حضور انور کے ساتھ ملاقات

امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ جرمنی میں میدان عمل میں خدمات سلسلہ بجا لانے والے مربیان کرام کی ملاقات

ہر وقت اپنی حالتوں کا جائزہ بھی لیتے رہنا چاہیے اور ہر وقت یہ سوچیں کہ مَیں نے وقف کیا ہے تو وقفِ زندگی کا تقاضا کیا ہے اور مَیں جامعہ میں کس لیے پڑھا ہوں تا کہ دینی علم حاصل کروں
اور دوسروں کو بتاؤں اور اس کو پھیلاؤں، اپنے لوگوں کی تربیت کروں اور غیروں کو تبلیغ کروں۔ اس کے مطابق اپنے پروگرام بنائیں

مورخہ١٠؍ فروری ۲۰۲۵ء کو امام جماعتِ احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ میدانِ عمل میں خدمات سرانجام دینے والے جرمنی کے مربیانِ کرام کے ایک وفد کو شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں واقع ایم ٹی اے سٹوڈیوز میں منعقد ہوئی۔ مذکورہ وفد نے خصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سے جرمنی سے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

جب حضورِ انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔

ملاقات کا باقاعدہ آغاز دعا سے ہوا۔بعد ازاں حضورِانور نے مربیانِ کرام کو ان کی ذمہ داریوں کے حوالے سے بصیرت افروز اور بیش قیمت جامع راہنمائی عطا فرمائی نیز انہیں اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کو کما حقہ سرانجام دینے کے لیے زریں ہدایات سے نوازا جوکہ نہ صرف جرمنی سے تعلق رکھنے والے بلکہ یقینی طور پر دنیا بھر کے مربیان اور واقفینِ زندگی کے لیے ایک مربوط لائحہ عمل اور مشعلِ راہ ہیں۔

حضورِانور نےمفصل ہدایات سے نوازتے ہوئے فرمایا کہ جب آپ تقریریں کرتے ہیں، سٹیج پر کھڑے ہوتے ہیں اور قرآن کریم، حدیث، حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ارشادات اور بزرگوں کے واقعات کے حوالے دیتے ہیں تو اس سے پہلے غور کر لیا کریں یہ باتیں جو آج مَیں کہنے جا رہا ہوں، ان پر میرا کس حد تک عمل ہے؟ اللہ تعالیٰ تو یہ فرماتا ہے کہ وہ باتیں کیوں کہتے ہو کہ جو تم کرتے نہیں۔ كَبُـرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت بڑی بات ہے کہ جو کہو اور وہ کرو نہ۔

حضورِانور نے اس حوالے سے اپنے جائزے خود لینے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے تاکید فرمائی کہ اس لیے اپنے خود جائزے لینے کی ضرور ت ہے۔ اصل چیز یہی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے تعلق ہو اور اپنی عبادتوں کے معیار بلند کریں، علم میں اضافہ کریں اور لوگوں سے پیار اور محبّت کا سلوک کریں۔ اپنے آپ کو سمجھیں کہ آپ لوگوں کے سامنے رول ماڈل ہیں۔ جماعت کے سامنے ہر مربی ایک رول ماڈل ہونا چاہیے چاہے وہ پچیس سال کا جوان ہے یا ستّر سال کا بوڑھا ہے۔ جو بھی مربی فیلڈ میں ہے وہ ایک نمونہ ہونا چاہیے۔ اس بات کا آپ لوگوں کو خیال رکھنا چاہیے اور اگر یہ باتیں ہوں گی تو جماعت ترقی بھی کرے گی، جماعت کی اصلاح کا بھی آپ کو موقع ملے گا اور اپنی اصلاح کا بھی موقع ملے گا۔

حضورِانور نے ہمہ وقت اپنی حالتوں کا جائزہ لینے کی جانب توجہ دلائی کہ ہر وقت اپنی حالتوں کا جائزہ بھی لیتے رہنا چاہیے اور ہر وقت یہ سوچیں کہ مَیں نے وقف کیا ہے تو وقفِ زندگی کا تقاضا کیا ہے اور مَیں جامعہ میں کس لیے پڑھا ہوں تا کہ دینی علم حاصل کروں اور دوسروں کو بتاؤں اور اس کو پھیلاؤں، اپنے لوگوں کی تربیت کروں اور غیروں کو تبلیغ کروں۔ اس کے مطابق اپنے پروگرام بنائیں۔

مزید برآں حضورِانور نے وقت کی تقسیم کے اعتبار سے اپنی ذاتی اور جماعتی ترجیحات کو ترتیب دینے کی بابت تلقین فرمائی کہ دیکھیں کہ آپ کے کتنے گھنٹے مقامی مسائل کے لیے خرچ ہوتے ہیں، کتنے گھنٹے آپ جماعت کی تربیت کے لیے دیتے ہیں، کتنے گھنٹے آپ تبلیغ کے لیے دیتے ہیں، کتنے گھنٹے آپ اپنے علم میں اضافے کے لیے دیتے ہیں، کتنے گھنٹے آپ عبادتوں کے لیے دیتے ہیں؟

بایں ہمہ حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ مَیں گھنٹوں کی بات کر رہا ہوںجان کے، وقت اس لیے نہیں کہا کہ آپ لوگوں کو اپنا معیار گھنٹوں میں رکھنا چاہیے۔

حضورِانور نے وضاحت فرمائی کہ وقت کی بات ہو تو کہہ دیا جاتا ہے کہ اتنے منٹ، آدھا گھنٹہ، چالیس منٹ یا پچاس منٹ۔ وقت کی definition ہر ایک اپنے اپنے مطابق کر دیتا ہے کہ اتنا وقت دے دیا۔ گھنٹوں میں جب جائیں گے تو اس سے مراد کم از کم ایک گھنٹے سے زیادہ ہی بات ہو گی۔ تو اس سے آپ کو خود احساس پیدا ہو جائے گا کہ کس طرح ہم نے اپنے مختلف کاموں کو وقت دینا ہے۔

آخر میں حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ لوگوں سے سختی نہیں کرنی، نرمی کرنی ہے، پیار اور محبّت سے سمجھاؤ، جب سمجھانا ہے۔ تو اصل چیز یہی ہے کہ مربی کا اپنا نمونہ ہو اور فیلڈ کے مربیان کو تو نمونہ دکھانا ہو گا، تو تبھی فائدہ ہے، نہیں تو کوئی فائدہ نہیں۔

بعد ازاں مربیان کرام کو متفرق امور کے حوالے سے حضورِانور کی خدمت اقدس میں سوالات پیش کرنے اور ان کی روشنی میں بیش قیمت راہنمائی حاصل کرنے کا بھی موقع ملا۔

ایک شریکِ مجلس نےاستفسار کیا کہ پیارے حضور! آپ کے خطبات جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں ہیں، کیا یہ خدا تعالیٰ کی ایک خاص راہنمائی کے مطابق ہیں اور اس کے بعد کیا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اور ان کے صحابہؓ  کا بھی یہ سلسلہ شروع ہو گا؟

اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ ضروری تو نہیں ہے کہ ہر چیز کو کھول کے بیان کیا جائے، خلیفہ وقت کوئی چیز شروع کرتا ہے تو اس کا ایک مقصد ہوتا ہے اور اس کا مقصد تو یہی ہے کہ جب مَیں نے یہ سلسلہ شروع کیا تھا تو اس کا پس منظر یہی تھا کہ جو اس کے بعد مَیں کئی دفعہ بیان کر چکا ہوں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک الہام بھی مَیں نے تذکرہ میں پڑھا تھا کہ بدر کے واقعہ کو مت بھولو! تو اس سے بدری صحابہؓ  کا ذکر شروع ہوا۔ پہلے تو میرا خیال تھا کہ شاید سارے صحابہؓ کا، جو بڑے بڑے اصحاب ہیں، ان کا ذکر ہو جائے گا۔ تو ان کا ایک خاص مقام تھا تو اللہ تعالیٰ نے دل میں ڈالا کہ بدری صحابہؓ  کا ذکر کروں اور بدری صحابہ میں سب سے بڑا مقام تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے۔

حضورِانور نے وضاحت فرمائی کہ صحابہ میں تو نہیں لیکن نبی کے حساب سے تو آپ ہی لے جانے والے لیڈر تھے، اس لیے جب سارے بدری صحابہؓ کے واقعات کا ذکر ہو گیا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کا شروع ہو گیا۔ اس میں آپؐ کا یہ پہلو بھی کہ جنگوں میں یا دشمنوں کے حملوں کے وقت آپ کا کیا کردار، رویہ یا اسوہ ہوتا تھا۔ اس میں بہت سارے سبق مل جاتے ہیں۔

باقی آگے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے کے صحابہؓ  کا شروع ہو گا کہ نہیں، یہ اللہ بہتر جانتا ہے ہوگا کہ نہیں ہو گا۔

آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بیان میں جاری اپنے خطبات کے سلسلے میں حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ اسی پر عمل کرو، اس میں سے نصیحتیں اور پوائنٹ نکالا کرو۔ بہت سارے لوگ ہیں جو انہی خطبات میں سے اپنی تربیت کے لیے، اپنی اصلاح کے لیے یا غیروں کو جواب دینے کے لیے نکات نکال لیتے ہیں اور پھر وہ آگے استعمال کرتے ہیں۔

پھر حضورِانور نے حاضرین مجلس سے مخاطب ہوتے ہوئے استفسار فرمایا کہ آپ لوگوں میں سے کتنے ہیں کہ جو ایسے نکات نکالتے ہیں؟

حاضرین مجلس بشمول سائل کی اثبات میں تصدیق پر حضورِانور نے سائل سے دریافت فرمایا کہ اچھا! پچھلے جمعہ سے کیا پوائنٹ نکالا؟تو سائل نے عرض کیا کہ پچھلے جمعہ جو قافلے کے ساتھ چلنے والا معاملہ تھا کہ ایک صحابی آگے آگے جارہے تھے تو آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بلا کے اس حوالے سے متوجہ فرمایا۔

دریں اثنا حضورِانور نے بات کو مزید آگے بڑھاتے ہوئے اس سے حاصل ہونے والے سبق کی بابت روشنی ڈالی کہ ڈسپلن ہونا چاہیے، ڈسپلن ہونا چاہیے۔ امام سے آگے جانے کی کوشش نہ کرو۔ نیز تلقین فرمائی کہ بعض مربیان جو فیلڈ کے ہیں ان کو خاص طور پر یہ کوشش کرنی چاہیے کہ جو خلیفہ وقت کے احکامات ہیں ان کے مطابق چلنے کی کوشش کریں اور ان کی تشریحات وہی کریں جو جماعتی نظام میں یا خلیفہ وقت سے ہے۔

آخر میں حضورِانور نے اس امر کی جانب بھی توجہ دلائی کہ اگر کوئی مزید پوائنٹ دماغ یا ذہن میں آتا ہے تو اس کو پہلے خلیفہ وقت کو بھیج کے اس کی وضاحت اور تصحیح کراؤ کہ یہ پوائنٹ بیان کر سکتا ہوں، تو پھر اجازت سے ہوگا۔ نہیں تو تمہاری یہی بات ہو جائے گی، تم اپنا رستہ چھوڑ کے یا اس قافلے یا اس نظام سے ہٹ کے خود آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہو۔ تو امام کے پیچھے چلنے کی ضرورت ہوتی ہے، جو مربیان کے لیے سب سے زیادہ ضروری بات ہے، وہ کریں گے تو دوسروں کو بھی عمل کروائیں گے۔

[یاد رہے کہ یہاں جن صحابی کا تذکرہ ہوا ہے، وہ حضرت ابوعبس بن جبر رضی اللہ عنہ ہیں، ان کے والد کا نام جبر بن عمرو تھا۔ جبکہ آپ کا اصل نام عبدالرحمٰن، کنیت ابوعبس اور انصار کے قبیلہ بنوحارثہ سے تعلق تھا۔ زمانہ جاہلیت میں ان کا نام عبدالعزیٰ تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بدل کر عبدالرحمٰن کر دیا تھا۔ عُزّ یٰ ان کے بُت کا نام تھا اس لیے بدلا اور عبدالرحمٰن کر دیا۔ آپ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک رہے۔

کعب بن اشرف یہودی کو جن اصحاب نے قتل کیا یہ بھی ان میں شامل تھے۔ چونتیس ہجری میں ستّر برس کی عمر میں آپ کی وفات ہوئی۔ مکّہ مکرمہ میں آپ کی کثیر اولاد موجود تھی۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے جنازہ پڑھایا اور جنّت البقیع میں ان کی تدفین ہوئی۔

حضورِانور نےغزوۂ خیبر کے حالات و واقعات کے بیان کے تسلسل میں اپنے خطبہ جمعہ ارشاد فرمودہ مورخہ ٧؍ فروری ٢٠٢٥ء میں ان سے متعلقہ ایک واقعہ کا ذکر آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے خیبر کی طرف روانہ ہونے کی تفصیل کے تناظر میں یوں بیان فرمایا تھا کہ دورانِ سفر بعض ایسے واقعات بھی پیش آئے ، جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسے ہنگامی حالات میں بھی نبیٔ اکرمؐ صحابہؓ  کی تربیت کا کتنا خیال فرماتے تھے اور نظم و ضبط اور اطاعت و فرمانبرداری جیسی صفات پیدا کرنے کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔

اِسی طرح کا ایک واقعہ بیان ہوا ہے کہ ایک رات لشکر کے آگے آگے کوئی چمکتی ہوئی چیز چلتی دکھائی دی ، رسول اللهؐ  کو فکر ہوا اَور پتا کرنے پر معلوم ہوا کہ اسلامی لشکر کا ایک سپاہی تھا جو لشکر چھوڑ کے سب سے آگے آگے چلا جا رہا تھا اور اِس کے سر کا خَود چاندی کی وجہ سے چمک رہا تھا اور اِس کا نام ابو عبس تھا۔ اُن کو جب رسول اللهؐ کی خدمت میں لایا گیا تو آپؐ نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا کہ لشکر کے ساتھ ساتھ چلنا چاہیے۔]

ایک شریک مجلس نے حضورِانور سے جرمنی میں عنقریب منعقد ہونے والے وفاقی انتخابات کے متعلق راہنمائی کی درخواست کی کہ کیا احمدی مسلمانوں کو کسی مخصوص پارٹی کو ووٹ دینا چاہیے؟

اس پر حضورِانور نے فرمایا کہ سیاست میں ہر ایک کی اپنی رائے ہے، سوائے اس کے کہ کوئی شخص جماعت کے بہت قریب ہو اور کھلے طور پر جماعت کی favourمیں ہو اور حمایت کر رہاہو اور اس کا پرانا سابقہ ریکارڈ یہ ہو کہ وہ مختلف وقتوں میں جماعت کا مددگار بنتا رہا ہے۔

حضورِانور نے توجہ دلائی کہ لوگوں کو بتایا جا سکتا ہے کہ یہ شخص ایسا ہے، جماعت کے حق میں اور جماعت کے بارے میں اس کا یہ رویّہ رہا ہے اور اس اس طرح یہ مدد کرتا رہا ہے۔ اس لیے بہتر یہ ہے کہ اس کو ووٹ دیا جائے۔

حضورِانور نے واضح فرمایا کہ ہم کسی کو مجبور نہیں کر سکتے، یہ ان کی اپنی ذاتی رائے ہے۔اصل چیز یہ ہے کہ لوگوں میں یہ روح پیدا کریں کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ اپنا حق رائے دہی اس کے لیے استعمال کرو، جس کو تم صحیح سمجھتے ہو، جو ایماندار ہے اور ملک اور قوم کی خدمت کرنے والا ہے۔

اس حوالے سے حضورِانور نے ایک استثنائی صورت کا تذکرہ فرمایا کہ ہاں! آپ اگر وہاں کھڑے ہوتے ہیںتو پھر کہیں کہ مَیں احمدی ہوں اور مَیں کھڑا ہوں کہ مجھے ووٹ دو۔ دیکھو! مَیں تمہارے حقوق کی حفاظت کروں گا اور یہاں جو مختلف قسم کے قانون ہیں، ان کے خلاف آواز اٹھاؤں گا، اگر وہ آواز اٹھا سکتے ہیں تو پھر تو ٹھیک ہے کہ کہیں ہاں جی! اس کو ووٹ دو کہ یہ بڑا اچھا اور کارآمد وجود ہے۔ جب ایسا نہیں ہے تو پھر ٹھیک ہے جس کی جہاں مرضی ہے ووٹ دے، آپ نے زبردستی کیوں کرنی ہے، ان باتوں میں آپ کو الجھنے کی ضرورت کیا ہے؟ آپ ان کو خدا اور رسولؐ کے رستے پر ڈال دیں، باقی باتیں خود ہی ہوتی رہیں گی۔

حضورِانور نے اس حقیقتِ حال کو بھی آشکار فرمایا کہ باقی یہ یاد رکھیں کہ چاہے یہ پارٹی ہے یا وہ پارٹی ہے، آخر میں ان لوگوں کی پالیسی یہی ہونی ہے کہ جو امیگرنٹس ہیں ان کو روک پیدا کی جائے، barrier لگایا جائے اور اسائلم سیکر کو نہ آنے دیا جائے۔ یہ تو اب امریکہ اور یورپ میں کالم بھی لکھنے لگ گئے ہیں کہ یہ ہو گا اور کہیں گے کہ اس سے ہماری اکانومی خراب ہو رہی ہے۔ اکانومی تو پھر بھی خراب ہو گی۔ پھر اس نے لکھا ہے کہ اکانومی خراب ہو گی تو پھر کہیں گے کہ اچھا! جو آپ یہاں موجود ہیں اور یہاں گذشتہ بیس سے تیس سال سے بیٹھے ہوئے ہیں یا مقامی نسل کے نہیں ہیں تو ان کو بھی یہاں سے نکالو۔ پھر آپ لوگوں کو بھی نکالنا شروع ہو جائیں گے۔

حضورِانور نے ایک مرتبہ پھر بڑی صراحت کے ساتھ اس عملی حقیقت کا اظہار فرمایا کہ تو یہ آپ لوگوں کی غلط فہمیاں ہیں کہ ہم فلاں کے ساتھ جائیں گے تو ہمارا ہمدرد ہو جائے گا فلاں کے پاس جائیں تو یہ ہوگا ۔ نیز توجہ دلائی کہ اس لیے کوشش یہ کریں کہ لوگوں کے دماغوں میں پہلے سے یہ ڈالیں کہ ہم جو آ چکے، ہم اس قوم کا حصّہ بن چکے ہیں، اس لیے کوئی بھی پارٹی آتی ہے تو اس سے آپ کے تعلقات اچھے ہونے چاہئیں۔

حضورِانور نے آخر میں سوال کے نفس مضمون کے اعتبار سے استفہامیہ انداز میں سمجھایا کہ یہ زبردستی کہنا یا ہم ہر ایک کو کہیں کہ تم اس کو ووٹ دو، کیوں دو؟ ہمارا یہ کام ہی نہیں۔ ہمارا کام صرف راہنمائی کرنا ہے کہ یہ ان کی اچھائیاں ہیں اور یہ ان کی برائیاں ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمہیں کہتا ہے کہ جو اچھائی کرنے والے لوگ ہیں ان کو تم اپنا امیر یا سربراہ مقرر کرو۔ اس لیے ہماری یہ رائے ہے کہ فلاں بہتر ہو گا، باقی تم لوگ خود دیکھ کر فیصلہ کرو۔

حضورِانور کی خدمت اقدس میں اگلا پیش کیا جانے والا سوال یہ تھا کہ فیلڈ میں بعض احمدی احباب پڑھے لکھے اور اس قابل بھی ہوتے ہیں یا نظر آتا ہے کہ ان میں یہ صلاحیت ہے کہ وہ جماعتی خدمت کو احسن رنگ میں ادا کر سکتے ہیں، لیکن بعض اوقات دیکھنے میں آتا ہے کہ وہ کوئی بھی جماعتی ذمہ داری لینے سے کتراتے ہیں، تو پیارے آقا! ہم کس طرح ایسے افرادِ جماعت کو motivate کر سکتے ہیں کہ وہ جماعتی ذمہ داری کو لیں اور اس جہاد میں ہمارے ساتھ شامل ہوں؟

حضورِانور نے اس سوال کے جواب میں مفصل راہنمائی عطا کرتے ہوئے فرمایاکہ ان کو سمجھانا ہی آپ کا کام ہے، زبردستی تو نہیں کر سکتے، ان کو آہستہ آہستہ کاموں میں ڈالیں involveکریں، اپنے ساتھ لگائیں اور اگر عہدے نہیں بھی لے رہے تو اس کام میں اپنی کسی حد تک جو مدد کر سکتے ہیں، اگر ان میں اس حوالے سے کوئی expertise یا علم ہے، جس کے ساتھ جو مدد کر سکتے ہیں، وہ کریں۔ اور ان سے متعلقہ سیکرٹری کام لے سکتے ہیں، ان کو کہیں کہ یہ اچھا آدمی ہے، اس کے اچھے مشورے ہوتے ہیں اور اس سے ہمیں مشورے لے لینے چاہئیں۔

حضورِانور نے یاد دلایا کہ مربی مقامی عاملہ کا ممبر بھی ہوتا ہے تو وہاں اپنی رائے دے سکتے ہیں کہ فلاں سے بھی اس بارے میں ہم مدد لے سکتے ہیں، اس میں کوئی انا یا کوئی کم علمی کا سوال نہیں۔ اچھا مشورہ اور حکمت کی باتیں تمہیں کہیں سے بھی ملیں وہ لے لو۔ یہی تو حدیث ہے۔

حضورِانور نے مستقل تربیت کرنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے تاکید فرمائی کہ اس لیے ایسی باتیں سمجھائیں اور لوگوں کی مستقل تربیت کریں تو ٹھیک ہے، مربی کا کام کیا ہے؟ تربیت کرنا کام ہے۔ اس لیے مربیان کا کام ہے کہ پہلے اپنے تربیت کے پلان (منصوبہ) کو ذرا وسیع کریں۔ دو چار آدمیوں کو ساتھ ملا لینے سے تو کام نہیں ہو جاتا۔ جو اچھے لوگ ہیں، نماز پڑھنے والے ہیں، چندے دینے والے ہیں، جماعت سے تعلق رکھنے والے ہیں، جلسوں پر آنے والے ہیں، اجتماعوں پر آنے والے ہیں، ان کی اپنی تو اسّی فیصد تربیت ہو ہی جاتی ہے مگر جو پیچھے ہٹے ہوئے ہیں ان کو قریب لانا تربیت کا اصل کام ہے۔ اس کے لیے مربیان کو کوشش کرنی چاہیے۔ اور جو کام کرنے والے لوگ ہیں ان کے اندر سے ذہن میں سے یہ بات نکالیں کہ ہمارے علاوہ کوئی اور کام کرنے والا نہیں ہے۔

حضورِانور نے مؤخرالذکر تناظر میں ایسی سوچ رکھنے والوں کی بابت توجہ دلائی کہ ان کو کہو کہ اللہ تعالیٰ نے ہر ایک کو صلاحیتیں دی ہیں، صرف عہدے کی بات نہیں ہے، ا گر تم کسی عہدے پر کام کر بھی رہے ہو تو مشورے لینے میں تو کوئی ہرج نہیں ہے۔ دنیا کی بڑی بڑی حکومتوں نے مشورے لینے کے لیے مشیر رکھے ہوتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشورے لو۔ باقی اللہ تعالیٰ راہنمائی فرماتاہے۔

حضورِانور نے اس بات پر زور دیا کہ اللہ میاں نے فرمایا ہے کہ تم نے لوگوں سےمشورے ضرور لینے ہیں، ان سے شدت سے باتیں نہیں کرنی، لیکن ان مشوروں کے بعد دعا کر کے فیصلے خود کرنے ہیں۔ تو اس لیے یہ بات لوگوں اور اپنے عہدیداروں کے ذہنوں میں ڈالنی چاہیے کہ مشورے لینے میں کوئی ہرج نہیں اور ہمیں مشورے لینے چاہئیں۔

آخر میں حضورِانور نے اپنی اوّل الذکر فرمودہ نصائح کا اعادہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مربی کو اسی لیے عاملہ میں رکھا ہوا ہے تا کہ ساتھ ساتھ تربیت بھی کرتا رہے۔اور مستقل تربیت کا پلان بڑے وسیع پیمانے پر بنانا پڑے گا۔ جتنی جماعت پھیل رہی ہے، اتنی زیادہ تربیت کی ضرورت ہے، اتنا زیادہ اپنے نمونے دکھانے کی ضرورت ہے۔ صرف بزرگوں کی کتابیں پڑھ کے اس کی مثالیں دے دینا تو کوئی بڑی بات نہیں ہے بلکہ مزا تو تب ہے کہ جب آپ اپنی مثالیں دیں کہ مَیں نے یہ کوشش کی اور اللہ تعالیٰ نے دعا قبول کی اور اس طرح سے نتیجہ نکلا۔ ہم نے یہ کام کیا، اللہ تعالیٰ نے اپنا فضل فرمایا اور یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے، میرا کوئی کمال نہیں، تو اس طرح یہ احساس لوگوں میں پیدا ہو جائے کہ مربی واقعی تعلق باللہ میں بڑھا ہوا ہے اور ہمیں نیک مشورے دینے والا ہے اور رائے دینے والا ہے تو لوگ پھر مانتے ہیں۔

ایک شریکِ مجلس نے حضورِانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام نے فرمایا کہ حقیقی نجات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتّباع اور آپؐ سے عشق سے ہوتی ہے، تو مَیں نے پوچھنا تھا کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی عشق آیا کسبی ہے یا یہ بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ اور ایک فضل ہے؟

حضورِانور نے اس پر راہنمائی فرمائی کہ اللہ تعالیٰ نے قرآنِ شریف میں فرمایا کہ فَاتَّبِعُوۡنِىۡ يُحۡبِبۡكُمُ اللّٰهُ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اتّباع کرو، میری پیروی کرو، میری باتیں مانو، میرے اسوہ پر چلو تو اللہ تعالیٰ تم سے محبّت کرے گا۔ ultimate مقصد تو اللہ تعالیٰ کی محبّت ہے تو اس کے لیے کوشش کرنی چاہیے۔

حضورِانور نے اس تناظر میں بات کو جاری رکھتے ہوئے مزید وضاحت فرمائی کہ وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا فِيْنَا یعنی جو میرے رستے میں جہاد کرتے ہیں ان کو مَیں صحیح رستہ دکھاتا ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ کوشش، جہاد اور ہمت کرنی چاہیے۔

آخر میں حضورِانور نے اس بات پر بھی روشنی ڈالی کہ بعض پر اللہ تعالیٰ کے انعامات بھی ہوتے ہیں، ان کا اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ایسے مزاج بنا دیا ہوتا ہے، لیکن ہر ایک کا نہیں، اس لیے جہاد کرنے کی ضرور ت ہے۔ بایں ہمہ سوال کے نفسِ مضمون کے تناظر میں اس امر کی جانب توجہ مبذول کرائی کہ اگر اللہ تعالیٰ نے محبّت صرف دلوں میں ہی رکھی ہوئی ہے تو پھر تبلیغ کرنے کی کیا ضرورت ہے، تربیت کی کیا ضرورت ہے، پھر اللہ تعالیٰ کو ذَکِّرْ کہنے اور نصیحت کرنے کے حکم کی کیا ضرورت ہے؟ اسی لیے ہے کہ یہ سب کچھ کوشش سے ہونا ہے۔

ایک سائل نے رمضان کے مہینے میں افطاری کا جو اہتمام کیا جاتا ہے اس کی بابت حضورِانور سے راہنمائی کی درخواست کی۔

حضورِانور نے اس کا جواب دیتے ہوئے ہدایت فرمائی کہ جو لوگ گھروں میں افطاریوں کی دعوتیں کرتے ہیں، وہ نہیں کرنی چاہئیں۔ اگر کوئی غریب ہے، جرمنی میں تو کوئی ایسا بندہ نہیں جو روزہ نہ رکھ سکتا ہو یا روزہ افطار نہ کر سکتا ہو تو ان کے گھروں میں افطاری بھیج دیں۔ اگر کوئی جماعتی فنکشن یا افطاری کا پروگرام ہو رہا ہے تو اس میں انتظامیہ خود انتظام کرے۔ لیکن انتظامیہ کو خود اپنا بھی احساس رکھنا چاہیے کہ انہوں نے قرآنِ شریف بھی پڑھنا ہے اور عبادت بھی کرنی ہے اور اس کے ساتھ اگر افطاری کی تیاری سادگی سے کر سکتے ہیں تو کر لیں۔

حضورِانور نے افطاری کے حوالے سے لوگوں میں پائے جانے والے اس عمومی رجحان کی جانب بھی نشاندہی فرمائی کہ باقی لوگوں کے گھروں میں رواج ہو گیا ہے کہ صبح سے لے کر شام تک گھر والے اسی بات میں مصروف ہوتے ہیں کہ آج ہم نے افطاری کی ہوئی ہے۔ نمازوں کا وقت آئے تو کہتے ہیں کہ چلو نمازیں جمع کر کے پڑھ لیں گے، کوئی ہرج نہیں، افطاری کرا دو۔ اور اس میں پھر اپنے پسند کے لوگ آ جاتے ہیں اور دعوتیں ہوتی ہیں، اس سے مَیں نے منع کیا تھا۔

اس پر سائل نے ایام رمضان میں اپنی مسجد کے حوالے سے حضورِانور کی خدمت اقدس میں عرض کیا کہ ہم کوشش کرتے ہیں کہ ہر روز ہماری مسجد مغرب کی نماز کے لیے کھلی ہو، لیکن لوگ پھر یہ کہتے ہیں یا بعض لوگوں کی یہ رائے ہے کہ ایسا نہ ہو۔

یہ سماعت فرما کر حضورِانور نے ہدایت فرمائی کہ مسجد کھلی ہو تو وہاں افطاری کے وقت تھوڑی بہت کھجوریں اور کوئی چیزیں وغیرہ رکھ دیا کریں کہ لوگ آ کے افطاری کر لیا کریں۔ مسجد فضل میں اور یہاں بھی افطاری کے وقت لوگ آتے ہیں، روزہ کھول لیتے ہیں اور مغرب کی نماز پڑھ کے چلے جاتے ہیں، لیکن باقاعدہ کوئی اہتمام نہیں ہوتا۔ لنگر کی جو ٹیم ہے وہ افطاری بنا دیتی ہے۔

اس ضمن میں حضورِانور نے تاکید فرمائی کہ ایک ٹیم بنانی چاہیے، یہ نہیں کہ آپ کا سارا سسٹم اس میں involve ہو اور ملا ہوا ہو کہ آؤ جاؤ ،یہ کرو،وہ کرو، شور مچاؤ، تو یہ تو نہیں ہونا چاہیے۔ ایسے نہیں کہ جیسے مہمان کو بٹھا کر کھلاتے ہیں بلکہ سادگی سے جو چیز بھی کھلا سکتے ہیں تو وہ کھلا دی۔

حضورِانور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ کی روشنی میں بیان فرمایا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو کھجور سے روزہ کھولا کرتے تھے، نیز ہدایت فرمائی کہ آپ وہاں کھجوریں رکھ دیں۔ زیادہ سے زیادہ اگر آپ کا لنگر خانہ چل رہا ہے تو یہی ہو گا کہ کوئی سموسے پکوڑے وغیرہ بنا دیں، پانی پلا دیں اور کہیں کہ جاؤ! گھر جا کے کھانا کھانا۔

ملاقات کے اختتام پر تمام حاضرینِ مجلس کو از راہِ شفقت حضورِ انور کے ہمراہ گروپ تصویربنوانے اور بطورِ تبرک قلم حاصل کرنے کی سعادت بھی حاصل ہوئی ۔

حضورِانور نے الوداعی دعائیہ کلمات ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ چلو، پھر اللہ حافظ!

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے احمدی ڈاکٹرز کے ایک وفد کی ملاقات

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button