری زندگیوں میں ان کو نظر نہ آئے گا تو بتاؤ کہ کیا ضرورت ہے کہ لوگ قربانیاں کریں۔ دین کے لیے تو عورتوں کو خاوند چھوڑنے پڑتے ہیں۔ خاوندوں کو بیویاں چھوڑنی پڑتی ہیں۔ مال دینا پڑتا ہے۔ جان دینی پڑتی ہے۔ سب کچھ قربان کرنا پڑتا ہے۔ جب آگے کچھ ملنا نہیں تو کیوں کوئی آپ کے دین کے لیے قربانی کرے گا۔

ہاں اگر وہ دیکھیں گے کہ تم کو کچھ مل گیا ہے اور تمہاری زندگیوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا ہو گئی ہے تو بے شک اگلے جہان کے دکھ اور عذاب سے بچنے کے لیے لوگ اپنا جان مال رشتہ دار وغیرہ قربان کرنے کے لیے تیار ہو جائیں گے۔ پس

سب سے بڑی تبلیغ اور تغیر جو ہو سکتا ہے وہ احمدیوں کے اخلاق کے ذریعہ اور ان کی روحانیت کے ذریعہ ہو سکتا ہے۔

جب لوگ آپ کے اخلاق اور روحانیت کو دیکھیں گے تو دیوانہ وار آپ کی طرف دوڑیں گے۔ اس لیے ایسا رنگ رکھو کہ لوگ آپ کی طرف کھچے آئیں۔ اپنے اندر ایک تغیر پیدا کریں اور پاک تبدیلی کریں تاکہ آپ کے اندر بھی نور پیدا ہو۔ اور اَور لوگوں کو بھی ہدایت ہو اور فائدہ ہو۔ اللہ تعالیٰ آپ لوگوں میں ایک پاک تبدیلی پیدا کرے اور آپ کو ہر دکھ سے نجات دے۔ آمین۔(الفضل ۱۲؍ مارچ ۱۹۲۳ء)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: پیشگوئی مصلح موعود کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سےحضرت خلیفۃ المسیح الخامسایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے ایک انتخاب

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button