خدائے تعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا
یہ بات یاد رکھنے کے لائق ہے کہ خدائے تعالیٰ اپنے اس سلسلہ کو بے ثبوت نہیں چھوڑے گا۔ وہ خود فرماتا ہے جو براہین احمدیہ میں درج ہے’’کہ دنیامیں ایک نذیر آیا پر دنیا نے اس کو قبول نہ کیا لیکن خدا اسے قبول کرے گا اور بڑے زور آور حملوں سے اس کی سچائی ظاہر کرے گا‘‘۔ جن لوگوں نے انکار کیا اور جو انکار کیلئے مستعد ہیں ان کے لئے ذلت اور خواری مقدر ہے۔ انہوں نے یہ بھی نہ سوچا کہ اگر یہ انسان کا افترا ہوتا تو کب کا ضائع ہو جاتا کیونکہ خدا تعالیٰ مفتری کا ایسا دشمن ہے کہ دنیا میں ایسا کسی کا دشمن نہیں۔ وہ بیوقوف یہ بھی خیال نہیں کرتے کہ کیا یہ استقامت اور جرأت کسی کذّاب میں ہو سکتی ہے۔ وہ نادان یہ بھی نہیں جانتے کہ جو شخص ایک غیبی پناہ سے بول رہا ہے وہی اس بات سے مخصوص ہے کہ اس کے کلام میں شوکت اور ہیبت ہو۔ اور یہ اسی کا جگر اور دل ہوتا ہے کہ ایک فرد تمام جہان کا مقابلہ کرنے کیلئے طیار ہو جائے۔ یقیناً منتظر رہو کہ وہ دن آتے ہیں بلکہ نزدیک ہیں کہ دشمن رُوسیاہ ہوگا اور دوست نہایت ہی بشاش ہوں گے۔ کون ہے دوست؟ وہی جس نے نشان دیکھنے سے پہلے مجھے قبول کیا اور جس نے اپنی جان اور مال اور عزت کو ایسا فدا کر دیا ہے کہ گویا اس نے ہزار ہا نشان دیکھ لئے ہیں۔ سو یہی میری جماعت ہے اور میرے ہیں جنہوں نے مجھے اکیلا پایا اور میری مدد کی۔ اور مجھے غمگین دیکھا اور میرے غمخوار ہوئے اور ناشناسا ہو کر پھر آشناؤں کا سا ادب بجا لائے۔ خدا تعالیٰ کی ان پر رحمت ہو۔ اگر نشانوں کے دیکھنے کے بعد کوئی کھلی صداقت کو مان لے گا تو مجھے کیا اور اس کو اجر کیا اور حضرتِ عزت میں اس کی عزت کیا۔ مجھے درحقیقت انہوں نے ہی قبول کیا ہے جنہوں نے دقیق نظر سے مجھ کو دیکھا اور فراست سے میری باتوں کو وزن کیا اور میرے حالات کو جانچا اور میرے کلام کو سنا اور اس میں غور کی۔ تب اسی قدر قرائن سے خدا تعالیٰ نے ان کے سینوں کو کھول دیا اور میرے ساتھ ہوگئے۔ میرے ساتھ وہی ہے جو میری مرضی کے لئے اپنی مرضی کو چھوڑتا ہے اور اپنے نفس کے ترک اور اخذ کیلئے مجھے حَکم بناتا ہے اور میری راہ پر چلتا ہے اور اطاعت میں فانی ہے اور انانیت کی جلد سے باہر آگیا ہے۔ مجھے آہ کھینچ کر یہ کہنا پڑتا ہے کہ کھلے نشانوں کے طالب وہ تحسین کے لائق خطاب اور عزت کے لائق مرتبے میرے خداوند کی جناب میں نہیں پا سکتے جو ان راستبازوں کو ملیں گے جنہوں نے چھپے ہوئے بھید کو پہچان لیا اور جو اللہ جلّ شانہ ٗکی چادر کے تحت میں ایک چھپا ہوا بندہ تھا اس کی خوشبو ان کو آگئی۔ انسان کا اس میں کیا کمال ہے کہ مثلاً ایک شہزادہ کو اپنی فوج اور جاہ و جلال میں دیکھ کر پھر اس کو سلام کرے۔ باکمال وہ آدمی ہے جو گداؤں کے پیرایہ میں اس کو پاوے اور شناخت کرلیوے۔ مگر میرے اختیار میں نہیں کہ یہ زیر کی کسی کو دوں۔ ایک ہی ہے جو دیتا ہے۔ وہ جس کو عزیز رکھتا ہے ایمانی فراست اس کو عطا کرتا ہے۔ انہیں باتوں سے ہدایت پانے والے ہدایت پاتے ہیں اور یہی باتیں ان کے لئے جن کے دلوں میں کجی ہے زیادہ تر کجی کا موجب ہو جاتی ہیں۔
(آئینہ کمالات اسلام،روحانی خزائن جلدنمبر۵صفحہ ۳۴۹-۳۵۰)
مزید پڑھیں: شرک اور رسم پرستی کے طریقوں کو چھوڑنا بہشت میں داخل کرتا ہے