آیت الکرسی کی فضیلت
ہر چیز کا ایک کوہان ہوتا ہے اور قرآن کریم کا کوہان سورہ بقرہ ہے۔ اور اس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کریم کی سب آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت الکرسی ہے۔ (سنن الترمذی)
حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث، کتب حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفائے سلسلہ کے خطبات میں آیت الکرسی کی بہت فضیلت بیان ہوئی ہے۔ یہ عظیم آیت سورةالبقرہ میں ہے: اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرۡضِؕ مَنۡ ذَاالَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَمَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَلَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ ۚ وَلَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ۔ (البقرہ:۲۵۶)(ترجمہ) اللہ ! اُس کے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ ہمیشہ زندہ رہنے والا (اور) قائم باِلذات ہے۔ اُسے نہ تو اُونگھ پکڑتی ہے اور نہ نیند۔ اُسی کے لیے ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ کون ہے جواس کے حضور شفاعت کرے مگر اس کے اذن کے ساتھ۔ وہ جانتا ہے جو اُن کے سامنے ہے اور جو اُن کے پیچھے ہے۔ اور وہ اُس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کر سکتے، مگر جتناوہ چاہے۔ اس کی بادشاہت آسمانوں اور زمین پر ممتد ہے اور ان دونوں کی حفاظت اسے تھکاتی نہیں۔ اور وہ بہت بلند شان (اور) بڑی عظمت والاہے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر چیز کا ایک کوہان ہوتا ہے اور قرآن کریم کا کوہان سورہ بقرہ ہے۔ اور اس میں ایک ایسی آیت ہے جو قرآن کریم کی سب آیتوں کی سردار ہے اور وہ آیت الکرسی ہے۔ (سنن الترمذی کتاب فضائل القرآن باب ما جاء فی فضل سورۃ البقرۃ وآیۃ الکرسی حدیث نمبر ۲۸۷۸) روایت میں آتا ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ سوتے وقت آیۃ الکرسی، سورہ اخلاص، سورہ فلق اور سورۃ النّاس یعنی قرآن کریم کی جو آخری تین سورتیں ہیں، یہ اور آیۃ الکرسی تین دفعہ پڑھ کر ہاتھوں پر پھونکتے اور پھر اپنے ہاتھوں کو جسم پر اس طرح پھیرتے کہ سر سے شروع کر کے جہاں تک جسم پر ہاتھ جا سکتا جسم پر پھیرتے۔ اسی طرح یہ بھی روایت میں آتاہے کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص سورۃ البقرۃ کی دس آیات پڑھ کر سوئے صبح تک اس کے گھر میں شیطان نہیں آتا۔ ان آیات میں سے ایک آیت، آیت الکرسی ہے۔ (سنن الدارمی کتاب فضائل القرآن باب فضل اول سورۃ البقرۃ)۔ امام نسائی رحمہ اللہ نے یہ حدیث حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کے حوالے سے نقل فرمائی ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:جوشخص ہر فرض نماز کے بعد آیت الکرسی پڑھاکرے تواس کوجنت میں داخل ہونے کے لیے بجز موت کے کوئی مانع نہیں ہے۔ (سنن النسائی الکبریٰ)۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے صبح کے وقت حٰمٓ۔ المؤمن سے لے کر اِلَیْہِ الْمَصِیْرُ تک پڑھا اور آیۃ الکرسی بھی پڑھی تو ان دونوں کے ذریعہ سے اس کے شام کرنے تک کی حفاظت کی جائے گی اور جس نے یہ دونوں شام کے وقت پڑھیں تو ان کے ذریعہ اس کے صبح کرنے تک حفاظت کی جائے گی۔ (جامع الترمذي، باب ما جاء في فضل سورة البقرة وآية الكرسي، رقم الحديث: ۲۸۷۹)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بھی اس آیت کو باقاعدگی سے پڑھتے تھے، خاص طور پر نماز تہجد کے دوران۔ حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمدصاحبؓ تحریر کرتے ہیں کہ ڈاکٹر میر محمد اسماعیل صاحبؓ نے مجھ سے بیان کیا کہ ۱۸۹۵ء میں مجھے تمام ماہ رمضان قادیان میں گزارنے کا اتفا ق ہوا اور میں نے تمام مہینہ حضرت صاحبؑ کے پیچھے نماز تہجد یعنی تراویح ادا کی۔ آپ کی یہ عادت تھی کہ وتر اوّل شب میں پڑھ لیتے تھے اور نماز تہجد آٹھ رکعت دو دو رکعت کرکے آخر شب میں ادا فرماتے تھے۔ جس میں آپ ہمیشہ پہلی رکعت میں آیت الکرسی تلاوت فرماتے تھے یعنی اَللّٰہُ لَا اِلٰہَ اِلَّا ھُوْ سے وَھُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْم تک اوردوسری رکعت میں سورۃ اخلاص کی قراءت فرماتے تھے اور رکوع و سجود میں یَا حَیُّ یَا قَیُّوْمُ بِرَحْمَتِکَ اَسْتَغِیْثُ اکثر پڑھتے تھے۔ اور ایسی آواز سے پڑھتے تھے کہ آپ کی آواز میں سُن سکتا تھا۔ (سیرت المہدی جلد۱صفحہ۲۹۵)
یہ آیت قرآن کی ان آیات میں سے ہے، جن کا آغاز اللہ کے اسم سے ہوتا ہے، جو کہ اللہ کی ذاتی صفت ہے، اور بعض کے نزدیک اسم اعظم ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہے کہ ’’ ذات واجب الوجود کا اسم اعظم جو اللہ ہے کہ جو اصطلاح قراۤنی ربانی کے رُو سے ذات مستجمع جمیع صفات کاملہ اور منزہ عن جمیع رذائل اور معبود برحق اور واحد لاشریک اور مبدء جمیع فیوض پر بولا جاتا ہے۔‘‘( تفسیر حضرت مسیح موعودؑ جلداوّل صفحہ۲۹)۔حضور علیہ السلا م مزید فرماتے ہیں : ’’پس واضح ہو کہ اللہ کا لفظ اسم جامد ہے۔ اور اس کے معنے سوائے خدائے خبیر و علیم کے اور کوئی نہیں جانتا۔‘‘ ( تفسیر حضرت مسیح موعودؑجلداوّل صفحہ۵۵)۔ آپؑ فرماتے ہیں ’’تمام محامد اس ذات معبود برحق مستجمع جمیع صفات کاملہ کو ثابت ہیں جس کا نام اللہ ہے۔ ہم پہلے بھی بیان کر چکے ہیں کہ قراۤن شریف کی اصطلاح میں اللہ اس ذات کامل کا نام ہے کہ جو معبود بر حق اور مستجمع جمیع صفات کاملہ اور تمام رذائل سے منزہ اور واحد لا شریک اور مبدءجمیع فیوض ہے۔ کیونکہ خدائے تعالیٰ نے اپنے کلام پاک قراۤن شریف میں اپنے نام اللہ کو تمام دوسرے اسماء و صفات کا موصوف ٹھہرایا ہے۔ اور کسی جگہ کسی دوسرے اسم کو یہ رتبہ نہیں دیا۔ پس اللہ کے اسم کو بوجہ موصوفیت تامہ ان تمام صفتوں پر دلالت ہے جن کا وہ موصوف ہے۔ اور چونکہ وہ جمیع اسماء اور صفات کا موصوف ہے اس لیے اس کا مفہوم یہ ہوا کہ وہ جمیع صفات کاملہ پر مشتمل ہے۔‘‘(براہین احمدیہ، روحانی خزائن جلد اوّل صفحہ۴۳۵-۴۳۶، حاشیہ نمبر ۱۱)
اس کے بعد اللہ کی توحید کا بیان ہے یعنی لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ۔ یہ کلمہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ سے ملتے جلتے الفاظ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَدَخَلَ الْجَنَّۃَ۔(سنن ترمذيكتاب الايمان عن رسول الله صلى الله عليه وسلم کتاب ایمان و اسلام باب مَا جَاءَ فِيمَنْ يَمُوتُ وَهُوَ يَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللّٰهُ۔حدیث نمبر: ۲۶۳۸)سو لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ میں توحید کا سبق ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے الہاماً یہ فرمایا تھا کہخُذُوْا التَّوْحِیْد التَّوْحِیْد یَااَبْنَاءَ الفَارِسِ۔ یعنی کہ اے ابنائے فارس! توحید کو مضبوطی سے پکڑو۔
آپؑ فرماتےہیں :توحید کے مراتب ہوتے ہیں۔ بغیر ان کے توحید کی حقیقت معلوم نہیں ہوتی۔ نرا لاالٰہ الااللّٰہ ہی کہہ دینا کافی نہیں۔ یہ تو شیطان بھی کہہ دیتا ہے۔ جب تک عملی طور پر لاالٰہ لا اللّٰہ کی حقیقت انسان کے وجود میں متحقق نہ ہو۔ کچھ نہیں۔ یہودیوں میں یہ بات کہاں ہے؟ آپ ہی بتاویں۔ توحید کا ابتدائی مرحلہ اور مقام تویہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ کے قول کے خلاف کوئی امر انسان سے سرزد نہ ہو۔ اور کوئی فعل اس کا اﷲ تعالیٰ کی محبت کے منافی نہ ہو۔گویا اﷲ تعالیٰ ہی کی محبت اور اطاعت میں محو اور فنا ہو جاوے۔اسی واسطے اس کے معنے یہ ہیں۔ لَامَعْبُوْدَلِیْ وَلَا مَحْبُوْبَ لِیْ وَلَا مُطَاعَ لِیْ اِلَّااللّٰہ۔ یعنی اﷲ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی میر امعبود ہے اور نہ کوئی محبوب ہے اور نہ کوئی واجب الاطاعت ہے۔(ملفوظات جلد۴ صفحہ۴۴۸، ایڈیشن۱۹۸۸ء)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :اسلام کی تعلیم کا نچوڑ اور خلاصہ تو لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ مَنْ قَالَ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ فَدَخَلَ الْجَنّۃَ۔(ترمذی کتاب الایمان باب ماجاء فیمن یموت و ھو یشھد ان لا الہ الا اللّٰہ )لیکن اس کے یہ معنے نہیں ہیں کہ صرف لفظ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے سے ہی کوئی شخص جنت میں داخل ہو جائے گا۔کیونکہ ان الفاظ کا مفہوم تو اسلام کے سوا غیر مذاہب میں بھی پایا جاتا ہے۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہود و نصاریٰ کے متعلق یہی فرماتے ہیں کہ ان کے پاس بھی صداقتیں ہیں اور وہ بھی خدا کے نبیوں کے نوشتوں کے حامل ہیں۔ مگر باوجود اس کے اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ مانیں تو نجات نہیں پا سکتے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اِن دونوں قولوں میں بظاہر اختلاف معلوم ہوتا ہے۔ درحقیقت ان میں کوئی اختلاف نہیں۔ کیونکہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہنے سے یہ مراد ہے کہ مَنْ عَمِلَ بِالْاِ سْلَامِ یعنی جو اسلام کے مطابق اپنی زندگی بنائے وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کہتا ہے۔ اس لیے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ سے یہ استنباط نہیں ہوتا کہ انسان بےعمل جنت میں داخل ہو جائے گا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم جانتے ہو کہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے کیا معنے ہیں۔ پھر آپ ہی فرمایا کہ اس کے یہ معنے ہیں کہ اللہ کو ایک جانو۔اور مجھ کو اس کا رسول مانو۔ غرض اللہ کے ماننے میں اللہ تعالیٰ کی بھیجی ہوئی سب تعلیم اور قرآن و حدیث بھی داخل ہیں۔ یعنے اسلام میں جس قدر احکام ہیں وہ سب پھل ہیں اور لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ بیج ہے۔ جس کے پاس صحیح اور سالم بیج ہو گا اور وہ اس کو بوئے گا تو ضرور ہے وہ پھل لائے اور جس کو اچھے پھل حاصل ہوں وہ سمجھ لے کہ ان کا بیج اچھا تھا اور جس کو کوئی پھل نہ ہو وہ سمجھ لے کہ اس کا بیج ناقص تھا۔(الفضل ۱۷؍فروری ۱۹۱۷ء)
حضرت خلیفہ اوّلؓ کو ایک دفعہ رئویا میں لَا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ کے معنے سمجھائے گئے کہ دنیا میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو اپنے وجود کے قیام کے لیے کسی دوسری چیز کی محتاج نہ ہو۔مگر خدا ایک ایسی ہستی ہے جو قائم بِالذات ہی نہیں بلکہ قیوم بھی ہے۔ یعنے دوسروں کو بھی قائم رکھنے والی ہے۔(الفضل ۱۷؍فروری ۱۹۱۷ء)
توحید کے ذکر کے بعد اللہ کی دو صفات بیان ہوئی ہیں، یعنی اَلْحَیُّ اور اَلْقَیُّوْمُ۔ لغت عربی کے مطابق اَلْحَیُّ کا مطلب کامل حیات والا ہے۔ اللہ تعالیٰ کے لیے جب اَلْحَیُّ آتا ہے تو الف لام کمال کے معنے دیتا ہے اور اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ حیات کاملہ رکھتا ہے یعنی ایسی حیات جو اپنے قیام میں کسی اور کی محتاج نہیں۔ اسے کسی اور نے زندگی نہیں بخشی بلکہ اس کی ذات ازلی اور ابدی طور پر زندہ ہے۔ اَلْقَیُّوْمُ: قَامَ سے نکلا ہے جس کے معنے کھڑے ہونے کے ہیں۔ اسی سے قَیِّمٌ نکلا ہے جس کے معنے نگران اور مُتوَلّی کے ہیں اور قَـیِّمٌ۔ مُسْتَقِیْمٌ کو بھی کہتے ہیں۔ ’’اَمْرٌقَـیِّمٌ‘‘ ایسا امر جس میں کوئی کجی نہیں بلکہ درست اور ٹھیک ہے۔ اَلْقَیُّوْمُ اور اَلْقَیَّامُ کے معنے ہیں جو اپنی ذات میں قائم ہے اور اس کی کوئی ابتدا نہیں (اقرب)۔ اَلْقَیُّوْمُ صرف اسی کو نہیں کہتے جو اپنی ذات میں قائم ہو بلکہ اس کے معنوں میں دوسرے کو قائم رکھنا اور اس کی حفاظت کرنا بھی شامل ہے۔ مفردات میں لکھا ہے اَلْقَائِمُ اَلْحَافِظُ لِکُلِّ شَیْئٍ وَالْمُعْطِیْ لَہٗ مَابِہٖ قِوَامُہٗ یعنی جو اپنی ذات میں قائم ہو اور ہر چیز کا نگران ہو اور اسے وہ طاقت عطا کرے جس سے وہ قائم رہ سکے۔ غرض اشیاء میں وہ طاقتیں پیدا کرنا جن سے ان کے اجزا جڑے رہتے ہیں اور اپنے مفوضہ کاموں کو بجا لاتے ہیں قَیُّوْم سے متعلق ہے اور اللہ تعالیٰ اَلْقَیُّوْمُ ہے نہ صرف اس لیے کہ وہ خود قائم ہے بلکہ اس لیے بھی کہ دوسری اشیاء اس کی پیدا کردہ طاقتوں سے قائم رہتی ہیں اَلْقَیُّوْمُ کی صفت اجرام فلکی میں کششِ ثقل کے وجود اور خورد بینی ذرات کے ایک دوسرے سے اتصال اور ایک دوسرے سے ادغام اور ایک دوسرے کے گرد گھومنے وغیرہ افعال پر نہایت لطیف رنگ میں اشارہ کرتی ہے۔
اس کی وضاحت میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں کہ ’’اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ إِلاَّ ہُوَ۔ اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ۔ یعنی وہی خدا ہے اس کے سوا کوئی نہیں۔ وہی ہر ایک جان کی جان اور ہر ایک وجود کا سہارا ہے۔ اس آیت کے لفظی معنی یہ ہیں کہ زندہ وہی خدا ہے اور قائم بالذّات وہی خدا ہے۔ پس جبکہ وہی ایک زندہ ہے اور وہی ایک قائم بالذّات ہے تو اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہر ایک شخص جو اس کے سوا زندہ نظر آتا ہے وہ اسی کی زندگی سے زندہ ہے اور ہر ایک جو زمین یا آسمان میں قائم ہے وہ اسی کی ذات سے قائم ہے‘‘۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۲۰)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں: یہ ثبوت کہ قرآن کریم حَیُّی و قَیُّوم کی صفات کی بنیاد پر ہے قرآن سے بھی اور حدیث سے بھی ملتا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ قرآن کریم کی کون سی آیت سب سے بڑی ہے تو آپؐ نے فرمایا۔ آیت الکرسی۔ (ابوداوٴد کتاب الصلوٰة باب ما جاء فی آیة الکرسی) اور آیت الکرسی کی بنیاد حَیُّی و قَیُّوم پر ہے۔ یہ روایت ابی بن کعب ؓ، ابن مسعود ؓ، ابوذر غفاری ؓ، ابوہریرہ ؓ اور چار پانچ صحابہؓ سے مروی ہے۔ اور اکثر کتب حدیث میں ہے۔اعظم اٰیة سے مراد اور حقیقت یہی ہے کہ یہ آیت منبع ہے قرآن کا۔ ورنہ سب آیات ہی اعظم ہیں۔ اور منبع اسی آیت کو کہہ سکتے ہیں۔ جو بطوراُمّ کے ہو۔ یعنی اس میں وہ بات ہے جو قرآن کریم کو دوسری کتب سے بطور اصول کے ممتاز کرتی ہے۔ چنانچہ حضرت علیؓ سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آیت الکرسی میرے سوا اور کسی نبی کو نہیں ملی۔(در منثور جلد ۱ صفحہ ۳۲۵-۳۲۶) یوں تو قرآن کریم کی کوئی آیت بھی کسی اور نبی کو نہیں دی گئی۔ مگر آیت الکرسی کے نہ دیئے جانے کا یہ مطلب ہے کہ اس کے اندر جو صفات ہیں ان کے ماتحت کسی اور نبی پر کلام نازل نہیں ہوا۔ اور وہ صفات حَیُّی و قَیُّوم کی ہی ہیں۔ چنانچہ سورۃ آل عمران میں خدا تعالیٰ کی ان ہر دو صفات کو بیان کر کے قرآن کے نازل ہونے کا ذکر ہے۔ حَیُُی کے معنے ہوتے ہیں زندہ اور زندہ رکھنے والا۔ اور قَیُّوم کے معنے ہیں قائم اور قائم رکھنے والا۔ پس فرمایا یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اتری ہے جو زندہ اور زندہ رکھنے والا ہے۔ یعنی یہ کلام ہمیشہ زندہ اور زندگی بخش رہے گا۔ اور پھر یہ کتاب اس خدا کی طرف سے اتری ہے جو خود قائم ہے اور قائم رکھنے والا ہے۔ پس اس کتاب کو بھی وہ ہمیشہ قائم رکھے گا۔ آیت الکرسی کے متعلق رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اگر کوئی صبح کو آیت الکرسی پڑھے تو شام تک اور شام کو پڑھے تو صبح تک شیطان سے اس کی حفاظت کی جاتی ہے۔ (بخاری کتاب فضائل القرآن باب فضل البقرة)۔ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن ان صفات کے ساتھ خاص تعلق رکھتا ہے۔(فضائل القرآن (۳) صفحہ۱۸۳)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام اَلْحَیُّ الْقَیُّوْمُ کا تعلق لَاتَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّلَا نَوۡمٌ۔ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الۡاَرۡضِ سے بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :’’حقیقی وجود اور حقیقی بقا اور تمام صفات حقیقیہ خاص خدا کے لیے ہیں کوئی اُن میں اُس کا شریک نہیں وہی بذاتہٖ زندہ ہے اور باقی تمام زندے اُس کے ذریعہ سے ہیں۔ اور وہی اپنی ذات سے آپ قائم ہے اور باقی تمام چیزوں کا قیام اُس کے سہارے سے ہے اور جیسا کہ موت اُس پرجائز نہیں ایسا ہی ادنیٰ درجہ کا تعطّل حواس بھی جو نیند اور اُونگھ سے ہے وہ بھی اُس پر جائز نہیں۔ مگر دوسروں پر جیساکہ موت وارد ہوتی ہے نیند اور اونگھ بھی وارد ہوتی ہے۔ جو کچھ تم زمین میں دیکھتے ہو یاآسمان میں وہ سب اُسی کا ہے اور اُسی سے ظہور پذیر اور قیام پذیر ہے۔ (چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد۲۳ صفحہ۲۷۳۔۲۷۴)
لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ کے بارے میں حضرت خلیفہ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبہ جمعہ ۵؍جون ۲۰۰۹ء میں فرماتے ہیں: اسی کا ہے جو آسمانوں میں ہے اور جو زمین میں ہے۔ اس بات پر بھی کسی کو شبہ اور شک نہیں ہونا چاہئے کہ اگرچہ اللہ تعالیٰ نے کہا تو یہی ہے کہ مَیں اور میرے رسول غالب آئیں گے۔ لیکن یہ کس طرح ہو گا، کیونکہ اگر دنیاوی لحاظ سے دیکھا جائے اور وسائل کو پیش نظر رکھا جائے تو یہ غلبہ مشکل نظر آتا ہے یا بڑی دُور کی بات نظر آتی ہے۔ لیکن جب آنحضرتﷺ کو خداتعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمایا کہ کَتَبَ اللّٰہُ لَاَغْلِبَنَّ اَنَا وَرُسُلِیْ (المجادلۃ: ۲۲) تو باوجودنامساعد حالات کے اسے سچ کردکھایا۔ اسی طرح جب حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے وعدہ فرمایا ہے تو اب بھی سچ کر دکھائے گا اور اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے دکھا بھی رہاہے۔ گو انسان سوچتا ہے کہ کس طرح اور کیونکر بظاہر اسباب اور حالات کو سامنے رکھتے ہوئے غلبہ ہو گا۔ یا ہو گا بھی تو بہت دور کی بات ہے۔ اور مکمل کامیابی بہت دور کی چیز نظر آتی ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ یہاں فرماتا ہے کہ زمین و آسمان میں جو کچھ ہے وہ خداتعالیٰ کے تصرف اور قبضے میں ہے۔ یہ زمین اور آسمان بغیرمالک کے نہیں ہیں دنیا میں رہنے والی ساری مخلوق اُسی کے قبضہ قدرت میں ہے اور وہ لامحدود اور وسیع تر طاقتوں کا مالک ہے اور وہ ہمیشہ دنیا پر نظر رکھے ہوئے ہے۔ زندگی اور موت، فنا اور بقا، اسی کے ہاتھ میں ہے۔ زمین کے تمام خزانے، ظاہری اور مخفی خزانے اسی کے قبضہ قدرت میں ہیں۔ پس جب اس طاقت نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ میرے رسول کی جماعت غالب آئے گی تو دنیا کی کوئی طاقت اس فیصلہ پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ چاہے وہ بڑی طاقتیں ہوں یا دنیاوی حکومتیں ہوں یا نام نہاد دین کے علمبردار ہوں۔ خداتعالیٰ کے فیصلہ نے یقیناً اور لازماً لاگو ہونا ہے۔ لیکن مومنوں کو شروع میں ہی یہ واضح کر دیا کہ یہ غلبہ اور یہ دائمی زندگی اور بقا یقیناً ان لوگوں کو ملے گی جو تمام صفات کے جامع خد اپر یقین رکھتے ہوں اور اس کی عبادت کرنے والے ہوں۔ پس آج ہر ایک احمدی کی یہ ذمہ داری ہے جسے سمجھنا ہر ایک احمدی کے لیے انتہائی ضروری ہے۔‘‘(خطبہ جمعہ ۵؍جون ۲۰۰۹ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍جون تا ۲؍جولائی ۲۰۰۹ء)
پھر اس آیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا بھی ذکر ہے، یعنی کہ مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ عِنْدَہُ اِلَّا بِاِذْنِہٖ۔ احادیث کے مطابق بھی آنحضرتﷺ اللہ تعالیٰ کے اذن سے سفارش کریں گے۔ ایک حدیث میں آتا ہے۔ حضرت ابوہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہر نبی کے لیے ایک خاص دعا ہوتی ہے جو کہ وہ نبی مانگتا ہے اور میں چاہتا ہوں کہ مَیں اپنی اس خاص دعا کو اپنی امت کی شفاعت کے لیے قیامت تک بچا کر رکھوں گا۔(صحیح مسلم کتاب الایمان)آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے شفیع ہونے کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں :’’ہاں سچا شفیع اور کامل شفیع آنحضرتﷺ ہیں جنہوں نے قوم کو بت پرستی اور ہر قسم کے فسق و فجور کی گندگیوں اور ناپاکیوں سے نکال کر اعلیٰ درجہ کی قوم بنا دیا۔ ‘‘(ملفوظات جلد دوم صفحہ ۱۶۰،ایڈیشن ۱۹۸۸ء)آنحضرتﷺ کی شفاعت کا ذکر کرتے ہوئے حضرت اقدس مسیح موعودؑ مزید فرماتے ہیں :’’جب ہم حضرت محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم پر نظر ڈالتے ہیں تو آپؐ …کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ آپؐ نے غریب صحابہ کو تخت پر بٹھا دیا اور آپ کی شفاعت کا ہی اثر تھا کہ وہ لوگ باوجود اس کے کہ بت پرستی اور شرک میں نشو و نماپایا تھا ایسے موحد ہو گئےجن کی نظیر کسی زمانہ میں نہیں ملتی اور پھر آپؐ کی شفاعت کا ہی اثر ہے کہ اب تک آپؐ کی پیروی کرنے والے خدا کا سچا الہام پاتےہیں خدا ان سے ہم کلام ہوتا ہے۔‘‘(عصمت انبیاء علیھم السلام، روحانی خزائن جلد ۱۸صفحہ ۶۹۹-۷۰۰)آپ علیہ السلام کشتی نوح میں فرماتے ہیں: ’’نوعِ انسان کے لیے رُوئے زمین پر اب کوئی کتاب نہیں مگر قرآن۔ اور تمام آدم زادوں کے لیے اب کوئی رسول اور شفیع نہیں مگر محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم۔ سو تم کوشش کرو کہ سچی محبت اس جاہ وجلال کے نبی کے ساتھ رکھو اور اس کے غیر کو اس پر کسی نوع کی بڑائی مت دو تا آسمان پر تم نجات یافتہ لکھے جاؤ۔ اور یاد رکھو کہ نجات وہ چیز نہیں جو مرنے کے بعد ظاہر ہوگی بلکہ حقیقی نجات وہ ہے کہ اسی دنیا میں اپنی روشنی دکھلاتی ہے۔ نجات یافتہ کون ہے؟ وہ جو یقین رکھتا ہے جو خدا سچ ہے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اُس میں اور تمام مخلوق میں درمیانی شفیع ہے۔ اور آسمان کے نیچے نہ اس کے ہم مرتبہ کوئی اور رسول ہے اور نہ قرآن کے ہم رتبہ کوئی اور کتاب ہے۔ اور کسی کے لیے خدا نے نہ چاہا کہ وہ ہمیشہ زندہ رہے مگر یہ برگزیدہ نبی ہمیشہ کے لیے زندہ ہے۔‘‘(کشتی ٔنوح، روحانی خزائن جلد۱۹صفحہ۱۳-۱۴)
شفاعت کے مضمون کے بعد اللہ کے لامحدود علم کا ذکر ہے۔یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَمَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَلَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ۔ حضر ت مسیح موعود علیہ السلام اس حصے کی تفسیر میں فرماتے ہیں :’’کون ہے جو بغیر اُس کے حکم کے اُس کے آگے شفاعت کرسکتا ہے وہ جانتا ہے جو لوگوں کے آگے ہے اور جو پیچھے ہے یعنی اُس کا علم حاضر اور غائب پر محیط ہے اور کوئی اُس کے علم کا کچھ بھی احاطہ نہیں کرسکتا لیکن جس قدر وہ چاہے۔ اُس کی قدرت اور علم کا تمام زمین و آسمان پر تسلط ہے۔ وہ سب کو اٹھائے ہوئے ہے۔ یہ نہیں کہ کسی چیز نے اُس کو اُٹھا رکھا ہے اوروہ آسمان و زمین اور اُن کی تمام چیزوں کے اٹھانے سے تھکتا نہیں اور وہ اس بات سے بزرگ تر ہے کہ ضعف و ناتوانی اور کم قدرتی اُس کی طرف منسوب کی جائے۔(چشمہ معرفت،روحانی خزائن جلد ۲۳، صفحہ ۲۷۴)
اس ضمن میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ اپنے خطبہ جمعہ ۵؍جون ۲۰۰۹ء میں فرماتے ہیں: اس شفاعت کے بیان کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے یہ بھی فرما دیا کہ خداتعالیٰ جانتا ہے کہ اصل حقیقت کیا ہے۔ یَعْلَمُ مَا بَیْنَ اَیْدِیْہِمْ وَمَا خَلْفَہُمْ وہ جانتا ہے جو ان کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے۔ پس ہمارا خدا عالم الغیب ہے۔ اس لیے ایسے لوگ جو کھلے گناہوں میں پڑے ہوئے ہیں ان کے بارہ میں نہ تو یہاں شفاعت کا اذن ہوتا ہے اور نہ اگلے جہان میں ہو گا۔ یہی قرآن کریم سے پتہ چلتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ اپنے علم کی وسعتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے فرماتا ہے کہ وَلَا یُحِیْطُوْنَ بِشَیْئٍ مِّنْ عِلْمِہٖٓ اِلَّا بِمَا شَآءَ۔ اس میں واضح طور پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میرے علم کا احاطہ کوئی نہیں کر سکتا۔ حتیٰ کہ آنحضرتﷺ بھی جو خداتعالیٰ کے محبوب ترین ہیں اور آپؐ کے بارہ میں مومنوں کو حکم ہے کہ اگر تم خداتعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو میرے محبوبﷺ کی پیروی کرو جن کو تمام علموں سے اللہ تعالیٰ نے بھر دیا تھا۔ آئندہ زمانوں کی جوبھی خبریں قرآن کریم نے دیں وہ آپ کے ذریعہ سے آئیں اور ان کا ادراک بھی آنحضرتﷺ کو اس وقت عطا فرمایا۔ (خطبہ جمعہ ۵؍جون ۲۰۰۹ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍ جون تا ۲؍جولائی ۲۰۰۹ء)
اس آیت کے آخری حصّہ میں اللہ کی حکومت اَلْکُرْسِیُّ کا ذکر ہے۔ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالۡاَرۡضَ۔وَلَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفْظُہُمَا۔ لغت عرب کے مطابق اَلْکُرْسِیُّ۔ کِرْسٌ سے نکلا ہے جس کے معنے متفرق اجزا کے اکٹھا ہونے کے ہوتے ہیں۔ کہتے ہیں کَرَسْتُ بِنَاءً میں نے عمارت بنائی۔ یعنی اینٹوں پر اینٹیں رکھیں اور کُرْسِیٌّ علم کو بھی کہتے ہیں اور حکومت کو بھی (مفردات) اس لفظ کی اصل سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل میں اس کے معنے جمع کرنے اور اکٹھا کرنے کے ہیں اور چونکہ علم بھی پراگندہ معلومات کو جمع کر لیتا ہے اور حکومت ملک کے پراگندہ اجزا کو جمع کر لیتی ہے اس لیے اسے بھی کرسی کہتے ہیں۔ اس کی وضاحت فرماتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ’’خدا تعالیٰ کی کرسی کے بارے میں یہ آیت ہے وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ۔ وَلَا یَـُٔوۡدُہٗ حِفْظُہُمَا۔ وَہُوَ الْعَلِیُّ الْعَظِیْمُ۔(البقرۃ:۲۵۶) یعنی خدا کی کرسی کے اندر تمام زمین و آسمان سمائے ہوئے ہیں اور وہ ان سب کو اٹھائے ہوئے ہے۔ ان کے اٹھانے سے وہ تھکتا نہیں ہے۔ اور وہ نہایت بلند ہے۔ کوئی عقل اس کی کُنہ تک پہنچ نہیں سکتی۔ اور نہایت بڑا ہے۔ اس کی عظمت کے آگے سب چیزیں ہیچ ہیں۔ یہ ہے ذکر کرسی کا اور یہ محض ایک استعارہ ہے جس سے یہ جتلانا منظور ہے کہ زمین و آسمان سب خدا کے تصرف میں ہیں اور ان سب سے اس کا مقام دُور تر ہے اور اس کی عظمت ناپیداکنار ہے۔‘‘(چشمہ معرفت، روحانی خزائن جلد ۲۳ صفحہ ۱۱۸،حاشیہ)
وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْض کے بارے میں حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :’’کیونکہ اس کی بادشاہت زمین پر پھیلی ہوئی ہے اور آسمان پر پھیلی ہوئی ہے۔ وہ تمام کائنات کی اور جتنی بھی کائناتیں ہیں ان میں موجود ہر چیز کو زندگی دینے والا اور قائم رکھنے والا ہے۔ تمہارا علم محدودہے۔ وہی تمہیں علم دیتا ہے۔ جس حد تک استعدادوں نے ترقی کی ہے یا کوشش کی ہے اس حد تک علم دیتا ہے۔ لیکن یہ علم بھی صرف اس حد تک ہے جس حد تک خدا تعالیٰ چاہتا ہے۔ اس لیے وہی اس بات کا حقدار ہے کہ اس کے آگے جھکو اور تمام باطل معبودوں کو چھوڑ دو۔ اسی کی حکومت زمین و آسمان تک پھیلی ہوئی ہے بلکہ اس نے اس کی حفاظت بھی اپنے ذمہ لی ہوئی ہے اور اس سے وہ تھکتا بھی نہیں۔ ہر چیز پر اس کی نظرہے اور یہ ایسا وسیع اور جامع نظام ہے کہ اس کا احاطہ انسان کے لیے ممکن نہیں ہے۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نظر دوڑاؤ کہ شاید اللہ تعالیٰ کی پیدائش میں کوئی نقص تلاش کر سکولیکن ناکام ہوگے۔ تمہاری نظر واپس آجائے گی۔ پھر نظر دوڑاؤ پھر وہ تھکی ہوئی واپس آجائے گی۔ لیکن خداتعالیٰ وہ ذات ہے جو اس نظام کو چلا رہا ہے اور ازل سے چلا رہا ہے اور بغیر کسی اونگھ اور نیند کے اور بغیر کسی تھکاوٹ کے اسے چلا رہا ہے۔ پس کیا یہ باتیں تمہیں اس طرف توجہ نہیں دلاتیں کہ اس وسعتوں والے خدا کے سامنے اپنی گردنیں جھکا دواور سرکشی میں نہ بڑھو۔ (خطبہ جمعہ ۵؍جون ۲۰۰۹ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۶؍جون تا ۲؍جولائی ۲۰۰۹ء)
اس آیت کے آخر میں پھر اللہ کی مزید دو صفات کا ذکر ہے۔ تفسیر کبیر کے مطابق اَلْعَلِیُّ۔ عَلِیٌّ کے معنے ہیں بلند شان والا۔ بزرگی کا مالک (اقرب) عَلِیٌّ کا مادہ عَلَا یَعْلُوْ عُلْوًا بھی ہے اور عَلِیَ یَعْلیٰ عَلَا ءً بھی ہے مگر محققین کے نزدیک عَلَا یَعْلُوْ سے عالی کا لفظ اسم فاعل کے طور پر آتا ہے اور عَلِیَ یَعْلیٰ سے عَلِیٌّ استعمال ہوتا ہے۔ عَلَا یَعْلُوْ بُرے اور بَھلے دونوں فعلوں کے لیے آ جاتا ہے جیسے قرآن کریم میں ہے کہ اِنَّ فِرْعَوْنَ عَلَا فِی الْاَرْضِ (القصص: ۵) لیکن عَلِیَ یَعْلٰی صرف اچھے معنوں میں آتا ہے اور عَلِیٌّ جو اللہ کا نام ہے وہ اسی مادہ سے ہے پس اس کے ہمیشہ اچھے معنے ہوتے ہیں جبکہ عالی بُرے معنوں میں بھی استعمال ہو سکتا ہے۔ (مفردات)۔ العظیم سے مراد عظمت والا یا صاحبِ عظمت ہے۔ایک طرح سے ان دونوں صفات، یعنی اَلْعَلِیُّ اور الْعَظِیْمُ، کا نماز سے بھی ایک تعلق ہے۔ سجدے میں سُبْحَانَ رَبِّيَ الْأَعْلَى اور رکوع میں سُبْحَانَ رَبِّیَ الْعَظِیْمُ پڑھا جاتا ہے۔
غرض کہ یہ بلاشبہ ایک عظیم آیت ہے۔ اس میں اللہ کی صفات کا بھی بیان ہے، اور اس کی زمین اور آسمان میں تصرف کا بھی۔ ا س میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کا بھی ذکر ہے اور اللہ کے لامحدود علم کا بھی۔ اس میں اللہ کی زمیں اور آسمان میں حکومت کا بھی ذکر ہے اور ان کی حفاظت کا بھی۔ سو اس آیت کو بہت غور سے پڑھنا چاہیے اور خاص طور پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق سونے سے قبل ضرور پڑھنا چاہیے، اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی سنت کے مطابق تہجد میں بھی پڑھنا چاہیے۔
(ڈاکٹرابرار احمد چغتائی، سڈنی آسٹریلیا )
مزید پڑھیں: ’عربی زبان اور کیلیگرافی‘ کے موضوع پر لندن کے Battersea Arts Centre میں خصوصی نمائش