مالی قربانی کے چند ایمان افروز واقعات
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۱۱؍نومبر ۲۰۱۶ء)
مبلغ انچارج گنی کناکری لکھتے ہیں کہ یہاں ایک جماعت ہے سُومبُویادی (Soumbouyady) اس کی مسجد کے امام اپنی مسجد سمیت اس سال جماعت میں شامل ہوئے۔ جب انہیں جماعت کے مالی نظام اور تحریک جدید کی اہمیت وغیرہ کے متعلق بتایا گیا تو کہنے لگے کہ میں نے خود بھی چندہ اور زکوٰۃ پر بہت زیادہ لیکچر دئیے ہیں لیکن اتنا مضبوط اور جامع مالی نظام مَیں نے کہیں اور نہیں دیکھا اور نہ کبھی ایسے نظام کے بارے میں سنا تھا۔ چنانچہ موصوف نے اسی وقت چندے کی ادائیگی کی اور کہا کہ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ہر ماہ ہماری ساری جماعت چندہ ادا کرے گی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو غریب علاقے کے ہیں اور غربت کا جو معیار یورپ میں یا مغرب میں ہے اس کے بھی انتہائی نچلے درجے کے غریب ہیں۔ لیکن قربانیوں میں یہ سب سے اعلیٰ درجہ پر پہنچنے والے لوگ ہیں۔ پھر یہ صرف ایک ملک کا قصہ نہیں بلکہ یہ ہوا دنیا کے بہت سے ممالک میں چل رہی ہے۔ پہلے گنی کناکری کا ذکر ہوا تھا تو اب آئیوری کوسٹ کے مبلغ صاحب بھی لکھتے ہیں کہ ہم تبلیغ کے لئے ایک گاؤں کوپنگے (Kopingue)میں گئے اور انہیں جماعت کا پیغام پہنچایا۔ تمام مرد و زن نے بہت غور سے ہماری تبلیغ سنی۔ ایک دوست کہنے لگے کہ پہلے بھی یہاں کافی لوگ تبلیغ کے لئے آ چکے ہیں لیکن اس طرح کا خوبصورت پیغام ہم نے پہلے کبھی نہیں سنا۔ چنانچہ اس کے بعد تین سو کے قریب لوگوں نے اسی وقت جماعت میں شمولیت اختیار کر لی۔ اس کے بعد انہیں جماعت کے مالی نظام اور تحریک جدید کے بارے میں بتایا گیا اور باتوں باتوں میں یہ ذکر بھی ہو گیا کہ تحریک جدید کا جو سال ہے آج اس کا یہ آخری دن ہے۔ اس پر گاؤں کے چیف اور امام نے گاؤں والوں سے کہا کہ ہم بیشک آج احمدی ہوئے ہیں اور احمدیت میں آج شامل ہوئے ہیں لیکن ہر صورت میں اس مبارک تحریک میں شامل ہوں گے۔ چنانچہ گاؤں والوں نے فوری طور پر دس ہزار فرانک جمع کر کے تحریک جدید میں ادا کئے۔
پھر قربانی کا ایک واقعہ افریقہ کے ایک اور ملک تنزانیہ کے موانزہ ریجن کا ہے۔ وہاں کے ایک دوست کا تحریک جدید کا وعدہ دو لاکھ شلنگ کا تھا جس میں سے انہوں نے ایک لاکھ شلنگ کی ادائیگی کر دی تھی جبکہ ایک لاکھ بقایا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ اکتوبر میں امیر صاحب نے انہیں توجہ دلائی کہ ابھی آپ کے ذمہ ایک لاکھ شلنگ بقایا ہے اور تحریک جدید کا سال ختم ہو رہا ہے۔ اس پر انہوں نے کہا کہ میں اس وقت سفر پہ ہوں لیکن مَیں کوئی انتظام کرتا ہوں۔ چنانچہ انہوں نے ایک بس ڈرائیور کے ہاتھ یہ رقم بھجوا دی اور اسے یہ کہا کہ یہ میرا چندہ ہے جس کی ادائیگی بہت ضروری ہے اور وہاں پہنچتے ہی یہ ساری رقم معلم کو دے دینا۔ اس کا نام بتایا، پتہ دیا۔ چنانچہ وہ بس ڈرائیور جونہی بس اسٹینڈ پر پہنچا اس نے معلم صاحب کو فون کر کے کہا کہ آپ کی امانت میرے پاس ہے آ کے لے جائیں۔ جب معلم چندہ لینے گئے تو ڈرائیور نے معلم سے کہا کہ وہ بھی احمدی ہونا چاہتا ہے۔ اس بس ڈرائیور کے بیوی بچے پہلے احمدی ہو چکے تھے لیکن وہ خودنہیں ہو رہا تھا کہ تسلی نہیں ہے۔ کہنے لگا مجھے اس بات نے بہت متاثر کیا ہے کہ اس مادی دور میں جہاں انسان مال سے بہت محبت کرتا ہے اور ہم تو غریب علاقے کے لوگ ہیں، کس طرح اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگ پیدا کئے ہیں جو اللہ کی راہ میں مال دے کر حقیقی خوشیاں اور سکون پاتے ہیں۔ اس طرح احمدی دوست جنہوں نے بس ڈرائیور کے ذریعہ سے اپنا چندہ بھجوایا تھا ان کایہ چندہ بھجوانا اس غیر احمدی کو بھی احمدیت میں شامل کرنے کا باعث بن گیا۔ پس یہ ہیں وہ نیک نیتی سے دئیے ہوئے چندے جن کے نتائج فوری طور پر نکلتے ہیں۔ مالی قربانی جو محبوب مال میں سے دی گئی ہے وہ ایک سعید روح کی اصلاح کا باعث بن گئی۔ تو اس طرح اللہ تعالیٰ پھل دینے کے مختلف ذرائع استعمال کرتا ہے۔
اسی طرح سینیگال کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ ہماری جماعت کے ایک ممبر عمر صاحب کے والد جو کہ غیر احمدی تھے گنی کناکری سے انتہائی بیماری کی حالت میں آئے۔ ابتدائی ادویات اور چیک اَپ کے بعد ڈاکٹروں نے پراسٹیٹ کا آپریشن تجویز کیا لیکن عمر دیالو صاحب کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ اپنے والد کا آپریشن کروا سکتے اور اتنا بڑا قرضہ لینا بھی ان کے لئے مشکل نظر آ رہا تھا۔ بےحد پریشان تھے۔ کہتے ہیں کہ اکتوبر کا پہلا ہفتہ شروع ہوا تو جمعہ کے خطبہ میں جب میں نے تحریک جدید کے بارے میں توجہ دلائی تو اگلے روز عمر صاحب مشن ہاؤس آئے اور کہنے لگے میری تحریک جدید کے چندے کی رسید کاٹ دیں۔ امیر صاحب کہتے ہیں کہ مجھے ان کے حالات کا پتا تھا میں نے انہیں کہا کہ آپ کے پہلے حالات ایسے ہیں، والد بیمار ہیں آپ یہ قربانی کس طرح کریں گے۔ انہوں نے کہا کل جو آپ نے خطبہ دیا تھا کہ یہ اللہ تعالیٰ سے سودا ہے تو میں اللہ تعالیٰ سے سودا کرنے آیا ہوں اس لئے آپ میری رسید کاٹیں۔ یہ کہتے ہیں کہ میں دو دن کے بعد جب ان کے گھر ان کے والد کی عیادت کرنے کے لئے گیا تو ان کے والد باہر کرسی پر بیٹھے ہوئے تھے اور عمر صاحب کچھ دیر کے بعد آئے اور کہنے لگے کہ آج میری تجارت کامیاب ہو گئی کہ اللہ کے فضل سے والد بالکل ٹھیک ہیں اور درد وغیرہ کچھ نہیں ہے۔ کچھ دن کے بعد ڈاکٹر نے بھی دوبارہ چیک اَپ کیا تو اس نے کہا کہ آپریشن کی بھی ضرورت نہیں ہے۔ چنانچہ اس واقعہ کے بعد ان کے والدنے بھی بیعت کر لی۔ تو یہ بعض دفعہ نقد سودے ہوتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کرتا ہے۔ گزشتہ ہفتے مَیں نے مسجد کے افتتاح پر بھی یہاں کے ایک شخص کاذکر کیا تھا کہ کس طرح اس نے مسجد کی خدمت کو ترجیح دی اور اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی طور پر اس کے لئے بہت بڑی رقم کا انتظام کر دیا۔ ایک دنیا دار تو شاید اس کو اتفاق سمجھے لیکن خدا پر یقین رکھنے والا اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ یقیناً اللہ تعالیٰ کا فضل ہے جو ہوا۔
اسی طرح کانگو کنشاسا کی ایک جماعت Vunda Mulunde کے ایک احمدی دوست ایوب Kukondolo صاحب کہتے ہیں کہ میں پہلے جماعتی کاموں میں حصہ نہیں لیتا تھا۔ میرا بیٹا ہمیشہ بیمار رہتا تھا اور اس کے علاج معالجہ پر بہت خرچ ہوتا تھا۔ کہتے ہیں پھر مجھے لوکل عاملہ میں سیکرٹری مال کی ذمہ داری دی گئی۔ اس پر میں نے سوچا کہ جب مجھے سیکرٹری مال بنایا گیا ہے تو میری مالی قربانی جماعت کے لئے نمونہ ہونا چاہئے۔ اب ایک دُور دراز رہنے والے ایک ملک میں چھوٹی سی جگہ پر ایک غریب آدمی کو یہ خیال آتا ہے کہ جب مجھے سیکرٹری مال بنایا گیا تو میری قربانی کا معیار بھی دوسروں سے زیادہ بہتر ہونا چاہئے۔ کہتے ہیں میں نے باقاعدگی سے چندہ دینا شروع کر دیا اور چندے کی برکت سے میرے حالات میں بھی تبدیلی پیدا ہونی شروع ہوگئی۔ زندگی پُرسکون اور خوشحال ہونے لگی۔ میرا بیٹا بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بیماریوں سے محفوظ ہے۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ یہ سب جماعت کی خدمت اور مالی قربانیوں کا نتیجہ ہے۔
٭…٭…٭
مزید پڑھیں: مومن کو انصاف اور امن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے