جلسہ یوم مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اغراض اور ان میں شمولیت کی افادیت
بیس فروری کا دن جماعت احمدیہ میں یوم مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے نام سے منایا جاتا ہے۔ اس دن افراد جماعت جمع ہو کر اس عظیم الشان پیشگوئی کی یاد مناتے ہیں جو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو خدا تعالیٰ نے ان کی چالیس روزہ عبادات کے نتیجے میں بطور انعام عطا کی تھی۔اس دن کو منانے کے اغراض و مقاصد جماعت کے دل میں اس پیشگوئی کے الفاظ کو ازبر کرنا اور ان پر غور و فکر کرنا ہے۔ اس موعود مصلحؓ کی بابرکت ،فعال اور کامیاب و کامران زندگی کا جائزہ لینا ہے اور ان کی بتائی گئیں حسین تعلیمات پر عمل کرنا ہے ۔اپنی آئندہ آنے والی نسل کو اس خدائی معجزے سے روشناس کروا کر ان کے دلوں میں بانی سلسلہ عالیہ احمدیہ اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اہمیت اور محبت ڈال سکتے ہیں ۔؎
بشارت دی کہ اِک بیٹا ہے تیرا
جو ہوگا ایک دن محبوب میرا
کروں گا دُور اس مَہ سے اندھیرا
دکھاؤں گا کہ اِک عالم کو پھیرا
بشارت کیا ہے اک دل کی غذا دی
فَسُبْحَانَ الَّذِیْ اَخْزَی الْاَعَادِیْ
(درثمین )
سب سے پہلے یہ بات سمجھنا ضروری ہے کہ ہم یہ دن مناتے کیوں ہیں ؟
اس کے متعلق حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرماتے ہیں:’’مصلح موعود کی پیشگوئی کا دن ہم ایمانوں کو تازہ کرنے اور اس عہد کو یاد کرنے کے لیے مناتے ہیں کہ ہمارا اصل مقصد اسلام کی سچائی اور آنحضرت ﷺ کی صداقت کو دنیا پر قائم کرنا ہے۔ یہ کوئی آپ کی پیدائش یا وفات کا دن نہیں ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعاؤں کو قبول کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے آپ کی ذریت میں سے ایک شخص کو پیدا کرنے کا نشان دکھلایا تھا جو خاص خصوصیات کا حامل تھا اور جس نے اسلام کی حقانیت دنیا پر ثابت کرنی تھی اور اس کے ذریعہ نظام جماعت کے لیے کئی اور ایسے راستے متعین کر دیے گئے کہ جن پہ چلتے ہوئے بعد میں آنے والے بھی ترقی کی منازل طے کرتے چلے جائیں گے۔
پس یہ دن ہمیں ہمیشہ اپنی ذمہ داری کا احساس کرواتے ہوئے اسلام کی ترقی کے لیے اپنی صلاحیتوں کو استعمال کرنے کی طرف توجہ دلاتا ہے اور دلانے والا ہونا چاہیے نہ کہ صرف ایک نشان کے پورا ہونے پر علمی اور ذوقی مزہ لے لیا۔ اللہ تعالیٰ اس کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍فروری ۲۰۰۹ءالفضل انٹرنیشنل ۱۳؍مارچ۲۰۰۹ء)
یعنی نئی نسل اور مخالفین احمدیت کو یہ بتانا کہ یہ کوئی سالگرہ یا کوئی دنیوی خوشی کا موقع نہیں ہے بلکہ یہ خداتعالیٰ کی عظیم الشان پیشگوئی کا اعلان اس کی رحمت کا شکرانہ اور اس انعام کے بعد ہماری جو ذمہ داریاں ہیں ان کا احساس کروانا مقصود ہوتا ہے۔ ان جلسہ جات میں شامل ہونے سے ہی ہمیں اس عظیم المرتبت انسان کے مقام و مرتبہ کا احساس ہوتا ہے۔ لیکن کیا فقط ان جلسہ جات میں شامل ہو کر ہمارا فرض پورا ہو جاتا ہے نہیں بلکہ حقیقی یومِ مصلح موعودؓ تب ہو گا جب ہم ان ساری تعلیمات پر عمل کریں گے جو ہمیں اس موعود مصلحؓ نے سکھلائی اور بتلائی ہیں ۔ جیسا کہ اس کے متعلق پیارے حضور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں:
’’یہ وہ اولوالعزم موعود بیٹا تھا جس نے اپنے دل کی تڑپ کھول کر ہمارے سامنے رکھ دی۔ آج ہم جب یومِ مصلح موعود مناتے ہیں تو حقیقی یومِ مصلح موعود تب ہی ہو گا جب یہ تڑپ آج ہم میں سے اکثریت اپنے اندر پیدا کرے کہ ہمارے مقاصد بہت عالی ہیں، بہت اونچے ہیں، بہت بلند ہیں جس کے حصول کے لیے عالی ہمتی کا بھی مظاہرہ کرنا ہو گا اور اپنے اندر اعلیٰ تبدیلیاں بھی پیدا کرنا ہوں گی، پاک تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہوں گی۔ خداتعالیٰ سے ایک تعلق بھی جوڑنا ہو گا۔ اسلام کا درد بھی اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا۔ دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا درد پیدا کرتے ہوئے اظہار بھی کرنا ہو گا۔‘‘
(خطبہ جمعہ ۔فرمودہ ۱۷؍ فروری۲۰۱۲ء،الفضل انٹرنیشنل۱۹ ؍ مارچ ۲۰۱۲ ء)
یوم مصلح موعودؓ منانے کی اصل غرض اس وقت پوری ہوگی جب ہم اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں گے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’آپ کے کام کو دیکھ کرحضرت مصلح موعودؓ کی پیشگوئی کی شوکت اور روشن تر ہو کر ہمارے سامنے آتی ہے اور جیسا کہ میں نے کہااصل میں تو یہ آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی ہے جس سے ہمارے آقا و مطاع حضرت محمد مصطفی ﷺ کے اعلیٰ اور دائمی مرتبے کی شان ظاہر ہوتی ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس پیشگوئی کے پورا ہونے کا تعلق صرف ایک شخص کے پیدا ہونے اور کام کر جانے کے ساتھ نہیں ہے۔ اس پیشگوئی کی حقیقت تو تب روشن تر ہوگی جب ہم میں بھی اُس کام کو آگے بڑھانے والے پیدا ہوں گے جس کام کو لے کر حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام آئے تھے اور جس کی تائید اور نصرت کے لیے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مصلح موعود عطا فرمایا تھا جس نے دنیا میں تبلیغِ اسلام اور اصلاح کے لیے اپنی تمام تر صلاحیتیں لگا دیں۔
پس آج ہمارا بھی کام ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں مصلح بننے کی کوشش کریں۔ اپنے علم سے، اپنے قول سے، اپنے عمل سے اسلام کے خوبصورت پیغام کو ہر طرف پھیلا دیں۔ اصلاحِ نفس کی طرف بھی توجہ دیں۔ اصلاحِ اولاد کی طرف بھی توجہ دیں اور اصلاحِ معاشرہ کی طر ف بھی توجہ دیں اور اس اصلاح اور پیغام کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے بھرپور کوشش کریں جس کا منبع اللہ تعالیٰ نے آنحضرت ﷺ کو بنایا تھا۔ پس اگر ہم اس سوچ کے ساتھ اپنی زندگیاں گزارنے والے ہوں گے تو یومِ مصلح موعود کا حق ادا کرنے والے ہوں گے، ورنہ تو ہماری صرف کھوکھلی تقریریں ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کی توفیق عطا فرمائے۔ ‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍ فروری ۲۰۱۱ءالفضل انٹرنیشنل ۱۱ ؍مارچ۲۰۱۱ءصفحہ ۹)
حضرت مصلح موعودؓ نے ہم سب کو انصار اللہ، لجنہ اماء اللہ، خدام الاحمدیہ، ناصر ات الاحمدیہ کی تنظیموں میں شامل کر کے رحمتوں اور برکات کی ایک ایسی لڑی میں پرویا ہے جس کا شکر ادا کرنے کےلیے ہم ان جلسہ جات میں اپنی شرکت کو یقینی بنائیں۔ ان تمام برکات کے وارث بنیں جو جماعتی پروگراموں میں شمولیت کر کے حاصل ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اور ہماری نسلوں کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالی ٰعنہ کے مقام و مرتبے کو پہچاننے اور ان کی سیرت پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین اللھم آمین