حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پاکیزہ حیات
’’تمہارا ایمان تو ایسا ہونا چاہئے کہ اگر دس کروڑ بادشاہ بھی آکر کہیں کہ ہم تمہارے لیے اپنی بادشاہتیں چھوڑنے کے لیے تیار ہیں تم ہماری صرف ایک بات مان لو جو اسلام کے خلاف ہے تو تم اُن دس کروڑ بادشاہوں سے کہہ دو کہ تف ہے تمہاری اِس حرکت پر! میں تو محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بات کے مقابلہ میں تمہاری اور تمہارے باپ دادا کی بادشاہت کو جوتی بھی نہیں مارتا۔‘‘ (المصلح الموعودؓ)
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اِس فدائی پہ رحمت خدا کرے
۲۰؍ فروری کا دن ہماری جماعتی تاریخ میں ایک خاص اہمیت کا حامل دن ہے کیونکہ ۲۰؍فروری۱۸۸۶ء کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خدا سے خبر پا کر ایک ایسے موعود بیٹے کی پیش گوئی دنیا کے سامنے پیش کی کہ جس سے ساری دنیا کی تقدیریں وابستہ ہونا تھیں۔ پس حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد رضی اللہ عنہ پیشگوئی مصلح موعود کے ایک ایک حرف کو سچا ثابت کرنے کے لیے ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء کو تولد ہوئے۔
آپ رضی اللہ عنہ کے وجود سے ایسے ایسے عجائبات کا ظہور ہوا کہ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس قدر کمزور صحت رکھنے والے،کم ظاہری تعلیم رکھنے والے شخص سے ایسے کام ظہور میں آ سکتے ہیں۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا بچپن دیکھ لیں تو ہمیں کہیں بھی بے ضابطگی، آوارگی یا کھلنڈرا پن نہیں ملے گا۔ آپؓ کی جوانی انتہائی سادہ اور در جوانی توبہ کردن کی تصویر نظر آتی ہے اور شیوۂ پیغمبری کا ایک نشان ہے۔ بعض روایات کے مطابق گیارہ سال کی عمر میں آپؓ کو پہلا الہام ہوا اور ابھی آپؓ جوان ہی تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ رضی اللہ عنہ کو خلافت کی ذمہ داری سونپ دی گئی۔ اِسی مقصد کے لیے تو خدا نے آپ رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھااور پھر آپ رضی اللہ عنہ نے۱۹۱۴ء سے لے کر۱۹۶۵ء تک اپنے دورِ خلافت کے دوران بڑا کامیاب عرصہ گزارا اور ساری دنیا میں شہرت پائی گویا اللہ تعالیٰ کا یہ وعدہ پورا ہوا کہ جو اُس نے اپنے پیارے مسیح کے ساتھ کیا تھا کہ’’سو قدرت اور رحمت اور قربت کا نشان تجھے دیا جاتا ہے‘‘
چنانچہ اللہ تعالیٰ نے نصف صدی سے زائدآپؓ کو قدرت بخشی اور کسی پر ظلم نہ کرنے بلکہ مظلوموں کی دادرسی کرنے حتیٰ کہ دشمنوں پر بھی رحمت کی برسات کرنے کی قوت بخشی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اپنا قرب بھی عطا فرما دیا۔
آپؓ کو فضلِ عمر کہا، اور بیماری کے باوجود آپؓ نے خدا کے محض فضل اور احسان کے تابع جماعت کے دفاتر وغیرہ کا اعلیٰ ترین نظام قائم فرمایا اور اللہ تعالیٰ کی یہ بات بھی پوری ہوئی کہ ’’فضل اور احسان کا نشان تجھے عطا ہوا‘‘
آپؓ نے جہاں بھی قدم رکھا، فتح و ظفر نے آپؓ کے قدم چومے کبھی کسی میدان میں شکست نہیں کھائی خواہ آپؓ کے سامنے جماعت اسلامی آئی ہو یا اَحرار، عدالتی کارروائی ہو یا پھر۱۹۵۶ء کا پُرآشوب زمانہ، جہاں بھی آپؓ نے اپنا مبارک قدم رکھا اللہ تعالیٰ نے آپ کو کامیابی ہی کامیابی عطا فرما ئی، ساتھ ہی اللہ تعالیٰ کی یہ بات بھی پوری ہوئی کہ’’فتح وظفر کی کلید تجھے ملتی ہے‘‘
کامیابی کی اِس کنجی کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے اِس مظفر کو سلام کہا، پس ایک طرف حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے غلام حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو سلام کہا تو دوسری طرف اللہ تعالیٰ نے مصلح موعود رضی ا للہ عنہ کو ان الفاظ میں سلام کہا: ’’اے مظفر تجھ پر سلام! خدا نے یہ کہا تا وہ جو زندگی کے خواہاں ہیں موت کے پنجے سے نجات پاویں اور جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آویں۔ ‘‘
پس اے باری تعالیٰ! ہم تجھے اور تیری کبریائی کو گواہ بنا کراقرار کرتے ہیں کہ ہم نے اپنی آنکھوں سے زندگی کے خواہاں لوگوں کو موت کے پنجے سے نجات پاتے ہوئے بھی دیکھا اور قبروں یعنی روحانی نجاستوں سے آلودہ لوگوں کو اپنی نجاستوں کی قبروں سے باہر آتے ہوئے بھی دیکھا اور ہم نے تیرا یہ وعدہ بھی بڑی شان سے پورا ہوتے ہوئے دیکھا۔ الحمد للہ
یہیں پر بس نہیں آگے بھی تو چلیے جہاں آپؓ کہیں تو طویل پُرمعارف خطابات ارشاد فرماتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور کہیں قرآنی جواہرات نکال نکال کر پیش کرتے جاتے ہیں تفسیرصغیر اور تفسیر کبیر کے علوم ظاہری اور باطنی سے آگاہی کے بعد تو اور کسی مثال کی ضرورت ہی نہیں رہتی اور یہ علم ہو جاتا ہے کہ خدا کی یہ بات کس شان سے پوری ہوئی کہ ’’تا دینِ اسلام کا شرف اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو ‘‘
اور واقعۃً لوگوں نے آپؓ کی بیان کردہ تفاسیر پڑھ اور سن کر برملا یہ اظہار کیا کہ مرزا محمود کے ساتھ قرآن ہے۔ نیز آپؓ نے تفسیر کو اُن تمام غلط عقائد سے پاک کر دیا جو غلط فہمیوں یابنی اسرائیل کی روایات کی وجہ سے اُمت میں راہ پا گئے تھے پس اللہ تعالیٰ کی یہ بات بھی سچ ہوئی کہ ’’تاحق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے تا لوگ سمجھیں کہ میں قادر ہوں جو چاہتا ہوں سو کرتا ہوں۔ ‘‘
قدم قدم پر اللہ تعالیٰ نے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیا۔ آپؓ کی بیماری کے سلسلے میں، آپؓ کی صحت کے معاملے میں،آپؓ کے دینی کاموں میں اور آپؓ کے دوسرے لوگوں سے کسی قسم کے دیگر معاملات اور مقابلوں میں یہاں تک کہ آپؓ نے تمام دنیا کے علمائے علم الادیان اور علمائے علم الابدان کو کسی بھی علم کے متعلق مقابلہ کی دعوت دی اور یہ بات پوری ہوئی کہ ’’تا وہ یقین لائیں کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔‘‘
پس اِس چیلنج کے باوجود کسی کا آپؓ کے مقابل پر نہ آنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ جانتے تھے کہ اللہ آپؓ کے ساتھ ہے۔ غیرمسلموں کے لیے آپ رضی اللہ عنہ کی باتیںتنبیہ کا رنگ رکھتی ہیں اور آپؓ خدا کی صداقت کی ایک واضح نشانی ہیں کیونکہ اللہ نے خود فرمایا کہ’’تا اُنہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے ایک کھلی نشانی ملے اور مجرموں کی راہ ظاہر ہو جائے۔‘‘
پس یہ بھی تو حق و باطل میں فرق کرنے والی ہی بات ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایسے لڑکے کی بشارت دی جس کی ظاہری وجاہت کی بات اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمائی: ’’سوتجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا ایک زکی اور پاک غلام (لڑکا) تجھے ملے گا وہ لڑکاتمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے اس کو مقدس روح دی گئی ہے اور وہ رِجس سے پاک ہے اور وہ نوراللہ ہے۔ ‘‘
اِس پیشگوئی میں اللہ تعالیٰ آپؓ کو آسمان سے آتا ہوا بیان فرماتا ہے کہ’’مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے اُس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔‘‘
پس مبارک اور اپنے ساتھ فضل لے کر آنے والا یہ وجودساری دنیا کے لیے مصلح موعود بنایا گیا۔ آپؓ کی عظمت اور شان، پاکیزگی اور شکوہ کو سارے عالم میں تسلیم کیا گیا۔ آپؓ نے اپنے مسیحی نفس اور روح کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے پاک کیا۔ آپ رضی اللہ عنہ ہی کلمۃ اللہ ٹھہرے کیونکہ آپ کو خدا نے بزرگی عطا فرمائی اور پاکیزگی کے عطر سے ممسوح کیا اور خدا نے اپنی غیرت میں سے بھی آپؓ کو حصہ دیا۔ باوجود سکول میں اپنی تعلیم مکمل بلکہ جاری بھی نہ رکھ سکنے کے آپؓ کو اِس قدر ذہانت عطا فرمائی کہ دنیا کے چوٹی کے دماغ بھی آپؓ کا مقابلہ نہ کر سکے اور اِس بات کی گواہی اندرون ملک اور بیرون ملک لوگوں نے دی اور خدا کی یہ بات بھی بڑی شان سے پوری ہوئی کہ’’وہ سخت ذہین و فہیم ہو گا اور دل کا حلیم اور علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہو گا۔ ‘‘
پس آپؓ کا نور ظہور ہوا اور جلد جلد بڑھتے ہوئے آپؓ نے سلوک کی منازل طے کیں اور ۲۵؍سال کی نوجوانی کی عمر میں آپ رضی اللہ عنہ کو مسند خلافت پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے متمکن کیا گیا اور اقوامِ عالم نے آپؓ کے وجود باجود سے ہر لمحہ برکتیں حاصل کیں اور بالآخر آپؓ اپنے نفسی نقطہ یعنی آسمان کی طرف سے ہی آئے تھے، مظہر حق تھے سو اُسی کی طرف ہی اُٹھائے گئے اورجن لوگوں نے آپؓ کو آپؓ کی زندگی میں نہیں پہچانا اُن کے لیے دعوت فکر اور چیلنج کے طور پر آپؓ یہ بات لکھ گئے کہ
اِک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اِس فدائی پہ رحمت خدا کرے
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا عشقِ الٰہی، عشقِ قرآن اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی پاکیزہ حیات کا خلاصہ اگر آسان الفاظ میں بیان کیا جائے توکہا جا سکتا ہے کہ آپؓ کی زندگی تین حصوں میں منقسم نظر آتی ہے یعنی عشق الٰہی، عشق قرآن اور عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم۔ ان تینوں پاکیزہ محبتوں کو جدا نہیں کیا جا سکتا۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ مَنۡ یُّطِعِ الرَّسُوۡلَ فَقَدۡ اَطَاعَ اللّٰہَ۔ (النساء: ۸۱)یعنی جس نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اُس نے اللہ کی اطاعت کی۔
جب ہم اِس پہلو سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی حیات مبارکہ کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں آپؓ کے وجود میں عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر دکھائی دیتا ہے۔ آپؓ کی تحریرات اور اشعار اور آپؓ کی نثر میں محبت کے وہ جذبات موجیں مار رہے ہیں کہ جن کی نظیر کہیں نہیں ملتی۔ اطاعت قرآن اور اُسوۂ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا کوئی پہلو آپؓ نے نظر انداز نہیں کیا۔ آپؓ اِس عشق میں مخمور ہو کر لکھتے ہیں
محمدؐ پر ہماری جاں فدا ہے
کہ وہ کوئے صنم کا رہنما ہے
مرا دل اُس نے روشن کر دیا ہے
اندھیرے گھر کا میرے وہ دیا ہے
عشق کا طبعی نتیجہ غیرت ہوتی ہے اور کوئی شخص اپنے محبوب کے خلاف بات تک سننا گوارا نہیں کیا کرتا۔ چنانچہ ایک مرتبہ جب ۱۹۲۷ء میں ہندوستان کے ایک اخبار وَرتمان میں ایک مضمون سیرِدوزخ کے عنوان سے چھپا جس میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں دریدہ دہنی اور دُشنام طرازی سے کام لیا گیا تھا تو آپؓ سراپا احتجاج بن گئے اور فوراً ایک پوسٹر کے ذریعہ اس کی سخت مذمت کی جس کے نتیجہ میں وَرتمان کے خلاف مقدمہ دائر ہوا اور اسے ایک سال چھ ماہ کی قید بھی ہوئی اس پر آپؓ نے فرمایا کہ ’’میرا دل غمگین ہے کیونکہ میں اپنے آقا، اپنے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہتکِ عزت کی قیمت ایک سال جیل خانے کو قرار نہیں دیتا۔ میں ان لوگوں کی طرح جو کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دینے والے کی سزا قتل ہے، ایک آدمی کی جان کو بھی اِس کی قیمت قرار نہیں دیتا ایک قوم کی تباہی کو بھی اِس کی قیمت قرار نہیں دیتا بلکہ اگلے پچھلے سب کفار کے قتل کو بھی اِس کی قیمت قرار نہیں دیتا کیونکہ میرے آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اِس سے بالا ہے کہ کسی فرد یا جماعت کا قتل اس کی قیمت قرار دیا جائے۔‘‘(الفضل۱۹؍اگست۱۹۲۷ء)
ایک موقع پر آپؓ نےفرمایا کہ یاد رہے کہ میں کسی خوبی کا اپنے لیے دعویدار نہیں، میں فقط خداتعالیٰ کی قدرت کا ایک نشان ہوں اور محمدرسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے خداتعالیٰ نے مجھے ہتھیار بنایا ہے، اِس سے زیادہ نہ مجھے دعویٰ ہے اور نہ کسی دعویٰ کی مجھے خوشی ہے۔ میری ساری خوشی اِسی میں ہے کہ میری خاک محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کھیتی میں کھاد کے طور پر کام آجائے اور اللہ تعالیٰ مجھ پر راضی ہو جائے اور میرا خاتمہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کے قیام کی کوشش میں ہو۔
آپ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ فرمایاکہ تمہارا ایمان تو ایسا ہونا چاہئے کہ اگر دس کروڑ بادشاہ بھی آکر کہیں کہ ہم تمہارے لیے اپنی بادشاہتیں چھوڑنے کے لیے تیار ہیں تم ہماری صرف ایک بات مان لو جو اسلام کے خلاف ہے تو تم اُن دس کروڑ بادشاہوں سے کہہ دو کہ تف ہے تمہاری اِس حرکت پر! میں تو محمد مصطفی ٰصلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بات کے مقابلہ میں تمہاری اور تمہارے باپ دادا کی بادشاہت کو جوتی بھی نہیں مارتا۔
غرض حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اپنی جان تک قربان کرنے کو ہر وقت تیار دکھائی دیتے ہیں۔ نیز ناموس رسالت کے سب سے بڑے پاسدار آپؓ ہی نظر آتے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت کے بارے میں برصغیر کے طول و عرض میں جلسوں کے انعقاد کی بنیاد آپؓ نے ہی رکھی۔ آپ کی دلی خواہش تھی کہ
شیطان کی حکومت مٹ جائے اس جہاں سے
حاکم تمام دنیا پہ میرا مصطفیٰؐ ہو
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا طرزِ معاشرت
یہ موضوع اپنی ذا ت میں بہت انوکھا اور بابرکت ہے۔ دراصل اپنی جماعتی زندگی میں اِس قدر مصروف شخصیت کے لیے کیسے ممکن تھا کہ اپنے گھر میں کسی قدر وقت دے یا بچوں کی تربیت پرخاص توجہ کر پائے؟ لیکن آپ کو یہ سن کر حیرانگی ہو گی کہ آپ رضی اللہ عنہ ہر شعبۂ زندگی میں بھر پور دلچسپی رکھتے تھے۔ ہر ایک خوشی اور غم کے موقع پر، کسی کی بیماری یا تکلیف اور لین دین میں عزیز و اقارب نیز دوست احباب کے جذبات و احساسات کاخیال اور احترام اور خاطر مدارات رکھنے میں پوری طرح حصہ لیتے تھے بلکہ گھر کے کاموں میں پوری دلچسپی رکھتے تھے۔ حضرت مہر آپا صاحبہ فرماتی ہیں کہ ایک دفعہ ڈلہوزی میں آپ رضی اللہ عنہ نے خوشگوار موسم میں ہمیں بریانی پکا کر کھلائی۔ پھر آپؓ ہر قسم کے موسم سے لطف اندوز ہونا بھی جانتے تھے گرمی ہو یا سردی، خزاں ہو یا بہار، ساون رُت ہو یا برسات جب کبھی تھوڑی سی فراغت پاتے تو تمام بچوں اور دیگر اہل خانہ کو بلا کر اپنے قریب بٹھاتے اورسب کو لطف اندوز کرتے۔
آپؓ کو سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق خوشبو سے بھی بہت لگاؤ تھا حتیٰ کہ اپنے ہاتھ سے خوشبو تیار کیا کرتے تھے اِس کام کے لیے ایک کمرہ مخصوص تھا اور جب بھی آپ رضی اللہ عنہ کو فارغ وقت ملتا آپ فوراً اُس کمرے میں چلے جاتے اور خود سینٹ اور خوشبو تیار کر کے سب کو اپنے ہاتھ سے تحفۃً دیا کرتے تھے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ دوسروں کی خواہشات کا بھی اَزحد خیال رکھا کرتے تھے۔ حضرت سیدہ مہر آپاصاحبہ لکھتی ہیں کہ مجھے بیڈ منٹن، ٹیبل ٹینس اور رائفل کا شوق تھا سو میں نے بے خیالی میں اِس کا اظہار کر دیا تو حضور انور رضی اللہ عنہ نے اِن تینوں کے نہ صرف سامان مہیاکیے بلکہ خود بھی میرے ساتھ کھیل میں شامل ہوتے تھے۔
پھر حضور رضی اللہ عنہ کو دلداری اور دلجوئی کا ایسا ملکہ حاصل تھا کہ آپؓ دوسروں کی تکان بھی اُتار دیا کرتے تھے اور عزم و ہمت اِس قدر تھا کہ جس کام پر کمر کس لیتے اُس کو پورا کیے بغیر نہ چھوڑتے تھے۔ ایک مرتبہ سندھ میں سٹیٹس کا دورہ کر رہے تھے کہ گاؤٹ کی تکلیف ہو گئی ابھی دورہ کرنے والی چند جگہیں رہتی تھیں لیکن آپؓ نے اِس شدید تکلیف کے باوجود دورہ مکمل کیا۔
آپؓ خدا اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکام کو عائلی زندگی میں بھی بہت زیادہ اہمیت دیتے تھے ایک مرتبہ ایک بیوی کی اِس خواہش کے جواب میں کہ آپؓ روزانہ میرے گھر پر رہا کریں، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اس طرح تو خدا اور خدا کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکام کی خلاف ورزی ہو گی، میں یہ کام نہیں کر سکتا اور اِس لیے بھی کہ یہ انصاف کے بھی خلاف ہے۔
آپؓ بچوں سے بھی خاص محبت رکھتے تھے۔ زیورک سوئٹزر لینڈ میں قیام کے دوران موٹربوٹنگ کے لیے جاتے اور جیب میں بسکٹ اور ٹافیاں رکھ لیتے اور جہاں جہاں جاتے رستے میں بچوں کو دیتے اور خوش ہوتے یوں بچوں کی خوشیوں کا سامان بھی کرتے۔
حضور رضی اللہ عنہ اپنی بیویوں کے احساسات و جذبات کا اِس قدر خیال رکھتے تھے کہ ایک مرتبہ ایک جھیل کی سیر کے دوران آپؓ کی ایک بیوی صاحبہ نے موٹر لانچ چلانے کی فرمائش کر دی ۔ آپؓ نے وہ بھی پوری کر دی اور ایک مرتبہ حضرت مہر آپا صاحبہ کی فرمائش پر اُنہیں ٹریکٹر چلانے کی اجازت مرحمت فرما دی۔
ان تمام خوبیوں کے ساتھ ساتھ اللہ کی رضا میں راضی رہنا بھی آپؓ پر ختم تھا۔ حضرت نواب محمد علی خان صاحبؓ بیمار تھے تو آپؓ بے حد پریشان تھے اور اُن کی صحت کے متعلق فکرمند تھے لیکن جب اُن کی وفات اُسی بیماری میں ہو گئی تو آپ رضی اللہ عنہ نے کمال صبر سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ پڑھا۔
اِسی طرح ایک دفعہ آپؓ کی ایک بیٹی بجلی کے کڑکے کی وجہ سے بے ہوش ہو گئی اور پھربعد میں فوت بھی ہو گئی تھی،آپ رضی اللہ عنہ کو جب اُس کی بے ہوشی کا علم ہوا تو بھاگتے ہوئے اُس کے پاس پہنچے اُس وقت تک وہ بچی فوت ہو چکی تھی لیکن آپ رضی اللہ عنہ نے کمال صبر اور حوصلہ سے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْن پڑھا۔
حضرت صاحبؓ کو اپنے عزیزوں سے، خواہ وہ دُور کے رشہ دار ہوں یا نزدیک کے، دلی ہمدردی تھی اور آپؓ ہر ایک کے لیے درد رکھتے تھے، ہر ایک سے ایسا محبت کا تعلق تھا کہ ہر کوئی یہی سمجھتا کہ حضور رضی اللہ عنہ سب سے بڑھ کر اِسی سے محبت رکھتے ہیں اور اِسی کا خیال رکھتے ہیں۔
المختصر یہ کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی طرزِ معاشرت نہایت درجہ سادہ، زندگی سے بھرپور اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے مطابق ہر لحاظ سے مکمل اور جاندار تھی۔ اللہ تعالیٰ آپؓ پر اپنی بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور ہمیں بھی آپ رضی اللہ عنہ کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
ربوہ کی آباد کاری
ارضِ ربوہ جس کی شاہد ہے وہ معمولی نہ تھا
حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ عنہا کا یہ مصرع ایک طویل نظم میں سے لیا گیا ہے۔ یہ نظم ایک خاص ترنگ اور آہنگ میں لکھی گئی ہے۔ دراصل یہ ایک واقعاتی نظم ہے۔ اس نظم میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تاریخ وفات ریکارڈ کی گئی ہے اور بڑے زبردست انداز میں حضرت مسیح موعود علیہ السلا م کی وفات کا ذکر کر کے بڑے پُرشوکت انداز میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عزمِ صمیم کا ذکر ہے اور پھر آپؓ کے کارہائے نمایاں کی نقاب کشائی کی گئی ہے اور بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک نحیف اور کمزور بچہ اس وقت اٹھ کر کھڑا ہوا اور اس نے اپنے باپ اوراللہ کے مسیح پاک کی میت کے سرہانے کھڑے ہو کر عہد کیا اور پھر اس کو تا زندگی نبھایا اور کس شان کے ساتھ نبھایا۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی وفات پر اس منحنی نوجوان کے عزمِ صمیم قلب کا ذکر کرتے ہوئے حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ لکھتی ہیں
اک جوانِ منحنی اُٹھا بعزمِ اُستوار
اشک بار آنکھیں لبوں پر عہدِ راسخ دل نشیں
اس بچے نے یہ عزم کیا کہ اگر ساری دُنیا آپ کو چھوڑ جائے میں آپ کے جاری کردہ کام کومکمل کر کے ہی سکھ کا سانس لوں گا اور آپ کی تبلیغ کو ساری دنیا میں پھیلاؤں گا۔ اور نہ صرف ہم نے بلکہ وقت کی آنکھ نے دیکھا اور تاریخ نے رقم کیا کہ اس جوانِ منحنی نے اپنی کہی ہوئی باتیں کس طرح عزم و ہمت اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق کے ساتھ اپنے باون سالہ دورِ خلافت میں پوری کیں۔
یہ نظم اُس دَور کی ہے جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ بیمار تھے۔ حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہؓ نے احبابِ جماعت کو دعا کی تحریک کرتے ہوئے یہ نظم لکھی جو ۱۹۵۷ء کے الفضل ربوہ کے جلسہ سالانہ نمبر میں شائع ہوئی۔ زیرِ نظر مصرع ایک واقعاتی پہلو کو نہایت اختصار اور بلاغت کے تمام تر اُصول مدّنظر رکھ کر لکھا گیا ہے اور اس میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح ایک بنجر زمین کو دعا اور ان تھک کوشش کے بعد ایک جنت نظیر ٹکڑے میں تبدیل کیا گیا اور حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ جیسا دَھنی اور عزم و ہمت کا پیکر وجود ہی تھا جس نے یہ عظیم کارنامہ سرانجام دیا۔گویا ربوہ کی سرزمین کو، ربوہ کی سرسبزی اور ہریالی کو گواہ بنا کر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی شان کا ایک پہلو بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسا وجود تھا جس نے ربوہ جیسی بنجر اور بے آب و گیاہ اور کڑوے پانی والی زمین کو آباد کیا اور سرسبز کر دیا۔ بعینہٖ روحانی طور پر بنجر اور بے آب و گیاہ روحوں کی سیرابی کے بھی سامان اس شخص نے کیے۔
جو لوگ ربوہ کی تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ اس زمین کو ایک ہندو سیٹھ اپنے کروڑوں روپے لگا کر بھی جب آباد نہ کر سکا تو اِسی دُکھ میں موت کے گھاٹ اُتر گیا لیکن اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے مسیح اور اس کی جماعت، جماعت احمدیہ کی صداقت اور اپنے اس پیارے بندے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کی صداقت کے ثبوت کے طور پر اس شوریدہ زمین کو آباد کر دیا اور سرسبز کر دیا۔ آج ربوہ کا چپہ چپہ گواہ ہے کہ وہ کلر زدہ زمین، وہ بے آب وگیاہ صحرا جس میں بھیڑیے اور بچھو بسیرا کرتے تھے آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے لہلہا رہی ہے۔ کون سی قسم کا درخت اور پودا ہے جو دنیا کے کسی بھی خطے میں پیدا ہوتا اور اُگتا ہے جو آج ربوہ کی سرزمین پرموجود نہیں؟ کون سی قسم کا پھول ہے جو دنیا کے کسی بھی باغ میں موجود ہے اور آج ربوہ اُس کا مسکن نہیں؟ کون سا پھل دار ایسا پودا ہے جو دنیا کے کسی بھی علاقے میں پایا جاتا ہے اور آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے ربوہ اُس کا گھر نہیں؟ ایسا ہی ہے کیونکہ ربوہ ان لوگوں کا مسکن ہے جنہوں نے اپنے آباد گھروں کو چھوڑا، اپنی لہلہاتی زمینوں کو خیرباد کہہ دیا، اپنے سازوسامان کو ترک کر دیا، اپنے حقوق تج دیے تو صرف کس کی خاطر؟ اللہ تعالیٰ کے اس پیارے کے ایک حکم اور ایک اشارے کی خاطر جس کا ذکر آج ہم کر رہے ہیں کہ اس کے اس حکم کو ماننے والوں نے پھر ربوہ کو آباد کیا اور یہاں جنگل میں منگل کا سا سماں پیدا کر دیا۔ وہی وجود جس نے ربوہ کے چپہ چپہ پر متضرعانہ دعاؤں کے چراغ جلائے تو اللہ تعالیٰ سے یہ نوید پائی کہ
پاؤں کے نیچے سے مرے پانی بہا دیا
یہ وہ عظیم الشان پیش گوئی تھی کہ آج ربوہ کا کیا دُنیا کا بچہ بچہ گواہ ہے کہ وہ اپنی آنکھوں سے اس پیش گوئی کو پورا ہوتے ہوئے دیکھ رہا ہے۔
آج اس بستی سے اٹھنے والے نوجوان ساری دنیا پر چھائے ہوئے ہیں، اس بستی کے پروردہ کیا سائنس اور کیا اخلاقیات اور کیا آرٹس ہر ایک شعبہ میں ایک سند کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اسی خطہ نے دنیا میں ایک انقلاب پیدا کر کے دکھادیا۔ جماعت احمدیہ کے مبلغین اسی خطہ سے تیار ہو کر ساری دنیا کے کونہ کونہ میں جا کر جب دین اسلام کی تبلیغ کرتے ہیں تو دراصل اسی مصرع کی صداقت پر اپنی مہر تصدیق ثبت کر رہے ہوتے ہیں کہ جس نے اس بستی کو بسایا وہ کوئی معمولی انسان نہ تھا بلکہ وہ ایک غیرمعمولی دست دعا کا حامل انسان تھا کہ وہ جس طرف جھکتا خدا کے فرشتے اس کی تائید میں اس طرف جھکتے اور لوگوں کے دلوں کو اللہ کے حکم سے اس کی طرف مائل کرتے تھے۔ تو کیا یہ بستی جو آج محض خدا کے فضل سے ایک غیرمعمولی اہمیت اور حیثیت اختیار کر چکی ہے اس کی بنیاد رکھنے والا کوئی عام وجود ہو سکتا ہے؟ ہر گز نہیں۔
صَرف کر ڈالیں خدا کی راہ میں سب طاقتیں
جان کی بازی لگا دی قول پر ہارا نہیں
ارضِ ربوہ جس کی شاہد ہے وہ معمولی نہ تھا
خونِ ’’فخرالمرسلیں‘‘ تھا شیرِ اُمّ المومنیں
آج ہمیں اس بستی کی عزت بھی برقرار رکھنی ہے تو اس بستی کے بسانے والے کے اُسوہ کو بھی اپنی زندگیوں میں جاری کر کے ایک نمونہ دنیا کے سامنے رکھنا ہے کہ کسی صورت میں بھی ہم اس شخص کو اس کے وصال کے بعد بھولے نہیں کہ جس کے ہمارے اوپر اور اس بستی کے اوپر اس قدر احسان ہیں کہ اگر ہم زندہ ہیں تو اسی وجہ سے کہ اس شخص نے ہمارے لیے جسمانی زندگی گزارنے کے لیے ربوہ جیسی پرسکون بستی کو آباد کیا اور روحانی حیات کے لیے ہماری ایسی تربیت کی کہ آج ہم بلاشبہ کہہ سکتے ہیں کہ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعودؓ کا قبر پر دعا مانگنے کا طریق