ہر احمدی کوعبادتوں کے معیارکو اوپر لے کر جانا ہے
کسی سے بھی ضرورت سے زیادہ محبت یا اپنے کسی کام میں بھی ضرورت سے زیادہ غرق ہونا اس حد تک Involveہو جانا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہوش ہی نہ رہے، یہ شرک ہے۔ کاروباری آدمی ہے یا ملازمت پیشہ ہے۔ اگر نمازوں کو بھول کر ہر وقت صرف اپنے کام کی، پیسہ کمانے کی فکر ہی رہے تو یہ بھی شرک ہے۔ نوجوان اگر کمپیوٹر یا دوسری کھیلوں وغیرہ یا مصروفیات میں لگے ہوئے ہیں جس سے وہ اللہ کی عبادت کو بھول رہے ہیں تویہ بھی شرک ہے۔ پھر گھروں میں بعض ظاہری شرک بھی غیر محسوس طریقے سے چل رہے ہوتے ہیں، اس کا احساس نہیں ہوتا۔ ایک طرف تو احمدی کہلاتے ہیں گو یہ بہت کم احمدی گھروں میں ہے جبکہ دوسرے لوگوں میں بہت زیادہ ہے لیکن پھر بھی ایک آدھے گھر میں بھی کیوں ہو۔
…اگر کسی گھر میں عبادتوں میں سستی ہے، نمازوں میں سستی ہے تو ایسے گھروں میں پھر بڑی تیزی سے گراوٹ کے سامان پیدا ہونے شروع ہو جاتے ہیں۔ پس ہر احمدی کو نہ صرف ان لغویات سے پرہیز کرنا ہے بلکہ اپنی عبادتوں کے معیارکو بھی اوپر لے کر جانا ہے۔ ہم ہرنماز میں اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّا کَ نَسْتَعِیْنکی دعا مانگتے ہیں کہ اے خدا !ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں یا تیری ہی عبادت کرنا چاہتے ہیں اور تجھ سے ہی مدد مانگتے ہیں کہ ہمیں عبادت کرنے والا بنا۔ اور جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا ہے یقیناً اس کو ہر قسم کے شرک سے پاک ہونا چاہئے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہر احمدی کو اپنے دل کو ٹٹولنا چاہئے کہ ایک طرف تو ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کرنے والا بننے کی خداتعالیٰ سے دعا مانگ رہے ہیں دوسری طرف دنیاداری کی طرف ہماری نظر اس طرح ہے کہ ہم اپنی نمازیں تو چھوڑ دیتے ہیں لیکن اپنے کام کا حرج نہیں ہونے دیتے۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ میں رازق ہوں اور اپنی عبادت کرنے والوں کے لئے رزق کے راستے کھولتا ہوں۔ لیکن ہم منہ سے تو یہ کہتے ہیں کہ یہ بات سچ ہے، حق ہے لیکن ہمارے عمل اس کے الٹ چل رہے ہیں۔ اُس وقت جب ایک طرف نماز بلا رہی ہو اور دوسری طرف دنیا کا لالچ ہو، مالی منفعت نظر آ رہی ہو تو ہم میں سے بعض رالیں ٹپکاتے ہوئے مال کی طرف دوڑتے ہیں۔ اس وقت یہ دعوے کھوکھلے ہوں گے کہ ہم ایک خدا کی عبادت کرنے والے ہیں۔ پس جماعت کے ہر طبقے، عورت، مرد، بچے، بوڑھے، جوان، ہر ایک کو اپنا اپنا جائزہ لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو مان کر کیا روحانی تبدیلی ہم میں پیدا ہوئی ہے۔ کیا ہماری عبادتوں کے معیار بڑھے ہیں یا وہیں کھڑے ہیں یا گر رہے ہیں، کہیں کمی تو نہیں آ رہی۔ جب ہر کوئی خود اس نظر سے اپنے جائزے لے گا تو ان شاء اللہ عبادتوں کے معیار میں یقیناً بہتری پیدا ہو گی۔ (خطبہ جمعہ ۱۶؍ ستمبر ۲۰۰۵ء، مطبوعہ الفضل انٹرنیشنل ۷؍ اکتوبر ۲۰۰۵ء)
مزید پڑھیں: سچ کے خُلق کو اپنے اوپر لاگو کریں