واقفین نو کی تربیت کے متعلق چند ہدایات
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۲۷؍جون ۲۰۰۳ء)
چند باتیں جو تربیت کے لئے ضروری ہیں اب مَیں آگے واقفین نوبچوں کی تربیت کے لئے جووالدین کو کرنا چاہئے اور یہ ضروری ہے پیش کرتاہوں ۔
اس میں سب سے اہم بات وفا کا معا ملہ ہے جس کے بغیر کوئی قربانی، قربانی نہیں کہلا سکتی۔ اس بارہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے الفاظ میں چند باتیں کہوں گا۔آپ نے والدین کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا تھاکہ
’’واقفین بچوں کو وفا سکھائیں ۔وقف زندگی کا وفا سے بہت گہرا تعلق ہے۔ وہ واقف زندگی جو وفا کے ساتھ آخری سانس تک اپنے وقف کے ساتھ نہیں چمٹتا، وہ الگ ہوتاہے تو خواہ جماعت اس کو سزا دے یا نہ دے وہ اپنی روح پرغداری کا داغ لگا لیتاہے اور یہ بہت بڑا داغ ہے۔ اس لئے آپ نے جو فیصلہ کیا ہے اپنے بچوں کو وقف کرنے کا،یہ بہت بڑا فیصلہ ہے۔ اس فیصلے کے نتیجہ میں یا تو یہ بچے عظیم اولیا ء بنیں گے یا پھر عام حال سے بھی جاتے رہیں گے اور ان کو شدید نقصان پہنچنے کا احتما ل ہے۔ جتنی بلندی ہو،اتنی ہی بلندی سے گرنے کا خطرہ بھی بڑھ جایا کرتاہے۔ اس لئے بہت احتیاط سے ان کی تربیت کریں اور ان کو وفا کا سبق دیں اور باربار دیں ۔ اپنے بچوں کو سطحی چالاکیوں سے بھی بچائیں ۔ بعض بچے شوخیاں کرتے ہیں اور چالاکیاں کرتے ہیں اور ان کو عادت پڑ جاتی ہے۔ وہ دین میں بھی پھر ایسی شوخیوں اور چالاکیوں سے کام لیتے رہتے ہیں اور اس کے نتیجہ میں بعض دفعہ ان شوخیوں کی تیزی خود ان کے نفس کوہلاک کردیتی ہے۔ اس لئے وقف کا معاملہ بہت اہم ہے۔ واقفین بچوں کو یہ سمجھائیں کہ خدا کے ساتھ ایک عہد ہے جو ہم نے تو بڑے خلوص کے ساتھ کیاہے لیکن اگر تم اس بات کے متحمل نہیں ہو تو تمہیں اجازت ہے کہ تم واپس چلے جاؤ۔ ایک گیٹ(Gate) اور بھی آئے گا۔جب یہ بچے بلوغت کے قریب پہنچ رہے ہوں گے،اس وقت دوبارہ جماعت ان سے پوچھے گی کہ وقف میں رہنا چاہتے ہو یا نہیں چاہتے؟ وقف وہی ہے جس پرآدمی وفا کے ساتھ تادم آخر قائم رہتاہے۔ہر قسم کے زخموں کے باوجود انسان گھسٹتا ہوا بھی اسی راہ پر بڑھتاہے، واپس نہیں مڑا کرتا‘‘۔ (خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ۱۰؍فروری ۱۹۸۹ء )
اس کے علاوہ ایک اور اہم بات، اور یہ بھی میرے نزدیک انتہائی اہم باتوں میں سے ایک ہے بلکہ سب سے اہم بات ہے کہ بچوں کو پانچ وقت نمازوں کی عادت ڈالیں ۔ کیونکہ جس دین میں عباد ت نہیں وہ دین نہیں ۔اس کی عادت بھی بچوں کو ڈالنی چاہئے اور اس کے لئے سب سے بڑا والدین کا اپنا نمونہ ہے۔ اگر خود وہ نمازی ہوں گے تو بچے بھی نمازی بنیں گے۔نہیں توصرف ان کی کھوکھلی نصیحتوں کا بچوں پرکوئی اثر نہیں ہوگا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ فرماتے ہیں کہ ’’بچپن سے تربیت کی ضرورت پڑتی ہے، اچانک بچوں میں یہ عادت نہیں پڑا کرتی۔ا س کا طریقہ آنحضرت ﷺنے یہ سمجھایاہے کہ سات سال کی عمر سے اس کو ساتھ نماز پڑھانا شروع کریں اور پیار سے ایسا کریں ۔ کوئی سختی کرنے کی ضرورت نہیں ،کوئی مارنے کی ضرورت نہیں ،محبت اور پیار سے اس کو پڑھاؤ،اس کو عادت پڑ جاتی ہے۔ دراصل جو ماں باپ نمازیں پڑھنے والے ہوں ان کے سات سال سے چھوٹی عمر کے بچے بھی نماز پڑھنے لگ جاتے ہیں ۔ ہم نے تو گھروں میں دیکھاہے اپنے نواسوں وغیرہ کو بالکل چھوٹی عمر کے ڈیڑھ ڈیڑھ، دو دو سال کی عمر کے ساتھ آکے تو نیت کر لیتے ہیں اور نما ز کے لئے کھڑے ہو جاتے ہیں اس لئے کہ ان کو اچھا لگتاہے دیکھنے میں، خدا کے حضور اٹھنا،بیٹھنا،جھکنا ان کو پیارا لگتاہے ا ور وہ ساتھ کھڑے ہو جاتے ہیں ۔ مگر و ہ نماز نہیں ، محض ایک نقل ہے جو اچھی نقل ہے۔ لیکن جب سات سال کی عمر تک بچہ پہنچ جائے تو پھر ا س کو باقاعدہ نماز کی تربیت دو۔ اس کو بتاؤ کہ وضو کرنا ہے، اس طرح کھڑے ہونا ہے، قیام و قعود، سجدہ وغیرہ سب اس کو سمجھاؤ۔ اس کے بعد وہ بچہ اگر دس سال کی عمر تک، پیارو محبت سے سیکھتا رہے،پھر دس اور بارہ کے درمیان اس پر کچھ سختی بے شک کرو۔کیونکہ وہ کھلنڈری عمر ایسی ہے کہ اس میں کچھ معمولی سزا،کچھ سخت الفاظ کہنا یہ ضروری ہوا کرتاہے بچوں کی تربیت کے لئے۔تو جب وہ بلوغ کو پہنچ جائے،بار ہ سال کی عمر کو پہنچ جائے پھر اس پر کوئی سختی کی اجازت نہیں ۔ پھر اس کا معاملہ اور اللہ کا معاملہ ہے اور جیسا چاہے وہ اس کے ساتھ سلوک فرمائے۔ تو ا نسانی تربیت کا دائرہ یہ سات سال سے لے کر بلکہ جیسا کہ مَیں نے بیان کیا ہے پہلے سے بھی شروع ہو جاتاہے،بارہ سال کی یعنی بلوغت کی عمر تک پھیلا ہواہے۔ ا س کے بعد بھی تربیت تو جاری رہتی ہے مگر وہ اور رنگ ہے۔ انسان اپنی اولاد کا ذمہ دار بارہ سال کی یعنی بلوغت کی عمر تک ہے۔
بعض چھوٹی چھوٹی باتیں ہیں جو کہنے میں چھوٹی ہیں لیکن اخلاق سنوارنے کے لحاظ سے انتہائی ضروری ہیں مثلاً کھانا کھانے کے آداب ہیں یہ ضرور سکھانا چاہئے۔اب یہ ایسی بات ہے جو گھر میں صرف ماں باپ ہی کر سکتے ہیں یا ایسے سکول اور کالجز جہاں ہوسٹل ہوں اور بڑی کڑی نگرانی ہو وہاں یہ آداب بچوں کو سکھائے جاتے ہیں لیکن عموماً ایک بہت بڑی تیسری دنیا کے سکولوں کی تعداد ایسی ہے جہاں ان باتوں پر اس طرح عمل نہیں ہوتا اس لئے بہرحال یہ ماں باپ کا ہی فرض بنتاہے۔ لیکن یہاں مَیں ضمناً یہ ذکر کرنا چاہوں گا۔ ربوہ کی ایک مثال ہے مدرسۃ الحفظ کی جہاں پانچویں کلاس پاس کرنے کے بعد بچے داخل ہوتے ہیں۔ مختلف گھروں سے،مختلف خاندانوں سے،مختلف ماحول سے، دیہات سے، شہروں سے بچے آتے ہیں لیکن وہاں میں نے دیکھا ہے کہ ان کی تربیت ماشاء ا للہ ایسی اچھی ہے اور ان کی ایسی اعلیٰ نگرانی ہوتی ہے اور ان کو ایسے اچھے اخلاق سکھائے گئے ہیں حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ۔ اتنے سلجھے ہوئے طریق سے بچے کھانا کھاتے ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔باوجود مختلف قسم کے بچوں کے ماحول ہے کہ مثلاً یہی ہے کہ بسم ا للہ پڑھ کے کھائیں ،اپنے سامنے سے کھائیں ،ڈش میں سے سالن اگر اپنی پلیٹ میں ڈالنا ہے تو اتنی مقدار میں ڈالیں جو کھایا جائے۔ دوبارہ ضرورت ہو تو دوبارہ ڈال دیا جائے۔دائیں ہاتھ سے کھانا کھاناہے،کھانا ختم کرنے کے بعد کی دعا۔ تو یہ چھوٹی چھوٹی چیزیں ہیں تو بہرحال بچپن سے ہی وقف نوبچوں کو تو خصوصاً اور عموماً ہر ایک کو سکھانی چاہئیں ۔تو بہرحال یہ جو مدرسۃ الحفظ کی مَیں نے مثال دی ہے اللہ کرے کہ یہ سلسلہ جو انہوں نے تربیت کا شروع کیا ہے جاری رہے اور والدین بھی اپنے بچوں کی اسی نہج پر تربیت کریں ۔ پھر یہ ہے کہ بعض بچوں کو بچپن میں عادت ہوتی ہے اور یہ ایسی چھوٹی سی بات ہے کہ بعض دفعہ والدین اس پر نظر ہی نہیں رکھتے کہ کھانا کھانے کے بعد گندے ہاتھوں کے ساتھ بچے مختلف چیزوں پر ہاتھ لگادیتے ہیں اسے بھی ہلکے سے پیار سے سمجھائیں ۔ تو یہ ایسی عادتیں ہیں جو بچپن میں ختم کی جاسکتی ہیں اور بڑے ہو کر یہ اعلیٰ اخلاق میں شمار ہو جاتی ہیں ۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ بچوں میں اخلاق حسنہ کی آبیاری کی اہمیت کے بارہ میں فرماتے ہیں کہ ہر وقف زندگی بچہ جو وقف نومیں شامل ہے بچپن سے ہی اس کو سچ سے محبت اور جھوٹ سے نفرت ہونی چاہئے۔اور یہ نفرت اس کو گویا ماں کے دودھ سے ملنی چا ہئے۔ جس طرح ریڈی ایشن کسی چیز کے اندر سرایت کرتی ہے، اس طرح پرورش کرنے والی باپ کی بانہوں میں سچائی اس بچے کے دل میں ڈوبنی چاہئے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ والدین کو پہلے سے بہت بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا۔واقفین نوبچوں کے والدین کو یہ نوٹ کرنے والی بات ہے کہ والدین کو پہلے سے بڑھ کر سچا ہونا پڑے گا۔ ضروری نہیں کہ سب واقفین زندگی کے والدین سچائی کے اس اعلیٰ معیار پر قائم ہوں جو اعلیٰ درجہ کے مومنوں کے لئے ضرور ی ہے۔اس لئے اب ان بچوں کی خاطر ان کو ا پنی تربیت کی طرف بھی توجہ کرنی ہوگی۔اور پہلے سے کہیں زیادہ احتیاط کے ساتھ گھر میں گفتگو کا انداز اپنا نا ہوگا اور احتیاط کرنی ہوگی کہ لغو باتوں کے طورپر،مذاق کے طورپر بھی وہ آئندہ جھوٹ نہیں بولیں گے۔کیونکہ یہ خدا کی مقدس امانت اب آپ کے گھر میں پل رہی ہے اور اس مقدس امانت کے کچھ تقاضے ہیں جن کو بہرحال آپ نے پورا کرنا ہے۔ اس لئے ایسے گھروں کے ماحول، سچائی کے لحاظ سے نہایت صاف ستھرے اور پاکیزہ ہو جانے چاہئیں ۔
پھر آپؒ فرماتے ہیں کہ قناعت کے متعلق مَیں نے کہا تھا اس کا واقفین سے بڑا گہرا تعلق ہے۔بچپن ہی سے ان بچوں کو قانع بنانا چاہئے اور حرص وہوا سے بےرغبتی پیدا کرنی چاہئے۔ عقل ا ور فہم کے ساتھ اگر والدین شروع سے تربیت کریں تو ایسا ہونا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔ غرض دیانت اور ا مانت کے اعلیٰ مقام تک ان بچوں کو پہنچانا ضروری ہے۔
علاوہ ازیں بچپن سے ایسے بچوں کے مزاج میں شگفتگی پیدا کرنی چاہئے۔ ترش روئی وقف کے ساتھ پہلو بہ پہلو نہیں چل سکتی۔ ترش رُو واقفین زندگی ہمیشہ جماعت میں مسائل پیدا کیاکر تے ہیں اور بعض دفعہ خطرناک فتنے بھی پیدا کر دیا کرتے ہیں ۔ اس لئے خوش مزاجی اور اس کے ساتھ تحمل یعنی کسی کی بات کو برداشت کرنا یہ دونوں صفات واقفین بچوں میں بہت ضروری ہیں ۔
اس کے علاوہ واقفین بچوں میں سخت جانی کی عادت ڈالنا، نظام جماعت کی اطاعت کی بچپن سے عادت ڈالنا، اطفال الاحمدیہ سے وابستہ کرنا، ناصرات سے وابستہ کرنا، خدام الاحمدیہ سے وابستہ کرنا بھی بہت ضروری ہے۔ (اقتباسات ازخطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ مورخہ ۱۰؍جنوری ۱۹۸۹ء)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں:نیشنل اجتماع واقفین نو و واقفاتِ نو بنگلہ دیش ۲۰۲۴ء