متفرق مضامین

’’سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلّل کرو‘‘

عبادت کی فروع میں یہ بھی ہے کہ تم اس شخص سے بھی جو تم سے دشمنی رکھتا ہو ایسی ہی محبت کرو جس طرح اپنے آپ سے اور اپنے بیٹوں سے کرتے ہو

خاکسار کا بچپن جہاں گزرا ہے وہاں ہمارا اکیلا ہی گھر احمدی تھا۔ والد محترم رانا عبدالحکیم خاں کاٹھگڑھی صاحب ایک تجربہ کار، دنیا شناس شخصیت اور اچھی شہرت رکھنے والے ماہر پٹواری تھے۔بڑے بڑے زمیندار آپ کی صائب الرائے شخصیت سے متاثر تھے اور اپنے ذاتی مسائل اور لین دین کے معاملات میں مشورے کے لیے ہمارے گھر پر آتے تھے اور والد محترم لوگوں کو ان کی طبیعت اور حالات کے مطابق تبلیغ بھی کرتے تھےاور اکثر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ایک ارشاد کا غیراز جماعت لوگوں کو تعارف کراتے ہوئے سنا تھا کہ ہمارے بانیٔ جماعت نے فرمایا ہے کہ ’’سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلّل کرو‘‘۔

اس ارشاد کو سننے کے بعد ان دنیا دار لوگوں کے چہرے پر یہ تاثر ہوتا تھا کہ یہ تو ایک غیر ممکن سی بات کی گئی ہے اور مجھے بھی اس بات کی بچپن کی وجہ سے سمجھ نہ آتی تھی اور سوال پیدا ہوتا تھا اور یہ سوال ا بھی تک ذہن میں آتاہے کہ میں سچ پر ہونے کے باوجود، عاجزی،نرمی،انکساری اور عفو و درگزر سے کیونکرکام لے سکتا ہوں؟

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتاب کشتی نوح میں آپؑ کا رقم فرمودہ یہ ارشاد، والد صاحب سے سنا اورخود پڑھا بھی لیکن اس ارشاد کی تفصیل اور گہرائی میں جانے کا کبھی موقعہ نہ ملا۔پھر یوں ہی ایک دن حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کو مد نظر رکھتے ہوئے کچھ لکھنے کی خواہش پیدا ہوئی تو تاریخ کے کچھ اوراق کو پڑھنے کا وقت نکالا۔

سب سے پہلے میرے لیے لفظ تذلّل کچھ نیا تھا جو اردو پڑھنے اور سننے میں کم ملا تھا۔اور جب اس لفظ کی گہرائی میں جانے کا موقع ملا،تو آپؑ کے اس ارشاد میں لفظ تذلّل کےاستعمال میں بہت گہری حکمت چھپی ہوئی نظر آئی۔

تذلّل عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ ذَلَّ سے بنا ہے اور ذَلَّکے معنی ہیں۔

۱۔ ذلیل و رسوا ہو جانا
۲۔ اطاعت قبول کر لینا، رام ہو جانا
۳۔کسی کام یا راستے کا آسان ہونا

ذَلَّ سے باب تفعل کا صیغہ تَذلل ہے۔باب تفعل میں کوشش کر کے یا بناوٹی طور پر کوئی انداز یا کیفیت اختیار کرنے کا معنی ہوتا ہے۔ یوں تَذلل کا معنی ہے کوشش کر کے اپنے اندر تبدیلی پیدا کرتے ہوئے( عدم اطاعت کو چھوڑتے ہوئے) رام ہو جانا، کسی کے سامنےسر تسلیم خم کر دینا۔اور دوسرا مطلب، انانیت چھوڑ کر اپنے آپ کو کمتر سمجھنا اور فروتنی اور عاجزی اختیار کرنا ہے۔

پھر قرآن کریم کا اس موضوع کو مدنظر رکھتے ہوئے مطالعہ کیا تو سورہ لقمان آیت ۱۹ نظر سے گزری۔ جس میں خدا تعالیٰ فرماتا ہے ’’اور (نخوت سے)انسانوں کے لیے اپنے گال نہ پُھلا اور زمین میں یوں ہی اکڑتے ہوئے نہ پھر۔ اللہ کسی تکبر کرنے والے فخر اور مباہات کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔‘‘(ترجمہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒ) اور پھر سورہ بنی اسرائیل آیت ۳۸؍ میں حکم ہے کہ ’’اور زمین میں اکڑ کر نہ چل۔تو یقیناً زمین کو پھاڑ نہیں سکتا اور نہ قامت میں پہاڑوں کی بلندی تک پہنچ سکتا ہے۔‘‘(ترجمہ حضرت خلیفۃالمسیح ا لرابعؒ )

مزید برآں سورہ فرقان آیت ۶۴ میں اللہ تعالیٰ اپنے سچے بندوں کے بارے میں فرماتا ہے ’’اور رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی کے ساتھ چلتے ہیں اور جب جاہل ان سے مخاطب ہوتے ہیں تو (جواباً) کہتے ہیں ’’سلام‘‘۔‘‘(ترجمہ حضرت خلیفۃالمسیح ا لرابعؒ )

اس کے بعد جب خدا تعالیٰ کے ان احکامات پر عمل کرنے کی مثالیں تلاش کرنا شروع کیںتو رسول کریم ﷺ کی ذات اقدس مشعل راہ کے طور پر سامنے آتی ہے۔ آپ ﷺ کی زندگی سے متعدد واقعات کا ذکر ملتا ہے جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سچے ہوتے ہوئے بھی تذلّل کے عملی نمونے پیش کیے۔ یہ نمونے آپ ﷺ کی عاجزی اور انکساری کی معراج معلوم ہوتے ہیں اور آپﷺ سے عشق اور محبت کرنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔

چھ ہجری کا واقعہ ہے کہ رسول کریم ﷺ نے ایک خواب دیکھا جس میں آپﷺ اپنے صحابہ کے ساتھ بیت اللہ کا طواف کر رہے ہیں۔ اس خواب کی روشنی میں آپﷺ صحابہؓ کو عمرے کی تحریک فرماتے ہیں اور عمرے کے لیے چودہ سو صحابہ کے ساتھ مکہ کی طرف سفر کا آغاز ہوتا ہے ا ور مدینہ سے نکل کر کچھ فاصلے پر قیام کر کے عمرے کی نیت کر کے صحابہ کو ہدایت فرمائی کہ احرام پہن لیں اور خود بھی احرام باندھ لیا۔

عرب میں صدیوں سے دستورتھا کہ جب کوئی شخص احرام باندھ کر مکہ مکرمہ آتا تو اسے کعبہ کے طواف سے روکا نہیں جاتا تھا۔ قریش نے اس دستور کے خلاف ورزی کرتے ہوئے آپ کے قافلے کو حدیبیہ کے مقام پر روک لیا۔ قریش کا خیال تھا کہ آپ ﷺ چودہ سوساتھیوں کے ساتھ مکہ میں داخل ہوں گے تو ان کا سارا رعب جاتا رہے گا۔قریش کے ساتھ بات چیت کے لیے ایلچیوں کے تبادلہ کے باوجود قریش اپنی ضد اور انا پر قائم رہے کہ وہ آپﷺ اور ساتھیوں کو عمرہ نہیں کرنے دیں گے۔قریش کی اس ہٹ دھرمی کو دیکھ کر صحابہ میں بھی شدید اضطراب کی کیفیت تھی۔لیکن بات معاہدہ طے کرنے کی طرف جاتی ہے۔ معاہدہ قریش کے نمائندہ اور رسول خداؐ کے درمیان لکھا جانے لگا تو آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو معاہدہ لکھنے کے لیے بلایا اور فرمایا لکھو بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِ۔ اس پہلی بات پر ہی قریش نے اعتراض کر دیا کہ ہم تو کسی رحمٰن کو نہیں جانتے اور بِسۡمِ اللّٰہِ الرَّحۡمٰنِ الرَّحِیۡمِنہیں لکھنے دیں گے۔ ایک طرف صلح کا معاہدہ تھا اور دوسری طرف مسلمانوں کی قومی عزت اور مذہبی غیرت کا سوال تھا کہ کوئی بھی کام رحمٰن خدا کے نام کا ذکر کیے بغیر کیسے شروع کیا جا سکتا ہے؟ لیکن آپﷺ نے فرمایا کہ جس طرح سہیل (قریش کا نمائندہ) کہتا ہے لکھ دو۔

اس کے بعد آپؐ نے فرمایا لکھو، یہ معاہدہ محمد رسول اللہ(ﷺ)نے کیا ہے۔ اس پر بھی قریش نے اعتراض کردیا اور کہا محمد بن عبداللہ لکھو۔آپؐ نے فرمایا کہ آپ مانیں یا نہ مانیں میں خدا کا رسول تو ہوں۔چلو محمد بن عبداللہ بھی ہوں تو یہی لکھ دو۔لیکن اسی اثنا میں حضرت علیؓ نے آپؐ کا نام محمد رسول اللہ لکھ دیا تھا۔آپؐ نے حضرت علی کو فرمایا رسول اللہ کا لفظ معاہدہ کی عبارت سے کاٹ دو۔قریش کے اعتراضات اورسخت رویہ کی وجہ سے اس محفل میں غصے اور جوش کا عالم تھا اور اسی جوش اور غیرت کی وجہ سے حضرت علیؓ نے کہا کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام کے آگے سے رسول اللہ کا لفظ کاٹ دوں؟

قریش ان حرکتوں کی وجہ سے مسلمانوں کےگروہ کو مسلسل ا شتعال دلا رہے تھے۔لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی فراست نےحالات کو سمجھ لیا اور اس نازک گھڑی میں تذلّل کا اعلیٰ نمونہ دکھاتے ہوئے،آپؐ نے اپنے ہاتھ سےاپنے نام کے آگےسے رسول اللہ کا لفظ کاٹ دیا۔اس معاہدے کی تمام شرائط بظاہرکمزور اور مسلمانوں کے خلاف تھیں۔ جیسے کہ مسلمان اس دفعہ عمرہ کیے بغیر یہاں سے واپس چلے جائیں اور قریش کا کوئی فرد اگر مسلمان ہو کر مدینہ آئے تو مسلمانوں پر لازم ہوگا کہ اسے واپس کر دیں، لیکن اگر کوئی مسلمان قریش کے پاس جائے تو اسے واپس نہیں کیا جائے گا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم بے شک حق پر تھے، خدا تعالیٰ کے سچے رسول تھے اور آپ کا دشمن باطل پر تھا لیکن پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم جن کے لیے زمین و آسمان بنایا گیا نے صلح،امن اور رواداری کے لیے اور کسی بھی انسانی جذبے سے مغلوب ہوئے بغیر (جبکہ صحابہ آپ کے ایک اشارے کے انتظار میں تھے) قریش کی تمام شرائط مان لیں۔ حتی کہ اپنے ہاتھ سےاپنے نام کے آگے سےرسول اللہ کا لفظ بھی کاٹ دیا۔اگر دنیا کی نظر سے دیکھا جائے تو رسول اللہ کے لفظ پر اعتراض آپﷺ کی عزت کم کرنے کی کوشش تھی لیکن آپؐ نے کسی قسم کی انا نیت کو آڑے نہ آنے دیا اور تذلّل کے اعلیٰ نمونے تمام دنیا کے لیے قائم کر دیے۔

پھر تاریخ میں ایک شخص کا واقعہ ہے جس کو مؤرخین نے رئیس المنافقین کہا ہے اور یہ شخص حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگانے کا بانی مبانی بھی تھا۔ ہجرت مدینہ کے دنوں میں اس شخص کی مدینہ میں تاج پوشی کی تیاری ہو رہی تھی۔ لیکن رسول کریم ﷺ کی آمد کے بعد اس کا یہ خواب پورا نہیں ہوسکا اور رسول خداؐ اس کے کاموں کو بخوبی جانتے تھے۔ یہ ہمیشہ کفار سے مل کر مسلمانوں کو نقصان پہنچاتا تھا۔ غزوہ احد میں بھی منافقت کرتے ہوئے ایک تہائی لشکر کو لے کر مدینہ کو واپس لوٹ آیا۔ پھریہ اپنی بد دماغی اور منافقانہ چالوں میں اس قدر بڑھ گیا کہ غزوہ بنو مصطلق سے واپسی پر اس نے یہاں تک کہہ دیا کہ دیکھو !اب مدینہ میں جا کر عزت والا شخص یا گروہ، ذلیل شخص یا گروہ کو (نعوذ باللہ)اپنے شہر سے باہر نکال دے گا۔ یہ بات ایک کم سن صحابی حضرت زیدبن ارقمؓ کے ذریعہ آپؐ تک پہنچی۔ جب رسول خداؐ نے اس کو بلا کر استفسار کیا تو اس شخص نے اس بات سے مکمل انکار کر دیا۔ اس پر بعض انصار نےاس کی سفارش بھی کی کہ حضرت زید بن ارقمؓ جو عمر میں چھوٹے تھےشاید ان کو سننے میں غلطی لگی ہو گی۔آپؐ نےفی الوقت اس کے بیان کو قبول کر لیا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعہ بتا دیا کہ یہ واقعہ سچ ہے اور سب دنیا کو اور اس وقت کے لوگوں کو پتا لگ گیا کہ یہ سچ ہے۔ خدا تعا لیٰ نے قران کریم میں کچھ اس طرح بیان کیا ہے:یَقُوۡلُوۡنَ لَئِنۡ رَّجَعۡنَاۤ اِلَی الۡمَدِیۡنَۃِ لَیُخۡرِجَنَّ الۡاَعَزُّ مِنۡہَا الۡاَذَلَّ ؕ وَلِلّٰہِ الۡعِزَّۃُ وَلِرَسُوۡلِہٖ وَلِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ وَلٰکِنَّ الۡمُنٰفِقِیۡنَ لَا یَعۡلَمُوۡنَ(المنافقون:۹)ترجمہ: وہ کہتے ہیں کہ اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹیں گے تو ضرور وہ جو سب سے زیادہ معزز ہے اسے جو سب سے زیادہ ذلیل ہے اس میں سے نکال باہر کرے گا۔ حالانکہ عزت تمام تر اللہ اور اس کے رسول کی ہے اور مومنوں کی۔ لیکن منافق لوگ جانتے نہیں۔

اس منافق کا نام عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔ اس کا بیٹا ایک مخلص مسلمان تھا۔ اپنے باپ کی اس بات کی خبر ہوئی تو کہا یارسول اللہؐ! اگر آپؐ اجازت دیں تو میں اس گستاخی کی وجہ سے اپنے باپ کا سر اڑا دوں۔ لیکن آپ نے اجازت نہ دی۔حضرت عمر ؓنے بھی اسی طرح سوال کیا کہ اس گستاخی کی وجہ سے اس کا سر قلم کر دوں مگر آپ ﷺنے منع فرما دیا۔ ایک لمحہ کے لیے اس واقعہ کو سوچیں تو یہ رسول کریم ﷺکی ذات پر سیدھا حملہ تھا اور ان کے متعلق ہی یہ ناپاک الفاظ کہے گئے تھے۔ مدینہ میں رسول کریمﷺ کو ایک بادشاہ کی حیثیت حاصل تھی لیکن آپؐ نے اس سارے معاملہ میں نرمی و درگزر سے کام لیا اور کوئی انا،ذاتی ملال اور غصہ آپؐ کو اخلاق کی اعلیٰ مثال قائم کرنے سے نہ روک سکا۔یہی نہیں بلکہ آپؐ نے اس کا جنازہ بھی پڑھایا اور اس کے بیٹے (جو مخلص مسلمان تھے) کی خواہش پر کرتہ بھی عطا فرمایا اور بخشش کی دعا کی۔

جب رسول کریم ﷺ اپنے دس ہزار ساتھیوں کے ساتھ فاتحانہ حالات میں مکہ میں داخل ہوتے ہیں اور اس وقت آپؐ ہر قسم کا بدلہ لینے پر قادر تھے۔دوسری طرف مکہ کے وہ لوگ تھے جنہوں نے آپؐ اور آپؐ کے ساتھیوں پر ظلم کے پہاڑ توڑے تھے۔ مسلمان غلاموں کو مکہ کی گلیوں میں گھسیٹنے والے،مسلمان عورتوں کو بے دردی سے شہید کرنے والے اور خود رسول خداؐ کو تین سال تک گھاٹی میں قید کر کے رکھنے والے، مسلمانوں کی لاشوں کا مثلہ کرنے والے، آپؐ کے چچا حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والے اور آپؐ کی صاحبزادی حضرت زینب ؓ پر حملہ کر کے اسقاط حمل کا باعث بننے والے سب شامل تھے۔لیکن آپؐ نےحقیقی عفو کی انمول مثال قائم فرماتے ہوئے سب کو معاف کر دیا۔ فتح مکہ ایسا موقع تھا جب رسول کریمؐ ہر لحاظ سے ہر طرح کا بدلہ لے سکتےتھے اور سزا دے سکتے تھے اور اس دن تمام مکہ کےلوگ آپؐ کے رحم و کرم پر ہی تھے۔ان لوگوں کی ظلم کی کہانی پڑھ کر انسان کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن پھر بھی سب کو عام معافی دے دی گئی۔ اس رحمت عام کو دیکھ کر آپؐ کے شدید ترین مخالف بھی آپﷺ کی تعریف کیے بغیر نہ رہ سکے۔

اہل ِمکہ کو آپ ﷺ نے وہ جواب عطا فرمایا جو حضرت یوسف علیہ السلام نے اپنے بھائیوں کو دیا تھا کہ لَا تَثۡرِیۡبَ عَلَیۡکُمُ الۡیَوۡمَیعنی آج کے دن تم پر کوئی گرفت نہیں (اور تم آزاد ہو)۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی زندگی میں بہت سے واقعات ہیں جہاں آپؑ نے سچے ہو کر جھوٹے کی طرح تذلّل کرنے کے عملی نمونے دکھائے ہیں۔

۱۸۹۷ء میں ایک پادری ڈاکٹر ہنری مارٹن کلارک نے فوجداری مقدمہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے خلاف دائر کر دیا کہ آپؑ نے ایک شخص عبدالحمید کو اس کے قتل کرنے کے لیے قادیان سے امرتسر بھیجا۔ یہ مقدمہ انتہائی سنگین نوعیت کا تھا جس میں الزام اقدام قتل کا تھا جس پر قید کی سخت سزا بھی ہوسکتی تھی۔ اس مدعی کو ایک بڑے پادری کا لے پالک بیٹا ہونے کی وجہ سے،انگریزی حکومت کے اعلیٰ حلقوں میں رسوخ حاصل تھا اور اس سازش میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے شدید مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی اور آریوں کے لوگ شامل تھے۔ مقدمہ کیپٹن ڈگلس ڈپٹی کمشنر کی عدالت میں چلا اورکیپٹن ڈگلس ایک انصاف پسند حاکم تھے۔ مخالف پارٹی نے مقدمہ پر اثر انداز ہونے کی ہر ممکن کوشش کی۔لیکن کیپٹن ڈگلس نے آپؑ کو باعزت بری کر دیا اورکہا کہ آپؑ اگر چاہیں تو اس مقدمہ کے مدعیوں کے خلاف جو جھوٹے الزامات لگا کر آپؑ کو پریشان کر رہے ہیں مقدمہ کر سکتے ہیں۔ تاہم حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ان کے خلاف کوئی کارروائی نہ کی اور انہیں معاف فرمادیا۔ ایک طرف ایک اقدا م قتل کا جھوٹا سنگین مقدمہ کر کے آپؑ کو ذہنی اذیت دی گئی اور آپؑ کا قیمتی وقت مخالفین نے برباد کیا تو دوسری طرف آپؑ کو مخالف فریق پر مقدمہ کرنے کی اجازت دی گئی پھر بھی آپؑ نے ان کو معاف کر دیا۔ یہ آپؑ کی اعلیٰ ظرفی، درگزر اور عفو کا عظیم نمونہ تھا۔ یوں ہمیں واضح سبق بھی ملتا ہے کہ اگر ذاتی،خاندانی یا معاشرتی جھگڑوں کے وقت فتنہ اور فساد کے اندیشے کے سبب،حق پر ہوتے ہوئے بھی اپنا حق چھوڑنا پڑے تو چھوڑ دینا چاہیے۔

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرماتے ہیں: ’’اب ایسے لوگ جن کو اپنی بڑائی بیان کر کے اپنے مقام کا اظہار کرنے کا بڑا شوق ہو تا ہے ان کو یہ ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بلند مقام عاجزی سے ہی ملتا ہے۔ اچھا باغبان یا مالک ہو باغ کا،وہ ہمیشہ درخت کی اُس شاخ کی قدر کرتا ہے جو پھلوں سے لدی ہواورزمین کے ساتھ لگی ہو۔ اسی طرح مالک ارض و سما اس سر کی قدر کرتا ہے جو زمین کی طرف جھکتا ہے۔ عاجزی کے مقابلے پہ فخر، غرور اور تکبّر ہی ہے یعنی اس کا الٹ، تو حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃو السلام فرماتے ہیں کہ شرک کے بعد تکبّر جیسی کوئی بَلا نہیں۔ اگر غور کریں تو تکبّر ہی آہستہ آہستہ شرک کی طرف بھی لے کر جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ہمیشہ عاجزانہ راہوں پر چلائے‘‘۔(خطبہ جمعہ ۲؍جنوری ۲۰۰۴ء مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۲۷؍ فروری ۲۰۰۴ء)

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام فرماتے ہیں کہ ’’اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہے تو مسکینوں کے دل کے پاس تلاش کرو۔ اسی لئے پیغمبروں نے مسکینی کا جامہ ہی پہن لیا تھا۔ اسی طرح چاہئے کہ بڑی قوم کے لوگ چھوٹی قوم کو ہنسی نہ کریں اور نہ کوئی یہ کہے کہ میرا خاندان بڑا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ تم میرے پاس جو آؤ گے تو یہ سوال نہ کروں گا کہ تمہاری قوم کیا ہے بلکہ سوال یہ ہو گاکہ تمہارا عمل کیا ہے۔ اسی طرح پیغمبرخدا نے فرمایا ہے اپنی بیٹی سے کہ اے فاطمہ!خداتعالیٰ ذات کو نہیں پوچھے گا۔اگر تم کوئی برا کام کرو گی توخدا تعالیٰ تم سے اس واسطے درگذر نہ کرے گا کہ تم رسول کی بیٹی ہو۔‘‘ (ملفوظات جلد سوم صفحہ ۳۷۰۔ایڈیشن۱۹۸۸ء)

پھر فرماتے ہیں: ’’مومن کی یہ شرط ہے کہ اس میں تکبر نہ ہوبلکہ انکسار، عاجزی، فروتنی اس میں پائی جائے اور یہ خدا تعالیٰ کے ماموروں کا خاصہ ہوتا ہے ان میں حد درجہ کی فروتنی اور انکسار ہوتا ہے اور سب سے بڑھ کر آنحضرتﷺ میں یہ وصف تھا۔ آپؐ کے ایک خادم سے پوچھا گیا کہ تیرے ساتھ آپؐ کا کیا معاملہ ہے؟ اس نے کہا کہ سچ تو یہ ہے کہ مجھ سے زیادہ وہ میری خدمت کرتے ہیں۔ (اللّٰہم صَلِّ عَلٰی مُحَمَّدٍ وَّعَلٰی اٰلِ مُحَمَّدٍ وَّ بَارِکْ وَسَلِّمْ۔)

یہ ہے نمونہ اعلیٰ اخلاق اور فروتنی کا اور یہ بات بھی سچ ہے کہ زیادہ تر عزیزوں میں خدام ہوتے ہیں جو ہر وقت گردوپیش حاضر رہتے ہیں۔ اس لئے اگر کسی کے انکسار و فروتنی اور تحمل و برداشت کا نمونہ دیکھنا ہو تو ان سے معلوم ہو سکتا ہے بعض مرد یا عورتیں ایسی ہوتی ہیں کہ خدمت گا ر سے ذرا کوئی کام بگڑا۔ مثلاً چائے میں نقص ہو اتو جھٹ گالیاں دینی شروع کر دیں یا تازیانہ لے کر مارنا شروع کردیا اور ذرا شوربے میں نمک زیادہ ہو گیا۔ بس بیچارے خدمتگاروں پر آفت آئی۔‘‘(ملفوظات جلد چہارم صفحہ ۴۳۷، ۴۳۸۔ایڈیشن۱۹۸۸ء)

آپؑ نے فرمایا :’’اور عبادت کی فروع میں یہ بھی ہے کہ تم اس شخص سے بھی جو تم سے دشمنی رکھتا ہو ایسی ہی محبت کرو جس طرح اپنے آپ سے اور اپنے بیٹوں سے کرتے ہو اور یہ کہ تم دوسروں کی لغزشوں سے درگزر کرنے والے اور ان کی خطاؤں سے چشم پوشی کرنے والے بنو اور نیک دل اور پاک نفس ہو کر پرہیز گاروں والی صاف اور پاکیزہ زندگی گزارو۔ اور تم بری عادتوں سے پاک ہو کر باوفا اور باصفا زندگی بسر کرو۔ اور یہ کہ خلق اللہ کے لئے بلاتکلف وتصنع بعض نباتات کی مانند نفع رساں وجود بن جاؤ۔ اور یہ کہ تم اپنے کبر سے اپنے کسی چھوٹے بھائی کو دکھ نہ دو۔ اور نہ کسی بات سے اس (کے دل) کو زخمی کرو۔ بلکہ تم پر واجب ہے کہ اپنے ناراض بھائی کو خاکساری سے جواب دو اور اسے مخاطب کرنے میں اس کی تحقیر نہ کرو اور مرنے سے پہلے مرجاؤ اور اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کرلو اور جو کوئی (ملنے کے لئے) تمہارے پاس آئے اس کی عزت کرو خواہ وہ پرانے بوسیدہ کپڑوں میں ہو نہ کہ نئے جوڑوں اور عمدہ لباس میں۔ اور تم ہر شخص کو السلام علیکم کہو خواہ تم اسے پہچانتے ہو یا نہ پہچانتے ہو اور (لوگوں کی) غم خواری کے لئے ہر دم تیار کھڑے رہو۔ ‘‘((ترجمہ عربی عبارت اعجاز المسیح) از تفسیر حضرت مسیح موعود علیہ السلام جلد اول صفحہ۲۰۳م ایڈیشن۲۰۰۴ء)

خلاصہ ان باتوں کا یہ ہوا کہ تم عاجزی دکھانے والے تب شمارکئے جاؤ گے اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں کو حاصل کرنے وا لے تب ہوگے جب تم اپنے سے نفرت کرنے والوں سے بھی محبت کرو، جب ضرورت ہوتو ان کے کام آؤ اور ان کے لیے دعا کرو۔ اور پھر دوسروں کی غلطیوں کو معاف کرنے والے بنو۔ غلطیوں کی وجہ سے کسی کے پیچھے نہ پڑ جاؤ۔ اور ان کی تشہیر نہ کرتے پھرو۔ کسی کی غلطی کو دیکھ کر دوسروں کو بتاتے نہ پھرو بلکہ پردہ پوشی کی بھی عادت ڈالو۔ اللہ تعالیٰ ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے اس ارشاد کہ ’سچے ہو کرجھوٹے کی طرح تذلّل کرو‘ پر کماحقہ عمل کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

(رانا منیب احمد خاں- لندن)

٭…٭…٭

مزید پڑھیں: ویلنٹائن ڈے کا پس منظر اور اس کی حقیقت

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button