حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز

پیشگوئی مصلح موعود کی اہمیت اور افادیت کے حوالے سےحضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات سے ایک انتخاب

ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس پیشگوئی پر ہمارے جلسے اور اس کو یاد رکھنا تبھی فائدہ مند ہے جب ہم اس مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ ہم نےآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور وقار کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور دنیا پر اسلام کی سچائی ظاہر کر کے سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے کر آنا ہے

پیشگوئی مصلح موعود کیا ہےاور ہم کیوں مناتے ہیں؟

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام خدا تعالیٰ کے وہ پہلوان ہیں جن کو خود خدا تعالیٰ نے جری اللہ کہہ کر مخاطب فرمایاہے۔ خداتعالیٰ نے یہ خطاب آپ کو کیوں عطا فرمایا؟اس لئے کہ بچپن سے ہی اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے آپ کے دل میں اللہ تعالیٰ، آنحضرتﷺ اور اسلام کی محبت کوٹ کوٹ کر بھر دی تھی اور آپ اسلام کے دفاع کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے جانے نہیں دیتے تھے۔ ہر مذہب کے بارہ میں آپ کا گہرا مطالعہ اور علم تھااور ہر مذہب کے مقابل پر اسلام کی برتری ثابت کرنے کے لئے آپ ہمہ وقت مصروف رہتے تھے۔ جب ہندوستان میں عیسائی مشنریز کا زور ہوا اور اسلام اور بانی اسلامﷺ کے خلاف سینکڑوں کتابیں لکھی گئیں۔ اس زمانہ میں لاتعداد پمفلٹ اور اشتہارات تقسیم ہوئے جس نے مسلمانوں کو عیسائیت کی جھولی میں ڈالنا شروع کر دیا اور جو عیسائیت میں شامل نہیں ہوئے ان میں سے لاتعداد مسلمان ایسے تھے جن کے ذہنوں میں اسلام کی تعلیم کے خلاف شبہات پیدا ہونے لگے۔ اور پھر عیسائیت کے اس حملے کے ساتھ ہی آریہ سماج اور برہمو سماج اٹھے۔ یہ تحریکیں بھی پورے زور سے شروع ہوئیں اور مسلمانوں کا اس وقت یہ حال تھا کہ بجائے اس کے کہ دوسرے مذاہب کامقابلہ کریں آپس میں دست و گریباں تھے ایک دوسرے پر تکفیر کے فتوے لگا رہے تھے۔ اس وقت اسلام کی اس نازک حالت پر اگرکوئی حقیقت میں فکر مند تھا اور اسلام کا دفاع کرنا چاہتا تھا تو وہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ السلام تھے۔ اس وقت اسلام پر جو حملے ہو رہے تھے آپ نے ان سب کے توڑ کے لئے ایک کتاب لکھی جس کا نام براہین احمدیہ رکھا جس میں آپ نے قرآن کریم کو کلام الٰہی اور ہر لحاظ سے مکمل کتاب کے طور پر پیش کیا اور اسی طرح آنحضرتﷺ کی نبوت اور آپ کا افضل ہونا ثابت کیا اور ناقابل تردید دلائل سے ثابت کیا۔ جس نے تمام مذاہب جو اسلام کے مقابلہ پر تھے اُن کو ہلا کر رکھ دیا اور وہ اسلام کے خلاف ہر قسم کے اوچھے اور گھٹیا حملے کرنے میں اور زیادہ تیز ہو گئے۔ آپ کے اس نئے انداز نے جو آپ نے براہین احمدیہ میں پیش فرمایا اور آپ کا اسلام کے دفاع کا، اسلام کی تعلیم کی خوبصورتی بیان کرنے کا جو طریق تھا اس کو بہت سے مسلمان علماء نے بڑی قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ لیکن جب آپ نے اشتہاروں وغیرہ کے ذریعہ سےاسلام کے پیغام کو مزید وسعت دی تو مسلمانوں کا بھی ایک طبقہ آپ کے خلاف ہو گیا اور غیروں کے ساتھ مل کر آپ کے خلاف محاذ آرائی شروع کر دی۔ آپؑ نے اُس زمانہ میں اسلام کا پیغام جس جوش سے دنیا تک پہنچایا اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے اور آپ کے ایک صحابی حضرت مولوی عبداللہ سنوری صاحب کے حوالہ سے حضرت مرزا بشیراحمد صاحب نے یہ بیان کیاہے کہ اُس وقت آپ نے 20ہزار کی تعداد میں اشتہار چھپوایا اور دنیا کے مختلف حصوں میں جہاں بھی اس زمانہ میں ڈاک جا سکتی تھی تمام بادشاہوں اور ارباب حکومت کو، وزیروں کو، مدبرین کو، مصنفین کو، علماء کو، نوابوں وغیرہ کو وہ اشتہاربھجوایا۔ یہ اس زمانہ کی بات ہے جب آپ کا دعویٰ مسیحیت نہیں تھا بلکہ مجدد کے طور پر آپؑ نے پیغام دیا تھا اور اسلام کی خوبیاں بیان کی تھیں۔ بہرحال اس پیغام سے جب یہ دنیا میں مختلف جگہوں پر گیا تھا تودنیا کے لوگوں میں ایسی خاص کوئی ہل جل پیدا نہیں ہوئی لیکن ہندوستان کے اندر جو دوسرے مذاہب تھے جن کا اندازہ تھا کہ اب ہم نے مسلمانوں کو اپنے اندر سمیٹا ہی سمیٹا، ان پر ایک زلزلہ آ گیا۔ جب ان لوگوں نے دیکھا کہ اسلام کے دفاع میں ایک کتاب لکھی گئی ہے اور اب براہ راست مقابلہ کے لئے اور اسلام کی عظمت بیان کرنے کے لئے اشتہارات بھی تقسیم کئے جا رہے ہیں تو ظاہر ہے کہ وہ غیر مسلم جو بھی حربہ اسلام کے خلاف استعمال کر سکتے تھے انہوں کیا۔ جیسا کہ مَیں نے کہا بعض مسلمان بھی اپنی کینہ پروری کی وجہ سے ان کی ہاں میں ہاں ملانے لگے اور آپ کے خلاف ہو گئے۔ بہرحال اس صورت حال میں آپ نے بڑے درد سے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگیں کہ مَیں تیرے آخری اور کامل دین اور حضرت خاتم الانبیاءﷺ جو تیرے بہت زیادہ پیارے ہیں ان کے دفاع کے لئے سب کچھ کر رہا ہوں اس لئے اے اللہ تُومیری مدد کر۔ اور اس سوچ کے ساتھ آپ نے یہ فیصلہ فرمایا کہ ایک چلہ کشی کریں۔ یعنی چالیس دن تک علیحدہ ایک جگہ پر اللہ تعالیٰ سے خاص دعائیں کریں تاکہ خداتعالیٰ سے اسلام کی سچائی اور آنحضرتﷺ کی صداقت کا خاص تائیدی نشان مانگیں۔ اس کے لئے پہلے آپ نے استخارہ کیاکہ کس جگہ پر چلہ کشی کی جائے۔ چنانچہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو یہ بتایا گیا کہ یہ چلہ کشی کا مقام ہوشیارپور ہو گا۔ چنانچہ آپ نے اس مقصد کے لئے ہوشیارپور کا سفر اختیارکیا۔ آپ کے ساتھ اس وقت تین ساتھی تھے جن میں ایک تو مولوی عبداللہ سنوری صاحب تھے، حافظ حامد علی صاحب تھے اور فتح خان صاحب تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنے ایک دوست شیخ مہر علی صاحب کو جو ہوشیار پور کے تھے خط لکھا کہ مَیں وہاں دو ماہ کے لئے آ رہا ہوں۔ میرے لئے ایک علیحدہ گھر کا انتظام کر دیں تاکہ علیحدگی میں صحیح طرح خداتعالیٰ کی عبادت ہو سکے۔ آپ نے اپنے ساتھیوں کو بھی کہہ دیاکہ اس عرصہ میں کوئی مجھے نہ ملے اور کسی قسم کی ملاقاتیں نہیں ہوں گی۔ بہرحال شیخ صاحب نے اپنا ایک مکان جو شہر سے باہر تھا اس میں آپ کا انتظام کروا دیا۔ آپ وہاں چلّہ کشی کے لئے 22جنوری 1886ء کو پہنچے اور دوسری منزل میں جاکر ٹھہرنے کا فیصلہ فرمایا اور اپنے ساتھیوں کو ہدایت کر دی۔ (جیسا کہ بعد میں انہوں نے بتایا) کہ نہ کوئی مجھے ملے اور نہ تم لوگوں نے مجھ سے کوئی بات کرنی ہے حتیٰ کہ کھانے وغیرہ کے لئے جب کھانا لے کر آؤ تومیرے کمرے میں رکھ دینا۔ جب مَیں نے کھانا ہو گا کھا لوں گا۔

بہرحال اس چلّہ کے دوران اللہ تعالیٰ نے آپ پر بہت سے انکشافات فرمائے۔ چنانچہ 20فروری1886ء کو آپ نے وہیں سے ایک اشتہار شائع فرمایا اور اسے مختلف علاقوں میں بھجوایا۔ اس میں بہت ساری پیشگوئیاں تھیں جو اللہ تعالیٰ نے بڑی شان سے آپ کی زندگی میں پوری کیں اور بعد میں بھی پوری کرتا گیا۔ جماعت میں 20فروری کے حوالہ سے ہر سال ایک جلسہ منعقد کیا جاتا ہے۔ اس لئے مَیں اس کی اہمیت اور کس شان سے یہ پیشگوئی پوری ہوئی یعنی پیشگوئی حضرت مصلح موعود۔ اس کاکچھ ذکر کروں گا۔ آج بھی اتفاق سے 20فروری ہے۔ یہ جو پیشگوئی تھی یہ آپ نے اپنے ایک بیٹے کی پیدائش اور اس کی خصوصیات کے بارے میں کی تھی اور جیسا کہ مَیں نے شروع میں ذکر کیا ہے کہ موعود بیٹے کی پیدائش کی پیشگوئی آپ نے انہی دعاؤں کے دوران اللہ تعالیٰ سے علم پا کر کی تھی جب آپ اللہ تعالیٰ سے اسلام اور بانی اسلامﷺ کی صداقت کا نشان دشمنان اسلام کا منہ بند کرنے کے لئے مانگ رہے تھے۔ پس یہ پیشگوئی کوئی معمولی پیشگوئی نہیں ہے بلکہ یہ پیشگوئی بھی اور اس پیشگوئی کا مصداق بھی اس زمانے میں اسلام کی عظمت ثابت کرنے کا ایک نشان ہے۔

یہ بھی اللہ تعالیٰ کی ایک تقدیر ہے کہ 1889ء میں جس سال حضرت مسیح موعودؑ کو بیعت لینے کا اذن ہوا اسی سال میں اس پیشگوئی کا مصداق موعود بیٹا پیدا ہوا۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۰؍ فروری ۲۰۰۹ء)

جماعت احمدیہ میں 20؍فروری کا دن پیشگوئی مصلح موعود کے حوالے سے خاص طور پر یاد رکھا جاتا ہے اور جماعتوں میں یوم ِمصلح موعود کے حوالے سے جلسے بھی ہوتے ہیں۔ گو مَیں اس بات کی پہلے بھی کئی جگہ وضاحت کر چکا ہوں لیکن نئے آنے والوں اور بچوں کے لیے بھی دوبارہ وضاحت کر دوں کہ یوم ِمصلح موعود حضرت خلیفۃ المسیح الثانی، حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش کی یاد میں نہیں منایا جاتا بلکہ ایک پیشگوئی کے پورا ہونے کی یاد میں منایا جاتا ہے۔ ایسی پیشگوئی جو اسلام کی برتری اور سچائی ثابت کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کے الہام کے تحت حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے کی تھی جو حضرت مصلح موعودؓ کی پیدائش سے تین سال پہلے کی گئی تھی۔ جس میں ایک خادم ِاسلام موعود بیٹے کی پیدائش کی خبر تھی جو دشمنوں کے لیے نشان کے طور پر پیش کی گئی تھی۔ پس کل 20؍فروری تھی اور اس پیشگوئی کو 134سال ہو گئے اور سو سال سے زائد عرصے سے یہ چمکتا ہوا نشان ہے۔(خطبہ جمعہ فرودہ ۲۱؍فروری ۲۰۲۰ء)

٭…ہر سال ہم 20؍فروری کوپیشگوئی مصلح موعودکے حوالے سے جلسے بھی کرتے ہیں ا ور اس دن کو یاد بھی رکھتے ہیں۔ ایک بیٹے کی پیدائش کی یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے دشمنوں کے اسلام پر اعتراضات کے جواب میں اللہ تعالیٰ سے خبر پاکر کی تھی کہ دشمنان اسلام کہتے ہیں کہ اسلام کوئی نشان نہیں دکھاتا۔ آپ علیہ السلام نے فرمایا کہ میں خدا تعالیٰ سے اطلاع پا کر کہتا ہوں کہ ایک بڑا نشان اسلام کی صداقت کا جو میرے ذریعہ سے پورا ہوگا وہ میرے ایک بیٹے کی پیدائش ہے جو لمبی عمر پائے گا۔ اسلام کی خدمت کرے گا۔ اور بتایا کہ یہ یہ خصوصیات اس میں ہوں گی اور تقریباً باون، ترپن خصوصیات بیان فرمائیں اور یہ کوئی معمولی پیشگوئی نہیں تھی۔ ایک معین عرصہ بھی بتایا اور بہرحال اس معینہ عرصہ میں وہ بیٹا پیدا ہوا اور اس نے لمبی عمر بھی پائی اور اسے اسلام کی غیر معمولی خدمت کی توفیق بھی ملی۔ ہر سال اس پیشگوئی کے حوالے سے مختلف پہلوؤں پر جماعتی جلسوں میں روشنی ڈالی جاتی ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍فروری۲۰۲۲ء)

٭…یہ پیشگوئی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ہاں ایک لڑکے کی ولادت کی تھی جو بہت سی خوبیوں کا مالک ہو گا۔ اللہ تعالیٰ کی خاص تائید و نصرت اسے حاصل ہو گی۔… چنانچہ اس پیشگوئی کے مطابق اُس مدت کے اندر جو آپؑ نے بیان فرمائی تھی بیٹا پیدا ہوا جس کا نام حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے خلیفة المسیح الثانی کے مقام پر بھی بٹھایا۔ پھر ایک لمبے عرصےبعد خلیفہ ثانیؓ نے اللہ تعالیٰ سے اطلاع پا کر یہ اعلان فرمایا کہ جس بیٹے کی مصلح موعود ہونے کی حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے خبر دی تھی وہ مَیں ہی ہوں۔

اس بیٹے کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے علوم ظاہری و باطنی سے پُر کیے جانے، ذہین و فہیم ہونے اور دوسری خصوصیات کے اپنے بھی اور غیر بھی معترف ہیں اور خوب جانتے ہیں اور اس کا اعتراف غیروں نے کھل کر کیا ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۱۷؍ فروری۲۰۲۳ء)

پیشگوئی مصلح موعود …جیسا کہ ہر احمدی جانتا ہے اور ہر سال اس پیشگوئی کے پورا ہونے پر جلسے بھی منعقد کیے جاتے ہیں۔ یہ 20؍فروری 1886ء کی پیشگوئی ہے جس میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو ایک مختلف صفات کے حامل بیٹے کی پیدائش کی خبر دی گئی تھی لیکن اس بارے میں بیان کرنے سے پہلےمَیں بچوں اور بعض نوجوانوں کو بھی اس سوال کا جواب دینا چاہتا ہوں، پہلے بھی کئی دفعہ دے چکا ہوں جو یہ کہتے ہیں کہ جب ہم سالگرہ نہیں مناتے تو حضرت مصلح موعودؓ کی سالگرہ کیوں منائی جاتی ہے؟

اس بارے میں واضح ہو جیساکہ مَیں نے کہا مَیں کئی مرتبہ بیان کرچکا ہوں کہ مرزا بشیر الدین محمود احمدؓ کی پیدائش کی سالگرہ نہیں منائی جاتی بلکہ پیشگوئی کے پورا ہونے پر جلسے کیے جاتے ہیں۔

حضرت خلیفة المسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پیدائش تو 12؍جنوری 1889ء کی ہے۔ دوسرے جن گھروں میں یہ ذکر نہیں ہوتا وہاں خود والدین کو پڑھ کر بچوں کو بتانا بھی چاہیے، سمجھانا بھی چاہیے کہ پیشگوئی مصلح موعود کیا ہے۔ یہ ایک عظیم پیشگوئی ہے جو پہلے نوشتوں کے مطابق جن کی پہلے انبیاء نے بھی خبر دی اور پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی پیشگوئی کے مطابق اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو یہ اعلان کرنے کا فرمایا تھا۔… ہم نے دیکھا کہ اس مدت کے اندر جو اللہ تعالیٰ سے خبر پا کر آپؑ نے دی تھی وہ لڑکا پیدا ہوا اور پیشگوئی کے تمام حصوں کا مصداق بنا جن کی تعداد پچاس، باون بنتی ہے۔…

حضرت مصلح موعودؓ کی باون سالہ خلافت کےدَور کا ہر دن اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی شان کا اظہار کررہا ہے۔اب کوئی نہ ماننے والا ہمارا مخالف یہ کہہ سکتا ہے کہ احمدی تو اس پیشگوئی کے پورا ہونے کی دلیل دیں گے ہی، وہ تو کہتے ہی رہیں گے کہ پیشگوئی پوری ہوگئی لیکن کوئی ٹھوس دلیل پیش کرو۔ تو یہ ایسے معترضین کی ڈھٹائی ہے ورنہ حضرت مصلح موعودؓ کے دَور میں جماعت احمدیہ کی ترقی کا ہر دن جیساکہ مَیں نے کہا اس کی روشن دلیل ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۳؍ فروری ۲۰۲۴ء)

علوم ظاہری و باطنی سے پُر

آپ کے علمی کارنامے ایسے ہیں جو دنیا کو نیا انداز دینے والے ہیں جس کا دنیا نے اقرار کیا، جس کے چند نمونے میں نے پیش کئے ہیں۔معاشی، اقتصادی، سیاسی، دینی، روحانی سب پہلؤوں پر آپ نے جب بھی قلم اٹھایاہے یا تقریر کے لئے کھڑے ہوئے ہیں، یا مشوروں سے امتِ مسلمہ یا دنیا کی رہنمائی فرمائی تو کوئی بھی آپ کے تبحرِ علمی اور فراست اور ذہانت اور روحانیت سے متأثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ آپ مصلح موعودؓ تھے، دنیا کی اصلاح کے لئے اللہ تعالیٰ نے آپ کو بھیجا تھا، جس میں روحانی، اخلاقی اور ہر طرح کی اصلاح شامل تھی۔

جیسا کہ مَیں نے کہا کہ آپ کا باون سالہ دورِ خلافت تھا اور آپ نے خطباتِ جمعہ کے علاوہ بے شمار کتب بھی تحریر فرمائی ہیں۔تقاریر بھی فرمائیں، جن کو جب تحریر میں لایا گیایا لایا جا رہا ہے تو ایک عظیم علمی اور روحانی خزانہ بن گیا ہے اور بن رہا ہے۔ فضلِ عمر فاؤنڈیشن جو آپ کی وفات کے بعد قائم کی گئی تھی ، خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے قائم فرمائی تھی۔وہ آپ کاسب مواد جو ہے کتب کی صورت میں شائع کر رہی ہے اور آج تک اس پر کام ہو رہا ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۸؍ فروری ۲۰۱۱ء)

ظاہری و باطنی علوم جو خدا تعالیٰ نے آپؓ کو باوجود دنیاوی تعلیم کی کمی کے عطا کیے کیونکہ آپ کی تعلیم بنیادی طور پر صرف پرائمری کی تعلیم ہی تھی اور جن کو آپؓ نے مختلف موقعوں پر بیان فرمایا وہ اتنے زیادہ ہیں کہ ان کا احاطہ بلکہ ان کا تعارف بھی ایک خطبہ میں بیان کرنا مشکل ہے۔ یہ تعارف بھی ایک سلسلہ خطبات کا متقاضی ہے۔…

یہ مضامین، تقاریر، تحریرات اللہ تعالیٰ کی توحید، ملائکہ کی حقیقت، نبیوں کے مقام و مرتبہ، حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقام و مرتبہ اور دوسرے روحانی امور اور اسی طرح مسلمانوں کی مذہبی اور سیاسی رہنمائی، اسلام کا اقتصادی اور مالی نظام، اسلام کی تاریخ۔ اس وقت کے، آپ کے زمانے کے بعض مسائل جو اس عصر کے، وقت کے، دَور کے تھے جن میں سے بعض آج بھی اسی طرح قائم ہیں اور آپؓ کے خیالات کو پڑھ کر، اس وقت کے خیالات کو پڑھ کران کا حل بھی آج سامنے آجاتا ہے اور بے شمار عنوان ہیں جن پر آپؓ کے یہ سب خطابات اور تحریرات مشتمل ہیں۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۹؍ فروری ۲۰۲۱ء)

آپؓ کے علمی خزانے سے استفادہ کرنے کی تحریک

احباب جماعت کو حضرت مصلح موعودؓ کے علمی خزانے سے استفادہ کرنے کی طرف توجہ دلاتے ہوئے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:آپؓ نے مختلف موضوعات پر جماعت کو، عمومی طور پر مسلمانوں کو بھی نصائح فرمائی ہیں، راہنمائی فرمائی ہے۔ وہ کئی مضمون ہیں۔ کئی کتابیں ہیں ۔کئی ضخیم جلدوں پر یہ مشتمل ہیں۔ کچھ شائع ہوگئی ہیں کچھ شائع ہونے والی ہیں۔ تقریروں کی جلدیں ہی پینتیس چھتیس ہوگئی ہیں۔ خطبات چھبیس ستائیس یا اٹھائیس ہوگئے ہیں۔ تو بہرحال آپؓ نے بہت نصائح فرمائی ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی سکول، کسی مدرسہ، کسی کالج، یونیورسٹی میں نہ پڑھنے کے باوجود جو علمِ قرآن اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو عطا فرمایا تھا اس کی مثال نہیں ملتی۔ اس بارے میں بھی غیروں نے بےشمار تبصرے کیے ہوئے ہیں جو گذشتہ سالوں میں مَیں بیان کرچکا ہوں اور اب جو پرانے ریکارڈ میں سے غیر مطبوعہ نوٹس یا خطبات اور تقریروں میں سے جو تفسیریں قرآن کریم کی مل رہی ہیں وہ ابھی چھپی نہیں ہوئیں۔ تفسیر کبیر میں وہ نہیں آئیں۔ جو تفسیرکبیر کے دس Volumeہیں ان سے تقریباً دوگنے سے زیادہ ہیں۔ ان کی بھی ان شاء اللہ تعالیٰ جلد اشاعت ہوجائے گی۔ یہ سب اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو عطا فرمایا۔ اس پیشگوئی کو پورا فرمایا اور یہ جو پیشگوئی حضرت مصلح موعودؓ ہے یہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت کی عظیم پیشگوئیوں میں سے ایک ہے اور ہمارے ایمان کو بڑھانے کا ذریعہ ہے۔بہت سی کتب کی اشاعت انگریزی زبان میں بھی ہوچکی ہے۔ جن کو اردو نہیں آتی انہیں اس علمی خزانہ سے استفادہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ پہلے بھی مَیں کہتا رہتا ہوں۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو اس علمی خزانے سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۲۳؍فروری۲۰۲۴ء)

٭…فرمایا:جو باتیں پیشگوئی میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بیان فرمائی تھیں یا کہنا چاہیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپؑ کو بتائی تھیں وہ حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد مصلح موعودؓ میں پوری ہوئیں۔ آپؓ کو اللہ تعالیٰ نے جو علم اور عرفان عطا فرمایا تھا اس کا کوئی بڑے سے بڑا عالم بھی مقابلہ نہیں کر سکتا تھا۔ آپؓ کا دیا ہوا لٹریچر ایک جماعتی خزانہ ہے۔ آپؓ کے خطابات، خطبات، مضامین اکثر شائع ہو چکے ہیں کچھ ہو رہے ہیں۔ انہیں ہمیں پڑھنا چاہیےاور اب ترجمے کا کام بھی خاصی تیزی سے ہو رہا ہے۔ ان شاء اللہ جلدہی وہ بھی مہیا ہو جائے گا۔ انگریزی میں تو کافی کام ہو چکا ہے اور ہو رہا ہے۔ میرا مطلب ہے چھوٹی چھوٹی کچھ کتابیں شائع ہوئی ہیں۔اللہ تعالیٰ ہمیں اس علم و عرفان سے فائدہ اٹھانے کی توفیق عطا فرمائے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۷؍فروری۲۰۲۳ء)

پیشگوئی مصلح موعود اور ہماری ذمہ داریاں

آج ہم جب یومِ مصلح موعود مناتے ہیں تو حقیقی یومِ مصلح موعود تب ہی ہو گا جب یہ تڑپ آج ہم میں سے اکثریت اپنے اندر پیدا کرے کہ ہمارے مقاصد بہت عالی ہیں، بہت اونچے ہیں، بہت بلند ہیں جس کے حصول کے لئے عالی ہمتی کا بھی مظاہرہ کرنا ہو گا۔ اور اپنے اندر اعلیٰ تبدیلیاں بھی پیدا کرنا ہوں گی، پاک تبدیلیاں بھی پیدا کرنی ہوں گی۔ خداتعالیٰ سے ایک تعلق بھی جوڑنا ہو گا۔ اسلام کا درد بھی اپنے اندر پیدا کرنا ہو گا۔ دل میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے عشق و محبت کا درد پیدا کرتے ہوئے اظہار بھی کرنا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جو بیشمار خوبیوں کے مالک بیٹے کی خوشخبری عطا فرمائی تھی تو وہ یہ گہرا مطلب بھی اپنے اندر رکھتی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو فرمایا تھا کہ تیرا سلسلہ صرف تیرے ہی تک محدودنہیں ہو گا۔ جس مشن کو تو لے کر اُٹھا ہے وہ تیری زندگی تک ہی محدودنہیں رہے گا بلکہ تیرا ایک بیٹا جو اولوالعزمی میں اپنی مثال آپ ہو گا، جو اسلام کو دنیا میں پھیلانے کی تڑپ میں تیرا ثانی ہو گا۔ جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا جھنڈا دنیا میں گاڑنے کے لئے بے چین دل رکھتا ہو گا، اور پھر اُس بیٹے تک ہی محدودنہیں بلکہ بعد میں بھی اس مشن کو دنیا کے کونے کونے تک لے جانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے قدرتِ ثانیہ کا تا قیامت تسلسل جاری رہنے کا بھی وعدہ فرمایا ہے جو اس کام کو آگے بڑھاتا چلا جائے گا اور قدرتِ ثانیہ کو ایسے سلطانِ نصیر بھی عطا ہوں گے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلامِ صادق کے مشن کو آگے بڑھانے کے لئے قدرتِ ثانیہ جو خلافت کی صورت میں جاری ہے اس کے مددگار بنیں گے۔

پس آج ہمیں پیشگوئی مصلح موعودجہاں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی صداقت کی دلیل کے طور پر دکھائی دیتی ہے وہاں اس بات کی طرف بھی توجہ دلاتی ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو جس خوبیوں کے مالک بیٹے کی اللہ تعالیٰ نے اطلاع دی تھی اور جس تڑپ اور عزم کے ساتھ اُس بیٹے نے جماعت کو آگے بڑھنے کے راستے دکھائے، ایک خوبصورت نظام عطا فرمایا۔ جماعت کی تربیت کے نظام کے ساتھ دنیا کے کونے کونے میں اسلام کا خوبصورت پیغام پہنچانے کے لئے ایک ایسا نظام مستحکم کر دیا جس کے نتائج ہر روز نئی شان سے پورے ہوتے چلے جا رہے ہیں۔ اس نظام کو مزید مستحکم کرنے کے لئے ہر احمدی اپنا کردار ادا کرنے والا بنے۔ آج اللہ تعالیٰ کے فضل سے عرب ممالک میں بھی یہ نظام قائم ہے۔ ایشیا کے دوسرے ممالک میں بھی یہ نظام قائم ہے۔ افریقہ میں بھی یہ نظام قائم ہے۔ یورپ میں بھی یہ نظام قائم ہے۔ امریکہ میں بھی یہ نظام قائم ہے۔ آسٹریلیا میں بھی یہ نظام قائم ہے اور جزائر میں بھی یہ نظام قائم ہے۔(خطبہ جمعہ فرمودہ۱۷؍ فروری ۲۰۱۲ء)

پس یہ پیشگوئی تو پوری ہوئی۔ آپؓ نے اپنا دَور بھی گزارا لیکن پیشگوئی کے جو الفاظ ہیں یہ اس وقت تک قائم ہیں اور یہ ان شاء اللہ اس وقت تک قائم رہیں گے اور یہ چلتی چلی جائے گی جب تک حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا مشن پورا نہ ہو جائے اور اسلام کا جھنڈا تمام دنیا میں نہ لہرانے لگ جائے۔ پس ہمیں یاد رکھنا چاہیے کہ اس پیشگوئی پر ہمارے جلسے اور اس کو یاد رکھنا تبھی فائدہ مند ہے جب ہم اس مقصد کو ہمیشہ سامنے رکھیں کہ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت اور وقار کو دنیا میں قائم کرنا ہے اور دنیا پر اسلام کی سچائی ظاہر کر کے سب کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے جھنڈے تلے لے کر آنا ہے۔آج حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام کے ماننے والوں کے سوااَور کوئی نہیں جس کے ذریعہ سے اسلام کا جھنڈا دنیا میں دوبارہ لہرائےاور دنیا میں اسلام پھیلے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس کام کے کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۸؍ فروری۲۰۲۲ء)

٭…اللہ تعالیٰ ہمیں توفیق دے کہ ہم کام کرنے والے ہوں صرف جلسہ مصلح موعود منانے والے ہی نہ ہوں۔ اسلام کے پیغام کو دنیا میں پھیلانے والے ہوں اور صرف اسی بات پر خوش نہ ہو جائیں کہ ہم جلسے منا رہے ہیں۔ حقیقی طور پر ہم اس مشن کو آگے بڑھانے والے ہوں، اس کام کو آگے بڑھانے والے ہوں جس کے لیے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو اللہ تعالیٰ نے بھیجا تھا اور جس کے لیے آپؑ نے بےشمار پیشگوئیاں بھی فرمائیں اور مصلح موعود کی پیشگوئی بھی ان میں سے ایک پیشگوئی ہے۔…

اللہ تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں آپؓ پر اور ہر آن اللہ تعالیٰ آپ کے درجات بلند فرماتا رہے اور ہم حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے اس بیٹے کی طرح اسلام کی اشاعت کا درد اپنے دل میں بھی پیدا کرنے والے ہوں اور اسلام کی خدمت کے لیے ہم ہر وقت کمر بستہ ہوں اور ان لوگوں میں شامل ہوں جو دین کی خدمت کرنے والے ہوں نہ کہ ان لوگوں میں جن کے بارے میں حضرت مصلح موعودؓ نے فرمایاتھا کہ

’’آپ کے وقت میں یہ سلسلہ بدنام نہ ہو‘‘

(کلام محمود صفحہ ۹۷)

اللہ تعالیٰ نہ کرے کہ ہم یہ سلسلہ بدنام کرنے والے ہوں بلکہ خدمت میں آگے سے آگے بڑھتے چلے جانے والے ہوں۔

(خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۱؍فروری ۲۰۲۰ء)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا دورۂ فرانس ۱۹۲۴ء

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button