مومن کو انصاف اور امن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے
(انتخاب از خطبہ جمعہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ ۵؍مارچ۲۰۰۴ء)
اللہ تعالیٰ نے مومنوں کو قرآن کریم میں جن اعلیٰ اخلاق اور اعلیٰ اقدار کو اپنانے کی طرف توجہ دلائی ہے، ان میں سے ایک انصاف اور عدل ہے۔ جس پر عمل کرنا، جس پر قائم ہونا اور جس کو چلانا مومنوں پر فرض ہے۔ جیسا کہ اس آیت میں فرمایا کہ جو مرضی حالات ہو جائیں جیسے بھی حالات ہو جائیں تم نے انصاف اور امن کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا۔ اور ہمیشہ سچ کا ساتھ دینا ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعودؑ کے زمانے میں ایک دفعہ عیسائیوں نے یہ اعتراض کیا کہ نعوذ باللہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض جگہ جھوٹ بولنے کی اجازت دی ہے۔ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اَور آیتوں کے علاوہ اس آیت [النساء:۱۳۶]کوبھی پیش فرمایا کہ اس کے بعد تم کس منہ سے یہ دعویٰ کر سکتے ہو کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حکم دیا ہو گا۔ نیز یہ بھی فرمایا انعام کا چیلنج دیا اور عیسائیوں کو للکارا کہ جس طرح سچ بولنے اور انصاف پر قائم رہنے کی تلقین قرآن کریم میں ہے، عیسائی اگر انجیل میں سے دکھا دیں تو ایک بڑی رقم آپؑ نے فرمایا میں انعام کے طور پر پیش کروں گا۔ لیکن کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ مقابلے میں آئے تو یہ اللہ تعالیٰ کا ہم پر احسان ہے کہ اس زمانے میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کو ماننے کی اس نے توفیق عطا فرمائی جنہوں نے ہمیں قرآن کریم کی چھپی ہوئی حکمت کی باتوں اور براہین کا ہمیں ہتھیار دیا۔ لیکن یہ ہتھیار صرف غیروں کے منہ بند کرنے کے لئے نہیں ہے، بلکہ یہ ایک حسین تعلیم ہے اس کو ہم نے اپنے اوپر لاگو کرنا ہے، اگر اپنے گھر کی سطح پر، اپنے محلہ کی سطح پر اپنے ماحول میں اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا یہ عدل کا نظام قائم نہ کیا تو ہمارے دنیا کی رہنمائی کے تمام دعوے کھوکھلے ہوں گے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ ہمیشہ پیش نظر رہے کہ جو گواہی بھی دینی ہے۔ جس طرح انصاف کے تقاضے پورے کرنے کا حکم ہے وہ صرف اس صورت میں پورے ہو سکتے ہیں کہ جب دل میں خداتعالیٰ کا خوف ہو۔ جب یہ پتہ ہو کہ ایک خدا ہے جو میری ظاہری اور پوشیدہ اور چھپی ہوئی باتوں کو بھی جانتا ہے۔ جس کو میرے موجودہ فعل کی بھی خبر ہے اور جو میں نے آئندہ کرنا ہے اس کی بھی خبر رکھتا ہے۔ جب اس سوچ کے ساتھ اپنے معاملات طے کرنے کی کوشش کریں گے تو پھر اللہ تعالیٰ کے فضل سے تقویٰ میں بھی ترقی ہو گی اور جب تقویٰ میں ترقی ہو گی تو پھر عدل کو قائم رکھنے کے لئے جیسا کہ اس آیت میں فرمایا کہ اپنے یا اپنے والدین کے خلاف یا اپنے کسی دوسرے عزیز کے خلاف بھی کبھی گواہی دینے کی ضرورت پڑی تو گواہی دینے کی ہمت پیدا ہو گی اور توفیق ملے گی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ابتدائی زمانہ میں بھی ایک ایسا ہی واقعہ پیش آیا۔ جب آپؑ نے اپنے والد کی طرف سے کئے گئے مقدمہ میں دوسرے کے حق میں گواہی دی آپؑ کے والد کے ساتھ مزارعین کا درختوں کا معاملہ تھا، زمین کا جھگڑا تھا، مزارعین نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی صداقت دیانت، انصاف اور عدل کو دیکھتے ہوئے عدالت میں کہہ دیاکہ اگر حضرت مرزا غلام احمد یہ گواہی دے دیں کہ ان درختوں پر ان کے والد کا حق ہے تو ہم حق چھوڑ دیں گے، مقدمہ واپس لے لیں گے۔ عدالت نے آپ کو بلایا، وکیل نے آپ کو سمجھانے کی کوشش کی، آپؑ نے فرمایا کہ میں تو وہی کہوں گا جو حق ہے کیونکہ میں نے بہرحال عدل، انصاف کے تقاضے پورے کرنے ہیں۔ چنانچہ آپ کی بات سن کر عدالت نے ان مزارعین کے حق میں ڈگری دے دی اور اس فیصلے کے بعد حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اس طرح خوش خوش واپس آئے کہ لوگ سمجھے کہ آپؑ مقدمہ جیت کر واپس آ رہے ہیں۔ یہ ہے عملی نمونہ جو حضرت اقدس مسیح موعودؑ نے ہمیں اس معیار عدل کو قائم رکھنے کے لئے دکھایا۔ اور آپؑ نے اپنی جماعت سے بھی یہی توقع رکھی، یہی تعلیم دی کہ تم نے بھی یہی معیار قائم رکھنے ہیں۔ اللہ تعالیٰ یہ بھی فرماتا ہے کہ یہ نہ ہو کہ ایسی بات کر جاؤ جس کے کئی مطلب ہوں اور ایسی گول مول بات ہو کہ شک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے حق میں فیصلہ کروالو۔ اگر اس طرح کیا تو یہ بھی عدل سے پرے ہٹنے والی بات ہو گی، عدل کے خلاف چلنے والی بات ہو گی اس لئے ہمیشہ قول سدید اختیار کرو، ہمیشہ ایسی سیدھی اور کھری بات کرو جس سے انصاف اور عدل کے تمام تقاضے پورے ہوتے ہوں، پھر یہ عدل کے معیار اپنے گھر میں، اپنی بیوی بچوں کے ساتھ سلوک میں بھی قائم رکھو، روزمرہ کے معاملات میں بھی قائم رکھو، اپنے ملازمین سے کام لینے اور حقوق دینے میں بھی یہ معیار قائم رکھو، اپنے ہمسایوں سے سلوک میں بھی یہ معیار قائم رکھو، حتیٰ کہ دوسری جگہ فرمایا کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل کے اعلیٰ معیار قائم رکھو۔ اللہ تعالیٰ جو تمہارے کاموں کی خبر رکھنے والا ہے تمہارے دلوں کا حال جاننے والا ہے، تمہاری نیک نیتی کی وجہ سے تمہیں اعلیٰ انعامات سے بھی نوازے گا۔ تودیکھیں کتنی خوبصورت تعلیم ہے دنیا میں انصاف اور عدل اور امن قائم کرنے کی۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں کہ حق اور انصاف پر قائم ہو جاؤ۔ اور چاہئے کہ ہر ایک گواہی تمہاری خدا کے لئے ہو، جھوٹ مت بولو، اگرچہ سچ بولنے سے تمہاری جانوں کو نقصان پہنچے یا اس سے تمہارے ماں باپ کو ضرر پہنچے اور قریبیوں کو۔ (اسلامی اصول کی فلاسفی صفحہ ۵۳ بحوالہ تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد دوم صفحہ۲۷۴)(یعنی بچوں، بیویوں اور رشتہ داروں کو نقصان پہنچے، تب بھی گواہی جھوٹی نہیں دینی)۔
پھر آپؑ فرماتے ہیں۔ وَاِذَا قُلْتُمْ فَاعْدِلُوْا وَلَوْ کَانَ ذَا قُرْبیٰ اور جب تم بولو تو وہی بات منہ پر لاؤ جو سراسر سچ اور عدالت کی بات ہے، اگرچہ اپنے تم کسی قریبی پر گواہی دو۔
مزید پڑھیں: نماز میں عاجزی اور خشوع