یتیم کی پرورش کے لئے نیت صاف ہونی چاہئے
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ فرماتے ہیں:
ہمیشہ یتیموں کی ضرورتوں کا خیال رکھو اور خاص طور پر جو دین کی خاطر جان قربان کرتے ہیں ان کا تو بہت زیادہ خیال رکھنا چاہئے تاکہ ان کے بچوں کے دل میں کبھی یہ خیال نہ آئے کہ ہمارے باپ نے دین کی خاطر جان قربان کرکے ہمیں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ بلکہ ہر شہید کی اولاد کو اس بات پر فخر ہو کہ ہمارے باپ نے دین کی خاطر جان قربان کرکے دائمی زندگی پا لی اور ہمارے سر بھی فخر سے اونچے ہو گئے۔ ہمیشہ ایسے بچوں کو یہ خیال رہے کہ دنیاوی لحاظ سے جماعت نے اور افراد جماعت نے ہمیں یوں اپنے اندر سمو لیاہے اور ہماری ضروریات اور ہمارے حقوق کا یوں خیال رکھا ہے جس طرح ایک بھائی اپنے بھائی کا رکھتا ہے۔ جس طرح ایک باپ اپنے بچے کا رکھتا ہے۔ ہمیشہ ان بچوں میں یہ احساس رہے کہ ہماری تربیت کا ہمارے بھائیوں نے بھی اور جماعت نے بھی حق ادا کر دیا ہے۔ اگر کسی بچے کا باپ اس کے لئے جائیداد چھوڑ کر مرا ہے تو اس کے قریبی اور ارد گرد کے لوگ اس کی جائیداد پر نظر رکھتے ہوئے اسے ہڑپ کرنے کی کوشش نہ کریں، ختم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ جھوٹے طریقے سے یتیم کو اس کے باپ کی جائیداد سے محروم کرنے کی کوشش نہ کریں۔ بلکہ حکم یہ ہے کہ احتیاط سے استعمال کرو۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغَ اَشُدَّہٗ(بنی اسرآئیل:35) اور تم یتیم کے مال کے پاس اس کے جوانی کے پہنچنے تک بے احتیاطی سے نہ جاؤ۔ یعنی یہ نہ ہو کہ پرورش کے بہانے اس کا مال سارا لُٹا دو۔ اگر تمہارے حالات اچھے ہیں تو جہاں اپنے بچوں کو کھلاتے پہناتے ہو اس کے لئے بھی خرچ کرو۔ اور اگر حالات ایسے نہیں کہ پرورش کر سکو اور یتیم کے ماں باپ نے اگر کوئی مال چھوڑا ہے تو پھر اس میں سے احتیاط سے صرف اتنا ہی خرچ کروجس سے اس کی ضرورت، جو حقیقی ضرورت ہے پوری ہو جائے اور جب وہ ہوش وحواس کی عمر کو پہنچ جائے تو پھر اس کا مال اسے واپس کر دو۔ بعض دفعہ دیکھنے میں آتا ہے کہ بعض قریبی بھی یتیم کا مال اس کی بلوغت کو پہنچنے کے بعد اس کے حوالے نہیں کرتے۔ ماں باپ کی چھوڑی ہوئی جائیداد پر مستقل تصرف کئے رکھتے ہیں کہ ہم نے اس پر خرچ کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو یہ چیز انتہائی ناپسند ہے یتیم کی پرورش کے لئے نیت صاف ہونی چاہئے۔ اگر نیتوں میں فتور آجائے تو باوجود اس کے کہ بظاہر ایک شخص یتیم کی پرورش کر رہا ہوتا ہے، دوسروں کی نظر میں بڑا قابل تعریف ہوتا ہے کہ اس نے اپنے قریبی یا کسی بھی یتیم کی اچھی پرورش کی ہے یا کر رہا ہے لیکن اصل میں تو اس یتیم کے پیسے سے ہی پرورش کر رہا ہوتا ہے … اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کو تو دھوکہ نہیں دے سکتے۔ اللہ اصلاح کرنے والے کا فساد کرنے والے سے فرق جانتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور اس کا علم کامل ہے۔ وہ انسان کی پاتال تک سے واقف ہے۔ وہ جانتا ہے کہ یتیم کی پرورش کے شوق کے پیچھے نیت کیاہے۔ معاشرے کو تو دھوکہ دیا جاسکتا ہے، عدالتوں میں تومقدمے جیتے جا سکتے ہیں لیکن خداتعالیٰ کو دھوکہ نہیں دیا جا سکتا۔
(خطبہ جمعہ ۱۶؍نومبر ۲۰۰۷ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل۷؍دسمبر ۲۰۰۷ء)
مزید پڑھیں:جان بوجھ کر جمعہ چھوڑنے والے کے دل پر مہر لگ جاتی ہے