حقوق العباد کا مفہوم اور اس کی اقسام
’’دین کے دو ہی کامل حصے ہیں۔ ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع سے اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دعا کرنا جس کو دوسرے لفظوں میں شفاعت کہتے ہیں۔‘‘(حضرت مسیح موعودعلیہ السلام)
انسان کا خمیر اُنس اور اخوت کے مجموعہ سے تیار ہوا ہے۔ وہ طبعی طورپر معاشرت اور میل جول کو پسند کرتا ہے۔انسانی زندگی میں اجتماعیت کا تصور ایسے ہی ہے جیسے بچے کے ساتھ ماں کا تصور۔ نظام قدرت پر غورکیا جائے تو معلوم ہوگا کہ اس کائنات میں ہرجگہ اجتماعیت کا اُصول کارفرما ہے۔ انسانی زندگی کا کوئی زمانہ اجتماعیت سے بے نیاز نہیں رہا۔ وہ تمدن کی بنیاد سے پہلے غاروں میں خاندان کی شکل میں ایک ساتھ زندگی گزارتا رہا ہے۔ جوں جوں اس کا شعور بڑھتا گیا اس اجتماعیت میں نکھار اور جدّت پیدا ہوتی گئی۔اُس کی خاندانی اکائی قبائلی وحدت میں تبدیل ہوگئی۔ قبائلی وحدت قومی اجتماعیت کی شکل اختیار کرگئی پھر ترقی کرتے کرتے اس کی اجتماعیت نے بین الانسانی کنبے کا روپ دھار لیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہر انسان سماج اور خاندان کا محتاج ہے۔وہ بہت سے رشتوں کے حصار میں زندگی گزارنا چاہتا ہے۔ اس صورتحال میں اُس پر بہت سی ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں جنہیں حقوق کا نام دیا گیا ہے۔ ہر انسان پر مختلف نوعیت کے حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں جنہیں کماحقہٗ ادا کرنے سے اُس کے گھر، گلی محلے، گاؤں یا شہر اور ملک میں امن کی فضا قائم رہ سکتی ہے۔ حقوق کی ادائیگی سے باہمی یگانگت اور بھائی چارے میں اضافہ ہوتا ہے اور تعاون کا جذبہ فروغ پاتا ہے۔جس کے نتیجہ میں معاشرہ بہت سی خرابیوں سے بچ جاتا ہے۔ رسول کریم ﷺکے قلبِ اطہر میں مخلوق خدا کی ہمدردی اور اُن کی خدمت کا جذبہ طبعی طور پرموجزن تھا۔عین جوانی میں معاہدہ حلف الفضول میں شامل ہونا اور منصب نبوت پر فائز ہونے کے بعد بھی اس معاہدے کی پاسداری کرنااس کی عمدہ مثال ہے۔ آپﷺ پرپہلی وحی نازل ہوئی تو گھر تشریف لائے اور وحی کی کیفیات بیان فرمائیں۔ اس موقع پرامّ المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے آنحضرت ﷺ کے جن اخلاق کریمانہ کا ذکر کیاان سب کا تعلق نوع انسان کی خدمت،اُن کی ہمدردی اور خیرخواہی سے ہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا:
کَلَّا وَاللّٰہِ مَا یُخْزِیْکَ اللّٰہُ أَبَدًا إِنَّکَ لَتَصِلُ الرَّحِمَ، وَتَحْمِلُ الْکَلَّ وَتَکْسِبُ الْمَعْدُوْمَ وَتَقْرِی الضَّیْفَ وَتُعِیْنُ عَلَی نَوَاءِبِ الْحَقِّ(صحیح البخاری کتاب بدء الوحی بَاب:۳حدیث:۳)
ہر گز نہیں۔اللہ کی قسم! اللہ آپ کو کبھی رسوا نہیں کرے گا۔آپ ؐصلہ رحمی کرتے ہیں۔عاجزکا بوجھ اٹھاتے ہیں اور وہ نیکیاں کرتے ہیں جو معدوم ہوچکی ہیں۔ مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی مشکلات میں مدد دیتے ہیں۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کابےساختہ آپ کویہ یقین دلانا کہ اللہ تعالیٰ ایسے انسان کو کیونکر ضائع کرے گا جس کے اخلاق پسندیدہ ہیں اوروہ دن رات مخلوق کی خدمت میں سرگرداں رہتا ہو۔اگر دنیا کا ہر انسان ان اخلاقِ کریمانہ کو اپنا لے تو اس کے نتیجہ میں یقیناً دنیا امن کا گہوارہ بن سکتی ہے۔ اگر اسلامی تعلیم کاخلاصہ بیان کیا جائے تو وہ دو باتوں پر مشتمل ہے۔حقوق اللہ اور حقوق العبادکا قیام۔ جہاں تک حقوق العباد کا تعلق ہے اُس کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ان حقوق میں والدین، اولاد، میاں بیوی،بہن بھائی، قرابت دار،یتیم، بیوگان، مسکین، حاجت مند، ہمسایہ، سائل، قیدی، بوڑھے اور کمزور افراد، عورتیں، مریض، مسافر، استاد شاگرد،مالک اور مزدورکے حقوق شامل ہیں۔ اسلام نے اپنے ماننے والوں کو بہت واضح، جامع اور انسانی فطرت سے میل کھاتی ہوئی تعلیم دی ہے جس میں انسانی زندگی کے کسی پہلو کو نظر انداز نہیں کیا گیا۔ ہمدردی خلق ایک عمدہ خوبی اور نہایت اعلیٰ وصف ہے جس پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف ہمارے گھر امن او رسکون کا گہوارہ بن سکتے ہیں بلکہ اس کے نتیجے میں ایک حسین معاشرہ قائم ہوسکتا ہے۔سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:’’اسلام کا…مغز تو یہ تھا کہ خدا ہی کی محبت میں فنا ہوجانا اور اس کے سوا کسی کو معبود نہ سمجھنا اور مقصد یہ ہے کہ انسان روبخدا ہوجاوے روبدنیا نہ رہے۔ اور اِس مقصد کے لئے اسلام نے اپنی تعلیم کے دو حصے کئے ہیں۔ اوّل حقوق اللہ دوم حقوق العباد۔ حق اللہ یہ ہے کہ اس کو واجب الاطاعت سمجھے اور حقوق العباد یہ ہے کہ خدا کی مخلوق سے ہمدردی کریں۔ یہ طریق اچھا نہیں کہ صرف مخالفت مذہب کی وجہ سے کسی کو دکھ دیں۔ہمدردی اور سلوک الگ چیز ہیں اور مخالفت مذہب دوسری شَے‘‘(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۲۸۱)
حضور علیہ السلام نے فرمایاہے: ’’اسلام کی مثال ہم یوں دے سکتے ہیں کہ جیسے باپ اپنے حقوقِ ابوت کو چاہتا ہے اسی طرح وہ چاہتا ہے کہ اولاد میں ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ہو۔ وہ نہیں چاہتا کہ ایک دوسرے کو مارے۔ اسلام بھی جہاں یہ چاہتا ہے کہ خدا تعالیٰ کا کوئی شریک نہ ہو وہاں اس کا یہ بھی منشاء ہے کہ نوع انسان میں مودّت اور وحدت ہو۔
نماز میں جو جماعت کا زیادہ ثواب رکھا ہے اس میں یہی غرض ہے کہ وحدت پیدا ہوتی ہے۔ اور پھر اس وحدت کو عملی رنگ میں لانے کی یہاں تک ہدایت اور تاکید ہے کہ باہم پاؤں بھی مساوی ہوں اور صف سیدھی ہو اور ایک دوسرے سے ملے ہوئے ہوں۔ اس سے مطلب یہ ہے کہ گویا ایک ہی انسان کا حکم رکھیں اور ایک کے انوار دوسرے میں سرایت کرسکیں وہ تمیز جس سے خودی اور خود غرضی پیدا ہوتی ہے نہ رہے۔ یہ خوب یاد رکھو کہ انسان میں یہ قوت ہے کہ وہ دوسرے کے انوار کو جذب کرتا ہے۔ پھر اسی وحدت کے لئے حکم ہے کہ روزانہ نمازیں محلہ کی مسجد میں اور ہفتہ کے بعد شہر کی مسجد میں اور پھر سال کے بعد عیدگاہ میں جمع ہوں۔ اور کُل زمین کے مسلمان سال میں ایک مرتبہ بیت اللہ میں اکٹھے ہوں۔ ان تمام احکام کی غرض وہی وحدت ہے‘‘(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۲۸۲،۲۸۱)
حضورعلیہ السلام اس مضمون کو مزید واضح فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ نے حقوق کے دو ہی حصے رکھے ہیں۔ ایک حقوق اللہ دوسرے حقوق العباد۔ اس پر بہت کچھ قرآن کریم میں بیان کیا گیا ہے۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: فَاذۡکُرُوا اللّٰہَ کَذِکۡرِکُمۡ اٰبَآءَکُمۡ اَوۡ اَشَدَّ ذِکۡرًا (البقرہ:۲۰۱) یعنی اللہ تعالیٰ کو یاد کرو جس طرح پر تم اپنے باپ دادا کو یاد کرتے ہو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر۔ اس جگہ دو رمز ہیں۔ ایک تو ذکر اللہ کو ذکر آباء سے مشابہت دی ہے۔ اس میں یہ سِرّ ہے کہ آباء کی محبت ذاتی اور فطرتی محبت ہوتی ہے۔ دیکھو بچہ کو جب ماں مارتی ہے وہ اس وقت بھی ماں ماں ہی پکارتا ہے۔ گویا اس آیت میں اللہ تعالیٰ انسان کوایسی تعلیم دیتا ہے کہ وہ خدا تعالیٰ سے فطری محبت کا تعلق پیدا کرے۔ اس محبت کے بعد اطاعت امر اللہ کی خود بخود پیدا ہوتی ہے۔ یہی وہ اصلی مقام معرفت کا ہے جہاں انسان کو پہنچنا چاہئے۔ یعنی اس میں اللہ تعالیٰ کے لئے فطری اور ذاتی محبت پیدا ہوجاوے۔ ایک اور مقام پر یوں فرمایا ہے: اِنَّ اللّٰہَ یَأمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآیءِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل:۹۱) اِس آیت میں ان تین مدارج کا ذکر کیا ہے جو انسان کو حاصل کرنے چاہئیں پہلا مرتبہ عدل کا ہے۔ اور عدل یہ ہے کہ انسان کسی سے کوئی نیکی کرے بشرط معاوضہ۔ اور یہ ظاہر بات ہے کہ ایسی نیکی کوئی اعلیٰ درجہ کی بات نہیں بلکہ سب سے ادنیٰ درجہ یہ ہے کہ عدل کر و۔ اور اگر اس پر ترقی کرو تو پھر وہ احسان کا درجہ ہے یعنی بِلا عوض سلوک کرو۔ لیکن یہ امر کہ جو بدی کرتا ہے اس سے نیکی کی جاوے۔ کوئی ایک گال پر طمانچہ مارے دوسری پھیر دی جاوے یہ صحیح نہیں یا یہ کہو کہ عام طور پر یہ تعلیم عمل درآمد میں نہیں آسکتی … اس لئے اسلام نے انتقامی حدود میں جو اعلیٰ درجہ کی تعلیم دی ہے کہ کوئی دوسرا مذہب اس کا مقابلہ نہیں کرسکتا اور وہ یہ ہے۔ جَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا ۚ فَمَنۡ عَفَا وَاَصۡلَحَ الٓایۃ(الشوریٰ:۴۱) یعنی بدی کی سزا اسی قدر بدی ہے اور جو معاف کردے مگر ایسے محل اور مقام پر کہ وہ عفو اصلاح کا موجب ہو۔ اسلام نے عفو خطا کی تعلیم دی لیکن یہ نہیں کہ اس سے شر بڑھے۔
غرض عدل کے بعد دوسرا درجہ احسان کا ہے۔ یعنی بغیر کسی معاوضہ کے سلوک کیا جاوے۔ لیکن اس سلوک میں بھی ایک قسم کی خود غرضی ہوتی ہے کسی نہ کسی وقت انسان اس احسان یا نیکی کو جتا دیتا ہے۔ اس لئے اس سے بھی بڑھ کر ایک تعلیم دی اور وہ اِیۡتَآیِءِ الۡقُرۡبٰی (النحل:۹۱) کا درجہ ہے۔ ماں جو اپنے بچہ کے ساتھ سلوک کرتی ہے وہ اُس سے کسی معاوضہ اور انعام و اکرام کی خواہشمند نہیں ہوتی۔ وہ اس کے ساتھ جو نیکی کرتی ہے محض طبعی محبت سے کرتی ہے … اس کی وجہ یہی ہے کہ وہ ذاتی محبت سے کررہی ہے۔ اُس کی کوئی غرض درمیان نہیں۔ یہ اعلیٰ درجہ کی تعلیم ہے جو اسلام پیش کرتا ہے۔ اور یہ آیت حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں پر حاوی ہے۔ حقوق اللہ کے پہلو کے لحاظ سے اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ انصاف کی رعایت سے اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا ہے اور تمہاری پرورش کرتا ہے۔ اور جو اطاعتِ الٰہی میں اس مقام سے ترقی کرے تو احسان کی پابندی سے اطاعت کر۔ کیونکہ وہ محسن ہے اور اس کے احسانات کو کوئی شمار نہیں کرسکتا۔ اور چونکہ محسن کے شمائل اور خصائل کو مدّ نظر رکھنے سے اس کے احسان تازہ رہتے ہیں۔ اس لئے احسان کا مفہوم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بتایا ہے کہ ایسے طور پر اللہ تعالیٰ کی عبادت کرے گویا دیکھ رہا ہے یا کم ازکم یہ کہ اللہ تعالیٰ اُسے دیکھ رہا ہے۔ اس مقام تک انسان میں ایک حجاب رہتا ہے لیکن اس کے بعد جو تیسرا درجہ ہے اِیْتَآیءِ ذِی الْقُرْبٰی (النحل:۹۱) کا یعنی اللہ تعالیٰ سے اُسے ذاتی محبت پیدا ہوجاتی ہے۔ اور حقوق العباد کے پہلو سے مَیں اس کے معنے پہلے بیان کر چکا ہوں۔ اور یہ بھی مَیں نے بیان کیا ہے کہ یہ تعلیم جو قرآن شریف نے دی ہے کسی اور کتاب نے نہیں دی۔ اور ایسی کامل ہے کہ کوئی نظیر اس کی پیش نہیں کرسکتا۔ یعنی وَجَزٰٓؤُا سَیِّئَۃٍ سَیِّئَۃٌ مِّثۡلُہَا (الشوریٰ:۴۱) الآیۃ اِس میں عفو کے لئے یہ شرط رکھی ہے کہ اس میں اصلاح ہو۔‘‘(لیکچر لدھیانہ، روحانی خزائن جلد ۲۰صفحہ ۲۸۲-۲۸۴)
حقوق العباد کی اقسام
جس طرح حقوق کی دو اقسام حقوق اللہ اور حقوق العباد ہیں۔ اسی طرح حقوق العباد کی بھی دو اقسام ہیں۔ ایک دینی بھائیوں کے حقوق اور دوسرے عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’حقوق بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک حقوق اللہ اور دوسرے حقوق العباد۔ اورحقوقِ عباد بھی دو قسم کے ہیں۔ ایک وہ جو دینی بھائی ہوگئے ہیں۔ خواہ وہ بھائی ہے یا باپ، یا بیٹا۔ مگر ان سب میں ایک دینی اخوت ہے۔ اور ایک عام بنی نوع انسان سے سچی ہمدردی۔‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۶۸۔ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
حقوق اللہ اور حقوق العباد کا آپس میں گہرا تعلق ہے۔ دونوں حقوق ایک ہی چشمے سے نکلے ہیں۔اس لیے ان دونوں کی ادائیگی بہت ضروری ہے۔اسلامی تعلیم کی رُو سے عبادت صرف صوم وصلوٰۃ کے ساتھ مخصوص نہیں بلکہ حقوق النفس اور حقوق العباد کی ادائیگی عبادت ہی کے زمرے میں شمار ہوتی ہے۔ نبی ﷺ نے فرمایاہے: فَاِنَّ لِعَیْنَکَ عَلَیْکَ حَظًّا وَ اِنَّ لِنَفْسِکَ وَأَھْلِکَ عَلَیْکَ حَظًّا(صحیح البخاری کتاب الصوم بَاب حَقُّ الْأَھْلِ فِی الصَّوْمِ حدیث:۱۹۷۷) تمہاری آنکھوں کا بھی تم پر حق ہے اور تمہارے نفس اور تمہاری بیوی کا بھی تم پر حق واجب ہے۔
نبی ﷺ نے حضرت سلمانؓ اور حضرت ابودرداءؓ کو آپس میں بھائی بھائی بنایا۔ حضرت سلمانؓ حضرت ابودرداءؓ سے ملنے گئے تو انہوں نے حضرت درداءؓ کی زوجہ کو دیکھا کہ انہوں نے میلے کچیلے کپڑے پہنے ہوئے ہیں۔ انہوں نے اُن سے پوچھا: تمہارا یہ کیا حال ہے؟ وہ کہنے لگیں: تمہارے بھائی ابودرداءؓ کو دنیا میں کوئی حاجت نہیں۔ اِتنے میں حضرت ابودرداءؓ آئے تو انہوں نے حضرت سلمانؓ کے لیے کھانا تیار کیااور اُن سے کہا: آپؓ کھائیں (اور) کہا: میں تو روزہ دار ہوں۔ حضرت سلمانؓ نے کہا: میں اس وقت تک ہرگز نہیں کھاؤں گاجب تک آپؓ نہ کھائیں۔ حضرت ابودرداءؓ نے کھانا کھایااور جب رات ہوئی تو حضرت ابودرداءؓ کھڑے ہوکر نماز پڑھنے لگے۔ (حضرت سلمانؓ نے) کہا: سوئیں۔ تو وہ سوگئے۔ پھر نماز کے لیے اُٹھنے لگے تو انہوں نے کہا: ابھی اور سوئیں۔ جب رات کا آخری حصہ ہوا تو حضرت سلمانؓ نے کہا: اب اُٹھیں اور دونوں نے نماز پڑھی اور حضرت سلمان ؓنے اُن سے کہا: تیرے ربّ کا بھی تجھ پر حق ہے اور تیرے نفس کا بھی اور تیری بیوی کا بھی تجھ پر حق۔ اس لیے ہر حق والے کو اُس کا حق دے۔حضرت ابودرداءؓ نبی ﷺکے پاس آئے اور آپؐ سے اس بات کا ذکر کیا تو نبی ﷺ نے اُن سے فرمایا: صَدَقَ سَلْمَانُ!سلمانؓ نے سچ کہا ہے۔(صحیح البخاری کتاب الصوم بَاب مَنْ أَقْسَمَ عَلَی أَخِیْہِ لِیُفْطِرَ فِی التَّطَوُّعِ حدیث:۱۹۶۸) اللہ تعالیٰ نے قرآن شریف میں انسانی حقوق کی اہمیت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرمایاہے کہ
وَاعۡبُدُوا اللّٰہَ وَلَا تُشۡرِکُوۡا بِہٖ شَیۡئًا وَّبِالۡوَالِدَیۡنِ اِحۡسَانًا وَّبِذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡیَتٰمٰی وَالۡمَسٰکِیۡنِ وَالۡجَارِ ذِی الۡقُرۡبٰی وَالۡجَارِ الۡجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالۡجَنۡۢبِ وَابۡنِ السَّبِیۡلِۙ وَمَا مَلَکَتۡ اَیۡمَانُکُمۡ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا (النِّسَآءِ:۳۷)
اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیر رشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔(ترجمہ بیان فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ)
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اس آیت کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’اس آیت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ نہ صرف اپنے بھائیوں، عزیزوں، رشتہ داروں، اپنے جاننے والوں، ہمسایوں سے حسن سلوک کرو، ان سے ہمدردی کرو اور اگر ان کو تمہاری مدد کی ضرورت ہے تو اُن کی مدد کرو، ان کو جس حد تک فائدہ پہنچا سکتے ہو فائدہ پہنچاؤ بلکہ ایسے لوگ، ایسے ہمسائے جن کو تم نہیں بھی جانتے، تمہاری ان سے کوئی رشتہ داری یا تعلق داری بھی نہیں ہے جن کو تم عارضی طور پر ملے۔ ان کو بھی اگر تمہاری ہمدردی اور تمہاری مدد کی ضرورت ہے، اگر ان کو تمہارے سے کچھ فائدہ پہنچ سکتا ہے تو ان کو ضرور فائدہ پہنچاؤ۔ اس سے اسلام کا ایک حسین معاشرہ قائم ہوگا۔ ہمدردئ خلق اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کو فائدہ پہنچانے کا وصف اور خوبی اپنے اندر پیدا کرلو گے اور اس خیال سے کر لو گے کہ یہ نیکی سے بڑھ کر احسان کے زمرے میں آتی ہے اور احسان تو اس نیت سے نہیں کیا جاتا کہ مجھے اس کا کوئی بدلہ ملے گا۔ احسان تو انسان خالصتاً اللہ تعالیٰ کی خاطر کرتا ہے۔ تو پھر ایسا حسین معاشرہ قائم ہوجائے گا جس میں نہ خاوند بیوی کا جھگڑا ہوگا، نہ ساس بہو کا جھگڑا ہوگا، نہ بھائی بھائی کا جھگڑا ہوگا، نہ ہمسائے کا ہمسائے سے کوئی جھگڑا ہوگا، ہر فریق دوسرے فریق کے ساتھ احسان کا سلوک کررہا ہوگا اور اس کے حقوق اسی جذبہ سے ادا کرنے کی کوشش کررہا ہوگا۔ اور خالصتاً اللہ تعالیٰ کی محبت، اس کا پیار حاصل کرنے کے لئے، اس پر عمل کر رہا ہوگا۔ آج کل کے معاشرہ میں تو ا س کی اور بھی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اگر یہ باتیں نہیں کرو گے، فرمایا: پھر متکبر کہلاؤ گے اور تکبر کو اللہ تعالیٰ نے پسند نہیں کیا۔ تکبر ایک ایسی بیماری ہے جس سے تمام فسادوں کی ابتداہوتی ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ستمبر ۲۰۰۳ء۔الفضل انٹرنیشنل ۷تا ۱۳؍نومبر ۲۰۰۳ء)
نیز فرمایا:’’اللہ تعالیٰ نے جہاں اپنی عبادت کرنے اور حقوق اللہ ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے وہاں حقوق العباد کی ادائیگی کی طرف بھی توجہ دلاتے ہوئے ہمیں مختلف رشتوں اور تعلقوں کے حقوق کی ادائیگی کا بھی حکم فرمایا ہے اور اسی اہمیت کی وجہ سے ہی حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے شرائط بیعت کی نویں شرط میں اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی اور ان کے حقوق کی ادائیگی کا ذکر فرمایا ہے‘‘ (خطبہ جمعہ فرمودہ ۱۲؍ستمبر ۲۰۰۳ء۔ الفضل انٹرنیشنل ۷تا ۱۳؍نومبر۲۰۰۳ء)
اسلام نے اپنے ماننے والوں کونہ صرف فرائض کی ادائیگی کی طرف متوجہ کیا ہے بلکہ اُن کے دلوں میں ان فرائض کی ادائیگی کی فکر پیدا کردی ہے۔یہی وجہ ہے کہ یہ احساس ذمہ داری اُنہیں متوجہ کرتا رہتا ہے کہ وہ اپنے اوپر عائد ہونے والی ذمہ داریوں اور حقوق وفرائض کے معاملہ میں اپنا قدم پھونک پھونک کر رکھیں۔ انہیں یہ باور کرایاگیا ہے کہ وہ کسی ہوشیاری یا چالاکی سے دنیا کی نظروں سے تو بچ سکتے ہیں لیکن کائنات کے مالک کی نگاہ سے بچنا ناممکن ہے۔اگر یہی فکر معاشرے کے ہر فرد کے دل میں جاگزیں ہوجائے تو دنیا میں حق تلفیوں کی شرح میں غیرمعمولی کمی واقع ہوجائے۔اس لیے ضروری ہے کہ حقوق وفرائض سے متعلق تعلیم کو عام کیا جائے اور اُس کے تمام پہلو یکجائی صورت میں عوام الناس کے سامنے لائے جائیں تاکہ وہ اُن تمام ذمہ داریوں کو جان لیں جن کا تقاضا اُن کا دین اُن سے کرتا ہے۔اس ضمن میں حضرت صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درج ذیل ارشادات بہت ہی قابل غور ہیں۔آپؓ فرماتے تھے:جب میں کسی شرابی کو گرفتار کرتا ہوں تو دل میں یہ آرزو پیدا ہوتی ہے کہ اللہ اس کی سترپوشی کرے اور کسی چور کو گرفتار کرتا ہوں اس وقت بھی یہی خواہش دل میں ہوتی ہے۔ (خلفاء راشدین طبع سوم صفحہ ۷۵۔ ناشر ادارہ اسلامیات لاہور اشاعت جولائی ۱۹۶۱ء)
اللہ! اللہ! آپ کا دل مخلوق خدا سے شفقت ومحبت میں کس قدر معمور تھا۔ آپؓ فرمایا کرتے تھے کہ اے اللہ کے بندو! آپس میں قطع تعلق نہ کرو، بغض نہ رکھو، ایک دوسرے پر حسد نہ کرو اور بھائی بھائی ہو کے رہو جیسا کہ اللہ نے تم کو حکم دیا ہے۔ (خلفاء راشدین طبع سوم صفحہ ۷۵۔ ناشر ادارہ اسلامیات لاہور اشاعت جولائی ۱۹۶۱ء)
فرماتے تھے: اپنے لونڈی غلاموں کو اولاد کی طرح رکھو، ان کو وہی کھلاؤ جو خود کھاتے ہو، وہی پہناؤ جو تم پہنتے ہو۔ (خلفاء راشدین طبع سوم صفحہ ۷۵۔ ناشر ادارہ اسلامیات لاہور اشاعت جولائی ۱۹۶۱ء)
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام حقوق العباد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:(۱)’’نفس انسان کو مجبور کرتا ہے کہ اس کے خلاف کوئی امر نہ ہو اور اس طرح پر وہ چاہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے تخت پر بیٹھ جاوے اس لیے اس سے بچتے رہو۔ مَیں سچ کہتا ہوں کہ بندوں سے پورا خُلق کرنا بھی ایک موت ہے۔ مَیں اس کو نا پسند کرتا ہوں کہ اگر کوئی ذرا بھی کسی کو تُوں تاں کرے تو وہ اس کے پیچھے پڑ جاوے۔ مَیں تو اس کو پسند کرتا ہوں کہ اگر کوئی سامنے بھی گالی دے دے تو صبر کرکے خاموش ہو رہے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۶۹۔ ایڈیشن ۱۹۸۸ء)
(۲) ’’اس بات کو بھی خوب یاد رکھو کہ خدا تعالیٰ کے دو حکم ہیں۔ اوّل یہ کہ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو۔ نہ اس کی ذات میں نہ صفات میں نہ عبادات میں۔ اور دوسرے نوعِ انسان سے ہمدردی کرو۔ اور احسان سے یہ مراد نہیں کہ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں ہی سے کرو بلکہ کوئی ہو۔ آدم زادہو اور خدا تعالیٰ کی مخلوق میں کوئی بھی ہو۔ مت خیال کرو کہ وہ ہندو ہے یا عیسائی۔ مَیں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارا انصاف اپنے ہاتھ میں لیا ہے وہ نہیں چاہتا کہ تم خود کرو۔ جس قدر نرمی تم اختیار کرو گے اور جس قدر فروتنی اور تواضع کرو گے اللہ تعالیٰ اسی قدر تم سے خوش ہوگا۔ اپنے دشمنوں کو تم خدا تعالیٰ کے حوالے کرو۔ قیامت نزدیک ہے۔ تمہیں اُن تکلیفوں سے جو دشمن تمہیں دیتے ہیں گھبرانا نہیں چاہئے۔ مَیں دیکھتا ہوں کہ ابھی تم کو اُن سے بہت دُکھ اُٹھانا پڑے گا کیونکہ جو لوگ دائرہ تہذیب سے باہر ہوجاتے ہیں۔ اُن کی زبان ایسی چلتی ہے جیسے کوئی پُل ٹوٹ جاوے تو ایک سیلاب پھوٹ نکلتا ہے۔ پس دیندار کو چاہئے کہ اپنی زبان کو سنبھال کر رکھے۔‘‘(ملفوظات جلد پنجم صفحہ ۱۳۰ ۔ ۱۳۱۔ ایڈیشن۱۹۸۸ء)
(۳)’’دین کے دو ہی کامل حصے ہیں۔ ایک خدا سے محبت کرنا اور ایک بنی نوع سے اس قدر محبت کرنا کہ ان کی مصیبت کو اپنی مصیبت سمجھ لینا اور ان کے لئے دعا کرنا جس کو دوسرے لفظوں میں شفاعت کہتے ہیں۔‘‘(نسیم دعوت۔ روحانی خزائن جلد ۱۹صفحہ ۴۶۴)
(۴)’’ہماری تمام نصیحتوں کا خلاصہ تین امر ہیں اوّل یہ کہ خدا تعالیٰ کے حقوق کو یاد کرکے اس کی عبادت اور اطاعت میں مشغول رہنا۔ اس کی عظمت کو دل میں بٹھانا اور اس سے سب سے زیادہ محبت رکھنا اور اس سے ڈر کر نفسانی جذبات کو چھوڑنا اور اس کو واحد لاشریک جاننا اور اس کے لئے پاک زندگی رکھنا اور کسی انسان یادوسری مخلوق کو اس کا مرتبہ نہ دینا۔ اور درحقیقت اس کو تمام روحوں اور جسموں کا پیدا کرنے والا اور مالک یقین کرنا۔ دوم یہ کہ تمام بنی نوع سے ہمدردی کے ساتھ پیش آنا۔ اور حتی المقدور ہر ایک سے بھلائی کرنا اور کم سے کم یہ کہ بھلائی کا ارادہ رکھنا۔‘‘(کتاب البریّہ، روحانی خزائن جلد۱۳صفحہ ۱۴)
خلاصہ کلام یہ کہ ہمارے آسمانی آقا نے جن لوگوں کو عزت کے بلند مقام پر فائز کیا ہے ہم بھی اُن کی قدر کریں اور بحیثیت انسان اُن کے دلی ہمدرد اور خیرخواہ بن جائیں۔وَلَقَدۡ کَرَّمۡنَا بَنِیۡۤ اٰدَمَ(بنی اسرائیل:۷۱) اور یقیناً ہم نے ابنائے آدم کو عزت دی
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: آیت الکرسی کی فضیلت