سیرت حضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ
حضرت مصلح موعودؓ کی ۷۶؍ سالہ زندگی اور باون سالہ شاندار خلافت ایسے ہزاروں واقعات پر مشتمل ہے کہ اگر ان کی سمری ہی بیان کی جاوے تو اس کے لیے بھی کئی دن درکار ہوں گے۔ اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ صرف وہ باتیں بیان کروں گا جو میرے ذاتی مشاہدات یا تجربات پر مشتمل ہوں
۲۹؍جون ۱۹۹۱ء ( بروز ہفتہ )سوا سات بجے شام، کڑک ہاوٴس،لاہور چھاوٴنی
قریباً دس دن ہوئے مکرمی سعید احمد صاحب زعیم مجلس انصاراللہ حلقہ دارالذکر نے حکم دیا کہ ۲۹؍ جون ۱۹۹۱ء کوآپ یعنی خاکسار نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سیرت کے بارے میں تقریر کرنی ہے۔ اگرچہ میں نے اس ذمہ داری سے بچنے کی بہت کوشش کی مگر سعید صاحب نے میری ایک نہ چلنے دی۔
اسی دن شام کو بیت الذکر میں انصار اللہ کا اجلاس تھا جس میں مکرمی اعجاز نصر اللہ صاحب اور مکرمی اخوندفیاض احمد صاحب نے اپنے اپنے مضامین پر ایسے اعلیٰ معیار کی تقریریں کیں کہ مجھے فکر دامنگیر ہوگئی کہ یہاں تو تقریر وں کا معیار اتنا بلند ہے۔اب میں کیسے اس امتحان میں پاس ہو سکوں گا۔
پھر جب میں نے اس مضمون کے بارے میں غور کرنا شروع کیا تو یہ مشکل بھی نظر آئی کہ ۱۵ منٹ میں ایسے عظیم الشان اور پُروقار شخص کی سیرت کیسے بیان کی جاوے جس کی سیرت کی تفاصیل خود اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیحِ موعود علیہ اسلام کے ذریعہ ایک پیشگوئی کے طور پر آپؓ کی پیدائش سے پہلے ہی بیان فرما دی تھیں۔ اور جو ہم سب سبز اشتہار کی صورت میں کئی بار پڑھ چکے ہیں۔ حضرت مصلح موعودؓ کی ۷۶؍ سالہ زندگی اور باون سالہ شاندار خلافت ایسے ہزاروں واقعات پر مشتمل ہے کہ اگر ان کی سمری ہی بیان کی جاوے تو اس کے لیے بھی کئی دن درکار ہوں گے۔ اس لیے میں نے یہ فیصلہ کیا کہ صرف وہ باتیں بیان کروں گا جو میرے ذاتی مشاہدات یا تجربات پر مشتمل ہوں۔
میری پیدائش مارچ ۱۹۲۵ء قادیان میں ہوئی۔ یہاں یہ بات بھی بتاتا چلوں کہ میری پیدائش دارالمسیح کے اس حصّہ میں ہوئی جو بیت البرکات کہلاتا تھا۔ جہاں بعد میں سیّدہ اُمِّ طاہر (والدہ حضرت خلیفۃالمسیح الرابعؒ ) رہا کرتی تھیں۔ بڑے ہونے کے بعد مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ پیدائش کے بعد اذان میرے کان میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے دی۔اگرچہ میں قادیان میں پیدا ہوا مگر ان دنوں میرے والد صاحب بوجہ ملازمت رہتک میں متعیّن تھے۔ میری پیدائش کے وقت حضورؓ کو مسندِ خلافت پر متمکن ہوئے ۱۱ سال ہو چکے تھے۔اور اس وقت حضورؓ کی عمر ۳۵ برس کی تھی۔ یہ تو اکثر احباب کو علم ہوگا کہ حضورؓ کی پیدائش ۱۲؍ جنوری ۱۸۸۹ء کو ہوئی۔
اغلباً میں نے پہلی بار حضورؓ کو ۴ سال کی عمر میں راولپنڈی میں دیکھا۔ ہم کیمبل پور ( موجودہ اٹک) میں رہتے تھے۔ یہ جولائی یا اگست ۱۹۲۹ء کا واقعہ ہے اور میں اس وقت ۴ سا ل کا تھا۔ میرے والدین مجھے ٹرین میں کیمبل پور سے راولپنڈی لے گئےکہ حضرت امّاں جانؓ کو ملنا ہے۔ واقعہ کچھ ایسے تھا کہ حضورؓ بمع خاندان و حضرت امّاں جانؓ قادیان سے راولپنڈی اور وہاں سے سرینگر جا رہے تھے۔ یہ وہ سال ہے جب سرینگر میں بہت زوردار سیلاب آیا۔ رات حضورؓ نے راولپنڈی رہنا تھا اور صبح چلے جانا تھا۔ مجھے ایک پرانے زمانے کی دو منزلہ حویلی یاد ہے۔ کشمیری قلّی سامان اٹھا کر لوڈ کر رہے تھے۔ اور وہیں میں نے پہلی بار حضورؓ کو دیکھا۔ ایک بےحد خوبصورت اور بےحد دلکش انسان۔ آپؓ نے مجھے پیار سے گلے لگایا۔بس یہ جھولا سا یاد ہے۔ دوسرے دن ہم شام کو واپس کیمبل پور آگئے۔ پھر اسی سال جلسہ سالانہ ۱۹۲۹ء پر ہم قادیان گئے۔ اور جلسہ گاہ میں میں نے حضورؓ کوسٹیج پر دیکھا۔ اس وقت میں شمس الدین ڈرائیور کی گود میں تھا۔ مگر جو یادپوری صفائی کے ساتھ کی یاد ہے وہ دو سال بعد کی ہے۔ جب میری عمر ۶ سال کی تھی۔
میرے والد حضورؓ کے ماموں تھے۔اور حضورؓ سے ۸؍۹ سال بڑے۔ مگر عمر اور رشتے میں بڑے ہونے کے باوجود رشتہ پیر اور مرید کا۔ ان کے دل میں حضورؓ کی بےحد عزّت اور عظمت تھی۔اور یہ بات آپ کے مونہہ اور باڈی لینگویج سے بھی ظاہر ہوتی رہتی تھی۔ جس طرح میرے والد صاحب حضورؓ کا ذکر کرتے تھے۔ اس سےیہی پتہ چلتا تھا کہ وہ حضورؓ کو خلافت کے پہلے دن سے ہی مصلح موعود سمجھتے تھے۔ اور اسی لیے جب ۱۹۴۵ء میں حضورؓ نے مصلح موعود ہونے کا دعویٰ کیا تو میرے والد صاحبؓ کو کوئی تعجّب نہیں ہوا۔ جب میں دس سال کا تھا یعنی ۱۹۳۵ء میں تو ہماری بڑی بہن سیّدہ مریم صدیقہ کی شادی حضورؓ سے ہوئی۔ ہم سب اس شادی کے لیے گوجرانوالہ سے قادیان آئے۔ جہاں سے شادی کے بعد قادیان سے گوجرانوالہ واپس چلے گئے۔ ۱۹۳۶ء میں والد صاحب ملازمت سے ریٹائر ہوئےاور اس کے بعد ہم مستقل طور پر قادیان شفٹ ہوگئے۔اس لیے حضورؓ سے گہرا تعلق ۱۹۳۶ء کے بعد سے شروع ہوا۔
قادیان ہی میں مَیں نے حضورؓ کو بہت قریب سے دیکھا۔ اور مشاہدہ کیا اور آپ کو بہت seriously لیا۔اور اب میں صرف وہی باتیں بیان کروں گا جو میں نے خود دیکھیں یا محسوس کیں۔
۱۔ پُروقار اور خوبصورت انسان: آپ ایک بےحد پُروقار اور خوبصورت انسان تھے۔ سادہ مگر نفیس اور صاف لباس۔ خوشبو باقاعدگی سے لگاتے تھے اور پسند فرماتے تھے۔ بلکہ عطر بنانا حضورؓ کی ہابی (hobby)تھی اور اس کے لیے وہ بہت سا سامان اس زمانے میں فرانس اور جرمنی سے منگواتے تھے۔ اور خوشبوآت کا آپ کو بہت علم تھا۔ طبیعت میں بےحد نفاست تھی،بےحد ذہین اور وسیع علم رکھتے تھے۔ مختلف خاندانوں کے افراد کے آپس کے رشتے آپ کو ازبر یاد ہوتے تھے۔ اور آج کل کے ماہرِ نفسیات جو انسانی شخصیت کو چھ ممکنہ حصّوں میں تقسیم کرتے ہیں۔یعنی Religious،سوشل، economic، پولیٹکل، Aesthetic ،Theoretical تو عجیب بات ہے حضورؓ کی وسیع شخصیت ان چھیؤں خانوں یا حصّوں میں پھیلی ہوئی تھی۔ اور کوئی خانہ نہ تھاجس میں حضورؓ کو اعلیٰ عبورحاصل نہ ہو۔
۲۔ جراٴت،بہادری و دلیری: Quality of courage۔ آپ بے حد بہادر اور دلیر انسان تھے۔ اور ایک نہ شکست کھانے والا عزم اپنے اندر رکھتے تھے۔ اور سخت سے سخت حالات میں کبھی مایوس نہیں ہوتے تھے۔میں نے بعض سخت ترین جماعتیcrisisمیں حضورؓ کو قریب سے دیکھا ہے اور ہمیشہ آپؓ کوبہادر اور باہمت پایا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ۲۶؍مئی ۱۹۰۸ء کو حضرت مسیح موعودؑ کا وصال ہوا تو حضورؓ نے حضرت اقدسؑ کے سرہانے کھڑے ہوکر آپؑ کے مشن کی تکمیل کا عہد کیا اور پھر ساری عمراس عہد کو عملی طور پر نبھایا۔
۳۔ صاحبِ تدبیر: مگر ا س کے ساتھ ساتھ آپؓ صاحبِ تدبیر بھی تھے۔اور آپؓ کی تدبیریں بہت دوراندیشی پر مبنی ہوتی تھی۔ مثلاً ایک تدبیرجس کا میرے ساتھ ذاتی تعلق رہا۔ آپ نے ۱۹۴۶ء میں یہ اندازہ لگایا کہ چونکہ اب ہندوستان آزاد ہونے والا ہے۔ اور چونکہ قادیان متشدّد سکھوں کے علاقہ میں گھرا ہوا ہے اس لیے ہو سکتا ہے کہ حالات اتنے خراب ہوجاویں کہ قادیان کا رابطہ باقی دنیا سے کٹ جاوے۔ اس لیے کئی اور انتظامی امور کے علاوہ حضورؓ نے اس وقت جماعت کے لیے دو چھوٹے ہوائی جہاز خریدے۔ جنہیں پارٹیشن کے وقت یعنی اگست ۱۹۴۷ء سے فروری ۱۹۴۸ء تک جماعت کے کاموں کے لیے استعمال کیا گیا۔ چونکہ اس وقت میں جماعت کی اس خدمت میں ایک کارکن تھا اس لیے میں پورے یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ اگر حضورؓ کی دُوراندیشی کے طفیل یہ دو ہوائی جہاز وقت سے پہلے نہ لے لیے ہوتےتو ان شدید فسادات کے زمانے میں قادیان کا رابطہ باقی دنیا سے اس طرح قائم نہ رہ سکتا جیسا کہ رہا۔ اس سلسلے میں درجنون تفاصیل میرے ذہن میں گھوم رہی ہیں۔ مگر وقت کی کمی کی وجہ سے بیان نہیں کر رہا۔ اصل بات جو بتانا مقصود ہے وہ حضورؓ کی تدبیر اور دُوراندیشی ہے۔
پھر پارٹیشن کے بعد جب حضورؓ کشمیر کی پرابلم میں بہت مصروف ہوگئے۔ توآزاد کشمیر حکومت کو بھی حضورؓ نے ایک ہوائی جہاز اس لیے خرید کر دیا جو وہ بہت دیر استعمال کرتے رہے۔
۴۔ فیاضی: آپؓ ایک بہت فیاض اور بڑے دل کے انسان تھے اور باوجود بظاہر سخت گیر طبیعت کے اندر سے بےحد فیاض اور رحمدل انسان تھے۔ اگر اس سلسلے میں مثالیں دوں تو شاید ساری رات گزر جاوے۔مگر ایک واقعہ سنا دیتا ہوں۔
ایک دفعہ مری میں حضورؓ نے کسی ڈسپلن کی بات پر ناراض ہو کر اپنے پرانے ڈرائیور نذیر کو برطرف کر دیا اور اسے حکم دیا کہ وہ مری سے چلا جاوےاور ربوہ جاکر دفتر میں رپورٹ کرے۔ اس وقت بارش ہو رہی تھی اور سردی بھی بہت ہو گئی تھی۔ مگر نذیر ڈرائیور اسی بارش میں بس سٹینڈ کی طرف روانہ ہوگیا۔ تھوڑی دیر بعد حضورؓ نے چھوٹی آپا سے کہا کہ وہ غریب پتہ نہیں اس وقت کہاں اس تیز بارش میں دھکّے کھا رہا ہوگا۔ اس پر چھوٹی آپا نے کہا کہ آپؓ دفتر کا کوئی آدمی بھیج کر اسے واپس بلا لیں۔ مگر حضورؓ نے فرمایا ’’نہیں، ڈسپلن کے معاملے میں میں کوئی نرمی نہیں کر سکتا ہاں یہ کرو کہ چونکہ بارش اور سردی بہت ہے میرا کوٹ نذیر کو پہرےدار کے ہاتھ بھجوا دو‘‘ اور اپنا وہ بہترین اوور کوٹ، رین کوٹ جو چند دن پہلے انگلستان سے منگوایا تھا پہرےدار کے ہاتھ نذیر ڈرائیور کے لیے بھجوا دیا تاکہ اسے سردی نہ لگ جاوے۔
۵۔سخت محنت کی عادت: بہت سے لوگوں کو شا ید اس بات کا علم نہ ہو کہ آپؓ سخت محنت اور مشقّت کے عادی تھے۔ خصوصاًدماغی محنت۔ روزانہ رات کو ڈیڑھ بجے تک پڑھنا لکھنا آپؓ کی عادت تھی۔ تقریباً ساری تفسیر قرآن مجید حضورؓ نے رات کے وقت لکھی یا لکھوائی۔ اور پھر یہ کہ سالہا سال آپ اسی قسم کی مشقّت کو برداشت کرتے تھے۔ اگر چہ بیچ میں تفریح کے لیے بھی وقت نکالتے تھے مگر پھر سخت محنت میں جت جاتے تھے۔
۶۔دعوت الی ا للہ کی ذمہ داری: آپؓ میں یہ احساس بہت شدّت سے تھا کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف جماعت کی تعلیم و تربیت و حفاظت کی ذمہ داری آپؓ پر ڈالی ہے بلکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام اور مشن کو دنیا کے کنارے تک پہنچانے کی تمام ذمہ داری آپؓ پر ہے۔ آپؓ اس ذمہ داری کو نبھانے کے لیے مسلسل کوشش کرتے رہتے اور اگر کوئی بات اس کے برخلاف ہو جاتی تو بہت اداس ہو جاتے یہ سنہ ۱۹۵۴ء کا واقعہ ہے کہ حضورؓ کراچی تشریف لائے اور انہی دنوں حضورؓ کے صاحبزادے مرزا رفیع احمد صاحب بطور مبلغ اسلام دو سال کے لیے انڈو نیشیا تشریف لے گئے۔ مرزا رفیع احمد صاحب اور ان کی بیگم نے بذریعہ بحری جہاز وکٹوریا کراچی سے جکارتہ جانا تھا۔ میں بھی حضورؓ کےہمراہ جہاز پر گیا اور ایک دو گھنٹے ہم جہاز پر ہی رہے۔ جب ہم جہاز کی لابی میں داخل ہوئے تو دیکھا کہ اس جہاز میں پچاس ساٹھ پادری ہیں جو اٹلی سے آئے ہیں اور انڈو نیشیا عیسائیت کی تبلیغ کے لیے جارہے ہیں۔ حضورؓ یہ نظارہ دیکھ کر اداس ہو گئے اور بعد میں ذکر کیا کہ ‘‘دیکھو میں مشکل سے ایک مبلغ انڈو نیشیا بھیج رہا ہوں اور عیسائیت کی طرف سے صرف اس جہاز میں پچاس ساٹھ پادری مبلغ وہاں جارہے ہیں پتہ نہیں وہاں پہلے سےبھی کتنے ہزار پادری موجود ہوں گے’’۔ اور پھر بہت دیر تک ایک فکر کی کیفیت اور افسردگی حضورؓ پر چھائی رہی۔
۷۔ مشاورت: باوجود ایک مطلق العنان خلیفہ ہونے کے حضورؓ باہمی مشورہ کے نہ صرف قائل تھے بلکہ اس پر عمل بھی کرتے تھے۔ مثلاً ہنگامی حالات میں روزانہ ہی ناظروں کے ساتھ گھنٹوں میٹنگ ہوتی تھی۔ پھر حضورؓ نے جماعت میں مجلس مشاورت کا نظام جاری کیا اور اسے اپنی نگرانی میں اتنی ترقی دی کہ جن لوگوں نے قادیان میں یا ربوہ میں حضورؓ کے زمانے میں مجلس مشاورت کی کارروائی میں حصّہ لیا ہو انہیں یاد ہوگا کہ وہاں کتنی کھلی اور اعلیٰ معیار کی بات ہوتی تھی۔ اگر چہ فائنل فیصلہ حضورؓ ہی فرماتے مگر عمومی طور پر حضورؓ اکثریت کی رائے کو ہی مانا کرتے تھے۔ نیز مجلس مشاورت میں حضورؓ اپنی انتظامی (management) کو کبھی بھی defend نہیں کرتے تھے بلکہ اگر مجلس مشاورت کا کوئی ممبر کسی جماعتی محکمہ یا اس کے ناظر کے کام میں نقص نکالتا تھا تو حضورؓ اس محکمہ کا کبھی دفاع نہیں کرتے تھے بلکہ اس محکمہ کو ہی اپنا دفاع خود کرنا پڑتا تھا۔
۸۔عبادات:حضورؓ قیام صلوٰۃ کے نہ صرف خود بہت پابند تھے بلکہ اس معاملہ میں حضورؓ سختی فرماتے تھے۔ آپؓ قیام صلوٰۃ کو اتنی اہمیت دیتے تھے کہ آپؓ کی اولاد بلکہ اولاد در اولاد سب کے سب نماز کے معاملہ میں بہت ہی پابند ہیں۔ روزہ کے معاملہ میں حضورؓ نرم تھے۔ سفر میں فرض روزہ رکھنے کو سختی سے منع فرماتے تھے بلکہ عصر کے وقت سفر پر جاتے ہوئے حضورؓ فرض روزہ کھول دیا کرتے تھے۔ نیز چھوٹے بچوں کو مسلسل روزہ رکھوانے کے آپؓ خلاف تھے۔ فرماتے تھے کہ بچوں کو روزہ کی آہستہ آہستہ ٹریننگ دو اور پورے روزے پندرہ سے اٹھارہ سال عمر تک پہنچنے پر رکھواؤ۔ یعنی جس بچّے کی صحت کمزور ہو اسے اٹھارہ سال تک پورے روزے نہ رکھواؤ۔ پردہ کے معاملہ میں حضورؓ بہت سخت تھے۔ ہر نا محرم سے پردہ کرواتے تھے۔
۹۔ فصیح و بلیغ مقرر:آپؓ ایک فصیح اور بلیغ مقرر تھے۔ اور گھنٹوں آدمی حضورؓ کی تقریر بغیر تھکے یا اکتائے سن سکتا تھا۔ آپؓ کی باون سالہ خلافت کا اکثر تربیتی حصّہ بطور خطبات جمعہ، خطبات نکاح، درس قرآن، تقاریر جلسہ سالانہ، تقاریر مشاورت وغیرہ وغیرہ کی صورت میں محفوظ ہے اور یہ ریکارڈ اور لٹریچر موجودہ اور آئندہ نسلوں کے علم اور ان کی تربیت کے لیے ایک سمندر ہے اور جماعت احمدیہ کے لیے ایک عظیم نعمت۔ نیز آپؓ قرآن شریف کی تلاوت بے حد خوش الحانی سے فرماتے تھے ایسی کہ جو دل میں گڑ جاتی تھی۔
۱۰۔آپؓ بدعت کے بے حد خلاف تھے۔ آپؓ نے اپنی باون سالہ خلافت میں بدعت کے خلاف ایک مستقل جہاد کیا۔ جہاں بدعت دیکھتے تھے اسے جڑ سے اکھاڑ نے کی کوشش کرتے تھے خواہ اپنے ہی کسی قریبی عزیز سے معاملہ کیوں نہ ہو۔
ایک واقعہ حضورؓ کی ایک بیٹی کی شادی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ غالباً سنہ ۱۹۳۸ء کا واقعہ ہے۔ بچی نے شوق میں رخصتانہ کے دن کسی سہیلی سے منگوا کر سہرا پہن لیا اور اس طرح بدعت والی بات ہو گئی۔ دوسرے دن جب حضورؓ کو پتہ چلا تو حضورؓ بےحد ناراض ہوئے۔ لجنہ اما ء اللہ کا خصوصی اجلاس سیدہ ام طاہر کے گھر بلوایا گیا۔ حکم دیا کہ جلسے میں سب عورتوں کے سامنے میرا یہ مضمون پڑھ کر سنا یا جا وے جس میں اس بدعت کی سخت مذمت کی گئی تھی اور پھر اس کے بعد یہ سہرا آگ میں جلا یا جاوے۔ جب جلسہ شروع ہونے والا تھا تو چھوٹی آپا نے حضورؓ سے کہا کہ کل اس بن ماں کی بچی کی شادی ہوئی ہے اس بےچاری کی والدہ بھی زندہ نہیں ہے غلطی ہو گئی۔ اب آپؓ سہرا آگ میں نہ جلوائیں اس سے بد شگونی ہوگی۔ اس پر حضورؓ نے فرمایا کہ اچھا جلاؤ نہیں صرف قینچی سے کاٹ دو۔ چنانچہ لجنہ کے اس اجلاس میں اس بدعت کی مذمت کی گئی اور وہ سہرا سب کے سامنے کاٹا گیا۔ آپؓ نے ہمیشہ ہی مگر اجرائے تحریک جدید کے بعد تو جماعت کو اکثر بدعتوں سے دُور کردیا تھا۔ افسوس ہے کہ ہم آہستہ آہستہ دوبارہ انہی گڑھوں میں گرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جن میں سے حضورؓ نے ہمیں سالہا سال کی کوشش کے بعد نکال دیا تھا۔
جماعت احمدیہ ایک بے حد خوش قسمت جماعت ہے کہ پچھلے ۸۳ سال میں اللہ تعالیٰ نے اسےنظام خلافت کی چھتری کے نیچے ہر ابتلا سے محفوظ رکھااور ہر خلافت کے زمانے میں جماعت کو ترقیات ہی ترقیات میسر آئیں۔ یاد رہے کہ ان ۸۳؍سال میں سے ۵۲؍ سال خلافت ثانیہ کا زمانہ تھا اس لیے ہمارا فرض ہے کہ حضورؓ کے لیے درجات کی بلندی کے لیے ہمیشہ دعا کرتے رہیں کہ یا اللہ ایک عظیم انسان تُو نے ہمارا امام بنا کر بھیجا اس نے تیرے مشن اورہماری حفاظت میں اپنی زندگی وقف کر دی۔ اس پر لاکھوں سلام فرما۔ آمین
(سید محمد احمد (مرحوم) ابن حضرت سیّد میر محمد اسماعیل صاحب رضی اللہ عنہ)
(یہ مضمون بشکریہ مکرم سید ہاشم اکبر احمد ابن مکرم سیّد محمد احمد صاحب مرحوم روزنامہ الفضل انٹرنیشنل میں شائع کیا جا رہا ہے)
مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعودؓ کے احسانات طبقۂ نسواں پر از حضرت سیدہ مریم صدیقہ صاحبہ