امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مختلف ممالک سے تعلق رکھنے والے احمدی ڈاکٹرز کے ایک وفد کی ملاقات
اگر strong nerves (مضبوط اعصاب) ہوں تو ذرا ذرا سی بات پر آدمی stress تو نہیں لیتا، اور جب stress ہوتا ہے تو اس کا پھر آگے دوسرا اَثر یہ ہوتا ہے کہ انسان depression میں چلا جاتا ہے۔ تو یہvicious circle ایک (شیطانی چکر) ہے، جو چلتا ہے اور یہ دنیا داروں میں بہت زیادہ چلتا ہے۔ اس لیے تو اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو سٹریس کم کرنے اور دل کے اطمینان کے لیے کہتا ہے کہ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ یعنی دل کے اطمینان کے لیےاللہ کا ذکر کرو، اللہ کو یاد رکھو، ان چیزوں سے بچنے کی کوشش کرو تو ٹھیک ہے
مورخہ یکم؍فروری ۲۰۲۵ء کو امام جماعت احمدیہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے ساتھ مختلف ممالک بشمول برطانیہ، امریکہ، آسٹریلیا، کینیڈا اَور جرمنی سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹرز اور طبّی ماہرین کے تئیس (۲۳) رکنی وفد کوشرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ یہ ملاقات اسلام آباد (ٹِلفورڈ) میں ہوئی۔

جب حضور انور مجلس میں رونق افروز ہوئے تو آپ نےتمام شاملینِ مجلس کو السلام علیکم کا تحفہ عنایت فرمایا۔
ملاقات کے آغاز میں شاملینِ مجلس کو حضور انور کی خدمتِ اقدس میں اپنا تعارف پیش کرنے کی سعادت حاصل ہوئی۔
اس علمی اور روحانی نشست میں طبّی ماہرین کوجدید میڈیکل سائنس اور تحقیق کے مختلف پہلوؤں پر اظہارِ خیال کا موقع ملا، جبکہ حضور انور نے خدمتِ انسانیت کے اسلامی تصور اور طبّی میدان میں دیانت و خدمت کے اعلیٰ اصولوں پر روشنی ڈالی، جس سے شرکائے مجلس نے نہ صرف اپنے پیشے کی بابت بصیرت افروز راہنمائی حاصل کی بلکہ دین اور دنیا کو متوازن رکھنے کا عملی درس بھی پایا۔
بعد ازاں شاملین کواپنے طبّی شعبہ کے حوالے سے متفرق سوالات پوچھنے کا موقع بھی میسر آیا، حضور انور نے انتہائی شفقت اور حکمت کے ساتھ ان سوالات کے جواب عطا فرمائے جو کہ صحت و طبّ کے میدان میں کام کرنے والے افراد کے لیے جہاں نہ صرف بیش قیمت راہنمائی اور مشعلِ راہ ہیں بلکہ ان شاء الله وہیں ان کے لیے اپنے پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی میں برکت اور سمت متعین کرنے کا مؤثر ذریعہ بھی ثابت ہوں گے۔
ایک شریکِ مجلس نےحضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ آئی سی یو (انتہائی نگہداشت کے یونٹ) کے حوالے سے ایک سوال ہے کہ ہمیں اکثر ایسے حالات کا سامنا ہوتا ہے، جہاں مریض زندگی کے آخری مراحل میں ہوتا ہے، آج کل میڈیکل ٹیکنالوجی بہت ترقی کر چکی ہے اور جدید مشینوں کی مدد سے مریض کو طویل عرصے تک زندہ رکھا جا سکتا ہے۔ ایسے مواقع پر ہمیں مریض کے اہلِ خانہ سےحساس نوعیت کی گفتگو کرنی پڑی ہے تاکہ زندگی کے اختتامی مراحل سے متعلق اہم فیصلے کیے جا سکیں۔ اس حوالے سے راہنمائی درکار ہے کہ ان نازک معاملات پر اہلِ خانہ سے بات چیت کو کس طرح مؤثر اور ہمدردانہ انداز میں نمٹایاجائے؟
سوال کے نفسِ مضمون کی روشنی میں طبّی طور پر جب مریض زندگی کے آخری مراحل میں پہنچ جائے تو ایسی صورتحال کے تناظر میں حضور انور نے فرمایا کہ بس آپ ڈاکٹروں کی نصیحت ہوتی ہے کہ mercy killingمیں چلے جاؤ یعنی بندے کو مار دو۔ فیملی اور زیادہ خیال رکھنے والے کہتے ہیں کہ نہیں ، جب تک سانس آ رہا ہے تو زندہ رہنے دو۔
حضور انور نے اس امر پر توجہ مبذول کروائی کہ مَیں تو عام طور پر یہی لوگوں کو لکھتا ہوں کہ اگر بندے کابرین کام کر رہا ہے اور وہ کوئی پچاس سےساٹھ فیصد تک سانس لے رہا ہے، تو آپ نےاس کو جو بھی مشینیں لگائی ہیں، وینٹی لیٹر لگایا ہے یا کوئی اَورچیزیں لگا رہے ہیں تو پھر اس کو چلنے دیں۔ تاہم پھر بھی کچھ دو سے چھ دن تک دیکھیں اور جب دیکھ لیں کہ سانس بالکل ہی چلا جائے اور برین بالکل ہی ڈیڈ اور ختم ہو گیا ہے، تو پھر اُتار دیں۔
حضور انور نے اس بات پر زور دیا کہ صرف prolong life(طولِ زندگی)مقصد نہیں ہے بلکہ کوالٹی آف لائف (معیارِ زندگی)بھی تو ہونی چاہیے ۔ تو پھر رشتہ داروں سے پوچھ کے معاملہ الله تعالیٰ پر چھوڑ دیں۔ اَور کیا ہوسکتا ہے؟
آخر میں حضور انور نے اس بات کا اعادہ فرمایا کہ مَیں تو عموماً یہی کہا کرتا ہوں ۔باقی جس کا مریض ہے، اس کے اپنے جذبات ہیں، وہی صحیح بتا سکتا ہے۔آپ جو بھی پروفیشنل (پیشہ ورانہ)مشورہ دے سکتے ہیں، یا جو بھی آپ کی expertiseہیں، اس کے مطابق اپنا مشورہ دے دیا کریں۔
[قارئین کی معلومات کے لیے تحریر کیا جاتا ہے کہ مرسی کلنگ (mercy killing) کا مطلب ہے کسی شدید بیمار یا ناقابلِ علاج مریض کی غیر فطری موت واقع کرنے میں مدد فراہم کرناتاکہ وہ مزید تکلیف سے بچ سکے۔ اسے یوتھنیزیا (Euthanasia) بھی کہا جاتا ہے۔یہ عام طور پر تب کیا جاتا ہے کہ جب کوئی شخص شدید جسمانی یا ذہنی تکلیف میں ہو اور اس کے صحت یاب ہونے کا کوئی امکان باقی نہ ہو۔ بعض ممالک میں یہ قانونی ہے، جبکہ کئی جگہوں پر اسے غیر اخلاقی اور غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔یہ ایک ایسا عمل ہے کہ جس میں کسی مریض کی زندگی جان بوجھ کر ختم کر دی جاتی ہے اور جو اس کی وکالت کرتے ہیں، ان کا ماننا ہے کہ لاعلاج مریضوں کو یہ حق حاصل ہونا چاہیے کہ وہ زندگی کے آخری مراحل میں اپنی موت و حیات کی بابت فیصلے خود کر سکیں۔ تاہم اسلامی نقطۂ نظر کے مطابق زندگی اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمت اور امانت ہے اور اس کی حرمت قائم کی گئی ہے۔ لہٰذا اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مرسی کلنگ کے برخلاف صرف اللہ تعالیٰ ہی اسے واپس لینے کا مجاز ہے اور وہی بہترجانتا ہے کہ کب اور کیسے کسی زندگی کا اختتام ہونا مقدر ہے۔ بہرکیف یہ ایک حساس موضوع ہے، جس پر مختلف اخلاقی، مذہبی اور قانونی آرا پائی جاتی ہیں۔]
ایک شریکِ مجلس نے عرض کیا کہ میرا سوال منٹورشپ (راہنمائی)اور تعلیم کے متعلق ہے۔ نیزدریافت کیا کہ ہم بحیثیت سرجنز اور ڈاکٹرز ،مجموعی طور پر اور انفرادی طور پر، بذریعہ ٹریننگ اگلی نسل کے احمدی نوجوانوں اور بچوں کو مثبت رنگ میں متاثر کر کے انہیں طبی میدان میں کیریئر بنانے کی ترغیب کیسے دلا سکتے ہیں؟
حضور انور نے اس سوال کے جواب میں فرمایا کہ یہ کام تو نصرت جہاں والے بھی کرتے رہتے ہیں ۔آپ کی میڈیکل ایسوسی ایشن کا کام ہے کہ مختلف سیمینار منعقد کریں ، ڈاکٹروں کو لائیں اورسٹوڈنٹس کو بلائیں۔ اس میں ان کو encourage کریں۔
حضور انور نے توجہ دلائی کہ ویسے بھی counselling and guidance(کونسلنگ اور گائیڈنس)کے جماعتی شعبہ تعلیم یا یونیورسٹیز میں سٹوڈنٹ ایسوسی ایشن کو چاہیے کہ جو سیکنڈری سکول کے سٹوڈنٹس ہیں،ان کو شروع میں ہی ترغیب دلائیں اوراس طرف لائیں کہ یہ شعبہ زیادہ بہتر ہے تو پھر ان کا انٹرسٹ ڈیویلپ ہوسکتا ہے۔بصورتِ دیگرآپ کیا کر سکتے ہیں کہ اگر کوئی ایک دفعہ کالج میں چلا گیا، جس نے گریڈ twelve کرلیا ، اس نے ایک پروفیشن لے لیا اور لاء ، انجنیئرنگ یا کمپیوٹر سائنس میں چلا گیا ، آجکل کمپیوٹر سائنس کا بڑا رواج ہو رہا ہے، اے آئی نے دماغ خراب کیا ہواہے، تواس سے پہلے پہلے ان کی کونسلنگ ہونی چاہیے۔
آخر میں حضور انور نے اس بات پر زور دیا کہ اس کے لیے میڈیکل ایسوسی ایشن کو چاہیے کہ جماعتی ایجوکیشن سیکرٹری کے ساتھ مل کے کونسلنگ اور گائیڈنس کے لیے کوئی اپنی میٹنگز کریں، سیمینارز منعقدکریں ، ان کو پڑھائیں کہ یہ کس طرح کرناہے، پروگرام بنائیں، یہ تو آپ لوگوں نے بنانا ہے۔ مَیں تو اس بارے میں کہتا رہتا ہوں اور پھر آپ کے پاس اتنے لوگ بھی ہونے چاہئیں کہ جو مینٹرنگ کر سکتے ہیں۔
[قارئین کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ mentor-ship یعنی راہنمائی کا مطلب ہے کہ کسی تجربہ کار اور ماہر شخص کا کم تجربہ رکھنے والے یا سیکھنے والے فرد کو راہنمائی اور سیکھنے میں مدد فراہم کرنا ۔جبکہmentor وہ شخص ہوتا ہے جو اپنے تجربہ، علم اور مہارت کے ذریعے دوسرے افراد کی راہنمائی کرتا ہے، ان کی نشوونما اور ترقی میں مدد فراہم کرتا ہے۔ یہ راہنمائی صرف پیشہ ورانہ میدان تک ہی محدود نہیں ہوتی بلکہ ذاتی اور اخلاقی ترقی میں بھی اہم کردار ادا کرتی ہے۔یہ تعلق عام طور پر استاد اور شاگرد جیسا ہوتا ہے، جہاں ایک راہنما اپنی مہارت، تجربہ اور مشورے سے سیکھنے والےکی ترقی میں مدد فراہم کرتا ہے۔
منٹورشپ تعلیم، کاروبار، زندگی کے فیصلوں، یا کسی خاص ہنر میں ترقی کے لیے مفید ہوتی ہے اور سیکھنے کے عمل کو آسان بناتی ہے۔بایں ہمہ منٹورشپ کا مقصد نہ صرف علم و تجربے کا تبادلہ ہوتا ہے بلکہ ایک مثبت کردار کا مظاہرہ کرنا اور اگلی نسل کو ایک بہتر اور مفید پیشہ ور بننے کی ترغیب دلانا بھی ہوتا ہے۔]
ایک خادم نے عرض کیا کہ میری تحقیق کلینیکل نتائج (clinical outcomes) اور عملی تحقیق (translational research) سے متعلق ہے، جس میں ہم تجربات کے لیے سؤر کا استعمال کرتے ہیں۔ میری خاص دلچسپی Heart-Brain Axis (دل اور دماغ کے باہمی تعلق) میں ہے، جو انسانی خیالات اور جذبات میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے۔قرآنِ مجید میں بار بار یہ ذکر ملتا ہے کہ بعض خیالات اور احساسات دل سے آتے ہیں، اس حوالے سے حضورانور کی کیا راہنمائی ہے؟
اس پر حضور انور نے راہنمائی فرمائی کہ جو روحانیت کا تجربہ رکھنے والے ہیں، وہ تو یہی کہتے ہیں کہ دل پر پہلے بات اُترتی ہے اور اس سے پھر دماغ میں چلی جاتی ہے یا پھر دماغ سے سارے جسم میں احکامات منتقل ہوتے ہیں۔ آپ کہتے ہیں کہ پہلے چیز دماغ میں جاتی ہے، پھر دل میں آتی ہے اور دل کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔
حضور ِانور نے فرمایا کہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے اس کی ایک دلیل یہ بھی دی ہوئی ہے کہ دل خون سپلائی کررہا ہوتا ہے اور بلڈ سرکولیٹ(گردش) کرکے برین کو بھی جاتا ہے اور باقی جسم میں بھی جاتا ہے اور بلڈ کا بھی میسج پہنچانے میں ایک رول (کردار) ہے۔ تو اس لیے یہ کہا جا سکتا ہے کہ بات پہلے دل سے دماغ میں جاتی ہے اور پھر آگے جسم میں ٹرانسفر (منتقل) ہوتی ہے۔
حضور ِانور نے سائل کی توجہ اس امر کی جانب مبذول کرائی کہ آپ اس نہج سے بھی ریسرچ کر سکتے ہیں کہ بلڈ سرکولیشن کا کیا رول ہے، بلڈ دل میں سے دماغ اور باڈی (جسم) میں جا رہا ہے تو کس حدّ تک وہ کام کر سکتا ہے؟ اس میں آپ یہ ریسرچ کریں اور پھر بتائیں۔
حضور انورنے آخر میں اپنی اوّل الذکر فرمودہ وضاحت کا اعادہ فرمایا کہ باقی! کہتے ہیں کہ روحانیت کا تجربہ ایسا ہے کہ اس کو کوئی explain (واضح ) نہیں کر سکتا، لیکن ہوتا یہی ہے کہ لگتا ہے کہ دل میں بات اُتری، پھر دماغ اور جسم میں ٹرانسفر ہوئی اور پھر انسان آگے اسے بیان کرتا ہے۔ اور روحانیت میں ڈوبے ہوؤں کو پتا لگ سکتا ہے کہ یہ دو ہی چیزیں ہیں کہ ایک ریسرچ کریں اور دوسرا روحانیت میں بڑھیں۔
ایک سائل نے عرض کیا کہ گذشتہ روز کے خطبہ جمعہ میں حضور انور نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک معجزے کا ذکر کیا، جس میں آپؐ نے حضرت ابو قتادہ رضی الله عنہ کے زخم سے تیر نکالا، اس پر اپنا لُعابِ دہن لگایا اور وہ معجزانہ طور پر شفایاب ہو گئے۔ اس حوالے سے استفسار کیا گیا کہ ایسے واقعات کو غیر مذہب والوں اور دہریوں کے سامنے کس طرح بیان کیا جائے؟
حضور انور نے اس کا جواب دیتے ہوئے واضح فرمایا کہ یہ تو صرف ایک واقعہ نہیں ہے، ایسے کئی واقعات پہلے بھی بیان کیے جا چکے ہیں کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے کسی کی انگلی جوڑی اور وہ جُڑ گئی، زخموں پر ہاتھ رکھا اور وہ ٹھیک ہو گئے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کےsaliva ( لُعابِ دہن) میں برکت رکھ دی تھی، جس نےointment( مرہم )کا کام کر دیا۔
حضور ِانور نے اس حوالے سے پائے جانے والے عمومی تاثر کے بارے میں تصریح فرمائی کہ آپ کہیں گے کہ لُعابِ دہن میں تو بیکٹیریا ہوتے ہیں، اس سے تو انفیکشن ہوجانی چاہیے۔لیکن اللہ تعالیٰ کے پاس طاقت ہے، لہٰذا اس سےانفیکشن کے بجائے ہو سکتا ہے کہ کوئی ایسی چیزیں نکل گئی ہوں ، جس نے انفیکشن کو ختم کرنے کا کام کیا ہو ۔
حضور انور نے فرمایا کہ اور دعا بہت بڑا کام کرتی ہے، یہ تو miracles(معجزات) ہیں، یہ ہوتے ہیں۔ اس کو جو ایمان نہیں لاتے ان کو کس طرح ہم بتا سکتے ہیں ؟ یہ تومَیں نے ابھی بتایا کہ دل اور دماغ کاجو میسیج ہے اس کا نہیں پتا لگ سکتا، تو اسی طرح یہ بھی لوگوں کو پتا نہیں لگ سکتا۔لیکن بہرحال واقعہ ہوا اورلوگوں نے بیان کیا کہ ہوا۔ اس سے پہلے بھی کئی لوگوں نے کہا کہ میرا پاؤں ٹوٹ گیا، میری ہڈی ٹوٹ گئی اور آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اسے جوڑا اورsaliva (لُعابِ دہن )لگایا اور وہ وہاں سے ٹھیک ہو گیایا پھونک ماری یا دعا کی یا پکڑ کے رکھا تو ہڈی جُڑ گئی۔
حضور انور نے اس بات پر زور دیا کہ یہ miracles (معجزات) دنیا میں ہوتے ہیں، آج بھی ہوتے ہیں۔ لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ یہ ہو گیا، لیکن پتا نہیں کہ کس طرح ہو گیا؟ لیکن وہ دعا سے ہوا، اَور ہمیں دعاؤں کا ہی یقین ہے۔ بعض دفعہ دعاؤں کے بغیر بھی ایساہو جاتا ہے، اللہ تعالیٰ ویسے ہی کسی کو شفا دے دیتا ہے، تو یہ تو ہوتے ہیں۔ یہ تو گواہ ہی بتا سکتے ہیں ، جو انہوں نے کہہ دیا کہ مجھے ایساہوا تو ہوا۔
حضور انور نے مزید اضافہ فرمایا کہ اب بھی ایسے معجزات ہو جاتے ہیں کہ بعض دفعہ کوئی چیزیں ٹھیک ہونے والی نہیں بھی ہوتیں تو وہ ٹھیک ہو جاتی ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا تو پھر بڑا مقام ہے، یہاں تک کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے زمانے میں بھی آپؑ دعا کرتے تھے یا ہاتھ رکھتے تھےتو لوگوں کو شفا ہو جاتی تھی اور بعض اور بزرگوں کے بھی اس طرح کےواقعات ملتے ہیں کہ ہاتھ رکھا ، دعا کی اور صحت مل گئی۔ دوائی کے بغیر ہی شفا مل گئی۔
حضور انور نے آخر پر اس حقیقت پر بھی روشنی ڈالی کہ بعض دفعہ کسی بات پر کوئی یقین بھی ہوتا ہے تو وہ سائیکولوجیکلی (نفسیاتی طور پر) پھر اثر انداز ہو رہا ہوتا ہے، تو مختلف صورتیں ہوتی ہیں۔
[سائل نے سوال کے آغاز میں جس خطبہ جمعہ کے حوالہ سے حضرت ابوقتادہ رضی الله عنہ کو تیر لگنے، آنحضرتؐ کے زخم پر لُعابِ دہن لگائے جانے اور اس کے نتیجہ میں شفایابی کا ذکر کیا ہے، اس واقعہ کا تذکرہ حضور انور نے خطبہ جمعۃ المبارک ارشاد فرمودہ مورخہ ۳۱؍ جنوری ۲۰۲۵ءبمقام مسجد مبارک اسلام آباد (ٹلفورڈ) میں یوں فرمایا تھا کہ گذشتہ جمعہ غزوۂ ذی قَرَد کا ذکر ہو رہا تھا۔جیسا کہ بتایا تھا کہ آنحضرت صلی الله علیہ وسلم نے اِس غزوہ میں جانے سے پہلےچند صحابہؓ کو دشمن کی طرف روانہ فرمایا تھا اور آپؐ پھر اِن کے پیچھے اپنا لشکر لے کر روانہ ہوئے۔اِس ضمن میں مزید لکھا ہے کہ جب آنحضرتؐ اور صحابہؓ آئے تو دشمن کے لشکر نے اِنہیں دیکھا اور وہ بھاگ گئے۔ جب مسلمان دشمن کے پڑاؤ کی جگہ پر پہنچے تو حضرت ابو قتادہ رضی الله عنہ کا گھوڑا وہاں موجود تھا، جس کی کُونچیں کٹی ہو ئی تھیں۔ ایک صحابی ؓنے کہا کہ یا رسول اللهؐ! ابو قتادہؓ کے گھوڑے کی کُونچیں تو کٹی ہوئی ہیں۔ آنحضورؐ اُس کے پاس کھڑے ہوئے اور دو مرتبہ فرمایا کہ تیرا بھلا ہو! جنگ میں تیرے کتنے دشمن ہیں۔ پھر رسول اللهؐ اور صحابہ آگے چل دیے اور یہاں تک کے اُس جگہ پہنچے جہاں ابو قتادہؓ اور مَسْعَدہ نے کشتی کی تھی (گذشتہ خطبہ میں اس کے بارہ میں بیان ہوا تھا) تو اُنہوں نے سمجھا کہ ابو قتادہؓ چادر میں لپٹے پڑے ہیں۔ایک صحابی نے عرض کی کہ یا رسول اللهؐ! لگتا ہے کہ ابو قتادہؓ شہید ہو گئے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا کہ الله ابو قتادہ پر رحم کرے! اُس ذات کی قسم !جس نے مجھے عزت بخشی ہے، ابو قتادہ تو دشمن کے پیچھے ہے اور رِجز پڑھ رہا ہے۔
حضرت ابو قتادہؓ بیان کرتے ہیں کہ آنحضرتؐ کے لشکر نے جب میرے گھوڑے کو دیکھا کہ اِس کی کُونچیں کٹی ہوئی ہیں اور مقتول کو میری چادر میں لپٹے ہوئے دیکھا تو اُنہوں نے سمجھا کہ شاید مَیں شہید ہو گیا ہوں۔حضرت ابوبکرؓ اور حضرت عمرؓ جلدی سے آگے بڑھے اور چادر ہٹائی تو مَسْعَدہ کا چہرہ دیکھا۔ اِن دونوں نے کہا کہ الله اکبر! الله اور اُس کے رسولؐ نے سچ کہا۔ یا رسول اللهؐ! یہ مَسْعَدہ ہے، اِس پر صحابہؓ نے بھی تکبیر کہی اور پھر تھوڑی دیر بعد ہی حضرت ابو قتادہ ؓ اُونٹنیاں ہانکتے ہوئے آنحضرتؐ کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہو گئے۔
آپؐ نے فرمایا کہ اَے ابو قتادہ !تمہارا چہرا کامیاب ہوگیا ۔ابو قتادہ گھڑ سواروں کے سردار ہیں۔اَے ابو قتادہ! اللٍ۱ه تم میں برکت رکھ دے۔ دوسری روایت میں ہے کہ تمہاری اولاد اور اولاد کی اولاد میں برکت رکھ دے۔
پھر آپؐ نے فرمایاکہ اَے ابو قتادہ! یہ تمہارے چہرہ پر کیا ہوا ہے؟ وہ کہنے لگے کہ میرے ماں باپ آپؐ پر قربان ہوں! مجھے ایک تیر لگا تھا، اُس ذات کی قسم! جس نے آپؐ کو عزت بخشی، میرا خیال تھا کہ مَیں نے تیر نکال دیا تھا۔ آپؐ نے فرمایا کہ ابو قتادہ میرے قریب آؤ۔ مَیں قریب ہوا تو آپؐ نے نرمی سے تیر نکال دیا اور اپنا لُعابِ دہن لگایا اور اپنا ہاتھ اُس پر رکھا۔وہ کہتے ہیں کہ اُس ذات کی قسم! جس نے آپؐ کو نبوت عطا کی، مجھے یوں لگتا تھا کہ جیسے مجھے کوئی چوٹ ہی نہ لگی ہو اور نہ زخم آیا ہو۔
یہاں پر معجزات کے حوالے سے قارئین کی خدمت میں حضرت اقدس مسیح موعودؑ کا ایک اقتباس پیش ہے جوحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے آنحضورﷺ کے معجزات بیان کرتے ہوئے خطبہ جمعہ فرموہ ۲۰؍ستمبر۲۰۲۴ء میں بیان فرمایا تھا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:’’حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام سالک کے مقام کا ذکر کرتے ہوئے کہ جہاں وہ خدا کا اس قدر قرب حاصل کر لیتا ہے کہ جیسے آگ لوہے کے رنگ کو اپنے نیچے ایسے چھپا لیتی ہے کہ ظاہر نظر میں بجز آگ کے کچھ نظر نہیں آتا اور جس کولقا کا مرتبہ کہا جاتا ہے، اس کا ذکر کرتے ہوئے آپؑ سالک کی اور جن کو لقا ملتا ہے ان کی تعریف بیان کرتے ہیں پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’اس درجہ لقا میں بعض اوقات انسان سے ایسے امور صادر ہوتے ہیں کہ جو بشریت کی طاقتوں سے بڑھے ہوئے معلوم ہوتے ہیں اور الٰہی طاقت کا رنگ اپنے اندر رکھتے ہیں جیسے ہمارے سیّد و مولیٰ سیّد الرسل حضرت خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے جنگ بدر میں ایک سنگریزوں کی مٹھی کفار پر چلائی اور وہ مٹھی کسی دعا کے ذریعہ سے نہیں بلکہ خود اپنی روحانی طاقت سے چلائی مگر اس مٹھی نے خدائی طاقت دکھلائی اور مخالف کی فوج پر ایسا خارق عادت اس کا اثر پڑاکہ کوئی ان میں سے ایسا نہ رہا کہ جس کی آنکھ پر اس کا اثر نہ پہنچا ہو اور وہ سب اندھوں کی طرح ہو گئے اور ایسی سراسیمگی اور پریشانی ان میں پیدا ہو گئی کہ مدہوشوں کی طرح بھاگنا شروع کیا … اور اس قسم کے اور بھی بہت سے معجزات ہیں جو صرف ذاتی اقتدار کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے دکھلائے جن کے ساتھ کوئی دعا نہ تھی۔ کئی دفعہ تھوڑے سے پانی کو جو صرف ایک پیالہ میں تھا اپنی انگلیوں کو اس پانی کے اندر داخل کرنے سے اس قدر زیادہ کر دیا کہ تمام لشکر اور اونٹوں اور گھوڑوں نے وہ پانی پیا اور پھر بھی وہ پانی ویسا ہی اپنی مقدار پر موجود تھا اور کئی دفعہ دو چار روٹیوں پر ہاتھ رکھنے سے ہزارہا بھوکوں پیاسوں کا ان سے شکم سیر کردیا اور بعض اوقات تھوڑے دودھ کو اپنے لبوں سے برکت دے کر ایک جماعت کا پیٹ اس سے بھر دیا اور بعض اوقات شور آب‘‘ یعنی کڑوا نمکین پانی کے ’’کنوئیں میں اپنے منہ کا لعاب ڈال کر اس کو نہایت شیریں کر دیا اور بعض اوقات سخت مجروحوں پر‘‘ یعنی زخمیوں پر ’’اپنا ہاتھ رکھ کر ان کو اچھا کر دیا اور بعض اوقات آنکھوں کو جن کے ڈیلے لڑائی کے کسی صدمہ سے باہر جا پڑے تھے اپنے ہاتھ کی برکت سے پھر درست کر دیا۔ ایسا ہی اور بھی بہت سے کام اپنے ذاتی اقتدار سے کیے جن کے ساتھ ایک چھپی ہوئی طاقت الٰہی مخلوط تھی۔‘‘(آئینہ کمالات اسلام ، روحانی خزائن جلد ۵صفحہ۶۵۔۶۶)‘‘]
ایک شریک مجلس نے عرض کیا کہ کتاب (Invitation to Ahmadiyyat ) میں ایک حوالہ ہے کہ آخری زمانے میں اچانک موتوں کا نشان ظاہر ہوگا، اور اس میں دو وجوہات الکحل کا استعمال اور اضافی کام اور دباؤ کی وجہ سے اعصاب کی کمزوری بیان کی گئی ہیں۔ نیز دریافت کیا کہ اس بارے میں حضور انور کی کیا ہدایت ہے کہ ہم بحیثیت ڈاکٹرز، طبیب اور خدام اپنے اعصاب کو مضبوط بنانے کے لیے کس طرح کام کر سکتے ہیں؟
حضور ِانور نےاس پر الکحل کے حوالے سے ایک نئی ریسرچ کی روشنی میں بیان فرمایا کہ پہلے کہتے تھے کہ الکحل کا ایک گلاس روزانہ پی لیا کرو تو کچھ نہیں ہوتا۔ اب نئی ریسرچ چند ہفتے پہلے ہی آئی تھی اور اس میں لکھا تھا کہ ایک گلاس بھی نہیں پینا چاہیے کہ یہ بھی nerves (اعصاب) پر اثر ڈالتا ہے۔
حضور انور نے واضح فرمایا کہ خود ہی اپنی ریسرچ میںprove (ثابت) کر رہے ہیں کہ weakness of nerves (اعصاب کی کمزوری)تو ہو گئی، تو جس طرح جس طرح آگے بڑھ رہے ہیں، آخر میں ultimately ان کو کہنا پڑے گا کہ یہ چیزیں نقصان دہ ہیں اور اسی کی وجہ سے پھر stress (تناؤ) پیدا ہوتا ہے۔
حضور انور نے آخر پر توجہ دلائی کہ اگر strong nerves (مضبوط اعصاب) ہوں تو ذرا ذرا سی بات پر آدمی stress تو نہیں لیتا، اور جب stress ہوتا ہے تو اس کا پھر آگے دوسرا اَثر یہ ہوتا ہے کہ انسان depression میں چلا جاتا ہے۔تو یہvicious circle ایک (شیطانی چکر) ہے، جو چلتا ہے اور یہ دنیا داروں میں بہت زیادہ چلتا ہے۔ اس لیے تو اللہ تعالیٰ نیک لوگوں کو سٹریس کم کرنے اور دل کے اطمینان کے لیے کہتا ہے کہ اَلَا بِذِکۡرِ اللّٰہِ تَطۡمَئِنُّ الۡقُلُوۡبُ یعنی دل کے اطمینان کے لیےاللہ کا ذکر کرو، اللہ کو یاد رکھو، ان چیزوں سے بچنے کی کوشش کرو تو ٹھیک ہے۔
ایک خاتون شریکِ مجلس نے حضور انور کی خدمت میں عرض کیا کہ آج کل Xenotransplant (زینو ٹرانسپلانٹ) ، جس میں مختلف جانوروں کے اعضا ءانسانوں میں ٹرانسپلانٹ کیے جاتے ہیں، کی پھر ایک لہر آئی ہوئی ہے۔ اس بارے میں حضور انور کے کیا خیالات ہیں؟
حضور انورنے اس پر فرمایا کہ اگر انسانی زندگی بچانے کے لیے کی جاتی ہے تو بڑی اچھی بات ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ سؤر کا دل استعمال نہیں ہو سکتا، لیکن اس سے اگر واقعی کام ہوسکتا ہے، تو استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔اگر اس سے انسانی زندگی بچ سکتی ہے تو زندگی بچانے کے لیے ہر چیز جائز ہے۔ اگر سؤر کا گوشت کھانا جائز ہے تو یہاں جان بچانے کے لیے تو پھر جائز ہو ہی سکتا ہے۔یہاں وہی بات آ جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ایک مثال دے کے ایک گائیڈ لائن (اصولی راہنمائی)دے دی ہے تو پھر اس کے اوپر چلیں۔ شیر کا دل لگا دیا کریں۔
ملاقات کے اختتام پرحضور انور نے الوداعی دعائیہ کلمات ادا کرتے ہوئے فرمایا کہ اچھا! پھر اللہ حافظ ہو۔
٭…٭…٭