مصلح موعودؓکے عالمی شہرت پانے کی عظیم الشان داستان کے چالیس پہلو
’’وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا‘‘
دنیا کے ان تمام معروف کناروں تک حضرت مصلح موعودؓ کا نام شہرت پا چکا ہے… زمانہ گواہی دے رہا ہے کہ وہ پیشگوئی اور اس کا مصداق زمین کے کناروں تک شہرت پا چکا ہے اور قومیں اس سے برکت پا رہی ہیں
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشہور الہام ہے کہ ’’میں تیری تبلیغ کو زمین کے کناروں تک پہنچاؤں گا۔‘‘ (تذکرہ۔الہامات ۱۸۹۸ء ) پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کوایک عظیم بیٹے مصلح موعود کی خبر دی اور اس کی جو علامات بتائیں ان میں ایک یہ بھی تھی کہ آپ کا موعود بیٹا زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔
اول تو کسی بیٹے کی خبر دینا کوئی معمولی بات نہیں دوسری طرف اس کو ایک نشان بنانے کے لیے وہ تمام منفی عوامل اکٹھے کر دیے گئے جن کی موجودگی میں یہ خبر کسی طرح پوری نہ ہوسکتی تھی۔ناممکن کو ممکن بنانا یہی خدا کا طریق ہے اور یہی اس کا اعجاز ہے جس سے اس کی قدرت کا ثبوت ملتا ہے۔آئیے ان عوامل کا جائزہ لیں اور پھر یہ دیکھیں کہ یہ پیشگوئی کس طرح پوری ہوئی۔
ناممکن حالات کا پس منظر
۱۔۱۸۸۶ء میں جب حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے یہ پیشگوئی شائع فرمائی تو حضورؑ نے ابھی وفات مسیح اور مسیح موعود ہونے کا اعلان بھی نہیں کیا تھا۔
۲۔اس پیشگوئی کے بعد پہلے ایک لڑکی پیداہوئی جس پر مخالفت کا شور اٹھا اور پھر وہ بھی فوت ہو گئی۔
۳۔اس کے بعد ایک لڑکا پیدا ہوا اور وہ بھی فوت ہوگیا۔
۴۔اس کے بعد ایک اور لڑکا پیدا ہوا جس کا نام محمود رکھا گیا حضور نے خیال ظاہر کیا کہ یہ مصلح موعود ہو گا اور فرمایا کہ کامل انکشاف کے بعد اطلاع دی جائے گی۔
۵۔بچے کو دودھ پلانے کے لیے ایک عورت ملازم رکھی گئی مگر وہ ٹی بی کی مرض میں مبتلا تھی جس کی وجہ سے بچہ بیمار اور کمزور ہو گیا اور جان کے لالے پڑ گئےمگر آسمان کا خدا کہہ رہا تھا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
۶۔اسے بچپن میں آنکھوں میں ککرے ہو گئے اور دیر تک اندھیرے میں رہنا پڑتا۔
۷۔تعلیم کا یہ حال تھا کہ ابتدا میں جماعتی سکول میں اساتذہ پاس کرتے رہے مگر جب گورنمنٹ نے میٹرک کا امتحان لیا تو فیل ہو گیا۔
۸.۔سیدنا حضرت مسیح موعودؑ کے ارشاد پر حضرت مولانا نورالدین صاحبؓ نے اسے قرآن اور صحیح بخاری اس طرح پڑھائی کہ بیمار بچہ لیٹا ہوتا تھا اور مولوی صاحب سارا کچھ خود پڑھ رہے ہوتے تھے کیا اس سے قرآن وحدیث کا علم آ جاتا ہے ؟مگر آسمان کا خدا کہہ رہا تھا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
۹۔بچے کی ہینڈ رائٹنگ (لکھائی) اور حساب کی کمزوری کی وجہ سے اس کے نانا نے حضرت مسیح موعودؑ کو شکایت کی مگر کوئی حل نہ نکلا۔
۱۰۔بچے کی عمر ۱۹؍سال کی تھی کہ اس کے والد حضرت مسیح موعودؑ فوت ہو گئے اور حالات یہ تھے کہ کوئی جائیداد نہ تھی، تعلیم ، صحت اور کاروبار نہ تھا ، اولاد نہ تھی، ایک بیٹا فوت ہوچکا تھا اور آبائی خاندان سب مخالف تھا حتیٰ کہ بڑا بھائی احمدی نہ تھا مگر آسمان کا خدا کہہ رہا تھا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
۱۱۔مشکلات میں خدائی تسلی۔
ان حالات میں سوائے خدا کے اور کوئی مونس و غم خوار نہ تھا اور وہ اسے تسلی دے رہا تھا۔بچپن میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر الدین محمود احمد صاحب ؓ کے استاد حضرت سید سرور شاہ صاحبؓ نے ایک دفعہ آپؓ سے پوچھا کہ کیا آپ کو بھی کوئی الہام ہوتا ہے یاخوابیں آتی ہیں؟ تو فرمایا خوابیں تو بہت آتی ہیں اور میں ایک خواب تو قریباً ہر روز ہی دیکھتا ہوں۔ جونہی میں تکیہ پر سر رکھتا ہوں اس وقت سے لے کر صبح اٹھنے تک یہ نظارہ دیکھتا ہوں کہ ایک فوج ہے جس کی میں کمان کررہا ہوں اور بعض اوقات ایسا دیکھتا ہوں کہ سمندروں سے گزر کر آگے جاکر حریف کا مقابلہ کررہے ہیں اور کئی بار ایسا ہوا ہے کہ اگر میں نے پار گزرنے کے لیے کوئی چیز نہیں پائی تو سرکنڈے وغیرہ سے کشتی بنا کر اور اس کے ذریعہ پار ہو کر حملہ آور ہو گیا ہوں۔ ( ماہنامہ انصار اللہ ربوہ فروری ۱۹۸۶ء صفحہ ۱۱)
۱۲۔وحی و الہام کا آغاز حضور ؓکو ۱۷؍ سال کی عمر میں ہو گیا تھا جب ایک فرشتہ نے آپؓ کو سورۃ الفاتحہ کی تفسیر سکھائی۔اس میں یہ پیشگوئی تھی کہ آپؓ کے سینہ میں قرآنی علوم کا ایسا بیج رکھ دیا گیا ہے کہ ہر موقع پر آپ کو حسب حالات قرآنی علوم سکھائے جائیں گے اسی لیے آپؓ ساری عمر تفسیر قرآنی میں مقابلہ کا چیلنج دیتے رہے۔ فرمایا:اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کے ذریعہ مجھے قرآن کریم کا علم عطا فرمایا ہے اور میرے اندر اس نے ایسا ملکہ پیدا کر دیا ہے جس طرح کسی کو خزانہ کی کنجی مل جاتی ہے۔ اسی طرح مجھے قرآن کریم کے علوم کی کنجی مل چکی ہے دنیا کا کوئی عالم نہیں جو میرے سامنے آئے اور میں قرآن کریم کی افضلیت اس پر ظاہر نہ کر سکوں۔ (الفضل ۱۸؍فروری ۱۹۵۸ء)
پھر فرمایا:مجھے بھی ایسے قرآن کریم کے معارف عطا کیے گئے ہیں کہ کوئی شخص خواہ وہ کسی علم کا جاننے والا ہو اور کسی مذہب کا پیرو ہو قرآن کریم پر جو چاہے اعتراض کرے اللہ تعالیٰ کے فضل سے اس قرآن سے ہی اس کا جواب دوں گا۔ (الفضل ۲۴ اپریل ۱۹۳۴ء)آپ کی تفاسیر اور خطابات اس دعویٰ کی دلیل ہیں۔آج مخالفین بھی مصلح موعودؓ کے علم قرآن کے معترف ہیں جس پر بیسیوں حوالے بیان کیے جا سکتے ہیں۔
۱۳۔آغاز جوانی میں آپ کو یہ الہام بھی ہوا اِنَّ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوْا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ۔یعنی جو لوگ تیرے متبع ہوں گےوہ تیرے مخالفین پر قیامت تک غالب رہیں گے۔آپ کا ایک نام آپ کے الہام میں ’مظفر بخت ‘بھی رکھا گیا ہے۔ (الفضل۳؍اگست ۱۹۴۴ء رؤیا وکشوف سیدنا محمود صفحہ ۲۴۷)
آپ نے خلافت سے تین سال پہلے بیماری کے عالم میں ایک کشف دیکھا اور اللہ تعالیٰ کا دیدار کیا کہ ایک سفید اور نہایت چمکتا ہوا نور اوپر سے نیچے تک پھیلا ہوا ہے۔ اس میں سے ایک ہاتھ نکلا جس میں دودھ تھا جو آپ کو پلایا گیا۔(الفضل ۲۱؍مارچ ۱۹۱۴ء)دودھ سے مراد علم دین اور اس میں تفقہ بھی ہے۔
۱۴۔حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ اس بچے کی نیکی اور تعلق باللہ اور فرمانبرداری کی وجہ سے اُسے بہت پسند کرتےتھےاور کئی ذمہ داریاں اسے سونپتے تھے مگر اسی وجہ سے جماعت کا ایک طبقہ اس کا مخالف ہو گیا ا گر وہ کوئی کام کرتا تو دکھاوے کا الزام لگاتے اور نہ کرتا تو نکمے پن کے طعنے دیتے مگر آسمان کا خدا کہہ رہا تھا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
۱۵۔ اُس نے جماعت کی تعلیم اور تبلیغ کے لیے خلیفہ اوّلؓ کی اجازت سے قادیان سے ۱۹۱۳ء میں ہفتہ وار الفضل جاری کیا تو اس کے مقابلہ پر لاہور سے پیغام صلح جاری کر دیا گیا جسے خلیفۃ المسیح الاولؓ نے پیغام جنگ قرار دیا۔
۱۶۔ حضرت خلیفۃ المسیح الاوّلؓ کے آخری ایام میں جماعت کے مخلص حصہ کی نظریں اللہ تعالیٰ کی منشا کے ماتحت حضرت محمودؓ کی طرف اٹھنی شروع ہو گئیں اور جب حضور ؓ کی وفات ہوئی تو آپؓ کے مخالف طبقہ کو یقین تھا کہ اب خلافت کا منصب محمودؓ کو ملے گا۔اس لیے انہوں نے یہ منصوبہ بنایا کہ جماعت سے خلافت کے ادارے کو ہی ختم کر دیا جائے انہوں نے یہ مہم چلانی شروع کر دی کہ خلافت کے انتخاب کو چھ ماہ لیٹ کر دیا جائے اور اس مسئلہ پر خوب غور وفکر کیا جائے۔ اُن کا خیال تھا کہ اس عرصے میں جماعت کو قائل کر لیں گے کہ خلافت کی ضرورت نہیں اس مقصد کے لیے انہوں نے پمفلٹ شائع کر کے تقسیم کرنے شروع کر دیے تھے مگر آسمان کا خدا کہہ رہا تھا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
۱۷۔حضرت محمودؓ نے فروری ۱۹۱۱ء میں ایک خواب دیکھا کہ ایک بڑا محل ہے اور اس کا ایک حصہ گرایا جا رہا ہے اور کچھ نئے حصےتعمیر کیے جا رہے ہیں۔ خواب میں ہی ایک شخص اس کی وجہ یہ بتاتا ہے کہ یہ محل جماعت احمدیہ ہے اور فرشتے اس کی پرانی اینٹیں نکالنے کے لیے اور کچی اینٹوں کو پکا کر کے وسعت دینے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ (بدر۲۳؍فروری۱۹۱۱ء)
اس میں آپ کو یہ بتایا گیا تھا کہ جلد ہی وہ وقت آنے والا ہے جب سلسلہ کے کچھ پرانے لوگ الگ ہو جائیں گے اور نئے لوگ داخل ہوں گے اور نئی وسعتیں پیدا ہوں گی۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کی تقدیر کے مطابق آپؓ کی خلافت کے موقع پر وہ فتنہ برپا ہوا جسے لاہوری یا پیغامی فتنہ کہا جاتا ہے۔ اس کے نتیجہ میں کچھ پرانے لوگ جماعت سے الگ ہو گئے لیکن فرشتوں کی مدد سے جماعت مضبوط بنیادوں پر قائم ہو گئی اور ہر ایک پہلو سے اللہ تعالیٰ نے جماعت کو وسعتیں عطا کر دیں جس کا ذکر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے الہام وسع مکانک میں بھی ہے۔ اس الگ ہونے والی جماعت کے متعلق اللہ تعالیٰ نے محمودؓ کو یہ بشارت بھی دی کہ لیمزقنھم یعنی اللہ تعالیٰ ضرور ان کو ٹکڑے ٹکڑے کر دے گا۔ چنانچہ تھوڑے ہی عرصہ میں جماعت جس کی کثرت کا وہ دعویٰ کرتے تھے ٹوٹ کر حضرت مصلح موعودؓ کی طرف آنے لگی۔ وہ ریزہ ریزہ ہو گئے اور مصلح موعودؓ کی جماعت پر آج سورج غروب نہیں ہوتا۔کیونکہ آسمان کا خدا کہہ رہا تھا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
۱۸۔خدائی تقدیر کے ماتحت جماعت نے حضرت محمودؓ کو اپنا خلیفہ چن لیا تو مخالف گروہ نے اس کو ناکام کرنے کا ایک اور طریقہ سوچا۔جماعت کے کلیدی عہدوں پر یہی لوگ تھے مولوی محمد علی صاحب جن کو حضرت خلیفۃالمسیح الاولؓ قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر لکھوا رہے تھے اور جن کا خرچ صدر انجمن ادا کررہی تھی انہوں نے وہ سارے کاغذات اٹھائے اور قادیان سے لاہور چل دیے ان کے ساتھ مختلف شعبوں کے سربراہ بھی تھے خزانہ میں چند روپے رہ گئے تھے گویا محمودؓ کو ناکام کرنے کے منصوبے مکمل تھے مگر آسمان کا خدا کہہ رہا تھا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
۱۹۔لاہوری جماعت کا یہ دعویٰ تھا کہ ۹۵فیصد جماعت ہمارے پاس ہے اور صرف ۵ فیصد مرزا محمودکے ساتھ ہے اور قادیان سے جاتے ہوئے کہہ گئے کہ اب یہاں کی عمارتوں میں اُلّو بولیں گے۔
۲۰۔ تب خدا نے اپنی قدرت کے جلوے دکھانا شروع کیے وہ جماعت جو غیر مبائعین کے ساتھ تھی وہ خلافت کی طرف آنا شروع ہو گئی اور ان کے ساتھ ۵ فیصد سے بھی کم رہ گئی کیونکہ آسمان کا خدا کہہ رہا تھا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
۲۱۔ جب اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو ۱۹۱۴ء میں منصب خلافت پر فائز کیا تو آپؓ نے جماعت سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:آپ وہ قوم ہیں جن کو خدا نے چن لیا اور یہ میری دعاؤں کا ایک ثمرہ ہے…اور اب میں یقین رکھتا ہوں کہ دنیا کو ہدایت میرے ہی ذریعہ ہو گی اور قیامت تک کوئی زمانہ ایسا نہ گذرے گا جس میں میرے شاگرد نہ ہوں گے۔ آپ نے یہ بھی اعلان کیا کہ میں ہر قوم اور ہر زبان میں تبلیغ کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ (منصب خلافت صفحہ ۱۶تا ۱۷)یہ کیسا حیرت انگیز اعلان ہے جو ایک بظاہر اُمّی،کمزور،بےبس،مال و دولت اور جتھے سے عاری شخص کر رہا ہے مگر خدا اس کی خواہش اور پیشگوئی کو تمام نامساعد حالات میں پورا کرنا شروع کر دیتا ہے۔حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا تھا خدا نے میری دعائیں سن لی ہیں اور اس نے میرے ساتھ بڑے بڑے وعدے کیے ہیں۔
۲۲۔حضورؓ نے شروع میں ہی مجلس ترقی اسلام کی بنیاد ڈالی اور قدم بڑھانے شروع کیے۔ حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایا: ’’وہ دن دُور نہیں جبکہ افواج در افواج لوگ اس سلسلہ میں داخل ہوں گے۔ مختلف ملکوں سے جماعتوں کی جماعتیں داخل ہوں گی اور وہ زمانہ آتا ہے کہ گاؤں کے گاؤں اور شہر کے شہر احمدی ہوں گے۔‘‘(انوار خلافت، انوارالعلوم جلد۳ صفحہ۱۶۵)
۲۳۔آغاز خلافت کے نامساعد حالات میں بیرون ہند مشنوں کا قیام بھی کارے دارد تھا۔ برطانیہ کا مشن جو خلافت اولی کے عہد میں ۱۹۱۳ء میں قائم ہوا تھا اس کے نگران خواجہ کمال الدین صاحب نے خلیفہ ثانیؓ کی بیعت سے انکار کر دیا ان کے ایک ساتھی مبلغ سلسلہ حضرت فتح محمد سیال صاحبؓ نے بیعت کرلی اور حضور کے ارشاد پر نئے احمدیہ مسلم مشن کی بنیاد ڈالی۔
۲۴۔آپؓ کو انگلستان میں عظیم روحانی فتوحات کی بشارت دی گئی۔ چنانچہ آپؓ نے رؤیا میں دیکھا کہ آپ انگلستان میں ہیں اور انگلستان کو فتح کرنے والا ایک عظیم بادشاہ ولیم دی کانکرر اور آپ ایک ہی وجود ہیں۔(الفضل ۲۴؍جون ۱۹۲۴ء) یعنی اس بادشاہ نے ظاہری طور پر اس ملک کو فتح کیا تھا اور آپ روحانی طور پر کریں گے۔۱۹۲۴ء میں جب حضورؓ انگلستان تشریف لے گئے تو رؤیا میں دکھائے جانے والے مقام پر بھی تشریف لے گئے اور اسی طرح ایک شہتیر پر پاؤں رکھ کر کھڑے ہوئے۔ ایک اور خواب میں دیکھا کہ لائڈ جارج وزیر اعظم انگلستان کہتے ہیں کہ مرزا محمود احمد کی فوجیں عیسائی لشکر کو دباتی چلی آرہی ہیں اور مسیحی لشکر شکست کھا رہا ہے۔(الفضل ۲۴؍جون۱۹۲۴ء)یہ اُس وقت کی بات ہے جب برطانیہ میں جماعت احمدیہ کی پہلی مسجد بھی تعمیر نہیں ہوئی تھی اور معمولی سا ایک مشن تھا۔ آج لندن میں جماعت کی متعدد مساجد ہیں اور عظیم الشان مرکز خلافت ہے۔ جہاں سے ساری دنیا میں اسلام کی تبلیغ و اشاعت کی نگرانی ہو رہی ہے اور عیسائیت مسلسل شکست کھاتی چلی جا رہی ہے۔
۲۵۔ آپ کو دوسرے سفر انگلستان کےکئی سال پہلے ہوائی جہاز کے ذریعے سفر کی خبر بھی دی گئی۔ (الفضل ۲۱؍ستمبر۱۹۴۵ء)نیز یہ بھی کہ اس سفر سے کئی سعید روحوں کو ہدایت نصیب ہو گی (الفضل ۱۶؍جون ۱۹۳۹ء ) چنانچہ یوگو سلاویا، جرمنی، مالٹا اور سوئٹزرلینڈ کی چار اہم شخصیات کو آپ کے ہاتھ پر قبول اسلام کی توفیق ملی۔ (المبشرات صفحہ ۱۱۳)
۲۶۔حضور نے جرمنی میں پہلی احمدیہ مسجد کا منصوبہ بنایا مگر پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے کرنسی کی قیمت گر گئی اور یہ منصوبہ لندن منتقل کرنا پڑا لیکن اس کے لیے جو رقم جمع ہوئی اس سے شہر سے باہر معمولی زمین خریدی جا سکتی تھی حضور نے فرمایا خرید لیں خدا شہر کو اس طرف لے آئے گا آج مسجد فضل لندن شہر کے قیمتی علاقے میں واقع ہےکیونکہ آسمان کا خدا کہہ رہا تھا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
۲۷۔ حضورؓ نے ۱۹۲۰ء میں امریکہ مشن کے لیے حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کوروانہ فرمایا مگر امریکی حکومت نے انہیں ملک میں داخلے کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور ایک مکان میں نظر بند کر دیے گئے جہاں کئی انگریز بھی تھے۔ آپؓ کی تبلیغ سے دو ماہ کے اندر ۱۵؍افراد احمدی ہو گئے۔ اور متعلقہ افسر نے خوفزدہ ہو کر آپ کو ملک میں داخلہ کی اجازت دے دی۔ (تاریخ احمدیت جلد۴صفحہ۲۵۰) کیونکہ آسمان کا خدا کہہ رہا تھا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
۲۸۔یہی وہ وقت تھا جب مصلح موعودؓ نے ہندوستان میں امریکہ سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا:امریکہ میں ایک دن لاالہ الا اللہ محمد رسول اللہ کی صدا گونجے گی اور ضرور گونجے گی۔ (الفضل ۱۵؍اپریل۱۹۲۰ء) اللہ تعالیٰ کے فضل سے امریکہ میں مضبوط جماعتیں قائم ہیں اور مسلسل ترقی پذیر ہیں ۲۰۲۲ء کی رپورٹ کے مطابق امریکہ میں جماعتوں کی تعداد۶۰ہے جن کی کل تجنید۲۲۵۵۰؍ہے۔ جماعت کی مساجد۵۶؍ ہیں۔۱۸؍باقاعدہ مساجد تعمیر کی گئی ہیں اور۳۸؍گرجوں اوردیگر عمارات کومساجد میں تبدیل کیاگیاہے۔کل ۱۰۶؍ جماعتی پراپر ٹیز کارقبہ ایک ہزار ایکڑ سے زائدہے۔نماز سنٹرز کی تعداد۲۸۲؍کے قریب ہے۔۶۰؍مشن ہاؤسز ہیں۔۴۲؍ مربیان ہیں۔ (الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍دسمبر۲۰۲۲ء)
۲۹۔افریقہ کے ملک گھانا میں احمدیت کا معجزانہ تعارف ہوا اور یہاں کے متلاشیان حق نے حضور کی خدمت میں مبلغ بھیجنے کے لیے لکھا اوراس کا خرچ بھی بھیجا کیونکہ مرکز کے پاس پیسے نہیں تھے مگر آسمان کا خدا کہہ رہا تھا کہ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا۔
۳۰۔اس طرح آغاز ہوا وہ کانٹوں بھرے رستہ پر آگے بڑھتا گیا دکھ اُٹھاتے اور تکلیفیں جھیلتے ہوئے اولوالعزمی سے منزل کی جانب گامزن رہا۔ایک کے بعد ایک ملک اسلام کے لیے جیتتا رہا ایک کے بعد ایک زبان کو مشرف بہ قرآن کرتا رہا اس کی زندگی میں ۴۶؍ملکوں میں احمدیہ مشن قائم ہوئے ۱۶؍ زبانوں میں قرآن کے تراجم شائع ہونے اور وہ زمین کے کناروں تک شہرت پاتا رہا۔
۳۱۔ ۱۹۳۴ء میں حضورؓ نے تحریک جدید کی بنیاد ڈالی۔ یہ دعوت الی اللہ کی اس عالمگیر سکیم کا نام ہے جس نے جماعت احمدیہ کو تمام مذہبی جماعتوں میں ممتاز کردیا ہے۔ اہل اسلام نے ۱۴۰۰؍ سال میں بڑی بڑی مساجد بنائیں، مدارس بھی قائم کیے، علما ءکو بھی جنم دیا، کتب کی اشاعت بھی کی، قرآن کے تراجم بھی کیے۔ مگر تحریک جدید کے ذریعہ دعوت الی اللہ کے جس نظام کو جنم دیا گیا ہے وہ ایک لامتناہی جدوجہد کا نقطہ آغاز ہے وہ آنے والی تمام نسلوں، قوموں اور زبانوں تک پھیلا ہوا ہے جو وقت کے تازہ تقاضوں اور زبانوں کی تمام ضرورتوں سے ہم آہنگ ہے۔
۳۲۔دَور مصلح موعودؓ کے مشن
اپریل۱۹۱۴ء انگلستان، ۱۴؍مارچ ۱۹۱۵ء سیلون، ۱۹۳۶ء ارجنٹائن، ۱۵؍جون ۱۹۱۵ء ماریشس، ۱۹۳۶ء پولینڈ، ۱۵؍فروری ۱۹۲۰ء امریکہ، ۱۹۳۷ء اٹلی، ۱۹؍ فروری ۱۹۲۱ء سیرالیون، جنوری ۱۹۳۸ء چیکوسلواکیہ، ۲۸؍فروری ۱۹۲۱ء غانا، ۷؍مئی ۱۹۴۶ء فرانس، ۸؍اپریل ۱۹۲۱ء نائیجیریا، ۱۹۴۶ء صقلیہ (سسلی)، ۱۹۲۱ء بخارا، ۱۹؍اگست ۱۹۴۶ء عدن، ۱۹۲۲ء مصر، ۱۳؍اکتوبر۱۹۴۶ء سوئٹزرلینڈ،۱۸؍دسمبر۱۹۲۳ء جرمنی، جون ۱۹۴۷ء بورنیو، ۱۹۲۴ء ایران، ۲؍جولائی ۱۹۴۷ء ہالینڈ،۱۷؍جولائی۱۹۲۵ء شام، ۳؍مارچ ۱۹۴۸ء اردن، ستمبر ۱۹۲۵ء سماٹرا، ۲؍فروری ۱۹۴۹ء مسقط، ۱۹۲۸ء فلسطین، فروری ۱۹۴۹ء گلاسگو، ۲۰؍فروری ۱۹۳۱ء جاوا، ۱۹۳۶ء یوگوسلاویہ، ۱۹۳۶ء البانیہ، ۲۷؍اگست ۱۹۴۹ء لبنان، ۲۷؍نومبر ۱۹۳۴ء کینیا، ۱۹۵۰ء ٹرینیڈاڈ، ۲؍مارچ ۱۹۳۵ء برما، ۱۹۵۶ء ڈچ گیانا، ۱۹۳۵ء سنگاپور، ملایا، ۳؍جنوری ۱۹۵۶ء لائبیریا، ۲۷؍مئی ۱۹۳۵ء ہانگ کانگ، وسط ۱۹۵۶ء سکنڈے نیویا کے ممالک، ۴؍جون ۱۹۳۵ء جاپان، ۱۲؍اکتوبر ۱۹۶۰ء فجی، ۱۰؍مارچ ۱۹۳۶ء سپین، ۱۹۶۱ء آئیوری کوسٹ۔۱۹۳۶ء ہنگری، ۱۹۶۱ء گیمبیا، ۱۹۶۲ء ٹوگولینڈ (الفضل ۱۶؍فروری ۲۰۰۰ء )
۳۳۔کشتی احمدیت کا کپتان
حضرت مصلح موعودؓ فرماتے ہیں:’’کشتی احمدیت کا کپتان، اس مقدس کشتی کو پُرخطر چٹانوں میں سے گزارتے ہوئے سلامتی کے ساتھ اسے ساحل پر پہنچا دے گا۔ یہ میرا ایمان ہے اور میں اس پر مضبوطی سے قائم ہوں۔ جن کے سپرد الٰہی سلسلہ کی قیادت کی جاتی ہے ان کی عقلیں اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے تابع ہوتی ہیں اور وہ خداتعالیٰ سے نور پاتے ہیں اور اس کے فرشتے ان کی حفاظت کرتے ہیں اور اس کی رحمانی صفات سے وہ مؤید ہوتے ہیں اور گو وہ دنیا سے اٹھ جائیں اور اپنے پیدا کرنے والے کے پاس چلے جائیں مگر ان کے جاری کیے ہوئے کام نہیں رکتے اور اللہ تعالیٰ انہیں مفلح اور منصور بناتا ہے۔‘‘(الفضل ۱۱؍نومبر۱۹۳۴ء )
۳۴۔زمین کے کناروں سے گواہی
۱۹۴۴ء میں جب حضورؓ نے باقاعدہ مصلح موعود ہونے کا دعویٰ فرمایا تو اس کے اعلان عام کی غرض سے متعدد شہروں میں جلسہ ہائے مصلح موعود منعقد کیے گئے اور حضور کی تقاریر کے دوران کئی ممالک کے مبلغین اور داعیان الی اللہ نے سٹیج پر آکر اپنے اپنے ملکوں میں احمدیت پھیلنے کی گواہی دی۔
۱۹؍فروری ۱۹۴۰ء کو حضرت مصلح موعودؓ کی اپنے عقائد کے بارے میں تقریر ممبئی ریڈیو اسٹیشن سے پڑھ کر سنائی گئی۔
۲۵؍مئی ۱۹۴۱ءکو حضرت مصلح موعودؓ نے لاہور ریڈیو اسٹیشن سے ’’عراق کے حالات پر تبصرہ ‘‘کے موضوع پر تقریر فرمائی ۔ جسے دہلی اور لکھنؤکے ریڈیو سٹیشنز نے بھی نشر کیا۔
۸؍جون ۱۹۵۵ء کو حضرت مصلح موعودؓ کے سفر یورپ کے دوران سوئٹزر لینڈ میں حضورؓ کا سوئس ٹیلی ویژن پر انٹرویو نشر کیا گیا۔یہ پہلا موقع تھا کہ خلیفہ وقت کا ٹی وی پر انٹر ویو نشر ہوا۔
۳۵۔آپؓ نے یورپ کے دو دورے فرمائے۔ اس کے عوام اور خواص کو اسلام کا پیغام پہنچایا، خطبے دیے، مجالس میں تقاریر کیں اور سوالوں کے جواب دیئے۔جماعت کے مرکزی نظام کو مستحکم بنیادیںفراہم کیں۔تحریک جدید کے نام سے اسلام کی تبلیغ و اشاعت کا ایک دائمی نظام جاری کیا وقف جدید کے تحت ان بڑھنے والی جماعتوں کو سچا احمدی بنانے کے سامان کیے، اندرونی تربیت اور داعیان الی اللہ بنانے کی غرض سے ذیلی تنظیمیں بنائیں۔ مکہ، مدینہ اور قادیان کے بعد اسلام کا چوتھا مرکز ربوہ قائم کیا اور اسلام کے نام کے ساتھ اس کا نام بھی عالمی شہرت پاتا رہا۔
۳۶۔وہ علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیا گیا تھا۔ اس کے ذریعے کلام اللہ کا مرتبہ ظاہر ہوا، اس نے قرآن کریم کی تفسیر لکھی جس نے عالمی شہرت پائی۔ حضرت مصلح موعودؓ کو اللہ تعالیٰ نے جس وسعت کے ساتھ علم دین عطا کیا آپ کی کتب پر مشتمل انوار العلوم کی ۲۶؍ اور خطبات محمود کی ۳۹؍جلدیں اس پر گواہ ہیں۔اس کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریریں ۷۵؍ہزار صفحات پر پھیلی ہوئی ہیں اور اب دنیا کی کئی زبانوں میں ان کا ترجمہ بھی شائع ہو رہا ہے۔
۳۷۔دنیا بھر میں اُس کے ہزاروں پیروکار تھے تو لاکھوں مخالف اور کروڑوں جانی دشمن تھے۔ اُس کے ہر قدم پر رکاوٹیں ڈالی گئیں، اس کے ہر فعل کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا گیا، اس کے ہر منصوبے کا تمسخر اڑایا گیا، اس پر بار ہا قاتلانہ حملے کیے گئے، اس کے ساتھیوں کو شہید کیا گیا، ان کی جائیدادیں لوٹی گئیں، ان کی راہ میں روڑے اٹکائے گئے مگر ان سب کے باوجود وہ آگے بڑھتا چلا گیا اور زمین کے کناروں تک شہرت پاتا رہا۔
۳۸۔زمین کے کناروں سے کیا مراد ہے؟
اس پیشگوئی کا دلچسپ پہلو یہ ہے کہ الہام میں وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا میں زمین کے کناروں سے کیا مراد ہے؟
۱۔ زمین تو عرف عام میں گول ہے، اور گول چیز کا کوئی کنارہ نہیں ہوتا۔ اس لیے اس الہام میں زمین کے کناروں سے مراد ہر جگہ ہو سکتی ہے یعنی زمین کے چپے چپے پر تیری تبلیغ پہنچے گی۔
۲۔ وہ معروف مقامات جنہیں دنیا کا کنارہ کہا جاتا ہے جہاں آبادیاں ختم ہو جاتی ہیں اور سمندر کا علاقہ شروع ہوجاتا ہے۔
۳۔ ناروے کے شہر شون کے شمال میں ایک مقام End of the worldکہلاتا ہے۔ اس مقام پر نارویجین سمندر دنیا کے ۲۰؍ فیصد حصے کے مالک بحراوقیانوس سے ملتا ہے اور خشکی کا سلسلہ ختم ہو جاتا ہے۔ سکینڈینیوین ممالک جن میں ناروے، سویڈن اور ڈنمارک شامل ہیں وہاں مشن حضورؓ کے دور خلافت میں کھولا گیا اور اس طرح دنیا کے آخری کنارے تک خدا تعالیٰ نے تبلیغ کو پہنچا دیا۔بعض احمدی مبلغین نے خاص اس بورڈ کے سامنے کھڑے ہو کر غیروں کو مسیح موعودؑ کا پیغام پہنچایا (الفضل آن لائن ۲۴؍مارچ ۲۰۲۲ء )
۴۔قطب شمالی کے قریب واقع ملک فن لینڈ کو دنیا کا آخری سِرا کہا جاتا ہے۔ اسی طرح امریکہ، روس اور کینیڈاکے شمالی علاقوں کو بھی آخری کنارہ کہا جاتا ہے۔ نیز قطب جنوبی اور بر اعظم انٹارکٹکا کو بھی دنیا کا آخری کنارہ سمجھا جاتا ہے۔ وہاں صرف چند سائنس دان رہتے ہیں جو سائنسی تحقیقات کرتے ہیں۔
کینیڈا کے آباد علاقے میں بلکہ انتہائی شمال کے غیر آباد برفانی علاقوں میں جہاں صرف اطلاعاتی چوکیوں کا عملہ رہتا ہے یا خال خال اسکیموز کی بستیاں ہیں جماعت نے قرآن مجید کے انگریزی ترجمہ کے نسخے تقسیم کر کے اور اطلاعاتی مرکزوں کی لائبریریوں میں انہیں رکھوا کر قطب شمالی کی سمت میں آخری انسانی آبادی تک قرآنی پیغام کی اشاعت کا کارنامہ سر انجام دینے کی توفیق پائی ہے۔(دورہ مغرب ۱۴۰۰ھ صفحہ ۴۵۲۔۴۵۳)
۵۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ ۴؍جون ۱۹۹۳ء کو قطب شمالی کے قریب ترین علاقہ نارتھ کیپ پہنچے۔ جو کرۂ ارض کا بلند ترین مقام ہے۔ حضورؒ نے قافلہ کے ساتھ تاریخ میں پہلی دفعہ مغرب و عشاء اور پھر اگلے دن ساری نمازیں باجماعت یہاں ادا کیں۔ ۲۵؍جون کو حضورؒ نے اس جگہ جمعہ پڑھایا۔ اور باقی نمازیں ادا کیں۔ اس طرح وہ پیشگوئی پوری ہوئی کہ دجال کے زمانہ میں غیر معمولی لمبے دن ہوں گے اور وقت کا اندازہ کر کے نمازیں ادا کرنا۔
۶۔فجی جہاں سے ڈیٹ لائن گزرتی ہے اور دنیا کو دو حصوں میں تقسیم کرتی ہے، اسے بھی کنارہ کہا جاتا ہے۔اس ڈیٹ لائن (date line)سے جماعت احمدیہ کی مسجد ۴؍کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ جزائر فجی میں قریباً ۸؍مساجد بن چکی ہیں۔
۷۔کہتے ہیں کہ دنیا میں سب سے پہلے سورج جاپان میں طلوع ہوتا ہے۔
۸۔بحر الکاہل میں موجود ریاست ساموا ٓنے دسمبر ۲۰۲۱ء میں اپنے معیاری وقت کو تبدیل کر دیا ہے اور اس طرح یہ ریاست دنیا میں سب سے پہلے سورج طلوع ہوتا دیکھتی ہے۔
۹۔دنیا کے کناروں سے ایک مراد یہ بھی لی گئی ہے کہ شمال میں یورپ،مشرق میں ایشیا، مغرب میں شمالی ،وسطی اور جنوبی امریکہ، اور جنوب میں افریقہ۔
۳۹۔ایک جاری سلسلہ
دنیا کے ان تمام معروف کناروں تک حضرت مصلح موعودؓ کا نام شہرت پا چکا ہے۔ آپؓ کے لافانی کارناموں کے ذریعہ،آپؓ کے وفادار ساتھیوں کے ذریعہ،آپؓ کے جاں نثار مبلغین اور مربیان کے ذریعہ، آپؓ کے جاری کردہ الفضل اور دیگر رسائل کے ذریعہ، آپؓ کی تحریکات کے ذریعہ ، آپؓ کے نام پر قائم فضل عمر فاؤنڈیشن کے ذریعہ ،آپؓ کے خدام، انصار اور لجنہ کے ذریعہ،اور سب سے بڑھ کے آپ کے بعد آنے والے خلفا٫ کے ذریعہ جنہوں نے آپؓ کے مشن کو ایک لمحہ کے لیے بھی فراموش نہیں کیا اور اس کی تکمیل کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے ہیں۔ آپؓ کے ۲؍بیٹے اور ایک نواسہ آپؓ کے منصوبوں میں نئے رنگ بھرتے چلے جا رہے ہیں۔ آپ کی سکیموں میں اضافے کر رہے ہیں، آپ کی کتب کے تراجم کروا رہے ہیں، ان کو پڑھ کر سنا رہے ہیں، ان کو پڑھنے کی تاکید کر رہے ہیں اور زمانہ گواہی دے رہا ہے کہ وہ پیشگوئی اور اس کا مصداق زمین کے کناروں تک شہرت پا چکا ہے اور قومیں اس سے برکت پا رہی ہیں۔ آپ کے نام سے منسوب ایک ادارہ فضل عمر فاؤنڈیشن آپ کی کتب، خطبات،تحریرات اور تقاریر کو شائع کرنے پر مامور ہے اور ان کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی کر رہا ہے۔
۴۰۔آج مسیح موعودؑ کے مخالف بھی اس الہام کی سچائی کی گواہی دیتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر ایک مولوی صاحب کا ایک کلپ گردش کر رہا ہے وہ کہتے ہیں:’’ہم ملائیشیا میں گئے وہاں قادیانی ، انڈونیشیا میں گئے وہاں قادیانی اور دنیا کا آخری کونہ جنوب میں وہاں کیپ ٹاؤن ساؤتھ افریقہ کا آخری شہر وہاں قادیانی، ہمارے والد صاحب گئے ہیں اور یہ ہمارے بھائی جاوید گئے ہیں شمالی آخری کونہ ناروےوہاں پر قادیانی اور دنیا کےمشرق میں آخری کنارہ آسٹریلیا ،جزائر فجی وہاں قادیانی۔دنیا کا مغربی کنارہ گھانا وہاں پر قادیانی۔‘‘
ان قادیانیوں کو زمین کے کناروں تک پہنچانے کا وعدہ خدا کا تھا اور کوششیں خلافت احمدیہ خصوصاً مصلح موعود ؓکی تھیں جو بارآور ہوئیں اور خدا کا الہام بڑی شان سے پورا ہوا۔ الحمدللہ۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: فلسطین میں قیامِ امن کے لیے حضرت مصلح موعودؓ کے بیان فرمودہ دو اہم نکات