ارشاد احمد شکيب صاحب کا ذکرِ خیر
اُردواورسندھی زبان کے ممتاز شاعر
دسمبر۱۹۸۷ء کی بات ہے جب سخت سردی کےموسم میں خاکسارناصر ہوسٹل جامعہ احمدیہ ربوہ میں اپنےکمرے میں سورہا تھا۔ گیٹ کیپرنےصبح سویرے مجھےجگایا تومیری حیرت کی انتہا نہ رہی جب میں نےاچانک اپنےوالد محترم کو اپنےسامنےکھڑےپایا کیونکہ مجھےان کی آمد کی کوئی اطلاع نہ تھی چنانچہ آپ کی یوں اچانک آمد پر میں بےحد خوش ہوا۔ آپ نےاپنی آمد کی غرض کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ضلع سکھر سےایک وفد ساہیوال کےاسیرانِ راہ مولیٰ سےملنےکی غرض سےآیا ہے اور میں بھی جیکب آباد سے اس وفد کے ساتھ آیا ہوں (اس وقت جیکب آباد جماعت سکھر ضلع کے ما تحت کام کیا کرتی تھی) اور بتایا کہ ہم دارالضیافت میں ٹھہرےہوئے ہیں۔چنانچہ اس دن شام کو اپنے کلاس فیلوز کو ابو جان سے ملوایا۔ آپ نے سب کے ساتھ بڑی خوشگوارگفتگوکی اورجیسا کہ آپ شاندار حس مزاح کے مالک تھے آپ نے سب کوعمدہ لطائف سنا کربہت محظوظ کیا اوربعد ازاں اپنی قیمتی نصائح سےبھی نوازا۔

اگلے روز جامعہ کی کلاس کےدوران مجھے پیغام ملا کہ فوراً فضل عمر ہسپتال پہنچوں۔ وہاں پہنچا تو پتا چلا کہ ابا جان ایک حادثہ میں زخمی ہوگئے ہیں۔معلوم ہوا کہ اباجان ہمارے ایک عزیز کے ساتھ سائیکل پر کہیں جا رہے تھے کہ ایک نوجوان جو شوقیہ تانگہ چلا رہا تھا اس کے تانگے کا اگلا بانس ابو کے سر پر لگنے سے شدید چوٹ آئی ہے۔ اس ہنگامی صورت حال سے پریشان مَیں نے فوراً جیکب آباد میں اپنے گھر والوں کوحالات سےآگاہ کیا۔ چنانچہ اگلےہی روز میرے دو بڑے بھائی مکرم طاہرارشادصاحب اورمکرم شاہدارشاد صاحب ربوہ پہنچ کر ہسپتال میں ابوجان کی دیکھ بھال کرنے لگے۔
ان ہی ایام میں میرےدرجہ ثانیہ کے امتحانات تھے جس کی وجہ سے میں جامعہ میں اپنی پڑھائی میں بھی مصروف تھا۔ چند دن بعد ابوکی صحت بہترہوگئی اور ہسپتال والوں نےگھر جانے کی اجازت دے دی۔لہٰذا ہم نےبذریعہ ریل گاڑی واپسی کے لیے ٹکٹیں خرید لیں۔ مورخہ ۲۸؍دسمبر۱۹۸۷ء کی رات آپ کی طبیعت اچانک بگڑ گئی۔ رات قریباً گیارہ بجےمیں اپنے ہوسٹل میں سو رہا تھا۔ مجھےکسی نےبتایا کہ ابا جان کی طبیعت اچانک بہت خراب ہوگئی ہے۔چنانچہ مَیں فوراً ہسپتال پہنچا تو معلوم ہوا کہ انہیں برین ہیمرج ہوا ہے۔ کچھ دیر بعد آپ اپنے خالق حقیقی سے جاملے،انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ہمارے وہی عزیز جن کے ساتھ والد صاحب حادثے کا شکار ہوئے تھےان کی بیٹی کا گھرمحلہ دارالفضل میں تھا۔جنازہ ان کے گھرپرلایا گیا اوروہیں پرآپ کوغسل دیا گیا اورمجھے بھی آپ کو غسل دینے کی توفیق ملی۔ نماز فجر کے وقت مسجد مبارک ربوہ میں مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد صاحب نے آپ کا جنازہ پڑھایا۔ آپ موصی تھےاوروفات سے قبل ہی اپنی وصیت کے تمام معاملات مکمل کلیئر تھےاس لیے بہشتی مقبرہ ربوہ میں بروقت تدفین ہوگئی۔ تدفین کےوقت جامعہ احمدیہ کے طلبہ واساتذہ کےساتھ پرنسپل جامعہ احمدیہ مکرم میر صاحب اور جماعت کےدیگر بزرگان نےبھی شرکت کی۔
والد محترم کا شمار اللہ تعالیٰ کے فضل سےاس دور کےاعلیٰ تعلیم یافتہ احباب میں ہوتا تھا۔ آپ نےانگلش اوراردو دونوں میں ایم اے کیا ہوا تھا اورآپ سکھر کےایک کالج میں لیکچرارتھے۔ اردو اور سندھی دونوں زبانوں پر عبور حاصل تھا اور ان دونوں زبانوں میں شاعری بھی کرتے تھے۔ آپ کا ادبی اور صحافتی حلقوں سےبھی تعلق تھا۔ اس وقت کے تمام مشہور اخبارجنگ،نوائے وقت اور مشرق سے بطور نمائندہ منسلک رہے۔ ضلع جیکب آباد کے پریس کلب کے صدربھی رہےاس وجہ سےادبی و دیگرحلقوں میں ایک مشہور و معروف شخصیت کے طور پر جانے جاتے تھے۔ دنیوی تعلیم کے ساتھ ساتھ شروع سے ہی مذہب سے لگاؤ رکھتے تھے۔ قبول احمدیت سے قبل آپ کا تعلق جماعت اسلامی سےتھا اورآپ اس دَورمیں ضلع سکھر کے جماعت اسلامی کے ضلعی صدرتھے اس لیے ہمارے گھرپر مودودی صاحب کی تقریباً تمام کتب موجود تھیں جواکثرآپ کےزیرمطالعہ رہتی تھیں۔ اس دورمیں آپ مری کے مقام پر کچھ عرصہ کےلیےعیسائیوں کےمشنری کالج میں سندھی زبان پڑھانےکے لیےگئےتووہاں پرآپ کا رابطہ احمدی احباب سے ہوا اور آپ جماعت احمدیہ کی طرف مائل ہوئے۔ اس سلسلہ میں مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد صاحب روزنامہ الفضل ۲۲؍ اپریل ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں بعنوان ’’عالم روحانی کے لعل وجواہر‘‘(نمبر ۶۱۴)میں تحریرکرتے ہیں: سندھ کے معروف شاعر جناب ارشاد احمدشکیب ایم اے سابق صدر جماعت احمدیہ جیکب آباد آغوش احمدیت میں آنے سے پہلے جماعت اسلامی کے نہایت معزز رکن تھے۔ احمدیت کا پیغام انہیں مری میں چوہدری مشتاق احمد صاحب باجوہ بی اے ایل ایل بی سابق امام بیت الفضل لندن کے ذریعہ ملا اور انہی کے مشورہ پر وہ ربوہ میں اپنے سوالات کے جوابات کے لیے مجھ ناچیز کے پاس پہنچے اور تسلی بخش جوابات پانے کے بعد ۱۳؍اگست ۱۹۶۰ء کو امام الزماںؑ اور خلافت احمدیہ سے وابستہ ہوگئے اور تادم واپسیں پوری قوت و شوکت سے قلمی جہاد میں سرگرم رہے۔؏خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را
جماعت احمدیہ کے مشہور شاعر جناب سلیم شاہجہانپوری صاحب نے اپنی کتاب شعرائے احمدیت میں والدمحترم کا تعارف یوں تحریر کیا ہے:ارشاد احمد نام، شکیب تخلص، والدکا نام قریشی کمال الدین صاحب
سندھ یونیورسٹی سے فارغ التحصیل اوربسلسلہ ملازمت جیکب آباد میں قیام ہے۔ آپ روزنامہ مشرق کراچی کے نمائندہ اور ایک سنجیدہ صحافی اور قلمکار ہیں۔اُردوسندھی دونوں زبانوں میں عبور حاصل ہےاور بلاتکلّف دونوں زبانوں میں گفتگوکرتے اور مضامین لکھتےہیں۔اُردو شاعری میں سلجھا ہوا ادبی ذوق رکھتے ہیں۔آپ کی منظومات ہفت روزہ لاہور اور دیگر رسائل وجرائد میں اشاعت پذیر ہوتی رہتی ہیں۔ کلام میں پختگی اور سنجیدگی کا عنصر نمایاں ہے۔ جیکب آباد کے ادبی حلقوں میں آپ کی شخصیت نمایاں ہے۔ آپ نے ۱۳؍اگست ۱۹۶۰ء کو سلسلہ عالیہ احمدیہ میں شامل ہونے کی سعادت حاصل کی اور نمایاں خدمات انجام دینے کی توفیق پائی۔ آپ جماعت احمدیہ کے صدر بھی رہے۔ (کتاب شعرائے احمدیت مرتبہ سلیم شاہجہانپوری،صفحہ ۴۹۰)
جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ آپ شروع سے ہی مذہبی لگاؤ رکھتے تھے اس لیے قبول احمدیت کے بعد آپ نے جن مشکل حالات کا سامنا کیا اس سے آپ نے اللہ تعالیٰ سے ایک خاص تعلق قائم کر لیا اوربا قاعدگی سے نماز تہجد کی ادائیگی، تلاوت قرآن کریم اور تبلیغ کی لگن اور جماعتی علم کلام پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تمام کتب کا بارہا مطالعہ کرنا آپ کا معمول بن گیا تھا اور اس مقصد کے لیےسلسلہ کی تمام کتب کی ایک لائبریری آپ نے گھر میں بنا رکھی تھی اور ہر کتا ب کو پڑھنے کے ساتھ ساتھ کتاب کی جلد کی اندرونی طرف نوٹ لکھتے جاتے۔
قبولِ احمدیت کے بعد ابتلاؤں کا دَور اور آپ کا ثبات قدم
قبول احمدیت کے بعدا ٓپ پر جو سختیوں اور ابتلا کادَور آیا اور اس موقع پر آپ نےجو ثابت قدمی کا اعلیٰ نمونہ دکھایا اس کے تفصیلی حالات لکھنے سے قبل میں حضرت خلیفة المسیح الرابع رحمہ اللہ کے وہ الفاظ پیش کرتا ہوں جو آپ نے والد صاحب کی وفات کے موقع پر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ ۲۲؍جنوری۱۹۸۸ء میں ارشاد فرمائے:’’پہلا جنازہ ایک ایسے مرحوم کا ہے جنہوں نے ایک نہایت متشدد مخالف خاندان سے احمدیت قبول کرنے کی توفیق پائی،خود یہ جماعت اسلامی کے بڑے پُر زور خدمت گار تھے اور احمدیت کی مخالفت میں پیش پیش ہوا کرتے تھے لیکن جب انہوں نے احمدیت کی مخالفت کے دوران احمدیہ لٹریچر پڑھا اور احمدیوں سے مقابلہ کی تیاریاں کیں تو اللہ تعالیٰ نے ان کو ہدایت عطا فرما دی اور ان کا دل مطمئن ہوگیاکہ احمدیت میں سچائی ہے کیونکہ دل سچا تھا اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ دنیا کی جو قیمت بھی دینی پڑے میں سچائی کے لیے دوں گا۔ ان کا نام ارشاد احمد شکیب تھا انہو ں نے جیکب آبا د میں احمدیت قبول کی،ان کا سارا خاندان ان کا مخالف ہوا،ان کے سارے دوست ان کے مخالف ہوگئے،ان پر مالی اور دوسرے ہر قسم کے دباؤ ڈالے گئے لیکن احمدیت میں کمزور پڑنے کے بجائے خدمت میں اتنا آگے بڑھے کہ اللہ کے فضل سے جماعت کی ذیلی تنظیموں میں بھی اور جما عت کی مرکزی تنظیم میں بھی کئی عہدوں پر فائز رہے۔چنا نچہ ایک لمبے عرصہ سے جیکب آباد میں جما عت احمدیہ کے صدر تھے۔کچھ عرصہ پہلے ایک حادثہ میں شہید ہو ئے۔‘‘(خطبات طاہر جلد ۷ صفحہ ۶۱)
آپ کے کُل۱۰؍ بچے تھے۔خاکسار کے علاوہ ان میں سے دیگرپانچ بچے خالد ارشاد، زاہد ارشاد،ساجد ارشاد،ندیم ارشاداور وسیم ارشاد نےبھی اللہ کے فضل سے احمدیت قبول کرنے کی سعادت پائی۔
والد صاحب کی وفات کے کچھ عرصہ بعد خاکسار کو جامعہ احمدیہ میں ایک خط مکرم عبد الغفور خادم صاحب معلم وقف جدید کی طرف سے موصول ہوا جس میں انہوں نے والد صاحب کی بیعت کے بعد کے حالات لکھ کر بھیجے۔ خاکسار ان کا یہ خط من وعن یہاں تحریر کر رہا ہےاور ان کے لیے دعا گو ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے جنہوں نے یہ بیش قیمت معلومات خاکسار کو مہیا فرمائیں فجزاہم اللہ تعالیٰ۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’’میں جنوری۱۹۶۱ء میں بیعت کر کے ربوہ آیا تو شکیب صاحب پہلے سے ربوہ میں موجو د تھے شاید دو یا تین دن بعد حضرت ڈاکٹر محمد احمد سرسا وی صاحب کی دُکان پر ان سے ملاقات ہو گئی، پھر ہر نماز میں مسجد مبارک میں ملاقات ہو جاتی تھی ہم دونوں دارالضیا فت میں مقیم تھے۔ خاکسار عام مہمانوں میں ٹھہرا ہوا تھا شکیب صاحب مہما نا ن خاص میں مقیم تھے ان کو الگ کمرہ ملا ہوا تھاجس میں دو چارپائیاں ہوتی تھیں یعنی دو مہمان ٹھہرتے تھے۔ کھا نا بھی وہ مہما نان خاص کی میز پر ہی کھا یا کر تے تھے۔ مگر ہم دوست تھے، ان کا زیا دہ وقت بزر گان جماعت کے ساتھ گزرتا۔ ان میں حضرت میاں بشیر احمد صاحبؓ فرزند حضرت مسیح موعودؑ کا نام خاص طور پر آتا ہے۔ شکیب صاحب جب نماز کے لیے مسجد مبارک میں آتے تو میاں صاحب ساتھ ہی ہوتے۔ زیادہ وقت آپ کے گھر پر ہی گزرتا اور نماز کے وقت اکٹھے آجاتے۔ حضرت صاحبزادہ میاں بشیر احمد صاحب کے ساتھ باڈی گارڈ اور شکیب صاحب ہوتے تھے۔
خاکسار کو سلسلہ کے بزر گان سے شکیب ؔصاحب نے ہی ملوا یا اور ایک دن مجھے نصیحت فرمائی کہ مامو رِ زما نہ کو قبول کرنے سے قبل اچھی طرح تحقیق کرو، جب ایمان لے آؤتو آنکھیں بند کر کے ایمان لاؤ یعنی بعد میں اعتراض کرنا قطعی طور پر جائز نہیں۔ آپ شاعر بھی تھے اس لیے بزر گوں کے علاوہ شعروادب سوسائٹی کے احباب کا بھی آپ سے گہرا تعلق تھا۔آپ کے بہت سے اشعار اور نظمیں اس وقت سلسلہ کے اخبارا
ت میں شائع بھی ہوئیں۔‘‘
ابا جان کے ایک بہت ہی عزیز دوست علی سرور ابڑو اسسٹنٹ انجینئر پبلک ہیلتھ انجینئرنگ سب ڈویژن نمبر ۱ لاڑکانہ کو خاکسار نے ان کے بیٹے محمد احسن کے ذریعہ پیغام بھیجا کہ وہ ابا جان مرحوم کے حالات زندگی کے بارے میں اپنی یادداشتیں لکھ کر بھیجیں اس پر انہوں نے از راہ شفقت خط بھیج
ا۔
خاکسار غالباً ۱۹۶۰ء میں لاڑکانہ شہر میں دسویں جماعت میں زیرِتعلیم تھا اور ہم لوگ اپنے بھائی علی انور ابڑو XEN کے ساتھ رہتے تھے۔ ہمارے لاڑکانہ میں ایک بزرگ مکرم چودھری محمد حیات صاحب (Industrial Development officer) تعینات ہوکر آئے۔ ان کی رہائش یا دفتر مدرسہ ہائی سکول کے ہاسٹل کے اوپر والے حصہ میں تھا۔ایک مرتبہ ہم وہاں گئے تو معلوم ہوا کہ ایک نوجوان احمدی دوست بھی وہاں بطور کلرک مقرر ہوئے ہیں۔ ان سے ملاقات ہوئی تو ان میں بڑا اخلاص اور علم تھا۔ انہوں نے بتایا کہ میرا نام ارشاد احمد شکیب ہے اور احمدی ہونے کی وجہ سے مجھے رشتہ داروں نے گھر سے نکال دیا ہے اور میرے بیوی بچے سب مجھ سے چھین لیے گئے ہیں۔ میں اُس وقت پختہ خیال نہیں تھا مگر اس کے باوجود میرے دل میں اس دوست کی بہت عزت پیدا ہوئی اور میرا ایمان بھی پختہ ہوگیا کہ دیکھو ہم نے بھی ابتلا دیکھے ہیں مگر ایسا ابتلا جو انسان کو گھر سے بے گھر بنادے اور بچوں تک سے رشتہ منقطع ہوجائے بہت صبر آزما ہوتا ہے۔ محترم شکیب صاحب کا لاڑکانہ میں قیام بہت تھوڑا عرصہ رہا اور ہم روزانہ مغرب کی نماز پر اکٹھے ہوجاتے تھے۔
دوسری ملاقات شکیب صاحب مرحوم سے تقریباً پانچ سال بعد ۱۹۶۴ء میں جیکب آباد میں ہوئی جب میں ملازمت کی وجہ سے وہاں مقرر تھا۔ یہ عرصہ چار پانچ سال کا تھا۔ میں مشاہدہ تو نہیں کر سکا مگر جب بھی شکیب صاحب مرحوم سے ملاقات ہوتی تو وہ اپنے ماضی کے متعلق بتاتے تھے کہ وہ پہلے جماعت اسلامی کے سرگرم رکن تھےاور اپنی علمی استعداد کی وجہ سے اچھے مقرر بھی تھے اور ان دنوں مذہبی آزادی کچھ زیادہ ہوتی تھی اور وہ گلیوں، چوراہوں پر غرض جس وقت بھی ان کو فرصت ہوتی جماعت کی تبلیغ کرتے رہتے تھے اور جماعت اسلامی کے سکولوں میں تدریس کا کام بھی کرتے تھے۔ اس عرصہ کے دوران وہ جماعت احمدیہ کی طرف متوجہ ہوئے اور ایک لمبا عرصہ محترم قریشی عبدالرحمٰن صاحب کی صحبت میں رہے اور وہاں سلسلہ کے مبلغین اور دیگر بزرگان سے ملتے رہتے تھے۔ جب آپ کو کامل شرح صدر ہوئی تو صدق دل سے احمدیت قبول کرلی۔ جس کی وجہ سے ان کو ملازمت سے فارغ کر دیا گیا اور دکھ اور پریشانیاں دیتے رہے۔ جس طرف بھی وہ ملازمت کی غرض سے رجوع کرتے وہاں جماعت اسلامی والے پہنچ جاتے اور نوکری سے فارغ کروا دیتےتھے۔ چونکہ وہ ایک صالح نوجوان تھے اور دیانتدار تھے جس کی وجہ سے خدا کا فضل ہوا اور وہ باوجود سخت مخالفتوں کے اسلحہ کی دُکان پر ملازم ہوگئے اور آخر وقت تک ان کی یہ ملازمت ان کی دیانت کی وجہ سے قائم رہی۔ اپنی علمی استعدادوں کو بڑھانے کی غرض سے انہوں نے M.A اور پھر B.Ed کی ڈگریاں حاصل کیں۔ سلسلہ احمدیہ میں آنے کے بعد وہ سلسلہ کی کتب اور نیا نیا لٹریچر مطالعہ کرتے رہتے تھے۔ جس کی وجہ سے وہ دعوت الیٰ اللہ کے کام بھی احسن طریق سے کرتےتھے اور جماعت کے دوستوں کی تربیت اور جماعتی معاملات بھی دلیرانہ طور پر نپٹاتے تھے۔ دوسرے مشاغل میں ان کی صحافت، شعرو شاعری بھی تھی۔ غیر از جماعت احباب کا ایک وسیع طبقہ آپ کی دوستی میں شامل تھااور شہر کے اہل علم افراد سب آپ کے مداح تھے۔ عقائد کی حد تک تو ان کے مخالف تھے مگر ان کے اعلیٰ اخلاق اور مردم شناس شخصیت کی وجہ سے ان کی عزت کرتے تھے۔ مکرم شکیب صاحب صحافی بھی تھے مگر ان کی صحافت بھی دیانتدارانہ تھی اور میرےبائیس تئیس سال لمبے عرصہ کے قیام کے دوران کوئی ایسا موقع نہیں آیا جب آپ نے اپنے اس پیشے سے کوئی ناجائز فائدہ اٹھایا ہو یا آپ کی تحریر سے کسی کی دل آزاری ہوئی ہو۔ تجارتی دیانتداری کی وجہ سے بھی پورے شہر میں مشہور تھے اور معقول منافع اور سچی بات کی وجہ سے ان کی تجارت کبھی ماند نہیں پڑی۔ کسی زبان نے آپ کی بدزبانی یا خیانت یا فریب یا دھوکہ دہی کا شکوہ نہیں کیا۔
بہت ہی سادہ اور حلیم الطبع دوست تھے۔ خدمت خلق کا موقع ہو تو بھی بلا تفریق مذہب دوستوں اور حاجت مندوں کی خدمت کرتے تھے اور کوئی شخص آپ کے در سے خالی نہیں جاتا تھا۔ مالی قربانیوں میں بھی پیش پیش ہوتے تھے۔بڑے اخلاص اور دل کی گہرائیوں سے اپنے وعدے لکھواتے اور سب سے پہلے ادا کردیتے تھے۔ کثرتِ عیالی کے باوجود اپنے پورے خاندان کی خبرگیری رکھتے تھے۔ بچوں کو بہت پیار سے رکھتے تھے۔ میری آنکھوں کے آگے ان کے سب بچے بڑے ہوئے۔ ہر ایک بچے کی تعلیم، تربیت اور ان کے سلسلہ سے وابستگی کے لیے بڑی کوشش کرتے تھے۔ مرکز سلسلہ میں جب تک اجلاسات اور اجتماعات ہوتے رہے وہ اُن میں بڑی چاہت اور فدائیت کے ساتھ شامل ہوتے رہتے تھے۔ اپنے ساتھ بچوں کو بھی لے جاتے تھے۔ بہت خوش پوش با اخلاق اور پاکیزہ سیرت کے مالک تھے۔ حیادار، نیک اور اخلاص و اخلاق میں بڑھے ہوئے تھے۔ جب دو تین سال جلسہ نہیں ہوا تو بڑی تشنگی محسوس کرنے لگے اور جمعہ کے ہر خطبہ میں تحریک کرتے تھے کہ دعا کریں کہ حضرت امام ایدہ اللہ تعالیٰ(حضرت خلیفةالمسیح الرابعؒ) جلد تشریف لائیں۔ کہیں ہم لوگ خدا کی ناراضگی کے اُس طرح موجب نہ بنیں جس طرح مکہ والے آنحضرتﷺ کی ہجرت کے بعد بنے۔ بہت روتے روتے دعائیں کرتے رہتے تھے۔ ان کی ایک خوبی جو مجھے بےحد پسند تھی وہ یہ تھی کہ وہ ہر ایک دوست سے ذاتی تعلق رکھتے تھےاورکسی دوست پر ابتلا ہو یا اُس کی خوشی ہو وہ اُس میں اس کے ساتھ ہوتے تھے۔۱۹۸۴ء میں جب حالات خراب ہوئے تو یہ عاجزقائد ضلع تھاآپ کوجماعتی عہدیداروں کی خصوصاً اور دوستوں کی عموماً حفاظت کی فکر ہوتی تھی اور بعض اوقات پریشان کن فکر۔ مگر یہ متوکّل شخص بہت مطمئن اور خوش رہتا تھا اور اپنے خطابات میں یہ بات کرکے ہمیں ڈھارس بندھاتا تھا کہ بھائی موت اور زندگی خدا کے ہاتھ میں ہےاور کیا پتا انسان کسی حادثہ میں فوت ہوجائے۔ اگر خدا کی راہ میں موت آتی ہے تو وہ تو بہت اچھی ہے۔
یہ بات شاید خدا کو بھی پسند آئی۔ اس طرح کہ ایک مرتبہ امیر صاحب ضلع سکھر کے پاس ہماری دعوت تھی جس میں خاکسار قائد ضلع مکرم منیر احمد صاحب قائد مقامی اور شکیب صاحب نے بطور صدر جماعت شریک ہونا تھا۔ ایک دن پہلے ان سے معلوم کیا تو معذرت کرتے رہے کہ میرے ایک بہت ہی عزیز دوست کے گھر میں شادی یا کسی اور نوعیت کی دعوت ہے جس کی وجہ سے میں نہیں چلوں گا۔ مگر کل جاتے وقت میرے گھر سے ہوتے ہوئے جانا ممکن ہے میرا موڈ بن جائے اور تمہارے ساتھ چل پڑوں۔ جب ہم دونوں اُن کے پاس گئے تو وہ چلنے کو تیار ہوگئے۔ اس طرح ہم لوگ سکھر گئے۔ وہاں دعوت میں شریک ہوئے اور وہاں پر ایک وفد تشکیل دیا گیا جس نے ساہیوال کے اسیرانِ راہ مولیٰ سے ملاقات کی غرض سے جانا تھا۔ اس وفد میں شمولیت شکیب صاحب نے بڑی مسرت کے ساتھ قبول کر لی اور کہنے لگے کہ ربوہ کی زیارت کو بڑے دن گزر چکے ہیں۔ دل بہت بے تاب ہے۔ اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پنجاب کے چند دوستوں سے ملاقات اور ربوہ میں حاضری بھی ہوجائے گی۔ اسی اخلاص نے اس پیکرصدق و وفا کوہمیشہ کے لیے ربوہ بلا لیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔
ابا جان کی ساہیوال کےاسیران راہ مولیٰ سے ملاقات کا ذکر اس وقت کے اسیر راہ مولیٰ مکرم محمد الیاس منیر صاحب حال مربی سلسلہ جرمنی نے اپنی ذاتی ڈائری میں بھی کیا ہےجس کا حوالہ عزیزم آفاق احمد نے ان سے لے کر خاکسار کو بھیجا ہے فجزاہ اللہ تعالیٰ۔
آپ لکھتے ہیں:’’جیکب آباد اور شکار پور کی جماعتوں کے تین نمائندگان ملاقات کے لیے تشریف لائے توانہیں بھی بے حد پریشان کیا اور ملاقات نہ کرنے دی اس پر بعض احباب کی سفارش پر کہا کہ کل کروا دیں گے۔چنانچہ ان سے۱۶؍ دسمبر۱۹۸۷ء کو ملاقات ہو سکی ان میں سے ایک بزرگ جیکب آباد کے مکرم ارشاد احمد شکیب صاحب تھےجو واپسی پر ربوہ گئے وہاں ایک حادثہ میں زخمی ہوئے اور داخل اسپتال رہےجس دن انہوں نے اسپتال سے فارغ ہونا تھا اسی روز بیچارے برین ہیمرج کی وجہ سے وفات پا گئے انا للہ وانا الیہ راجعون۔ان کے علاوہ سکھر سےمحترم پروفیسر قریشی ناصر احمد صاحب کے صاحبزادے برادرمحترم تنویراحمد صاحب قریشی تھے بڑے با حوصلہ اوراعصابی لحاظ سے بے حد مضبوط…تیسرے دوست شکار پور سے شرما صاحب تھے اللہ تعالیٰ ان سب کو جزائے خیر عطافرمائے،آمین‘‘۔
خاکسا ر کی والدہ صاحبہ نے اپنی وفات تک احمدیت قبول نہ کی لیکن ہمیشہ والد محترم کے ساتھ پوری زندگی ادب و احترام اور محبت وفا داری سےگزاری۔ آپ کی وفات کے بہت سالوں بعدجب خاکسار ۱۹۹۶ءمیں کراچی ڈرگ روڈ جماعت میں بطور مربی سلسلہ خدمت کی توفیق پا رہا تھا اس وقت والدہ صاحبہ ہمارے گھر پر تشریف لائیں تو خاکسار کی اہلیہ کے اصرار پر انہوں نے والد صاحب کے بارے میں بتایا کہ بیعت کرنے کے بعد جب والد صاحب جیکب آباد واپس گھر آئے تو آپ نے اس وقت سب سے پہلےصرف مجھے بتایا پھر بعد میں جیسے ہمارے دادا جان اور دیگر گھر والوں کو اس بات کا علم ہوا تو ایک کہرام بپا ہو گیا اور دادا جان اور والد صاحب کے دو بھائیوں نے شہر کے بڑے بڑے مولویوں کو بلا لیا۔ پہلے ان سے آپ نے دلائل سے بات کی جس پر مولوی حضرات آ پ کی تسلی نہ کروا سکے اور دلائل کے میدان سے بھاگ گئے تو پھرانہوں نے تشدّدکی راہ اختیار کرنے کی ٹھان لی۔ چنانچہ والد صاحب حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے والدہ صاحبہ کو بتا کر رات کو خاموشی سے گھر سے چلے گئے اوربتایا کہ اس وقت ہمارےتین بچے تھے اور چوتھا بچہ ہونے والا تھا آپ کے جانے کے بعد آ پ کے دادا جان اور دادی جان نے غصہ میں آکر مجھ پربھی سختی شرع کر دی کیو نکہ مولوی حضرات نے کہنا شروع کر دیا کہ میرا نکاح ٹوٹ چکا ہے مجھ پربھی حالات تنگ کر دیے گئےمیرے پاس کوئی پیسہ بھی نہ ہوتا تھا۔ ایک دن میرے ہاتھ ایک چو نی لگ گئی۔ اس زمانے میں دو آنے کا ایک پوسٹ کا رڈ آتا تھا جس پر آپ مختصر پیغام لکھ کر بھیج سکتے تھے۔چنانچہ میں نے اپنے بھائی کو کسی سے کارڈلکھوا کر بھیجا اور انہیں بلالیا اور ان کی آمد کے بعد انہیں سارے حالات سے آگاہ کیا پھر میرے سسرال والوں نے مجھے بھائی کے ساتھ میرے والدین کے پاس بھیج دیا اور جب میں اپنے تین بچوں کے ساتھ گھر آئی تو وہاں بھی ایک شور پڑ گیا اور لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ اس کا نکاح فسخ ہو چکا ہے۔چنانچہ اس پر میرے بھائی اور والدین نے مجھ سے پختہ عہد لیا کہ ا ٓپ کبھی بھی اپنے شوہر کا دین اختیار نہیں کریں گی خواہ آپ کا شوہر آپ کو لے بھی گیا تو بھی آپ کبھی احمدیت قبول نہیں کریں گی۔چنانچہ میں نے ان سے یہ عہد کر لیا اس کے بعد معاملہ تھم گیا۔
اُس دَور میں رابطہ کرنا ایک انتہائی مشکل معاملہ تھا اور ہمیں کچھ معلوم نہ تھا کہ آپ کے ابو کہاں ہیں اس دوران مجھے اللہ نے چوتھے بیٹے سے نوازا لیکن ہمارا کوئی رابطہ نہ ہو سکا اور پھر ایک دن ایک کپڑافروخت کرنے والا تاجر آیا اور اس نے میرے بھائی جان سے کہا کہ مجھے چند دن اپنے گھر مہمان رکھ لیں میں کپڑے فروخت کرنے کے بعد چلا جاؤں گا۔چنانچہ اس نے جاتے وقت ضرورت سے زیادہ کپڑے میرے بچوں کے لیےدے دیے اورمزید کچھ ضرورت کی اشیاء بھی تحفةً دے گیا پھر وہ باربار آنے لگااور ہر بار اسی طرح کرتا جس پر میرے گھر والوں کو شک ہوا اور پھر انہوں نے اس پر دباؤ ڈالا تواس پراس نے بتا یا کہ مجھے ارشاد احمدصاحب ہی بھیجتے ہیں تاکہ میں ان کو آپ کے حالات سے آگاہ کرتار ہوں اس لیےوہ مجھے پیسے اور اشیاء دیتے ہیں تا کہ ان کے بچوں تک پہنچا دیا کروں۔
دوسری طرف جب ان کی والدہ یعنی میری ساس صاحبہ کو پتا چلا کہ ان کے بیٹے سے رابطے کی کوئی صورت پیدا ہوئی ہے تو وہ فوراً ہمارے گھرا ٓگئیں۔ کچھ ماں کی مامتااور کچھ گھر کی مجبوری کیونکہ گھر کے زیادہ تر اخراجات تو وہی اٹھا تے تھے، چنانچہ کافی بحث و تمحیص کے بعد سب نے فیصلہ کیا کہ ان کو واپس گھر بلا لیا جائے اورظاہر ہے کہ کب تک وہ لوگ میرا اور میرے بچوں کا بوجھ اٹھاتے۔چنانچہ اس طرح آپ کےوالد صاحب کودو سال بعد واپس بلا لیا گیا اور اتنے لمبے عرصہ کے بعد انہوں نےاپنے بیوی بچوں کو دیکھا۔
آپ کی گھر واپسی کے بعدسکھر کے جس کالج میں آپ لیکچرار تھے وہ جماعت اسلامی کا تھا انہوں نے تو اس وقت ہی آپ کو نوکری سے فارغ کر دیا تھا اور مخالفت کی وجہ سے کسی اچھی نوکری کا ملنا بھی مشکل تھا لیکن آپ کوشش کرتے رہے تو اس دوران سکھر کے آرمز ڈیلرز غوری اینڈ کمپنی کو اپنی جیکب آباد برانچ میں ایک پڑھے لکھے شخص کی بطور مینیجر ضرورت تھی۔ چنانچہ آپ کو یہ نوکری مل گی اور پھر آپ کی دیانتداری اور بھرپور محنت کی وجہ سے آپ اپنی وفات تک اسی برانچ میں کام کرتے رہے۔
بعد ازاں ہماری والدہ صاحبہ نے کبھی جماعت کی مخالفت نہیں کی اور بعض اوقات جماعتی پروگراموں میں بھی شامل ہوجاتی تھیں لیکن آپ نے اپنے بھائیوں سے کیے ہوئے وعدے کو نبھاتے ہوئے آخر دَم تک بیعت نہیں کی لیکن والد صاحب کے ساتھ ہمیشہ وفا،محبّت، عزت واحترام کا تعلق آپ کی وفات تک قائم رکھا اور وفات کے بعد بھی آپ کی ہمیشہ تعریفیں کرتیں اور آپ کے ساتھ گزرے ہوئے اچھے لمحات کو یاد کرتی رہتی تھیں۔ والد صاحب نے ان کے لیے ان کے نام پر پلاٹ اور بینک بیلنس بھی چھوڑا۔ والد صاحب کی گھر واپسی کے بعد آ پ کی وفات تک اللہ تعالیٰ نے آپ کو مزید چھ بیٹوں سے نوازا اس طرح اللہ نے اپنے فضل سے آپ کو دس بیٹوں کی نعمت سے نوازا۔
اس دوران آپ کے بھائیوں اور دیگر افراد کی طرف سے ہمیشہ مخالفت کا سامنا رہا لیکن آپ نے ہر ایک کی نفرت اور بد زبانی کا خندہ پیشانی سے جواب دیا اور ہمیشہ اپنے والدین کے حقوق پوری فرمانبرداری سے بجالاتے رہے۔ آپ کے دو بھا ئیوں کے علاوہ ایک بہن بھی تھی۔ ان کی شادی کے تمام تر اخراجات والد صاحب نے ہی اداکیے اور دوسرا بھائی جو مخالف بھی تھا اس کی شادی کے اخراجات بھی والد صاحب نے ہی برداشت کیے۔ آپ کے دونوں بھائی معمولی تعلیم کے بعد کسی کی دکان پر خراد اور ویلڈنگ کا کام کرتے تھے ان کے وسائل محدود تھے اس لیے ابا جان سب کا خیال رکھتے اپنے والدین کی ضروریات کا بہت خیال رکھتے تھے۔
ہم دس بھائیوں میں سے جس نے بھی احمدیت کی طرف رغبت نہ دکھائی اور اپنے چچا اور دادا جان کے ساتھ جانا چاہاتو آپ نے ان پر کبھی سختی نہیں کی اور گھر میں ایسا ماحول پیدا نہ ہونے دیا کہ بچوں میں نفرت یا کشیدگی کا ماحول پیدا ہو۔بچوں میں کبھی احمدی یا غیر احمدی کا فرق نہیں رکھا سب کی تعلیم وتربیت کے لیے یکساں مواقع فراہم کیے۔اس لیے اللہ کے فضل سے سب بھائیو ں نے اعلیٰ تعلیم حاصل کی سوائے ایک بھائی کے وہ بھی اس وجہ سے کہ وہ تعلیم حاصل کرنا ہی نہیں چاہتے تھے ورنہ والد صاحب کی تو یہی خواہش تھی کوئی بھی بچہ تعلیم سے محروم نہ رہے بچوں کی تربیت کی فکر میں رہتے۔ سب بچوں کو قرآن پاک پڑھوایا۔ نماز کی تلقین کرتے رہتے اور گھر پر فجر اور عشاء پر با جماعت نماز کا اہتمام کرتے۔ جو بچے غیر احمدیوں کی مسجد میں چچا کے ساتھ جاتے انہیں کبھی منع نہیں کیا۔ جو بچے آپ کے ساتھ گھر پر نماز پڑھتے انہیں درس بھی دیتے اور جمعہ کے روز حضرت خلیفةالمسیح الرابعؒ کی ہجرت کے بعد خطبہ جمعہ کی کیسٹ ریکارڈ ہو کر آتی تھی وہ گھر پر اونچی آواز میں چلاتے اور سب بچوں کو بٹھا کر سناتے۔ اس طرح دیگر اہل خانہ کو تبلیغ اور اپنے بچوں کی تربیت کا موقع میسر آجاتا۔ بچوں کودیگر جماعتی پروگراموں میں بڑی فکر مندی کے ساتھ شامل کرتے اور مرکز سے آنے والے بزرگان سلسلہ کی اپنے گھر میں بھرپور مہمان نوازی کرتے اور ان کو دعا کے لیے بھی کہتے رہتے۔ آپ جماعت میں مرکزی،ضلعی اور مقامی طور پر مختلف خدمات کی توفیق پاتے رہے۔ جیکب آبا د جماعت کے تادمِ وفات ۱۷؍سال صدر جماعت رہے۔
مکرم ملک سردار احمد صاحب آف جیکب آباد کے گھر جماعت کا سینٹر ہوا کرتا تھا اور جیکب آباد شہر میں یہی خاندان تھا جن کی احمدیت کے لیے نمایاں قربانیاں ہیں اور انہی کے ذریعہ یہاں احمدیت کا نفوذ ہوا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ ارشاد صاحب نےمجھے ربوہ جانے سے قبل اپنے ایک خواب کے بارہ میں بتایا کہ ’’میں نے دیکھاہے کہ مَیں ایک جہاز میں سوار ہوں اور وہ جہاز آسمان میں بلند ہوتا ہے اور اوپر جاتے جاتے فضاء میں غائب ہو جاتا ہے۔‘‘
جس سے انہیں شبہ تھا کہ شاید یہ ان کا آخری سفر ہو اور خاکسار کا خیال ہے کہ اسی وجہ سے انہوں نےربوہ پہنچتے ہی سب سے پہلے اپنی وصیت کے معاملات کو مکمل کیا وگرنہ شاید ہمارے غیر احمدی بھائی اس میں کوئی رَخنہ ڈال دیتے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے پیاروں کے لیے پہلے ہی سے ان کے لیےراہیں ہموارکر دیتا ہے،الحمد للہ۔
والد صاحب کی زندگی کی بڑی خواہش یہ تھی کہ ان کا کوئی بیٹا وقف کرے اور مبلغ بنے۔ آپ میرے چھوٹے بھائی ندیم ارشاد کےبارے کہتے کہ میں اسے مبلغ بناؤں گا اورمیرے بارے میں ان کا خیال اس وجہ سے نہیں تھا کیونکہ خاکسار کا رجحان بھی احمدیت کی طرف نہیں تھا اور بچپن میں خاکسار غیراحمدیوں کی مسجد میں باقاعدگی سے نماز پڑھنے جاتا تھا اور جماعتی پروگراموں کے وقت جب والد صاحب مجھے جانے کے لیے بلاتے تو میں چھپ جاتا تا کہ وہاں شمولیت نہ کرنی پڑے۔
خاکسار کے جامعہ احمدیہ میں داخلہ کے بعد بھی والد صاحب کو یہ شبہ تھا کہ پتا نہیں میں جامعہ کے تعلیمی معیار پر پورا اترسکوں گا بھی یا نہیں۔داخلہ کے بعد جب مَیں نے والد صاحب سے سائیکل خریدنے کی خواہش ظاہر کی تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ نے پہلا سال پاس کر لیا تو دلا دوں گا اور یہ ان کی دعائیں ہی تھیں کہ خاکسار کو جامعہ میں پڑھائی کا اس قدر شوق پیدا ہو گیا کہ اللہ کے فضل و کرم سے پہلے سال ہی خاکسارنے اپنی کلاس میں اوّل پوزیشن حاصل کرلی، الحمدللہ۔ اس کے بعد جب خاکسار گرمیوں کی چھٹیوں کے دوران جیکب آباد گیا تو آپ کی خوشی دیدنی تھی اور آپ نے مجھے خوشی خوشی سائیکل خرید کردی۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خاکسار کے اساتذہ میرے تعلیمی معیار سے مطمئن تھے اس لیے جب والد صاحب کا ایکسیڈنٹ ہوا تو ہمارے اساتذہ مرحوم مکر م جلال الدین قمر صاحب اور مکرم نورالحق تنویر صاحب نے ان کی عیادت کی اور انہیں بتایا کہ اللہ کے فضل سے میرا علمی و اخلاقی معیار بہت اچھا ہے تو ان کے ان تعریفی کلمات کو سن کر جو خوشی کے آثار آپ کے چہرے پر ظاہر ہوئے وہ مجھے آج بھی یاد ہیں اور میں اللہ کا بے حد شکر گزار ہوں کہ اس نے میری طرف سے میرے والد کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشی، الحمد للہ۔
والد صاحب خاکسار کے وقف کے بارے میں فرماتے تھے کہ میں نے اپنی وصیت کا دسواں حصہ ادا کر دیا ہے یعنی آپ کے دس بچے تھے اور ان میں سے ایک واقف زندگی ہے،اور یہ خلیفہ وقت اور آپ ہی کی دعاؤں کا ثمر ہے کہ خاکسار ۱۹۹۲ء میں جامعہ سے فراغت کے بعد چار سال النور سوسائٹی، دو سال ڈرگ کالونی اور دو سال ڈرگ روڈ کراچی میں خدمت کی توفیق پانے کے بعد بلاد ہائے افریقہ میں دو سال آئیوری کوسٹ، آٹھ سال بورکینا فاسو اور دس سال نائیجر یعنی بیس سال افریقہ میں خدمت کی توفیق پائی۔ اس دوران اللہ کے فضل و کرم سے سینکڑوں جماعتیں قائم کرنے درجنوں مساجد،سکولز،ریڈیو سٹیشن بنانے کے علاوہ درجنوں معلّمین اور لوکل مشنریز تیار کرنےکی توفیق عطا ہوئی، الحمدللہ
ابا جان صحافتی حلقوں میں بھی معروف تھے جس کی وجہ سے شہر کے اعلیٰ سیاسی و انتظا می احباب سےآپ کے اچھے تعلقات تھے۔ بحیثیت شاعربھی مقبول شخصیت تھے جس کی وجہ سے ادبی محافل میں آپ کو ضلعی اورقومی سطح پر منعقد ہونے والے مشاعروں میں دعوت دی جاتی تھی۔ اسی طرح مختلف جماعتی رسائل میں بھی آپ کا کلام شائع ہوتا رہتا تھا۔ لاہور سے مکرم ثاقب زیروی صا حب مرحوم کی زیرِ ادارت شائع ہونے والے رسالہ’لاہور‘ میں بھی آپ کا شعری کلام اور مضامین شائع ہوا کرتے تھے۔
ایک مرتبہ خاکسار کی ملا قات مکرم مولانا دوست محمد شاہد صاحب کے ساتھ ہوئی تو مَیں نےابا جان کے حوالے سے اپنا تعارف کرایا توانہوں نے بتایا کہ جب آپ کے والدصاحب(شکیب صاحب) نے بیعت کر لی تو میں نے ان سے پوچھا کہ اب آپ کے کیااحساسات ہیں؟ تو شکیب صاحب نےجوابًا اپنایہ شعر پڑھا۔
سزا دارو رسن کی دیں گے آخر آپ کس کس کو
کہ دیوانوں کی بستی میں تو سب منصور رہتے ہیں
بیعت کرنے کے بعدآپ کو تبلیغ کا بے حد شوق پیدا ہو گیا تھا اور تبلیغ کا کوئی موقع میسر آتا تو اسے ہاتھ سے نہ جانے دیتے تھے۔ اس کا ایک نمونہ ماہنامہ الفرقان فروری۱۹۶۱ء میں بعنوان دلچسپ مکالمہ از جناب ارشاد احمد صاحب شکیبؔ شائع ہوا۔
والد صاحب کی وفات کے بعد ہمارے بھائیوں میں سے جو احمدی تھےان میں بھی جماعت سے تعلق میں دُوری کے آثارظاہر ہونے لگے اس لیے خاکسار نے کوشش کی کہ جو بھائی احمدی ہیں انہیں جماعت کے ساتھ منسلک رکھا جائے۔
مؤرخ احمدیت مولانا دوست محمد شاہد صاحب(مرحوم) روزنامہ الفضل ۲۲؍اپریل ۲۰۱۱ء کی اشاعت میں بعنوان ’’عالم روحانی کے لعل وجواہر‘‘(نمبر ۶۱۴) میں ابا جان مرحوم کے بارہ میں تحریرکرتے ہیں:’’شمع احمدیت کے اس پروانہ کو احمدیت میں آنے کے بعد سیدنا مصلح موعودؓ کے عرفان سے لبریز کلام میں سب سے بڑھ کر جس نے متاثر کیا وہ یہی نظم تھی جس پر آپ نے عالم بےتابی میں اپنے قلبی واردات کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو چند شعروں میں بند کردیا جو ایک طرف سہل ممتنع کی ایک لاجواب مثال ہیں اور دوسری طرف دنیائے احمدیت کے کروڑوں عشاق خلافت اور نونہالان احمدیت کے باطنی جذبات کی مؤثر طور پر عکاسی اور ترجمانی کررہے ہیں۔ اب گلستان احمد کے اس عندلیب خوش نوا کا نغمہ سنیئے۔ (زیر عنوان ’’پیمان وفا‘‘)
حضرت خلیفة المسیح الثانی المصلح الموعودؓکی نظم ’’نونہالان جماعت مجھے کچھ کہنا ہے‘‘ سے متاثر ہوکر
ضائع ہم آپ کا پیغام نہ ہونے دیں گے
سرنگوں پرچم اسلام نہ ہونے دیں گے
دام ہمرنگ زمین لاکھ بچھائے باطل
طائر دل کو تہ دام نہ ہونے دیں گے
اپنے اعمال کی تقویٰ پہ بنا رکھیں گے
دعوتِ فسق کبھی عام نہ ہونے دیں گے
بڑھتے جائیں گے سُوئے منزل مقصود مدام
راہ میں سست کبھی گام نہ ہونے دیں گے
خدمتِ دین کے عوض نفس کو اپنے ہرگز
ہم کبھی طالب انعام نہ ہونے دیں گے
آپ کے فیض سے چمکا ہے جو مہرِ انور
ہم اُسے زیبِ رخ شام نہ ہونے دیں گے
لاکھ طوفاں اٹھیں ظلم کے لیکن دل کو
ناشکیب آپ کے خدام نہ ہونے دیں گے
آپ سے عہد جو باندھا ہے تو ان شاءاللہ
اس کی رسوائی سرِ عام نہ ہونے دیں گے
وہ چند آنسو مری آنکھوں سے جو وقت دعا نکلے
وہ چند آنسو مری آنکھوں سے جو وقت دعا نکلے
بتاؤں کیا تمہیں گوہر وہ کتنے بےبہا نکلے
ابھی تک دیکھ لےآکر یہ دامن سے ہیں وابستہ
ترے گلشن کے کانٹے تجھ سے بڑھ کر باوفانکلے
یہ ناممکن ہے وہ عرشِ عُلیٰ سے بے اَثرلَوٹے
یقین میں ڈوب کر بندے کے دل سے جودعا نکلے
ابھی تو نامہ بر کو دیکھ کردل کی یہ حالت ہے
نہ جانے کیفیت کیا ہو اگر وہ آپ آنکلے
بنے گا کیا تیرا واعظ جنہیں کہتا ہے تو کافر
اگر وہ روز محشر سب کے سب ہی باخدا نکلے
وہ دیوانے جنہوں نے خون سے سینچا تھا گلشن کو
وہی اخلاق کے پیکر یہاں سے بے دست وپا نکلے
نہیں یہ بزدلی، یہ ہے کمال خلق انسانی
جفائیں کرنے والوں کے لیے دل سے یہ دعانکلے
جونہی دیکھا مجھے بولے شکیب آجاؤ جنّت میں
فرشتے حشر میں اپنے پرانے آشنا نکلے
(کتاب شعرائے احمدیت مرتبہ سلیم شاہجہانپوری۔صفحہ ۴۹۰ )
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے پیارے ابا جان کو جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرماتے ہوئے درجات بلند فرماتا چلاجائے اور ہمیں ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق عطا فرمائے،ہمیں احمدیت کی جو دولت ان کے ذریعہ ملی اور جس کے ثمرات سے ہم فیضیاب ہوئے، آئندہ ہماری نسلیں بھی اپنے اس پیارے بزرگ کےاحسانات کو یاد رکھتے ہوئے ان کے لیے دعائیں کرنے والی ہوں،آمین، آمین ثم آمین۔
(عامر ارشاد قریشی)
مزید پڑھیں: سیرالیون کا ایک دیوانہ : ’’پا الحاج علی روجرز‘‘