پیشگوئی متعلقہ مصلح موعود
مصلح موعود کی پیدائش کے لیے ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء سے لے کر ۲۰؍فروری ۱۸۹۴ء تک نو سال کی میعاد مقرر تھی۔ لہذا جو شخص ۲۰؍ فروری ۱۸۹۴ء کے بعد پیدا ہو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی پیشگوئی متعلقہ مصلح موعود کا مصداق نہیں ہوسکتا اور کسی کا حق نہیں کہ لیکھرامی عادت کے ماتحت ۹سالہ میعاد کو منسوخ یا حذف قرار دے کر ولادت مصلح موعود کے تین صدیوں کی میعاد مقرر کرے۔
[حضرت ملک عبدالرحمٰن خادم صاحب بی اے ایل ایل بی ولد حضرت ملک برکت علی صاحب آف گجرات ۱۹۰۹ء میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی عمر سے ہی حضرت مسیح موعودؑ اور خلفاء کی کتب سے دلچسپی تھی اور ساتھ ہی جذبہ تبلیغ میں بھی بڑھے ہوئے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو قلم اور زبان کی زبردست صلاحیتوں سے نوازا تھا، ساری زندگی تقریری اور تحریری تبلیغ کے میدان میں صف اول میں رہے۔ آپ کی تالیف کردہ ’’احمدیہ پاکٹ بک‘‘ آپ کے وسعت مطالعہ اور قوت استدلال پر شاہد ہے۔ جلسہ سالانہ ۱۹۵۶ء کے موقع پر حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے آپ کوبھی ’’خالد احمدیت‘‘ کا خطاب عطا فرمایا۔آپ نے ۳۱؍دسمبر ۱۹۵۷ء کو وفات پائی اور بہشتی مقبرہ ربوہ میں دفن ہوئے۔ منکرین سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کے پیدا کردہ وساوس کے متعلق ایک مرتبہ آپ نے ایک مضمون لکھا جو ذیل میں درج کیا جارہا ہے۔]چند ضروری امور
قبل اس کے کہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی مہتم بالشان پیشگوئی متعلقہ مصلح موعود پیش کروں۔ چند ضروری امور بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔ سب سے پہلی بات جس کا مد نظر رکھنا لازمی ہےوہ یہ ہے کہ خدا تعالیٰ کے قدیمی قانون کے ماتحت تمام وہ پیشگوئیاں جو خدا کی طرف سے ہوں خدا تعالیٰ کی صفت ’علمِ غیب‘کے ماتحت ہوتی ہیں اور اس لیے یہ لازمی ہے کہ ان میں کوئی نہ کوئی پہلو ’غیب‘ اور اخفا کا ہو۔ کیونکہ اگر ایسا نہ ہو تو ان پر ایمان لانے والے کسی ثواب اور جزا کے مستحق نہیں ہو سکتے۔ یہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء علیہم السلام کی پیشگوئیوں میں کوئی نہ کوئی پہلو غیب اور اخفا کا ہوتا ہے۔ جس کا سہارا لے کر مخالفینِ انبیاء نے ان پیشگوئیوں کی صداقت کو مشتبہ کرنا چاہا۔ اگرچہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی ’’مصلح موعود‘‘ والی پیشگوئی اپنی شان کے لحاظ سے ایک زبردست پیشگوئی ہے لیکن اس کے باوجود اس وجہ سے کہ یہ پیشگوئی بھی دوسری خدا کی پیشگوئیوں کی طرح صفتِ علمِ غیب کے ماتحت ہے اور اس میں بھی کسی قدر پرده غیب و اخفا موجود ہے۔ مخالفین احمدیت ان باتوں کا سہارا لے کر اس کی تکذیب کرتے ہیں۔ لیکن ہر اہل دانش و انصاف جس کا دل تحاسد و تباغض کے زنگ سے آلود نہ ہو چکا ہو نہایت آسانی سے حقیقتِ حال کو معلوم کر سکتا ہے۔
تعیین کےلیے ضروری امور
اب میں وہ اصول بیان کرتا ہوں جن سے کسی شخص کو کسی خاص پیشگوئی کا موعود قرار دیا جا سکتا ہے۔ سو اس کے لیے مندرجہ ذیل چار امور مدنظر رکھنے ہوں گے:
۱۔ اصل پیشگوئی کی بیان کردہ علامات کس میں پائی جاتی ہیں ؟
۲۔ کیا کسی شخص کے متعلق کوئی الہامی تعیین موجود ہے؟
۳۔ کیا خود پیشگوئی کرنے والے مامور نے اس پیشگوئی کے مصداق کی تعیین کی ہے؟
۴۔ کیا الٰہی تائیدات اور نشانات اس شخص کو حاصل ہیں جس کا موعود ہونا زیر بحث ہے؟
یہ وہ چار اصول ہیں جس کی بنا پر میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی متعلقہ ’’مصلح موعود‘‘پر بحث کروں گا۔ ان اصول کی صحت میں کوئی شبہ نہیں کیونکہ یہی وہ باتیں ہیں جن کو خود مولوی محمد علی صاحب ایم۔ اے نے اپنے رسالہ ’’المصلح الموعود‘‘ میں صحیح تسلیم کیا ہے اور یہی وہ اصول ہیں جن کی بنا پر خدا کے فضل سے میرا دعویٰ ہے کہ در حقیقت حضرت امیر المومنین سیدنا حضرت محمود خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ بنصرہ العزیز مصلح موعود ہیں اور حضور کے سوا کوئی شخص اس پیشگوئی کا مصداق نہیں۔
اصل پیشگوئی
مصلح موعود کے متعلق اصل پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء میں ہے،حضرت مسیح موعود علیہ السلام الہام الٰہی سے فرماتے ہیں:’’سو تجھے بشارت ہو کہ ایک وجیہہ اور پاک لڑکا تجھے دیا جائے گا، ایک زکی غلام (لڑکا) تجھے ملے گا۔ وہ لڑکا تیرے ہی تخم سے تیری ہی ذریّت و نسل ہوگا۔ خوبصورت پاک لڑکا تمہارا مہمان آتا ہے اس کا نام عنموائیل اور بشیر بھی ہے۔ اُس کو مقدس رُوح دی گئی ہے اور وہ رجس سے پاک ہے وہ نور اللہ ہے۔ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے۔ اس کے ساتھ فضل ہے جو اس کے آنے کے ساتھ آئے گا۔ وہ صاحب شکوہ اور عظمت اور دولت ہوگا وہ دنیا میں آئے گا اور اپنے مسیحی نفس اور روح الحق کی برکت سے بہتوں کو بیماریوں سے صاف کرے گا۔ وہ کلمۃ اللہ ہے کیونکہ خدا کی رحمت و غیوری نے اُسے اپنے کلمہ تمجید سے بھیجا ہے۔ وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا اور دل کا حلیم اور علومِ ظاہری و باطنی سے پُر کیا جائے گا اور وہ تین کو چار کرنے والا ہوگا (اس کے معنے سمجھ نہیں آئے) دوشنبہ ہے مبارک دوشنبہ۔ فرزند دلبند گرامی ارجمند۔ مظہرالاول والآخر۔ مظہرالحق و العلاء کَاَنَّ اللّٰہَ نَزَلَ مِنَ السَّمَآءِ۔ جس کا نزول بہت مبارک اور جلال الٰہی کے ظہور کا موجب ہوگا۔ نور آتا ہے نور جس کو خدا نے اپنی رضامندی کے عطر سے ممسوح کیا۔ ہم اس میں اپنی روح ڈالیں گے۔ اور خدا کا سایہ اس کے سر پر ہوگا۔ وہ جلد جلد بڑھے گا اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا اور زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔ تب اپنے نفسی نقطہ آسمان کی طرف اٹھایا جائے گا۔ وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا۔ ‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۲۵)
دولڑکوں کے پیدا ہونے کی پیشگوئی
قبل اس کے کہ میں اپنے مضمون کی تفصیلات میں جاؤں یہ بیان کر دینا ضروری ہے کہ اشتہار ۲۰؍ فروری ۱۸۸۶ء میں سے جو الہامی عبارت میں نے پیش کی ہے اس میں صرف مصلح موعود کے پیدا ہونے کی پیشگوئی نہیں بلکہ مصلح موعود سے پہلے ایک اور لڑکے ’’بشیر‘‘ کے پیدا ہونے کی بھی پیشگوئی ہے۔ یعنی دراصل پیشگوئی دو لڑکوں کی پیدائش کی ہے۔ مگر بظاہر ایک ہی لڑکے کی پیدائش کی پیشگوئی معلوم ہوتی ہے۔ اس میں ایک حکمت ہے جو میں آگے چل کر بیان کروں گا۔ ان شاء اللہ۔ اس امر کا ثبوت کہ در اصل اس الہامی عبارت میں دو لڑکوں کی پیدائش کی پیشگوئی ہے، یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام تحریر فرماتے ہیں :
الف۔’’خدا تعالیٰ نے مجھ پر یہ بھی ظاہر کیا کہ ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کی پیشگوئی حقیقت میں دو سعید لڑکوں کے پیدا ہونے پر مشتمل تھی اور اس عبارت تک کہ مبارک وہ جو آسمان سے آتا ہے پہلے بشیر کی نسبت پیشگوئی ہے کہ جو روحانی طور پر نزول رحمت کا موجب ہوا اور اِس کے بعد کی عبارت دوسرے بشیر کی نسبت ہے‘‘۔ (سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد ۲، صفحہ ۴۶۳ حاشیہ )
ب۔ ’’مصلح موعود کے حق میں جو پیشگوئی ہے وہ اس عبارت سے شروع ہوتی ہے کہ اس کے ساتھ فضل ہے جو اُس کے آنے کے ساتھ آئےگا پس مصلح موعود کا نام الہامی عبارت میں فضل رکھا گیا‘‘۔ (سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد ۲، صفحہ ۴۶۷ حاشیہ )
پیشگوئی کی مزید تفصیل
اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کے شائع ہونے کے بعد معاندین نے اعتراض کیا کہ اس پیشگوئی میں محض لڑکا ہونے کی پیشگوئی کردی گئی ہے مگر کوئی میعاد نہیں بتائی گئی۔ نیز یہ کہ لڑکا پہلے ہی گھر میں پیدا ہوچکا ہے۔ اب یہ پیشگوئی شائع کر کے اس لڑکے کا پیدا ہونا ظاہر کریں گے اور کہہ دیں گے کہ دیکھو پیشگوئی پوری ہوگئی۔ اس کے جواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اشتہار ۲۲؍مارچ ۱۸۸۶ء شائع فرمایا۔ جس میں تحریر فرماتے ہیں:’’عام اشتہار دیتے ہیں کہ ابھی تک جو ۲۲؍مارچ ۱۸۸۶ء ہے۔ ہمارے گھر میں کوئی لڑکا بجز پہلے دو لڑکوں کے جن کی عمر ۲۰، ۲۲ سال سے زیادہ ہے، پیدا نہیں ہوا، لیکن ہم جانتے ہیں کہ ایسا لڑکا بموجب وعدہ الٰہی ۹؍برس کے عرصہ تک ضرور پیدا ہوگا خواہ جلد ہو خواہ دیر سے۔بہر حال اس عرصہ کے اندر پیدا ہوجائے گا۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ ۱۲۸)
اس عبارت میں صاف طور پر مصلح موعود کے پیدا ہونے کے لیے ۹؍برس کی میعاد بتائی گئی ہے مگر اس پر جب مخالفین نے اعتراض کیا کہ یہ میعاد لمبی ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنے اشتہار بعنوان ’اشتہار صداقت آثار‘مورخہ ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء میں اس کا یہ جواب دیا: ’’واضح ہو کہ اس خاکسار کے اشتہار ۲۲؍مارچ ۱۸۸۶ء پر بعض صاحبوں نے جیسے منشی اندرمن صاحب مراد آبادی نے یہ نکتہ چینی کی ہے کہ نو برس کی حد جو پسرِ موعود کے لیے بیان کی گئی ہے، یہ بڑی گنجائش کی جگہ ہے۔ ایسی لمبی میعاد تک تو کوئی نہ کوئی لڑکا پیدا ہو سکتا ہے۔ سواوّل تو اس کے جواب میں یہ واضح ہو کہ جن صفات خاصہ کے ساتھ لڑکے کی بشارت دی گئی ہے۔ کسی لمبی میعاد سے گونوبرس سے بھی دو چند ہوتی اس کی عظمت اور شان میں کچھ فرق نہیں آسکتا۔ …ماسواء اس کے اب بعد اشاعت اشتہار مندرجہ بالا دوبارہ اس امر کے انکشاف کے لیے جناب الٰہی میں توجہ کی گئی تو آج آٹھ اپریل ۱۸۸۶ء میں اللہ جَلَّ شَانَہُ کی طرف سے اس عاجز پر اس قدر کھل گیا کہ ایک لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدّت حمل سے تجاوز نہیں کر سکتا اس سے ظاہر ہے کہ غالباً ایک لڑکا ابھی ہونے والا ہے یا بالضرور اس کے قریب حمل میں، لیکن یہ ظاہر نہیں کیا گیا جو اَبْ پیدا ہوگا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا اور پھر بعد اس کے یہ بھی الہام ہوا کہ انہوں نے کہا کہ آنے والا یہی ہے یا ہم دوسرے کی راہ تکیں۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۱۳۲، ۱۳۳)
پھر حضورؑ اپنے اشتہار ’’محک اخیار و اشرار‘‘میں تحریر فرماتے ہیں: ’’نہیں دیکھتے کہ اشتہار ۲۲؍ مارچ ۱۸۸۶ء میں صاف صاف تولدِ فرزند موصوف کے لیے نو برس کی میعاد لکھی گئی ہے اور اشتہار ۱؍اپریل ۱۸۸۶ء میں کسی برس یا مہینے کا ذکر نہیں اور نہ اس میں یہ ذکر ہے جو نو برس کی میعاد رکھی گئی تھی اب وہ منسوخ ہو گئی ہے۔… نو برس کے عرصہ تک تو خود اپنے زندہ رہنے کا ہی حال معلوم نہیں اور نہ یہ معلوم کہ اس عرصہ تک کسی قسم کی اولاد خواہ نخواہ پیدا ہو گی چہ جائیکہ لڑکا پیدا ہونے پر کسی اٹکل سے قطع اور یقین کیا جائے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۱۴۲ اور ۱۴۶ )
نو سالہ میعاد منسوخ نہیں ہوئی
اشتہار ۲۲؍مارچ کے شائع ہونے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ہاں ایک لڑکی ’عصمت ‘ نامی پیدا ہوئی اور اس کے ساتھ کے حمل میں مطابق پیشگوئی ۲۲؍مارچ ۱۸۸۶ء لڑکا پیدا ہواجس کا نام بشیر رکھا گیا جو بشیر اول کے نام سے مشہور ہے۔ نومبر ۱۸۸۸ء میں وہ لڑکا چند ماہ کی عمر میں ہی فوت ہوگیا۔ جس پر مخالفین نے شور مچایا کہ گویا نعوذ باللہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی پیشگوئی متعلقہ ’’مصلح موعود‘‘ غلط نکلی اور یہ کہ مصلح موعود بغیر عمر پانے کے فوت ہوگیا۔ نیز یہ کہ اب اس کے بعد مصلح موعود کے پیدا ہونے کا احتمال نہیں۔ کیونکہ نو سالہ میعاد تو بشیر اول کے پیدا ہونے تک تھی اور اشتہار ۸؍اپریل کی عبارت سے نوسالہ میعاد منسوخ ہو کر اس کی بجائے’’مدت حمل‘‘ اور قریب مدت مقرر ہو چکی ہے۔
اس وہم کا ازالہ اول تو اشتہار محک اخیار و شرار کی اسی عبارت سے ہوجاتا ہے جو ابھی میں نے پیش کی ہے۔ اور جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تحریر فرمایا ہے کہ ’’اشتہار ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء میں کسی برس یا مہینے کا ذکر نہیں اور نہ اس میں یہ ذکر ہے جو نو برس کی میعاد رکھی گئی تھی اب وہ منسوخ ہو گئی ہے۔‘‘(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۱۴۳)
لیکن اس سے بڑھ کر ثبوت اس امر کا کہ نوسالہ میعاد منسوخ نہیں ہوئی یہ کہ بشیر اول کی وفات کے بعد بھی یکم دسمبر ۱۸۸۸ء کو حضر ت اقدسؑ سبز اشتہارمیں تحریر فرماتے ہیں: ’’یہ مفتری لیکھرام پشاوری ہے جس نے تینوں اشتہار مندرجہ متن اپنے اثبات دعویٰ کی غرض سے اپنے اشتہار میں پیش کی ہیں اور سراسر خیانتوں سے کام لیا ہے مثلاً وہ اشتہار ۸؍اپریل ۱۸۸۶ء کا ذکر کر کے اُس کی یہ عبارت اپنے اشتہار میں لکھتا ہے کہ اس عاجز پر اس قدر کُھل گیا کہ لڑکا بہت ہی قریب ہونے والا ہے جو ایک مدت حمل تک تجاوز نہیں کر سکتا لیکن اس عبارت کا اگلا فقرہ یعنی یہ فقرہ کہ یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اَب پیدا ہو گا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہو گا۔ اس فقرہ کو اُس نے عمداً نہیں لکھا کیونکہ یہ اُس کے مدّعا کو مضر تھا اور اس کے خیال فاسد کو جڑھ سے کا ٹتا تھا۔‘‘(سبز اشتہار، روحانی خزائن جلد ۲، صفحہ ۴۴۷-۴۴۸ حاشیہ )
مولوی محمد علی صاحب اور لیکھرام پشاوری
برادران! حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اس عبارت سے جہاں یہ امر روز روشن کی طرح ثابت ہو جاتا ہے کہ بشیر اول کی پیدائش سے نو سالہ میعاد متعلقہ ولادتِ مصلح موعود منسوخ نہیں ہوئی۔ وہاں ایک اور عجیب نکتہ بھی اس سے معلوم ہوتا ہے اور وہ یہ کہ جس طرح لیکھرام پشاوری نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام کے اشتہار ۸؍ اپریل ۱۸۸۶ء کی اس عبارت کو جس کا اوپر ذکر ہو چکا ہے کانٹ چھانٹ کر نقل کیا تھا اور اگلا فقرہ کہ’’یہ ظاہر نہیں کیا گیا کہ جو اَب پیدا ہوگا یہ وہی لڑکا ہے یا وہ کسی اور وقت میں نو برس کے عرصہ میں پیدا ہوگا‘‘۔ لیکھرام نے ’عمداً‘ نہیں لکھا تھا۔ بعینہٖ اسی طرح اہلِ پیغام کے حضرت امیر جناب مولوی محمد علی صاحب ایم۔اے نے بھی اپنے رسالہ’’المصلح الموعود‘‘ کے صفحہ ۱۷، ۱۸ پر اشتہار ۸ ؍اپریل ۱۸۸۶ء کی بعینہٖ وہی عبارت نقل کی ہے اور لطف یہ ہے کہ انہوں نے بھی لیکھرام کی طرح اگلا فقرہ کہ ’’یہ ظاہر نہیں کیا گیا … الخ‘‘ حذف کرکے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ ۹ سالہ میعاد دراصل پیدائش بشیر اول کے لیے مقرر تھی نہ کہ مصلح موعود کے لیے سچ ہے۔
کند ہم جنس با ہم جنس پرواز
حضرت مسیح موعودؑ کا ایک اور اشتہار
تیسرا ثبوت اس امر کا کہ نو سالہ میعاد دراصل مصلح موعود ہی کے پیدا ہونے کے متعلق تھی نیز یہ کہ وہ ’’مدت مقررہ‘‘ بشیر اول کی پیدائش کے ساتھ منسوخ نہیں ہوئی۔ ایک اور ثبوت یہ ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بشیر اول کی وفات کے بعد یعنی حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ کی پیدائش کے دن جو اشتہار دیتے ہیں اس میں تحریر فرماتے ہیں:
’’خدائے عزوجل نے جیسا کہ اشتہار دہم جولائی ۱۸۸۸ء واشتہار دسمبر ۱۸۸۸ء میں مندرج ہے۔ اپنے لطف و کرم سے وعدہ دیا تھا کہ بشیر اوّل کی وفات کے بعد ایک دوسرا بشیر دیا جائے گا جس کا نام محمود بھی ہوگا اور اس عاجز کو مخاطب کر کے فرمایا تھا کہ وہ اولوا العزم ہوگا اور حسن و احسان میں تیرا نظیر ہوگا۔ وہ قادر ہے جس طور سے چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ سو آج ۱۲؍ جنوری ۱۸۸۹ء میں مطابق ۹ جمادی الاوّل ۳۰۶اھ روز شنبہ میں اس عاجز کے گھر میں بفضلہ تعالیٰ ایک لڑکا پیدا ہوگیا ہے جس کا نام بالفعل محض تفاؤل کے طور پر بشیر اور محمود بھی رکھا گیا ہے اور کامل انکشاف کے بعد پھر اطلاع دی جائے گی۔ مگر ابھی تک مجھ پر یہ نہیں کھلا کہ یہی لڑکا مصلح موعود اور عمر پانے والا ہے یا وہ کوئی اور ہے لیکن میں جانتا ہوں اور محکم یقین سے جانتا ہوں کہ خدا تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق مجھ سے معاملہ کرے گا اور اگر ابھی اس موعود لڑکے کے پیدا ہونے کا وقت نہیں آیا تو دوسرے وقت میں وہ ظہور پذیر ہوگا۔ اور اگر مدّت مقررہ سے ایک دن بھی باقی رہ جائے گا تو خدائے عزوجل اس دن کو ختم نہیں کرے گا جب تک اپنے وعدہ کو پورا نہ کرلے۔ مجھے ایک خواب میں اس مصلح موعود کی نسبت زبان پر یہ شعر جاری ہوا تھا۔
اے فخر رُسل قرب تو معلومم شد
دیر آمدهٔ زِ راهِ دُور آمدهٔ
ترجمہ۔ اے فخر رسل مجھے تیرے قرب الٰہی کا (بلند مرتبہ) معلوم ہو گیا ہے، تو اس لیے دیر سے پہنچا ہے کہ بہت دور سے آیا ہے۔
پس اگر حضرت باری جل شانہ کے ارادہ میں دیر سے مراد اسی قدر دیر ہے جو اس پسر کے پیدا ہونے میں جس کا نام بطور تفاؤل بشير الدين محمود رکھا گیا ہے ظہور میں آئی تو تعجب نہیں کہ یہی لڑکا موعود لڑکا ہو۔ ورنہ وہ بفضلہ تعالیٰ دوسرے وقت پر آئے گا‘‘۔(مجموعہ اشتہارات جلد اول صفحہ۲۰۷-۲۰۸ حاشیہ)
اس عبارت میں بھی حضرت اقدس نے مصلح موعود کی پیدائش کے لیے ’’مدت مقررہ‘‘ کا جملہ استعمال فرمایا ہے۔ جو اس بات کا قطعی ثبوت ہے کہ وفات بشیر اول کے بعد تک وہ میعاد مقررہ (۹ سال) برقرار تھی۔ وھذا ھو المراد ان عبارات سے ثابت ہوا کہ مصلح موعود کی پیدائش کے لیے ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء سے لے کر ۲۰؍فروری ۱۸۹۴ء تک نو سال کی میعاد مقرر تھی۔ لہٰذا جو شخص ۲۰؍ فروری ۱۸۹۴ء کے بعد پیدا ہو وہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کی پیشگوئی متعلقہ مصلح موعود کا مصداق نہیں ہوسکتا اور کسی کا حق نہیں کہ لیکھرامی عادت کے ماتحت ۹ سالہ میعاد کو منسوخ یا حذف قرار دے کر ولادت مصلح موعود کے تین صدیوں کی میعاد مقرر کرے۔(مرسلہ: حصور احمد ایقان، متعلم جامعہ احمدیہ کینیڈا)
(ملک عبد الرحمٰن خادم صاحب مرحوم)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعودؓ کی یاد میں