جبل ہندی، سیف ہندی،مسیح ہندی اور غزوہ ہند۔ ’’الہند‘‘ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی نظر میں! (قسط دوم۔آخری)
مجھے الہند کی طرف سے ٹھنڈی ہوا محسوس ہوتی ہے۔(حدیث نبویﷺ)
ہندوستان کے مذاہب میں بت پرستی
البیرونی اپنی کتاب تحقیق الہند میں لکھتے ہیں کہ ناخواندہ عوام، جنہیں وہ ’’العامی‘‘ یا’’العوام‘‘کہتے ہیں، صدیوں سے محسوس اور ظاہری اشیاء کی عبادت کے عادی تھے اور،اسی وجہ سےانہیں ایک واحد، اعلیٰ خدا، جو محض عقل تک محدود ہو، کی عبادت میں مدد کے لیے ٹھوس اور مادی علامات کی ضرورت تھی۔ البیرونی کے خیال میں تعلیم یافتہ اور مفکرطبقہ ایک خدا ہی کی عبادت کرتے تھے اور آج بھی کرتے ہیں۔
(Abu Rayhan Al-Biruni, Alberuni’s India: An Account of the Religion, Philosophy, Literature, Geography, Chronology, Astronomy, Customs, Laws and Astrology of India about A.D. 1030, Translated by Edward C. Sachau, Kegan Paul, Trench, Trübner & Co., London, 1910)
اگرچہ البیرونی کی تحقیق سماجیات تک محدود تھی اوراس کامناظرانہ رنگ اور پہلو نہیں تھا،لیکن ابو فتح الشہرستانی نے ہندو بت پرستی کے الہٰیاتی پہلوؤں پر غور کیااور اپنی مشہور تصنیف ’’کتاب الملل والنحل‘‘ میں ہندو مذہب کی جڑیں صابئین میں تلاش کیں اور وشنو اور شیو کو انبیاء کی حیثیت دی۔ یعنی ایسی دو روحانی شخصیات جنہیں وہ’’روحانیت‘‘کہتے ہیں اور جو الہند کے لوگوں کی راہنمائی کے لیے بھیجی گئیں۔
Abu al-Fath al-Shahrastani, Kitab al-Milal wa al-Nihal, Part 2, tr. W Cureton, London, 1842)
مسلم علماء میں البیرونی اور الشہرستانی کے درمیان ایک اور نمایاں محقق،الگردیزی (وفات: ۱۰۶۱ء) گزرے ہیں، جنہوں نے ہندو برہمنوں میں توحیدی رجحانات تلاش کیے۔ ان کے عقیدے کے مطابق، انہیں ایک ’’ انسانی روپ میں فرشتے‘‘ کے طور پر یعنی ایک نبی کی حیثیت میں بھیجا گیا۔
ہندو مذہب کی ابراہیمی جڑوں پر گیارھویں اور بارھویں صدی کے ان علماء کی انوکھی بصیرت کو کئی صدیوں تک معروف مسلم علماء نے زیادہ پذیرائی نہیں دی۔ تاہم، نمایاں صوفی، یامسلمان روحانی شخصیات، اس تعلق کو زندہ رکھتی رہیں۔
مثلاً امیر خسرو (وفات: ۱۳۲۵ء) جو سلسلہ چشتیہ کے ایک صوفی تھے،نے اپنی مشہور شعری تخلیق ’’نہہ سپہر‘‘ میں ان کے بارے میں لکھا:
معترف وحدت و ہستی و قدم
قدر ایجاد ھمہ بعد عدم
یہ ہندو برہمن توحید، وجود اور خدا کی قدامت کے معترف ہیں، اور فنا کے بعد ہر چیز کی تخلیق پر یقین رکھتے ہیں۔
دورجدید کی طرف بڑھتے ہیں تو مغل دور کی ایک اہم شخصیت،دارا شکوہ (وفات: ۱۶۵۹ء) کا ذکر ملتا ہے جو سلسلہ قادریہ سے بیعت تھے اور مغل بادشاہ،شہنشاہ شاہ جہان کے بیٹے تھے۔ داراشکوہ نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ ہندومت کی توحیدی بنیادوں کی تحقیق میں صرف کیا۔ ان کا اپنشد کا فارسی زبان میں نہایت محنت سے کیا گیا ترجمہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ وہ ان پوشیدہ تعلقات کو تلاش کرنے کے لیے کس قدر دلچسپی رکھتے تھے۔ ان کے نزدیک وید آسمانی کتب ہیں، اور تمام آسمانی کتب ایک دوسرے کی تشریح فراہم کرتی ہیں۔(سرالاخبار، از دارا شکوہ، مرتبہ : تارا چند اور سید محمد رضا جلالی نینی، طبن پرنٹنگ پریس تہران، ایڈیشن: ۱۹۵۷)
اس روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے، ایک اور مغل شخصیت اور نقشبندی صوفی،مرزا مظہر جانِ جاناں (وفات:۱۷۸۱ء)، نے بھی ویدوں کی الہامی اصل کو ثابت کرنے کی کوشش کی، جو کہ فرشتے؍نبی برہما پر نازل ہوئیں۔ انہوں نے اس بات پر بحث کی کہ تمام ہندو فرقے اپنی اصل شکل میں ایک خدا پر ایمان رکھتے تھے۔ بت پرستی ان کے اصل توحیدی عقیدے کی خلاف ورزی نہیں کرتی، بلکہ یہ خدا کی صفات کی مادی نمائندگی ہے۔
(Naimullah Bahraichi, Basharat-i Mazhariyya dar Fazail-i Hazarat-i Tariqiya-i Mujaddidiyya, compiled letters of Mirza Mazhar Jan-i-Janan, Ms. IOR/4431)
مرزا مظہر جانِ جاناں ہندو دھرم میں کرشن اوررام کے مقام کو سمجھتے تھے، جنہیں اوتار کہا جاتا ہے۔ اسلامی اصطلاحات میں، انہیں اولیاء یا انبیاء کے برابر سمجھا جا سکتا ہے۔ (ایضاً)
حالیہ دور میں، جماعت احمدیہ مسلمہ کے بانی حضرت مرزا غلام احمد قادیانیؑ نے نہایت وضاحت سے کرشن کو اللہ تعالیٰ کے نبی کا درجہ دیا:’’چنانچہ قرآن شریف میں آیا ہے کہ اِنۡ مِّنۡ اُمَّۃٍ اِلَّا خَلَا فِیۡہَا نَذِیۡرٌ۔ (فاطر:۲۵) اور حضرت کرشن بھی انہیں انبیاء میں سے ایک تھے جوخدا تعالیٰ کی طرف سے مامور ہوکر خلق اللہ کی ہدایت اور توحیدقائم کرنے کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آئے…‘‘(ملفوظات جلد ۱۰ صفحہ ۱۴۳، ایڈیشن ۱۹۸۴ء)
حضرت مرزا غلام احمدؑ کوتو اس دعویٰ پر سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، گویاآج تک کسی مسلم عالم نے کبھی کرشن کو نبی کے طور پرقیاس ہی نہیں کیا۔ گو اس مخالفت کی ایک وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ حضرت مرزا غلام احمدؑ نے کرشن کے بارے میں صرف ایک رائے قائم نہیں کی بلکہ اسے وحی کی بنیاد پر الٰہی توثیق کے ساتھ پیش کیا۔ آپؑ نے اس بات کو مزید آگے بڑھایا اور خود کو کرشن کی آمدِ ثانی کے طور پر بھی بیان کیا۔
Kenneth Craggاس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:’’احمد کے دعاوی مہدویت یا ایک رہنما کے تصور سے جڑے ہوئے تھے۔ بعد میں، انہوں نے اپنے مشن کو مسیحیت اور کرشن کے نام سے منسلک کیا۔ یہ اختلاط مختلف مذاہب کے تنوع پر ایک تشویش کی صورت ہو سکتا ہے۔‘‘
(Kenneth Cragg, Counsels in Contemporary Islam, Islamic Surveys No. 3, Edinburgh University Press, Edinburgh, 1965, p. 156)
حضرت مرزا غلام احمدؑ نے کرشن کے بارے میں اپنے تصور کو وحی کی بنیاد پر پیش کرنے کے ساتھ، آنحضرت ﷺ کی ایک روایت پر بھی انحصار کیا، جس میں آپؑ نے ہندوستان میں ایک نبی کا ذکر کیا جو گہری رنگت کا حامل تھا اور جس کا نام ’’کاہن‘‘ تھا: ’’کان فی الھند نبیًا اسود اللون اسمہ کاھنا‘‘
ہندو مت کی توحیدی بنیادوں کے بارے میں تحقیق صدیوں تک ایک دلچسپ موضوع رہی،اور خاص طور پر ۱۹ویں صدی کے اواخر اور ۲۰ویں صدی کے اوائل میں اس موضوع نے خاص اہمیت پائی۔
باوجود یکہ حضرت مرزا غلام احمدؑ کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا، نمایاں مسلم شخصیات نے کرشن کو ایک بزرگ شخصیت کے طور پر تسلیم کرنا جاری رکھا اور بعض اوقات نبی کے طور پر بھی۔ حضرت مرزا غلام احمدؑ کی وفات کے بعدکے دور کی ایک قابل ذکر مثال سید فضل الحسن حسرت موہانی ہیں، جو ہندوستان کی آزادی کی تاریخ اور اردو ادب میں اپنی اہم خدمات کے لیے مشہور ہیں، اور مولانا حسرت موہانی کے نام سے معروف ہیں۔
اپنی مذکورہ بالا شہرت کے علاوہ، حسرت موہانی پہلے سلسلہ قادریہ کے پیروکار ہوئے، پھرسلسلہ چشتیہ صابریہ سے وابستہ ہوئے، اور بعد میں ان دونوں سلسلوں کے ساتھ ایسی گہری وابستگی اختیار کی کہ ان سلسلوں میں اپنی روحانی ترقی کے بعد وہ دونوں صوفی سلسلوں میں بیعت لینے کے اہل قرار پائے۔
آپ کا شعری کلام دیوان کی صورت میں مرتب شدہ ہے، اس کے ساتویں دیوان کے حرف آغاز میں ہے کہ
’’جن جن بزرگوں سے فقیر کو فیض پہنچا ہے۔ اُن میں سے اکثر کی جانب اس مجموعہ میں کہیں نہ کہیں اشارہ موجود ہے۔ بزرگان دین اسلام کے علاوہ ایک موقع پر سری کرشن کا نام بھی آیا ہے۔ حضرت سری کرشن علیہ الرحمہ کے باب میں فقیر اپنے پیر اور پیروں کے پیر حضرت سید عبدالرزاق بانسوی قدس اللہ سِرّہ کے مسلک عاشقی کا پَیرو ہے۔‘‘ (کلیات حسرت موہانی،رئیس المتغزلین مولانا سید فضل الحسن حسرت موہانی، صفحہ:۲۵۷ مرتبہ بیگم حسرت موہانی۔ سن اشاعت: ۲۰۰۳، مطبع کاک آفسیٹ پرنٹرز، دہلی۔ شائع کردہ: کتابی دنیا، ترکمان گیٹ، دہلی)
بھاشا؍کرشنا کے عنوان سے لکھے گئے اس منظوم کلام میں قارئین کو حسرت موہانی کرشن کے لیے ایک خاص والہانہ عشق و عقیدت میں ڈوبے نظر آتے ہیں۔ مثلا ًلکھا
من تو سے پریت لگائی کنھائی
کاہو اور کی صورت اب کاہے کو آئی
یعنی جب کہ مجھے کنہیا سے دلی لگاؤ ہے تو پھر کسی غیر کا خیال کیسا؟
اسی طرح تقریباً وہ تمام نظمیں، جنہیں حسرت موہانی نے ’’بھاشا/کرشنا‘‘ نظمیں کہا ہے اور یہ کلام ان کے شعری مجموعوں میں شامل ہیں، کرشن کے لیے پرجوش عقیدت اور محبت کے اظہار پر مبنی ہیں۔ حسرت موہانی کے بعض سوانح نگاروں کا ماننا ہے کہ وہ کرشن کو اللہ کا نبی سمجھتے تھے۔
حضرت کرشنؑ کی محبت اور رومانوی پہلو نے کئی دیگر مسلم صوفیاء، مفکرین اور ادیبوں کو متاثر کیا۔ اس سلسلے میں آخری مثال جس کا میں یہاں ذکر کرونگا، وہ حفیظ جالندھری کی ہے، جو زیادہ تر تحریک پاکستان کے ایک کارکن اور پاکستان کے قومی ترانے کے خالق کے طور پر مشہور ہیں۔ وہ حافظِ قرآن تھے اور راسخ العقیدہ مسلم شعراء میں شمار ہوتے ہیں۔عوام کے لیے جو خاص پہلو اکثر نظروں سے اوجھل رکھا جاتا ہے، وہ حفیظ جالندھری کی کرشن سے عقیدت بھری وابستگی ہے۔ ان کی نظم ’’کرشن کنہیا‘‘ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ کرشن کے کردار میں ایک الٰہی پہلو دیکھتے تھے۔ میں یہاں صرف ابتدائی اشعار پیش کرتا ہوں:
اے دیکھنے والو
اس حُسن کو دیکھو
اس راز کو سمجھو
یہ نقشِ خیالی
یہ فکرتِ عالی
یہ پیکر تنویر
یہ کرشن کی تصویر
معنی ہے کہ صورت
صنعت ہے کہ فطرت
ظاہر ہے کہ مستور
نزدیک ہے یا دور
یہ نار ہے یا نور
دنیا سے نرالا
یہ بانسری والا
گوگل کا گوالا
ہے سحر کہ اعجاز
کھلتا ہی نہیں راز
کیا شان ہے واللہ
کیا آن ہے واللہ
حیران ہوں کیا ہے
اک شانِ خدا ہے
یہ اشعار اس بات کا ثبوت ہیں کہ حفیظ جالندھری نے کرشن کو ایک الٰہیاتی کردارکے طور پر دیکھا اور ان کے لیے گہری عقیدت کا اظہار کیا۔ ان کا یہ پہلو عوام میں کم جانا جاتا ہے۔
پاکستان کے شدت پسند حلقے اور کٹر مذہبی گروہ یقیناً پاکستان کے قومی ترانے کے خالق کے متعلق یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ کرشن، جو کہ ایک ہندو دیوتا ہیں، کو حفیظ جالندھری ایک الہامی پیغامبر کے طور پر قابل تعظیم سمجھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس پہلو کو عوامی شعور سے پوشیدہ رکھا گیا۔ ہم اس حصے کا اختتام حفیظ کے اسی نظم کے اشعار کے ساتھ کرتے ہیں جو مسلم صوفیاء اور مفکرین کی کرشن سے عقیدت کو مختصر اور جامع انداز میں بیان کرتے ہیں، مثلاً
بت خانے کے اندر
خود حُسن کا بت گر
بت بن گیا آکر
یہاں حفیظ جالندھری اس عجیب حقیقت کابیان لائے ہیں کہ وہ شخصیت، جسے لوگوں کو خدا کی خوبصورتی سے روشناس کروانے کے لیے بھیجا گیا تھا، اس کے ماننے والوں کی عقیدت بھری محبت کے باعث خود ایک دیوتا بنا دیا گیا۔
محققین شرجیل امام اورثاقب سلیم، حفیظ جالندھری کی نظم کا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہاں حفیظ جالندھری مسلم علماء کے ایک پرانے نظریے کو دہراتے ہوئےنظر آتے ہیں جس کے مطابق کرشن ایک نیک نبی تھے جنہیں برصغیر کے لوگوں کے لیے بھیجا گیا تھا۔
(Sharjeel Imam and Saquib Salim, In pre-partition India, Muslims too celebrated Janmashtami: A look back at the reverence for Krishna in works of Urdu poets, www.firstpost.com (accessed 9 January 2025), published 14 August 2017)
آگے بڑھنے سے قبل مسلمانان ہند کے شاعر اور مفکر علامہ محمد اقبال کا ایک شعر پیش ہے، جس میں وہ کہتے ہیں کہ
یہ آیۂ نو ، جیل سے نازل ہوئی مجھ پر
گیتا میں ہے قرآن تو قرآن میں گیتا
(بانگ درا، علامہ محمد اقبال،ایڈیشن: ۱۹۲۴ء)
ظہور اسلام سے قبل مکہ میں بت پرستی
طلوع اسلام سے قبل ملک عرب میں چار بڑے مذاہب نمایاں طور پر موجود تھے: یہودیت، عیسائیت، بت پرستی، اور صابئیت۔ قرآن مجید پہلے تین مذاہب کا واضح طور پر ذکر کرتا ہے، جبکہ صابئیت کا ذکر محض چند ایک مقامات پر ہی آیا ہے اور اس کی تفصیلات بھی نسبتاً بہت کم ہیں۔
اسی طرح قرآن مجید میں بت پرستی کے حوالے سے بھی ان کے مخصوص عقائد کی وضاحت نہیں ملتی، صرف ان کےشرک پر مبنی عقائداور رجحانات کا ہی ذکر ہے۔ جس پہلو پر زیادہ غور کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں ان کفار کو مشرکین کہا گیا ہے یعنی وہ لوگ جو اللہ کے ساتھ دیگر معبودوں کو شریک کرتے تھے۔

مشرکین کی اصطلاح اپنے اندر یہ معنی رکھتی ہے کہ وہ’’اللہ پر ایمان رکھتے تھے‘‘ لیکن اس کے ساتھ دیگر معبودوں کو بھی شریک کرتے تھے۔ قرآن مجید میں مشرکین کے اس عقیدے کو ان کے اپنے الفاظ میں یوں بیان کیا گیا ہے:
وَقَالَ الَّذِیۡنَ اَشۡرَکُوۡا لَوۡ شَآءَ اللّٰہُ مَا عَبَدۡنَا مِنۡ دُوۡنِہٖ مِنۡ شَیۡءٍ(النحل: ۳۶)اور ان لوگوں نے جنہوں نے شرک کیا۔ کہا اگر اللہ چاہتا تو ہم نے اس کے سوا کسی چیز کی عبادت نہ کی ہوتی۔
قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ ان مشرکین کے عقائد اور ایمانیات کی مزید تصریح کرتے ہوئے بتاتا ہے کہ
وَلَئِنۡ سَاَلۡتَہُمۡ مَّنۡ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ وَسَخَّرَ الشَّمۡسَ وَالۡقَمَرَ لَیَقُوۡلُنَّ اللّٰہُ ۚ فَاَنّٰی یُؤۡفَکُوۡنَ (العنکبوت:۶۲)اور اگر تُو ان سے پوچھے کہ کس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اور سورج اور چاند کو مسخر کردیا؟ تو وہ ضرور کہیں گے: اللہ نے۔ تو پھر وہ کس طرف الٹے پھرائے جاتے ہیں؟
اس آیت سمیت قرآن کریم کی متعدد دیگر آیات سے مشرکین کے ایک اعلیٰ اور بڑے خدا کے متعلق عقیدہ کا اظہار ہوتا ہے۔ یہ لوگ مشرک ہوتے ہوئے بھی ایک برتر خدا سے مصائب میں مدد طلب کرتے اور اپنی حاجات پوری ہونے پر پھر سے انداد یعنی خدا کے مزعومہ ہمسر وں کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔
جیسا کہ پہلے ذکرہوچکا ہے، ہندومت کی توحیدی بنیادوں کا مطالعہ مسلمانوں کے لیے صدیوں تک دلچسپی کا باعث رہا، اور یہ دلچسپی ۱۹ویں صدی کے آخر اور ۲۰ویں صدی کے آغاز تک کم کم ہی سہی، مگرجاری رہی۔خود ہندومت میں اپنی جدید شکلوں میں بھی ایک اعلیٰ خدا ’’براہمن‘‘ کا عقیدہ پایا جاتا ہے، جسے سنسکرت میں ’’سویَم بھگوان‘‘(خود خدا) یا ’’پارا براہمن‘‘ (اعلیٰ ہستی) کہا جاتا ہے۔
ہم پہلے ہی قرآن مجید میں مذکورتوحیدی شریعتوں مثلاً حضرت نوحؑ یا حضرت ابراہیمؑ کی تعلیمات میں ہندومت کے ممکنہ آغاز پر بات کر چکے ہیں، اور اسے صابئیت کی کئی شاخوں میں سے ایک کے طور پر دیکھ چکے ہیں۔ بت پرستی، جو اس اصل توحیدی عقیدے میں شامل ہوئی، وہی اسے ہینوتھیزم (Henotheism) میں تبدیل کر گئی، جیسا کہ مشرقی دنیا کے ادیان اور زبانوں کے ماہر Max Muller کا نظریہ تھا مثلاً رگ وید کی آیات میں کئی دیوتاؤں کا ذکر ہےاور انہیں ekam’’ایکم ‘‘ یعنی ایک خدا میں ضم کر دیاجاتا ہے (رگ وید، کتاب ۵ نظم ۳، آیات۱-۲) یعنی ایکَم (سنسکرت میں) اور واحد (عربی میں)۔
قرآن مجید میں بیان کردہ عرب مشرکین کے بعض عقائد سے یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ وہ توحید اور شرک کے درمیان کہیں موجود تھے۔ یہ صورتحال، جیسا کہ ہم اوپر بحث کرچکے ہیں، ہندومت کے معاملے میں بھی ہے اور یہی وہ شرک کی شکل ہے جس کا قرآن مجید میں واضح طور پر ذکر کیا گیا ہے۔
وَجَعَلُوۡا لِلّٰہِ مِمَّا ذَرَاَ مِنَ الۡحَرۡثِ وَالۡاَنۡعَامِ نَصِیۡبًا فَقَالُوۡا ہٰذَا لِلّٰہِ بِزَعۡمِہِمۡ وَہٰذَا لِشُرَکَآئِنَا ۚ فَمَا کَانَ لِشُرَکَآئِہِمۡ فَلَا یَصِلُ اِلَی اللّٰہِ ۚ وَمَا کَانَ لِلّٰہِ فَہُوَ یَصِلُ اِلٰی شُرَکَآئِہِمۡ۔ (الانعام: ۱۳۷) اور انہوں نے اللہ کے لیے اس میں سے جو اسی نے کھیتیوں اور مویشیوں میں سے پیدا کیا بس ایک حصہ مقرر کررکھا ہے اور وہ اپنے زعم میں کہتے ہیں یہ اللہ کے لیے ہے اور یہ ہمارے شریکوں کے لیے ہے۔ پس جو ان کے شریکوں کے لیے ہے وہ تو اللہ کو نہیں پہنچتا، ہاں جو اللہ کا ہے وہ ان کے شریکوں کو مل جاتا ہے۔
مختلف دیوی دیوتاؤں کو خدائے واحد کے ساتھ شریک بنانے کی ہندوؤں کی عادت کو قرآن کریم کی درج ذیل آیت سے بھی سمجھا جاسکتا ہے جہاں مشرکین کے عقائد کا رد کیا گیا ہے، فرمایا:
لَمۡ یَلِدۡ ۬ۙ وَلَمۡ یُوۡلَدۡ ۔ وَلَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ کُفُوًا اَحَدٌ۔ (الاخلاص:۴-۵) نہ اس نے کسی کو جنا، نہ وہ جنا گیا۔اور اس کا کوئی ہمسر نہیں۔
اسی طرح قرآن کریم، ان مشرکین کے دیوتاؤں میں صنفی تنوع کا ذکر بھی کرتا ہے جو ہندوؤں کی دیویوں اور دیوتاؤں میں بھی عام طور پر موجود ہے، فرمایا:
وَجَعَلُوۡا لِلّٰہِ شُرَکَآءَ الۡجِنَّ وَخَلَقَہُمۡ وَخَرَقُوۡا لَہٗ بَنِیۡنَ وَبَنٰتٍۭ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ(الانعام:۱۰۱)
قرآن مجید میں بت پرستوں کے مشہور معبودوں کے طور پر لات، العزیٰ، اور منات کا ذکر ہے، اور مشرکین کو ملزم کیا گیا ہے کہ وہ کیسے ان معبودوں کو خدا کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں، اور وہ بھی ان بتوں کو خدا کی بیٹیاں قرار دیتے ہوئے۔ (النجم:۲۰-۲۱)
ملک عرب میں جاری بت پرستی پر ہندو اثرات کو مزید مضبوط کرنے والاایک اور امر ان معبودوں لات، العزیٰ، اور منات کی تصویریں اور مجسمے ہیں۔ عراق کے صوبہ نینویٰ کے مقام ’’الحضر‘‘ کے پانچویں معبد سے دریافت ہونے والے یہ مجسمے، جو پہلی سے تیسری صدی عیسوی کے دور کے ہیں، ان تینوں بتوں کو ایک ساتھ دکھاتے ہیں۔ ان کے لباس ہندوستانی دیویوں کی طرح ہیں، اور ان کے انداز بھی مشابہت رکھتے ہیں، خاص طور پر ان کے دائیں ہاتھ کندھے تک اٹھے ہوئے ہیں اور ہتھیلی سامنے کی طرف دکھائی گئی ہے۔
رشید الدین ہمدانی، جو کہ ایل خانی سلطنت کے وزیر اور مؤرخ تھے، نے اپنی کتاب تاریخ ہند میں ذکر کیا ہے کہ ہندوستانی مذاہب نے عرب بت پرستوں پر گہرا اثر ڈالا۔ وہ لکھتے ہیں کہ ’’مکہ اور مدینہ کے لوگ اور بعض عرب اور فارسی لوگ ظہور اسلام سے پہلے ’’سکھیا مُنی‘‘کے دین کو مانتے تھے‘‘۔ اور یہ بھی کہ ’’بت خانے (کعبہ) میں ’’سکھیا مُنی‘‘ کی شکل و صورت پر ایسے بت موجود تھے، جن کے سامنے وہ سجدہ کیا کرتے تھے۔‘‘(تاریخ الہند، باب ۲۰)
سکھیا مُنی یا گوتم بدھ کی تعلیمات، ملک عرب تک کچھ اس طرح غیر توحیدی شکل میں پہنچیں کہ بت پرستوں کے عقائد کے ساتھ ہم آہنگ ہو گئیں۔ بہت سے مسلم علماء کا ماننا ہے کہ بدھ بھی اللہ کے نبی تھے۔ جماعت احمدیہ کے چوتھے امام،حضرت مرزا طاہر احمدخلیفة المسیح الرابع ؒ نے یہ بیان فرمایا کہ قرآن مجید میں گوتم بدھ کا ذکر ’’ذوالکفل‘‘کے نام سے ہوا ہے۔اورکفل کا مقام گوتم بدھ کے جائے پیدائش کپل وستو کا معرب ہے۔
(Hazrat Mirza Tahir Ahmad rh, An Elementary Study of Islam, Islam International Publications Ltd., 1997, p. 24)
تاریخ دان وقار الحسن صدیقی، عرب میں ہندوستانی اثرات کا سراغ لگاتے ہوئے، اسی بات کی تصدیق کرتے ہیں۔ یہ تمام شواہد اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ ہندوستانی مذاہب اور شخصیات کا عرب کے بت پرستانہ عقائد پر گہرا اثر تھا۔
(WH Siddiqi, India’s contribution to Arab civilization, in India’s contribution to world thought and culture, ed L Chandra, 586, Vivekananda Rock Memorial committee, Madras, 1970)
گیارھویں صدی کے ایک اور مؤرخ ابوسعید الگردیزی نے سومنات کے مندر کے بارے میں لکھا ہے کہ ’’اس میں منات کا بت موجود تھا، جو حضرت رسول اللہ ﷺ کے حین حیات میں عدن کے راستے کعبہ سے منتقل کیا گیا تھا۔‘‘
(Abu Sa‘id ‘Abd al-Hayy Gardizi, The Ornament of Histories: A History of the Eastern Islamic Lands AD 650–1041, Translated and edited by C. Edmund Bosworth, I.B. Tauris, 2011, p. 96.)
ملک ہند کے تاجر، جو ہندو مذہب کے مختلف فرقوں کے ماننے والے تھے، یقیناً اپنے ساتھ اپنے بت لاتے تھے تاکہ انہیں کعبہ کے اندر یا اس کے ارد گرد رکھ سکیں۔ یہ سفر کرنے والے تاجر مہینوں یا حتیٰ کہ سالوں تک اپنے گھروں اور مندروں سے دُور رہتے تھے، اس لیے اپنے معبود بت اپنے ساتھ لانا ان کا معمول تھا۔
خانہ کعبہ کے اندر ہندو بتوں کی موجودگی اور عرب بت پرستی پر ان کے اثرات کی ایک ایسی حقیقت معلوم ہوتی ہے جس پر یقین کرنا کچھ بھی مشکل نہیں۔ قرآن مجید میں مذکور اصطلاح ’’اہل کتاب‘‘ کو ایک وسیع تناظر میں سمجھنا ضروری ہے، جو عرب میں موجود تمام بڑے مذاہب کو شامل کرتا ہے، چاہے وہ جس قدر بھی بگڑے ہوئے یا تبدیل شدہ شکل میں ہوں۔ کعبہ اُس وقت ایک کثیر المذاہب عبادت گاہ بن چکا تھا، جہاں مختلف مذاہب کے بت اور مذہبی علامات موجود تھیں۔ اورہندوؤں کی بت پرستی نے اہل عرب کے مشرکانہ عقائد پر گہرا اثر چھوڑا، اور یہی ماحول تھا جس میں اسلام کا ظہور ہوا۔
ہم اپنے مضمون کے اس حصے کو علامہ الشہرستانی کے ان الفاظ کے ساتھ ختم کرتے ہیں، جو عرب مشرکین اور ہندوؤں کے عقائد کی مماثلت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
’’عرب بت پرست اور ہندو ایک نظریے پر متفق ہیں۔ ان کا سب سے بڑا جھکاؤ چیزوں کی خصوصیات کا تعین کرنے، حقائق کی اصل کو جانچنے، اور روحانی عمل پر ہوتا ہے۔‘‘(الملل والنحل، جلد اول، صفحہ ۲-۳)
یوں حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب منصب نبوت پر سرفراز ہوئے تو آپ کے فوری مخاطبین تو یہودی، عیسائی اور طرح طرح کے منکر تھے جو ایک زمانے کے اپنے توحیدی عقائد سے بھٹک کر ایک خدا کے ساتھ دیگرمعبودوں کی پرستش کرنے لگے تھے۔
رسول کریم ﷺ اور ملک ہند
احادیث میں ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے تھے:’’مجھے الہند کی طرف سے ٹھنڈی ہوا آتی ہے۔‘‘(المستدرک علی الصحیحین، از الحاکم النیشا پوری، حدیث نمبر ۴۰۵۶)
اگرچہ ملک ہندکی موجودہ جغرافیائی تقسیم میں بھارت اور پاکستان کے سیاسی تنازعات کے تناظر میں اس حدیث کے متعلق بہت کچھ کہا گیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ الہند نبی کریمﷺ کے تصور میں ایک خاص مقام رکھتا تھا۔ کسی غلط فہمی سے بچنے کے لیے یہاں یہ واضح ہونا ضروری ہے کہ ’’الہند‘‘سے مراد صرف موجودہ بھارت نہیں، بلکہ پورا برصغیر ہے جیسا کہ نبی کریمؐ کے زمانے میں موجود تھا۔
حقیقت جو بھی ہو، ہمیں کتب احادیث اور سیرت سے یہ یقینی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ کو الہند کا علم اس کی خوشبوؤں کی تجارت کے ذریعے تھا، جو مکہ کی تجارت کی بنیاد تھی، اور اس کے علاوہ ہندوستان میں تیار ہونے والے ہتھیاروں کے ذریعے بھی، جو عرب میں فروخت ہوتے تھے۔
کتب احادیث میں صرف چند جغرافیائی علاقوں کا ذکر ملتا ہے، جن میں الہندبھی شامل ہے، دیگر علاقوں میں بلادعرب، بلاد روم، المغرب، المشرق، اور حبشہ ہیں۔ ان تمام میں سے،الہند کا ذکر سب سے زیادہ ملتا ہے، لیکن ایک پُراسرار اور دلچسپ تصور کے ساتھ، جس کی وجہ اس سے جڑے ہوئے کئی اساطیری حوالے ہیں۔
نیز یہ امر بھی سب کو معلوم ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کی ولادت کے وقت مکہ ایک مستحکم تجارتی شہر تھا، جہاں ہندوستانی تلواریں ایک قیمتی چیز سمجھی جاتی تھیں۔ چونکہ آپؐ ایک ایسے خاندان میں پیدا ہوئے جو اس تجارت میں کلیدی کردارادا کرتا تھا، لہذا بچپن سے ہی آپ کو سیف ہندی یعنی ہندوستانی تلوار سے بھی واقفیت ہو چکی تھی۔ یہ بھی یاد رکھنے کی بات ہے کہ آپؐ کا خاندان ہر وقت جنگ اور دفاع کی تیاریوں میں مصروف رہتا تھا۔
سیرت ابن ہشام میں روایت ہے کہ جب جرہم قبیلہ خزاعہ کے ہاتھوں شکست کھا کر مکہ سے فرار ہوا، تو انہوں نے اپنے خزانے زمزم کے کنویں میں دفن کر دیے۔ یہ کنواں صدیوں تک نظروں سے اوجھل رہا، یہاں تک کہ نبی کریمﷺ کے دادا، حضرت عبد المطلب، نے اس کی ازسرنو نشاندہی کرکے اسے کھدوایا۔ ابتدائی طور پر یہ کنواں پانی حاصل کرنے کے ایک ذریعہ کے طور پر بحال کرنے کے لیے کھدوایا گیا، لیکن اس میں موجود خزانے بھی دریافت ہوئے۔ ابن ہشام کی ہی روایت کے مطابق، یہ خزانے قریش کے دیگر سرداروں میں باہم تقسیم کرنے پڑے۔ عبد المطلب کو تلواریں اور زرہیں (ووجد فیھا اسیفا قلعیۃ و ادرعًا) ملی تھیں۔ (سیرت ابن ہشام، جلد اول صفحہ ۱۴۶)اور جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے، ’’قلعیہ‘‘ہندوستانی تلواروں کا نام تھا۔
مکہ کے اندر ہندوستانی مسالے عام طور پر دستیاب تھے اور اہل عرب کے مقامی کھانوں کا حصہ تھے۔ یہ مسالے اپنے سنسکرتی ناموں سے جانے جاتے تھے، جنہیں عربی میں ڈھال لیا گیا تھا:
زنجبیل (ادرک)،کافور (کپور)، اورمشک (مُشکا) (تفصیل: عرب و ہند کے تعلقات، از سید سلمان ندوی (تقریریں جو ۲۲ اور ۲۳ مارچ ۱۹۲۹ء کو ہندوستانی اکیڈمی کے سامنے کی گئیں)، ناشر: ہندوستانی اکیڈمی، الٰہ آباد، ایڈیشن: ۱۹۳۰ء)
کتب احادیث میں ہندوستان میں پیدا ہونے والی متعدد چیزوں کا ذکر موجود ہے، جن کا تذکرہ خود حضرت نبی کریمؐ نے فرمایا۔ مشک کو آپﷺنے بہترین خوشبو قرار دیا۔ (صحیح مسلم، حدیث نمبر ۲۲۵۲) شہید کے لہو اور روزہ دار کے منہ کی خوشبو کو مشک سے مشابہت دی، اور نیک شخص کی صحبت کو مشک فروش کی مجلس سے تشبیہ دی۔اسی طرح آپؐ کے صحابہ اور اہل بیت نے بھی مشک کے استعمال میں آپؐ کی رغبت اور محبت کا ذکر کیا ہے۔
عود ہندی ( اگرکی چھال) حضرت نبی کریمؐ کی پسندیدہ خوشبوؤں میں شامل تھی، جسے آپؐ کافور کے ساتھ جلا کر خوشبو کے لیے استعمال فرمایا کرتے تھے۔(کنزالعمال، کتاب شمائل النبیؐ)
حضرت عبداللہ بن عمر ؓاپنے آپ کو عود سے معطر کرتے تھے اور کبھی کبھار اس میں کافور بھی شامل کرلیا کرتے تھے، نیز کہا کرتے تھے کہ حضرت نبی کریم ﷺ بھی ایسا کرتے تھے۔(مشکوٰة، حدیث : ۴۴۳۶)
آپؐ عود ہندی کو مختلف بیماریوں کے علاج کے لیے بھی تجویز فرمایا کرتے تھے۔ (جامع الترمذی، حدیث : ۹۵۲، سنن ابو داؤد، حدیث: ۳۸۷۷)
حضرت ابو سعید خدریؓ روایت کرتے ہیں کہ ہندوستان کے ایک راجہ نے نبی کریم ﷺ کو زنجبیل (ادرک) بطور تحفہ بھیجا، جسے آپؐ نے اپنے صحابہؓ میں تقسیم کیا اور خود بھی استعمال فرمایا۔ (المستدرک علی الصحیحین، للامام الحاکم النیشابوری، کتاب النعمة، ذکر اھدی الملک الھند زنجبیل علی النبی، حدیث : ۷۲۷۲)
جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے کہ ہندوستان اور سندھ کے لوگ ملک عرب کے مختلف علاقوں، خاص طور پر ساحلی خطوں میں آباد تھے۔ کتب حدیث و سیرت سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں سے اچھی طرح واقف تھے۔
اسی طرح جب حضرت نبی کریم ﷺ نے حضرت خالد بن الولید کواہل نجران کو اسلام کی طرف دعوت دینے کے لیے بھیجا۔ ابن ہشام بیان کرتے ہیں کہ کامیابی کے بعد،جب حضرت خالدبن الولید مدینہ واپس آئے اور ان نومسلموں کے ایک گروہ کو ساتھ لائے۔ انہیں دیکھ کرحضرت نبی کریمؐ نے دریافت فرمایا: ’’یہ کون لوگ ہیں جو الہند کے لوگوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں؟‘‘(سیرت النبویہ، ابن ہشام، جلد دوم صفحہ ۵۹۳، تاریخ الرسول والملوک، الطبری، جلد سوم، صفحہ ۱۵۷)
اس روایت سے صاف ظاہر ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ الہند کے لوگوں سے بخوبی واقف تھے، اور یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ایسے لوگ عرب کے جنوبی حصوں میں موجود تھے۔
واقعہ معراج کے دوران، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت موسیٰؑ کا حلیہ اور خدوخال کو’’زط‘‘ کے لوگوں جیسا بتایا، جن کے بارے میں ہم پہلے بیان کر چکے ہیں کہ وہ الہند کے علاقوں سے تعلق رکھتے تھے۔ (صحیح البخاری، کتاب الاحادیث الانبیاء، حدیث : ۳۴۳۸)
حضرت عبداللہ بن مسعودؓ سے ایک طویل روایت مروی ہے، جس میں بیان ہے کہ جس رات حضرت نبی کریمؐ نے جنات کے وفد سے ملاقات کی، وہ بھی آپؐ کے ساتھ تھے۔ اورانہیں ہدایت تھی کہ ایک مخصوص جگہ پر ہی رہیں اور کسی بھی صورت وہاں سے نہ ہٹیں۔ جب حضرت نبی کریم ﷺ ملاقات کے لیے تشریف لے گئے، تو جنات حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کے قریب آ گئے۔ انہوں نے ان جنات کو’’زط‘‘ قوم کے لوگ قرار دیا۔ ( سنن ترمذی، باب الامثال، حدیث : ۲۸۶۱)
مدینہ میں ایک دفعہ حضرت عائشہؓ بیمار ہو ئیں توروایت کے مطابق ان کا علاج ایک طبیب نے کیا جو زط سے تعلق رکھتا تھا۔ اگرچہ یہ واقعہ نبی کریمؐ کی وفات کے بعد کا ہے، لیکن یہ مدینہ میں الہند کے لوگوں کی موجودگی کو ظاہر کرتا ہے۔ (ادب المفرد، صفحہ ۲۷)
اب ہمارے پاس میسر تاریخی لٹریچر بتاتا ہے کہ حضرت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد الہند کے تین تعارف موجودتھے: ہندوستانی تلواریں، ہندوستانی خوشبوئیں اور ہندوستانی نسل کے لوگ۔
یہ تمام عناصر حضرت نبی کریم ﷺ کی بیان کردہ قیامت کی علامات یا ایام الفتن (eschatology) میں بھی نمایاں طور پر نظر آتے ہیں۔
ایام الفتن اور الہند
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے تخیل میں الہند ایک منفرد مقام رکھتا تھا، اور آپؐ کے زمانے کے دیگر عربوں کے لیے بھی ایسا ہی تھا۔ آپؐ نے الہند کو خوشبوؤں اور جنگ دونوں سے منسلک کیا۔ روایت ہے کہ آپؐ نے فرمایا:’’مجھے الہند کی طرف سے ٹھنڈی ہوا محسوس ہوتی ہے۔‘‘(مستدرک امام حاکم، حدیث: ۳۹۵۴)
گو یہ روایت ہمیشہ سے ہی مسلمانوں کے لیے ایک رومانوی حیثیت رکھتی آئی ہے، لیکن عصرِ حاضر میں الہند یعنی پاکستان اور بھارت کے جغرافیائی خطے میں عسکری و سیاسی تنازعات کے زیر اثر پاکستانی علماء اس حدیث سے یا منکر ہوبیٹھے ہیں یا اس میں الہند کے استعمال سے گریز کرتے نظر آتے ہیں۔
یہاں یہ امر دلچسپ سے زیادہ افسوسناک ہے کہ احادیث کے متن کو سیاسی مقاصد کے لیے کس طرح ڈھالا جاتا ہے۔
علامہ محمد اقبال، جنہیں برصغیر کے مسلمان ایک عظیم مفکر کے طور پر تقریباً متفقہ طور پر قبول کرتے ہیں، نے اس حدیث کو مستند سمجھتے ہوئے اپنی ملی شاعری میں اس کا حوالہ دیا ہے۔
میرِ عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے
میرا وطن وہی ہے، میرا وطن وہی ہے
(بانگ درا)
کیا یہ ٹھنڈی ہوا اس سرزمین کی طرف اشارہ تھی جسے حضرت نبی کریم ﷺ حضرت آدمؑ کا وطن سمجھتے تھے، یا پھر یہ کسی ایسی ہوا کی نشانیاں تھیں جو الہند سے عرب کی طرف چلنے والی تھی؟ اس بات کو یقین کے ساتھ کہنا توممکن نہیں، لیکن قرائن پر مبنی قیاس کے ذریعہ اسے سمجھا جاسکتا ہے۔
ایک روایت میں ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’میں عربی ہوں لیکن عرب مجھ میں نہیں؛ میں الہند سے نہیں ہوں لیکن الہند مجھ میں ہے۔‘‘(المعجم الاوسط، از امام طبرانی)
جنوبی ایشیا کے اسلام کے قابلِ ذکر مفکرین، جیسا کہ شاہ ولی اللہ محدث دہلوی وغیرہ نے اس روایت کو مستند سمجھا اور اسلام کے احیاء نو کی تحریکات میں اس پر بنا کی۔
معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ کے تخیل میں الہند امید اور توقعات کی علامت تھا۔ تاہم، یہ امید ایک بہت بڑی جنگ کے ذکر سے دھندلاتی ہے، لیکن اس کے بعد دوبارہ زندہ ہو جاتی ہے۔
غزوہ ہند، آخری زمانہ کی نشانیوں پر مشتمل احادیث کا ایک خاص حصہ ہے۔ اس جنگ کا ذکر بنیادی طور پرسنن نسائی میں ملتا ہے، اور بعد میں اس غزوہ کا کتب احادیث میں بار بار حوالہ اور ذکر آتا رہا۔ اگرچہ امام نسائی نے صرف تین مختلف روایات کا ذکر کیا ہے، لیکن انہوں نے اس کے لیے ایک علیحدہ باب ’’غزوہ ہند‘‘ کے نام سے مختص کیا۔
پہلے اس حدیث اور اس کی مختلف روایات کا جائزہ لیتے ہیں:
۱: ’’میری امت کے دو گروہ ایسے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ آگ سے آزاد کرے گا: ایک وہ جو الہند پر حملہ کرے گا، اور دوسرا وہ جو عیسیٰ ابن مریم کے ساتھ ہوگا۔‘‘(سنن النسائی، کتاب غزوہ الہند، حدیث: ۳۱۷۵)
۲: ’’ہم ہندوستان پر حملہ کریں گے۔ اگر میں اس وقت زندہ رہا، تو میں اپنی جان اور مال قربان کر دوں گا۔ اگر میں مارا گیا، تو میں بہترین شہداء میں شامل ہوں گا، اور اگر میں واپس آ گیا، تو میں ابو ہریرہ ہوں گا اور آگ سے آزاد ہوں گا۔‘‘(سنن النسائی، کتاب غزوہ الہند، حدیث: ۳۱۷۳)
اس روایت کو امام احمد بن حنبل اور ابن کثیر جیسے علماء نے قبول کیا ہے، جبکہ ابن کثیر کے مطابق یہ پیش گوئی محمد بن قاسم کے ذریعے ۷۱۲ء میں ہندوستان کی فتح میں پہلی بار ظاہر ہوئی۔ تاہم، موجودہ دور میں بھارت اور پاکستان کے سیاسی تنازعات کے تناظر میں، اس روایت کو یا تو سختی سے مسترد کردیا گیا یا پھر ردّوبدل کے ساتھ پیش کیا جاتاہے۔
پاکستان کے شدت پسند مذہبی حلقے کسی بھی ایسی روایت یا اس کی کسی بھی تشریح کواس طور پر پیش کرتے ہیں کہ بھارت کے خلاف اپنی جنگ (یا کشمیر میں عسکری جدوجہد) کو جائز قرار دے سکیں۔
اوپر پیش کی گئی معلومات کی بنیاد پر اس حدیث کا بھارت اور پاکستان کے درمیان کسی بھی جغرافیائی یا سیاسی تنازع سے قطعی طور پر کوئی تعلق نہیں، نہ لفظی اور نہ ہی روحانی۔ تاہم اس حدیث کو کلی طور پر مسترد کرنے کو بھی درست نہیں سمجھتا ہوں، کیونکہ عیسیٰ ابن مریم کے متعلق روایت کو تو ’’حسن‘‘ قرار دیا گیا ہے، یعنی ایک ایسی روایت جس کے حقیقت پر مبنی ہونے کا امکان موجود ہے۔
اس حدیث کے گہرے معانی و مفاہیم کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ہم مطالعہ و تحقیق جاری رکھیں گے، اور اس روایت کو اوپر بیان کی گئی معلومات اور دیگر تاریخی حقائق کے تناظر میں پرکھنے کی کوشش کریں گے۔
فتح مکہ اور جبل ہندی
جہاں سے ہماری اس تحقیق کا نکتہ آغاز ہوا تھا، وہیں واپس لوٹتے ہیں۔ تاریخ اسلام کی مختلف کتب سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضرت نبی کریم ﷺ نے فتح مکہ کے موقع پر داخلہ شہر کے شمالی حصے سے کیا، ایک راستے سے جسے کداء کہا جاتا ہے۔ وہ مقام جہاں الاخشبین آپس میں ملتے ہیں۔
الاخشبین یعنی مکہ کو گھیرنے والے دو پہاڑی سلسلے ہیں۔جبل ابو قبیس جو کعبہ کے مشرق میں واقع ہے۔ اور جبل قعیقعان جو کعبہ کے مغرب میں ہے۔
یہ دونوں پہاڑی سلسلے کعبہ کو گھیرے ہوئے ہیں اور مکہ کے شمالی اور جنوبی حصے میں ایک دوسرے سے ملتے ہیں، جہاں دونوں پہاڑیوں کے سرے پر ایک گھاٹی (ravine) بناتے ہیں۔ شمالی گھاٹی کو کداء اور جنوبی کو کدائی کہا جاتا ہے۔
آنحضورؐ اپنے ساتھ تقریباً ۱۰۰۰۰ کا لشکرلے کر کداءکے راستے سے داخل ہوئے اور قعیقعان کے سلسلے کے ساتھ ساتھ الذاخِر کے راستے جنت المعلیٰ کے دامن تک پہنچے، جہاں آپ نے جبل حجون پر قیام فرمایا۔ یہ مقام نبی کریمؐ کی زوجہ حضرت خدیجہؓ اور چچا حضرت ابو طالبؓ کی قبروں کے قریب واقع ہے۔
آپؐ نے فتح مکہ کے لیے اپنے لشکر کو چار حصوں میں تقسیم فرمایا، جن کی قیادت مختلف صحابہ کر رہے تھے اور خود جبل قعیقعان کے سب سے بلند مقام جبل ہندی پر ٹھہرے۔ آپؐ نے ہدایت فرمائی کہ تمام دستے مکہ میں داخل ہونے سے پہلے آپؐ سے جبلِ ہندی پر آن ملیں۔
جبل ہندی کا یہ نام کیسے پڑا، یہ وجہ تسمیہ خود ایک معمہ ہے، جسے سمجھنے کے لیے تاریخ میں پیچھے جانا پڑے گا۔
جرہم قبیلہ نے حملہ کرکے بنو اسماعیل سے مکہ کا کنٹرول حاصل کیا اور قعیقعان پہاڑی سلسلہ پر جبل ہندی پر اپنی فوجی چھاؤنی قائم کی اور قطورہ اور خزاعہ کے حملے روکنے کے لیے دفاعی مقاصد کے لیے ہندوستان سے درآمد شدہ تلواروں اور تیروں کا ذخیرہ جمع کرلیا تھا، جو ان کی عسکری طاقت کا حصہ تھا۔ جبکہ کچھ مورخین کے مطابق، حمیری بادشاہ التبع نے اپنی ہندوستانی تلواروں کو یہاں ذخیرہ کیا، جس سے یہ پہاڑ جبل ہندی کے نام سے مشہور ہوا۔
یہ مقام خانہ کعبہ کے بالکل قریب ہونے کی وجہ سے دفاعی لحاظ سے بھی اہم تھااور ہندوستانی تلواروں کو یہاں جمع کیا گیا تھا، اس لیے یہ مقام جبل ہندی کہلایا۔
مکہ کے نواح میں جرہم اور قطورہ کے درمیان فیصلہ کن جنگ میں ان کی تلواروں کی جھنکار سے سارے پہاڑی سلسلہ کا نام قعیقعان پڑ گیا۔ یہ پہاڑی سلسلہ مکہ کے شمال مغرب میں قریباً ساری مغربی سمت کو گھیرے ہوئے ہے۔ جبل ہندی کا سب سے نشیبی حصہ مروہ پہاڑی ہے جو کعبہ سے متصل اور سعی کا مقام اختتام ہے۔
آنحضورؐ اپنے لشکر کے ساتھ جبل ہندی سے مکہ میں فاتحانہ شان سے داخل ہوئے اور خانہ کعبہ کی طرف پیش قدمی کی۔ جبل ہندی سے کعبہ میں داخل ہونے والےموجودہ دروازے کو اسی نسبت سے باب الفتح کے نام سے موسوم کیا گیا ہے۔
عثمانی دور میں، جبل ہندی پر قلعہ ہندی تعمیر ہوا، جو مکہ بالخصوص کعبہ کے لیے ایک اہم دفاعی مقام کے طور پر استعمال ہوتا رہا۔
جب عثمانیوں کا مکہ سے عروج جاتا رہا تھا تو ۱۹۴۹ء میں، یہ قلعہ شریعت کالج میں تبدیل کردیا گیااور ۱۹۸۱ء میں اسے ام القریٰ یونیورسٹی کا درجہ دے دیا گیا جو مکہ مکرمہ کی پہلی یونیورسٹی ٹھہری۔
اسی قلعہ ہندی سے سعودی عرب میں پہلی بار ریڈیو سگنلز نشر کیے گئے، اور اس مقصد کے لیے جس ریڈیو سٹیشن کا استعمال کیا گیا، اس کا نام ’’ھنا مکہ المکرمہ ‘‘ تھا۔
(Fauzi bin Muhammad bin Abdahu Sa’ati, Harat al-Shamiyyah (Al-Shamiyyah neighbourhood), p 59, Jamia Umm al-Qura, 2011)
ایک اور خاص تاریخی امر یہ ہے کہ ۱۹۴۸ء میں ۹؍ذوالحجہ ۱۳۶۸ ہجری کو یوم عرفہ کے موقع پراسی پہاڑ پر واقع ریڈیو سٹیشن سے قرآن کریم کی آیات نشر کی گئیں۔
(Ahmad bin Muhammad al-Maghribi, al-Inayat bil-Quran al-Karim fi Makka-t al-Mukarramah, 136)
پس جبل ہندی ہی تھا جسے رسول اکرم ﷺ نے مکہ میں فاتح اسلامی لشکر کے سپہ سالار کے طور پر قدم رکھنے کے لیے منتخب فرمایا۔
آپؐ کے تصور میں یقیناً جبل ہندی کی تاریخ اور وہ ہندی تلواریں موجود تھیں جن کے سبب اسے یہ نام ملا تھا۔آپؐ اور آپؐ کے لشکر کے پاس یہی ہندی تلواریں تھیں جو اس عظیم الشان فتح کے موقع پر ساتھ تھیں۔یہ بالآخر اللہ کے گھر کو مشرف بہ اسلام کرنے کا تاریخ ساز لمحہ تھا۔اس موقع پر آپؐ کا پہلا اقدام یہ تھا کہ خانہ کعبہ کو تمام بتوں سے پاک کریں، اور یہ فریضہ انجام دینے کے بعد آپؐ نے اس کا طواف کیا۔
اسی طرح یقیناً آپؐ کے تصور میں اسلام کا مستقبل بھی ہوگا یعنی غزوہ ہند کا خیال۔جن بتوں کو آپؐ نے خانہ کعبہ سے نکالاان میں وہ بت بھی تھے جو صدیوں کے سفر میں ہندوستان سے وہاں پہنچے تھے اور ان کے دوبارہ اسلام کے مرکز میں واپس آنے کا امکان موجود تھا، مختلف راستوں سے اور مختلف شکلوں اور صورتوں میں۔ہم آپؐ کی احادیث سے جانتے ہیں کہ آپؐ نے اپنی امت کو مختلف مذاہب کے حملوں کے بارے میں خبردار فرمایا تھا۔آپؐ نے پیشگوئی فرمائی تھی کہ آپ کی امت یہودیوں کی طرح مختلف فرقوں میں تقسیم ہو جائے گی، عیسائیت کے اثر میں آ جائے گی، اور ساتھ تنبیہ بھی فرمائی کہ بت پرستی دوبارہ ان کے عقیدے میں سرایت نہ کر جائے۔
کیا یہی وہ پس منظر تھا جس میں آپؐ نے غزوہ ہند یعنی ہندوستان کی عظیم جنگ کا ذکر فرمایا؟
آخری دور میں برصغیر پاک و ہند مذاہب کا ایسا سنگم بن چکا تھا جہاں اکثریتی آبادی بت پرست تھی۔ جب مذہبی جنگیں مناظروں اور مباحث کے میدانوں میں منتقل ہو چکی تھیں۔ تو کیا ہندوستان ایک بار پھر دلیل کی تلوار فراہم کرنے والا تھا؟کیا ہندوستان ایک بار پھر اسلام کے دفاع کے لیے قلعہ بننے جارہا تھا؟دو گروہوں میں سے جنہیں آگ سے حفاظت کا وعدہ دیا گیا تھا، ایک کو یہ جنگ لڑنی تھی اور دوسرے کو عیسیٰ ابن مریم، مسیح موعود کے ساتھ ہونا تھا۔کیا آخری زمانے کے مسیح کا ہندوستان کے ساتھ ایسا قریبی تعلق ہونا تھا؟ جیسے ان کے اوّلین پیشرو آدم علیہ السلام تھے، کیا آخری زمانے کے مسیح نے ہندوستان میں ظاہر ہونا تھا اور اسلام کے مرکز کا دفاع کرنا تھا؟
اسلامی تعریف کےاعتبار سے، غزوہ وہ جنگ ہے جس میں رسول اکرمؐ خود شریک ہوں۔تو غزوہ ہند کے لیے، کیا یہ رسول اکرمؐ کا دوسرا ظہور ہونا تھا یا مسیح موعود نے ان کی نمائندگی کرنی تھی؟
اپنے قارئین پر کسی نتیجے کو مسلط کیے بغیر، ان سوالات کے ساتھ اپنی بات ختم کرتے ہیں تا قارئین خود ان پر غور اور تدبر کریں اور کسی وقیع اور مثبت نتیجے پر پہنچیں۔
٭…٭…٭