جبل ہندی، سیف ہندی، مسیح ہندی اور غزوہ ہند۔ ’’الہند‘‘ پیغمبرِ اسلام ﷺ کی نظر میں! (قسط اوّل)
ابن منظور ’’لسان العرب‘‘ میں لفظ ’’زطّ‘‘ کو ’’جٹ‘‘ کا عربی تلفظ قرار دیتے ہیں،
جو ہندوستانی زبان میں ایک معروف قوم کا نام ہے۔ وہ انہیں ’’گہری رنگت والے‘‘
اور’’ہندوستان کی مقامی نسل‘‘ قرار دیتے ہیں
اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہوئےمتفرق ماخذوں میں مختلف روایات ہمارے سامنےآتی ہیں، جو کسی ایک واقعہ یا واقعات کو پیچیدہ بنا دیتی ہیں اورکسی واقعہ کی جغرافیائی تفصیلات طے کرتے وقت یہ دقت مزید اجاگر ہو جاتی ہے، کیونکہ صدیوں کے سفر کے بعد شہروں، ملکوں اور مقامات کے نام کئی بار تبدیل ہوتے رہے ہیں۔
حضرت نبی اکرم ﷺ کے فتح مکہ کے سفر کے راستہ کی نشاندہی اور مقامات کی تعیین کرنے کی کوشش کرتے ہوئے راقم بھی اس مشکل سے دوچار ہوا۔ لیکن اسی مطالعہ کے دوران ایک مخصوص مقام کا علم ہوا جو اس تاریخ سازفتح کے دوران نبی اکرم ﷺ کے سفر میں آیا، اور وہ بھی آخری مرحلے کے طور پر۔ یعنی ایک پہاڑ جو جبل ہندی کہلاتا ہے۔
اس کھوج کو محض مصنف کےبرصغیر پاک و ہند سے تعلق اور نسبت سے بھی جوڑا جاسکتا ہے، جسے نبی اکرم ﷺ کے زمانے میں عمومی طور پر الہند کہا جاتا تھا، لیکن اس ذاتی جستجو کے دوران جو تفصیلات سامنے آئیں وہ اسلام کے ابتدائی دَور کی جغرافیائی تفہیم کے ساتھ ساتھ آخری زمانہ سے متعلق اسلامی پیش خبریوں کے حوالے سےبھی محققین کے لیے دلچسپی کا موجب ہو سکتی ہیں۔
زمانہ قبل از اسلام میں ’’الہند‘‘
۱۹۳۰ء کی دہائی میں، یمن میں صنعا کے علاقے میں جبل العُقلیٰ کے قریب کچھ چٹانی کتبے دریافت ہوئے، جو تقریباً ۲۷۰-۲۸۰ عیسوی کے زمانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ تحریریں سبائی زبان میں لکھی گئی تھیں اور ایک شاہی تقریب کا ذکر کرتی ہیں، جو غالباً ایک حضرمی بادشاہ کے اعزاز میں منعقد کی گئی تھی۔
ان تحریروں میں ’’قُرشتن‘‘ کا ذکر ہے، جو محقق Albert Jammeکے مطابق قریش کی خواتین کے لیے لفظ تھا۔ اس کے علاوہ ان تحریروں میں تدمر، کشد(Kashd) اور ہند کے نمائندوں کا بھی ذکر ہے۔
(W. F. A. Jamme, The Al-‘Uqlah Texts (Documentation Sud-Arabe, III), Washington, D.C.: The Catholic University of America Press, 1963, as quoted in:Patricia Crone, Meccan Trade and the Rise of Islam, Princeton: Princeton University Press, 1987, p. 169)
حضرموت میں ہونے والی اس ملاقات کے مقاصد کا تو واضح طور پر ذکر نہیں ہے، لیکن عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ یہ ملاقات تجارتی معاملات کے تعلق میں ہوگی۔
گو تاریخ دان اور محقق Patricia Croneاس سے پوری طرح متفق نہیں مگر یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ قدیم زمانے سے ہند اور عرب کے درمیان مضبوط تجارتی تعلقات میں مکہ ایک اہم پڑاؤ تھا۔یہ باہمی رابطے اور تعلقات وادیٔ سندھ اور میسوپوٹیمیا (وادی دجلہ و فرات)کی تہذیبوں کے درمیان موجود تھے۔
( اس مخصوص عرصہ کے مزید تاریخی حقائق کے لیے دیکھیں:
L. A. Waddell, The Indo-Sumerian Seals Deciphered: Discovering Sumerians of Indus Valley as Phoenicians, Barats, Goths & famous Vedic Aryans 3100-2300 BC, Luzac & Co, London, 1925)
لیکن ہم اپنی تحقیق کو ۲۵۰ سے ۷۵۰ عیسوی (جیسا کہ Oxford Centre for Late Antiquity نے اس دور کو مخصوص کیا ہے)کے دورتک محدود رکھیں گے، اور ظہور اسلام اور اس کے بعد کے حالات پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔یہ تجارتی راستہ، جو عام طور پر شامی تجارتی راستے (Levant Trade Route) کے نام سے جانا جاتا ہے، صدیوں کے دوران ترقی یافتہ اور ارتقا پذیر رہا، جو مشرق سے مغرب تک زمین اور سمندر دونوں راستوں پر محیط تھا۔ ۹ویں صدی کے جغرافیہ دان ابن خرداذبہ نے ہندوستان سے سرزمینِ عرب تک باہمی تجارتی مصنوعات کی فہرست دی ہے:
عود، صندل کی لکڑی، کافور، لونگ، جائفل، املی، کالی مرچ، کپاس، بانس کی لکڑیاں جو نیزے اور تیروں کے لیے استعمال ہوتی تھیں، اور سب سے اہم، ہندوستانی تلوار، جسے عربوں میں سیف ہندی کے نام سے جانا جاتا تھا اور مہند اور ہندوانی بھی کہا جاتا تھا۔(المسالک والممالک، از ابن خردادبہ)
شاہراہِ لُبان
مندرجہ بالا اشیاء کی سب سے بڑی صارف منڈی بحیرہ روم کے ارد گرد تھی، جہاں سے بازنطینی تاجروں نے یہ سامان خریدا اور انہیں یورپی زمینوں تک پہنچایا۔ چونکہ ہندوستانی تاجروں کے لیے بحیرہ روم تک پہنچنے کا بلاواسطہ راستہ موجود نہیں تھا، اس لیے انہیں مڈل مین کی ضرورت تھی، اور یہ ثالث انہیں جنوبی عرب (موجودہ یمن اور عمان) اور خلیج عرب؍فارس کے مغربی ساحل پر ملے۔
ہندوستان کے مغربی ساحل کا سمندری راستہ عرب کے مشرقی ساحل سے ایک سیدھی لائن کے ذریعے جڑا ہوا تھا۔ تاہم، تاریخ کے مطابق، ہندوستانی بحری جہاز کھلے سمندروں کی خطرناک صورتحال سے بچنے کے لیے ساحل کے قریب رہتے تھے۔ اس طرح، وہ محفوظ طریقے سے عمان کے ساحل پر پہنچ جاتے تھے۔
مزید سفر کرتے ہوئے، موجودہ دور کے یمن کے ساحل پر، عدن اور حضرموت میں ان کا سامنا عرب تاجروں سے ہوتا، جو ہندوستانی مصنوعات خریدتے تھے۔ یہیں سے عرب تاجر، جزیرہ نما عرب کے برّی راستے کے ذریعے، یہ سامان شامی تجارتی مراکز تک لے جاتے تھے۔
سب سے مناسب اور مقبول تجارتی راستہ حجاز سےگزرتا تھا جو جزیرہ نما عرب کے مغربی ساحل اور سیوار پہاڑی سلسلے کے ساتھ ساتھ واقع تھا۔ یہاں موجود نخلستان اور سبزہ زاروں کی وجہ سےبھی یہ راستہ مشہور تھا۔اور یہی وہ راستہ تھا جہاں مکہ اور مدینہ واقع تھے جو بعد میں اسلام کے مراکز بنے۔
ہندوستانی تاجر جو سمندر کے راستے پہنچتے تھے، ہمیشہ سیدھے سفر نہیں کرتے تھے، بلکہ خلیج عربی/فارسی کے شمالی حصے میں داخل ہو تے، مختلف بندرگاہوں پر مختصر قیام کرتے اور پھر اپنی آخری منزل عبُلّہ (موجودہ بصرہ) پہنچ جاتے،جو ابتدائی اسلامی دور میں ’’ہند کے سرحدی علاقے‘‘ کے نام سے بھی جانا جاتا تھا۔
(“Indian Migration to the Gulf Countries: Past and Present”, Prakash C. Jain, India Quarterly, Vol. No. 61)
اس راستے کی مختلف بندرگاہوں پر تجارت کرتے ہوئے، وہ بالآخر شام میں بازنطینی تاجروں کو اپنا سامان فروخت کرتے۔ یہ تجارتی مراحل عرب کے مشرقی ساحل پر بھی جاری رہتے تھے۔
جزیرہ نما عرب اپنے مشرقی اور مغربی ساحلوں کے درمیان، لق و دق صحرا اور شدید موسمی حالات کا نمونہ تھا۔ الہند کے تاجر نہ تو ایسے سخت موسم کے عادی تھے اور نہ ہی عرب ثالثوں کی اجارہ داری انہیں آگے بڑھنے دیتی۔اوریہی وہ صدیوں پرانا تجارتی راستہ تھا، جو ہندوستانی لوبان (خوشبویات) اور مسالہ جات کو جنوبی عرب سے شام تک،براستہ حجاز لے جاتا تھا، اور اسی وجہ سے اسے ’’لوبان کا راستہ‘‘ کہا جاتا تھا۔
سرزمین عرب میں زمانہ قبل از اسلام میں ہندوستانی نژاد لوگوں کی آبادکاری کے شواہد
عربوں اور ہندوستانیوں کے درمیان صدیوں سے قائم ان تجارتی تعلقات نے دونوں اقوام کے لیے میل جول کے مزید مواقع فراہم کیے۔ جبکہ ان دونوں وسیع و عریض خِطوں کے درمیان ایک بہت بڑی ساسانی سلطنت واقع تھی، جس کی تجارت کے زمینی اور سمندری راستوں پر مخصوص گرفت قائم تھی۔
مزید برآں، اس ساسانی سلطنت کی سرحدیں مشرق اور مغرب دونوں جانب خوب پھیلی ہوئی تھیں، جو مشرق میں الہند اور مغرب میں عرب سے متصل تھیں۔ مشرقی سرحدیں برصغیر ’’الہند‘‘ سے ملتی تھیں، جسے آج ہم سندھ اور بلوچستان کے نام سے جانتے ہیں۔ یہ وہی علاقہ تھا جسے قرون وسطیٰ کے عربوں نے ’’السند‘‘ کہا۔
ابن منظور’’لسان العرب‘‘ میں لفظ ’’زطّ‘‘ کو ’’جٹ‘‘ کا عربی تلفظ قرار دیتے ہیں، جو ہندوستانی زبان میں ایک معروف قوم کا نام ہے۔ وہ انہیں ’’گہری رنگت والے‘‘ اور ’’ہندوستان کی مقامی نسل‘‘ قرار دیتے ہیں۔(لسان العرب، از ابن منظور، زیر مادہ: زط۔ مطبوعہ دارالسعد، بیروت، جلد۷ صفحہ۳۰۸)
سماج اور معاشرت کے ماہر دیگر تاریخ دانوں نے بھی ’’زطّ‘‘ کی یہی یا اس سے کچھ ملتی جلتی وضاحت کی ہے۔(مجمع بحار الانوار فی غرائب التنزیل ولطائف الاخبار،از محمد طاہر، جلد دوم۔ شائع کردہ مجلس دائرہ المعارف عثمانیہ، ۱۹۶۷ء، صفحہ ۴۲۴۔ مجمع البحرین و مطلع النیّریْن، از فخر الدین محمد بن علی النجفی، جلد دوم صفحہ ۲۷۶)
علامہ ابو الفداء اپنی کتاب’’تقویم البلدان‘‘ میں بلوچوں کو بھی ’’زط‘‘کے زمرے میں شامل کرتے ہیں۔(تقویم البلدان، از ابوالفداء، صفحہ ۳۵۵، مطبوعہ بیروت)
الغرض یہ لوگ واضح طور پر موجودہ سندھ اور ہند سے تعلق رکھنے والے سمجھے جاتے تھے اور ان کی آبادیاں مکران سے منصورہ تک اور سندھ سے ملتان تک پھیلی ہوئی تھیں۔(المسالک والممالک، صفحہ ۳۵ اور ۵۶)
جبکہ ’’السند‘‘ اور ’’الہند‘‘کو بعض اوقات باہم ایک دوسرے کے لیے استعمال کیا جاتا تھا، لیکن قرون وسطیٰ کے بعد کے کچھ عرب جغرافیہ دانوں نے ’’السند‘‘ کو ’’الہند‘‘ میں داخلے کا دروازہ قرار دیاہے جو کہ ایک وسیع خطہ تھا جو ’’السند‘‘ سے آگے، (السین) چین تک پھیلا ہوا تھا۔
ساسانیوں کے اہل ہندوستان کے ساتھ تعلقات بھی خاصے گہرے تھے، جس کی وجہ سے یہ لوگ مختلف حیثیتوں سے ساسانی علاقوں میں آباد ہوچکے تھے، ان میں سے کچھ تو فوج میں بھی بھرتی کیے جاتے تھے،اور ’’ہاتھی دستہ‘‘ کا حصہ ہونے کی وجہ سے مشہور تھے۔ ہندوستان سے بھرتی کیے گئے یہ دستے ساسانی فوج میں ایک اہم مقام رکھتے تھے اور چار اہم عہدوں میں سب سے نمایاں تھے: ہاتھی سوار (فیل بان)، گھڑسوار، تیر انداز، اور عام سپاہی۔
(George Rawlinson, The Seven Great Monarchies of the Ancient Eastern World: The History, Geography, and Antiquities of Chaldaea, Assyria, Babylon, Media, Persia, Parthia, and Sassanian or New Persian Empire, Worthington Co, New York)
چونکہ ہاتھی اور ان کے سوار ہندوستان سے آتے تھے، اس لیے ہاتھیوں کے دستے کے سربراہ کو Zend-kapet ’’زند کابت‘‘ کہا جاتا تھا، جس کا مطلب ’’ہندوستانیوں کا کمانڈر‘‘ ہے۔(ایضاً)
عرب؍فارس خلیج کے مغربی ساحل پرسرزمین عرب تھی، جبکہ مشرقی ساحل مکمل طور پر ساسانی علاقوں پر مشتمل تھا، جن کی حفاظت ساسانی فوج کرتی تھی، جس میں ہندوستانی ایک اہم حصہ تھے۔ جہاں ہندوستانی تاجروں نے جزیرہ نما عرب کے جنوبی ساحلوں پر آبادیاں قائم کیں، وہاں ہندوستانی سپاہیوں نے ساسانی فوج کے ایک حصے کے طور پر خلیج عرب؍فارس کے مغربی ساحل پر رہائش اختیار کی۔
ساسانی اور جنوبی عرب کے حکمرانوں کے درمیان سیاسی جغرافیائی کشیدگی اور پھر ساسانیوں کے جنوبی عربی زمینوں پر غلبہ، ہندوستانی فوجیوں کے عرب کے جنوبی حصے میں آباد ہونے کا باعث بنا۔
یہ ساسانی فوجی ’’زط‘‘ کہلاتے تھے، جو’’جٹ‘‘(یا جاٹ) کا عربی تلفظ تھا جو کہ ہندوستان کی ایک مشہور قوم ہے۔ یہ لوگ وادیٔ سندھ کی تہذیب کے جنوبی حصے سے آئے تھے اور ’’رجال السند‘‘ یعنی سندھ کے لوگ کے طور پر جانے جاتے تھے۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا، قبل از اسلام اور ابتدائی اسلامی عرب میں ’’سندھ‘‘ اور ’’ہند‘‘ ایک دوسرے کے لیے باہمی متبادل اصطلاحات کے طور پر استعمال ہوتے تھے۔
دیگر اقوام جو السند اور الہند سے تعلق رکھتی تھیں، ان کے بارے میں معلوم ہوتا ہے کہ وہ ظہورِ اسلام کے وقت عرب میں آباد تھیں، لیکن یہ آبادکاری کئی صدیوں پہلے کی تھی۔ ’’مید‘‘ ایک قوم تھی جو بلوچستان کے ساحلی علاقے مکران سے تعلق رکھتی تھی۔ ابتدائی زمانہ میں عرب لوگ،سمندری تجارت کے حوالہ سے، انہیں ہندوستانی ساحلوں کے قزاقوں کے طور پر جانتے تھے۔
(Sabir Badalkhan, “Coastal Makran as Corridor to the Indian Ocean World,” Eurasian Studies, Vol. 1, No. 2 (2002), pp. 237–262; André Wink, Al-Hind: The Making of the Indo-Islamic World, Volume I: Early Medieval India and the Expansion of Islam, 7th–11th Centuries, Brill, 1990, Chapter IV: “The Frontier of al-Hind,” pp.109–218)
تاہم، مید قوم کے کچھ گروہ سمندر عبور کر کے عرب کے ساحلوں پر آباد ہو گئے۔ دیگر اقوام جیسے بیاسرہ، احامرہ، اورسیابجہ بھی ہندوستانی نسل سے تعلق رکھتی تھیں، جو زط اور مید کی طرح آہستہ آہستہ عرب کے ساحلی علاقوں، خاص طور پر جنوب عرب (موجودہ عمان اور یمن) میں آباد ہو گئیں اور عرب علاقوں اور ان کے مقامی معاشروں میں ضم ہو گئیں۔
بلاذری اپنی کتاب’’فتوح البلدان‘‘ میں بیان کرتے ہیں کہ’’یابجہ‘‘ اسلام سے پہلے خلیج عرب کے ساحلی علاقوں میں آباد تھے۔ وہ مزید لکھتے ہیں کہ زط کے ساتھ بھی یہی معاملہ تھا…‘‘(فتوح البلدان، صفحہ ۳۶۷)
جاحظ اپنی تصنیف ’’کتاب الحیوان‘‘ میں زمانہ قبل از اسلام کے ایک شاعر کا حوالہ دیتے ہیں جس نے زط کے گانے کو مچھر کی بھنبھناہٹ سے تشبیہ دی ہے۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ ہندوستانی نسل کے لوگ زمانہ قبل از اسلام میں ہی عرب معاشرے کا اتنا حصہ بن چکے تھے کہ ان سے متعلق ایسی تشبیہات بعض تصورات کو آسانی سے سمجھانے میں مدد دیتی تھیں۔
اب جبکہ ہم نے جان لیا کہ الہند اور السند سے آئے ہوئے مہاجرین ظہوراسلام سے قبل ہی عرب معاشرے میں، بالخصوص بذریعہ تجارت، کس حد تک ضم ہو چکے تھے، یہ جاننا بھی اہم ہوگا کہ وہ عرب میں اور اس کےنواح میں کن اشیاء کے تاجر تھے۔
تلواریں، مسالے اور خوشبوئیں
اگرچہ عام طور پر یہ تجارتی راستہ Incense Route کے نام سے جانا جاتا تھا، جو ہندوستانی خوشبوؤں اور مسالوں سے منسوب تھا، لیکن عرب کے شمال سے جنوب کی جانب زمینی تجارتی راستہ ہندوستانی تلواروں کی تجارت کے لیے زیادہ مشہور تھا۔
جیسا کہ اوپر مختصراً ذکر کیا گیا، خوشبوئیں جیسے مشک، عود، کافور اور گوند کتیرا ہندوستان سے عرب برآمد کی جاتی تھیں۔ یہ بات کہ یہ خوشبوئیں قبل از ظہوراسلام عربوں کے لیے قیمتی اشیاء تھیں، دیگر ذرائع کے ساتھ ساتھ،دور جاہلیت کی شاعری سے بھی ثابت ہوتی ہے۔مثلاً مشہور عرب شاعر امرء القیس، دو خواتین کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
اذا قامتا تضوع المسک منھما
نسیم الصبا جاءت بریا القرنفل
جب وہ دونوں کھڑی ہوتی ہیں، تو ان سے مشک کی خوشبو اٹھتی ہے۔جیسے صبح کی ہوا، لونگ کی مہک سے معطر ہو۔
ایسے اشعار اس بات کی تصدیق کرتے ہیں کہ قبل از اسلام عرب معاشرے میں ہندوستانی خوشبوئیں اور مسالے کتنے اہم تھے اور ان کی مقبولیت شاعری میں بھی جھلکتی تھی۔
نابغہ الجعدی، جو ایام جاہلیت کا مشہور شاعر تھا، اور اسے قبول اسلام کی توفیق بھی ملی، کہتا ہے کہ
أُلْقِيَ فِيهَا فِلْجَانِ مِنْ مِسْكِ دَا
رِينَ، وَفِلْجٌ مِنْ فُلْفُلٍ ضَرِمِ
سیفِ ہندی، مہند، اور قلعی یعنی ہندوستانی تلواریں عرب کے جنگجو قبائل میں بہترین ہتھیار کے طور پر تسلیم کی جاتی تھیں۔
دور جاہلیت کا شاعر زہیر بن ابی سلمہ سیف ہندی کے متعلق کہتا ہے کہ
کالھند وانی لا یخزیک مشھدہ
وسط السیوف اذا ما تضرب البھم
ہندی تلوار تمہیں کبھی مایوس نہیں کرے گی، چاہے تم مسلح لشکر کے خلاف ہی کیوں نہ لڑ رہے ہو۔
طرفہ بن عبد کا شمار مشہور سبعہ معلقات کے خالقین میں سے ایک کے طور پر ہوتا ہے، وہ مہند کی کاری ضرب کے متعلق اپنے ایک معلقہ میں کہتا ہے کہ
وظلم ذوی القربیٰ اشد مضاضۃً
علی المرٔ من وقع الحسام المھند
کسی قریبی عزیز کا دیا ہوا زخم اپنی شدت، گہرائی، کاٹ اور تکلیف دینے میں ہندوستانی تلوار سے کہیں بڑھ کر ہوا کرتا ہے۔
مشہور جغرافیہ دان محمد الادریسی نے اپنی کتاب’’نزھۃ المشتاق‘‘ میں ہندوستانی تلواروں کے بارے میں لکھا ہے کہ جنوبی ہندوستان کے علاقوں سفالا اورزنج سے نکالا جانے والا لوہا دیگر علاقوں کی بھٹّیوں میں لے جایا جاتا تھا جہاں لوہار اس پر کام کرتے تھے۔
وہ بیان کرتے ہیں کہ ہندوستانی لوگ مختلف کیمیکلز (غالباً آکسیڈائزنگ اور ریڈیوسنگ ایجنٹس) کے باہم امتزاج میں مہارت رکھتے تھے، جس کے بعد وہ لوہے کو پگھلا کر تیار کرتے تھے۔تیار ہونے والے اس لوہے کو’’ہندوستانی فولاد‘‘ کہا جاتا تھا، جسے تلواروں اور دیگر اسلحہ سازی میں استعمال کیا جاتا تھا۔ الادریسی بہت تحدی کے ساتھ لکھتے ہیں کہ ’’ہندوستانی لوہے سے زیادہ تیز اور بہتر کاٹنے والا لوہا کہیں نہیں پایا جاتا، اور اس میں کوئی شک نہیں۔‘‘(نزھة المشتاق، از الادریسی)
ہندوستانی لوہے اور اسٹیل کے معیار اور تاریخی اہمیت پر یہ زور اس حقیقت سے مزید ثابت ہوتا ہے کہ تقریباً ۴۰۰ قبل مسیح میں سکندر اعظم اپنی ہندوستانی مہم سے واپس لوٹتے ہوئےہندوستانی لوہا ساتھ لے کر گیا تھا اور اس سے بنی ہوئی تلواروں کو استعمال کیا تھا۔
تلواروں کے ساتھ ساتھ دیگر ہتھیار اور زرہ بکتر، جوعرب دنیا میں ہندوستانی الاصل کے سمجھے جاتے ہیں اور پیش از اسلام سرزمین عرب میں بڑے پیمانے پر استعمال ہوتے تھے، ان میں بانس کی لکڑی سے بنے نیزے اور تیر شامل تھے، جو سندھ، گجرات اور بھڑوچ کے علاقوں سے درآمد کیے جاتے تھے۔
لہٰذا، ہندوستان اور ہندوستانی نسل کے لوگ پیش از اسلام معاشرے کا ایک اہم حصہ تھے، جو اپنے تیار کردہ اسلحے کی وجہ سے مشہور تھے اور جنہیں پورے عرب اور اس سے آگے علاقوں میں خریدااور بیچا جاتا تھا۔
زمانہ قبل اسلام میں سرزمین عرب کے مذاہب
ظہورِ اسلام سے قبل عرب میں یہودی اور عیسائی گروہوں کی موجودگی ایک مسلمہ حقیقت ہے، اور مؤرخین نے ان کی عرب میں آمد، آبادکاری اور عرب معاشرے میںضم ہونے پر تفصیل سے تحقیق کی ہے۔
تاہم، ان دونوں سے کہیں زیادہ، ظہورِ اسلام کے حوالے سے عرب میں بت پرستی کی موجودگی پر زیادہ زور دیا جاتا ہے، جیسا کہ اسلامی اور مغربی تاریخوں میں ملتا ہے۔ قرآن مجید بار بار ان تینوں کا ذکر کرتا ہے۔ پہلی دو کا اہل کتاب اور تیسری کا بُت پرست اور مشرکین کے طور پر۔
قبل اسلام اور ابتدائی اسلامی عرب میں بت پرستی کی اس بھرپور موجودگی کے باوجود، ’’بت پرستی‘‘ مختلف عقائد کے نظاموں کو بیان کرنے کے لیے ایک عمومی اصطلاح کے طور پر استعمال ہوتی ہے۔
چونکہ زیر نظر تحقیق قدیم عرب میں ہندوستانیوں کی موجودگی اور اسلام کے ظہور کے قریب کے زمانے پر مرکوز ہے، اس لیے ہم یہاں بکثرت مذکور لیکن سب سے کم تحقیق کیے گئے گوشہ یعنی بت پرستی، پراپنی توجہ مرکوز رکھیں گے۔
بت پرستی کو عام طور پر ایسے مذہبی عقائد اور عبادات کے طور پر پیش کیا جاتا ہے جن کا آپس میں کوئی بامعنی تعلق نہیں تھا، لیکن اسے ایک بہت بڑی جماعت یا گروہ کے طور پر ظاہر کیا جاتا ہے، خاص طور پر جب ابتدائے اسلام میں مخالفت اورمسلمانوں پر ہونے والے مظالم کا ذکر ہو۔
ہمیں کچھ ایسے بت پرستوں کا ذکر ملتا ہے جو کسی خاص معبود کی عبادت کرتے تھے، لیکن انہیں مشرکین کے طور پر بھی دیکھا جاتا ہے جو، جیسا کہ اصطلاح سے ظاہر ہے، ایک سے زیادہ یا مختلف بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ تاہم ان معبودوں اور ان کے عقائد کی تفصیلات پر بہت کم توجہ دی گئی ہےمگر حقیقت یہ ہے کہ ان گروہوں کے عقائد مضبوط تھے، اور یہی مضبوطی ان کی اسلام کی مخالفت میں شدت سے بھی جھلکتی ہے۔
اگر یہ صرف کسی خاص معبود کی عبادت کا معاملہ ہوتا، جیسا کہ اکثر مسلم مورخین آسانی سے بیان کرتے ہیں، تو پھر کیا وجہ تھی کہ یہ لوگ اپنے معبودوں سے اتنے مضبوطی سے جڑے ہوئے تھے؟ اس تعلق کو سمجھانے کے لیے قبائل کے باہمی تعلقات کو زیر بحث لایا جاتا ہے، جو ان کے معاشی وسائل کو یقینی بناتے تھے، اور اس طرح ان کے عقائد اور ایمان کوکچھ خاص اہمیت دیے بغیر نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔
جنوبی، شمالی اور ساحلی عرب میں ملنے والے قدیم پتھر کے کتبوں سے یہ یقین کرنا ناگزیر ہو جاتا ہے کہ بت پرستی کے عقائد ان کے پیروکاروں کے لیے غیر معمولی مذہبی اہمیت رکھتے تھے۔
بت پرستی سے متعلق پتھر کے کتبے، جن کا مغربی محققین و مؤرخین نے بڑی محنت سےمطالعہ کیا،ان میں جانوروں کی قربانی، دیوتاؤں سے پناہ طلب کرنے، بارش اور برکتوں کے لیے دعائیں کرنے جیسی عبادات کا ذکر ہے۔نیز ان کتبوں پر ایسے افراد کے لیے دعائیں بھی ملتی ہیں جو وفات پا چکے ہیں اوراب ان معبودوں کے پاس ہیں جن سے التجائیں کی جارہی ہیں۔
چونکہ جزیرہ نما عرب کے وسطی علاقوں میں، جہاں اسلام کاآغاز ہوا، قبل اسلام یا ابتدائے اسلام کے آثار قدیمہ کے شواہد تقریباً نایاب ہیں، لہذا صرف ان علاقوں سے دستیاب شواہد پر انحصار کیا جا سکتا ہے جو ان سرحدی علاقوں سے ملتے ہیں۔ یہ شواہد خاص طور پر اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ بتوں کے سامنے وفات یافتہ عزیزوں کے لیے دعا کرنے سے بت محض مادی حیثیت نہیں رکھتے تھے بلکہ ان کا ایک مابعدالطبیعاتی (metaphysical) مقام بھی تھا۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ خانہ کعبہ کے اندر اور اس کے اردگرد رکھے گئے بت مختلف مذہبی گروہوں سے تعلق رکھتے تھے، اور ان میں سے ہر ایک کے ساتھ ایک منفرد عقیدہ منسلک تھا۔
یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ بت پرستی، اپنے عمومی معنوں میں، یہودیت، عیسائیت اور اسلام جیسےموحّد مذاہب سے پہلے موجود تھی۔
صابی کون تھے؟
پیش از اسلام عرب میں ایک اور کم تر مذکور صابی قوم کی بھی موجودگی تھی۔ قرآن کریم میں ان کا ذکر تین مقامات پر ہوا ہے، اور انہیں اہل کتاب میں شامل کیا گیا ہے۔(سورة البقرہ:۶۳، سورة المائدہ: ۶۹، سورة الحج: ۱۸)
قرآن کریم میں ان تینوں مقامات میں سے پہلی آیت میں،اللہ تعالیٰ نے انہیں مسلمانوں (الذین آمنوا)،پھر یہودیوں (الذین ہادوا) اور عیسائیوں (النصارٰی) کے بعد رکھا ہے، دوسرے مقام پر یہودیوں اور عیسائیوں کے درمیان، اور تیسرے میں یہود و نصارٰی کے درمیان، مگر یہاں ساتھ ہی ایک اور گروہ مجوس اور آخر میں مشرکین کا ذکر کیا گیا ہے جو اللہ کے ساتھ دیگر خداؤں کو شریک کرتے تھے (والذین اشرکوا)۔
ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرآن مجید پانچ بڑے مذہبی نظاموں یا سلسلہ ہائے عقائد کی نشاندہی کرتا ہے جو اسلام سے پہلے موجود تھے یعنی یہودی، عیسائی، صابی، مجوسی، اور وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ دیگر معبودوں کو شریک کرتے تھے۔اور یہ امر واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ آخری گروہ (مشرکین) بھی اللہ پر ایمان رکھتے تھے لیکن اللہ کے ساتھ ساتھ دیگر معبودوں کو عبادت میں شریک کرتے تھے۔
یہ امر کہ قرآن مجید صابئین کا ذکر اپنے وقت کے بڑے مذاہب کے ساتھ کرتا ہے، صابئین کو ایک معمولی مذہبی برادری کے طور پر نظر انداز کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتا۔ قرآن مجید مذاہب کے تنوع کو تسلیم کرتے ہوئے فرماتا ہے:’’ولکل قومٍ ھاد‘‘۔(سورة الرعد:۸)
جب قرآن مجید بڑے انبیاء اور رسولوں کا ذکر کرتا ہے، تو ان کا ایک مجموعہ نوحؑ، ابراہیمؑ، موسیٰؑ، عیسیٰؑ اور حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ پر مشتمل ہے:شَرَعَ لَکُمۡ مِّنَ الدِّیۡنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوۡحًا وَّالَّذِیۡۤ اَوۡحَیۡنَاۤ اِلَیۡکَ وَمَا وَصَّیۡنَا بِہٖۤ اِبۡرٰہِیۡمَ وَمُوۡسٰی وَعِیۡسٰۤی اَنۡ اَقِیۡمُوا الدِّیۡنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوۡا فِیۡہِِ…(سورۃالشورٰى:۱۴، سورة الرعد:۸، نیز اس سے ملتا جلتا مضمون سورة الاحزاب کی آیت ۸ میں بھی موجود ہے)
’’اُس نے تمہارے لیے دىن مىں سے وہى احکام جارى کئے ہىں جن کا اس نے نوح کو بھى تاکىدى حکم دىا تھا اور جو ہم نے تىرى طرف وحى کىا ہے اور جس کا ہم نے ابراہىم اور موسىٰ اور عىسىٰ کو بھى تاکىدى حکم دىا تھا، وہ ىہى تھا کہ تم دىن کو مضبوطى سے قائم کرو اور اس بارہ مىں کوئى اختلاف نہ کرو…‘‘
یہاں ہمارے سامنے دو گروہ آتے ہیں: ایک بڑے مذاہب کا گروہ، اور دوسرا بڑے انبیاء کا گروہ، یعنی حضرت نوحؑ، حضرت ابراہیمؑ، حضرت موسیٰؑ اور حضرت عیسیٰؑ۔اس لیے منطقی طور پریہ کہنا درست ہے کہ قرآن مجید میں مذکور اہل کتاب یعنی مومنین، یہود، نصاریٰ، اور صابئین، ان چار عظیم انبیاء کے ذریعے قائم کیے گئے مذاہب سے تعلق رکھتے ہیں۔صابئین ایک ایسے مذہبی گروہ کے طور پر موجود رہے جو مسلمانوں، عیسائیوں، اور یہودیوں (زمانی لحاظ سے معکوس ترتیب میں) کے ساتھ ہم آہنگ رہا۔ وہ ان تینوں مذاہب سے پہلے دور کے ہیں اور ان کے اصول حضرت ابراہیمؑ یا حضرت نوحؑ کی تعلیمات سے جڑے ہوئے ہیں۔
چونکہ قرآن مجید صابئین کے بارے میں کوئی تفصیلات فراہم نہیں کرتا، اس لیے مفسرینِ قرآن نے صرف قیاس اور تاویل پر انحصار کیا ہے اور ان کے بارے میں صرف آراء تشکیل دی ہیں۔ تاہم، تاریخی شواہد سے پتا چلتا ہے، اور بیشتر مفسرینِ قرآن بھی اس بات پر متفق نظر آتے ہیں کہ صابئین کی اصل عراق میں ملتی ہے جو تاریخی طور پر دریائے دجلہ و فرات کا علاقہ ہے اور حضرت ابراہیمؑ کی جائے پیدائش بھی۔
آثارِ قدیمہ کے شواہد اس بات کو رد کرنے کی کوئی گنجائش نہیں چھوڑتے کہ میسوپوٹیمیا (دریائے دجلہ وفرات) اور وادیٔ سندھ کی تہذیبوں کے درمیان معاشی اور بعد ازاں سماجی تعلقات موجود تھے۔ مورخین نے یہ بھی مشاہدہ کیا ہے کہ قدیم میسوپوٹیمیا کے مذہبی عقائد نے وادیٔ سندھ کے مذہبی نظام پر گہرا اثر ڈالا۔
برصغیر پاک و ہند کی قدیم تاریخ و ثقافت پر تحقیق میں ایک اہم نام محقق Stephan H Levitt کا ہے، جو اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ’’ہندوستانی مذہب بڑی حد تک قدیم میسوپوٹیمیا کے طرز کا مذہب ہے۔‘‘
(Stephen Hillyer Levitt, “Vedic–Ancient Mesopotamian Interconnections and the Dating of the Indian Tradition,” Annals of the Bhandarkar Oriental Research Institute, Vol. 93 (2012), pp. 137–192.)
کہا جاتا ہے کہ میسوپوٹیمیا کے عقائد کا یہ اثر گذشتہ دو ہزار سال قبل مسیح کے دوران ہندوستان تک پہنچا، جس کا آخری حصہ جرمن فلسفی Karl Jaspers کے مطابق Axial Ageکہلاتا ہے، یعنی وہ وقت جب اسلام کے ظہور کے لیے مذہبی ماحول تیار ہو رہا تھا۔
(Marshall G. S. Hodgson, The Venture of Islam: Conscience and History in a World Civilization, 3 volumes, University of Chicago Press, 1974)
اوریہی وہ دور تھا جب اہم مذہبی شخصیات منظر عام پر آئیں اور پہلے کے مذہبی صحائف کے متن مرتب کیے جا رہے تھے جیسے لاوتزے، گوتم بدھ، یونانی فلاسفہ، بنی اسرائیلی انبیاء، اور ہندو اپنشد۔(تاریخ فرشتہ، جلد دوم صفحہ ۶۰۴)
یہ مرکب شکل کا ابراہیمی مذہب، اگرچہ اپنی بدلی ہوئی شکل میں، مزید بگاڑ کا شکار ہوا اور ہندومت کی ویدک شاخوں کی صورت میں ایک بالکل نئی شکل اختیار کر لی۔ کہا جاتا ہے کہ اس تبدیل شدہ مذہب کے برہمن اپنے روحانی مرکز مکہ کا سفر کرتے تھے تا خانہ کعبہ کے سائے میں اپنے بتوں کی پوجا کر سکیں۔
اس ابراہیمی مذہب کے بت پرستی کی طرف بسہولت جھکاؤ کے پیچھے کئی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ان میں سے ایک ممکنہ وجہ یہ ہے کہ حضرت ابراہیمؑ کا دین میسوپوٹیمیا میں اس وقت اُبھرا جب بت پرستی عام عقائد کا حصہ تھی۔ جیسا کہ قرآن مجید گواہی دیتا ہے، وہ نہ صرف ایک بت پرست خاندان میں پیدا ہوئے، بلکہ ایسے خاندان میں جو اپنی گزر بسر کے لیے بت تراشتا تھا۔ ان کی ابتدائی بغاوت، جو ان کے نئے توحیدی عقیدے کا اعلان تھی، اسی بت بنانے اور بت پرست خاندان اور برادری کے خلاف تھی۔(سورةا لانعام: ۷۵)
چنانچہ معلوم ہوتا ہے کہ ابراہیمؑ کا دین، جو بت پرستی کے ماحول میں پروان چڑھا تھا، وادیٔ سندھ تک پہنچا، جہاں بت بھی اس کے ساتھ داخل ہو گئے۔ اور وادیٔ سندھ(یعنی الہند) جو قدیم زمانے سے بت پرستی میں رچی بسی ہوئی تھی، نے اسے خوش دلی سے قبول کیا۔اس فرق کے ساتھ کہ اب ان کے بہت سے معبودوں کے مرکز میں ایک اعلیٰ خدا، یا حضرت ابراہیمؑ کا خدا، شامل تھا۔
ہندو ؍ابراہیمی عقائد کےمحققین نے ہندو مذہب کے دیوتا برہما اور حضرت ابراہیمؑ کے درمیان مماثلتیں تلاش کی ہیں، جو محض نام کی مشابہت سے زیادہ گہری ہیں۔
ایسی تحقیقات کے مطابق، رگ وید میں برہما کو’’سب کا باپ‘‘ کہا گیا ہے،(رگ وید، نمبر ۷، آیت ۹۷ب) جبکہ بائبل میں ابراہیم کو’’بہت سی قوموں کا باپ‘‘کہا گیا ہے۔(عہد نامہ قدیم، پیدائش باب ۱۷ آیت ۵) برہما کی بیوی سرسوتی غیر معمولی حسن کی مالک بتائی گئی ہیں،(سام وید، نمبر ۹۶ آیت ۲) جبکہ بائبل میں ابراہیم کی بیوی سارہ کو بھی حسین قرار دیا گیا ہے۔(عہدنامہ قدیم، پیدائش باب ۲۰ آیت ۱۴) اسی طرح، ویدک جوڑے کے ہاں ان کے پہلے بیٹے کی پیدائش سو سال کی عمر میں ہوئی، اور یہی بات ابراہیمؑ اور ان کی بیوی کے بارے میں بھی کہی گئی ہے۔(پیدائش، باب ۲۱ آیت ۵)
مزید حیرت انگیز طور پر، برہما کے بیٹے یا پوتے کو قربانی کے لیے پیش کیا جاتا ہے، لیکن اسے مینڈھے کے سر کے ساتھ زندہ کر دیا جاتا ہے۔ (رگ وید، نمبر ۳ آیت ۲۳ اول اور اتھروید نمبر ۱۹ آیت ۴۲ دوم) جبکہ ابراہیمؑ کے بیٹے کو تقریباً قربانی کے لیے پیش کیا جاتا ہے لیکن اسے ایک مینڈھے کے ذریعے بچا لیا جاتا ہے، جو اس کے بدلے قربان کیا جاتا ہے۔(پیدائش باب ۲۲ آیت اول تا ۱۳)
ان واضح مماثلتوں کی روشنی میں، جو ویدک مذہب کو ابراہیمی دین کی ایک شاخ ثابت کرتی ہیں، البیرونی جیسے ابتدائی محققین، اس بات کو سمجھنے میں دلچسپی رکھتے تھے کہ بت پرستی کیونکر ایک موحد مذہب میں راہ پا گئی۔
(جاری ہے)