حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

آنحضرت ﷺ پر ’’جادو‘‘ کی حقیقت

(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۸؍مارچ ۲۰۱۹ء)

حضرت مصلح موعودؓ…لکھتے ہیں کہ ’’…چونکہ مفسرین نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کو ترجیح دی ہے اس لیے ہم صرف اسی روایت کا ترجمہ کرتے ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر یہودیوں کی طرف سے جادو کیا گیا اور اس کا اثر یہاں تک ہوا کہ آپؐ بعض اوقات یہ سمجھتے تھے کہ آپؐ نے فلاں کام کیا ہے حالانکہ وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا۔ ایک دن یا ایک رات رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی۔ پھر دعا کی اور پھر دعا کی۔ پھر فرمایا: اے عائشہ! اللہ تعالیٰ سے جو کچھ میں نے مانگا تھا وہ اس نے مجھے دے دیا۔ حضرت عائشہؓ  کہتی ہیں کہ میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہؐ !وہ کیا ہے۔‘‘ جو آپؐ نے مانگا تھا؟ کیا دیا ہے اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو؟ ’’تو آپؐ نے فرمایا کہ میرے پاس دو آدمی آئے۔ ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس۔ پھر وہ شخص جو میرے سر کے پاس بیٹھا ہوا تھا اس نے پاؤں کے پاس بیٹھنے والے کو مخاطب کر کے کہا یا غالباً یہ فرمایا‘‘ (حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں یا یہ کہا) ’’کہ پاؤں کے پاس بیٹھنے والے نے سر کے پاس بیٹھنے والے کو مخاطب کر تے ہوئے کہا کہ اس شخص (یعنی محمد رسول اللہ)‘‘ﷺ ’’کو کیا تکلیف ہے؟تو دوسرے نے جواب دیا کہ جادو کیا گیا ہے۔ اس نے کہا کہ کس نے جادو کیا ہے؟ تو اس نے جواب دیا کہ لَبِیْد بن الْاَعْصَمْ یہودی نے۔ تب پہلے نے کہا کہ کس چیز میں جادو کیا گیا ہے؟ تو دوسرے نے جواب دیا کہ کنگھی اور سر کے بالوں پر جو کھجورکے خوشہ کے اندر ہیں۔ پہلے نے پوچھا یہ چیزیں کہاں ہیں؟ تو دوسرے نے کہا یہ ذی اروان کے کنوئیں میں ہیں۔ حضرت عائشہؓ کہتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم‘‘ اس کے بعد ’’اپنے صحابہ ؓ سمیت اس کنوئیں کے پاس تشریف لے گئے۔‘‘ پھر واپس آئے تو ’’پھر فرمایا اے عائشہ! اللہ کی قسم!! کنوئیں کا پانی یوں معلوم ہوتا تھا جیسے مہندی کے نچوڑ کی طرح سرخ ہوتا ہے۔‘‘ حضرت مصلح موعودؓ نے آگے اس کی وضاحت لکھی ہے کہ ’’(معلوم ہوتا ہے کہ یہودیوں میں یہ رواج تھا کہ جب وہ کسی پر جادو ٹونہ کرتے تھے تو مہندی یا اسی قسم کی کوئی اور چیز پانی میں ڈال دیتے تھے یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ‘‘ یہ ’’جادو کے زور سے پانی کو سرخ کیا گیا ہے)‘‘ ایک ظاہری تدبیر وہ کیا کرتے تھے سادہ لوگوں کو بہکانے کے لیے اور وہاں پھر آپؓ نے فرمایا ’’اور وہاں کی کھجوریں ایسی تھیں‘‘ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ’’جیسے شیاطین یعنی سانپوں کے سر(اس میں کھجورکے گابھوں کو سانپوں کے سر وں کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے یعنی کھجوریں گابھوں والی تھیں ) حضرت عائشہؓ کہتی ہیں میں نے کہا یا رسولؐ اللہ! آپؐ نے اس چیز کو جس پر جادو کیا گیا تھا جلا کیوں نہ دیا؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ مجھے جب اللہ تعالیٰ نے شفا دے دی تو میں نے ناپسند کیا کہ کوئی ایسی بات کروں جس سے شر کھڑا ہو …اس لیے میں نے حکم دیا کہ ان اشیاء کو دفن کر دیا جائے۔ چنانچہ ان کو دبا دیا گیا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں‘‘ حضرت مصلح موعودؓ لکھتے ہیں کہ ’’جن دو مردوں کا ذکر آتا ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ معلوم ہوتا ہے کہ وہ دو فرشتے تھے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دکھائے گئے۔ اگر وہ انسان ہوتے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو بھی نظر آ جاتے۔‘‘ آپؓ فرماتے ہیں ’’روایت جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کی گئی ہے اس کا صرف اتنا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرشتوں کے ذریعہ سے خبر دی کہ یہودیوں نے آپؐ پر جادو کیا ہوا ہے اس کا یہ مطلب نہیں کہ جس طرح جادو کا اثر تسلیم کیا جاتا ہے اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کا اثر ہو بھی گیا تھا۔‘‘ پھر آپؓ کہتے ہیں کہ بہرحال ’’…جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جادو ٹونے کی چیزیں نکال کر زمین میں دفن کر دیں تو یہودیوں کو خیال ہو گیا کہ انہوں نے جو جادو کیا تھا وہ باطل ہو گیا ہے‘‘ ختم ہوگیا۔ ’’ادھر اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو صحت‘‘ بھی ’’عطا فرما دی۔ خلاصہ کلام یہ کہ یہودی یہ یقین رکھتے تھے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کر دیا ہے۔ اس وجہ سے طبعی طور پر ان کی توجہ اس طرف مرکوز ہو ئی کہ آپؐ بیمار ہو جائیں۔‘‘ آپؓ لکھتے ہیں کہ ’’…اس روایت سے جہاں یہودیوں کے اس عناد کا پتہ چلتا ہے جو ان کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے تھا وہاں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خدا تعالیٰ کے سچے رسول تھے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپؐ کو ان تمام باتوں کا علم دے دیا گیا جو یہودی آپؐ کے خلاف کر رہے تھے۔ پس آپؐ کو غیب کی باتوں کا معلوم ہو جانا اور یہودیوں کا اپنے مقصد میں ناکام رہنا آپؐ کے سچا رسول ہونے کی واضح اور بین دلیل ہے۔‘‘ (تفسیر کبیر جلد ۱۰ صفحہ ۵۳۹ تا ۵۴۲)

بہرحال حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جس طرح نتیجہ نکالا ہے وہی حقیقت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر یہودیوں نے اپنے زعم میں جادو کیا لیکن اس کا کوئی اثر نہیں ہوا اور بیماری جو بھولنے کی بیماری تھی یا جو بھی بیماری تھی اس کی کچھ اَور وجوہات ہو سکتی ہیں لیکن اللہ تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو یہودیوں کی اس کارروائی سے آگاہ فرما کر ظاہری طور پر بھی ان کا جو خیال تھا کہ انہوں نے جادو کیا ہے اس کو بھی ناکام کر دیا اور یہودی جو آپؐ کی بیماری کو دیکھ کر اپنے زعم میں خوش ہو رہے تھے یایہ مشہور کر دیاتھا، یہ باتیں کرتے تھے کہ ہمارے جادو کا اثر ہے جو یہ بیماری چل رہی ہے اس کی حقیقت ظاہر ہو گئی۔

پھر ہمارے لٹریچر میں حضرت مرزا بشیر احمد صاحبؓ کا ایک مضمون ہے، جس میں اس واقعہ پر تفصیل سے تاریخی اور علمی بحث ہوئی ہے اور جو اس واقعہ کی مزید وضاحت کرتا ہے۔ آپؓ لکھتے ہیں کہتاریخ بلکہ حدیثوں تک میں بیان ہوا ہے کہ صلح حدیبیہ کے بعد آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر نعوذ باللہ ایک دفعہ ایک یہودی نسل منافق نے جس کا نام لَبِیْد بن الاَعْصَم تھا سحر کر دیا تھا (یا جادو کر دیا تھا۔ ) اور یہ سحر اس طرح کیا گیا کہ ایک کنگھی میں بالوں کی گرہیں باندھ کر اور اس پر کچھ پڑھ کر اسے ایک کنوئیں میں دبا دیا گیا۔ اور کہا جاتا ہے (آپؓ فرما رہے ہیں کہ کہا جاتا ہے) کہ آپؐ نعوذ باللہ اس سحر میں کافی عرصہ تک مبتلا رہے۔ (یہ مشہور کیا ہوا تھا انہوں نے۔ ) اس عرصے میں آپؐ اکثر اوقات اداس اور افسردہ رہتے تھے اور گھبراہٹ میں بار بار دعا فرماتے تھے اور اس حالت کا نمایاں پہلو یہ تھا کہ آپؐ کو ان ایام میں بہت زیادہ نسیان رہنے لگا تھا۔ (بھول جاتے تھے بعض باتیں )۔ حتٰی کہ بسا اوقات آپؐ خیال کرتے تھے کہ میں یہ کام کر چکا ہوں مگر دراصل آپؐ نے وہ کام نہیں کیا ہوتا تھا۔ یا بعض اوقات آپؐ یہ خیال فرماتے تھے کہ میں اپنی فلاں بیوی کے گھر ہو آیا ہوں مگر درحقیقت آپؐ اس کے گھر نہیں گئے ہوتے تھے۔ (اور اس کی تشریح فرماتے ہیں کہ) اس تعلق میں یاد رکھنا چاہیے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ طریق تھا کہ اسلامی احکام کے مطابق آپؐ نے اپنی بیویوں کی باری مقرر کر رکھی تھی اور ہر روز شام کو ہر بیوی کے گھر جا کر خیریت دریافت فرماتے تھے اور بالآخر اس بیوی کے گھر پہنچ جاتے تھے جس کی اس دن باری ہوتی تھی۔ اوپر والی روایت میں اسی طرف اشارہ ہے۔ (بہرحال یہ روایت آگے چلتی ہے۔) بالآخر خدا تعالیٰ نے ایک رؤیا کے ذریعہ سے آپؐ پر اس فتنہ کی حقیقت کھول دی وغیرہ وغیرہ۔

یہ خلاصہ ہے جو پہلے بھی حضرت مصلح موعودؓ کی تفسیر میں بیان ہو چکا ہے۔ یہ بخاری کی روایت ہے جس کا خلاصہ آپؓ نے بیان کیا۔ پھر آپؓ لکھتے ہیں کہ یہ اس روایت کا خلاصہ ہے جو تاریخ اور حدیث کی بعض کتابوں میں بیان ہوئی ہے۔ اس روایت کے گرد ایسے قصوں کا جال بُن دیا گیا ہے کہ اصل حقیقت کا پتہ لگانا مشکل ہوگیا ہے۔ (ایسی کہانیاں بنا دی گئی ہیں اس روایت پہ کہ بہت مشکل ہو گیا ہے کہ حقیقت کیا ہے۔ ) آپؓ لکھتے ہیں۔ اگر سب روایتوں کو قبول کیا جائے تو نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مبارک اور مقدّس وجود ایسا ثابت ہوتا ہے کہ گویا (خاکم بدہن) آپؐ ایک بہت کمزور طبیعت کے انسان تھے جسے کم از کم دنیا کے معاملات میں آپؐ کے بدباطن دشمن اپنی سحر کاری سے جس قالب میں چاہتے تھے ڈھال سکتے تھے۔ اور یہ کہ وہ آپؐ کو اپنی ناپاک توجہ کا نشانہ بنا کر آپؐ کے دل و دماغ پر اس طرح تصرف جمانا شروع کر دیتے تھے کہ آپؐ نعوذ باللہ اس سحر کے مقابل پر اپنے آپ کو بے بس پاتے تھے۔ (اگر روایت کو اس طرح بیان کیا جائے جس طرح حدیثوں میں، تاریخ میں بیان ہوئی ہے تو پھر تو یہ نتیجہ نکلتا ہے جو بالکل غلط نتیجہ ہے۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ) لیکن اگر ان روایات کے متعلق معقولی اور منقولی طور پر غور کیا جائے اور روایات کی محققانہ چھان بین کی جائے، (تحقیق کی جائے، باقاعدہ ریسرچ کی جائے) تو صاف ثابت ہوتا ہے کہ یہ صرف ایک مرضِ نسیان کا عارضہ تھا جو بعض وقتی تفکرات اور پیش آمدہ جسمانی ضُعف کے نتیجہ میں آپؐ کو کچھ وقت کے لیے لاحق ہوا تھا جس سے بعض بدخواہ دشمنوں نے فائدہ اٹھا کر یہ مشہور کر دیا کہ ہم نے نعوذ باللہ مسلمانوں کے نبی پر جادو کر دیا ہے مگر خدا تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت جلد صحت دے کر دشمنوں کے منہ کالے کر دیے اور منافقوں کا جھوٹا پراپیگنڈہ خاک میں مل گیا۔

مزید پڑھیں: خبرنامہ(اہم عالمی خبروں کا خلاصہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button