وہ اسیروں کی رَستگاری کا موجب ہوگا
اس الہام کا مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے موعود بیٹے کی وجہ سے بہت سے اسیر رہائی پائیں گے۔ خاکسار کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس الہام ’’وہ اسیروں کی رَستگاری کا موجب ہوگا‘‘ کا اطلاق حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمات کے متعدد پہلوؤں پر ہوتا ہے۔
غیب کا حقیقی علم صرف اللہ تعالیٰ کو ہے، جیسا کہ خود اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ہُوَ اللّٰہُ الَّذِیۡ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ ۚ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ وَالشَّہَادَۃِ ۚ ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ (الحشر: ۲۳) وہی اللہ ہے جس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ غیب کا جاننے والا ہے اور حاضر کا بھی۔ وہی ہے جو بِن مانگے دینے والا، بے انتہا رحم کرنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اور اسی بنا پر صرف اللہ تعالیٰ ہی کا حق ہے کہ وہ جس غیبی خبر کو چاہے ظاہر کرے اور جتنا چاہے ظاہر کرے۔اور اس کا اظہار سورہ جنّ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ عٰلِمُ الۡغَیۡبِ فَلَا یُظۡہِرُ عَلٰی غَیۡبِہٖۤ اَحَدًا۔ اِلَّا مَنِ ارۡتَضٰی مِنۡ رَّسُوۡلٍ(الجن: ۲۷۔۲۸) وہ غیب کا جاننے والا ہے پس وہ کسی کو اپنے غیب پر غلبہ عطا نہیں کرتا۔ بجز اپنے برگزیدہ رسول کے۔
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو غیب کی بےشمار خبریں بصورت الہامات و پیش خبریاں عطا فرمائیں۔ان میں ’’پیشگوئی مصلح موعود‘‘ ایک عظیم الشان پیشگوئی ہے، جس کے ابتدائی حصہ کا اعلان حضورؑ نے ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء کو ہوشیارپور سے فرمایا تھا۔ (اشتہار ۲۰؍فروری ۱۸۸۶ء، مجموعۂ اشتہارات جلداوّل صفحہ۱۲۱ تا ۱۲۷۔ ایڈیشن۲۰۱۸ء)
اللہ تعالیٰ نے یہ پیشگوئی حضورؑ ،اُمّتِ مسلمہ بلکہ تمام دنیا کے لیے ایک رحمت کے نشان کے طور پر ظاہر فرمائی تھی اور اس کی مندرجہ ذیل سات اغراض تھیں:
۱۔جو زندگی کے خواہاں ہیں موت سے نجات پائیں اور جو قبروں میں دبے پڑے ہیں باہر آئیں۔
۲۔تا دینِ اسلام کا شرف ظاہر ہو اور کلام اللہ کا مرتبہ لوگوں پر ظاہر ہو۔
۳۔تا حق اپنی تمام برکتوں کے ساتھ آجائے اور باطل اپنی تمام نحوستوں کے ساتھ بھاگ جائے۔
۴۔تا لوگ سمجھیں کہ خدا قادر ہے اور وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے۔
۵۔اور تا وہ یقین لائیں کہ خداتعالیٰ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ساتھ ہے۔
۶۔اور تا انہیں جو خدا کے وجود پر ایمان نہیں لاتے اور خدا اور اُس کے دین اور اُس کی کتاب اور اُس کے پاک رسول محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ و سلم کو انکار اور تکذیب کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ایک کھلی نشانی ملے۔
۷۔اور مجرموں کی راہ ظاہر ہوجائے۔
(الموعود، انوارالعلوم جلد ۱۷ صفحہ ۵۲۸۔۵۲۹)
اس پیشگوئی میں عظیم الشان صفات سے متّصف ایک اولوالعزم خادمِ دین بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی۔یہ پیشگوئی حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی صورت میں پوری ہوئی اور آپؓ جماعت میں ’’مصلح موعود‘‘ کے نام سے موسوم ہیں۔پسرِ موعود کے بارہ میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مختلف پیشگوئیوں کو یکجائی طور پر دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ’’مصلح موعود‘‘ کی پہچان کے لیے اللہ تعالیٰ نے باون (۵۲) علامات بیان فرمائیں۔(الموعود، انوار العلوم جلد ۱۷ صفحہ ۵۶۲)
ضمناً یہ عرض کرنا بھی قابلِ ذکر ہوگا کہ حضورؓ نے ایک خطاب میں اٹھاون علامات بھی بتائی تھیں۔(دعویٰ مصلح موعود کے بارہ میں پرشوکت اعلان، انوارالعلوم جلد۱۷صفحہ۱۶۳تا۱۶۷)
اس مضمون میں خاکسار ان علامات میں سے صرف ایک علامت کا ذکر کرنا چاہتا ہے جو حضرت مصلح موعودؓ نے چونتیسویں نمبر پر بیان فرمائی ہے۔ (الموعود، انوار العلوم جلد ۱۷ صفحہ ۵۶۴)
اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو حضرت مصلح موعودؓ کے بارہ میں یہ خبر دی تھی کہ’’وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا‘‘(اشتہار ۲۰ فروری ۱۸۸۶ء، مجموعۂ اشتہارات جلد ۱ صفحہ ۱۲۵۔ ایڈیشن۲۰۱۸ء)
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کی پیدائش ۱۲؍جنوری ۱۸۸۹ء کو قادیان میں ہوئی۔اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو ۱۴؍مارچ ۱۹۱۴ءکو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے خلیفہ ثانی کے منصبِ جلیلہ پر متمکن فرمایا اور آپؓ تقریباً باون(۵۲) سال کی خلافت کے بعد ۸ نومبر ۱۹۶۵ء کوقوموں کو برکت بخشنے کے بعد اپنے نفسی نقطۂ آسمانی کی طرف اٹھائے گئے، وَ كَانَ اَمْرًا مَّقْضِيًّا۔
اس الہام کا مطلب ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے موعود بیٹے کی وجہ سے بہت سے اسیر رہائی پائیں گے۔ خاکسار کے نزدیک حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس الہام ’’وہ اسیروں کی رَستگاری کا موجب ہوگا‘‘ کا اطلاق حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کی خدمات کے متعدد پہلوؤں پر ہوتا ہے۔اس مضمون کے حوالہ سے خاکسار صرف ایک پہلو یعنی قوموں کی رستگاری کے حوالہ سے کچھ کوائف پیش کرنا چاہتا ہے۔
اس الہام میں ایک لفظ ’رستگار‘ کا استعمال کیا گیا ہے۔لغاتِ اردو میں یہ لفظ را کی زبر اور را کی پیش دونوں طرح استعمال ہوا ہے۔ لیکن مشہور ماہرِ لسانیات اور محقق حضرت شیخ محمد احمد صاحب مظہرؓ تحریر فرماتے ہیں کہ’’یہ لفظ رَستگار-را کے زبر سے ہے۔را کے پیش سے اسے ’رُستگار‘ بولنا یا پڑھنا غلط ہے۔ترکیب اس کی یہ ہے۔رَستن: رہا ہونا، نجات پانا۔رست: ماضی۔گار: علامت اسم فائل بمعنی والا یا لائق۔پس رَستگار بمعنی چھوٹنے والا یا چھوٹنے کے لائق۔
رُستن را کی پیش سے بمعنی اُگنا۔اس سے رُستگار نہیں آتا۔البتہ رُستخیز اور رستخیز (رہا ہونا، اٹھنا) بمعنی قیامت دونوں طرح سے درست ہے۔لیکن رُستگار را کی زبر سے ہی درست ہے نہ کہ را کی پیش سے۔‘‘(الفضل ربوہ، ۷ جنوری ۱۹۶۶ء، صفحہ۲)
اب خاکسار اپنے مضمون کی طرف لوٹتا ہے۔
حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحبؓ کی پیدائش اور بچپن کے زمانہ میں چند بڑی طاقتوں نے دنیا کے اکثر حصوں پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ان قابض قوموں میں یوروپین اقوام (انگریز، فرانسیسی، ولندیزی، پرتگالی، اطالوی وغیرہ ) دنیا کے اکثر حصہ پر قابض تھیں۔اور اس کے علاوہ بعض مشرقی اقوام نے بھی دیگر ممالک پر قبضہ کیا ہوا تھا۔ حضورؓ کے دورِخلافت میں دنیا بھر کے مختلف حصوں میں سیاسی تحریکات چلیں اور دنیا کے تمام علاقوں میں آزادی کی تحریکات اٹھیں اور دنیا کی اکثر اقوام نے آزادی حاصل کی۔
گو، قابض اقوام نے اپنے مقبوضہ ممالک میں ترقیاتی کام بھی کروائے لیکن اکثر مقبوضہ اقوام پر ظلم و ستم بھی کثرت سے کیا گیا۔ان کے اموال اور قومی خزائن کو لوٹا گیا اور divide and conquer کے اصول پر عمل کرتے ہوئے مقبوضہ اقوام میں سے ہی بعض لوگوں کو اپنے ساتھ ملا کر اُنہی کے ذریعہ مقبوضہ اقوام پر ظلم کیا جاتا رہا۔اسی طریق کا ذکر اللہ تعالیٰ نے فرعون کے بارہ میں بھی قرآن کریم میں ان الفاظ میں کیا ہے کہ وَاِذۡ نَجَّیۡنٰکُمۡ مِّنۡ اٰلِ فِرۡعَوۡنَ یَسُوۡمُوۡنَکُمۡ سُوۡٓءَ الۡعَذَابِ یُذَبِّحُوۡنَ اَبۡنَآءَکُمۡ وَیَسۡتَحۡیُوۡنَ نِسَآءَکُمۡ ؕ وَفِیۡ ذٰلِکُمۡ بَلَآءٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ عَظِیۡمٌ(البقرہ: ۵۰) اور (یاد کرو) جب ہم نے تمہیں فرعون کی قوم سے نجات بخشی جو تمہیں بہت سخت عذاب دیتے تھے۔ وہ تمہارے بیٹوں کو تو قتل کر دیتے تھے اور تمہاری عورتوں کو زندہ رکھتے تھے اور اس میں تمہارے لئے تمہارے ربّ کی طرف سے بہت بڑی آزمائش تھی۔
سورۃ البقرۃ کی اس آیت میں ظالم حکمرانوں کا یہ طریق بتایا جارہا ہے کہ وہ مضبوط کردار کے لوگوں پر زندگی تنگ کرتے ہیں اور کمزور کردار کے لوگوں پر زندگی آسان کرتے ہیں۔اور یہ قوموں کے لیے ایک بڑے ابتلا کی صورت بن جاتی ہے۔یہی divide and conquer کا طریق ہے اور اسی طریق کو اپنا کر قابض قومیں مقبوضہ اقوام پر ظلم کرتی ہیں اور اب بھی یہی طریق جاری ہے۔اس آیت سے یہ استنباط بھی کیا جاسکتا ہے کہ ایسی صورتحال سے نجات صرف اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ملتی ہے۔
آزادی اور حُریّت کے بارہ میں
حضرت مصلح موعودؓ کے منتخب ارشادات
قوموں کی آزادی کے لیے حضرت مصلح موعودؓ نے نہ صرف عملی طور پر کوشش فرمائی بلکہ اپنے خطابات، خطبات اور تحریرات کے ذریعہ مقبوضہ اقوام کی راہنمائی فرمائی اور قابض اقوام کو بھی نصائح فرمائیں کہ وہ نظم و نسق قائم کرنے کے نام پر ظلم نہ کریں، انسانی قدروں کا خیال رکھیں، عدل و انصاف قائم رکھیں وغیرہ۔اس ضمن میں متحدہ ہندوستان اور تقسیمِ ہند کے بعد پاکستان کی یہ خوش نصیبی ہے کہ ان ممالک کو حضورؓ نے سب سے زیادہ نصائح فرمائیں۔
حضرت مصلح موعودؓ کے دل میں آزادی اور حُریّت کی جو اہمیت تھی، وہ مندرجہ ذیل تین اقتباسات سے ہی واضح ہوجائے گی، لیکن ان کے حصول کو آپ اسلام احمدیت کی تعلیم سے وابستہ رکھتے تھے۔حضرت مصلح موعودؓ نے ۱۹۲۰ء میں ’’اسلام اور حُریّت و مساوات‘‘ کے عنوان سے تین مضامین تحریر فرمائے جو الفضل قادیان میں شائع ہوئے۔یہ مضامین انوارالعلوم کی پانچویں جلد میں شامل کیے جاچکے ہیں۔
ذیل میں حضورؓ کے صرف تین اقتباسات جن سے آزادی اور حُریّت کے بارہ میں حضرت مصلح موعودؓ کی سوچ کا اظہار ہوتا ہے، پیش کیے جارہے ہیں۔
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’مَیں پچھلے سال شملہ گیا تو وہاں سابق گورنر صاحب پنجاب نے مجھے بلوایا اور یہ سوال کیا کہ مَیں ایک مذہبی آدمی ہوں مجھے دنیاوی امور میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے۔ان کا مطلب یہ تھا کہ مَیں نے تمدنی تحریکات کیوں کیں۔مَیں نے انہیں بتایا یہ بھی میرا ہی کام ہے کہ مَیں فیصلہ کروں کونسا کام دنیوی ہے اور کونسا دینی۔گورنر صاحب کا یہ کام نہیں کہ مجھے بتائیں تمہاری فلاں تحریک دینی ہے اور فلاں دنیاوی۔وہ خود اپنے متعلق فیصلہ کرسکتے ہیں مگر مَیں اپنے متعلق خود ہی فیصلہ کروں گا۔مَیں جس چیز کے متعلق سمجھوں گا کہ اس کا اثر مذہب پر پڑے گا تو مَیں اس میں ضرور دخل دوں گا۔غرض دین کے فائدہ کے لیے بعض دنیوی امور میں دخل دینا ضروری ہوتا ہے۔‘‘(خطباتِ محمود جلد ۱۱ صفحہ ۴۸۶)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’میں دیکھتا ہوں کہ کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جن میں ملک کی آزادی کا جوش ہے۔مَیں اس کی بہت قدر کرتا ہوں اور آزادی و حُریّت کا جو ش جو میرے اندر ہے مَیں سمجھتا ہوں اگر احمدیت اسے اپنے رنگ میں نہ ڈھال دیتی تو مَیں بھی ملک کی آزادی کے لیے کام کرنے والے انہیں لوگوں میں ہوتا لیکن خدا کے دین نے ہمیں بتادیا کہ عاجلہ کو مدنظر نہیں رکھنا چاہیے۔‘‘(خطباتِ محمود جلد ۱۲ صفحہ ۹۳)
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں کہ’’اس زمانہ میں ہر شخص کے دل میں کامیابی کا خیال ہے اور اسی طرح ہم میں بھی ہے۔ہماری قوم بھی اپنے ملک کو اسی طرح معزز دیکھنا چاہتی ہے جس طرح اور لوگ۔اور ہمیں تو ایک منٹ کے لیے بھی یہ خیال نہیں آسکتا کہ گاندھی، نہرو وغیرہ ہم سے زیادہ آزادی وطن کے دلدادہ ہیں بلکہ مجھ میں تو یہ خواہش اتنی شدید ہے اور مَیں کئی دفعہ اس خیال کا اظہار بھی کرچکا ہوں کہ اگر مَیں احمدی نہ ہوتا تو شاید مَیں سیاسی لحاظ سے بالکل ایکسٹریمسٹ (extremist) ہوتا کیونکہ فطری طور پر آزادی اور حُریّت کا جذبہ میرے اندر بہت شدّت کے ساتھ موجود ہے۔لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کی ہر چیز حد بندیوں کے نیچے ہے اور اگر ان کی پابندی نہ کریں تو عدل و انصاف باقی نہیں رہ سکتا۔آزادی اپنی ذات میں کوئی چیز نہیں ہم اس لیے آزادی کو پسند کرتے ہیں کہ اچھے عملوں کی توفیق مل سکے۔اِس وقت انصاف انگریزوں کے ہاتھ میں ہےوہی قانون بناتے ہیں جن سے عدل و انصاف کا منشا پورا ہوتا ہے۔پھر ملک کے مصیبت زدہ لوگوں سے ہمدردی بھی حکومت ہی کرتی ہے۔اور ہمارے اندر آزادی کی جو خواہش ہے وہ اسی وجہ سے ہے کہ ان نیک کاموں میں ہمارا بھی دخل ہے اور یہ ثواب اور نیک نامی حاصل کرنے کا ہمیں بھی موقع مل سکے۔پس جو لوگ آزادی کے لیے کوشش کرتے ہیں وہ لفظِ آزادی کے لیے نہیں بلکہ نیکی کے لیے اس کی خواہش کرتے ہیںوہ چاہتے ہیں ملک کی تجارت، عزت اور علوم کو بڑھانے میں ہمارا بھی دخل ہو۔اب سب کچھ انگریزوں کے ہاتھ میں ہے مگر قدرتی طور پر ہمارا دل چاہتا ہے کہ ہم بھی کریں۔‘‘(خطباتِ محمود جلد ۱۲ صفحہ ۵۴۶)
یہ تو صرف تین اقتباسات ہیں۔حضورؓ کی اس بارہ میں تمام شائع شدہ تحریرات اور خطابات ہزاروں صفحات پر مشتمل ہیں۔
اب خاکسار حضرت مسیح موعودؑ کے الہام ’’وہ اسیروں کی رستگاری کا موجب ہوگا‘‘ سے برکت پانے والے ممالک کے مختصر کوائف پیش کررہا ہے جو حضرت مصلح موعودؓ کی حیاتِ مبارکہ میں آزاد ہوئے۔

اس فہرست سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کا الہام ’’وہ اسیروں کی رَستگاری کا موجب ہوگا‘‘ پوری شوکت سے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ المصلح الموعود کی ذاتِ بابرکات میں پورا ہوا کیونکہ ان قوموں نے حضورؓ کی حیاتِ مبارکہ میں آزادی حاصل کی۔حضورؓ کے وجود سے ان قوموں نے ’’برکت پائی‘‘ اور خدائے عزّ و جل کی بات پوری ہوئی، فالحمد للہ علیٰ ذالک۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کیا خوب فرمایا:
قدرت سےاپنی ذات کا دیتا ہے حق ثبوت
اس بے نشاں کی چہرہ نمائی یہی تو ہے
جس بات کو کہے کہ کروں گا یہ میں ضرور
ٹلتی نہیں وہ بات خدائی یہی تو ہے