خطباتِ محمود جلد نہم
(خطباتِ جمعہ فرمودہ ۱۹۲۵ء ) کا ایک تعارف
میں اس سال کے لئے جماعت کا نصب العین تبلیغ تجویز کرتا ہوں اور اپنے تمام ساتھیوں اور دوستوں کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں تا خدا کے فضل کے ماتحت پوری سعی اور کوشش سے اس کے دین کو دنیا کے کناروں تک پہنچایا جائے(حضرت مصلح موعودؓ)
سال ۱۹۲۵ء میں حضرت مصلح موعودؓ کے ارشاد فرمودہ خطباتِ جمعہ کی تلاش ہمیں خطبات محمود جلد نہم مرتب کردہ فضلِ عمر فاؤنڈیشن تک لے جاتی ہے۔ اس سال کے خطبات جمعہ کی فہرست مضامین کو دیکھنے سے ۱۹۲۵ء کے دوران حضرت مصلح موعودؓ کی جانب سے ارشاد فرمودہ بصیرت افروز خطباتِ جمعہ کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ شائع شدہ خطبات کی تعداد۴۴ جو ۳۹۸ صفحات پر مشتمل ہیں جبکہ جلد نہم کے صفحات کی کل تعداد ۴۱۳ ہے۔ شروع میں پیش لفظ اور فہرست مضامین جبکہ آخر پر اشاریہ بھی شاملِ اشاعت ہے جسے مکرم مولانا سلطان احمد صاحب پیر کوٹی صاحب نے مرتب کیا ہے۔
دوران سال حضور ؓنے عمومی موضوعات پر بھی خطبات دیے جن میں تعلیم و تربیت سرفہرست ہے۔ اس کے علاوہ تربیتِ اولاد، حفاظتِ ایمان، رمضان المبارک، قربانی، اخلاق کی درستی، اخلاقِ فاضلہ کا حصول، تبلیغ بھی شامل ہیں۔ حضرت مسیح موعودؑ کے کارناموں پر پانچ خطبات کا سلسلہ بھی اس جلد میں شامل ہے۔ فقہی مسائل کے علاوہ بلائے دمشق کے الہام کا ظہور اور مقاماتِ مقدسہ کی توہین پر بھی حضور ؓنے اپنا موقف احسن پیرائے میں پیش فرمایا۔
آئیےاس جلد میں سے چند اقتباسات ملاحظہ کرتے ہیں۔
نئے سال کا نصب العین
۲؍جنوری ۱۹۲۵ء کے خطبہ میں نئے سال کا نصب العین بیان کرتےہوئے فرماتے ہیں کہ ’’ہر سال اپنے ساتھ نئے کام لاتا ہے اور انسان کو ہر سال ایک نیا نصب العین اپنے لئے مقرر کرنا پڑتا ہے۔ اس لئے ہمیں بھی اس نئے سال کے لئے ایک نیا نصب العین مقرر کرنا چاہیے۔ گذشتہ سالوں میں جہاں تک ہم نے اپنے لئے نصب العین مقرر کئے اور جہاں تک ان میں ہمیں کامیابی ہوئی خدا تعالیٰ بہتر جانتا ہے۔ پچھلے سالوں میں تو میرا یہ طریقہ رہا ہے کہ میں خود کوئی نہ کوئی آئندہ سال کے لئے نصب العین مقرر کرتا تھا۔ مگر آج میں وہ بات کہتا ہوں جو مجھے کہی گئی ہے اور وہ یہ ہے کہ ہمارا ربّ یہ چاہتا ہے کہ ہم بار بار اور دُور دور ملکوں میں خدا تعالیٰ کے سچے اور سلامتی کے دین کو دنیا کے کناروں تک پہنچا دیں۔ ہمارے ربّ نے یہ ارشاد کیا ہے۔ گو وہ ہمیشہ کے لئے ہے مگر اس کی حکمت یہی چاہتی ہے کہ اس کو اس سال کے لئے ہم اپنا نصب العین مقرر کریں کہ ہم اس کی سچی اور پاک تعلیم کو بار بار دنیا کے گوشے گوشے میں پہنچا دیں اور کسی انسان سے نہ ڈریں۔ یہی حکم اس پیدا کرنے والے نے ہمیں دیا ہے۔‘‘(خطبات محمود جلد نہم صفحہ ۳)
پھر فرمایا کہ ’’میں اس سال کے لئے جماعت کا نصب العین تبلیغ تجویز کرتا ہوں اور اپنے تمام ساتھیوں اور دوستوں کو اس کی طرف توجہ دلاتا ہوں تا خدا کے فضل کے ماتحت پوری سعی اور کوشش سے اس کے دین کو دنیا کے کناروں تک پہنچایا جائے اور مجھے جو خدا نے بار بار تبلیغ کی ضرورت کی طرف توجہ دلائی ہے تو اس میں حکمت ہے…ہر ایک کو مبلغ بن کر تبلیغ کی پوری کوشش کرنی چاہیے۔ خواہ وہ عالم ہو یا غیر پڑھا ہو۔ جہاں تک بھی اس کو علم ہو اور اسے واقفیت حاصل کرنی چاہیے وہ خدا کی تعلیم اور اس کی ہدایات کو دنیا تک پہنچائے تا خدا کا جلال ظاہر ہو اور لوگ اخلاص سے اس کی بادشاہت کو تسلیم کریں۔(خطبات محمود جلد نہم صفحہ ۴)
اسلامی تعلیم
خطبہ جمعہ ۹؍جنوری میں حضرت مصلح موعودؓ نے اس امر کی طرف متوجہ فرمایا کہ مذہب کی غرض اور مذہب کا مقصد ان فوائد اور ان مقاصد کا حصول ہے جس کے لئے وہ مذہب جاری ہوا۔ پھر آپؓ نے وضاحت فرمائی کہ ’’اگر ایک مسلمان اور کافر خدا سے دور ہیں تو خدا سے دوری کے لحاظ سے دونوں برابر ہیں۔ صرف کافر کیوں جہنم میں جائیں گے۔ پھر آپؓ نے اسلام کی تعلیم پر اٹھنے والے سوالات کا جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ
لوگ تو اس بات پر زور دیتے ہیں کہ مسلمان پانچ وقتہ نماز کی وجہ سے تجارت وغیرہ کاموں میں کمزور ہو گئے ہیں۔ اول تو مسلمان پانچ و قتہ نماز پڑھتے ہی کہاں ہیں۔ مگر میں کہتا ہوں مسلمان ذلیل ہی اس لئے ہوئے ہیں کہ انہوں نے پانچ وقتہ نماز کو ترک کر دیا ہے۔ دین کا کوئی حکم بھی ایسا نہیں جس پر چل کر انسان نقصان اٹھائے۔ بلکہ ان پر نہ چلنے سے انسان نقصان اٹھاتا ہے۔ ایسی ایسی باتیں اگر ہماری جماعت میں بھی پائی جائیں اور وہ نماز جیسی ضروری عبادت کے ادا کرنے میں سستی اور غفلت دکھائیں تو ہم غیروں کو کیا جواب دے سکتے ہیں…۔
اسلام بے شک آزادی دیتا ہے مگر اس کو جو اسلام سے علیحدہ ہو کر آزادی چاہتا ہے۔ مگر جو شخص اسلام میں رہ کر اپنے آپ کو ہماری طرف منسوب کرکے بھی اسلامی اصول کی خلاف ورزی کرتا ہے ہم اس کو مجبور کریں گے اور اس کو اسلامی قواعد و اصول کی پابندی کرنی پڑے گی۔ یا وہ اپنے آپ sکو اسلام اور احمدیت کی طرف منسوب نہ کرے۔‘‘(صفحہ ۸ و ۹)
فقہی مسائل
بوجوہ مردوں کو بغیر نہلانے دفنانا جائز امر ہے
ایک دوست نے حضور ؓکو رقعہ لکھا کہ اس کے ایک عزیز کے جنازے پر نفرت کا اظہار کیا گیا اور جنازہ دُور کھڑے ہو کر پڑھا گیا۔ اس بارے میں خطبہ جمعہ ۱۶؍جنوری میں حضورؓ نے پہلے عقل اور جذبات کے برمحل استعمال کو واضح کیا اور فرمایا کہ ’’جس وقت تو انسان کی عقل اور اس کے جذبات مل کر کام کرتے ہیں تب تو انسان نتیجہ میں خوش ہوتا اور راحت پاتا ہے۔… لیکن جس وقت انسان کے جذبات اس کو اور طرف لے جاتے ہیں۔ اور اس کی عقل اس کو اور طرف کھینچتی ہے اس وقت انسان دکھ اٹھاتا اور تکلیف پاتا ہے۔ …
بعض اور حالات ایسے ہوتے ہیں کہ جہاں جذبات کا اظہار سخت تکلیف دہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ جنگی موقعوں پر اگر مردوں کو نہلایا کفنایا جائے تو بہت بڑے خطرے ہیں۔ یکدم بیسیوں آدمی مر جاتے ہیں۔ اگر لوگ ان کے کفن اور نہلانے وغیرہ میں لگ جائیں تو بیسیوں زخمی جو خبر گیری سے بچ سکتے ہیں یا ان کی تکلیف کم ہو سکتی ہے وہ بھی سخت تکلیف کے ساتھ جان دیدیں اور پھر خطرہ ہے کہ دشمن یہ مصروفیت دیکھ کر حملہ کر دے تو جان اور ملک دونوں کا نقصان ہو۔ چونکہ اس وقت جذبات کا اظہار مردوں کو کچھ فائدہ نہیں پہنچا سکتا بلکہ بر خلاف اس کے زندوں کا اس میں سخت نقصان ہے۔ اس لئے ایسے موقع پر جذبات کو دبانا ہی ضروری ہے۔ گو انسانی جذبات یہ چاہتے ہیں کہ مرنے والوں کا اعزاز اور اکرام ہو اور عمدگی کے ساتھ نہلا دھلا کر اور کفن دے کر دفنایا جائے۔ مگر عقل کہتی ہے کہ اس میں مردوں کا تو کوئی فائدہ نہیں مگر ملک کا اور زندوں کا سخت نقصان ہے۔ اس لئے شریعت کا یہ حکم ہے کہ وہ جس حالت میں ہیں ان کو دفن کر دو۔ الگ الگ قبر بنانے کی بھی ضرورت نہیں۔ بظاہر یہ بات طبیعت پر بہت گراں گزرتی ہے۔ لیکن اگر انسان سوچے تو حقیقت کچھ نہیں۔ کیونکہ مردے کو نہلانا یا کفن پہنانا ایک عارضی صفائی ہوتی ہے۔ چند دنوں کے بعد سب کچھ مٹی ہو جاتا ہے۔ قبر درمیان میں ایک پردہ ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے مردہ کی بعد کی حالت نظر سے مخفی رہتی ہے۔ یہ صرف جذبات ہیں جو ان امور کی طرف انسان کو جھکا دیتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد حضورؓ نے طاعون سے مرنے والے کے متعلق فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اسی طاعون کی اموات کے متعلق فرمایا ہے کہ ایسی میتوں کو بغیر غسل اور کفن کے دفن کر دیا جائے اور جنازہ بھی فاصلہ پر کھڑے ہو کر ادا کیا جائے۔‘‘
اس کے بعد حضور ؓنے نصیحت فرمائی کہ ’’پھر میں اپنے دوستوں کو نصیحت کرتا ہوں کہ ہماری جماعت کو محبت اخلاص اور ہمدردی کو بڑھانا چاہیے اور ایک دوسرے کے لئے دعائیں کرنی چاہئیں۔ اور اگر کوئی بھائی قضا الٰہی سے کسی تکلیف میں مبتلا ہو جائے تو اس کی پوری پوری ہمدردی کریں بعض ایسے بھی مصیبت زدہ ہوتے ہیں کہ ان کا کوئی بھی خبر گیر نہیں ہوتا۔ حضرت مسیح موعود ؑکا ایک شعر ہے۔
بے خدا کوئی بھی ساتھی نہیں تکلیف کے وقت
اپنا سایہ بھی اندھیرے میں جدا ہوتا ہے
پس خصوصیت کے ساتھ مصیبت اور تکلیف کے وقت عقل اور فہم کے مطابق اپنے بھائی کی تکلیف کے رفع کرنے کے لئے ہر ممکن کوشش کرنی چاہیے۔ ہمدردی ایثار اور محبت کا قابل قدر نمونہ دکھانا چاہیے تا جذبات کے اظہار کا اصل مقصد حاصل ہو اور تعلقات قائم ہوں۔‘‘ (صفحہ ۱۶ تا ۲۰)
خوب محنت اور باہم تعاون کو اپنا شعار بنائیں
حضرت مصلح موعودؓ نے ۶؍فروری کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’میں نے دوستوں کو اور احباب کو اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے کہ وہ نکمّے نہ رہا کریں۔ کچھ کام کیا کریں اور یہ کہ سوال نہ کیا کریں اور نہ حالت سوال والی بنایا کریں کہ جس سے لوگ ان کو دکھ میں دیکھ کر مجبور ہو جائیں کہ ان کی مدد کریں۔ …
میں افسروں کو توجہ دلاتا ہوں کہ محنت سے کام کریں۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان لوگوں کے لئے کام کا مہیا کرنا ضروری ہے جس پر ان کو لگایا جائے۔ لیکن یہ کام نہ میں کر سکتا ہوں اور نہ محکمہ کر سکتا ہے۔ بلکہ یہ کام جماعت کا ہے۔ مختلف پیشے کرنے والے اور جاننے والے جماعت میں موجود ہیں۔ (نجار ہیں۔ سنار ہیں۔ لوہار ہیں) یہ دو سروں کو کام سکھا سکتے ہیں۔ یا کام کی جگہ نکال سکتے ہیں۔ یا بڑی بڑی منڈیوں میں کاموں کی بعضوں کو واقفیت ہوتی ہے۔ یا ایسے پیشے جن کو معلوم ہوں کہ جو قادیان میں رہتے ہیں وہ یہاں رہ کر بھی ان کے ذریعے کما سکیں تو وہ ان علوم اور ہنروں اور پیشوں سے مجھ کو یا امور عامہ کو اطلاع دیں۔ اور جن کوپیشے اور ہنر آتے ہیں وہ دوسروں کو سکھائیں۔ … تیسرے جو ملازم ہیں اور محکمہ جات میں رسوخ رکھتے ہیں وہ اپنی جماعت کے بیکاروں کے لئے کام نکالیں۔ پہلے بھی میں نے اس امر کی طرف توجہ دلائی ہے۔ بعض مسلمان جو کسی عہدہ پر ہوتے ہیں اور ان کو رسوخ حاصل ہوتا ہے وہ مسلمان کے لئے ملازمت کی کوئی جگہ اس لئے نہیں نکالتے کہ لوگ ان کو متعصب کہیں گے۔ حالانکہ ایسا خیال کرنا ان کی بیوقوفی ہے۔ اپنی قوم کی جو شخص مدد نہیں کرتا وہ انسان کہلانے کا بھی مستحق نہیں۔ اس لئے ہماری جماعت کے ملازمین کو اس طرف خاص توجہ کرنی چاہیے۔‘‘(صفحہ۲۸و۳۲)
اسی سال لڑکی کے والدین کو اپنا مہر دینے سے متعلق حضورؓنے تفصیل بیان کرتے ہوئے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۴؍جولائی کے میں فرمایا کہ ’’ہاں اگر عورت کو مہر مل جائے۔ اور اس پر چار پانچ سال ہو گئے ہوں۔ یا کم از کم ایک سال تک اس کے پاس روپیہ رہ چکا ہو تو پھر اگر وہ اسے اپنے خاوند کو یا ماں باپ کو دے دے۔ تو میں کہوں گا درست ہے اور پسندیدہ۔ اگر کسی عورت کا مہر ایک ہزار ہو اور اسے خاوند ایک لاکھ اپنی طرف سے دے دے تو میں کہتا ہوں وہ عورت اگر گھر بار کی ضروریات اور حالات سے واقف ہونے کے بعد ایک لاکھ ایک ہزار روپیہ بھی ماں باپ کو دے دے تو میں کہوں گا اس نے بہت اچھا کیا۔ لیکن اگر ماں باپ شادی کے وقت ہی لیتے ہیں تو بردہ فروشی ہے جو گناہ ہے۔ لیکن جو عورت شادی کے بعد ماں باپ کی مدد کرے گی اور اپنی ضروریات کو سمجھتے ہوئے مہر کی رقم ہی نہیں بلکہ اس سے بھی زیادہ ماں باپ کو دے گی وہ خدا تعالیٰ کی مقبول ہو گی۔ رسول کریم ﷺ کی بھی مقبول ہو گی اور وہ ماں باپ کی خدمت کا نیک نمونہ پیش کرے گی۔(صفحہ ۲۱۸)
تبلیغ
۱۳؍فروری کے خطبہ جمعہ میں فرمایا: ’’اگر دیکھا جائے تو جو لوگ کہ سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں۔ وہ بھی اکثر ایسے لوگ ہیں جو ہماری کوشش سے سلسلہ میں داخل نہیں ہوئے۔ بہت ہیں جو خوابوں کے ذریعے داخل ہوئے اور بہت ہیں جو پہلے بزرگوں کی حضرت مسیح موعودؑ کے متعلق باتیں سن کر ایمان لائے اور سلسلہ میں داخل ہوئے اور بہت ہیں جنہوں نے حضرت صاحبؑ کے نشانات دیکھے اور بہت ایسے ہیں کہ جنہوں نے حضرت صاحبؑ کی تائید میں نشان دیکھے اور وہ سلسلہ میں داخل ہوئے ہیں۔ اگر اس موجودہ رفتار سے لوگ سلسلہ میں داخل ہوتے رہے تو کہیں دس ہزار سال میں جا کر ہم دنیا کو اپنے سلسلہ میں داخل کر سکتے ہیں۔ کون کہہ سکتا ہے کہ اس سلسلہ کو اتنی لمبی زندگی بھی میسر آئے گی۔‘‘(صفحہ۳۵)
پھر فرمایا: ’’میں نے بارہا جماعت کو اور جماعت کے افسروں اور کارکنوں کو توجہ دلائی ہے۔ کہ وہ اپنے فرض کو اور کام کی نزاکت کو سمجھیں۔ مگر مجھے افسوس ہے کہ باوجود میرے بار بار توجہ دلانے کے بھی بہت کم ہیں جنہوں نے اس طرف توجہ کی اور مجھے افسوس ہے کہ جو متوجہ ہوئے ہیں انہوں نے بھی جو توجہ کا حق ہے ویسی توجہ نہیں کی۔ اور ان میں سے بھی بہت کم ہیں جنہوں نے اس بات کو سمجھا ہو کہ اپنی طاقتوں کو اس راہ میں کس طرح خرچ کرنا چاہیے۔ میرے نزدیک اس لحاظ سے سو سوا سو سے زیادہ آدمی نہیں جو حقیقی طور پر تبلیغ کا کام سرانجام دیتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ سلسلہ میں داخل ہونے والوں کی رفتار اس قدرسست ہے۔ حالانکہ جماعت خدا کے فضل سے لاکھوں کی تعداد میں ہے۔
یہ کس طرح ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک احمدی سال بھر برابر کوشش کرتا رہے اور وہ سال بھر میں ایک بھی احمدی نہ بناسکے۔‘‘(صفحہ۳۶۔۳۷)
پھر حضور نے عمومی طور پر احبابِ جماعت کو توجہ دلائی کہ ’’اس لئے میں ان لوگوں کو جو خطبہ سنتے ہیں اور یہاں حاضر ہیں۔ اور ان کو بھی جن تک یہ خطبہ پہنچے اس امر کی طرف توجہ دلاتا ہوں کہ وہ آج دل میں وعدہ کر لیں کہ اشاعت سلسلہ میں وہ ہمہ تن مشغول ہو جائیں گے۔ اور اس فرض کو محسوس کر کے اپنی زندگیوں کو دین کے لئے وقف کریں گے۔ اس کے بعد میں ان لوگوں کو بھی توجہ دلاتا ہوں جن کے سپرد کام کا کوئی حصہ کیا گیا ہے کہ آج سے وہ پوری محنت اور کوشش سے کام کریں۔ تمام افسروں اور سیکرٹریوں اور امیروں کا فرض ہے کہ وہ ایک نظام کے ماتحت کام کی سکیم تیار کریں اور پھر لوگوں سے اس کام کو پورا کرائیں۔‘‘ (صفحہ۴۱)
حضرت مسیح موعودؑ کے الہام بلائے دمشق کا ظہور
حضرت مصلح موعودؓ نے خطبہ جمعہ ۱۳؍نومبر میں بلائے دمشق کے الہام کے ظہور کے متعلق تفصیل سے بیان فرمایا۔ بغداد کے مقابل دمشق کی تاریخ کے عروج و زوال کو بیان کرکے اس کی اہمیت کو اجاگر فرمایا۔ حضرت مسیح موعودؑ سے دمشق کی نسبت پیشگوئیوں کا ذکر فرمایا۔ یدعون لک ابدال الشام کا ذکر کرکے فرمایا کہ ’’شام کے ابدال تیرے لئے دعائیں کرتے ہیں۔ یہ الہام بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے کہ مسیح موعودؑ کے ذریعے ملک شام کی تباہی کے بعد ایک ایسی ترقی اور آبادی ہوگی جو پہلے سے زیادہ بڑھ چڑھ کر ہوگی اور جسے دیکھ کر ہر کس و ناکس کے منہ سے بالعموم اور خواص و ابدال کے منہ سے بالخصوص اس کے لئے اس کے کاموں کے لئے اس کے احسانوں کے لئے دعائیں نکلیں گی۔(صفحہ ۳۲۶)
دوسری جانب حضورؓ نے فرمایا کہ پس میں جہاں اس بات پر خوشی کا اظہار کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کو ظاہر فرمایا اور اپنے اس کلام کو پورا فرمایا۔ جو تقریباً ۲۵سال آج سے پہلے حضرت مسیح موعود علیہ السلام پر نازل کیا تھا۔ وہاں میں اس ظلم کے لئے جو شام پر کیا گیا شام سے دلی ہمدردی رکھتا ہوں۔ شام والے مظلوم ہیں اور ان کی وفاداریوں اور جانبازیوں کا اچھا صلہ ان کو نہیں دیا گیا۔ انہوں نے اپنی جانیں دے کر اتحادیوں کو فتح دلانے کی کوشش کی مگر جب ان کی باری آئی تو بجائے حسن سلوک کے ان پر ظلم کیا گیا۔ ان کی جانیں تباہ کی گئیں۔ ان کا ملک ویران کیا گیا۔ ان کے مال برباد کئے گئے۔ پس وہ مظلوم ہیں اور میں ان مظلوموں کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہوں۔(صفحہ ۳۳۶)
مقامات مقدسہ کی توہین پر موقف
مدینہ میں نجدیوں اور شریفیوں کی لڑائی میں مقاماتِ مقدسہ کو نقصان پہنچا تو حضورؓ نے اس امر کو بالائے طاق رکھتے ہوئے کہ دوسرے مسلمان ہمارے موقف کو اچھا سمجھیں یا برا اپنا موقف پیش فرمایا:’’میں یہ نہیں کہتا کہ مدینہ پر چڑھائی ہو ہی نہیں سکتی۔ چڑھائی تو ہو سکتی ہے لیکن اس طرح نہیں کہ مقدس مقامات کے احترام کا خیال نہ رکھا جائے۔ جن سے مسلمانوں کی مقدس روایات وابستہ ہیں۔ وہاں اس صورت میں چڑھائی ہوسکتی ہے جب کہ وہاں کے لوگ جس کے ماتحت ہوں اس کے خلاف بغاوت کریں۔ میرے نزدیک اس صورت میں اسلامی احکام کی رو سے جائز ہے کہ وہ حملہ کر دے لیکن ایسے حملے میں بھی ان باتوں کو ضروری طور پر ملحوظ رکھنا پڑے گا کہ اس قسم کی عمارات اور دیگر آثار کو نقصان نہ پہنچے مگر اہل مدینہ نجدیوں کے ماتحت نہیں تھے جن پر حملہ کیا گیا ہے اور پھر اس میں اس قدر بے احتیاطی اور لاپرواہی دکھائی گئی ہے۔
ان نجدیوں سے تو ترک ہی ہزار درجہ بہتر تھے۔ انہوں نے جب شریف کے بغاوت کرنے کی وجہ سے مکہ پر گولہ باری کی اور ایک گولہ حرم کے قریب جا گرا اور اس کے پردے کو آگ لگ گئی تو اس پر انہوں نے فی الفور ہتھیار ڈال دیئے اور کہہ دیا کہ ہم حملہ نہیں کرتے۔ تم ہی قابض رہو لیکن نجدیوں نے جو حملہ کیا وہ نا معقول سے نامعقول آدمی کے نزدیک بھی کوئی عمدہ کام نہیں اور پھر ان کی اس گولہ باری کو دیکھ کر جس سے مقامات مقدسہ، مسجد نبوی مسجد و مزار سیدنا حمزہؓ اور پھر سب سے بڑھ کر آنحضرت ﷺ کے روضہ مبارک کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کوئی شخص نہیں جو انہیں اچھا سمجھ سکے یا ان کے حملے کو مناسب خیال کرے۔ پس نجدیوں کے حملے نے ایک نازک حالت پیدا کر دی ہے۔‘‘(صفحہ ۲۵۲)
پھر فرمایا کہ ’’ہمارے پاس کوئی طاقت نہیں جس سے ہم نجدیوں کے ہاتھ روک سکیں ہاں ہمارے پاس سهام اللیل ہیں۔ پس میں نصیحت کرتا ہوں کہ رسول کریم ﷺ کے مزار مقدس اور مسجد نبویؐ اور دوسرے مقامات کو اس ہتھیار سے بچائیں۔ ہماری جماعت کے لوگ راتوں کو اٹھیں اور اس بادشاہوں کے بادشاہ کے آگے سر کو خاک پر رکھیں۔ جو ہر قسم کی طاقتیں رکھتا ہے اور عرض کریں کہ وہ ان مقامات کو اپنے فضل کے ساتھ بچائے۔ دن کو گڑگڑائیں تاکہ خدا تعالیٰ ان لوگوں کو اس بات کی سمجھ عطا فرمائے کہ ان کے انہدام سے ہاتھ کھینچ لیں کیونکہ ان کے ساتھ روایات اسلامی کا تعلق ہے۔
عمارتیں گرتی ہیں اور ان کا کوئی اثر نہیں ہوتا لیکن ان عمارتوں کے ساتھ اسلام کی روایات وابستہ ہیں۔ پس ہمیں دن کو بھی اور رات کو بھی۔ سوتے بھی اور جاگتے بھی دعائیں کرنی چاہئیں کہ خدا تعالیٰ اپنی طاقتوں سے اور اپنی صفات کے ذریعے ان کو محفوظ رکھے اور ہر قسم کے نقصان سے بچائے۔
میں یہ بھی نصیحت کرتا ہوں کہ تفرقہ اور نفاق سے بچو۔ دیکھو تفرقہ اور نفاق کس قدر نقصان پیدا کر دیتا ہے۔ یہ بغض کا ہی نتیجہ ہے ورنہ نجدی اگر بغض میں نہ ہوتے اور لڑ نہ رہے ہوتے تو وہ بھی کبھی اس بات کو نہ دیکھ سکتے کہ رسول کریم ﷺ کے روضے کی اس طرح تو ہین ہو ان کے دل میں رسول کریم ﷺ کی محبت تو ہے لیکن وہ اس بغض کے نیچے دب گئی ہے۔ دیکھو ایسا نہ ہو تم میں سے بھی کسی شخص کی محبت بغض کے نیچے دب جائے۔ اپنے غصوں کو دباؤ۔ غضب کو پیدا نہ ہونے دو۔ بغضوں سے دلوں کو خالی کردو اور اپنی ہر حرکت و سکون شریعت کے ماتحت رکھو اور تمہاری روحانیت تمام جوشوں پر اور تمام غصوں پر غالب رہے تا ہم سب خدا کی حفاظت میں ہوں اور اس کے ناراض کرنے والے کاموں سے بچیں۔ آمین‘‘ (صفحہ ۲۵۷ و ۲۵۸)
ہر شامل جلسہ بھی شعائر اللہ میں سے ہے
حضورؓ نے جلسہ سالانہ قادیان کے متعلق فرمایا کہ ’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اس اجتماع کے متعلق بطور خبر فرمایا تھا
زمین قادیاں اب محترم ہے
ہجوم خلق سے ارض حرم ہے
پس یہ وہ اجتماع ہے جس سے قادیان کی زمین پر اس کثرت سے لوگ آئیں گے۔ جس کثرت سے مکہ مکرمہ آتے ہیں اور یہ کہ ہر سال کثرت سے لوگ آیا کریں گے۔ چنانچہ ہم ہر سال دیکھ رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی یہ بتائی ہوئی خبر جو بطور پیشگوئی ہے ہر لحظہ بڑی صفائی سے پوری ہو رہی ہے اور آئندہ بھی پوری ہوتی رہے گی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے وقت بڑی سے بڑی تعداد جلسے پر آنے والوں کی سات سو ہوئی تھی۔ لیکن اب جس کثرت سے لوگ اس موقع پر آتے ہیں اس سے یہ کہنا پڑتا ہے کہ در حقیقت یہ اس زمانہ کے لئےخبر تھی اور ایک پیشگوئی تھی جسے پورا ہوتے ہوئے ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں۔‘‘(صفحہ ۳۸۹)
پھر حضورؓ نے قادیان والوں کو ان کی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی۔ اور فرمایا کہ ’’ہمارا جلسہ شعائر اللہ ہے بلکہ ہر آنے والا شعائر اللہ ہے اور وَمَنۡ یُّعَظِّمۡ شَعَآئِرَ اللّٰہِ فَاِنَّہَا مِنۡ تَقۡوَی الۡقُلُوۡبِ کے مطابق جو اللہ تعالی کے نشانوں کی عظمت کرتا ہے۔ وہ اپنے تقویٰ کا ثبوت دیتا ہے۔ شعائر اللہ کی عزت اور قدر نہایت ضروری ہے اور سالانہ جلسہ کا موقع ہم میں سے ہر ایک کے تقویٰ کے امتحان کا وقت ہے۔ پس ہمیں چاہئے کہ ہم اس امتحان میں پورے اتریں۔ ہم میں سے ہر ایک کے دل میں مہمانوں کی عزت کے لئے وسعت پیدا ہونی چاہئے اور اگر بر خلاف اس کے انقباض پیدا ہوتا ہے تو سمجھ لو کہ تقویٰ کی کمی ہے۔ ہاں اگر ایسے موقع پر بشاشت پیدا ہو تو سمجھ لو کہ تقویٰ ہے۔‘‘ (صفحہ ۳۹۷۔۳۹۸)
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: فلسطین میں قیامِ امن کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ دو اہم نکات