امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکین نیشنل مجلس عاملہ جماعت احمدیہ کینیڈاکی ملاقات
اصل چیز تو برکت ہے ،جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو ، ساری چیزوں کی تقویٰ پر بنیاد ہو گی تو اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے۔ کچھ کام اللہ تعالیٰ پر بھی چھوڑ دیں لیکن اپنی محنت پوری کریں
مورخہ۲؍فروری ۲۰۲۵ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ اراکینِ نیشنل مجلسِ عاملہ کینیڈا کے تیس(۳۰)رکنی وفد کوملاقات کی سعادت حاصل ہوئی۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں منعقد ہوئی۔ عاملہ ممبران نےخصوصی طور پر اس ملاقات میں شرکت کی غرض سےکینیڈاسے برطانیہ کا سفر اختیار کیا۔

جب حضور انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔
ملاقات کا باقاعدہ آغاز دعا سے ہوا، جبکہ اس کے بعد حضور انور نے تمام عاملہ ممبران سے ان کی مفوضہ ذمہ داریوں اور اس ضمن میں بروئے کار لائی جانے والی مساعی ٔ اور کارگذاری کی بابت گفتگو فرمائی۔
سیکرٹری تبلیغ سے بات کرتے ہوئے حضور انور نے تبلیغی مساعی کو مزید وسعت دینے کی جانب راہنمائی فرماتے ہوئے جامع ہدایات سے نوازا کہ تعلقات بڑھائیں، اپنے تعلقات وسیع کریں، ضروری نہیں ہے کہ ضرور بیعت ہی ہو، کم از کم اسلام احمدیت اور حقیقی اسلام کا مسلمانوں اور غیر مسلموں میں تعارف ہونا چاہیے۔ اس کے بعدان شاء اللہ! جب وقت آئے گا تو breakthrough بھی ہو جاتا ہے۔
حضور انور نے توجہ دلائی کہ ابھی تک جو تبلیغ کی کوشش ہونی چاہیے اور جتنے وسیع پیمانے پر آپ کے ملک میں علم ہونا چاہیے، وہ ابھی نہیں ہے۔ایک علاقے میں ہے، ایک شہر میں اگر آپ اس کی مثال دے بھی دیں گے تو دوسرے شہر میں کوئی تعارف نہیں۔ یا بڑے شہروں میں اگرہے، جہاں جماعتیں ہیں، اب کیلگری میں کہہ دیں گے کہ اتنے لوگ آئے اور ٹورانٹو میں اتنے لوگ آئے۔ جو لوگ جانتے ہیں تو وہ آگئے۔ کچھ تھوڑی سی اخباروں سے پبلسٹی ہو جاتی ہے، لوگ جان لیتے ہیں، لیکن باقی جگہوں پر ایسا نہیں ہے۔
تبلیغی میدان اور تعارف کو وسعت دینے کی بابت حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ اس کو ذرا وسیع کریں اورپلان کریں۔ ضروری نہیں ہے کہ پرانا ٹکسالی(روایتی) جو طریقہ آپ نے اختیار کیا ہوا ہے، اسی کو اختیار کرنا ہے، نئے نئے طریقےexploreکریں، نئے لوگوں سے پوچھیں، جو نئے نوجوان ہیں ، ان سے پوچھیں کہ ہم تبلیغ کے ذریعے کیا کر سکتے ہیں؟ اور اس کے علاوہ سوشل سائنس کے کچھ لوگ اپنی ٹیم میں شامل کریں، ان سے پوچھیں کہ ہم کس طرح اس میدان کو وسیع کر سکتے ہیں۔
دورانِ ملاقات حضور انور نے امیر صاحب کینیڈا کےایک حالیہ انٹرویو کا بھی تذکرہ فرمایا، جس میں انہوں نے بتایا تھا کہ انہوں نے اسلام احمدیت کیسے قبول کی۔ مکرم لال خان ملک صاحب کا تعلق ایک ایسے گاؤں سے تھا، جہاں کے سکول کے ہیڈ ٹیچر ایک احمدی مسلمان تھے۔
حضور انور نے امیر صاحب سے استفسار فرمایا کہ اچھا سکول تھا یا احمدی ہیڈماسٹر اچھا تھا ،جس کی وجہ سے آپ احمدی ہوئے۔اس پر انہوں نے عرض کیا کہ احمدی ہیڈماسٹر چودھری بشیر احمد صاحب، اللہ ان کے درجات بلند فرمائے، کی وجہ سے اچھا سکول تھا۔
اس پر حضور انور نے مسکراتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ پھرآپ کو تو اسی وقت قائل ہو جانا چاہیے تھا کہ احمدی ہیڈماسٹر ایمانداری سے کام کروا رہا ہے، تو بجائے اعتراض کرنے کے چلو مان لو!
امیر صاحب نے عرض کیا کہ حضور! وہاں یہ بات مشہور تھی کہ سب سے شریف آدمی چودھری بشیر احمد صاحب ہیں، لیکن ایک ہی خرابی ہے کہ وہ قادیانی ہیں۔
حضور انورنے اس تناظر میں اپنا ایک ذاتی تجربہ بھی بیان فرمایا کہ ہم یونیورسٹی میں پڑھتے تھے تو لڑکے خدام الاحمدیہ یا سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کے تحت باہر لوگوں میں جاتے تھے اور تبلیغ کا یہ ذریعہ تھا کہ زمینداروں کے پاس جائیں اوران کے کام کر یں۔ بہت سارے ہمارے احمدی بھی زمینداروں کے بیٹے تھے، کسی کو ہل چلانا آتا تھا تووہ ان کا ہل چلانے لگ گئے، کَئی سے نالہ ٹھیک کرنے لگ گئے یا پانی لگانے لگ گئے۔ اور باقی دوسرے اس کے ساتھ بیٹھ کے اس سے باتیں کرنے لگ جاتے ۔ تو اسی طرح ایک جگہ ہم بیٹھے تھے اور باتیں کر رہے تھے تو زمیندار کوبتایا کہ کہاں سے آئے ہیں اور کون کیا ہے۔ وہ باتیں سنتا رہا۔ پھرکہتا ہے کہ شیخ محمد احمد مظہر صاحب وکیل ہیں۔ مَیں نے کہا کہ ہاں! ہمارے علاقے کے امیر ہیں۔ تو کہنے لگا کہ آدمی تو بڑا نیک ہے اور ان جیسا وکیل بھی کوئی نہیں، پر ایک نقص ہے کہ وہ احمدی مرزائی ہے۔ تو یہی حال آپ کا ہے۔ تو آپ نے بھی یہی کہا کہ چودھری بشیر احمد صاحب نیک تو ہیں پر مرزائی ہیں۔ چلیں آپ کی اصلاح ہو گئی، اس بندے کی پتا نہیں بعد میں اصلاح ہوئی کہ نہیں۔
[یاد رہے کہ کَسِّی یا کَئی ایک اوزار ہے اوریہ لوہے سے بنی ہوئی ہوتی ہے، جس کے ایک طرف لکڑی کا دستہ اور دوسری طرف لوہے کا تیز اور پتلا چپٹہ حصّہ نصب ہوتا ہے، جو زمین کھودنے کے کام آتا ہے۔]سیکرٹری امورِ عامہ سے بات کرتے ہوئے حضور انور نے اس عہدے کی وسیع تر ذمہ داریوں پر روشنی ڈالتے ہوئے یاددہانی کرائی کہ امور ِعامہ کا بہت سارا کام ہے۔ نئے آنے والے لوگوں کی ہمدردیاں لینے کے لیے، ان کی جاب(نوکری) کے لیےکوشش کرنا، ان کی رہائش کے لیے کوشش کرنا، ان کی سہولتوں کے لیے کوشش کرنا ، ان کو ٹکانے کے لیے کہ کس طرح ان کو سسٹم میں absorb (جذب) اورایڈجسٹ کرنا ہے ۔
حضور انور نے توجہ دلائی کہ یہ چیزیں آپ کریں گے تو آپ سے لوگوں کا ایک تعلق پیدا ہو جائے گا۔ امورِ عامہ کا جو خوف اور ہوّا بیٹھا ہوا ہے، وہ لوگوں کےدل سے دُور ہو گا اور اس کی جگہ یہ ہو گا کہ یہ پہلے تو ایک ایسا ادارہ ہے جو سوشل سروس(سماجی خدمت) کا ادارہ ہے اور اس کے لیے، ہماری اصلاح کے لیے بعض دفعہ ان کے سپرد دوسرا کام بھی کیا ہو اہے، تو یہ زائد کام ہے ، جو وہ کرتے ہیں۔ تو وہ خوف دُور کریں۔
حضور انور نے تاکید فرمائی کہ یہی کہا کریں کہ دیکھو! میرا کوئی قصور نہیں، مَیں تو امورِ عامہ کا سیکرٹری ہوں، مجھے تو حکم آ گیا ہے کہ تنفیذ (عمل درآمد)کراؤ تو مَیں نے یہ فیصلہ اس لیے بھیج دیا ہے۔ باقی تم مان لو گے تو نظامِ جماعت کی اطاعت میں ہی فائدہ ہے اور اگر تمہیں کسی وجہ سے نقصان بھی ہو رہا ہے تو کمی جو ہے وہ اللہ تعالیٰ پوری کر دے گا۔ یہ بٹھا کے realizeکروائیں اور اگر پیار سے سمجھائیں تو پھر لوگ مان بھی جائیں گے۔ بہت سارے ہو سکتا ہے کہ فیصلے مان جائیں اور بہت سارے لوگ فیصلوں کے خلاف بھی ہوں گے تو کم ازکم آپ کے خلاف نہیں ہوں گے ۔ امورِ عامہ کے شعبہ کو بُرا نہیں کہیں گے۔ امورِ عامہ کے شعبہ کے لیے بڑا حوصلہ اور صبر ضروری ہے۔
بعدازاں حضور انور نے مجلس عاملہ کے ایک ممبر کی عمر کی بابت دریافت فرمایا کہ آپ کی عمر پچاسی سال ہو گئی ہے؟ جس پر انہوں نے عرض کیا کہ ان کی عمر بیاسی سال ہو گئی ہے۔
یہ سماعت فرما کر حضور انور نے تمام حاضرینِ مجلس سے استفسار کیا کہ آپ میں پچاسی سال کا کون ہے؟ اس پرامیر صاحب کی جانب سے ہاتھ کھڑا کرنے پر حضور انور نے استفہامیہ انداز میں حیرت کا اظہار فرمایا کہ آپ پچاسی سال کے ہو گئے ہیں، آپ تو بیاسی سال کے ہونےچاہئیں، اس حساب سے کہ جس سنہ میں آپ نے میٹرک پاس کیا ہے۔ آپ کی ۱۹۴۲ء کی پیدائش ہے؟
اس پر امیر صاحب نے تصدیق کی تو حضور انور نے یاد دلایا کہ مضمون میں ۱۹۴۲ء کی پیدائش لکھی ہوئی تھی، اس کے حساب سے توآپ کی عمر تراسی سال ہونی چاہیے، پچاسی تو نہیں بنتی؟
جس پر امیر صاحب نے وضاحت پیش کی کہ میری سرکاری عمر پچاسی سال ہو گئی ہے۔ تو حضور انور نے مسکراتے ہوئے تبصرہ فرمایا کہ آپ نے اپنی عمر جو رسالے میں ریکارڈ کروائی ہے، وہ تو ۱۹۴۲ء کی پیدائش ہے اور تراسی سال بنتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے آپ کے figures (کوائف) یاد ہیں۔
اس پر تمام شاملینِ مجلس بھی مسکرا دیے اور خوب محظوظ ہوئے۔
سیکرٹری وصایا سے مخاطب ہوتے ہوئے حضور انور نے سچ بولنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے موصیان کے حوالے سے ہدایت فرمائی کہ ان کو یہ تلقین کریں کہ وصیّت کی ہے تو تقویٰ پر بنیاد ہونی چاہیے۔ وصیّت تو ہے ہی extra(اضافی)قربانی۔ اس کا تقاضا یہی ہے کہ اپنی جو صحیح آمد ہے اس کے اوپر حصّہ ٔآمد ادا کرو۔ مشنری انچارج ، مربیان ، سیکرٹری تربیت اور سیکرٹری وصایا بھی یہ روح پیدا کرنے کی کوشش کریں کہ جو موصی ہے اس کو کہیں کہ اگر وصیّت کی ہے تو ایمانداری کا تقاضا یہ ہے کہ اپنی اصل آمد پر چندہ ادا کرو نہیں تو نہ کرو۔ ٹھیک ہے کہ تحریک کی ہے تووصیّت ہونی چاہیے۔ لیکن وصیّت کرنے سےیہ بات زیادہ ضروری ہے کہ انسان سچ بولے اور اپنے جو بھی حالات ہیں، سچ کے طور پر انہیں بیان کرے، سچی گواہی دے۔ تو سچائی بہرحال priority (ترجیح)ہونی چاہیے۔
سیکرٹری تعلیم القرآن و وَقفِ عارضی کو حضور انور نے ہدایت فرمائی کہ وہاں مستقل ہفتے کا وقف کروائیں ۔ جماعتوں میں بھی جائیں، قرآن ِکریم پڑھائیں، خود بھی قرآنِ کریم پڑھیں، سیکھیں۔ اور خود نمازوں، تربیت اور دعاؤں کی طرف توجہ پیدا ہو تو اس سے آپ کے بہت سے مسائل بھی حل ہو جائیں گے۔ وقفِ عارضی کی سکیم تو اس لیے شروع کی گئی تھی۔ اتنی بڑی جماعت ہے تو اس لیےآپ کو عورتوں اور مَردوں کو ملا کے پانچ ہزار کا ٹارگٹ رکھنا چاہیے۔
ملاقات کے دوران حاضرینِ مجلس کو حضور انور کی خدمتِ اقدس میں سوالات پیش کرنے اور ان کی روشنی میں بیش قیمت راہنمائی حاصل کرنے کا بھی موقع ملا۔
ایک عاملہ ممبر نے اس بات کی نشاندہی کی کہ سوشل میڈیا پر کچھ احمدی مسلمان بدزبانی کا جواب بدزبانی سے ہی دیتے ہیں۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ ہمارا یہ کام نہیں ہے۔ ہمارا کام تو یہ ہے
گالیاں سن کر دعا دو پا کے دکھ آرام دو
اسی طرح توجہ دلائی کہ یہ تو تبلیغ نہیں ہے، اگر اسی طرح ہم نے گالیوں کا گالیوں سے جواب دینا ہے، تو ہمارے اور ان میں فرق کیاہے ؟ عمومی طور پر خطبات میں اور خدام الاحمدیہ، انصار اللہ اور لجنہ کے ذریعہ سے ان کی مجالس میں یہ اعلان اور ان کو تلقین کرتے رہا کریں کہ اگر ہم میں سےسوشل میڈیا پر کسی نے جواب دینا بھی ہے تو صبر اور حوصلے سے دینا ہے۔ وہی زبان اگر ہم نے بھی استعمال کرنی ہے تو پھر فائدہ کیا ہے؟ اللہ تعالیٰ نے تو فرعون کے لیے بھی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کہا تھا کہ قولِ لَیِّن استعمال کرو۔
[قارئین کی معلومات کے لیے عرض کیا جاتا ہے کہ قولِ لَیِّنسے مراد نرم، لطیف اور شائستہ بات ہے۔قرآنِ کریم کی سورۂ طہٰ کی بالترتیب آیات ۴۳اور۴۴ میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کو کی جانے والی نصیحت کی بابت ارشاد ربّانی ہے کہ تُو اور تیرا بھائی میرے نشانات کے ساتھ جاؤ اور میرے ذکر میں سستی نہ دکھانا۔ تم دونوں فرعون کی طرف جاؤ۔ یقیناً اس نے سرکشی کی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ آیت ۴۵ میں یہ نصیحت بھی فرمائی گئی ، جس کا حضور انور نے تذکرہ فرمایا ہے کہ فَقُوۡلَا لَہٗ قَوۡلًا لَّیِّنًا لَّعَلَّہٗ یَتَذَکَّرُ اَوۡ یَخۡشٰی۔یعنی پس اس سے نرم بات کہو۔ ہو سکتا ہے وہ نصیحت پکڑے یا ڈر جائے۔]ایک شریکِ مجلس نے عرض کیا کہ سیکرٹری تعلیم کی ایک اہم ذمہ داری یہ ہوتی ہے کہ وہ ہائر ایجوکیشن کے لیے لوگوں کو ترغیب دیتا ہے، تو آجکل آرٹیفیشل انٹیلی جنس(AI) نے کافی شعبوں میں انقلاب برپا کردیا ہے، کمپنیاں کارکنان کو بھی اے آئی سے تبدیل کر رہی ہیں۔ نیز اس حوالے سے راہنمائی کی درخواست کی۔
حضور انور نے اس پر فرمایا کہ تو آپ بھی اے آئی سیکھ لیں۔ آپ بھی اے آئی کے اتنے ایکسپرٹ(ماہر) ہو جائیں کہ آپ ان کو نئی سے نئی چیز بنا کے دیں تو وہ لوگ آپ کو ایمپلائی کریں گے۔
حضور انور نے وضاحت فرمائی کہ اے آئی نے وہی کچھ کرنا ہے ، جو اس میں آپ فیڈ کر رہے ہیں، اس نے کوئی اپنا دماغ تو نہیں لے کے آنا۔ آخر انسانی ذہن کی ضرورت ہے اور ایسا فرٹائل (زرخیز) ذہن جو زیادہ نئی سےنئی چیزیں اس کو فیڈ کر سکے، تو کمپنیاں بھی اس کو لینے کی کوشش کریں گی۔ وہ لوگ احمدی ہونے چاہئیں۔ تو اس کے لیےآپ کوشش کریں۔باقی اب چائنا نے امریکہ کی مارکیٹ تو ساری نیچے گرا دی، شیئر مارکیٹ ان کی بلینز ٹریلینز نیچے چلی گئی، وہ کہتے ہیں کہ بیس بلین ڈالر میں امریکہ نے پروگرام بنانا تھا جبکہ چائنا نے پانچ ملین ڈالر میں بنا دیا۔ وہاں ان کا دماغ ہے ۔ اسی طرح کے دماغ بناؤ تو کام آ جائیں گے۔
آخر میں حضور انور نے اس بات کی اہمیت کو بھی اُجاگر کیا کہ بہرحال ہم نے دنیا کا مقابلہ کرنا ہے، تو جس فیلڈ (میدان) میں بھی وہ اُوپر جا رہے ہیں، ہم نے بھی وہاں جانے کی کوشش کرنی ہے تا کہ ایک حد ّپر جا کے ان کو بتائیں کہ اے آئی کی کیا limitations (حدود و قیود)ہونی چاہئیں۔
ایک عاملہ ممبر نے اس حوالہ سے استفسار کیا کہ حضور انور نے ایک ملاقات کے دوران فرمایا تھا کہ دنیاداروں کی نگاہ بہت دُور تک ہوتی ہے اور وہ اکثر تیس سال آگے کی پلاننگ (منصوبہ بندی)کرتے ہیں اور ہمیں بھی اس طرح کی پلاننگ کرنی چاہیے۔
اس پر حضور انور نےواضح فرمایا کہ پلاننگ کرنی چاہیے لیکن دنیا دار بن کے نہیں۔
سائل نے اس سلسلے میں مزید راہنمائی کی درخواست کرتے ہوئے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ اس طرح کی پلاننگ کرتے ہوئے ہم کن باتوں کو مدِّنظر رکھیں اور پلاننگ کیسے کریں؟
اس پر حضور انور نے روشنی ڈالی کہ جماعت احمدیہ کا ٹارگٹ کیا ہے؟ یہی ہے کہ اللہ اور رسولؐ کا پیغام دنیا میں پہنچے۔ اس کی ایک شارٹ ٹرم (قلیل مدتی) پلاننگ ہے اور ایک لانگ ٹرم(طویل مدتی) پلاننگ ہے۔
حضور انور نے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے مقصدِ بعثت کے حوالے سے یاد دلایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے کیا کہا ہے کہ مَیں کس مقصد کے لیے آیا ہوں۔ اسلام کی تعلیم کے مطابق بندے کو خدا کے قریب کرنا اور حقوق کی ادائیگی کروانا ، ایک دوسرے کے حق ادا کرنا اور ان حقوق کی قرآنِ شریف نے تفصیل بیان کر دی ۔ یتیموں کے حقوق ہیں ، بیواؤں کے حقوق ہیں ، غریبوں کے حقوق ہیں، بیوی کے حقوق ہیں، خاوند کے حقوق ہیں۔بہت سارے حقوق ہیں، جو مَیں نے کئی جلسوں میں مستقل حقوق کی ایک لسٹ بنائی ہے، اس کے علاوہ بھی اَور ابھی بہت سارے حقوق ہیں، یہ نہیں ہےکہ مَیں نے سارے coverکر لیے ہیں۔ تو ان سارے حقوق کو ہم نے کس پریفرنس آرڈر (ترجیحی ترتیب) میں لے کر حاصل کرنے کی کوشش کرنی ہے اور کیا ہمارا مقصد ہونا چاہیے، کس طرح ہم دنیا کو اس طرح اپنے قریب لا سکتے ہیں۔ تو یہ پلاننگ تو آپ لوگوں نے بیٹھ کے کرنی ہے ۔
آخر پر حضور انور نے توجہ دلائی کہ اَور ہر ملک کے لیےاس کی پریفرنسز(ترجیحات) مختلف ہو سکتی ہیں، ہوں گی، آپ بھی دیکھیں اور اس کے مطابق پلاننگ کریں۔
[موخر الذکر کے تناظر میں حضور انور کی جس ملاقات کے دوران کیے جانے والے ایک سوال کا حوالہ دیا گیا، یہ ملاقات مؤرخہ ۳۰؍ دسمبر ۲۰۲۴ء کو مجلس خدام الاحمدیہ امریکہ کے ورجینیا ریجن کے ایک وفد کے ہمراہ منعقد ہو ئی تھی، اب ذیل میں وہ مکمل سوال اور اس کا حضور انور کی طرف سے ارشاد فرمودہ جواب بھی پیشِ خدمت ہے تاکہ قارئین اس سے استفادہ کر سکیں۔ایک شریکِ مجلس نے دنیا کے موجودہ حالات کے تناظر میں حضورانور سے استفسار کیا کہ کیا حضور کو یہ لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں مسلمان جو کہ مغربی دنیا میں رہتے ہیں، ان کی زندگی مشکل ہو جائے گی اور مغربی دنیا میں ہم سے ہماری آزادیاں چھین لی جائیں گی؟
حضورانور نے یاد دلایا کہ اس بارے میں تو مَیں کئی دفعہ بتا چکا ہوں، پہلے بھی کئی دفعہ لوگ میرے سے پوچھ چکے ہیں، کہ اگر اسلام نے ترقی کرنی ہے تو یہ ترقی جماعت احمدیہ کے ذریعہ سے ہونی ہے، اس لیے جماعت احمدیہ کو زیادہ خطرہ ہے اور ایسے حالات ایک وقت میں آ کے پیدا ہوں گے کہ جب اسلام کے خلاف اور ultimatelyجماعت احمدیہ کے خلاف بعض لوگ کھڑے ہوں گے اور اس میں ہو سکتا ہے کہ مخالفتیں زیادہ پنپیں ، اگر اس سے پہلے کہ تم لوگوں نے کوئی انقلاب پیدا نہ کر دیا۔
اس لیے یہ تو ظاہر ہے کہ جب ترقی ہوتی ہے تو مخالفت بھی زیادہ بڑھتی ہے۔ یہاں ویسٹ میں بھی بڑھ جائے گی بلکہ ابھی کچھ نہ کچھ تو باتیں ان کو پتا ہوتی ہیں، کر رہے ہوتے ہیں، ان کے دماغوں میں یہ بھی ہے کہ کسی وقت ہم خلافت کو بھی نقصان پہنچائیں، اور اس کے لیے یہ ہو سکتا ہے کہ پھر ان کے مختلف طریقے ہیں لوگوں کو نقصان پہنچانا، مخالفت کرنا اور ان کی لابنگ ہوتی ہے، تمہیں پتا ہے، امریکہ میں تو بہت زیادہ لابنگ ہوتی ہے۔ اس کے بعد پھر کیا کچھ کریں گے وہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے، لیکن اس سے پہلے اگر ہماری کوششیں صحیح ہوں گی، اللہ تعالیٰ کا فضل ہو گا، دعا ہو گی، تو اللہ تعالیٰ اس سے ہمیں بچا بھی سکتا ہے۔ اس لیے ہمیں کوشش کرنی چاہیے۔
حضورانور نے توجہ دلائی کہ تبھی تو مَیں کہتا ہوں کہ ابھی سے ہمیں اپنے پیغام کو ہر جگہ پہنچانا چا ہیے، بجائے اس کے کہ جب پینتالیس ہزار فلسطینی مر گیا تو بعض لوگ ویسٹ بلکہ یہودیوں میں بھی، عیسائیوں میں بھی، atheist بھی آواز اُٹھانا شروع ہوگئے کہ یہ ظلم ہو رہا ہے، genocideہو رہا ہے اور اسرائیل کے خلاف بولنے لگ گئے۔مگر پہلے کوئی نہیں بولتا تھا کہ جب تک اس میں تیس، چالیس ہزار بندہ نہیں مر گیا، ستّر فیصد بچے نہیں مرگئے۔ تو اسی طرح بجائے اس کے کہ اسلام پر اتنا ظلم ہو کہ تم لوگ مرنے شروع ہو جاؤ اور پھر ایک reaction ہو، اس سے پہلے پہلے ہمیں تعارف کروانا چاہیے کہ ہم کیا چیز ہیں۔
حضورانور نے زور دیا کہ اس لیے مَیں کہتا ہوں کہ اپنے ملکوں میں تبلیغ کرو یا کم از کم احمدیت کو introduceکراؤ اور آج سے پندرہ بیس سال پہلےمَیں نے کہا تھا کہ دس فیصد آبادی کو بتاؤ اور اگر دس فیصد آبادی کو اس وقت سے بتانا شروع کر رہے ہوتے اس وقت تک کہیں کا کہیں ہمارا introduction ہو جاتا۔ ابھی تو تمہارے ورجینیا میں جہاں تم لوگ رہتے ہو، میرا نہیں خیال کہ تمہارے دو فیصد لوگ جو وہاں کی آبادی ہے، وہ جانتی ہو کہ احمدی کون ہیں۔ تم نے مسجد مبارک بھی بنا لی، مسجد مسرور بھی وہاں بنا لی اور بڑے بڑے کام کر دیے، فنکشنز پرلوگوں کو، neighboursکو بلاتے بھی ہو، لیکن کتنے لوگ ایسے ہیں جو تمہیں جانتے ہیں؟
مخالفت بڑھنے سے پہلے بروئے کار لائے جانے والے اقدامات کے حوالے سے حضورانور نے راہنمائی فرمائی کہ اس لیے یہ تو ہو گا، لیکن اس مخالفت سے پہلے ہم اپنی طرف سے کیا اقدامات لے سکتے ہیں، وہ یہ ہیں کہ ہم اپنے آپ کو متعارف کروائیں اور اس سے پہلے یہ بتائیں کہ ہم امن پسند لوگ ہیں اور ہمارا کوئی اور ایجنڈا نہیں، کوئی اور مقصد نہیں لیکن صرف یہ کہ اللہ تعالیٰ کو پہچانو۔ نہ ہم نے حکومت لینی ہے، یہی ان politiciansیا دنیا داروں کو خطرہ ہو تا ہے کہ حکومت میں نہ آ جائیں، ہمارے حق نہ غصب ہو جائیں، تو ان کو کہو کہ ہماری اس سے کوئی غرض نہیں، ہم تو صرف مذہب کو مانتے ہیں، مذہب کی تبلیغ کرتے ہیں اور باقی حکومتیں تمہارے سپرد۔ تو یہ ان کو realiseہو جائے تو شاید مخالفت کچھ حدّ تک کم ہو جائے۔
لیکن بہرحال ایک وقت میں آ کے مخالفت تو ہو گی، جب جماعت کی ترقی بھی ہو گی۔ اس کے ساتھ بہرحال جماعت کی ترقی کو بھی بریکٹ کرنا ہو گا اور تبلیغ کرو گے تو پھر تمہاری مخالفت اَور زیادہ بڑھے گی کہ جب لوگ دیکھیں گے کہ ان کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ابھی تو صرف پاکستانی ہیں۔ کہتے ہیں کہ پاکستانی لوگ ہیں، چند ایک افریقن امریکن نے احمدیت قبول کر لی ہے یا ایک دو وائٹ امریکنز نے کر لی یا ایشینز چند ایک آئے ہوئے ہیں، تو اس لیے کوئی فرق نہیں پڑتا، چھوٹی سی کمیونٹی ہے، اس نے ہمیں کیا کہنا ہے؟
حضورانور نے توجہ دلائی کہ لیکن جس طرح مَیں نے بتایا کہ ان کے دماغوں میں ابھی سے یہ ہے کہ کیونکہ یہ خلافت پر چلتے ہیں تو اس لیے ان کے پاس ایک مرکز ہے کہ جس کے کہنے پر یہ چلتے ہیں، اس لیےمرکز کو بھی پکڑنا چاہیے۔ ان لوگوں کویہ خیال پیدا ہو سکتا ہے، جو دنیا دار ہیں، ان کی نظریں بڑی دُور دُور ہوتی ہیں۔ یہ لوگ آج سے تیس سال بعد کی پلاننگ کر رہے ہوتے ہیں تو ہمیں بھی اسی طرح پلاننگ کرنی چاہیے۔ (بحوالہ روزنامہ الفضل انٹرنیشنل۔ مورخہ ۹؍ جنوری ۲۰۲۵ء)]
ایک سوال حضور انور کی خدمتِ اقدس میں یہ پیش کیا گیا کہ تحریکِ جدید کے قواعد کی روشنی میں سیکرٹری مال کا کام ہے کہ وہ کمانے والے افراد کا ان کی اصل آمد کی تشخیص کر کے بجٹ بنائے، اس سلسلہ میں اگر لوکل جماعت کا سیکرٹری مال اور صدر کمانے والے افراد کے رہن سہن اور متوقع آمد کی تشخیص کر کے بجٹ بناتے ہیں، لیکن وہ شخص سمجھانے کے باوجود بھی کم آمد بتاتا ہے، تو اس صورتحال میں کیا کرنا چاہیے؟
اس کا جواب دیتے ہوئے حضور انور نے سمجھایا کہ بات یہ ہے کہ اگر لوکل سیکرٹری مال اور صدر جماعت active(فعّال) ہے تو ان کو کہے کہ تمہارا رہن سہن تو یہ بتاتا ہے کہ تمہاری آمد اتنی ہے۔ ہاں! اگر تم اپنے حالات کے مطابق سمجھتے ہو کہ تم اس پر چندہ نہیں دے سکتے تو تم یہ کہو کہ میری آمد زیادہ ہے، لیکن چندہ مَیں اتنے پر دُوں گا تا کہ کم از کم تم سچائی پر قائم رہو۔ کوشش ہے، وہ آپ نے کرنی ہے، اس سے بعض لوگوں کو شرم آ جاتی ہے۔
حضور انور نے بیان فرمایا کہ بعض لوگ مجھے لکھتے ہیں، بہت سارے خط آتے ہیں کہ ہمارے چندے کی شرح کم کردیں، لیکن پھر تین مہینے بعد خط آ جاتا ہے کہ نہیں نہیں ہمارے سے غلطی ہو گئی ، ہم باشرح چندہ دیں گے۔ ایسے مخلص لوگ یہاں بھی آتے ہیں۔ کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو کہتے ہیں کہ شرح کم ہو گئی تواگلے سال وہ کہتے ہیں شرح اور کم کر دو۔
حضور انور نے واضح فرمایا کہ تو ہمارا کام ٹیکس وصولی تو نہیں کرنا ، ہم ٹیکس collector(جمع کرنے والے)نہیں ہیں ، نیمبو نچوڑ نہیں ہیں۔ بایں ہمہ توجہ دلائی کہ ہم نے مالی قربانی کی ایک روح پیدا کرنی ہے ۔ وہ پیدا کریں۔ آپ کے مربیان ، سیکرٹری تربیت ، سیکرٹری مال اور عاملہ کے ممبران اگر اپنے نمونے قائم کریں گے تو پھر لوگ بھی اسی طرح response(توجہ) کریں گے ۔
سیکرٹری مال نے حضور انور سے بالخصوص ان جماعتوں کے بارے میں راہنمائی طلب کی جنہوں نے اپنے بجٹ میں پچھلے سال سے کمی کی تھی۔
اس پر حضور انور نے فرمایا کہ یہ تو کوئی دلیل نہیں ہے کہ کیونکہ پچھلے سال مَیں نے اس آمد پر چندے زیادہ دیے تھے ، تو اس سال بھی ضرور میری آمد اتنی ہی ہو گی۔ بہت سارے کاروباری لوگ ہیں کہ جن کے بزنس (کاروبار)نیچے چلے گئے، انہوں نےپچھلے زیادہ چندےدےدیے تھے مگر اس سال نہیں دے سکے تو ان کی جائز وجہ ہے، اس کو آپ کو accept (قبول)کرنا چاہیے۔اور اگر یہ عادت بن گئی ہے تو پھر ان کو بیٹھ کے سمجھائیں، ان سے میٹنگ کریں، تب آپ کو ان کے حالات کا پتا لگے گا اور ہمدردی کا تقاضا بھی ہو گا ، پھر ان سے ہمدردی بھی کریں اور ٹھیک ہے کہ پھرشرح سے کم کر دیں۔
بایں ہمہ حضور انور نے اس حوالے سے بھی توجہ دلائی کہ ہماراڈیٹا حقائق پر مبنی ہونا چاہیے اور اسی پر ہمیں اپنی بنیاد رکھنی چاہیے، تو دیکھیں کہ وہاں کے حالات کیسے ہیں۔ دنیا کیeconomy (معیشت)کے حالات نیچے جا رہے ہیں، لوگوں کی ملازمتیں ختم ہو رہی ہیں اور دوسرے یہ بھی ہے کہ اب مہنگائی کی وجہ سےلوگوں کے اخراجات بڑھ رہے ہیں۔ چندہ شرح سے نہیں دے سکتے تو یہ ساری چیزیں ایک ہمدردی کے نقطۂ نظر سے اگر ہم میٹنگ کر کے کریں گے اور اپنی ٹیم بنائیں گے، انسپکٹران کو بھیجیں گے اور نائب امراء کو بھیجیں گے، مربیان کو بھیجیں گے تو اس سے آپ کوکچھ فرق پڑ جائے گا ۔ اور اگر ایسا نہیں ہوتا تو پھر اللہ پر توکّل کریں، اللہ تعالیٰ سے کہیں کہ ہم نے جو کوشش کرنی تھی کر لی ، اب اس میں برکت ڈالنا تیرا کام ہے۔
حضور انور نے محنت اور تقویٰ کے ساتھ اللہ تعالیٰ پر بھروسہ رکھنے کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے اپنی مثال دی اور بیان فرمایا کہ ہم لنگر خانے میں کام کرتے تھے، ہمیں ایک لاکھ آدمیوں کی روٹی پکانے کا آرڈر آتا تھا، لیکن ہمارے سے پکتی مشکل سے اسّی ہزار تھی اور جب تقسیم ہوتی تھی تو وہ سوا لاکھ کے قریب ہو جاتی تھی اور ہوتی بھی پوری تھی۔ تو اللہ تعالیٰ اس میں برکت ڈال دیتا تھا ۔ اسی طرح اب بھی آپ کے روپے اور آپ کی رقم میں برکت ڈال دے گا ۔ اصل چیز تو برکت ہے ،جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو ، ساری چیزوں کی تقویٰ پر مبنی بنیاد ہو گی تو اللہ تعالیٰ برکت ڈالتا ہے۔ کچھ کام اللہ تعالیٰ پر بھی چھوڑ دیں لیکن اپنی محنت پوری کریں۔
اس مجلس میں پیش کیا جانے والا ایک سوال یہ تھا کہ رشتہ ناطہ میں جیسا کہ عرض کیا گیا ہے کہ ہمارے ہاں اور مرکز کی ویب سائٹ پر بھی تجاویز تو بہت بنتی ہیں، لیکن کامیابی کا تناسب بہت ہی بلکہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس بارے میں حضور انور کوئی راہنمائی فرما دیں۔
حضور ِ انور نے اس حوالے سے راہنمائی فرمائی کہ آپ کا کام کوشش کرنا اور کوشش کرتے رہنا ہے۔
حضور انور نے رشتوں سے متعلق درپیش مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے فرمایا کہ کبھی آپ رشتہ تجویز کرتے ہیں تو لڑکی والے کہتے ہیں کہ اس لڑکے میں یہ یہ نقص ہیں۔ لڑکے والے کہتے ہیں کہ لڑکی میں یہ یہ نقص ہے۔ عموماً یہ ہوتا ہے کہ جو پڑھے لکھے اورکمانے والے لڑکے ہوتے ہیں ، ان کےوالدین کہتے ہیں کہ ان کا رشتہ تو ہم آپ ہی کر دیں گے کیونکہ یہ تو ہمارے کام کے بچے ہیں اور ان سے ہم نے پیسے بھی لینے ہیں، ایسی بیوی لائیں گے جو لڑکے کے پیسے دینے پر اعتراض نہ کرے ۔ اور لڑکیاں جن کی بڑی ہو رہی ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ ان کے رشتے آپ کروا دیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ لڑکیاں خود بھی کہتی ہیں کہ ہم تعلیم حاصل کر رہی ہیں اور اس کے بہانے چھبیس، ستائیس، اٹھائیس سال کی عمر تک چلی جاتی ہیں اور پھر ان کے رشتے ملنے مشکل ہو جاتے ہیں۔
اختتاماً حضور انور نےاس بات کی اہمیت پر زور دیا کہ تو یہ چیزیں آپ تربیت اور مربیان کے ذریعہ سے سمجھائیں کہ شادی کی جو عمریں ہیں، اس میں دیکھنا چاہیے کہ اچھے رشتے آئیں تودعا کر کے فیصلہ کرنا چاہیے۔ نیز توجہ دلائی کہ تلقین ہی ہے، جو آپ بار بار کر سکتے ہیں ، ایک کوشش ہے۔ نصیحت کرنا ہمارا کام ہے ، باقی نتائج کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کریں کہ وہ بہتر نتائج پیدا کرے۔
آخر پرحضور انور نے الوداعی دعائیہ کلمات ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ چلو، پھر اللہ حافظ! ۔
٭…٭…٭