الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم و دلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصے میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کیے جاتے ہیں۔
ایک مردم خیز خطۂ زمین ’’سرگودھا‘‘
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم ستمبر ۲۰۱۴ء میں استاذی المکرم احمد علی صاحب کے قلم سے ایک مضمون شامل اشاعت ہے جس میں سرگودھا کے علاقے سے تعلق رکھنے والے چند نامور خدام دین کا تذکرہ کیا گیا ہے۔
٭…حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے امام مہدی اور مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو بھیرہ ضلع سرگودھا سے تعلق رکھنے والے حافظ قرآن اور یونانی طب کے نامور حکیم حضرت مولوی نورالدین صاحبؓ نے اس دعویٰ کو قرآن اور حدیث کے عین مطابق جان کر صدق دل اور صفائی قلب سے قبول کیا اور اشاعت قرآن نیز اسلام کی تبلیغ کے کام میں جان و مال اور علم و فضل کے تمام سرمایہ کے ساتھ حاضر ہوگئے۔ پھر رات، دن، صبح وشام آپؑ کی خدمت میں رہنا اور آپؑ کے ہر حکم کو بلاتردّد بجا لانا اپنی زندگی کا مقصد اوّلین بنا لیا۔ حتیٰ کہ اپنے گھربار اور ہر طرح کی عزوجاہ کو پس پشت ڈال دیا۔ حضرت نورالدین ؓکی فدائیت اور جان سپاری یہاں تک پہنچی کہ حضرت امام مہدی کی زبان مبارک سے یہ سند بھی ملی ؎
چہ خوش بودے اگر ہر یک ز امت نور دیں بودے
ہمیں بودے اگر ہردل پُر از نور یقیں بودے
٭… حضرت حکیم میاں شیرمحمد رانجھا صاحبؓ کا تعلق بھی بھیرہ ضلع شاہ پور سرگودھا کے گاؤں ہجنی سے ہے۔ جب آپ نے اپنے ہم جماعت اور دلی دوست حکیم نورالدینؓ سے مہدویت کے دعویدار اور اُس پر ایمان لانے کے بارے سنا تو بلاتردّد اپنی بیعت کا خط لکھا دیا اور ۳۱۳؍اصحاب میں شامل ہوئے۔ آپؓ خود بھی علاقے بھر میں زمینداری کے علاوہ اپنے تبحر علمی اور حذاقت، طبابت کی وجہ سے مشہور و معروف تھے۔ موصوف کا گھرانہ بھی اعلیٰ علمی ذوق رکھتا تھا۔ یہ خانوادہ بنیادی طور پر بھیرہ کے قریب گاؤں چاوہ کا رہنے والا تھا۔
ان کے ایک بھائی حضرت مولوی نظام دین صاحب ہمارے گاؤں ادرحماں اپنے ننھیال میں رہتے تھے اور عالم دین ہونے کی بِنا پر گاؤں کے نہ صرف امام الصلوٰۃ بلکہ تمام مردوزن کے استاد بھی تھے۔ ہجن اور ادرحماں دونوں گاؤں میں سات کوس کی مسافت تھی۔ حکیم شیر محمد رانجھا صاحبؓ اپنے بھائی سے ملنے آتے تو امام مہدی کی آمد اور زمانہ کی علامات پر گفتگو ہوتی جو بعض اوقات نماز فجر کے بعد شروع ہوکر نماز ظہر کی اذان کے ساتھ ختم ہوتی۔ مولوی نظام دین صاحب کے دو بیٹے تھے۔بڑے عبدالعلی اور چھوٹے شیر علی۔ آپ نے بڑے بیٹے کو اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے علی گڑھ کالج میں داخل کرایا اور چھوٹے کو ایف سی کالج لاہور میں داخلہ دلوایا تھا۔ عبدالعلی نے علی گڑھ کالج میں امام مہدی کا چرچا سنا اور آپؑ کی کتاب شاید ’’آئینہ کمالات اسلام‘‘ کا مطالعہ کرکے ایمان لے آئے اور ۳۱۳؍اصحاب میں شامل ہوئے۔ آپؓ کا جب چھٹیوں میں وطن آنا ہوتا تو لاہور سے چھوٹے بھائی شیر علی کو بھی ساتھ لے لیتے۔ گاؤں پہنچنے پر دونوں بھائی بھی اپنے والد محترم کو دلائل سے قائل کرنے کی کوشش کرتے۔ گفتگو میں مہدی کی صداقت کے لیے ایک دمدار ستارے کے ظاہر ہونے کی پیشگوئی کا بھی ذکر ہوتا۔ آخر مولوی نظام دین صاحب نے اپنی آنکھوں سے وہ ستارا دیکھ کر حضرت اقدسؑ کی بیعت کرلی۔ چونکہ آپ امام الصلوٰۃ اور مردوزن کے استاد تھے اس لیے آپؓ کی پیروی میں سارا گاؤں احمدی ہوگیا۔
حضرت حافظ عبدالعلی صاحبؓ LLB کرنے کے بعد سرگودھا میں رہائش پذیر ہوکر ضلع کچہری میں پریکٹس کرتے رہے۔ وہاں احمدیہ مسجد کے امام الصلوٰۃ بھی تھے۔ موسم کیسا ہی کیوں نہ ہو، پانچوں نمازیں مسجد میں ہی ادا کیا کرتے تھے۔
حضرت مولوی شیر علی صاحبؓ لاہور سے گریجوایشن کرکے حضرت مسیح موعودؑ کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپؓ نے قرآن شریف کا انگریزی زبان میں ایسا بےمثل ترجمہ اور تفسیر کرنے میں کامیابی حاصل کی جسے پڑھ کر انگریزی دان انگشت بدنداں رہ جاتے ہیں۔ آپؓ کی سوانح عمری میں درج ہے کہ ایک انگریز دانشور بھی آپؓ کے تبحر علمی سے متاثر ہوکر آپؓ سے ملنے کے لیے پوچھتا پوچھاتا قادیان پہنچا تھا۔
٭…حضرت مولوی محمد اسمٰعیل صاحب ہلالپوریؓ کا تعلق بھیرہ (بھلوال) کے گاؤں ہلال پور سے تھا۔ آپؓ قرآن و حدیث نیز زبان عربی کے معتبر عالم تھے اور سلسلہ کے کئی جید علماء کے استاد بھی تھے۔
٭…امریکہ میں پہلے مبلغ حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا تعلق بھی بھیرہ سے تھا۔ آپؓ کے عقیدہ تثلیث کے ردّ میں دلائل سُن کر پادری جواباً یہی کہتے سبز پگڑی اور عینک والے سے ہم اپنے عقائد کے بارے گفتگو نہیں کرسکتے۔
٭…حضرت میاں خدابخش صاحبؓ ’شیخ والا‘ میں بطور مزارع کھیتی باڑی کیا کرتے تھے۔ قریباً ۱۹۰۷ء میں بیعت کی۔ لمبا عرصہ جماعت احمدیہ ادرحماں کے امیر اور امام الصلوٰۃ رہے۔ بچوں کے کپڑوں کا کاروبار تھا۔ سارا دن گھر (دکان) میں بیٹھے قرآن مجید کا مطالعہ کرتے۔ اردگرد کے دیہات سے کپڑے خریدنے اور رنگ کرانے آنے والوں کو دینی مسائل بتاتے اور دیہاتی انداز میں تبلیغ بھی کیا کرتے تھے۔
٭…ادرحماں کے محترم محمد دین عادل صاحب نے دیہاتیوں میں تبلیغ کے لیے اُن کے پسندیدہ ڈھنگ ’ڈھولے‘ لکھے تھے جو حضرت مصلح موعودؓ نے بھی مسجد مبارک قادیان میں بیٹھ کر خود سنے اور پسند فرمائے تھے۔
٭…محترم مولوی رفیع الدین صاحب فاضل کا تعلق بھیرہ (بھلوال) کے گاؤں ’مڈھ رانجھا‘ سے تھا۔ آپ نے لاہور کی معروف دینی درسگاہوں سے قرآن کریم اور عربی زبان کی تعلیم حاصل کی اور ڈسٹرکٹ بورڈ سرگودھا کی طرف سے بطور مدرس (ٹیچر)ادرحماں پرائمری سکول میں تعینات تھے۔ احمدیہ مسجد کے امام الصلوٰۃ بھی تھے۔ آپ نے گاؤں کے ہر چھوٹے بڑے کو علم حاصل کرنے کی لَو لگا دی تھی اور تمام مردوزن کو پنجابی زبان میں نماز کا ترجمہ یاد کرادیا تھا۔ روزانہ نماز فجر کے بعد قرآن مجید کا درس عمدہ اور دلنشیں انداز میں دیتے۔ علم طب میں بھی خاصی دسترس تھی۔ روزمرہ کی چھوٹی موٹی تکالیف کے علاج کے لیے مجرب نسخے تیار کرتے اور بلامعاوضہ بیماروں کی خدمت کرتے۔
٭…ضلع سرگودھا کے ٹوانہ اور نون اقوام کے افراد جاگیردار ہونے کے ساتھ ساتھ اعلیٰ سرکاری عہدوں تک پہنچے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے نون خاندان پر اپنی رحمت کا دروازہ کھولا تو ملک صاحب خان نون ڈپٹی کمشنر پر امام مہدی کی صداقت روشن کردی۔ وہ بھی کسی مخالفت کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے حضرت اقدسؑ کی غلامی میں آگئے۔ بعد میں ربوہ میں مکان بنا کر اس میں رہائش پذیر رہے ہیں۔
٭…قصبہ کوٹ مومن کے دیندار، علم دوست اور نامور گوندل قوم سے تعلق رکھنے والے میاں خدابخش گوندل صاحب بھی تھے جن کی نسل میں حاجی میاں رشید احمد اور میاں گل محمد دونوں بھائی فدائی احمدی ہوگزرے ہیں۔ محترم میاں رفیق احمد گوندل میاں خدا بخش صاحب کی اولاد ہیں۔
٭…اسی طرح نوآبادیات سکیم کے تحت آباد ہونے والے چکوک میں سے چک نمبر 9 شمالی (پنیار)تحصیل بھلوال کے صاحب حیثیت اور سفید پوش بزرگ حضرت چودھری حاکم علی صاحب بھی یاد آرہے ہیں۔ یہ سب صرف ایک تحصیل کے وہ افراد ہیں جن کا مجھے ذاتی طور پر علم ہے۔ورنہ تو خوشاب بھی سرگودھا ہی کی ایک تحصیل تھی جہاں سے دین کے کئی خادم میدانِ عمل میں سرگرم رہے۔
………٭………٭………٭………
’’لوٹے والا واقعہ‘‘۔ ضروری تصحیح
حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ کے بارے میں ایک مضمون (مطبوعہ رسالہ ’’خدیجہ‘‘ ۲۰۱۳ء) کا خلاصہ اخبار ’’الفضل انٹرنیشنل‘‘ ۱۶؍دسمبر۲۰۲۴ء کے ’’الفضل ڈائجسٹ‘‘ میں شائع ہوا تھا جس میں حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ کے حوالے سے بیان کیا گیا تھا کہ اُن کے والد محترم حضرت ڈاکٹر عبدالستار شاہ صاحبؓ جس مسجد میں نماز پڑھنے جاتے تو مسجد کے دروازے پر بیٹھ کر ایک بڑا زمیندار آپ کو گالیاں نکالتا رہتا مگر آپ نہایت صبر کے ساتھ برداشت کرتے رہتے مگر ایک دن اس نے حضرت مسیح موعودؑ کو گالیاں دینی شروع کردیں تو آپؓ نے پانی بھرا لوٹا اس کے سر پر دے مارا۔ ……
مذکورہ مضمون کی اشاعت کے بعد بعض قارئین کی طرف سے اس واقعے کے مختلف ورژن کا حوالہ دیتے ہوئے کنفیوژن کا اظہار کیا گیا تو متعلّقہ شعبہ سے اس بارے میں راہنمائی کی درخواست کی گئی۔ اُن کی طرف سے تحقیق کے بعد جو تفصیلی جواب موصول ہوا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ سب سے پہلے یہ واقعہ مکرم سیّد احمدعلی شاہ صاحب مربی سلسلہ نے ۳؍جون ۱۹۶۷ء کو مکرم چودھری عنایت اللہ صاحب امیر حلقہ جماعت احمدیہ دھرگ سے منسوب کرکے بیان کیا تھا جو یوں تھا کہ حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ قبولِ احمدیت سے قبل حضرت سیّد عبدالستار شاہ صاحبؓ کے زیرتبلیغ تھے اور اکثر دعوت الی اللہ کا سلسلہ جاری رہتا تھا۔ ایک دن کسی مسئلے پر مولوی صاحب نے جوش میں آکر حضرت شاہ صاحبؓ کے سر پر لوٹا دے مارا جس سے آپؓ زخمی ہوگئے اور ہسپتال سے فوری مرہم پٹی کروائی۔ پھر گھر سے خون آلود کپڑے تبدیل کرکے واپس مولوی صاحب کے پاس تشریف لائے اور کمال وسعتِ حوصلہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے مسکراکر فرمایا: مولوی صاحب!کیا غصہ ٹھنڈا ہوگیا ہے؟ آپؓ کے اس رویّے کے نتیجے میں حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ احمدی ہوگئے۔ یہ واقعہ ’’لوٹے والا واقعہ‘‘ کے نام سے مشہور ہے۔
یہی واقعہ حضرت مولوی رحیم بخش صاحبؓ کے پوتے سکواڈرن لیڈر (ر)مکرم چودھری حنیف احمد صاحب کی زبانی کتاب ’’حضرت ڈاکٹر سیّد عبدالستار شاہ صاحبؓ‘‘ (مرتّبہ احمدطاہر مرزا صاحب) میں بھی شامل ہے۔
حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترم سیّدداؤد مظفر شاہ صاحب کی وفات پر خطبہ جمعہ میں یہ واقعہ یوں بیان فرمایا تھا کہ حضرت ڈاکٹر سید عبدالستار شاہ صاحبؓ جو سید داؤد مظفر شاہ صاحب کے دادا تھے۔ اُن کی وسعتِ حوصلہ اور صبر کا ایک واقعہ ہے۔ آپؓ ایک شخص کو تبلیغ کر رہے تھے۔ مسجد میں بیٹھے تھے۔ اُس وقت آپ سرکاری ہسپتال میں سول سرجن تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت اور دعویٰ پر بحث ہورہی تھی تو اس نے ایک وقت میں غصے میں آ کر پکّی مٹی کا لوٹا اُٹھا کے آپ کی طرف زور سے پھینکا یا سر پہ مارا۔ بہر حال ماتھے پر لگا اور سر پھٹ گیا جس سے اِن کا خون بہنے لگا۔ تو حضرت ڈاکٹر صاحبؓ بغیر کچھ کہے وہاں سے سر پہ ہاتھ رکھ کے ہسپتال چلے گئے۔ وہاں جا کے پٹّی کروائی اور اس دوران میں اُس شخص کو بھی احساس ہوا کہ یہ مَیں نے کیا کیا؟ یہ تو بڑے سرکاری افسر ہیں اور پولیس آئے گی اور مجھے پکڑ کے لے جائے گی۔ بڑا خوفزدہ تھا۔ لیکن تھوڑی دیر بعد حضرت ڈاکٹر صاحب سر پہ پٹّی باندھے واپس تشریف لے آئے اور اُس شخص سے کہا کہ مجھے امید ہے تمہارا غصہ ٹھنڈا ہو گیا ہوگا، اب دوبارہ بات کرتے ہیں۔ وہ شخص کہتا ہے کہ میرا تو پہلے ہی بُرا حال تھا تو میں اُن سے معافیاں مانگنے لگ گیا اور اُس وقت شرمندگی سے بھی اور خوف سے بھی میری حالت عجیب تھی۔ (ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۱؍مارچ۲۰۱۱ء)
پس اصل واقعہ یہی ہے جو مذکورہ مستند روایات میں بیان ہوا ہے۔ جبکہ رسالہ خدیجہ کے مضمون میں درج شدہ واقعہ مکرمہ سعیدہ احسن صاحبہ کے اُس مضمون سے (حوالہ دیے بغیر) لیا گیا ہے جو موصوفہ کی یادداشتوں پر مشتمل تھا اور ماہنامہ ’’مصباح‘‘ ربوہ اپریل ۱۹۹۸ء میں شائع ہوا تھا۔ انہوں نے یہ واقعہ حضرت سیّدہ مہر آپا صاحبہ کی طرف منسوب کیا تھا جبکہ حضرت سیّدہ کی وفات ہوچکی تھی۔ نیز مضمون نگار کی عمر اُس وقت قریباً ستّر سال تھی اور غالب امکان ہے کہ انہیں اس واقعہ کی جزئیات یاد رکھنے میں ذہول ہوگیا ہے۔
………٭………٭………٭………